آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Saturday 14 November 2020

Mirza Chapati by Ashraf Saboohi NCERT Class 10 Gulzar e Urdu


مرزا چپاتی 
اشرف صبوحی

خدا بخشے مرزا چپاتی کو، نام لیتے ہی صورت آنکھوں کے سامنے آگئی ۔ گورا رنگ، بڑی بڑی ابلی ہوئی آنکھیں، لمبا قد شانوں پر سے ذراجھکا ہوا، چوڑا شفاف ماتھا، تیموری ڈاڑھی، چنگیزی ناک مغلئی ہاڑ ۔ لڑکپن تو قلعے کی در و دیوار نے دیکھا ہوگا۔ جوانی دیکھنے والے بھی ٹھنڈا سانس لینے کے سوا کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ڈھلتا وقت اور بڑھاپا ہمارے سامنے گزرا ہے۔ لٹے ہوئے عیش کی ایک تصویر تھے۔ رنگ روغن اتراہوامحمد شاہی کھلونا تھا جس کی کوئی قیمت نہ رہی تھی۔
کہتے ہیں کہ دلی کے آخری تاج دار ظفر کے بھانجے تھے۔ ضرور ہوں گے۔ پوتڑوں کی شاه زادگی ٹھیکروں میں دم توڑ رہی تھی ، لیکن مزاج میں رنگیلا پن وہی تھا۔ جلی ہوئی رسی کے سارے بل گن لو۔ جب تک جیے پرانی وضع کو لیے ہوئے جیے۔ مرتے مرتے نہ کبوتر بازی چھوٹی، نہ پتنگ بازی ۔ مرغےلڑائے یا بلبل، تیرا کی کا شغل رہا یا شعبدے بازی کا ۔ شطرنج کے بڑے ماہر تھے۔ غائب کھیلتے تھے۔ خدا جانے غدر میں یہ کیوں کر بچ گئے اور جیل کے سامنے والے خونی دروازے نے ان کے سر کی بھینٹ کیوں نہ قبول کی؟ انگریزی عمل داری ہوئی۔ بدامنی کا کوئی اندیشہ نہ رہا تو مراحم خسروانہ کی لہر اٹھی۔ خاندان شاہی کی پرورش کا خیال آیا پینشنیں مقرر ہوئیں ۔ مگر برائے نام ۔
لیکن صاحب عالم مرزا فخرالدین عرف مرزا فخر والملقب بہ مرزا چپاتی نے مردانہ وار زندگی گزاری۔ گھر بار جب کبھی ہوگا ، ہوگا۔ ہماری جب سے یاد اللہ ہوئی دم نقد ہی دیکھا۔ قلعے کی گود میں بازیوں کے سوا اور سیکھا ہی کیا تھا جو بگڑے وقت میں آبرو بناتا۔ اپنے والد رحیم الدین حیا سے ایک فقط شاعری ورثے میں ملی تھی، پڑھنا لکھنا آتا نہ تھا۔ پھر زبان تو تلی مگر حافظہ اس بلا کا تھا کہ سوسو بند کے مسدس از بر تھے۔ کیا مجال کہ کہیں سے کوئی مصرع بھول جائیں ۔ گویا گراموفون تھے، کوک دیا اور چلے۔ ایک دن کسی شخص نے مرزا صاحب کے سامنے یہ مصرع پڑھا
          سر عدو کا ہو نہیں سکتا میرے سر کا جواب
اور اس پر مصرع لگانے کی فرمائش کی ۔ مرزا صاحب نے اسی وقت بہترین مصرع لگا کر اس طرح ایک اعلا پایہ کا شعر بنادیا۔
          شہ نے عابد سے کہا بدلہ نہ لینا شمر   سے
          سرعدو کا ہونہیں سکتا میرے سر کا جواب
قلعہ مرحوم کے حالات اور موجودہ تہذیب پر ان کی نوکا جھونکی جتنی مزہ دیتی تھی، وہ میرا دل ہی جانتا ہے۔ کبھی کبھی وہ مجھے پتنگ بازی کے دنگلوں میں لے جاتے تھے۔ مرغ اور بلبلوں کی بالیاں بھی دکھائیں ۔ تیراکی کے میلوں میں بھی لے گئے۔ کبوتر بھی مجھے دکھا دکھا کر اڑائے۔ سب کچھ کیا، میں جہاں تھا وہیں رہا۔ ہر جگہ ان کا دماغ کھایا۔ انھیں بھی میری خاطر ایسی منظور تھی کہ بادل خواستہ یا ناخواستہ وہ سب کچھ مجھے بتاتے۔
ایک دن دوپہر کے کوئی دو بجے ہوں گے۔ برسات کا موسم تھا۔ کئی گھنٹے کی موسلا دھار بارش کے بعد ذرا بادل چھٹے تھے کہ حضرت معمول کے خلاف میرے پاس تشریف لائے۔ منہ بنا ہوا، آنکھیں ابلی ہوئی۔ چہرے سے غصہ ٹپک رہا تھا۔ میں نے کہا خدا خیر کرے۔ آج تو صاحب عالم کے تیور کچھ اور ہیں ۔ کئی منٹ تک خاموش بیٹھے رہے اور میں ان کا منہ تکتا رہا۔ ذرا سانس درست ہوا تو بولے ’’سید! اس پٹھانچے کا ٹڑ مغزاپن بھی دیکھا۔ بڑا افلاطون بنا پھرتا ہے۔ باوا تو جھک جھک کر مجرا کرتے کرتے مر گیا، یہ بابو بن کر بابو کی طرح دلتیاں جھاڑتا ہے۔ ہے شرط کہ چار جامہ کس دوں، ساری ٹرفش نکل جائے گی۔
