آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Saturday 11 November 2017

Maulana Shah Tayyab Usmani ke Azkar e Sufiana - Shah Helal Quadri

 مولانا شاہ طیب عثمانی ندوی کے اذکارصوفیانہ
از: مولانا سید شاہ ہلال احمد قادری  
( پھلواری شریف، پٹنہ،بہار)

مولانا شاہ طیب عثمانی، ایک صوفی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے ۔ ان کا خاندان مشہور چشتی بزرگ حضرت جلال الدین کبیر الاولیاء پانی پتی قدس سرہ کی اولاد میں سے ہے اور وہ حضرت امیر المومنین عثمان غنی رضی الله عنہ کی نسل سے تھے۔

عثمانی خانوادہ اپنے دامن میں ایک طویل علمی، ادبی اور عرفانی تاریخ سمیٹے ہوئے ہے۔ یہ خانواده شروع سے فردوسی سلسلے سے وابستہ رہا ہے اور ان دونوں خانقاہوں سے صوبہ بہار میں مخدوم جہاں شیخ شرف الدین کی منیری قدس سرہ کے سلسلے کی بہت اشاعت ہوئی اور آج بھی یہ خانقاہیں فعال ہیں اور اعتدال پسندصوفيانہ فکر کی حامل ہیں۔

مولانا شاہ طبیب عثمانی اسی خاندان عثمانی کے قابل فخر فرزند تھے۔ ان کے بارے میں یہ خیال عام رہا کہ وہ خاص جماعت اسلامی کے آدمی ہیں اور جماعت اسلامی کے متعلق سب کو معلوم ہے کہ وہ تصوف اور نظام خانقاہی سے بہت مختلف جماعت ہے۔ اس جماعت کے بعض فضلاء کی تصوف پرتنقیدیں راقم کی نظر میں ہیں۔

شاہ طیب عثمانی کی نشوونما اور ان کی فکری ساخت ایک ایسے صوفیانہ ماحول میں ہوئی تھی جہاں نظام خانقاہی اپنے تمام ’’بدعتی لوازم کے ساتھ قائم تھا، یعنی وہاں نیازوفاتحہ ہوتا تھا ، عرس و سماع کی محفلیں  آراستہ ہوتی تھیں، اور بڑے اہتمام کے ساتھ موئے مبارک کی ہر سال زیارت ہوا کرتی ، مریدین ومتوسلین کو اذ کار و وظائف کی تعلیم دی جاتی تھی ، اہل خاندان سلسلہ فردوسیہ سے وابستہ تھے اور سجادہ نشینی کا سلسلہ جاری تھا۔ اس ماحول سے نکل کر شاہ طیب صاحب جس ماحول میں پہنچے وہاں ہی رسوم صوفیانہ، دستور مشخیت اور معمولات خانقاہی ’’ممنوعات شرعیہ میں شمار ہوتے تھے اور ان امور کے بارے میں اس طبقے کی رائے عام اور واضح تھی ۔ شاہ طیب صاحب، خانقاہی مسلک کی رواداری کے مطابق اس ماحول میں بغیر کسی ناخوش گواری کے سکون وانشراح کے ساتھ تعلیم حاصل کرتے رہے اور اعلی تعلیمی صلاحیت لے کر نکلے۔

قابل ذکر یہ ہے کہ مولانا طیب عثمانی کو فکری استقامت حاصل تھی مختلف غیر صوفیانہ ماحول میں رہ کر اور اس سے وابستہ ہوکر بھی ان کے صوفیانہ مزاج میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، جماعت اسلامی سے تادم آخر وابستہ رہنے کے باوجود وہ ایک صوفی بھی رہے۔ یہ ان کے کتاب زندگی کا اہم باب ہے اور ان کی دینی اور فکری عزیمت و استقامت کا ثبوت ہے۔ بچپن میں جوسبق ان کے قلب و ذہن نے اپنے بزرگوں سے سیکھا تھا اور باشعور ہونے کے بعد اپنے خاندانی اور خانقاہی ماحول کے مشاہدے نے جو کچھ ان کو سکھایا تھا، اور اپنے بزرگوں کی اخلاص وللہیت سے بھری زندگی کے جو نقوش ان کے قلب و ذہن پر مرتسم ہوئے تھے وہ اتنے پراثر تھے کہ ماحول کی تبدیلی اور مطالعہ کے تنوع نے اس میں شکوک پیدا کرنے کے بجائے مزید پختگی پیدا کردی، اور ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ یہ اگر شاه طیب صاحب کی سلامت قلبی کی دلیل ہے تو دوسری طرف ان کے بزرگوں کی تربیت کا کمال بھی ہے۔

