آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Monday 16 March 2020

Qaul Ka Paas - Prem Chand - NCERT Solutions Class X Urdu

قول کا پاس
منشی پریم چند
(Courtesy NCERT)
اکبر بادشاہ مغلوں کا بہت مشہور بادشاہ گزرا ہے۔ اس نے لڑائیاں لڑکر ہندوستان کا بہت سا حصہ فتح کر لیا تھا۔ ایک راجپوتانہ رہ گیا تھا، اکبر نے چاہا کہ اسے بھی فتح کر لے اور وہاں بھی سلطنت کرے۔ یہ ارادہ کر کے راجپوتانہ پر فوج کشی کی ۔ راجپوت اپنا ملک بچانے کے لیے لڑے تو بڑی بہادری سے مگر آخر کار ان کے پاؤں اکھڑ گئے۔ راجپوتوں کا سردار رانا پرتاپ سنگھ اپنے بال بچوں کو لے کر کسی جنگل میں جا چھپا۔
راجپوتوں کے ایک سردار کا نام رگھوپت تھا۔ یہ بڑا بہادر اور جری تھا۔ اس نے کچھ لوگ اپنی فوج میں داخل کر لیے تھے اور ان کو ساتھ لے کر لڑ ا کرتا تھا۔ اس نے بہادری میں ایسا نام پیدا کر لیا تھا کہ بڑے بڑے مغل اس کا نام سن کر گھبرا جاتے تھے۔ اکبر کے سپاہیوں نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح اس کو پکڑ لیں مگر وہ ایک جگہ کب رہتا تھا جو اسے پکڑ سکتے۔
رگھوپت سنگھ کی ایک بیوی تھی اور ایک اکلوتا بیٹا تھا۔ جب وہ اپنے دشمنوں سے لڑنے کو گھر سے نکلا تھا، اس کا بیٹا بہت بیمار تھا۔ لیکن اس نے نہ تو اپنے بیمار بچے کا خیال کیا ، نہ بیوی کا ۔ مغلوں سے لڑنے کو گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ ہاں کبھی کبھی چوری چھپے سے کسی کو گھر بھیج دیتا تھا اور بیوی بچے کی خبر منگوا لیا کرتا تھا۔
رگھوپت سنگھ کو  پکڑنے کو اکبر بادشاہ نے بہت سی فوج بھیجی مگر وہ کسی کے ہاتھ نہ آیا۔ پھر بادشاہ نے اس کے گھر پر پہرہ بٹھا دیا۔ اکبر کا خیال تھا کہ کسی دن رگھوپت سنگھ اپنے بال بچے سے ملنے کو ضرور گھر آئے گا۔ بس اسی دن سپاہی اس کو پکڑ لیں گے۔ ادھر کسی نے رگھو پت سنگھ کو خبرکر دی کہ تیرا بیٹا گھڑی دو گھڑی کا مہمان ہے ، چل کر اسے دیکھ لے۔
یہ سن کر رگھوپت سنگھ بہت گھبرایا۔ سورج ڈوب رہا تھا۔ جنگل میں سفر کرنے کا وقت تو نہیں تھا مگر رگھوپت نے سوچا کہ اگر میں نے ذرا بھی دیر کی تو شاید میں لڑکے کی صورت بھی نہ دیکھ سکوں ۔ اسی وقت چلنا چاہیے۔ رگھوپت سنگھ اسی وقت چلنے کو تیار ہوگیا۔ جب رگھوپت سنگھ گھر پہنچا تو دروازے پر اکبر بادشاہ کے سپاہیوں میں سے ایک پہرہ دار نے کہا ”بادشاہ کا حکم ہے کہ تم جہاں ملو، پکڑ لیے جاؤ“ رگھوپت سنگھ نے کہا ”میرا لڑکا مر رہا ہے، اسے دیکھنے آیا ہوں، ذرا دیر کے لیے مجھے اندر چلا جانے دو، ابھی دیکھ کر لوٹ آتا ہوں۔ اس وقت جو بھی چاہے کر لینا۔ میں راجپوت ہوں،جھوٹ ہرگز نہ بولوں گا۔“
اس پہرہ والے سپاہی نے کہا ”دیکھ آؤ۔“ جب رگھوپت سنگھ گھر میں گیا تو دیکھا کہ لڑکا بے چین ہو رہا ہے اور بیوی فکر کے مارے بے حال ہورہی ہے۔ میاں کو دیکھ کر بیوی کی ڈھارس بندھی ۔ رگھوپت سنگھ نے بچے کو پیار کیا اور دوا کی تدبیریں بتائیں ۔ پھر اپنی بیوی سے کہا۔ ” دروازے پر سپاہی کھڑا ہے، میں کہہ آیا ہوں کہ میں قید ہونے کو ابھی واپس آتا ہوں ۔“ بیوی نے کہا”ایسا نہ کرو، دوسرے دروازے سے نکل جاؤ رگھوپت نے کہا ” یہ مجھ سے ہرگز نہیں ہوسکتا۔ میں قول دے چکا ہوں، اس کے خلاف نہیں کرسکتا۔“