میں : میں بالکل نہیں سمجھا۔ ہوا کیا؟ کون پٹھانچہ؟ مرزا : ایسے ننھے سمجھے ہی نہیں ۔ میاں! وہی کالے خاں کا لڑکا جو کچہری میں نوکر ہے۔
میں : منیر۔ کیا اس نے کچھ گستاخی کی؟
مرزا : گستاخی ! نہ ہوا ہمارا زمانہ، خاندان بھر کو کولھو میں پسوا دیتا۔
میں : بڑا نالائق ہے۔ کیا بات ہوئی؟
مرزا : ہوا یہ کہ میں کبوتروں کا دانہ لینے نکلا۔ گلی کے نکڑ پر بنیے کی دکان ہے۔ نالیوں میں دھائیں دھائیں پانی بہہ رہا تھا۔ ساری گلی میں کیچڑ ہی کیچڑ تھی۔ محلے والوں نے جا بجا پتھر رکھ دیے تھے کہ آنے جانے والے ان پر پائو (پاؤں) رکھ کر گزر جائیں۔ دیکھتا کیا ہوں وہ اکڑے خاں بیچ گلی میں کھڑے ہوئے ایک خوانچے والے سے جھک جھک کر رہے ہیں ۔ گلی تنگ، کیچڑ اور پانی ۔ پتھروں پر ان کا قبضہ۔ کوئی بھلا اس پر گزرے تو کہاں سے؟ میں نے کہا کہ میاں راستہ چھوڑ کر کھڑے ہو۔ یہ کون سی انسانیت ہے کہ سارا راستہ روک رکھا ہے۔ ٹرا کر جواب دیا کہ چلے جاؤ۔ مجھے تاؤ آ گیا۔ بولا کہ تمھارے سر پر سے جاؤں ۔ بس پھر کیا تھا جامے سے باہر نکل پڑا۔ وہ تو پاس پڑوس کے دو چار آدمی نکل آئے اور بیچ بچاؤ
کرا دیا ورنہ آج یا وہ نہیں تھایا میں ۔ خیر جاتا کہاں ہے۔ آج کے تھپے آج ہی نہیں جلا کرتے۔
میں : صاحب عالم ! آپ اپنی طرف دیکھیے ۔ جوظرف میں ہوتا ہے وہی چھلکتا ہے۔ آنے دیجیے وہ ڈانٹ بتاؤں کہ ہاتھ جوڑتے۔
بنے......................... سنا ہے کہ قلعے کے آخری دور ہی میں شہر کی حالت بدل گئی تھی ۔ نہ چھوٹوں کا رکھ رکھاؤ رہا تھانہ بڑوں کا ادب ۔
مرزا : توبہ توبہ تم نے تو دلی کو دم توڑتے بھی نہیں دیکھا۔ اس کا مردہ دیکھا ہے۔ مردہ، وہ بھی لاوارث ! میاں شہر آبادی کی باتیں قلعے والوں کے صدقے میں تھیں۔ جیسے جیسے وہ اٹھتے گئے دلی میں اصلیت کا اندھیرا ہوتا گیا۔ اب تو نئی روشنی ہے نئی باتیں ۔ اور تو خدا بخشے دلی کی صفتیں تم کیا جانو۔ پڑھے لکھے ہو۔ شاعری کا بھی شوق ہے۔ بھلا بتاؤ تو سہی اردو کی کتنی قسمیں ہیں؟ میں نے حیران ہو کر پوچھا” صاحب عالم اردو کی قسمیں کیسی؟ یہ بھی ایک کہی ۔ مجھ پر بھی دائو کرنے لگے۔‘‘’ واہ بھئی معلوم ہوا کہ تم دلی والے نہیں کہیں باہر سے آ کر بس گئے ہو ۔" میں شرمندہ تھا کہ کیا جواب دوں ۔ میرے نزدیک تو صرف ایک ہی قسم کی اردوتھی ۔ زیادہ سے زیادہ عوام وخواص کا فرق سمجھ لو مگر یہ قسمیں کیا معنی؟ مجھے چپ دیکھ کر مرزا مسکرائے اور کہنے لگے" سید پریشان نہ ہو۔ مجھ سے سن اور یاد رکھ۔ بھولیو نہیں پھر پوچھے گا تو نہیں بتاؤں گا۔" میں بڑے شوق سے متوجہ ہوا اور انھوں نے انگرکھے کے دامن سے منہ پونچھ کر کہنا شروع کیا۔ دیکھ اول نمبر پرتو اردوئے معلیٰ ہے جس کو ماموں حضرت اور ان کے پاس اٹھنے بیٹھنے والے بولتے تھے۔ وہاں سے شہر میں آئی اور قدیم شرفا کے گھروں میں آچھپی ۔ دوسرا نمبر قل آعوذ اردو کا ہے جو مولویوں، واعظوں اور عالموں کا گلا گھوٹتی رہتی ہے۔ تیسرے خود رنگی اردو۔ یہ ماں ٹینی باپ کلنگ والوں نے رنگ برنگ کے بچے نکالے ہیں۔ اخبار اور رسالوں میں اسی قسم کی اردو ادب کا اچھوتا نمونہ کہلاتا ہے۔ چوتھے ہڑدنگی آردو، مسخروں اور آج کل کے قومی بلم ٹیروں کی منہ پھٹ زبان ہے۔ پانچویں لفنگی اردو ہے جسے آ کا بھائیوں کی لٹھ مار ، کڑاکے دار بولی کہو یا پہلوانوں، کرخنداروں، ضلع جگت کے ماہروں، پھبتی باز وں اور گلیروں کا روز مرہ ۔ چھٹے نمبر پر فرنگی اردو ہے جو تازہ ولایت انگیز ۔ ہندستانیوں عیسائی ٹوپ لگائے ہوئے کرانی، دفتر کے بابوں چھاونیوں کے سوداگر وغیرہ بولتے ہیں ۔ پھر ایک سربھنگی اردو ہے یعنی چرسیوں، بھنگڑوں، بے نواؤں اور تکیے داروں کی زبان ‘‘ میں نے کہا آج تو بہرہ کھلا ہوا ہے۔ بھئی خوب تقسیم ہے کیوں نہ ہو، آخر شاہ جہانی دیگ کی کھر چن ہے۔ میری طرف دیکھ کر ایک گہرا ٹھنڈا سانس بھرا۔ آنکھوں میں آنسو آ گئے اور کہنے لگے ”سید! ابھی تم نے کیا دیکھا ہے اور کیا سنا ہے۔ قلعہ آباد ہوتا، در بار دیکھے ہوتے تو اصلی زبان کا بناو سنگار نظر آتا۔ اب تو ہماری زبان بیسنی ہوگئی ہے۔ وہ لچیلی چونچلے کی باتیں، شریفوں کے انداز، امیروں کی آن، سپاہیوں کی اکڑفوں، وہ خادمانہ اور خور دانہ آداب وانکسار، شاعروں کے لچھے دار فقرے، شہروالوں کا میل جول، پرانے گھرانوں کے رسم و رواج، وہ مروت وہ آنکھ کا لحاظ کہاں؟ مجلسوں محفلوں کا رنگ بدل گیا، میلے ٹھیلے، پرانے کرتب، اگلے ہنرسب مٹتے جاتے ہیں ۔ اشراف گردی نے بھلے مانسوں کو گھر بیٹھا دیا۔ فیل نشین، پالکیوں میں بیٹھنے والے کھپر یلوں میں پڑے ہوئے ہیں ۔ مفلسی، ناداری نے رذالوں کے آگے سر جھکوا دیے۔ موری کی اینٹ چوبارے چڑھ گئی ۔ کم ظرفوں، ٹینیوں کے گھر میں دولت پھٹ پڑی۔ زمانہ جب کمینوں کی پشتی پر ہو تو خاندانیوں کی کون قدر کرتا؟ پیٹ کی مارنے صورتیں بگاڑ دیں، چال چلن میں فرق آ گیا۔ ہمت کے ساتھ حمیت بھی جاتی رہی۔
مرزا نے یہ تقریر کچھ ایسے عبرت خیز لفظوں میں کی کہ میرا دل بھر آیا اور میں نے گفتگو کا پہلو بدلنے کی کوشش کی۔
میں : کیوں حضت ، غدر سے پہلے دلی والوں کا لباس کیا تھا؟ دو چار پرانی وضع کے لوگ دیکھنے میں آئے ہیں ۔ ان کی برزخ توکچھ عجیب  ہی سی معلوم ہوتی تھی۔
مرزا : جھوٹے ہو تم نے کہاں دیکھا ہوگا۔ کوئی بہروپیا یا نقال نظر آ گیا ہوگا۔ میاں ان وقتوں میں ادنا اعلا میں یک رنگی نہ تھی.................... در باری اور بازاری لوگ لباس سے پہچانے جاتے تھے۔ عام طور پر اپنی شکل و شباہت، تن وتوش، جسامت اور پیشے کے مطابق کپڑا پہنا جاتا تھا کہ دور سے دیکھ کر پہچان لیں کہ کس خاندان کا اور کیسا آدمی ہے؟ اگر نوجوان ہے تو ایک ایک ٹانکے پر جوانی برستی ہے۔ بوڑھا ہے تو پیری اور سادگی ٹپکتی ہے۔ بانکوں کا بانک پن ، چھیلاؤں، ملاؤں کی ملائی ، پہلوانوں کی پہلوانی، رذالوں کی رذالت اور شریفوں کی شرافت لباس سے صاف بھانپ لی جاتی تھی ۔ چھوٹے آدمی جس پوشاک کو اختیار کر لیتے تھے، بھلے مانس چھوڑ دیتے تھے۔ دو پلڑی ٹوپیوں کا عام رواج تھا مگر چوگوشی، پچ گوشی، گول، مغلئی، تاج دار ٹوپیاں مغل بچے اور شریف زادے پہنتے تھے۔ قلعے کے آنے جانے والوں میں مندیلیں، بنارسی دوپٹے ، گولے دار پگڑیاں مسلمانوں کا حصہ تھا۔ درباری جامہ بھی پہنا کرتے تھے۔ أمرا چغہ سرپچ اور شہزادوں میں کلغیاں بھی مروج تھیں۔ ہندوؤں میں پہلے جامے کا زیادہ دستور تھا، پھر نیم جامہ اور الٹی چولی کے انگر کھے پہننے لگے۔ علاوہ ازیں الخالق، اچکن، قبا، عبا، جبہ ، چغہ، مرزی وغیرہ بھی استعمال ہوتے تھے۔ پایجامے یا تو تنگ موری کے یا اک برے یا غرارے دار ہوتے تھے۔ ڈاڑھی مونچھوں کی وضع بھی ہر خاندان اور ہر پیشہ ور کی علاحدہ کی۔
