آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Sunday 27 September 2020

Ehsaan Ka Badla Ehsaan By Dr.Zakir Hussain NCERT Urdu Class IX

احسان کا بدلہ احسان 
        ڈاکٹر ذاکر حسین

بہت دنوں کا ذکر ہے جب ہر جگہ نیک لوگ بستے تھے اور دعا فریب بہت ہی کم تھا۔ ہندو مسلمان ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے۔

کوئی کسی پر زیادتی نہیں کرتا تھا اور جو جس کا حق ہوتا تھا، اسے مل جایا کرتا تھا ۔ ان دنوں ایک شہر تھا: عادل آباد۔ اس عادل آباد میں ایک بہت دولت مند دکان دار تھا۔ دور دور کے ملکوں سے اس کا لین دین تھا۔ اس کے پاس ایک گھوڑا تھا جو اس نے بہت دام دے کر ایک عرب سے خریدا تھا۔

ایک دن کا ذکر ہے کہ وہ دکان دار تجارت کی غرض سے گھوڑے پر سوار ہو کر جارہا تھا کہ بے خیالی میں شہر سے بہت دور نکل گیا اور ایک جنگل میں جا نکلا ۔ ابھی یہ اپنی دھن میں آگے جاہی رہا تھا کہ پیچھے سے چھے آدمیوں نے اس پر حملہ کر دیا۔ اس نے ان کے دو ایک وار تو خالی دیے لیکن جب دیکھا کہ وہ چھے ہیں تو سوچا کہ اچھا نہیں ہے کہ ان سے بچ کرنکل چلوں ۔ اس نے گھوڑے کو گھر کی طرف پھیرا ، لیکن ڈاکوؤں نے بھی اپنے گھوڑے پچھے ڈال دیے۔ اب تو عجیب حال تھا۔ سارا جنگل گھوڑوں کی ٹاپوں سے گونج رہا تھا ۔ سچ یہ ہے کہ دکان دار کے گھوڑے نے اسی دن اپنے دام وصول کرادیے۔ کچھ دیر بعد ڈاکوؤں کے گھوڑے پیچھے رہ گئے ۔ گھوڑا دکان دار کی جان بچا کر اسے گھر لے آیا۔

اس روز گھوڑے نے اتنا زور لگایا کہ اس کی ٹانگیں بے کار ہو گئیں ۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ کچھ دنوں بعد غریب کی آنکھیں بھی جاتی رہیں ۔ لیکن دکان دار کو اپنے وفادار گھوڑے کا احسان یاد تھا۔ چناں چہ اس نے سائیس کو حکم دیا کہ جب تک گھوڑا جیتا رہے، اس کو روز صبح وشام چھ سیر دانہ دیا جائے اور اس سے کوئی کام نہ لیا جائے۔

لیکن سائیس نے اس حکم پر عمل نہ کیا۔ وہ روز بروز گھوڑے کا دانہ کم کرتا گیا۔ یہی نہیں بلکہ ایک روز اسے اپاہج اور اندھا سمجھ کر اصطبل سے نکال دیا۔ بے چارہ گھوڑا رات بھر بھوکا پیاسا، بارش اور طوفان میں باہر کھڑا رہا۔ جب صبح ہوئی تو جوں توں کر کے وہاں سے چل دیا۔

