آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Saturday 14 November 2020

Sakhi By Kalam Haidari NCERT Class 10 Gulzar e Urdu

 سخی
کلام حیدری
میں زکر یا اسٹریٹ کے ایک گندے اور چھوٹے سے ہوٹل میں بیٹھا ہوں ۔ سامنے سیاہ رنگ کے ٹیبل پر چھوٹی سی چائے کی پیالی رکھی ہے جس میں تلخ قسم کی چائے پر بالائی پڑی ہوئی ہے۔ میرے ٹیبل کے سامنے ایک لمبا ساٹیبل ہے جس پر کئی دوسرے لوگ بیٹھے ہیں، ان میں سے ایک شخص کو میں پہچانتا ہوں۔ وہ جوشطرنجی ڈیزائن کی لنگی پہنے ہوا ہے اور جس کی گنجی بجائے بٹن کے فیتے سے بند ہونے والی ہے، میں اسے صرف اس وجہ سے پہچانتا ہوں کہ وہ مجھ سے مہینے میں ایک بارمنی آرڈر لکھواتا ہے۔ کبھی پیاس، کبھی چالیس اور کبھی سو بھی۔
یہ کہاں رہتا ہے، میں نہیں جانتا۔ یہ کیا کرتا ہے، یہ بھی میں نہیں جانتا۔ یہ منی آرڈر کہاں بھجواتا ہے صرف یہ میں جانتا ہوں ۔ بی بی سکینہ معرفت شرافت حسین، بیڑی دکان، پورنیہ۔
میں نے اب چائے کی پیالی اپنے ہونٹوں سے لگا لی ہے اور بالائی ہونٹوں سے الجھ رہی ہے۔ میں نے پھونک مار کر بالائی کو کچھ ہٹا دیا ہے ۔ اور تب پہلے گھونٹ کے ساتھ ایک میٹھی تلخ دھارحلق سے پیٹ میں اترتی ہوئی محسوس کر رہا ہوں ۔ میں نے پیالی واپس طشتری میں رکھ دی ہے۔
بی بی سکینہ کے بارے میں مجھے اتنا ضرور معلوم ہے کہ یہ اس شطرنجی ڈیزائن کی لنگی والے کی بیوی ہے اور یہ بھی جانتا ہوں کہ اس کا نام مولا ہے اور منی آرڈر لکھواتے وقت اپنا نام مولا بخش لکھواتا ہے۔ پہلے پہل جب میں نے اس سے منی آرڈر فارم پر لکھنے کے لیے اس کا پتہ پوچھا تو اس نے اپنا نام مولا بخش بتایا اور کہا: "معرفتی آپ اپنا ہی لکھ دیجیے۔"
چنانچہ میری معرفت روپیہ بھیجنے والے کے پتے سے بھی مجھے ناواقف ہی رہنا پڑا۔
میں نے چائے کی پیالی دو بار ہ اٹھا لی ہے اور بالائی کو غور سے دیکھ رہا ہوں جو چائے پینے میں حارج ہوگی۔ میں ایک لمبا گھونٹ لیتا ہوں اور بالائی تھوڑی سی چائے سمیت میرے منہ میں چلی جاتی ہے اور میں منھ چلانے لگتا ہوں۔
بی بی سکینہ کا شوہر پست قد کا گٹھا ہوا، سیاہی مائل آدمی ہے، جس کے کان کی لو تھوڑی سی کٹی ہوئی ہے اور گالوں کی دونوں جانب کی ہڈیاں باہر نکلی ہوئی ہیں۔ چہرہ بڑ ا اورمحنتی آدمی کا سا معلوم ہوتا ہے۔ سینہ چکلا اور گردن بھری بھری مگر اوسط درجے کی لمبی ہے ۔ آنکھوں میں چمک ہے مگر جیسے وہ دھندلاہٹوں میں ہو۔ داہنے ہاتھ کی شہادت والی انگلی کا ناخن نکیلا اور لمبا ہے۔
میں نے پیالی پھر ہاتھ میں لے لی ہے ۔ اور ہوٹل میں آنے والے دو افراد کو دیکھنے لگا ہوں جو دروازے کے پاس ہی رک گئے ہیں اور ہوٹل کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ایک کے سر پر دلی والوں جیسی ٹوپی ہے جو بے میل ہے اور دوسرا نگے سر ہے اور بال الجھے الجھے ہیں اور دونوں پھر اندر آجاتے ہیں۔
