آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Wednesday 14 August 2019

NAI ROSHNI--NCERT SOLUTION CLASS X URDU

نئی روشنی

اسکول میں کھانے کا وقفہ تھا۔ کچھ طلبا کھانا لے کر باہر پیڑ کے نیچے جا بیٹھے تھے۔ کچھ اپنی کلاس میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ سبھی حیرت میں تھے۔ روز کی طرح درجہ میں شور بھی نہیں تھا۔ اسلم اور جاوید کی بات چیت صاف سنائی دے رہی تھی۔
اسلم : ماسٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ کل سے ہماری کلاس میں ایک ایسا لڑکا پڑھنے آئے گا جو نابینا ہے۔ اسے آج ہی داخلہ ملا ہے۔
جاوید : (حیرت سے) میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ وہ پڑھے گا کیسے؟


(وقفہ ختم ہونے کی گھنٹی بجتی ہے)
 اسلم : ماسٹر صاحب آتے ہی ہوں گے۔ انہیں سے پوچھیں گے۔

:
(ماسٹر صاحب کلاس میں داخل ہوتے ہیں ۔ سبھی طلبا ان کے احترام میں کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ اسلام اور جاوید سوال کرتے ہیں۔)
اسلم و جاوید : (ایک ساتھ ) ماسٹر صاحب معلوم ہوا ہے کہ ایک ایسے لڑکے کو ہماری کلاس میں داخلہ ملا ہے۔ جو دیکھ نہیں سکتا پھروہ پڑھے گا کیسے؟
ماسٹر صاحب :  تم لوگوں نے ٹھیک سُنا ہے۔ محمود کل سے تمھاری کلاس میں آئے گا اور تمھارے ساتھ ہی پڑھے گا ۔ تم سب اتنےحیران ہو کر میری طرف کیوں دیکھ رہے ہو؟ محمود بالکل تم جیسا ہی ہے۔ بس وہ دیکھ نہیں سکتا۔ جانتے ہو وہ گذشتہ سال اپنی کلاس میں اول آیا تھا۔
اسلم : ماسٹر صاحب ! جب محمود کو دکھائی ہی نہیں دیتا تو وہ پڑھتا کس طرح ہے؟
ماسٹر صاحب : محمود اور اس جیسے بچّے ایک خاص تحریر کے ذریعے پڑھتے ہیں۔ اسے ’بریل‘ کہتے ہیں ۔ 
جاوید : لیکن ماسٹر صاحب! آنکھوں کے بغیر تحریر کیوں کر پڑھی جاسکتی ہے؟
ماسٹر صاحب :  ایک خاص آلے سے موٹے کاغذ پرحروف کو ابھارا جاتا ہے جنہیں تھوڑی تربیت کے بعد انگلی سے چھو کر پڑھ سکتے ہیں۔ بریل میں چھ نقطے ہوتے ہیں، جن کو کئی طرح سے ملا کرحروف ابھارے جاتے ہیں۔ دنیا کی کوئی بھی زبان اس تحریر میں لکھی اور پڑھی جاسکتی ہے۔ آج اسی کی مدد سے اس طرح کے بچّے اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
زاہده : یہ تحریر کس نے ایجاد کی ہے؟