  میں : مگر یہاں والوں کو فضول کھیلوں، دولت کو لٹانے والی بازیوں اور بے کار مشغلوں کے سوا کام ہی نہ تھا۔ مرزا : تم کیا جانو کہ وہ بازیاں اور ان کے مشغلے کیسے کمال کے تھے۔ ویسے ہنر آج کوئی نہیں پیدا کر لیتا۔ زہرہ پھٹ جائے زہرہ۔ بات یہ ہے کہ ساری چیزیں وقت سے ہوتی ہیں ۔ نا مردوں کا زمانہ ہے تو نا مردوں کی سی باتیں بھی ہیں ۔ شریفوں کا شغل ڈنڑ، مگدر، با نک، بنوٹ پھکیتی ، اکنگ، تیراندازی، نیزہ بازی، پنجہ کشی تھا۔ کہ دو بے کار تھا۔ تیراکی کشتی شکرے اور بازکا شکار، پتنگ لڑانا، کبوتر بازی وغیرہ سے دل چسپی تھی ۔ کہہ دو یہ بھی فضولیات ہیں۔
میں : فضولیات نہیں تو اور کیا ہیں؟
مرزا : جی ہاں فضولیات ہیں ۔ خدا کے بندے ان ہی باتوں سے تو دلی دلی تھی ۔ ورنہ شاہجہاں کی بسائی ہوئی محمد شاہی دلی اور خورجہ بلند شہر میں کیا فرق ۔ پھکیت اور بنوٹییے ایسے ہوتے تھے کہ موقع پڑتا تو رومال میں صرف پیسا یا ٹھیکری با ندھ کر حریف کے سامنے آ جاتے اور دو جھکائیوں میں ہتھیار چھین لیتے۔ تیراکی کا یہ حال تھا کہ پالتی مارے ہوئے پانی پر بیٹھے ہیں جیسے مسند پر۔۔۔۔۔۔۔ دھواں اڑاتے اور ملہار سنتے چلے جاتے ہیں ۔ قلعے کی حمام والی نہر تو دیکھی ہوگی ۔ گز سواگز کا پاٹ ہے اور بالشت بھر سے زیادہ گہرائی نہیں ۔ اس میں آج کوئی مائی کا لال تیر کر دکھائے تو میں جانوں ۔ میر مچھلی تو خیر استاد تھے، ان کا سا کمال تو کسے میسر ہے۔ دو چار گز تو اتنے پانی میں تیر کر میں بھی دکھا سکتا ہوں۔
میں : اجی جناب آپ ریت پر تیر ہے ، حبابوں پر کھڑی لگایئے ،نتیجہ؟ کھیل ہی تو تھے۔ پھر یہ کبوتر بازی، پتنگ بازی ، مرغ بازی، مینڈھے بازی کیا بلا تھی؟ بچارے بے زبانوں کو لہولہان کرنا اور اپنا دل بہلانا کیا اچھے ہنر تھے۔
مرزا : ارے میاں ایرانی تورانی منچلے، دہم ہو کر کیا چوڑیاں پہن لیتے۔ جنگ و جدال کا خیال انسانی قربانیوں، ملک ستانیوں کے
چاو ، خون کی پچکاریوں سے ہولی کا وقت تو لد گیا تھا۔ نہ ان پر کوئی چڑھ کر آتا تھا نہ یہ کہیں چڑھائی کرتے تھے۔ انگریزی عمل داری کی برکت سے نکسیر یں بھی نہیں پھوٹتی تھیں ۔ وہ جانوروں کو ہی لڑا کر اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے تھے۔
میں کچھ اور کہنے والا تھا کہ مرزا نے ایک جھر جھری لی اور یہ کہتے ہوئے کہ بھئی غضب ہو گیا شام ہونے آئی ۔ کبوتر بھوکے میری جان کو رو رہے ہوں گے اور چوک کا وقت بھی آلگا ہے۔ لال بند کا جوڑ اگانا ہے، یہ جا وہ جا۔
ان باتوں کو کوئی ایک مہینا گزرا ہوگا کہ صبح ہی صبح مرزا صاحب چلے آتے ہیں ۔ آتے ہی فرمانے لگے " پرانی عید گاہ چلنا ہوگا ۔ میں نے کہا ” خیریت؟ بولے” لکھنؤ وں سے پینچ ہیں۔ جانوں ڈھیری یا مالوں ڈھیری۔ پانچ روپے ، پینچ ٹھہرا ہے، بڑا معرکہ ہوگا۔ میں نے عرض کیا ”صاحب عالم مجھے نہ تو پتنگ بازی سے کوئی دل چسپی ہے نہ میرے پاس اتنا فضول وقت ہے کہ آپ کے ساتھ واہی تباہی پھروں ۔‘‘ تاؤ کھا کر آنکھیں نکال لیں اور حاکمانہ انداز سے کہنے لگے تمھاری اور تمھارے وقت کی ایسی تیسی ۔ بس کہہ دیا کہ چلنا ہوگا ۔ دوپہر کو آؤں گا تیار رہنا ‘‘ میں بہت پریشان ہوا مگر کرتا کیا، دوستی تھی یا مزاق ۔ قہر درویش بجان درویش ۔ اپنی ساری ضرورتوں کو طاق پر رکھا اور حضرت مرزا چپاتی کا منتظر تھا کہ ٹھیک بارہ بجے آواز پڑی' سید آو‘۔ آگے آگے مرزا صاحب اور پیچھے پیچھے میں ۔ اجمیری دروازے سے نکل کر قبرستان لا نگتے پھالا نگتے پرانی عید گاہ پہنچے۔ وہاں دیکھا تو خاصا میلا لگا ہوا ہے۔ کبابی، کچالو والے، دہی بڑوں کی چاٹ، پان بیڑی، پانی پلانے والے سقے ، پوری خرافات موجود ہے۔ جا بجا پتنگ بازوں کی ٹکڑیاں بیٹھی ہیں۔ مرزا صاحب کو دیکھتے ہی "صاحب عالم ارھر،" مرزا صاحب ادھر ، "استاد پہلے میری سن لیجیے"