میں نے چائے کا تیسرا اور آخری گھونٹ لے کر پیالی تشتری پر رکھ دی ہے اور اسے میز کے ایک طرف کھسکا دیا ہے۔
ہوٹل کا ریڈیو چیخ چیخ کر فلمی گانے سنا رہا ہے۔ اچانک وہ زور سے کھڑ کھڑاتا ہے اور ہوٹل کا نوجوان مالک جو ٹھڈی ( ٹھوڑی) ہاتھوں پر رکھے کسی اردو اخبار کو جانے کب سے پڑھ رہا تھا، چونک کر ریڈیو کا بٹن گھمانے گاتا ہے۔ -
میں ان دونوں کو دیکھ رہا ہوں جو ابھی ابھی اس ہوٹل میں داخل ہو کر بیٹھے ہیں۔ دلی والوں کی ٹوپی پہنے ہوئے شخص نے اپنے ساتھی سے کچھ مشورے کرنے کے بعد دو شیر مال اور دو سیخ کباب کا آرڈر دے دیا ہے۔ ہوٹل کا لڑکا اس بڑے سے طاق نما سوراخ کے پاس کھڑا ہوا ہے جہاں سے ہوٹل کے باورچی خانے کا منظر دکھائی دیتا ہے۔
اور مولا بخش ایک کروٹ بیٹھے بیٹھے دوسرا پہلو بدل کر بیٹھ جاتا ہے اور باہر سے نظریں ہٹا کر وہ میری جانب دیکھنے لگتا ہے جیسے اسے میرے دیر تک بیٹھے رہنے پرتعجب ہو رہا ہے میں اس کی ٹولتی نگاہوں سے بچ کر پہلو بدلتا ہوں۔
اب میرے انتظار کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔ جس اخبار کے ایڈیٹر نے مجھ سے یہاں ملاقات کرنے کا وعدہ کیا تھا اس کے آنے کی امید تقریباً ختم ہو چکی ہے، اور ساتھ ہی ساتھ امید کی جس کرن کے سہارے میں نے تین روپے ساڑھے چودہ آنے میں پچھلے چار دن گزارے تھے وہ کرن اس ہوٹل میں جیسے گم ہوگئی ۔ اب تک وہ ایڈیٹر نہیں آیا۔ جس نے مجھے تر جمہ کا کام دینے کا وعدہ کیا تھا اور میں نے سوچا تھا کہ کام ٹھیک ہوتے ہی کچھ ایڈوانس مانگوں گا۔ جس سے زکر یا اسٹریٹ کے ایسے ہوٹلوں میں کم از کم چند دن کھپ سکوں۔
دلی والوں کی ٹوپی پہنے ہوئے شخص کے آگے ایک شیر مال رکھی ہوئی ہے، اوپر کا سرخی مائل حصہ بے حد اشتہا انگیز ہے اور کباب سے اٹھتا ہوا ہلکاہلکا دھواں میں آسانی سے دیکھ سکتا ہوں۔
وہ ایڈ یٹر ابھی تک نہیں آیا ہے۔ اور میں سوچ رہا ہوں کہ مولا بخش کی بیوی سکینہ کیسی ہوگی؟ اس کے کوئی بچہ ہے کہ نہیں ۔ اور اس وقت مجھے اچانک لگا کہ میں مولا بخش سے مخاطب ہو کر پوچھوں کہ اس کے کوئی بچہ ہے یا نہیں ۔ میں نے اس سوال کو مہمل اور بے موقع خیال کرتے ہوئے اپنے ذہن سے نکال دیا ہے۔
اب وہ دلی والوں کی ٹوپی پہنے شخص اور اس کا ساتھی آدھی سے زائد شیر مال کھا چکے ہیں اور سیخ کباب سے اٹھتے ہوئے دھوئیں کو اب میں نہیں دیکھ سکتا۔ شاید اب دھواں اٹھ بھی نہیں رہا ہے۔
وہ ایڈیٹر اب نہیں آئے گا۔ میں نے چار دن یوں ہی بے کار گنوا دیے۔ ورنہ ان چار دنوں میں دوڑ دھوپ کی جاسکتی تھی۔ کوئی ٹیوشن ہی تلاش کی جا سکتی تھی۔ مگر چار روز تک اس اطمینان سے بیٹھے رہنے کے بعد ابھی اچانک اس متوقع کام سے مایوسی پر اب آگے چلنے کی جیسے صلاحیت ہی نہ رہی ہو۔
سکینہ کی عمر بیس سال سے زیادہ نہ ہوگی اور بچہ بھی کوئی نہ ہوگا۔ یہ شرافت حسین کون ہوگا؟ اور تب میں سوچتا ہوں کہ یہ شرافت حسین مولا بخش کا رشتہ دار ہوگا۔ یا پھر دوست ہوسکتا ہے ۔ اور سکینہ..................... .
