غزل
نظیر اکبر آبادی
میاں دل تجھے لے چلے حسن والے
کہوں اور کیا ، جا خدا کے حوالے
ادھر آ ذرا تجھ سے مل کر میں رولوں
تو مجھ سے ذرا مل کر آنسو بہا لے
چلا اب تو ساتھ ان کے تو بے بسی سے
لگا میرے پہلو میں فرقت کے بھالے
لگا میرے پہلو میں فرقت کے بھالے
خبردار ان کے سوا زلف و رخ کے
کہیں مت نکلنا اندھیرے اجالے
ترے اور بھی ہيں طلب گار کتنے
مبادا کوئی تجھ کو واں سے اڑالے
کسی کا تو کچھ بھی نہ جاوے گا لیکن
پڑیں گے مجھے اپنےجینے کے لالے
تری کچھ سفارش میں ان سے بھی کردوں
کرے گا تو کیا یاد مجھ کو بھلا لے
سنو دلبرو ، گل رخو ، مہ جبینو!
میں تم پاس آیا ہوں اک التجا لے
خدا کی رضا یا محبت سے اپنی
پڑا اب تو آ کر تمہارے یہ پالے
تم اپنے ہی قدموں تلے اس کو رکھیو
تسلی دلاسے میں ہر دم سنبھالے
کبھی اس کو تکلیف ایسی نہ دیجو
کہ غم میں یہ رہ کر کرے آه و نالے
تمہارے یہ سب ناز اٹھاوے گا لیکن
وہی بوجھ رکھیو جسے یہ اٹھالے
وہی بوجھ رکھیو جسے یہ اٹھالے
نظیر آہ دل کی جدائی بری ہے
بہیں کیوں نہ آنکھوں سےآنسوکے نالے
اگر دسترس ہو تو کیجیے منادی
کہ پھر کوئی سینے میں دل کو نہ پالے
0 comments:
Post a Comment