یہ کہہ کر وہ دروازے پر آیا اور سپاہی سے کہنے لگا” لو میں آ گیا اب مجھے پکڑ کر جہاں چاہو لے چلو ‘‘ سپاہی نے کہا ” تمھیں پکڑنے کو میرا دل نہیں چاہتا تم بھاگ جاؤ“رگھوپت نے کہا ”بہت بہتر، تم نے اس وقت میری مدد کی ہے، جب تم پر برا وقت آئے گا تو میں بھی تمھاری مدد کروں گا۔“ یہ کہہ کر رگھوپت آگے بڑھا اور غائب ہو گیا۔
اس بات کو تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ مغلوں کا ایک افسر چھ آدمیوں کو ساتھ لے کر آ پہنچا۔ پہرے والے سے کہا” ہم نے سنا ہے رگھوپت ادھر آیا ہے-“ پہرے والے نے سچ سچ کہہ دیا کہ ”رگھوپت سنگھ اپنے بیمار بیٹے کو دیکھنے آیا تھا اور میں نے اسے جانے کی اجازت دے دی‘‘ یہ سن کر افسر نے پہرہ دار کو قید کر لیا۔ رگھوپت سنگھ کو بھی سپاہی کے قید ہونے کی خبرمل گئی۔ وہ اسی وقت واپس آیا اور آ کر مغل افسر کے پاس کھڑا ہو گیا اور کہا کہ ”میں رگھوپت ہوں، میں واپس آ گیا ہوں، مجھے پکڑ لو اور اس بے گناہ قیدی کو چھوڑ دو‘‘ افسر نے رگھوپت کو پکڑ لیا اور قید خانے میں ڈال دیا لیکن سپاہی کو نہ چھوڑا، افسر نے دونوں کے قتل کرنے کا حکم دیا۔
دوسرے دن سپاہی رگھوپت اور پہرہ دار کو میدان میں لائے کہ ان کو قتل کیا جائے۔ دونوں کے ہاتھ پیر بندھے ہوئے تھے مغل افسر نے جلّا د سے کہا کہ” دونوں کی گردنیں اڑا دو۔ “جلّاد نے تلوار اٹھائی ہی تھی کہ گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز آئی ۔ لوگوں نے دیکھا تو اکبر بادشاہ اپنے افسروں کے ساتھ چلا آ رہا ہے۔ سب نے جھک کر سلام کیا۔ اکبرگھوڑے پر سے اتر پڑا ۔اور کہنے لگا ”رگھوپت کی گرفتاری کا پورا حال مجھ کو معلوم ہو چکا ہے ۔“ پھر پہرہ دار سے کہا ”ہر بھلے آدمی کا دل دوسروں کا دکھ دیکھ کر پگھل جاتا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ اس راجپوت کی تکلیف دیکھ کر تمھارا دل بھر آیا تھا۔ اس لیے تم نے اس کو چھوڑ دیا تھا۔ اس میں تمھارا کوئی قصور نہیں ہے۔ اگر کچھ ہے بھی تو میں نے معاف کیا۔ مجھے ایسے ہی سپاہی چاہیے۔ جو اپنے بادشاہ سے زیادہ خدا سے ڈرتا ہے۔“ یہ سنتے ہی پہرہ دارخوشی سے پھولا نہ سمایا۔
پھر اکبر نے رگھوپت کی طرف دیکھ کر کہا”مجھے پہلے یہ معلوم نہ تھا کہ بہادر راجپوت بات کے اتنے دھننی ہوتے ہیں۔ تمھاری بہادری اور ایفائے وعدہ سے میں بہت خوش ہوا، میں نے تم کو بھی چھوڑا‘‘ رگھوپت سنگھ گھٹنوں کے بل زمین پر جھک گیا اور کہا ” آپ جس رگھوپت کو اتنی مشکل سے بھی جیت نہ سکے، آج اپنی دریا دلی دکھا کر آپ نے اسے جیت لیا۔ آپ بہادروں کی وقعت کرانا جانتے ہیں ۔ اب میں کبھی آپ کا دشمن ہو کر تلوار نہ اٹھاؤں گا۔“
جوآدمی اپنے وعدے کے پکے ہوتے ہیں اور سچائی پر جمے رہتے ہیں اور دوسرے کے دکھ میں مدد کرتے ہیں خدا ہمیشہ ان کی مدد کرتا ہے۔