اب یہ کیا تک ہے کہ ایڈیٹر وعدہ کے خلاف اب تک نہیں آیا ہے اور مجھے سکینہ کی عمر کی پڑی ہے۔ شرافت حسین اور سکینہ کی رشتہ داری کی نوعیت کی فکر ہے۔ مولا بخش اور شرافت حسین کے تعلقات سے مجھے کیا تعلق ہے؟
اب وہ دونوں شیر مال کے بعد چائے بھی پی چکے ہیں اور کاؤنٹر پر ہوٹل کا نوجوان ما لک ان سے پیسے لے رہا ہے۔ اب تین بج رہے ہیں، گیارہ بجے سے تین بجے تک انتظار کے بعد نڈھال سا ہو رہا ہوں۔ یہ مولا بخش ہر ماہ کی 13 تاریخ کو منی آرڈر ضرور لکھواتا ہے۔ ایک دو روز آگے یا پیچھے مگر پوری پابندی سے لکھواتا ہے۔
اور میں سوچ رہا ہوں، سکینہ ضرور خوبصورت ہوگی ۔ اور یہ جو مولا بخش کی آنکھوں میں چمک ہے وہ اسی جوان محبت کی چمک ہے۔ اور جو یہ چمک کسی قدر دھندلاہٹوں میں ہے وہ فراق یار ہے۔
تین روپے ساڑھے چودہ آنے کے تقریباً جدا ہو جانے کے بعد ایڈیٹر نہیں آیا، تو اب کیا ہو گا سوچ رہا ہوں، یہ جو جیب میں اب فقط ساڑھے چھ آنے ہیں، اس میں سے چھ پیسے یعنی ڈیڑھ آنے بھی جدا ہونے والے ہیں۔
میں اس پیالی کو دیکھ رہا ہوں جسے میں کب کا خالی کر چکا ہوں مگر ہوٹل کے نوکر نے اسے ٹیبل سے نہیں اٹھایا ہے۔ یہی وہ پیالی ہے جو مجھے مزید ڈیڑھ آنے سے محروم کر دے گی اور میری جیب میں پانچ آنے رہ جائیں گے۔ اور کلکتہ شہر، اور یہ زکریا اسٹریٹ، اور یہ دلکشا ہوٹل ۔۔۔۔۔۔
دل سے مانتا ہوگا مولا بخش سکینہ کو جبھی تو ۔۔۔۔۔ اور اب مولا بخش اپنی جگہ سے اٹھ چکا ہے اور مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے وہ مجھے سے کچھ کہنا چاہتا ہے۔ اور اب وہ میرے قریب آ گیا ہے اور کہہ رہا ہے ہم کل آ ئیں گے جی۔۔۔۔۔۔ آپ رہیں گے نا؟“ میں اسے اثبات میں جواب دیتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ یہ کل منی آرڈر لکھائے گا اور کل صبح تک میری جیب میں پانچ آنے رہیں گے یا.........
