آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Sunday 19 August 2018

Aks e Dil --- عکسِ دل


متفرق اشعار

الف
نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے
اقبالؒ
کانٹے تو خیر کانٹے ہیں ان سے گلہ ہے کیا
پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا
ساغر صدیقی
ہم فقیروں سے بے ادائی کیا
آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا
میر تقی میر
سخت کافر تھا جس نے پہلے میر
مذہبِِ عشق اختیار کیا
میر تقی میر
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار ِیار ہو گا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا
اقبالؒ
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہونگے کوئی ہم سا ہو گا
(ناصرکاظمی)
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
 میر تقی میر
تدبیر میرے عشق کی کیا فائدہ طبیب
اب جان ہی کے ساتھ یہ آزار جائے گا
میر تقی میر
ٹوٹا کعبہ کون سی جائے غم ہے شیخ
کچھ قصر دل نہیں کہ بنایا نہ جائے گا
قائم چاند پوری
ساغر وہ کہہ رہے تھے کی پی لیجئے حضور
ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا!
ساغر صدیقی
ہشیار یار جانی، یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یہاں ٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
نظیر اکبر آبادی
زاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں
کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایمان بہہ گیا
ذوق
آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں
ساغر صدیقی
نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے
اقبالؒ
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار ِیار ہو گا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا
اقبالؒ
ابھی بہت دل میں ہیں امیدیں تڑپ کے حسرت سے مر نہ جائے
ملو اگر شاد سے عزیزو! توذکر کرنا نہ آرزو کا!
شاد
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
اکبر الہ آبادیؒ
آئے بھی لوگ، بیٹھے بھی، اٹھ بھی کھڑے ہوئے
میں جا ہی ڈھونڈھتا تیری محفل میں رہ گیا
آتش
دی مؤذن نے شب وصل اذاں پچھلی رات
ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا
داغ دہلوی
یہ مے چھلک کے بھی اُس حُسن کو پہنچ نہ سکی
یہ پھول کھِل کے بھی تیرا شباب ہو نہ سکا
اختر شیرانی
تمہیں چاہوں، تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں
مرا دل پھیر دو، مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا
مضطر خیر آبادی
دیکھ کر ہر درو دیوار کو حیراں ہونا
وہ میرا پہلے پہل داخل زنداں ہونا
عزیز لکھنوی
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا
غالب
اذاں دی کعبے میں، ناقوس دیر میں پھونکا
کہاں کہاں ترا عاشق تجھے پکار آیا
محمد رضا برق
اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن
بھولتا ہی نہیں عالم تیری انگڑائ کا
عزیز لکھنوی
الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
مومن خان مومن
مرے لہو میں رواداریوں کی خوشبو ہے
میں ترک اپنی شرافت کبھی نہیں کرتا
رحمت رسول رحمتؔ لکھنؤی
اقبال بڑا اپدیشک ہے ، من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا
اقبالؒ
ت
ہم نہ کہتے تھے کہ حالی چپ رہو
راست گوئی میں ہے رسوائی بہت
حالی
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
(علامہ اقبال)
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
(اقبال)
د
قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
مولانا محمد علی جوہر
میرے سنگ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے، یا استاد
میر تقی میر

ر
اسی لئے تو قتل عاشقاں سے منع کرتے ہیں
اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کاررواں ہو کر
خواجہ وزیر

دیارِعشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
علامہ اقبالؒ
وہ جلد آئیں گے یا دیر میں خدا جانے
میں گل بچھاؤں کہ کلیاں بچھاؤں بستر پر
جاوید لکھنوی
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
علامہ اقبال
اگرچہ ہم جا رہے ہیں محفل سے نالہ ء دل فگار بن کر
مگر یقیں ہے کہ لوٹ آئیں گے نغمہ ء نو بہار بن کر
ساغر صدیقی
یہ کیا قیامت ہے باغبانوں کے جن کی خاطر بہار آئی
وہی شگوفے کھٹک رہے ہیں تمھاری آنکھوں میں خار بن کر
ساغر صدیقی
پھول کی پتیّ سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک ہ بے اثر
اقبال