خلاصہ:
مغل بادشاہ اکبر نے ہندوستان کا بہت سا علاقہ فتح کرلیا تھا۔ ایک علاقہ راجپوتانہ پر اس کا قبضہ نہ ہو سکا تھا۔ اس نے راجپوتانہ پر فوج کشی کی ۔ راجپوت بہت بہادری سے لڑے مگر کامیاب نہ ہو سکے ۔ ان کا سردار رانا پرتاپ سنگھ اپنے بال بچوں کے ساتھ کسی جنگل میں جا چھپا۔ راجپوتوں کا ایک سردار رگھوپت سنگھ نے کچھ بہادر لوگوں کو اپنی فوج میں شامل کر لیا تھا اورمغل حکومت کا مقابلہ کر رہا تھا۔ مغل سپاہیوں نے اسے پکڑنے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ رگھوپت سنگھ کی ایک بیوی اور اکلوتا بیٹا تھا۔ رگھوپت کسی ایک جگہ نہیں رہتا تھا۔ کبھی کبھی بیوی اور بیٹے سے ملنے گھر آ جاتا ۔ بادشاہ نے اسے پکڑنے کے لئے گھر پر پہرہ بٹھا دیا تھا۔ اکبر کا خیال تھا کہ کسی دن رگوپت اپنے بال بچوں سے ملے ضرور آئے گا تو سپاہی اسے پکڑ لیں گے ۔ رگھوپت کو اطلاع ملی کہ اس کا بیٹا شدید بیمار ہے اور وہ اسے جا کر دیکھ لے خبر دینے والے نے بتایا کہ اگر وہ بیٹے کو دیکھنے نہ گیا تو شاید پھر کبھی نہ دیکھ سکے۔ رگھوپت اس وقت گھر روانہ ہوگیا۔ گھر کے دروازے پر پہرہ تھا۔ پہرے دار نے اسے اندر جانے سے منع کیا اور کہا کہ بادشاہ نے تمہیں پکڑنے کا حکم دیا ہے۔ رگھوپت نے کہا میرا لڑکا مر رہا ہے۔ میں اسے دیکھ کر ابھی واپس آتا ہوں تب تم جو چاہے کر لینا۔ پہرے دار سپاہی نے اسے اندر جانے دیا۔ اندر پہنچ کر رگھوپت نے اپنے بیمار بیٹے کو دیکھا اور بیوی کو دوائیں بتا کر کہنے لگا کہ مجھے واپس جانا ہے کیونکہ مجھے پکڑنے کا حکم ہے۔ بیوی نے کہا کہ دوسرے دروازے سے کہیں اور چلا جائے۔ رگھوپت نے کہا کہ میں قول دے چکا ہوں اس کے خلاف نہیں جاسکتا۔ رگھوپت باہر آیا اور سپاہی سے کہا کہ اسے پکڑ لے۔ سپاہی نے کہا کہ میرا جی نہیں چاہتا کہ میں تمہیں پکڑوں، تم بھاگ جاؤ رگھوپت نے کہا کہ تم نے اس وقت میری مددکی ہے تم پر برا وقت آئے گا تو میں تمہاری مددکروں گا، اور وہ چلا گیا۔ کچھ دیر بعد ایک مغل افسر کچھ سپاہیوں کے ساتھ آیا اور پہرہ دار سے رگھوپت کے بارے میں دریافت کیا۔ پہرہ دار نے صورت حال سے آگاہ کیا۔ افسرنے پہرہ دار کو گرفتار کرلیا۔ اسی وقت رگھوپت وہاں آ گیا اور افسر سے کہا تم مجھے گرفتار کرلو۔ افسر نے دونوں کو گرفتار کرلیا اور اگلے دن ایک میدان میں قتل کرنے کے ارادہ سے لے کر پہنچا۔ وہاں پہنچ کر جلاد کو حکم دیا کہ دونوں کی گردنیں اڑا دو جلاد نے تلوار اٹھائی تھی کہ اس وقت اکبر دوسرے افسروں کے ساتھ وہاں پہنچا۔ ان دونوں کے متعلق دریافت کیا گرفتار کرنے والے افسر نے تمام باتیں بتائیں ۔ اکبر نے پہرے دار کو معاف کر دیا اور کہا کہ ہر بھلے آدمی کا دل دوسروں کا دکھ دیکھ کر پگھل جاتا ہے، مجھے ایسے ہی سپاہی چاہئے جو اپنے بادشاہ سے زیادہ خدا سے ڈرتا ہے۔ پھر اکبر نے رگھوپت کی جانب دیکھ کر کہا مجھے معلوم نہ تھا کہ بہادر راجپوت بات کے اتنے ب دھنی ہوتے ہیں ۔ تمہاری بہادری اور قول کا پاس کرنے سے میں بہت خوش ہوا تم کو بھی چھوڑا۔ رگھوپت گھٹنوں کے بل زمین پر جھک گیا اور کہا جس رگھوپت کو آپ اتنی مشکل سے بھی جیت نہ سکے آج اپنی دریا دلی دکھا کر اسے جیت لیا۔ آپ بہادروں کی وقعت کرنا جانتے ہیں۔ اب میں کبھی آپ کا دشمن ہوکر تلوار نہ اٹھاؤں گا۔
منشی پریم چند
(1880-1936)
پریم چند کی پیدائش بنارس کے ایک گاؤں لمہی میں ہوئی ۔ ان کا اصل نام دھنپت رائے تھا۔ ان کی ابتدائی تعلیم گاؤں کے مدرسے میں ہوئی ۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد 1899 میں بنارس کے قریب چنارگڑھ کے ایک مشن اسکول میں اسسٹنٹ ماسٹر کی حیثیت سے ملازم ہو گئے ۔ 1905 میں کان پور کے ضلع اسکول میں استاد کی حیثیت سے ان کا تقرر ہوا۔
پریم چند کو لکھنے کا شوق بچپن سے تھا۔ انھوں نے زندگی کے دکھ درد کو قریب سے دیکھا اور محسوس کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی کے مسائل ان کی تحریروں کا موضوع بن گئے ۔ ان کی زبان بہت سادہ اور سلیس تھی۔ ان کے بیشتر ناول اور افسانے دیہاتی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔
پریم چند نے تقریباً ایک درجن ناول اور تین سو سے زیادہ افسانے لکھے۔ ان کا شمار اردو کے اہم ترین ناول اور افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔
’نرملا‘ ،’ بیوہ‘، ’میدانِ عمل‘،’ بازارِحسن‘ اور ’گئودان‘ ان کے مشہور ناول ہیں ۔