میں اس وقت اپنی کوٹری کی ایک چوکی پر پڑا ہوں ۔ میرے سرہانے دو آنے پیسے تکیہ سے دبے پڑے ہیں۔ اور میں رات دیر تک جاگنے سے گرانی محسوس کر رہا ہوں۔
اس کلینڈر کی جانب دیکھ رہا ہوں جو ہوا سے پھڑ پھڑا رہا ہے جس میں ایک امریکن عورت جہاز کی سیڑھی پکڑے بڑے ہی قاتل انداز میں کھڑی ہے۔ امریکن کلینڈر ............... میں منہ ہاتھ دھو چکا ہوں، بھوک لگ رہی ہے۔ بڑی احتیاط سے میں تکیہ ہٹاتا ہوں اور دو آنے اٹھا کر جیب میں رکھ لیتا ہوں۔
میں سوچ رہا ہوں، ٹیوشن کی تلاش میں نکلنا بہتر ہوگا۔ کچھ سہارا ہو جائے۔ پھر اطمینان سے نوکری تلاش کروں گا۔ اور تب سوچتا ہوں کہ انگریزی کی جوڈکشنری پڑی ہے اسے بیچ کر کچھ پیسے حاصل کیے جا سکتے ہیں ۔ اس خیال سے تقویت محسوس کرتا ہوں۔
اور میرے سامنے حسین، بیڑی دوکان، پورنیہ، مولا بخش ............. ساٹھ روپے۔
اب میں منی آرڈر لکھ چکا ہوں اور مولا بخش کے ساتھ ہی ساتھ کوٹھری میں تالا بند کر کے سڑک پر آ گیا ہوں۔ اور مولا بخش مجھ سے کہہ رہا ہے کہ اسے آج مالک نے جلدی ہی بلایا ہے اس لیے وہ آج منی آرڈر نہیں بھیج سکے گا ۔ اور میں کچھ سوچ کر اس سے کہہ رہا ہوں کہ مجھے فرصت ہے وہ کہے تو میں منی آرڈر بھیج دوں۔
” آپ ؟“ وہ ہچکچاتا ہے مگر میں اسے ہمت دلاتا ہوں کہ آخر وہ بھی آدمی ہے۔ ایک کام ہی اس کا کر دوں گا تو کیا چھوٹا ہو جاؤں گا۔
مولا بخش جا چکا ہے اور میری جیب میں ساٹھ روپے ہیں، اور منی آرڈر فارم ہے۔ اور میں ٹیوشن کی تلاش میں جا رہا ہوں۔
ابھی شام ہوگئی ہے اور میں دل کشا ہوٹل میں نہیں ہوں، میں پارک سرکس میں ایک اوسط درجے کے ہوٹل میں بیٹھا ہوں، میری میز پر ابھی ابھی بیرے نے ایک شیر مال، قورمہ اور سیخ کباب لا کر رکھا ہے اور میں بغور اس شیر مال کو دیکھ رہا ہوں جو بہت ملائم، بے حد لذیذ اور خوبصورت نظر آ رہی ہے۔
میرے ذہن میں اس ایڈ یٹر کا خیال نہیں ہے جس نے مجھے ترجمہ کا کام دینے کا وعدہ کیا تھا اور گیارہ بجے سے تین بجے تک اس کا انتظار کرنے کے بعد بھی وہ نہیں آیا، اور اس وقت زیادہ سے زیادہ سات بجے ہیں ۔ اس ہوٹل میں رونق بڑھتی جا رہی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ اس ہوٹل تک میرے قدم کیسے آئے؟ کوئی ٹیوشن نہیں ملی، نوکری نہیں ملی۔ اور دفعتاً مجھے سکینہ کا خیال آتا ہے جس کے پاس اسی پابندی سے منی آرڈر بھیجا گیا ہے مگر جو اس کو نہیں ملے گا۔ ساٹھ روپے میری جیب میں پڑے ہیں۔ اور منی آرڈر فارم میں نے کراؤن سنیما کے سامنے پڑے ہوئے پیک کے گملے میں ٹکڑے ٹکڑے کر کے ڈال دیا ہے۔
میں شیر مال کھانے لگا اور مجھے خیال آیا ہے اگر میں مولا بخش سے بیس پچیس روپیے مانگ لیتا تو شاید وہ دے دیتا مگر مولا بخش کے سامنے دست سوال بڑھانے کے خیال سے مجھے بڑی ذلت محسوس ہورہی ہے۔