اسی شہر عادل آباد میں ایک بڑی مسجد تھی اور ایک بڑا مندر ۔ ان میں نیک ہندو اور مسلمان آ کر اپنے اپنے ڈھنگ سے عبادت کرتے اور خدا کو یاد کرتے تھے۔ مندر اور مسجد کے بیچ ایک بہت اونچا مکان تھا اس کے بیچ میں ایک بڑا سا کمرا تھا۔ کمرے میں ایک بہت بڑا گھنٹا لٹکا ہوا تھا اور اس میں ایک لمبی سی رسی بندھی ہوئی تھی ۔ اس گھر کا دروازہ دن رات کھلا رہتا۔ شہر عادل آباد میں جب کوئی کسی پر ظلم کرتا یا کسی کا مال دبالیتا یا کسی کا حق مار لیتا تو وہ اس گھر میں جاتا، رسی پکڑ کر کھینچتا۔ یہ گھنٹا اس زور سے بچتا کہ سارے شہر کو خبر ہو جاتی ۔ گھنٹے کے بجتے ہی شہر کے سچے ، نیک دل ہندومسلمان وہاں آجاتے اور فریادی کی فریاد سن کر انصاف کرتے ۔ اتفاق کی بات کہ اندھا گھوڑا بھی صبح ہوتے ہوتے اس گھر کے دروازے پر جا پہنچا۔ دروازے پر کچھ روک ٹوک تو تھی نہیں ، گھوڑا سیدھا گھر میں گھس گیا۔ بیچ میں رسی تھی۔ یہ غریب مارے بھوک کے ہر چیز پر منھ چلاتا تھا، رسی جو اس کے بدن سے لگی تو وہ اسی کو چبانے لگا۔ رسی جو ذرا کھنچی تو گھنٹا بجا۔ مسلمان مسجد میں نماز کے لیے جمع تھے۔ پجاری مندر میں پوجا کر رہے تھے۔ گھنٹا جو بجا تو سب چونک پڑے اور اپنی اپنی عبادت ختم کر کے اس گھر میں آن کر جمع ہو گئے ۔ شہر کے پنچ بھی آگئے ۔ پنچوں نے پوچھا : ” یہ اندھا گھوڑا کس کا ہے؟‘‘ لوگوں نے بتایا: ’’ یہ فلاں تا جر کا ہے۔ اس گھوڑے نے تاجر کی جان بچائی تھی ۔‘‘ پوچھا گیا تو معلوم ہوا کہ تاجر نے اسے نکال باہر کیا ہے۔ پنچوں نے تاجر کو بلوایا ۔ ایک طرف اندھا گھوڑا تھا، اس کی زبان نہ تھی جو شکایت کرتا۔ دوسری طرف تاجر کھڑا تھا، شرم کے مارے اس کی آنکھیں جھکی تھیں ۔ پنچوں نے کہا: تم نے اچھا نہیں کیا ۔ اس گھوڑے نے تمھاری جان بچائی اور تم نے اس کے ساتھ کیا کیا ؟ تم آدمی ہو، یہ جانور ہے آدمی سے اچھا تو جانور ہی ہے۔ ہمارے شہر میں ایسا نہیں ہوتا ۔ ہر ایک کو اس کا حق ملتا ہے اور احسان کا بدلہ احسان سمجھا جا تا ہے۔

تاجر کا چہرہ شرم سے سرخ ہوگیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے ۔ بڑھ کر اس نے گھوڑے کی گردن میں ہاتھ ڈال دیا۔