میاں ادھر آنے دو۔ بات سمجھتے ہیں نہ بات کی دم، اڑنے سے کام ”حضت آپ یہاں آئیے ۔ میر کنکیا آپ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں۔" چاروں طرف سے آوازیں پڑنے لگیں ۔ مرزا چو کنے ایک ایک کو جواب دیتے ، شامیانے کے نیچے جہاں میر کنکیا تشریف فرما تھے، پہنچے۔
میر کنکیا لکھنؤ کے واجد علی شاہی پتنگ باز تھے۔ کا کریزی رنگ، گول چہرہ، چھوٹی چھوٹی آنکھیں، بڑی ناک، دانتوں میں کھڑکیاں، سر پر کڑ بڑے پٹھے ۔ خشخاشی داڑھی، چھاتی کھلا ، سنجاف دار ڈھیلا ڈھالا انگرکھا، سر پر دو انگل کی کلابتو کے حاشیے کی ٹوپی، پاؤں میں مخملی گرگابی، گلے میں گلوری، اٹھ کر مرزا چپاتی سے بغل گیر ہوئے۔ پھر جو پتنگ بازی کا ذکر شروع ہوا تو تین بج گئے۔ میں بے وقوفوں کی طرح بیٹھا ہوا ایک ایک کا منہ تک رہا تھا۔ پتنگ بازی کی ہوتی تو ان کی اصطلاحیں سمجھ میں آتیں۔ آخر خدا خدا کر کے لوگ اپنی اپنی ٹکڑیوں میں گئے ۔ آسمان پر چیل کوے منڈلانے شروع ہوئے۔ میں مرزا صاحب کے ساتھ تھا۔ عید گاہ کی دیوار کے نیچے سے انھوں نے بھی اپنا اختر بختر کھول کر ایک انگارا ادھا اڑایا۔ ہچکا ایک لڑکے کے ہاتھ میں تھا۔ کوئی دس منٹ تک جھکایاں دیتے رہے، پینچ ہوا۔ کبھی آگے بڑھتے تھے کبھی پیچھے ہٹتے تھے۔ ایک دفعہ ہی چھلا کر لڑکے کو تمانچا رسید کیا اور بولے ابے ہچکا پکڑنے کی سرت بھی نہ تھی تو یہاں آن کیوں مرا آخر کٹوا دیانا‘‘
پر ایک الفن پڑھائی اور اب کے ہچکا پکڑنے کی خدمت مجھے انجام دینی پڑی۔ بدقسمتی سے یہ گڈی بھی کٹ گئی۔ بہت بگڑے کہ بس جب تم جیسے منحوس ساتھ ہوں تو ہم اڑا چکے ۔ غضب ہے سانولیا ہمیں استاد کہنے والا ، میر گولنداز ہمارے ہاں کے شاگرد، شیخ پیچک جیسے برابر پینچ  نکالے جاتے ہیں اور مرزافخرو اوپر نیچے دوکنکو ے کٹوائے ’’ سمیٹو میاں سمیٹو مجھے اپنی استادی تھوڑی گنوانی ہے۔" وہ کہتے رہے، میں تو وہاں سے ہٹ کر رومال بچھا کر الگ جا بیٹھا۔ تھوڑی دیر میں وہ بھی اپنا اسباب جہالت لنگی میں باندھے میرے پاس آ بیٹھے۔ تیوری پر بل تھے، چہرہ سرخ، آنکھیں ابلی ہوئی۔ میں نے کہا مرزا صاحب ہوا کا کھیل ہے۔ اس میں کسی کی کیا پیری۔ آپ کی استادی میں کہیں فرق آتا ہے ۔ سلطنت ہی جب ہتھے پر سے کٹ گئی تو ان دو کاغذ کے ٹکڑوں کا کیا غم ! آپ، آپ ہی ہیں ۔ کہنے لگے " سچ کہتے ہو میاں ۔ ہم قلعے والوں کی تقدیر ہی خراب ہے۔ ہوا بھی موافقت نہیں کرتی۔ میں نے ان کے بشرے سے ان کی دلی تکلیف کا اندازہ کرتے ہوئے اس ذکر کو موقوف کر دیا۔ اور پوچھا کیوں مرزا صاحب قلعہ جب آباد تھا اس وقت بھی پتنگ بازی کے ایسے ہی دنگل ہوتے تھے؟
مرزا : إک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے۔ اس وقت کا سماں کیوں کر دکھاؤں ۔ میاں ہر بات میں اک شان تھی، ایک قاعده تھا اور ہزاروں غریبوں کی روٹیوں کے سہارے۔ معمول تھا کہ عصر کا وقت ہوا اور سلیم گڑھ پر جمگھٹ لگا۔ بڑے بڑے پتنگ، دوتاوی اور سیہ تاوی تکلیں ، ڈور کی چرخیاں لے کر شاہی پتنگ باز پہنچ گئے ، خلوت کے امیر اور شوقین شہزادے مرزا نبو ، مرزا کدال، مرزا کالیٹن، مرزا چڑیا، مرزا جھر جھری بھی آ موجود ہوئے۔ یہ سلاطین زادے بہت منہ چڑھے تھے۔