یہ کباب کتنا خوش ذائقہ ہے اور پیاز کے ان تراشوں کے ساتھ تو اس کا لطف ہی نرالا ہے ۔ میں ڈلہوزی اسکوائر کے ایک آفس سے نیچے اتر رہا ہوں ۔ پانچویں منزل سے اترتے اترتے پاؤں دکھنے لگے ہیں۔ اور ایسی کتنی ہی بلڈنگوں سے نامراد لوٹتے لوٹتے اب مجھے ایسا لگتا ہے جیسے نوکری نام کی کوئی چیز اس دنیا میں نہیں ہے۔
ٹرام کی گھنٹیاں بج رہی ہیں ۔ میں فٹ پاتھ پر کھڑا اپنی تھکن کو دور کر رہا ہوں ۔ میری جیب میں بائیس روپیے کچھ آنے ہیں اور سکینہ کومنی آڈر ابھی تک نہیں ملا ہے۔ بائیس روپیے کتنی بڑی طاقت کا مظہر ہیں۔ میں سوچتا ہوں ابھی کچھ روز اور بھی چکر کاٹ سکتا ہوں ۔ بائیس روپیے اب بھی میرے پاس ہیں۔
اب میں چلنے لگا ہوں اور رخ کو لوٹو لہ کی طرف کر دیا ہے۔ چلتے چلتے اس بلڈنگ تک آگیا ہوں جو جاپانی بمباری کی زد میں آئی تھی۔
میں وہاں پر آ گیا ہوں جہاں اردو رسالوں کی دوکان ہے اور میں اس سے آگے بڑھ گیا ہوں ۔ سکینہ کا خیال مجھے اس کوٹھی کا خیال دلاتا ہے جو تھیڑ روڈ پر ہے اور جہاں مجھے ٹیوشن کے لیے آج شام کو بلایا گیا ہے۔ کیا پتہ آج ٹیوشن مل ہی جائے ۔
یہ نا خدا مسجد ہے۔ وہی زکر یا اسٹریٹ کے دروازے کے باہر ایک لاش اسٹریچر پر پڑی ہوئی ہے اور ایک نوجوان آواز لگا رہا ہے۔ ایک غریب مرگیا ہے۔ کفن دفن کے لیے پیسے دے کر ثواب حاصل کیجیے ۔‘
میں قریب جاتا ہوں ۔ فیتے سے بند ہونے والی گنجی ایک کان کٹی ہوئی لو ۔
’’ مولا بخش ؟‘‘ میں ہلکے سے اس کا نام لیتا ہوں ، سکینہ کے پاس منی آرڈر پہنچنے سے پہلے یہ خدا کے یہاں پہنچ گیا۔
میں اس آواز لگانے والے نوجوان سے پوچھتا ہوں، یہ کیسے مرا؟‘‘ ’’ٹرک سے کچل کر نیچے کے دھڑ سے اس نے چادر ہٹا کر دکھایا۔ مجھے چکر آنے لگا ہے۔ یہ ناخدا مسجد ہے۔ مولا بخش ہے۔ جس کے کفن دفن کے لیے ایک آنے دو آنے راہ گیر چادر پر پھینکتے جارہے ہیں۔
میرا ہاتھ جیب میں جاتا ہے ۔ بائیس روپیے کچھ آنے اس چادر پر پھینک کر جلدی جلدی جانے لگتا ہوں، وہ نوجوان مجھے غور سے دیکھتا ہے۔
میں مڑ کر دیکھتا ہوں۔ وہ نو جوان مجھے اب بھی غور سے دیکھ رہا ہے۔
کلام حیدری
(1930-1994)
محمد کلام الحق حیدری ان کا پورا نام تھا ۔ کلام حیدری کی حیثیت سے مشہور ہوئے ۔ ان کی پیدائش مونگیر (بہار) میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم ایٹہ (اتر پردیش) میں حاصل کی ۔ رین کالج ، کلکتہ سے آئی۔ کام کا امتحان پاس کیا۔ رانچی کالج ، رانچی سے بی۔ اے اور پٹنہ یونیورسٹی سے ایم ۔ اے(اردو) کی ڈگریاں حاصل کیں۔ پورنیہ ڈگری کالج میں ملازمت کی ۔ انجمن ترقی اردو بہار کے جنرل سکریٹری اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے سرگرم رکن رہے۔ کلام حیدری نے ہفتہ وار مورچہ اور ماہنامہ' آہنگ' شہر گیا سے شائع کیا اور ان کی ادارت بھی کی۔