مولانا طیب عثمانی کو تصوف کے بارے میں جو انشراح قلب حاصل تھا وہ مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کے ساتھ روابط کے باوجود باقی رہا، ان کو خانقاہی معمولات پرکبھی معترض ہوتے یا اپنے بزرگوں کے طریقے پر شک و شبہ کرتے ہوئے میں نے نہیں سنا، وہ اتنی سنجیدہ طبیعت کے آدمی تھے کہ کبھی مسائل مختلفہ پر گفتگونہیں کرتے تھے اور نہ انہوں نے اپنی تحریروں میں ایسی کوئی بات لکھی ہے جس سے سمجھا جائے کہ تصوف کے کسی گوشے پران کو اعتراض تھا۔ ایکمرتبہ ان کے جماعتی دوستوں نے کسی خانقاہی رسم یا عرس پر اعتراض کیا توانہوں نے یہ جواب دیا کہ یہ توخانقاہی معمولات ہیں جس طرح جماعت کے ہفت وار اور ماہانہ پروگرام ہوتے ہیں یہ بات انہوں نے خود مجھ سے فرمائی تھی۔

مولانا طیب عثمانی مزاجاً صوفی تھے اور تصوف پر ان کے مضامین بھی ہیں ۔ انہوں نے تصوف کو پہلے پڑھا نہیں تھا بلکہ بدوشعور سے تصوف کی عملی تصویریں دیکھی تھیں، تصوف کا سب سے جامع اور عملی نمونہ انہوں نے اپنے والد گرامی حضرت مولانا شاہ قاسم عثمانی فردوسی رحمہ الله کی ذات میں پایا، اور یہ مشاہدہ ، تصوف کے متعلق انشراح باطن اور اطمینان قلب کا باعث ہوا۔ ان کے والد ماجد جو ان کے مرشد ومربی روحانی بھی تھے ،علمی وعرفانی خوبیوں سے مزین ایک صاحب نسبت بزرگ تھے ۔ انہوں نے اپنے عہد کی ایک عظیم المرتبت شخصیت زبدة العارفین قدوة الصالحین مولانا سید شاہ بدرالدین قادری پھلواروی قدس سرہ زیب سجادہ خانقاہ مجیبیہ کی صحبت اٹھائی تھی ، خاندان کی میراث عرفانی و روحانی ان کو حاصل تھی ، خانقاہ مجیبی کے قطب الارشادکی توجہ نے ان کی باطنی صلاحیتوں کو جلا بخشی ۔ مولانا طیب صاحب اپنے والد ومرشد کو تصوف کا عملی نمونہ سمجھتے تھے۔ بعد میں انہوں نے تصوف کا مطالعہ کیا ہوگا ، وہ مطالعہ ان کے علم میں اضافے کا سبب ہوا اور اپنے مشاہدات کی ان کو سندبھی مل گئی۔

انہوں نے اپنے والد کی سوانح ’’حیات دوام“ میں تصوف پر گفتگو کی ہے، اس وقت تصوف پر ان کا ایک مضمون ”تصوف کی حقیقت ۔ مکتوبات و ملفوظات مخدوم جہاں کے تناظر میں بھی میرے سامنے ہے ان تحریروں سے تصوف پر ان کے افکار و خیالات معلوم ہوتے ہیں ۔ حیات دوام میں وہ تصوف و سلوک کی حقیقت کے عنوان سے لکھتے ہیں: ۔
 ’’آج کے دور میں تصوف و احسان اور سلوک کا موضوع بڑا نازک بن گیا ہے، اس کی نت نئی تعبیریں ہیں جومختلف حضرات مختلف الفاظ ، نقطہ نظر اور اپنے انداز سے کرتے ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں ابتدا سے ایک گروہ ایساموجود ہے جس نے تمام مقاصد دنیوی سے قطع نظر کر کے اپنا نصب العین محض یاد خدا اور ذکر الٰہی کو رکھا اور صدق وصفا، سلوک واحسان کے خلاف طریقوں پر عامل رہا، یہی گروہ رفتہ رفتہ گروہ صوفیہ کہلایا، اور اس کے مسلک کا نام ’’مسلک تصوف“ پڑ گیا۔یہ قدیم اکابر صوفیہ شریعت پر عامل باعمل مسلمان تھے پھر صوفی تھے۔ اور اپنے اپنے تصوف کو اسلام کے مقابل ایک جداگانہ حیثیت سے نہیں لاتے تھے بلکہ اسلام کے ماتحت اسی کی پاکیز ہ صورت کو کہتے تھے۔ تصوف ان کی نظر میں اسلام کی خالص ترین اور پاکیزه ترین تعبیرتھی۔“
(حیات دوام:۴۰)

