آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Monday 13 April 2020

Bol - Faiz Ahmad Faiz - NCERT Solutions Class IX Urdu

(اس صفحہ پر ابھی کام جاری ہے)
بول
فیض احمد فیض

بول ، کہ لب آزاد ہیں تیرے
 بول، زباں اب تک تیری ہے

 تیرا سُتواں جسم ہے تیرا 
بول کہ جاں اب تک تیری ہے

 دیکھ کہ آہن گھر کی دکان میں
تند ہیں شعلے، سرخ ہے آہن

کھلنے لگے قفلوں کے دہانے
 پھیلا ہر اک زنجیر کا دامن

بول، یہ تھوڑا وقت بہت ہے 
جسم وزبان کی موت سے پہلے

 بول، کہ سچ زندہ ہے اب تک
 بول، جو کچھ کہنا ہے کہہ لے

فیض احمد فیض
(1911ء - 1984 ء)
فیض سیالکوٹ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم چرچ مشن اسکول، سیالکوٹ سے حاصل کی ۔ انگریزی سے ایم ۔ اے کرنے کے بعد امرتسر کے ایک کالج میں لیکچرر مقرر ہوئے۔ بعد میں انھوں نے فوج میں ملازمت کی ۔ پھر انگریزی صحافت میں سرگرم رہے۔ انھیں راولپنڈی سازش کیس میں شریک ہونے کی جرم میں کئی سال تک قید و بند کی سزا بھی بھگتنی پڑی۔ فیض کا انتقال لاہور میں ہوا۔
فیض غزل اور نظم دونوں میں ممتاز ہیں۔ انھوں نے غزل کی کلاسیکی روایت سے استفادہ کیا اور اسے انقلابی فکر سے ہم آہنگ کر کے ایک بالکل نئی کیفیت پیدا کی ۔ فیض اہم ترین ترقی پسند شاعر تھے۔ انھوں نے جلا وطنی کی زندگی بھی گزاری لیکن وہ حق و انصاف کے لیے برابر آواز اٹھاتے رہے۔ ان کی شاعری میں دردمندی ، دل آویزی اور تاثیر ہے۔ مختلف زبانوں میں ان کے کلام کے ترجمے ہو چکے ہیں ۔ ان کے مجموعے’ نقش فریادی‘،’ دست صبا‘ ، ’زنداں نامہ‘،’دستِ تہِ سنگ‘، ’سرِ وادی سینا’،‘ شامِ شہر یاران‘ اور ’مرے دل مرے مسافر‘ وغیرہ ہیں۔ ان کا کلیات نسخہ ہائے وفا کے نام سے شائع ہوا۔

مشق
الفاظ و معانی

سُتواں : سیدھا۔ عام طور پر یہ لفظ سوتوا سیدھا اور سیدھی ناک کے لیے بولا جاتا ہے (جیسے ستواں ناک ) لیکن شاعر نے یہاں ستواں جسم لکھا ہے۔
آہن گر : لوہار
تند : تیز
آہن : لوہا
دہانہ : دہن، جبڑے

 غور کرنے کی بات
* اس نظم میں اظہار خیال کی آزادی پر زور دیا گیا ہے۔
* دنیامیں حق و باطل کی جنگ برابر جاری رہتی ہے لیکن دنیا کی فلاح کے لیے حق یعنی سچ کا زندہ رہنا بہت ضروری ہے۔
*  سچ کو زندہ رکھنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے اور آزادی اظہار کی ضرورت ہوتی ہے۔
*  سچ کو دبانے کے لیے سچ کے خلاف بہت سی طاقتیں اپنا کام کرتی رہتی ہیں ۔ انھیں کچلنا ضروری ہے اور اس کے لیے حق بات بولتے رہنا لازمی ہے۔

سوالوں کے جواب لکھیے
1. وہ کون سے حالات ہیں جن کے خلاف انسان کا بولنا ضروری ہے؟
جواب: جب انسان پر جبر اور ظلم و ستم بڑھ جائے تو اسے اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔ فیض کا ماننا ہے کہ مزدوروں کو اپنے استحصال کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔ اور انہیں خموشی سے ہر ظلم برداشت نہیں کرنا چاہیے۔

2. بولنافوری طور پر کیوں ضروری ہے؟ اور اسے کیوں نہیں ٹالا جاسکتا؟
جواب: فوری طور پر بولنا اس لیے ضروری ہے کہ ابھی اس کے لب آزاد ہیں ۔ اگر وہ نہیں بولا تو ایک دن اس کی زبان پر تالا لگا دیا جائے کا اور پھر وہ کبھی ظلم و ستم کے خلاف آواز نہیں اٹھا پائے گا۔

3. تمام مخالفتوں کے باوجود ایک چیز بولنے والے کے حق میں بھی جاتی ہے، وہ کیا ہے؟
جواب: تمام مخالفتوں کے بعد ایک چیز بولنے والوں کے حق میں جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ سچ ابھی زندہ ہے۔اگر وہ ظلم کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو حق کی حمایت کرنے والے اس کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔

 عملی کام
*  اس نظم کو بلند آواز سے پڑھیے اور زبانی یاد کیجیے۔
*  اس نظم کا خلاصہ اپنی زبان میں لکھیے۔

کلک برائے دیگر اسباق

1 comment:

  1. I enjoyed the reading. It's very useful and interesting writing.

    ReplyDelete

خوش خبری