میں : (بات کاٹ کر ) حضت یہ نام کیسے؟ کیا اسی بولی کا نام اردوے مععلی ہے؟
مرزا : کچھ پڑھا لکھا بھی، یا گھاس ہی کھودتے رہے ہو۔ ارے زبان کی ٹکسال قلعے ہی میں تو تھی وہاں محاورات نہ ڈھلتے تو کہاں ڈھلتے طبیعتیں ہر وقت حاضر رہتی تھیں۔ ہر بات میں جدت مد نظرتھی ۔ ہنسی مذاق میں جو منہ سے نکل گیا گویا سکہ ڈھل گیا کسی کے پھٹے پھٹے دیدے ہوئے مرزا بٹو کہہ دیا۔ لمبا چہرہ، چگی ڈاڑھی دیکھی ، مرزا چکایا مرزا کدال کہنے لگے ۔ چکلے چہرے والے پر چو پال کی اور ٹھنگنے پر گھٹنے کی پھبتی اڑا دی ۔ غرض کہ مرزا چیل، مرزا جھپٹ ، مرزا یا ہو، مرزا رنگیلے، مرزا رسیلے، بیسوں اسم با مسمی تھے ۔ میں جمعرات کو چپاتیاں اور حلوا با نٹا کرتا تھا، میرا نام مرزا چپاتی مشہور کر دیا۔
میں : لیجیے ہمیں آج تک مرزا چپاتی کی وجہ تسمیہ ہی معلوم نہ تھی ۔ یہ آپ کا خیر سے ٹکسالی نام ہے۔
مرزا : اب زیادہ نہ اتراو۔ قصہ سنتے ہو یا کوئی پھبتی سننے کو جی چاہتا ہے۔
میں : اچھا اب کان پکڑتا ہوں بیچ میں نہیں بولوں گا۔ فرمایئے ۔
مرزا : سب سامان لیس ہو گیا تو بڑے حضرت کی سواری آئی۔ دعا سلام مجرے کے بعد حکم لے کر دریا کی طرف پتنگ بڑھایا گیا۔
دوسری جانب سے معین الملک نظارت خاں بادشاہی ناظر کا، مرزا یاور بخت بہادر یا جس کے لیے پہلے سے ارشاد ہو چکا ہے، پتنگ اٹھا۔ ریتی میں سوار کھڑے ہو گئے ۔ پینچ لڑے، ڈھیلیں چلیں ۔ پتنگ یا تکلیں چھپکتی ہوئی چلی جاتی ہیں ۔ یا ہاتھ روک کر ڈور دی تو ڈوبتے آسمان سے جالگیں۔ پیٹا چھوڑ دیا، ڈور یں زمین تک لٹک آئیں، سواروں نے دوشاخے بانسوں پر لے لیں۔ پتنگ کٹا تو دریا کے وار پار ڈور پڑ گئی۔ ڈور یں لٹیں۔ پتنگ کے پیچھے پیچھے غول کے غول شاہدرہ تک نکل گئے ۔ جس نے وہ تکل با پتنگ لوٹی پانچ روپے کی مزدوری کی ۔ ڈور بھی بیس بیس تیس تیس رو پے سیر بک جاتی تھی۔ بادشاہ کبھی تو خالی سیر ہی دیکھتے رہتے۔ کبھی جی میں آتا تو تخت رواں سے اتر پڑتے۔ مچھلی کے چھلکوں کے دستانے پہن لیے۔ پتنگ ہاتھ میں لیا، ایک آدھ پینچ لڑایا اور ہنستے بولتے محل معلی میں داخل ہو گئے ۔ سید ! یہ بھی خبر ہے کہ وہ پتنگ یا تکلیں کتنی بڑی اور کیسی محنت سے بنائی ہوئی ہوتی تھیں تکلیں تو تمھارے پیدا ہونے سے پہلے مرچکیں ۔ خیر میں کبھی ان کی تصویر دکھاؤں گا۔ تو وہ قد آدم ہوتی تھی اور ایک ایک کی تیاری میں کئی کئی دن لگ جاتے تھے۔ ڈور یں بھی اک بلی، دو بلی، تبلی، چوبلی کنکوں اور تکلوں کے زور کے موافقت بنتی تھیں ۔ مانجھوں کے نسخے بھی ہر گھرانے کے الگ تھے۔ تکلیں تو تکلیں آج ویسے پتنگ بھی نہ بنتے ہیں نہ کسی میں اتنا بوتا ہوتا ہے کہ ان کی جھونک سنبھال سکے۔ چھوٹی تنخیں رہ گئی ہیں یا
بڑے نامی پتنگ بازوں کے ہاں ادھے ۔ وہ بھی کنکوے نہیں گڈیاں ہوتی ہیں ۔ لنڈوری بن پنچھلے کی۔
میں : بھئی واقعی لطف تو بڑا آتا ہوگا۔
