آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Friday 26 June 2020

Oas By Khwaja Hasan Nizami NCER Class IX Chapter 4


اوس
خواجہ حسن نظامی

برسات کے موسم میں کوئی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کا خواست گار ہے۔ کسی کو اودی اودی کالی کالی گھٹائیں پسند ہیں۔ کسی کا دل بادلوں کی کڑک اور بجلی کی چمک سے مست ہوجاتا ہے۔ مجھ کو تو برسات کی یہ ادا بھاتی ہے کہ مینہ برس کر کھل جاتا ہے اور صاف آسمان کی رات گزر جاتی ہے توصبح کے وقت درختوں، پھولوں اور جنگل کی گھاس کی عجیب شان ہوتی ہے ۔ اوس کے قطرے پھولوں کی پتیوں پر ایسے چپ چاپ نظر آتے ہیں جیسے رات کو آسمان کے تارے تھے۔ کیا خبر ہے کہ رات کے وقت تارے ٹوٹ پڑے ہوں اور یہ انھی کی گل افشانیاں ہوں۔
کہتے ہیں کہ اوس میں سونا، اوس میں پھرنا جسمِ انسانی کے لیے مضر ہے۔ خبر نہیں یہ کیوں کہتے ہیں ۔ خدا کی ساری مخلوق تو اوس باری‘ سے تروتازہ اور نہال ہو جاتی ہے ۔ تو انسان بھی ایک مخلوق ہے۔ اُس کو اِس سے کیوں کر نقصان پہنچ سکتا ہے؟
یہ تو سائنس والے بتائیں گے کہ اوس کیا چیز ہے کہاں سے آتی ہے ، کیوں آتی ہے؟ فقیر تو اتنا ا جانتا ہے کہ اوس قدرتِ ربّانی کا عجیب و غریب جلوہ ہے۔ جن کی آنکھ سویرے کو بیدار ہونے کی عادی ہے وہ صبح کے  وقت سورج نکلنے سے پہلے اوس میں ذاتِ الٰہی کے ہزاروں جلووں کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔ ایک شخص کو دیکھا . کہ باغ میں جوہی کے پھولوں کے پاس جھکا ہوا کچھ دیکھ رہا تھا اور ایسا مستغرق تھا کہ دنیا و مافیہا کی خبر نہیں تھی ۔ در حقیقت جوہی کے پھول پر اوس کا انداز قیامت کا ہوتا ہے۔ چھوٹا پھول، نازک پتّیاں اور اس پراوس کی ننّھی ننّھی بوندیں، حِس و حرکت کرنے والے دل کے لیے محشر سے کم نہیں ۔ اوس کی عمر بہت تھوڑی ہے۔ رات کو پیدا ہوتی ہے اور سورج نکتے وقت مر جاتی ہے۔ اوس کی سیرابی بارانِ رحمت کی طرح ہر خاص و عام، چھوٹے بڑے، اونچے نیچے کے لیے یکساں مفید ہے مگر مینہ سورج کا مقابلہ کرتا ہے۔ بادلوں کے لشکر لاتا ہے تو آفتاب کو پوشیده ہونا پڑتا ہے ۔ مگر اوس بے چاری بڑی ڈر پوک صُلح کُل ہے۔ آسمان پر جب سورج کا عمل دخل نہیں رہتا اور بادل بھی اپنے گھروں سے چلے جاتے ہیں اس وقت بی نمودار ہوتی ہے اور سورج کے نکلنے کے ساتھ ہی جان دے دیتی ہے۔
انسان اگر یہ شکایت کرے تو حق بجانب ہے کہ ایسی تمام درو دیوار کو شجر و حجر کو تر کردیتی ہے۔ مگر کسی پیاسی زبان کی تشنگی دور نہیں کرسکتی ۔ اردو زبان میں ایک مَثَل ہے کہ اوس جب پڑتی ہے تو ہاتھی بھیگ جاتا ہے۔ گویا ہاتھی اوس میں نہا لیتا ہے مگر چڑیا کی پیاس نہیں بجھتی ۔ یہ قدرت کا ایک گہرا راز ہے۔ اس میں اوس کی کچھ شکایت نہ کرنی چاہیے۔ بہرحال الله تعالیٰ کی نشانیوں میں سے اوس بھی ایک نشانی ہے، جس کو دیکھ کر دلِ حق پرست میں عرفانِ یزداں کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔
خواجہ حسن نظامی
(1878 - 1955)
خواجہ حسن نظامی دہلی کے ایک معزز خاندان کے فرد تھے۔ ان کا بچین تنگ دستی میں گزرا لیکن اپنی ذاتی کوششوں سے انھوں نے بہت جلد ترقی کی۔ وہ خواجہ حضرت نظام الدین اولیا کے عاشقوں میں سے تھے۔ اس عشق و محبت کے اثرات ان کی تحریروں میں نمایاں نظر آتے ہیں۔
اردو زبان و ادب میں ان کا مرتبہ بلند ہے۔ انھیں مصور فطرت کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ انھوں نے کئی کتابیں لکھیں جن میں غدر دہلی کے افسانے اور سی پاره دل کافی مشہور ہیں۔
ان کے مضامین کی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر نہایت ہی معمولی چیزوں پر لکھے گئے ہیں ۔ لیکن خواجہ صاحب نے بات میں سے بات پیدا کر کے ان چھوٹی چھوٹی چیزوں سے جو مطالب نکالے ہیں وہ بڑے سبق آموز ہیں۔ خواجہ صاحب کے لکھنے کا ایک مخصوص انداز ہے۔
معنی یاد کیجیے۔
 اوس باری : اوس کا برسنا
خواستگار :  طلب گار، چاہنے والا
اودی اودی : ہلکا بیگنی رنگ
مینہ : بارش
گل افشانیاں : پھول بکھیرنا
مُضر : نقصان دہ
مخلوق : پیدا کی ہوئی چیزیں اور انسان وغیره
نہال ہونا : خوش ہونا
قدرتِ ربّانی : خدا کی قدرت
بیدار ہونا : جاگنا
مستغرق : ڈوبا ہوا
 دنیا وما فيها : دنیا اور دنیا میں جوکچھ ہے
محشر : قیامت
سیرابی : شادابی
پارانِ رحمت : رحمت کی بارش
یکساں : ایک جیسا
پوشیدہ : چھپا ہوا
صُلح کُل : سب سے مل جل کر رہنا ، سب سے بنا کر رکھنا
نمودار ہونا : ظاہر ہونا
شجر : درخت
حق بجانب :  سچائی کے ساتھ، حق کی طرف
حجر : پتّھر
تشنگی : پیاس
دلِ حق پرست : خدا پرست دل
عرفانِ یزداں : خدا کی پہچان