ماسٹر صاحب : اس کی ایجاد کرنے والے فرانس کے ’لوئی بریل‘ تھے۔ وہ پیرس کے نزدیک ’کوپ بِرے‘ نام کے قصبے میں جنوری 1809 میں پیدا ہوئے تھے۔ دو سال کی عمر میں ایک نوکیلا اوزار لگ جانے سے لوئی کی آنکھوں کی روشنی جاتی رہی مگر لوئی نے ہار نہیں مانی اور کسی نہ کسی طرح تعلیم حاصل کرنے میں لگے رہے۔ اپنی بیس سال کی محنت اور لگن سے انھوں نے اس تحریر کو ایجاد کیا جسے انھیں کے نام پر ’بریل‘ تحریر کہا جاتا ہے۔ بچو! اس تحریر کو ایجاد کر کے لوئی نے نابینا لوگوں کے لیے تعلیم کا راستہ کھول دیا اور ان کی تاریک زندگی میں روشنی کی کرن بکھیر دی۔
اسلم : ماسٹر صاحب! کیا آپ کو بریل تحریر آتی ہے؟ آپ محمود کو کیسے پڑھائیں گے؟ آپ اس کے ہوم ورک کی جانچ کس طرح کریں گے اور پھر امتحان کی کاپی کیسے جانچی جائے گی؟
جاوید : اور پھر وہ ایک کلاس سے دوسری کلاس میں کیسے جائے گا؟
ماسٹر صاحب : محمود بہت محنتی طالب علم ہے۔ ویسے تو اپنا ہوم ورک کسی سے لکھوا کر بھی مجھے دکھا سکتا ہے مگر وہ دوسروں کا سہارا لینا پسند نہیں کرتا۔ وہ آج کل بڑی لگن سے ٹائپ سیکھنے میں لگا ہوا ہے تا کہ وہ ہماری تحریر میں ہی ہوم ورک کر سکے اور امتحان دے سکے۔ رہی آنے جانے کی بات تو ایک بار تم لوگ اسے کلاسوں اور لائبریری وغیرہ کے راستے کو بتا دو گے تو پھر وہ اپنی سفید چھڑی کی مدد سے خود ہی راستہ ڈھونڈ لے گا۔
 زاہده : سفید چھڑی ہی کیوں؟
ماسٹر صاحب : سفید چھڑی نابینا لوگوں کی پہچان ہے۔ اس چھڑی کو دیکھ کر لوگ انھیں راستہ دے دیتے ہیں اور ضرورت ہونے پر انہیں ان کی منزل تک پہنچا دیتے ہیں۔
اسلم : کیا محمود اپنی روزی خود کما سکے گا؟
ماسٹر صاحب : محمود اور اس جیسے دوسرے بچّے ہماری ہی طرح تعلیم حاصل کر کے اپنی روزی خود کماتے ہیں۔ وہ کارخانوں میں بڑی مہارت سے مشینوں پر کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ استاد، وکیل، اخبار نویس اور موسیقار وغیرہ بن سکتے ہیں۔ آج کل ایسے کئی لوگ اعلیٰ عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔ وہ سماج کے لیے مفید بن سکتے ہیں۔ آج وہ سماج پر کوئی بوجھ نہیں ہیں ۔ یہ ضروری ہے کہ ہم انہیں اپنے سے الگ نہ سمجھیں۔ ان کے ساتھ سچّے دوست جیسا برتاؤ کریں۔ مجھے یقین ہے کہ کلاس کے سبھی طلبا پڑھنے لکھنے میں محمود کی بھر پور مدد کریں گے۔ جاوید ! کیا تم اور کچھ پوچھنا چاہتے ہو؟
جاوید : ماسٹر صاحب میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا ایسے سبھی بچّے محمود کی طرح ہمارے جیسے اسکول ہی میں پڑھتے ہیں؟
