دل پھر طواف کوئے ”عقیدت“ کو جائے ہے
حضرت مخدوم جہاں ؒ کے ”چراغاں“ کے موقع پر دل کی گہرائیوں سے نکلی ایک تحریر
(3)
(3)
خانقاہ معظم مخدوم جہاں ؒ کی قدیم عمارت میں چاروں جانب بڑے بڑے دروازے تھے۔جب ہم وہاں پہنچتے مجلس شروع ہوچکی ہوتی۔
ڈھولک کی تھاپ پر قوال کی صدائیں بلند ہو رہی ہوتیں۔
میرے پیر شرف تیری نگری سلامت
تیری نگری سلامت تیری ڈیوڑھی سلامت
تیری نگری سلامت تیری ڈیوڑھی سلامت
حضرت مخدوم جہاں ؒ کا فیضان جاری ہوتا۔ شاہ قسیم الدین فردوسیؒ اور جناب حضورؒ اور اُن کے بھائیوں اور خانقاہ کےدیگر عزیزوں کےحال فرمانے منظر بڑا ہی روح پرور ہوتا۔ قوالی کے دوران ہم کیا چیز ہیں، ہمارے بزرگ بھی ہاتھ باندھے نظریں نیچے کیے با ادب کنارے کھڑے ہوتے۔ بہار کی دو بڑی خانقاہوں کے سجادہ ہونے کے باوجود کبھی کسی پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش نہ ہوتی اور نہ ہی جناب حضور کے قریب یا برابر کھڑے ہونے کی ہمت۔ جنابحضور کی نظر فیض جب متوجہ ہوتی تبھی بڑے ماموں جانؒ یا ابّا جانؒ حال کرتے۔ورنہ اسی طرح خاموشی سے نظریں نیچی کیے فیضیاب ہوتے رہتے۔ہم سب دل کی نگاہوں سے اس متبرک مجلس کا لطف اٹھاتے۔وہ سبھی شخصیتیں ہماری نگاہوں میں آج بھی زندہ ہیں۔
یہ مجلس فجر کی اذان اور نماز تک جاری رہتی۔ وسط مجلس میں فجر کی نماز کی ادائیگی کے بعد ایک بار پھر قوالی کا سلسلہ شروع ہوجاتا ۔
یا شاہ شرف اک نگاہ طلبم
از بارگہِ تو زاد راہےطلبم
تو محرم راز ہائے الا ہستی
شاہا ز تو لا الٰہے طلبم
(حضرت شاہ قسیم الدین فردوسی بہاری ؒ)
یہ سلسلہ سورج نکلنے تک جاری رہتا۔
مجلس کے فوراً بعد گاگر کی تیاری شروع ہوجاتی۔ گاگر مٹی کا ایک برتن ہوتا جس میں گھر کے عزیزان اور ہم جیسے راندۂ درگاہ گاگر لے کر حضرت مخدوم کے کنویں سے فاتحہ کے لیے پانی لے کر آتے۔ قوال گاگر گاتا ، سب پانیہریا بھر بھر گیلی اپنی اپنی......اور ہم سب اُس کے ساتھ کنویں تک جاتے۔ گاگر سے واپسی کے بعد ہم آزاد ہوتے۔گاگر، فاتحہ کی روٹی اور حلوہ جسے لوٹنے کے لیے ہجوم ٹوٹا پڑتا تبرک کے طور پرہمیں مل جاتی اور اسے ہم سب اسے اپنے گھر والوں کے لیے توشہ سمجھ کر اپنے سامان میں رکھ لیتے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہوتا کہ ہم اب اپنے گھر جانے کے لیے آزاد ہیں۔
یہ روحانی مناظر آج بھی نظروں کے سامنے ہیں۔ایک بار خوبی قسمت سے دوران حال بڑےجناب حضور کے بھائی کی نظر کرم اس ناچیز پر پڑی، معانقہ میں لیا پھر حال میں اُن کے ہاتھ جب اوپر آسمان کی جانب اٹھتے تو دل کی کیفیت کیا بیان کروں دل آج بھی اُس لذت کو نہیں بھولا ہے۔ بزرگوں کے فیضان کی یہ شکل لفظوں میں بیان نہیں کی جا سکتی ایسا لگا جیسے ہوا میں پرواز کر رہا ہوں۔
من کہ در لنگر عشق تو تلالہ زدہ ام
سکّہ بر عین دوعالم بہ تجلیٰ زدہ ام
چوں بہ خلوت گہ صوفی بجز الا نہ بود
غم اِلا نہ خورم زانکہ ہم اعلیٰ زدہ ام
یعلم اللہ بہ طفیل شرف الحق امروز
خیمہ بر طارم گردون معلّٰی زدہ ام
(کلام حضرت مخدوم حسین نوشۂ توحید بلخی فردوسی قدس سرہ)
عشق کی ایسی لذت تھی جو بیان سے باہر ہے۔یہ باتیں صرف اس لیے بیان کر رہا ہوں کہ یہ آج کی جدید تہذیب کے دلدادہ ایک شخص کا ذاتی تجربہ ہے۔اس لیے جو لوگ صوفیوں کے حال و قال پر زیر لب مسکراتے ہیں وہ اپنی اصلاح کرلیں۔
مزار جنابحضور سید شاہ امجاد فردوسی ؒ |
یادوں کے جھروکے سے آنے والے باد صبا کے ان جھونکوں کی خوشبو کو قید کرتے ہوئے آج ہمیں اپنے اُن دو بھائیوں شاہ محمد صہیب عثمانی فردوسی اور شاہ محمد خبیب عثمانی فردوسی کی بے پناہ یاد آرہی ہے جنہوں نے حضرت مخدوم جہاں اور اُن کے سجادگان کے عشق و محبت میں گرفتار دل قضائے الٰہی کے آگے پیش کردیے۔ آ ج اُن کی روحیں یقیناً ا پنے بزرگوں کے ہمراہ اُس آستانے کے گرد چکر لگاتی ہوں گی اور اُن سب کی قدم بوسی کرتی ہوں گی۔حضرت مخدو م کی دعاؤں کے صدقے ہمارے بزرگان کو یقیناً حضرت مخدوم جہاں کا ساتھ نصیب ہوگا۔اور سب بارگاہ ِ الٰہی میں سرخ رو ہوں گے۔
عرس کی یہ تقریبات آج بھی جناب حضور حضرت مولانا سید شاہ سیف الدین فردوسی مدظلہ العالی کی سربراہی میں اسی طرح تزک و احتشام سے منائی جارہی ہیں اور مخدوم جہاں ؒ کا فیضان اسی طرح جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ اُن کی عمر میں برکت عطا کرے۔اور حضرت مخدوم جہاںؒ کے فیضان کو جاری رکھے۔ اور مخدوم جہاںؒ اور ان کے سجادگان کی ہم فقیروں پر نظر عنایت کا سلسلہ بھی اسی طرح جاری و ساری رکھے۔
0 comments:
Post a Comment