مشق
معنی یاد کیجیے:
فتح : جیت
فوج کَشی : حملہ، چڑھائی
جَری : جنگجو، بہادر
قول : وعده
دریادلی : فراخ دلی
وقعت : عزّت

غور کیجیے:
انسان کو اپنے وعدے کا پکا ہونا چاہیے۔ جولوگ وعدے کے سچے ہوتے ہیں انھیں زندگی میں عزت اور کامیابی ضرورملتی ہے۔

سوچیے اور بتائیے:
سوال : اکبر کس خاندان کا بادشاہ تھا؟
جواب : اکبر مغل خاندان کا بادشاہ تھا۔

سوال : راجپوتوں کے اس  سردار کا نام کیا تھا؟ وہ جنگل میں کیوں چھپ گیا تھا؟
جواب : اکبر نے  لڑائیاں لڑ کر ہندوستان کا بہت سا حصہ فتح کر لیا تھا ایک راجپوتانہ رہ گیا تھا  اکبر نے چاہا کے اسے بھی فتح کرلے  اور وہاں بھی حکومت کرے یہ ارادہ کرکے اکبر نے راجپوتانہ پر فوج کشی کی راجپوت اپنا ملک بچانے کے لیے  لڑے تو  بڑی بہادری سے  لیکن آخر کار ان کے پاوں اُکھڑ گئے  راجپوتوں کا  ایک سردار رانا پرتاپ سنگھ اپنے بال بچوں کے ساتھ جنگل میں جا کر چھپ گیا۔

سوال : رگھویت نے پہرےدار کی مدد کس طرح کی؟
جواب: رگھوپت نے جب یہ سنا کہ پہرےدار اسے گھر جانے دینے کی وجہ سے مصیبت میں ہے اور اسے پھانسی کی سزا سنا دی گئی ہے وہ واپس آگیا اور اس نے سپاہیوں سے کہا کہ وہ واپس آگیا ہے وہ اسے گرفتار کرلیں اور پہرےدارکو چھوڑ دیں۔