ماسٹر صاحب : نہیں جاوید ایسا نہیں ہے۔ ان کے اسکول الگ ہوتے ہیں جہاں ان کے رہنے کا بھی انتظام ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں تقریباً ڈھائی سو ایسے اسکول ہیں ۔ ان اسکولوں میں پڑھنے لکھنے اور کھیل کود کے ساتھ ساتھ انھیں روزگار کے لیے مفید کام بھی سکھائے جاتے ہیں ۔ یہ بہت سے کھیلوں میں حصہ لے سکتے ہیں ۔ جیسے کبڈی، رسّا کشی، تیراکی ، دوڑ وغیرہ۔ تاش اور شطرنج بھی ان کے پسندیدہ کھیل ہیں ۔ کھیلوں کے علاوہ یہ اسکاؤٹنگ، موسیقی اور سیّاحی میں بھی دلچسپی لیتے ہیں۔
اکرم : ماسٹر صاحب! کیا یہ لوگ کرکٹ کھیل سکتے ہیں؟
ماسٹر صاحب : کیوں نہیں ۔ کچھ ماہ پہلے ہی دور درشن پر ایسے کھلاڑیوں کو کرکٹ کھیلتے دکھایا گیا تھا۔ ان کے لیے خاص قسم کی گیند بنائی جاتی ہے جس سے آواز نکلتی ہے۔ آواز سن کر ہی کھلاڑی اپنے بلّے سے گیند کو مارتے یا پکڑتے ہیں۔
پرکاش : ان کے لیے اور کیا کیا خاص چیزیں بنائی گئی ہیں؟
ماسٹر صاحب :  ان کے لیے انگریزی اور ہندی کا ایسا کمپیوٹر تیار کیا گیا ہے جو بولتا ہے یعنی جس حرف کے بٹن کو دبائیں گے توکمپیوٹر اسی حرف کو ادا کرے گا۔ پھر وہ سن سن کر جو بھی ٹائپ کریں، وہ سب کچھ خاص پرنٹر کے ذریعے بریل تحریر میں فوراً ان کے سامنے آ جائے گا۔
موہن : ارے واہ! یہ تو بہت مزے دار بات ہوئی۔
ماسٹر صاحب :  یہی نہیں، ان لوگوں کی انگلیوں کے پور اور کان بہت زیادہ حساس ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ چیزوں کو چھوکر محسوس کرتے ہیں اور سن کر وہ اپنا نصاب یاد کر لیتے ہیں ۔ ایک بار سنا ہوا اور ایک بار چھوا ہوا وہ کبھی نہیں بھولتے انہیں دکھائی نہیں دیتا تو کیا ہوا۔ بدلے میں بہت ساری صلاحیتیں ہیں جن سے وہ اپنی زندگی اچھی طرح گزار سکتے ہیں۔
 اسلم : ماسٹر صاحب، آنکھیں خراب کیوں ہوتی ہیں؟
ماسٹر صاحب : کبھی کبھی کھانے میں وٹامن اے کی کمی کی وجہ سے بینائی کم ہو جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے بچے حادثوں میں اپنی بینائی کھو بیٹھتے ہیں ۔ بچّو! وٹامن ’اے‘ کی کمی پورا کرنے کے لیے اپنے کھانے میں ہری سبزیاں، گاجر، پیلے پھل، آم، پپیتا، کدو، وغیره مناسب مقدار میں استعمال کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی گِلی ڈنڈا اور پٹاخوں یا نوکیلی چیزوں سے اپنی آنکھوں کی خاص طور پر حفاظت کرنا چاہیے۔ کبھی کبھی گندگی سے بھی آنکھیں خراب ہو جاتی ہیں۔ آنکھوں کو ہمیشہ صاف پانی سے دھوتے رہنا چاہیے۔ صاف تولیے یا رومال سے آنکھیں پوچھنی چاہئیں۔ کم روشنی میں نہیں پڑھنا چاہیے اور آنکھوں کی ورزش بھی کرتے رہنا چاہیے۔ ان سب باتوں کا خیال رکھنے سے تمھاری آنکھیں محفوظ رہ سکتی ہیں۔