س
بہت کچھ ہے کرو میر بس
کہ اللہ بس اور باقی ہوس

( میر تقی میر)
ل
آ عندلیب مل کر کریں آہ وزاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلاوں ہائے دل
اقبال


ں
نہ آئے نزع میں اب کیوں لحد پہ روتے ہیں
یہ کیسی چھیڑ نکالی ہے کہہ دو سوتے ہیں
شاد عظیم آبادی
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
غالب
داور حشر میرا نامہ ء اعمال نہ دیکھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
محمد دین تاثیر
مے پئیں کیا کہ کچھ فضا ہی نہیں
ساقیا باغ میں گھٹا ہی نہیں
امیر مینائی
اب یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی
یاروں نے کتنی دور بسائ ہیں بستیاں
فراق گورکھپوری
داور حشر میرا نامہ ء اعمال نہ دیکھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
محمد دین تاثیر
اب یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی
یاروں نے کتنی دور بسائ ہیں بستیاں
فراق گورکھپوری
خلاف شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں
مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں
اکبر الہ آبادی
سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں
داغ دہلوی
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانےکس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
ساغر صدیقی
سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں
رحمت رسول رحمتؔ لکھنؤی
آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں
ساغر صدیقی
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں
مرزا غالب
دام و در اپنے پاس کہاں
چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں
غالب
گرہ سے کچھ نہیں جاتا، پی بھی لے زاہد
ملے جو مفت تو قاضی کو بھی حرام نہیں
امیر مینائی
دنیا میں ہوں، دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں، خریدار نہیں ہوں
اکبر الہ آبادی
ک
 آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک
مرزاغالب

و
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
کلیم عاجز
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
کلیم عاجز
حیات لے کے چلو، کائینات لے کے چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو
مخدوم محی الدین
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
میاں داد خان سیاح
رندِخراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
ابراہیم ذوق
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
میاں داد خان سیاح
لگا رہا ہوں مضامین نو کے انبار
خبر کرو میرے خرمن کے خوشہ چینوں کو
میر انیس

ہ
خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ
خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ
حضرت علامہ اقبالؒ

محشر کا خیر کچھ بھی نتیجہ ہو اے عدم
کچھ گفتگو تو کھل کے کرینگے خدا کے ساتھ
عبدالحمید عدم

دینا وہ اُس کا ساغرِ مئے یاد ہے نظام
منہ پھیر کر اُدھر کو اِدھر کو بڑھا کے ہاتھ
نظام رام پوری
چل پرے ہٹ مجھے نہ دکھلا مُنہ
اے شبِ ہجر تیرا کالا مُنہ

بات پوری بھی مُنہ سے نکلی نہیں
آپ نے گالیوں پہ کھولا مُنہ
مومن خان مومن
ی
ہزار شیخ نے داڑھی بڑھائی سن کی سی
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
اکبر الہ آبادی
کعبے کس منہ سے جا وگے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
مرزا غالب
لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
علامہ اقبال

ابھی بے تاج مت ہمکو سمجھنا
ابھی اُردو وراثت ہے ہماری
مستؔ حفیظ رحمانی
بھانپ ہی لیں گے اشارہ سر محفل جو کیا
تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہی
دن کٹا، جس طرح کٹا لیکن
رات کٹتی نظر نہیں آتی
سید محمد اثر
نئی تہذیب سے ساقی نے ایسی گرمجوشی کی
کہ آخر مسلموں میں روح پھونکی بادہ نوشی کی
اکبر الہ آبادی
راہ میں ان سے ملاقات ہوئی
جس سے ڈرتے تھے، وہی بات ہوئی
مصطفی ندیم
گو واں نہیں ، پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں
کعبے سے ان بتوں کو نسبت ہے دور کی
غالب

جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
غالب
گو واں نہیں ، پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں
کعبے سے ان بتوں کو نسبت ہے دور کی
غالب

جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
غالب
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئ
اب تو آجا اب تو خلوت ہو گئ
عزیز الحسن مجذوب
یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
اقبال
وہ آئے بزم میں اتنا تو برق نے دیکھا
پھر اسکے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
مہاراج بہادر برق
اک ادا مستانہ سر سے پاؤں تک چھائی ہوئی
اُف تری کافر جوانی جوش پر آئی ہوئی
داغ
صد سالہ دور چرخ تھا ساغر کا ایک دور
نکلے جو مے کدے سے تو دنیا بدل گئی
گستاخ رام پوری

ے
پھرتے تھے دشت دشت دوانے کدھر گئے
وہ عاشقی کے ہائے زمانے کدھر گئے؟؟
شاد

میں تو اس سادگیٔ حسن پہ صدقے اس کے
نہ جفا آتی ہے جس کو نہ وفا آتی ہے
جگر مراد آبادی

ان کے بھولے پن کے صدقے جائیے
کہتے ہیں'مجھ سے تمہیں کیا کام ہے'

نامعلوم

بظاہر سادگی سے مسکرا کر دیکھنے والو
کوئی کمبخت نا واقف اگر دیوانہ ہو جائے
حفیظ جالندھری

اُس فتنۂ شباب کا عالم نہ پوچھیے
اک حشر اٹھ رہا ہے تماشہ لئے ہوئے
حفیظ جالندھری

شباب میکش، خیال میکش، جمال میکش، نگاہ میکش
خبر وہ رکھیں گے کیا کسی کی انہیں خود اپنی خبر نہیں ہے
جگر مراد آبادی


کہہ تو دیا، اُلفت میں ہم جان کے دھوکا کھائیں گے
حضرتِ ناصح!خیر تو ہے، آپ مجھے سمجھائیں گے؟
ماہر القادری
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
میرتقی میر
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
امیر مینائی

چل ساتھ کہ حسرت دلِ محروم سے نکلے
عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
فدوی عظیم آبادی

مداعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
آتش

فصل بہار آئی، پیو صوفیو شراب
بس ہو چکی نماز، مصلّا اٹھائیے
آتش

مری نمازجنازہ پڑھی ہے غیروں نے
مرے تھےجن کے لئے، وہ رہے وضو کرتے
آتش

امید وصل نے دھوکے دئیے ہیں اس قدر حسرت
کہ اس کافر کی ‘ہاں’ بھی اب ‘نہیں’ معلوم ہوتی ہے
چراغ حسن حسرت

چتونوں سے ملتا ہے کچھ سراغ باطن کا
چال سے تو کافر پہ سادگی برستی ہے
یگانہ چنگیزی

یہی فرماتے رہے تیغ سے پھیلا اسلام
یہ نہ ارشاد ہوا توپ سے کیا پھیلا ہے
اکبر الہ آبادیؒ

توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جائیے
بندہ پرور جائیے، اچھا ، خفا ہو جائیے
حسرت موہانی

دیکھ آءو مریض فرقت کو
رسم دنیا بھی ہے، ثواب بھی ہے
حسن بریلوی


حضرتِ ڈارون حقیقت سے نہایت دور تھے
ہم نہ مانیں گے کہ آباء آپ کے لنگور تھے
اکبر الہ آبادی

دیکھا کئے وہ مست نگاہوں سے بار بار
جب تک شراب آئے کئی دور ہو گئے
شاد عظیم آبادی

فسانے اپنی محبت کے سچ ہیں، پر کچھ کچھ
بڑھا بھی دیتے ہیں ہم زیب داستاں کے لئے
شیفتہ

زرا سی بات تھی اندیشہِ عجم نے جسے
بڑھا دیا ہے فقط زیبِ داستاں کے لیے
علامہ اقبالؒ