 تصوف کے موضوع پراہل  نظر قلم اٹھاتے ہیں تو اپنے زمانے کے اہل تصوف کے بعض تسامحات کونظر انداز نہیں کرتے ، ان خامیوں کا ذکر کرنا وہ اپنی دیانت داری سمجھتے ہیں مولانا طیب عثمانی نے بھی تصوف پرتنقیدی نظر ڈالتے ہوئے جو رائے پیش کی ہے وہ ہرسلیم الطبع کے لئے قابل قبول ہے، وہ لکھتے ہیں:
’’موجودہ دور میں تصوف کی مسخ شدہ شکل جو عام طور پر نظر آتی ہے وہ اسلامی اور غیر اسلامی عناصر کا معجون مرکب بن گئی ہے جس کے اسلامی اجزاء غیر اسلای افکار ونظریات کے دھندلکوں میں چھپ کر رہ گئے ہیں، سچ تو یہ ہے کہ اسلامی تصوف تو وہ ہے جو حضرت سرور کائناتﷺ کا تھا، جو حضرت صدیق و علی مرتضی کا تھا، جو حضرت سلمان فارسی اور حضرت ابوذر غفاری کا تھا اور جس کی تعلیم حضرت جنید بغدادی، شیخ عبدالقادر جیلانی ، شیخ شہاب الدین سہروردی ، خواجہ معین الدین چشتی، محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیا اور حضرت مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیری  نے دی۔ صحابہ کرام تابعین اور تبع تابعین کی طرح صلحاء اور اخیارامت کی زندگی بھی ہمارے لئے اسوہ اورنمونہ ہے۔ ان اہل دل بزرگوں کے حالات کو جاننا اور ان کی حقیقی اسلامی تعلیمات کی واقفیت بہم پہنچانا، ہماری سعادت ہے۔“(ص:۴۱)

شاه طيب عثمانی نے اپنے والد گرامی محبوب الاولیا شاہ قاسم فردوسیؒ کے حوالے سے حیات دوام میں تصوف سے متعلق جو باتیں لکھی ہیں وہ سب، وہ افکار ہیں جن کو شاہ طیب عثمانی کے قلب روشن نے پورے انشراح کے ساتھ قبول کیا ہے۔ حیات دوام کے مندرجات سے ان  کے صوفيانہ نظریات کھل کر واضح ہو جاتے ہیں ، مثلاً صوفیا کی جو اصطلاحات ہیں فنا، بقا، ذکر،شغل اور مراقبہ وغیرہ ان کے صحیح و برحق ہونے میں ان کو کوئی شبہ نہیں تھا۔ اپنے والد کے متعلق وہ لکھتے ہیں:
’’سلوک و احسان آپ کی زندگی کا حال بن چکا تھا، آپ نے اپنے خطوط میں تصوف و احسان کی حقیقت پر بڑی وضاحت سے روشنی ڈالی ہے، چنانچہ آپ کا ارشاد ہے: تصوف سراپا عمل ہے ،تصوف ، اتباع نبوی کا نام ہے۔ پھر فرماتے ہیں: تصوف میں منازل و مقامات اور فنا و بقا کی اصطلاحات نظری نہیں بلکہ عملی ہے۔ اسی طرح ذکر، شغل ومراقب بھی صرف ذہنی چیز نہیں ہیں بلکہ سراپا عمل ہے۔“ (ص:۴۲)