 سوال : اکبر رگھوپت کی کس بات سے متاثر ہوا؟
جواب : اکبر رگھوپت کی بہادری اور ایفائے وعدہ سے متاثر ہوا۔

سوال : اکبر نے رگھوپت کا دل کس طرح جیت لیا؟
جواب اکبر نے رگھو پت کا دل اپنی دریا دلی سے جیت لیا۔


نیچے لکھے ہوئے لفظوں سے جملے بنائیے:
سلطنت : اکبر ایک بہت بڑی سلطنت کا شہنشاہ تھا۔
فوج : فوج ملک کی حفاظت کرتی ہے۔
پہرےدار : فوجی ملک کے پہرےدار ہیں۔
تدبیر : جنگ تدبیر سے جیتی جاتی ہے۔
قصور : اکبر کی نظر میں کا کوئی قصور نہ تھا۔۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کی مدد سے خالی جگہوں کو بھریے:
دروازے#####وعدے#####اکبر#####سپاہی##### رگھوپت

1....اکبر....بادشاہ مغلوں کا بہت مشہور بادشاہ گزرا ہے۔
2. راجپوتوں کے سردار کا نام....رگھوپت....تھا
3. بیوی نے کہا”ایسا نہ کرو،دوسرے ...دروازے....سے نکل جاؤ۔“
4. دوسرے دن...سپاہی...رگھوپت اور پہرے دار کو میدان میں لائے۔
5. جو آدمی اپنے ....وعدے....کے پکّے ہوتے ہیں خدا ہمیشہ ان کی مدد کرتا ہے۔

نیچے لکھے ہوئے محاوروں کو جملوں میں استعمال کیجیے:
پاؤ اکھاڑنا : دشمن فوج کے پاوں اُکھڑ گئے۔
ڈھارس بندھنا : فوجی مدد پا کر بادشاہ کی ڈھارس بندھی۔
قول دینا : اس نے مدد کرنے کا قول دیا۔
دل بھر آنا  : گھر سے دور جاتے ہوئے سلیم کا دل بھر آیا۔
پھولا نہ سمانا : جنگ میں فتح سے بادشاہ پھولے نہ سمایا۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں سےواحد کی جمع اور جمع کی واحد بنائیے:
افواج : فوج
تدابیر : تدبیر
امداد : مدد
ممالک : ملک
اسفار : سفر
##### 
نیچے لکھے ہوئی لفظوں سے مذکر سے مونث اور مونث سے مذکر بنائیے:
بیٹی: بیٹا
عورت:مرد
لڑکا:لڑکی
گھوڑا:گھوڑی
بادشاہ :ملکہ

ان لفطوں کے متضاد الفاظ لکھیے:
محبت : نفرت
دشمن : دوست
قید : آزاد
بہادر : بزدل
دکھ : سکھ
سچائی : جھوٹ

اسم خاص اور اسم عام کو الگ الگ کیجیے:
اسم خاص: اکبر، رگھوپت، راجپوتانہ
اسم عام: بادشاہ، بہادر، بیٹا، گھوڑا

عملی کام:
* اس سبق سے کیا نصیحت ملتی ہے اپنے الفاظ میں لکھیے۔
اس سبق سے ہمیں یہ نصیحت ملتی ہے کہ ہمیں ہمیشہ اپنا وعدہ پورا کرنا چاہیے اور اپنے قول کا پاس رکھنا چاہیے۔کسی سے وعدہ کرکے مکر جانا اچھی بات نہیں ہوتی ہے۔

 * اکبر کی شخصیت پر پانچ جملے لکھیے۔
اکبر مغل خاندان کا ایک عظیم الشان شہنشاہ تھا۔ وہ تیسرا مغل بادشاہ تھا۔ اس نے 1556 سے 1605 تک حکومت کی۔ اس کے دربار میں نو رتنوں کی ایک جماعت تھی جو شہنشاہ کو مفید مشورے دیا کرتی تھی۔ اکبر نے متعدد جنگیں لڑیں اور اس کی حکومت مغل سلطنت کی سب سے بڑی حکومت تھی۔ اکبر کا27 اکتوبر 1605ء میں  انتقال ہوا اور سکندرہ میں اس کی تدفین عمل میں آئی۔ اکبر کا مقبرہ سکندرہ میں ہے۔


کلک برائے دیگر اسباق

2 comments:

خوش خبری