كلام حیدری کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ ' بے نام گلیاں' کے عنوان سے 1955 میں شائع ہوا۔ ان کے دوسرے افسانوی مجموعوں کے نام 'صفر', الف لام میم اور گولڈن جبلی ہیں ۔ 'برملا ' ان کے ادبی تبصروں کا مجموعہ ہے۔ ادب اور تصوف اور تفہیمات ان کی علمی کتابیں ہیں۔
خلاصہ:
خلاصه:- كلام حیدری کا افسانہ سخی ایک پڑھے لکھے مگر بے روزگارشخص کی زندگی کی ایک جھلک پیش کرتا ہے کہ انسان کی بنیادی ضرورتیں اس سے کیا کیا کراتی ہیں۔
شہر کلکتہ کی مشہور سڑک زکر یا اسٹریٹ کے ایک گندے اور چھوٹے ہوٹل میں کہانی کا ہیرو بیٹھا کسی ایڈیٹر کا انتظار کر رہا ہے جس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایسے ترجمے کا کام دے گا اور وہ اس سے کچھ ایڈوانس لے گا تاکہ وہ ز کر یا اسٹریٹ کے اسے ہوٹلوں میں دو وقت کچھ کھا سکے۔ اس کے سامنے ایک ٹیبل پر کئی لوگ بیٹھے ہیں، ان میں سے ایک کووہ پہچانتاہے، وہ مولا بخش ہے جو ہر ہفتے پابندی سے پورنیہ میں اپنی بیوی کو منی آرڈر بھیجتا ہے، کبھی پچاس روپے کی چالیس اور کبھی سو۔ یہ ایک مزدور ہے، جومحنت سے پیسا کماتا ہے، اس کے رہنے کی کوئی جگہ نہیں ، وہ منی آرڈر کہانی کے ہیرو کی معرفت بجھواتا ہے۔
آج ہیرو کی جیب میں ساڑھے چھ آنے ہیں اور کچھ دیر بعد پانچ آنے رہ جائیں گے۔ ڈیڑھ آنے چائے کی قیمت چلی جائے گی۔ اگلے روز ہیرو اپنی کوٹھری کی ایک چوکی پر پڑا ہے سرہانے دو آنے تکیے کے نیچے رکھے ہیں۔ بے روزگار ہیرو سوچتا ہے کہ ملازمت کرنے کے بجائے ٹیوشن کی تلاش کی جائے اور پیٹ بھرنے کیلئے اس کے پاس انگریزی کی جوڈکشنری ہے اسے بچکر کر کچھ پیسے حاصل کیے جائیں ۔ اسی اثنا میں مولا بخش وہاں آتا ہے اور ساٹھ روپے کا منی آرڈر کھواتا ہے، مولابخش کہتا ہے کہ آج اسے مالک نے جلدی بلایا ہے اسی لئے وہ منی آرڈرنہیں کر سکے گا ۔ ہیرو کچھ سوچ کر اس سے کہہ دیتا ہے کہ مجھے فرصت ہے وہ کہے تو وہ منی آرڈر بھیج دوں ۔ مولابخش ساٹھ روپے اور منی آرڈر فارم دے کر چلا گیا۔ اور ہیرو ٹیوشن تلاش کرنے نکالا ہے مگر شام ہوگئی ٹیوشن نہیں ملی۔ اب ہیرو زکر یا اسٹریٹ کے بجائے پارک سرکس میں ایک اوسط درجے کے ہوٹل میں بیٹھا شیر مال، قورمہ اور سیخ کباب کھا رہا ہے۔ اس کی جیب میں ساٹھ روپے ہیں، منی آرڈرکا فارم اس نے ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھینک دیا ہے۔ کھانا کھا کر ہیرو سڑک پر آتا ہے، اب اس کی جیب میں بائیس روپے کچھ آ نے ہیں۔
  اور سکینہ کومنی آرڈر ابھی تک نہیں بھیج ہے وہ چلتا ہوا زکریا اسٹریٹ کے دروازے کےباہر ناخدا مسجد کے سامنے ایک اسٹریچر پر پڑی ہوئی لاش کو دیکھتا ہے۔  نوجوان آواز لگا رہا ہے کہ ایک غریب مرگیا ہے کفن دفن کیلئے پیسے دے کر ثواب حاصل کیجئے۔ ہیروقریب جا کر دکھتا ہے تو وہ مولا بخش کی لاش ہے جو سکینہ کے پاس منی آرڈر بھیجنے سے پہلے ہی خدا کے یہاں پہنچ گیا۔ ہیرو اس نو جوان سے پوچھتا ہے کہ یہ کیسے مرا؟ اس نے بتایا ک ٹرک سے کچل کر مولابخش کے کفن دفن کیلئے ایک نے دو آنے راہ گیر چادر پر پھینکتے جارہے ہیں۔