مرزا : جہاں اپنی حکومت، گھر کی بادشاہت اور پرائی دولت ہوتی ہے، یہی رنگ ہوا کرتے ہیں ۔ عشرت گاہوں میں ہر وقت نماز یں نہیں پڑھی جاتیں ۔ مجاہدے اور مراقبے نہیں ہوتے ، یہ نہ اٹھائیں تو زندگی کی راحتیں کون اٹھائے ۔ دنیا میں ہمیشہ یہی ہوتا رہا ہے اور یہی ہوتا رہے گا۔ سلطنتوں کی بھی عمر یں ہوتی ہیں۔ جس طرح آدمی کوئی پیٹ میں، کوئی پیدا ہوتے ہی ، کوئی بچپن میں، کوئی جوان ہو کر، اور کوئی عمر طبعی طے کرنے کے بعد مرتا ہے، اسی طرح بادشاہتیں ہیں۔ کوئی ایک پشت چلتی ہے، کوئی دو پشت ۔ کسی کا سلسلہ سو پچاس ہی برس میں ٹوٹ جاتا ہے اور کسی کی عمارت صدیوں کی خبر لاتی ہے ۔ مغلوں نے چھ سو برس تخت کوسنبھالا ۔ آخر بڑھاپا تو سب ہی کو آتا ہے۔ ان کے کندھے بھی شل ہو گئے ۔ دنیا کا یہی کارخانہ ہے۔ آج اس کا ، تو کل اس کا زمانہ ہے۔ موت اور زوال بہانہ ڈھونڈتے ہیں ۔ ہمارے لیے عیش وعشرت ہی بہانہ ہوگئی۔
میں سمجھتا تھا کہ مرزا نرے شہزادے ہیں اور ان کی معلومات میں بازیوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ آج معلوم ہوا کہ قلعے والوں کا دماغ بگڑی میں بھی کتنا بنا ہوا تھا۔ میں نے کہا" مرزا صاحب ! یہ آپ نے کس فلسفی کا لکچر یاد کر لیا ہے۔ دو چار جملوں میں کیسے کیسے نکتے حل کر گئے ۔ " بولے ” پیارے ہمارے احوال پر نہ جاؤ۔ جان کر دیوانے بنے ہوئے ہیں۔ نہیں تو کیا نہیں جانتے کیا نہیں آتا
عالم میں اب تلک بھی مذکور ہے ہمارا
افسانہ۔   محبت۔   مشہور   ہے   ہمارا

اشرف صبوحی
(1905 - 1990)
سید ولی اشرف نام اور صبوحی تخلص، ادبی دنیا میں اشرف صبوحی کے نام سے مشہور ہوئے۔ 11 مئی 1905 کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ 1922 میں اینگلو عربک ہائی اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد ادیب کامل، منشی فاضل ، ایف اے اور بی اے کے امتحانات پرائیوٹ طور پر پنجاب یونیورسٹی لاہور سے پاس کر کے 1929 میں محکمہ ڈاک اور تار میں ملازم ہوئے۔
ابتدا میں بچوں کے لیے کہانیاں لکھیں۔ دہلی سے شائع ہونے والے ادبی رسالوں میں کئی مضامین شائع ہوئے۔ ایک ادبی ماہنامہ" ارمغان" بھی جاری کیا جو دو سال تک شائع ہوتا رہا۔ 1947 میں تقسیم ملک کے بعد لاہور (پاکستان) چلے گئے ۔ ان کا انتقال کراچی میں ہوا۔
اشرف صبوحی نے دہلی کے روز مرہ بامحاورہ ٹکسالی زبان میں ادبی مضامین اور افسانے لکھے اور تراجم بھی کیے۔’’دلی کی چند عجیب ہستیاں اور "غبار کارواں"ان کے خاکوں کے مجموعے ہیں۔’’ جھرو کے" افسانوں اور خاکوں کا مجموعہ ہے۔ ”سلمی‘‘ (بغدادکا جوہری)، بن باسی دیوی‘‘ ’’ دھوپ چھاؤں"، "ننگی دھرتی‘‘اور’’ موصل کے سوداگر انگریزی کے تراجم ہیں۔ ان کے علاوہ بیس سے زائد بچوں کی کہانیوں پرمشتمل کتابیں ہیں۔
خلاصہ:
اشرف صبوحی نے دہلی کے روز مرہ بامحاورہ اور ٹکسالی زبان میں دلی کی چند عجیب ہستیوں کے خاکے لکھے ہیں انہیں عجیب ہستیوں میں دلی کے آخر مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے بھانجے تھے۔ نام تو صاحب عالم مرزا فخر الدین عرف مرزا فخرو تھا لیکن مرزا چپاتی کے نام سے مشہور ہوئے۔ پرانی وضع کولئے ہوئے جیے، مرتے مرتے نہ کبوتر بازی چھوڑی نہ پتنگ بازی، مرغے لڑائے یا بلبل، تیرا کی کاشغل رہا۔ شعبدے بازی کا شطرنج کے بڑے ماہر تھے۔ پڑھنا لکھنا نہیں آتا البتہ والد رحیم الدین حیاسے شاعری ورثے میں ملی تھی ۔ حافظہ بلا کا تھا، سوسو بندوں کے مسدس زبانی یاد تھے۔
مصنف سے ان کے مراسم تھے، اور انہوں نے اشرف صبوی کو پتنگ بازی ۔ کی مقا بلے مرغ اور بلبلوں کی پالیاں، تیراکی کے میلے بھی دکھائے اور کبوتر بازی بھی۔ بادشاہت چھن گئی معمولی پنشن مقرر تھی مگر مزاج وہی شاہانہ تھا۔ ایک بار کسی لڑکے نے گستاخی کی تو برہم ہو گئے کہ ہمارا زمانہ نہیں ہوا ور نہ خاندان بھر کو کولہو میں پسوا دیتا۔