مشق
خلاصہ:
اسکول میں کھانے کے وقفے کے دوران دو طالب علم اسلم اور جاوید یہ گفتگو کر رہے تھے کہ کلاس میں ایک ایسا لڑکا پڑھنے آئے گا جو نابینا ہے، دیکھ نہیں سکتا۔ جاوید کو اس بات پر حیرت تھی کہ جب لڑکا نابینا ہے تو وہ پڑھے گا کیسے؟ اسلم نے کہا کہ ماسٹر صاحب سے پوچھیں گے۔ کلاس میں ماسٹر صاحب کے آنے پر اسلم و جاوید نے نابینا لڑکے کے تعلق سے سوال کیا۔ ماسٹر صاحب نے بتایا وہ لڑکا محمود ہے اور وہ نابینا لوگوں کے لئے ایک خاص تحریر " بر یل‘‘ کے ذرایہ پڑھے گا۔ ماسٹر صاحب نے "بریل" کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایک خاص آلے کی مدد سے موٹے کاغذ پرحروف کو ابھارا جاتا ہے جنہیں تھوڑی تربیت کے بعد انگلی سے چھوکر پڑھ سکتے ہیں ۔ بریل میں چھ نقطے ہوتے ہیں جن کو کئی طرح سے ملا کر حروف ابھارے جاتے ہیں ۔ دنیا کی کوئی بھی زبان اس تحریر میں پڑھی جاسکتی ہے۔ فرانس میں ایک شخص لوئی بریل نے یہ طریقہ ایجاد کیا تھا۔ اس کے نام پر اس تحریر کو بریa کہا جاتا ہے۔ بریل پیرس کے قریب کوپ برے نام کے ایک قصبے میں جنوری 1809 کو پیدا ہوا تھا۔ دو سال کی عمر میں ایک نوکیلا اوزار لگ جانے سے لوئی کی آنکھوں کی روشنی جاتی رہی ۔ مگر لوئی نے ہار نہیں مانی اور وہ کسی نہ کسی طرح پڑھتا رہا۔ بیس سال سخت محنت کرنے کے بعد اس نے نابینا لوگوں کے پڑھنے کے لئے یہ طریقہ ایجاد کرلیا۔ اسلم نے جب یہ پوچھا کہ ماسٹر صاحب آپ کو بریل تحریر پڑھنی آتی ہے آپ اسے کیسے پڑھائیں گے اور ہوم ورک کی جانچ کیسے کریں گے؟ ماسٹر صاحب نے بتایا کہ نابینا طالب علم کسی اسے لکھوا کر بھی دکھا سکتا ہے مگر محمود دوسروں کا سہارا لینے کے بجاۓ آج کل ٹائپ سیکھ رہا ہے تا کہ وہ لکھ سکے اور امتحان بھی دے سکے اور ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ نابینا افراد اپنے ساتھ ایک سفید چھڑی رکھتے ہیں ۔ یہ ان کی پہچان ہے تا کہ لوگ انہیں راستہ دے سکیں۔ نابیناپڑھ لکھ کر مختلف پیشے اختیار کرتے ہیں اور اپنی روزی خود کماتے ہیں۔ انہیں خود سے علیحدہ نہیں سمجھنا چاہئے۔ جاوید کے پوچھنے پر ماسٹر صاحب نے بتایا کہ نابینا افراد کو پڑھانے کے لئے ان کے اپنے اسکول ہوتے ہیں جہاں ان کے رہنے کا بھی بندوبست ہوتا ہے۔ انہیں پڑھنے کے ساتھ ساتھ کھیل کود اور روزگار کے لئے کام بھی سکھائے جاتے ہیں۔ ایک طالب علم اکرم نے پوچھا کہ کیا لوگ کرکٹ کھیل سکتے ہیں؟ تو ماسٹر صاحب نے بتایا کہ پچھلے دنوں دور درشن پر نابینا لوگوں کو کرکٹ کھیلتے دکھایا گیا تھا ان کے لئے ایک ایسی گیند بنائی گئی تھی جس سے آوازنکلتی ہے۔
معنی یاد کیجیے:
نابینا : جسے دکھائی نہ دے
تحریر : لکھاوٹ، عبارت
تربیت : پرورش
سیاحی : سفر کرنا، سیر و سیاحت کرنا
حساس : زیادہ محسوس کرنے والا
نصاب : پڑھائی کا کورس
صلاحیت : لیاقت، استعداد
ورزش : کسرت
مقدار : اندازه، وزن
غور کیجیے:
آنکھیں وٹامن ’اے‘ کی کمی سے خراب ہو جاتی ہیں ۔ وٹامن ’اے‘ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ہری سبزیاں اور پیلے پھل کھانا چاہیے۔