وہ شیفتہ کہ دھوم ہے حضرت کے زہد کی
میں کیا کہوں کہ رات مجھے کس کے گھر ملے
شیفتہ
ہر چند سیر کی ہے بہت تم نے شیفتہ
پر مے کدے میں بھی کبھی تشریف لائیے
شیفتہ

شب ہجر میں کیا ہجوم بلا ہے
زباں تھک گئ مرحبا کہتے کہتے
مومن خان مومن
کوچہ ٔ عشق کی راہیں کوئی ہم سے پوچھے
خضر کیا جانیں غریب، اگلے زمانے والے
وزیر علی صبا

غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے
غالب
فکر معاش، عشق بتاں، یاد رفتگاں
اس زندگی میں اب کوئی کیا کیا کیا کرے
سودا
بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو
جو تیرے آستاں سے اٹھتا ہے
میر تقی میر

نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے
اقبالؒ
فکر معاش، عشق بتاں، یاد رفتگاں
اس زندگی میں اب کوئی کیا کیا کیا کرے
سودا
یہ بزم مئے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں وہ جام اسی کا ہے
(شاد عظیم آبادی)

اگر بخشے زہے قسمت نہ بخشے تو شکایت کیا
سر تسلیمِ خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے
میرتقی میر

شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہئیے
 میر تقی میر
نیرنگئ سیاست دوراں تو دیکھئے
منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
 محسن بھوپالی
فضا کیسی بھی ہو وہ رنگ اپنا گھول لیتا ہے
سلیقے سے زمانے میں جو اردو بول لیتا ہے
سلیمؔ صدیقی
کسی کسی کو خدا یہ کمال دیتا ہے
جو اپنے غم کو ہوا میں اچھال دیتا ہے
سلیم اخترؔ
ہمارے منہ پہ وہ کہتے ہیں بے وقوف ہمیں
جنہیں شعور کی خیرات بانٹ دی ہم نے
عمرؔ فاروقی
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانےکس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
ساغر صدیقی
اُن کے آتے ہی میں نے دل کا قصہ چھیڑ دیا
اُلفت کے آداب مجھے آتے آتے آئیں گے
ماہر القادری
پڑے بھنکتے ہیں لاکھوں دانا، کروڑوں پنڈت، ہزاروں سیانے
جو خوب دیکھا تو یار آخر، خدا کی باتیں خدا ہی جانے
نظیر اکبر آبادی
شباب میکش، خیال میکش، جمال میکش، نگاہ میکش
خبر وہ رکھیں گے کیا کسی کی انہیں خود اپنی خبر نہیں ہے
جگر مراد آبادی
عجیب لوگ ہیں کیا خوب منصفی کی ہے
ہمارے قتل کو کہتے ہیں، خودکشی کی ہے
حفیظ میرٹھی
اُن کے آتے ہی میں نے دل کا قصہ چھیڑ دیا
اُلفت کے آداب مجھے آتے آتے آئیں گے
ماہر القادری
فضا کیسی بھی ہو وہ رنگ اپنا گھول لیتا ہے
سلیقے سے زمانے میں جو اردو بول لیتا ہے
سلیمؔ صدیقی
کسی کسی کو خدا یہ کمال دیتا ہے
جو اپنے غم کو ہوا میں اچھال دیتا ہے
سلیم اخترؔ
ہمارے منہ پہ وہ کہتے ہیں بے وقوف ہمیں
جنہیں شعور کی خیرات بانٹ دی ہم نے
عمرؔ فاروقی
مجھے رحم آتا ہے دیکھ کر ترا حال اکبرِ نوحہ گر
تجھے وہ بھی چاہے خدا کرے کہ تو جس کا عاشق زار ہے
اکبر الہ آبادی
کہوں کس سے قصۂ درد و غم، کوئی ہمنشیں ہے نہ یار ہے
جو انیس ہے تری یاد ہے، جو شفیق ہے دلِ زار ہے
اکبر الہ آبادی

0 comments:

Post a Comment

خوش خبری