تصوف کے مخالف تصوف کے خلاف بہت کچھ کہتے اور لکھتے رہتے ہیں، اس کا جواب اپنے والد گرامی کے حوالے سے دیتے ہیں:
’’تصوف کیا ہے؟ عموماً لوگ اسے ہندوانہ جوگ یا نصرانی رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں ۔ آپ فرماتے ہیں : تصوف نہ ہندوانہ جوگ ہے اور نہ نصرانی رہبانیت تصوف ما سوا اللہ سے دلی تعلق کو قطع کر کے خدا کی طرف یکسوکر دینے کی تعلیم دیتا ہے۔ تصوف مادی نعمتوں کا ترک کرنا نہیں سکھاتا بلکہ ان کا صحیح  استعمال بتاتا ہے۔ حقیقت میں اسلامی تصوف محمد رسول اللہ ﷺ کی صوری و معنوی پیروی کا نام ہے۔“(م:۴۳)

تصوف کے مختلف مباحث جن کو اس زمانے میں معترضین گمرہی سے تعبیر کرتے مثلاً وحدة الوجود اور وحدة الشهود وغیرہ ۔ مولانا طیب عثمانی اپنے والد کے حوالے سے ان افکار صوفیانہ کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں:
’’یوں تو آپ نے زندگی کے ہر شعبے میں اپنے تجدیدی فکر وعمل کے نقوش ثبت کئے ہیں جن پر آئندہ صفحات میں مختلف موضوعات و عنوانات کے تحت روشنی ڈالوں گا لیکن تصوف و احسان آپ کا عملی اور حقیقی مسلک ومشرب رہا ہے ۔ اسلامی تصوف کی روح ، توحید خالص، وحدة الوجود اور وحدة الشهود  جیسے خالص فلسفیانہ اور نظری مسئلوں کی حقیقت کو آپ نے بڑی وضاحت سے پیش کیا ہے اور جس سے عملی زندگی میں ہماری رہنمائی ہوتی ہے، تصوف میں شریعت وطریقت اور حقیقت کی حقیقی تعبیر اس طرح بیان فرمائی: جس طرح اصطلاح تصوف میں جوارح و حواس سے متعلق احکامات کو شریعت کہتے ہیں اور دل سے متعلق احکامات کوطریقت سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی طرح کتاب وسنت میں جو احکامات روح کی پاکی اور صفائی سے تعلق رکھتے ہیں ان کو اصطلاح تصوف میں حقیقت کہتے ہیں ۔ وحدت الوجود اور وحدت الشہود جو خالص نظری مسئلہ ہے، آپ نے اس کو سہل ممتنع بنادیا ہے جس سے حقیقت تک رسائی آسان ہو جاتی ہے چنانچہ اس مسئلے پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں: موجودات کے اندر صفات وجود کو دیکھنا’’ از اوست“ ہے اور صفات وجود کے اندر وجود دیکھنا  ’’ہمہ اوست“ ہے۔” از اوست“۔ وحدت شہود ہے۔ اور ہمہ اوست وحدت الوجود از اوست“ سیرفی الصفات .” ہمہ اوست“ سیرفی الذات ہے۔“(ص:۴۹)