اس کا منہ چوما اور کہا: ”میرا قصور معاف کر“ یہ کہہ کر اس نے وفادار گھوڑے کو ساتھ لیا اور گھر لے آیا۔ پھر اس کے لیے ہر طرح کے آرام کا انتظام کر دیا۔
ڈاکٹر ذاکر حسین
(1897 - 1969)
ڈاکٹر ذاکر حسین حیدر آباد میں پیدا ہوئے ۔ ان کا تعلق قصبہ قائم گنج ضلع فرخ آباد ( اتر پردیش) کے ایک معز ز پٹھان خاندان سے تھا۔ ان کی ابتدائی تعلیم اسلامیہ اسکول، اٹاوہ ( یوپی) میں ہوئی۔ وہ اعلی تعلیم کے لیے علی گڑھ ،الہ آباد اور جرمنی تک گئے۔ جرمنی سے انھوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
ڈاکٹر ذاکر حسین کی شخصیت کے کئی اہم پہلو تھے۔ وہ بیک وقت ایک صاحب طرز ادیب، ماہرتعلیم قومی رہنما اور سیاست داں تھے۔ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے وائس چانسلر رہے۔ انھوں نے صوبہ بہار کے گورنر ، نائب صدر اور صدر جمہوریہ ہند کی حیثیت سے ملک و قوم کی غیر معمولی خدمات انجام دیں۔
ذاکر صاحب کا ادبی سفر دنیا کی چند اہم کتابوں کے ترجموں سے شروع ہوا۔ ان تر جموں میں مشہور فلسفی افلاطون کی کتاب "ریاست" اور اڈون کینن کی "سیاسی اقتصادیات" وغیرہ شامل ہیں ۔ انھوں نے جرمنی زبان میں گاندھی جی پر ایک کتاب لکھی۔ بچوں کی تعلیم و تربیت اور بچوں کے ادب سے انھیں خصوصی دلچسپی تھی۔ انھوں نے بچوں کے لیے متعدد مضامین اور کہانیاں لکھیں۔ ’’ابو خاں کی بکری‘‘، ’’ لومڑی کی چالاکی‘‘ ،’’ مور کا حسن“، ”اونٹ کا ضبط“، ”اُسی سے ٹھنڈا اُسی سے گرم“ اور "گھوڑے کی نرمی‘‘ وغیرہ ان کی مشہور کہانیاں ہیں ۔
سوچیے اور بتائیے
1.ڈاکووں نے دکان دار پر کیوں حملہ کیا؟
جواب:‌تاجر اپنے گھوڑے پر سوار تھا بےخیالی میں وہ بہت دور چلا گیا اور  جنگل  جاپہنچا، وہاں ڈاکو آگئے۔ اتاجر کو اس کے گھوڑے کے ساتھ سنسان جنگل میں دیکھ کر ڈاکوؤں حملے کردیا-
2. دکان دار کو گھوڑے کے دام کس طرح وصول ہوئے؟
جواب:جب ڈاکوؤں نے تاجر  پر حملہ کردیا تب اسے بچانے کے لیے گھوڑا  بہت تیز دوڑا اور تاجر کی جان بچائی۔ اس طرح گھوڑے کے دام دکان دار کو وصول ہو گئے-
3.سائیس کے برتاو کی وجہ سے گھوڑے کو کیا کیا تکلیفیں اٹھانی پڑیں؟
جواب:جب گھوڑا بوڑھا ہوگیا توسائیس دن بدن اس کا دانا کم کرتا گیا اور ایک دن اس  نے اپاہج اور اندھے  گھوڑے کو  اصطبل سے نکال دیا بیچارہ گھوڑا رات بھر بھوکا پیاسا  بارش اور طوفان میں باہر کھڑا رہا جب صبح ہوئی تو گھوڑا وہاں سے چلا گیا۔
4.اونچے مکان میں گھنٹا کیوں لٹکایا گیا تھا؟
جواب:مندر اور مسجد کے بیچ میں ایک بڑا مکان تھا۔ وہاں ایک گھنٹا لگا تھ۔ا جب بھی شہر میں کسی پر ظلم ہوتا،  کسی کا حق مارا جاتا تو وہ وہاں آتا اور گھنٹا بجاتا گھنٹے کی آواز سے پورے شہر کو خبر ہوجاتی سارے بچے اور نیک لوگ آجاتے  اور پھر اُس کے ساتھ انصاف کرتے۔
5.گھوڑے نے گھنٹا کس طرح بجایا؟
جواب: گھوڑے نے رسی کو چارہ سمجھ کر کھانے کی کوشش کی۔رسی کے ہلنے سے گھنٹا بجنے لگا۔
6.تاجر کا چہرہ شرم سے کیوں سرخ ہوگیا؟
جواب:سائیس نے اس وفادار گھوڑے کے ساتھ جو سلوک کیا تھا اسے سن کر تاجر کا چہرہ شرم سےسرخ ہوگیا وہ خود کو ہی اس کی حالت کا ذمے دار سمجھنے لگا۔

قواعد:

گھوڑے پر سوار ہو کر جارہا تھا۔

بہت دنوں کا ذکر ہے جب ہر جگہ نیک لوگ بستے تھے۔

معلوم ہوا کہ تاجر نے اسے نکال باہر کیا ہے۔

اوپر دیے گئے جملوں میں جن کاموں کے بارے میں بتایا جارہا ہے وہ پہلے ہو چکے ہیں یعنی یہ گزرے ہوئے وقت 

کی باتیں ہیں ۔ گزرے ہوئے وقت / زمانہ کو ماضی کہتے ہیں

 


0 comments:

Post a Comment

خوش خبری