آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Saturday 30 May 2020

Dil Phir Tawaaf e Koye Aqeedat Ko jaye Hai - A memory on Urs e Makhdoom jehan - Chiraghaan۔p4

دل پھر طواف کوئے ”عقیدت“ کو جائے ہے
حضرت مخدوم جہاں ؒ کے ”چراغاں“ کے موقع پر دل کی گہرائیوں سے نکلی ایک تحریر
(4)

1975 سے 1995ء کا دور بہار کی تین خانقاہوں   کا زریں  دور رہا ہے۔خانقاہ معظم مخدوم جہاں بہار شریف کے جنابحضور سید شاہ محمد امجاد فردوسی ، خانقاہ برہانیہ کمالیہ،دیورہ کے سجادہ نشیں حضرت مولانا شاہ منصور احمد فردوسیؒ،اور خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ ،سملہ کے  سجادہ نشیں حضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسی سملوی ؒ  کی ذات گرامی نے بہار کی خانقاہوں میں چار چاند لگا دیے دنیا کی نگاہیں ان کی جانب متوجہ ہونے لگیں۔ دنیائے تصوف کے یہ تین درخشاں ستارے ایک سال رجب المرجب میں   خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ کےسالانہ  عرس کے موقع پر یکجا ہوئے تو ا ن کی تابانی دیکھنے کے قابل تھی۔ اس سال پہلی بار خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ سملہ میں جنابحضور سید شاہ محمد امجاد فردوسی   ؒ کی شرکت کا پروگرام بنا تھا۔ اباجان اور ہم سب بھائیوں کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔ جناب حضور کو لانے کے لیے بڑے بھائی جان شاہ محمد صہیب عثمانی فردوسی ابّاجان کی  ذاتی  ایمبیسڈر کار کو خود چلاکر جنابحضور کو لانے کے لیے بہار شریف گئے تھے مقصد صرف ”سارتھی“ بننے کی سعادت حاصل کرنا تھا۔وہ بڑی محبت و عقیدت سے جنابحضور کو سملہ لے کر آئے۔ جنابحضور ؒ نے عرس کی سبھی تقریبات میں انتہائی ذوق و شوق سے حصّہ لیا۔ مریدین جب اپنے پیر کی جنابحضور سے یہ محبت و عقیدت دیکھتے تو پھر اُن کی وارفتگی کا بھی ٹھکانہ نہ رہتا۔اُس سال عرس میں مخدوم جہاں کا خاص فیضان جاری تھا۔ عرس کی مجالس میں ان تینوں بزرگوں کی نشست کا انداز یہ تھا کہ وسط میں جنابحضور سید شاہ امجاد فردوسی ؒ تشریف رکھتے تھے۔اُن کے بائیں طرف اباجان پیر و مرشد حضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانیؒ اور دائیں طرف  بڑے ماموں جان حضرت  شاہ منصور احمد فردوسی ؒ بیٹھتے۔ بچّوں اور دیگر عزیزان کوحجرۂ قطب العصر کے صحن میں جگہ ملتی اور مریدین و متوسلین ایک دائرے کی شکل میں حجرہ اور مسجد سے ملحق سماع خانے میں بیٹھتے۔سامنے میدان، مسجد اور سڑک مریدین کے ہجوم سے بھری ہوئی تھی۔ ۸ رجب کو پیران سلاسل کے فاتحہ کے دوران مجھے اتفاقاً کسی کام سے اٹھ کر باہر جانا پڑا۔حجرے کی جانب واپس آتے ہوئے جب سامنے سے میری نظر ان تین بزرگوں پر پڑی تو یہ حسین اور بارعب  منظر میرے دل میں نقش ہوگیا۔ وہ منظر کتنا حسین تھا اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ فردوسی سلسلہ کے ان تین بزرگوں کے چہروں کی تابانی کا کیا عالم تھا اسے صرف محسوس کیا جاسکتا ہے۔ہمیں ناز ہے  ان آنکھوں پر کہ جس نے  ان بزرگوں کو نہ صرف اتنے قریب سے دیکھا  بلکہ ان کی صحبت سے فیض بھی اٹھایا۔اور اُن سے خوب دعائیں بھی لیں۔
گاہے گاہے بازخواں ایں قصّہ پارینہ را۔

(جاری)

0 comments:

Post a Comment

خوش خبری