سوچیے اور بتائیے:
1.  کلاس میں بچے کس بات پر حیرت زدہ تھے؟
جواب: کلاس کے بچے اس لیے  حیرت زدہ تھے کہ ان کی کلاس میں ایک نابینا طالب علم آنے والا تھا۔

2.  بریل ایجاد کرنے والے کا نام کیا تھا؟
جواب: بریل کو لوئی بریل نے ایجاد کیا تھا۔

3.  بریل کے ذریعے پڑھائی کس طرح ہوتی ہے؟
جواب: بریل میں ایک خاص آلے سے موٹے کاغذ پر حروف کو اُبھارا جاتا ہے جنہیں تھوڑی تربیت کے بعد انگلیوں سے چھو کے پڑھ سکتے ہیں۔ اس میں چھ نقطے ہوتے ہیں جنہیں کئی طرح سے ملاکر حروف اُبھارے جاتے ہیں۔ دنیا کی کوئی بھی زبان اس تحریر میں لکھی یا پڑھی جا سکتی ہے۔

4.  لوگ سفید چھڑی کیوں رکھتے ہیں؟
جواب: سفید چھڑی نابینا لوگوں کی پہچان ہے۔ اس چھڑی کو دیکھ کر لوگ انہیں راستہ دے دیتے ہیں اور ضرورت ہونے پر انہیں ان کی منزل تک پہنچا دیتے ہیں۔

5. آنکھوں کی حفاظت کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
جواب: کبھی کبھی کھانے میں وٹامن اے کی کمی کی وجہ سے بینائی کم ہو جاتی ہیں۔ اس لیے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے کھانے میں ہری سبزیاں، گاجر، پیلے پھل، آم، پپیتا، کدو، وغیره مناسب مقدار میں استعمال کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی گِلی ڈنڈا اور پٹاخوں یا نوکیلی چیزوں سے اپنی آنکھوں کی خاص طور پر حفاظت کرنا چاہیے۔ آنکھوں کو گندگی سے پاک رکھنا چاہیے اور اسے ہمیشہ صاف پانی سے دھوتے رہنا چاہیے۔ صاف تولیے یا رومال سے آنکھیں پوچھنی چاہئیں۔ کم روشنی میں نہیں پڑھنا چاہیے اور آنکھوں کی ورزش بھی کرتے رہنا چاہیے۔ ان سب باتوں کا خیال رکھنے سے ہماری آنکھیں محفوظ رہ سکتی ہیں۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے :
موسیقار :  نوشاد ایک معروف موسیقار ہیں۔
حیرت زدہ : نابینا بچّے کے پڑھنے کی بات سن کرکلاس کے سبھی بچے حیرت زدہ تھے۔
مقدار : اس نے زیادہ مقدار میں کھانے میں نمک ڈال دیا۔
وقفہ : اسلم نے کھانے کے وقفہ میں ہوم ورک مکمل کرلیا۔
اخبار نویس : نابینا افراد اخبار نویس بھی بن سکتے ہیں۔
عہدہ : رضیہ سلطان نے میر آخر کا عہدہ ایک حبشی غلام کو دے دیا۔
آلہ : سائنسدانوں نے سماعت کا آلہ ایجاد کر لیا۔

خالی جگہوں کو صحیح لفظوں سے بھریے:
 1. ان کے .....اسکول..... الگ ہوتے ہیں۔ (گھر، اسکول، ہاسٹل)
2. کم روشنی میں نہیں ......پڑھنا....چاہیے۔ (سونا، کھانا، پڑھنا)
3 ارے واہ یہ تو بہت .....مزے دار..... بات ہوگی ۔ (خراب ، مزے دار، بیکار)
4. ان سب باتوں کا خیال رکھنے سے تمھاری آنکھیں....محفوظ... رہ سکتی ہیں ۔ (اچھی، محفوظ ، بہتر)

عملی کام:
* بینائی کی حفاظت کس طرح کی جاسکتی ہے ۔ اس پر پانچ جملے لکھیے۔
وٹامن اے کا استعمال کرنا چاہئے۔
بینائی کی حفاظت کے لیے ہمیں ہری سبزیاں زیادہ کھانی چاہئیں۔
 پٹاخوں یا نوکیلی چیزوں سے اپنی آنکھوں کی خاص طور پر حفاظت کرنی چاہیے۔ 
گندگی سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنی آنکھوں کو صاف کرتے رہنا چاہئے۔
ہمیں موبائل اور ٹی وی کا کم سے کم استعمال کرنا چاہیے۔

* اسم کی تعریف آپ کو بتائی جا چکی ہے ۔ اس سبق سے پانچ اسم تلاش کر کے لکھیے ۔
اسلم، چھڑی،بریل،گلی ڈنڈا،آم

کلک برائے دیگر اسباق

4 comments:

  1. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  2. اوپر کا عنوان اندر کے عنوان سے مختلف ہے۔براہ کرم درست کر دیجیے

    ReplyDelete
  3. سوال نمبر ۵ کا جواب اور سوال شاید چھوٹ گیا ہے، اسے دیکھ لیں

    ReplyDelete
    Replies
    1. نشاندہی کے لیے شکریہ!اسے مکمل کر دیا گیا ہے۔

      Delete

خوش خبری