ایک قدیم نظر یہ ہے کہ خطائے بزرگان گرفتن خطا است یعنی بزرگوں کی  کسی فکری، انسانی اور قلمی غلطیوں کی گرفت کرنا اور اس پر معترض ہونا خودا یک خطا ہے۔ اگرچہ اس محاورے کا یہ مفہوم بھی بیان کیا جاتا ہے کہ بزرگوں کی خطا کو درست سمجھ کر اس کو اختیار کر لینا بھی خطا ہے۔ لیکن یہ محض  ایک لفظی ہیر پھیر ہے یہ مفہوم وہی ہے جو پہلے بیان کیا گیا۔ مولانا طیب عثمانی اپنے وسیع مطالعے اور مختلف الخيال لوگوں کے درمیان رہ کر بھی اس محاورے کے عملاً قائل رہے اور کسی اختلافی مسئلے میں اپنے بزرگوں سے اختلاف تو کجا علمی نقطہ نظر سے بھی معترض نہیں ہوئے ۔ وحدة الوجود کے مسئلے پر معترضین کی تحریریں اتنی سخت ہیں کہ تصوف کا بھی مطالعہ رکھنے والے ان کو پڑھ کر جنید و بایزید سے لے کر اس عہد تک کے تمام صوفیوں کو گمراہ تصور کرنے لگتے ہیں ، مولانا طیب صاحب نے یقیناً ان تحریروں کا مطالعہ کیا ہوگا لیکن ان کی سلامت فکرنے ان کو اپنے بزرگوں سے برگشتہ نہیں کیا اور اپنے بزرگوں کی تاویلات وتشریحات کو  بلا کسی تردد کے تسلیم کرلیا۔ یہ سب باتیں شاہ طیب صاحب کے صوفیانہ افکار و مزاج کو واضح کرتی ہیں ۔ حضرت مخدوم جہاںؒ کے ملفوظات ومکتوبات کی روشنی میں تصوف پران کا ایک مختصر مضمون ہے، اس میں وہ حضرت مخدوم قدس سرہ کے متعلق لکھتے ہیں:
’’برعظیم ہند میں اولیاء الله اور اکابر صوفیاء کا ایک سلسلة الذهب نظر آتا ہے ، جن کی تعلیمات ، ریاضات ومجاہدات اور دعوت وعزیمت کے نقوش اس سر زمین میں ابھرے ہوئے نظر آتے ہیں اور جن کے قدموں کے نشانات سے یہاں کا چپہ چپہ روشن ہے۔ اس میں آٹھویں صدی ہجری کی ایک عظیم اور نادر شخصیت حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین یحیٰ منیریؒ کی ذات والا صفات بھی ہے۔ جن کا بچپن اور شباب ، مروجہ علوم کے حصول اور علوم دینیہ کی تکمیل میں گزرا۔ پھر روحانی علوم کی تکمیل اور تلاش شیخ میں آپ دہلی پہنچے، وہاں حضرت شیخ نجیب الدین فردوسی کے در دولت پر حاضر ہوئے۔ شیخ کی ایک نگاہ نے سلوک کے وہ ساری منازل طے کرادیں جن کی آپ کو ضرورت تھی اور جن کے لئے آپ کا قلب پہلے سے تیار تھا ، ضرورت صرف ایک آنچ کی تھی ، جو ایک نگاہ شیخ سے پوری ہوئی۔ پھر بیعت اور داخل سلسلہ کے بعد اجازت دے کر حضرت خواجہ شیخ نجیب الدین فردوسی نے رخصت فرمایا۔ وطن واپسیمیں جب بہیا کے جنگل سے گزرے تو مناظر قدرت سے ایسے سرشار ہوئے کہ ضبط کایارا نہ رہا، گریباں چاک کر کے جنگل کی راہ لی اور روپوش ہوگئے ، جنگل میں بارہ برس کا عرصہ ریاضت و مجاہدہ ، خلوت ومراقبہ عشق الہی کی حرارت اور بے خودی وسرمستی میں گزرا، جب ذرا سکون ہوا تو روحانیت کی تکمیل کے بعد خلق خدا کی ہدایت کی طرف متوجہ ہوئے، جو اصل مقصود تھا۔ اس عظیم و اصل مقصد کے لئے بہارشریف تشریف فرما ہوئے اور تقریباً نصف صدی سے زیادہ کا زمانہ خلق خدا کی رشد و ہدایت اور طالبین حق کی تعلیم وتربیت میں گزرا۔ اس عرصے میں لاکھوں انسانوں کے دلوں کو بدلا سینکڑوں علماء اور عارفین واصل بحق ہوئے اور جانے کتنے ہندو فقیروں اور جوگیوں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ غیرمسلموں میں اسلام کی دعوت اور پیغام ہی ان کا اصل مشن تھا۔
(اسلامی معاشرہ صفحہ:۷) 

شاه طیب عثمانی کی یہ تحریر ان کے تصوف سے گہری دلچسپی اور اولیاء اللہ سے غیر معمولی عقیدت مندی کی دلیل ہے ۔ اکابر اولیاء اللہ کا تذکرہ جس احترام کا متقاضی ہے شاہ طیب صاحب کی تحریر میں وہ جذبۂ احترام بھی موجود ہے۔

مولانا شاہ طیب عثمانی فردوسی رحمه الله ، مشائخ کے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ درویش صفت تھے، اپنی تحریر کی روشنی میں فکر و عمل میں صوفی تھے لیکن یہ بات ان کے لباس ومعاشرت سے نہیں جھلکتی تھی ، یہ بھی ان کے عالی ظرف ہونے کی دلیل تھی ۔ اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ کرے۔ آمین!

 (مولانا شاہ طیب  عثمانی کی سوانح ''شیرازۂ حیات" سے شکریہ کے ساتھ) 



0 comments:

Post a Comment

خوش خبری