ایک روز مرزا چپاتی نے مصنف سے پوچھا، بھلا بتاؤ تو سہی اردو کی کتنی قسمیں ہیں۔ مصنف کے نزدیک تو صرف ایک ہی قسم کی اردو تھی ۔ زیادہ سے زیادہ عوام و خواص کا فرق سمجھ لو مگر یہ قسمیں کیا معنی ! مصنف کو خاموش دیکھ کر مرزا چپاتی نے بتانا شروع کیا کہ اول نمبر پر اردوئے معلٰی ہے جس کو ماموں حضرت (بہادر شاه ظفر) اور ان کے پاس اٹھنے بیٹھنے والے بولتے تھے۔ وہاں سے شہر میں آئی ۔ دوسرا نمبر قل آعوز اردو کا ہے جو مولوی ، واعظوں اور عالموں کا گلا گھونٹتی رہتی ہے تیسری خودرنگی اردو یہ ماں بیٹی باپ کلنگ والوں نے رنگ برنگ بچے نکالے۔ اخبار اور رسالوں میں اسی قسم کی اردو ادب کا اچھوتا نمونہ کہلاتا ہے۔ چوتھے ہڑدنگی اردو مسخروں اور آج کل کے قومی بلم ٹیڑوں کی منھ پھٹ زبان ہے۔ پانچویں فنگی اردو ہے جے آ کا بھائیوں کی لٹھ مارہ کڑاکے دار بولی کہو یا پہلوانوں، کرخنداروں ضلع جگت کے ماہر بولتے ہیں۔ چھٹے نمبر پر فرنگی اردو ہے جو ولایت سے نئے نئے آنے والے بولتے ہیں، پھر ایک سر بھنگی اردو ہے یعنی چرسیوں، بھنگڑوں، بے نواؤں اور تکیے داروں کی زبان۔
اسی طرح مرزا چپاتی دلی والوں کے لباس کا ذکر کرتے ہیں کہ درباری اور بازاری لوگ لباس سے پہچانے جاتے ہیں۔ عام طور پر اپنی شکل و شباہت تن وتوش، جسامت اور پیشے کے مطابق کپڑا پہنا جاتا تھا کے دور سے پہچان لیں کہ کس خاندان کا ہے اور کیسا آدمی ہے۔ اس طرح دو پلڑی ٹوپیوں کا عام رواج تھا۔ مگر چوگوشی پچ گوشی، گول، مغلئی، تاج دار ٹوپیاں، مغل بچے اور شریف زادے پہنتے تھے ہندؤں میں پہے جامے کا زیادہ دستور تھا، پھر نیم جامہ اور الٹی چولی کے انگر کھے پہننے لگے۔ داڑھی مونچھوں کی طبع بھی ہر خاندان اور ہر پیشہ ور کی علیحدہ تھی۔
مصنف اشرف صبوی نے مرزا چپاتی سے پوچھا کہ دلی والوں کو فضول کھیلوں، دولت کو لٹانے والی بازیوں اور بیکار مشغلوں کے سوا کام ہی نہ تھا۔ مرزا چپاتی نے جل کر کہا تم کیا جانو وہ بازیاں اور ان کے مشغلے کیسے ہوتے تھے۔ کمال کے ہوتے تھے۔ ویسے ہنر آج کوئی پیدا نہیں کر لیتا۔ بات یہ ہے کہ ساری چیزیں وقت کے ساتھ ہوتی ہیں۔ نامردوں کا زمانہ ہے تو نا مردوں کی سی باتیں بھی ہیں۔
مرزا چپاتی اسی طرح کی باتیں کیا کرتے تھے۔ ایک بار ان کا مقابلہ امیر کنکیا لکھنؤ کے واجدعلی شاه پتنگ بازسے ہوا تو انہوں نے پتنگ بازی ڈور اور مانجھے کی قسمیں بتا کر مصنف کو حیران کر دیا۔ مصنف نے پوچھا کہ ان سب بازیوں میں لطف تو بڑا آتا ہوگا مرزا چپاتی بولے، جہاں اپنی حکومت گھر کی بادشاہت اور پرائی دولت ہوتی ہے یہی رنگ ہوتے ہیں ۔ عشرت گاہوں میں نمازیں نہیں پڑھی جاتیں، مراقبے نہیں ہوتے ، دنیا میں ہمیشہ یہی ہوتا رہا ہے اور یہی ہوتا رہے گا۔ سلطنتوں کی بھی عمر یں ہوتی ہیں، کوئی ایک پشت چلتی ہے کوئی دو پشت، کسی کا سلسلہ سو پچاس برس ہی میں ٹوٹ جاتا ہے اور کسی کی عمارت صدیوں کی خبر لاتا ہے۔ مغلوں نے چھ سو برس تخت کوسنبھالا آخر بڑھاپا تو سب ہی کو آتا ہے موت اور زوال بہانہ ڈھونڈتے ہیں ۔ ہمارے لیے عیش وعشرت ہی بہانہ ہوگئی ۔ 

سوالوں کے جواب لکھے 
1۔ مرزا چپاتی کون تھے اور ان کا حلیہ کیا تھا؟
2۔ مرزا چپاتی نے اردو زبان کی جو قسمیں بتائیں ان کے نام اور خصوصیات لکھیے۔
3.  مرزا چپاتی نے کیوں کہا کہ " دنیا کا یہی کارخانہ ہے۔ آج اس کا ، تو کل اس کا زمانہ ہے۔‘‘
4۔ قلعے کی پتنگ بازی اور آج کی پتنگ بازی میں کیا فرق ہے؟
 

0 comments:

Post a Comment

خوش خبری