سوچیے اور بتائیے
1. اوس کے قطریں  پھولوں کی پتیوں پر کیسے لگتے ہیں؟
جواب: اوس کے قطرے پھولوں کی پتیوں پر ایسے چپ چاپ نظر آتے ہیں جیسے رات کے تارے ٹوٹ گئے ہوں اور یہ انہی کی گل افشانیاں ہوں۔

2.خدا کی ساری مخلوق کس چیز سے تروتازہ اور نہال ہوتی ہے؟
جواب:خدا کی ساری مخلوق اوس گرنے سے تروتازہ اور نہال ہوتی ہے۔

3.مصنف نے اوس کو قدرتی ربانی کا جلوہ کیوں کہا ہے؟
جواب:مصنف نے اوس کو قدرتی ربانی کا جلوہ  اس لئے کہا ہے کیونکہ  جن لوگوں کی آنکھ سویرے بیدار ہونے کی عادی ہیں وہ صبح سورج نکلنے سے پہلے اوس کو دیکھ کر  ذاتِ الٰہی کے ہزاروں جلوؤں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

4.اوس کے بارے میں کون سی ضرب المثل مشہور ہے؟
جواب: اوس جب پڑتی ہے تب ہاتھی بھیگ جاتا ہے گویا ہاتھی اوس میں نہا لیتا ہے مگر چڑیا کی پیاس نہیں بجھتی ہے۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے۔
اوس : رات بہت زیادہ اوس گری۔
مخلوق : انسان بھی خدا کی مخلوق ہیں۔
عجیب و غریب : ڈیناسور ایک عجیب وغریب جانور ہے۔
عمل دخل : دسویں کے ریزلٹ میں ٹیچر کا کوئی عمل دخل نہیں
صُلح کُل : ہمیں ہمیشہ صُلح کُل سے کام لینا چاہیے
نیچے لکھے لفظوں کے واحد اور جمع بنائیے۔
جذبہ : جذبات
مشاہدہ : مشاہدے
جلوے : جلوہ
خبر : اخبار
گھٹائیں : گھٹا
بوند : بوندیں

نیچے

1 comment:

خوش خبری