ہیرو کا ہاتھ جیب میں جاتا ہے، بائیس روپے کچھ آنے اس چادر پر پھینک کر وہ جلدی جلدی جانے لگتا ہے۔ نوجوان اسے غور سے دیکھتا ہے کہ یہ کوئی سخی ہے جو اپنے پیسے دے رہا ہے۔
افسانے کا عنوان سخی اسلئے ہے کہ ہیرو نے منی آرڈر کی رقم کے بچے ہوئے پیسے ضرورت ہونے پر بھی مولا بخش کے کفن دفن کیلئے دے دیے۔ جبکہ یہ رقم مولا بخش ہی کی تھی۔
سوالوں کے جواب لکھیے:
1۔ افسانہ نگار ہوٹل میں کس کا منتظرتھا اور کیوں؟
جواب: افسانہ نگار ہوٹل میں بیٹھا ایک اخبار کے ایڈیٹر کا انتظار کر رہا تھا جس نے اسے ترجمے کا کام دینے کا وعدہ کیا تھا۔ وہ اس امید پر اس کا منتظر تھا کہ اگر اسے ترجمے کا کام مل گیا تو وہ اس ایڈیٹر سے کچھ ایڈوانس مانگے گا تاکہ وہ زکریا اسٹریٹ کے کسی ہوٹل میں کچھ دن گزارا کر سکے۔
2- اس کہانی میں زندگی کی کون سی سچائی بیان کی گئی ہے؟
جواب:  اس کہانی کے مطابق زندگی کی سچائی پیسہ کو بتایا گیا ہے۔ کیونکہ پیسے کے بغیرانسان کوئی کام  نہیں کر سکتا۔ پیسہ نہ ہونے پر آدمی بھیک مانگتا ہے، چوری کرتا ہے، ڈاکے ڈالتا ہے ، اور دیگر غلط کاموں میں ملوث ہوتا ہے تاکہ  دو وقت کی روٹی کا انتظام کر سکے  اور زندگی کی دوسری ضرورتیں پوری کر سکے۔
3۔ مولا بخش کے کردار پر روشنی ڈالیے۔
جواب: مولا بخش ایک محنتی شخص ہے جو مزدوری کرتا ہے اور اپنی محنت سے جو کچھ بھی کماتا ہے اُن میں سے ہر ماہ کی 13 تاریخ یا اس کے آس پاس 50،40 یا 30 روپے جو بھی میسر ہو اپنی بیوی سکینہ کو اپنے گھر پورنیہ بھیج دیتا ہے۔ وہ ایک گٹھے ہوئے جسم کا مالک ہے ۔وہ پستہ قد اورسیاہی مائل ہے اور اس کے کان کی لوتھڑی کٹی ہوئی ہے۔ چہرہ بڑا ،گردن موٹی اور آنکھوں میں چمک ہے۔محنت سے جی نہیں چراتا اور اپنی بیوی سے سخت محبت کرتا ہے۔
4۔ اس کہانی کا عنوان سخی کیوں رکھا گیا ہے؟
جواب: اس کہانی کا عنوان سخی در اصل ایک گہرا طنز ہے یہ ایک مہذب سماج پر طمانچے کی مانند ہے۔ کہانی کا مصنف جو ایک بے روزگار شخص ہے ایک بڑے شہر میں ملازمت کی تلاش میں اس درجہ پریشان اور بے بس ہو جاتا ہے کہ اسے ایمانداری اور بے ایمانی میں فرق سمجط نہیں ہوتا۔ وہ اس کہانی کے مرکزی کردار جو کہ ایک مزدور ہے اس کے 60 روپے ہتھیا لینے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتا۔ مولا بخش جو ہر ماہ کی 13 تاریخ کو پابندی سے پیسے بھیجتا ہے 60 روپے لے کر مولا بخش کے پاس آتا ہے اور اسے بتاتا ہے کہ وہ کچھ مجبوریوں کے باعث اپنی بیوی کو منی آرڈر نہیں لگا پا رہا ہے اور برسوں بعد پہلی بار ایسا ہوگا کہ وہ اپنی بیوی کو پیسہ اپنے وقت پر نہیں بھیج پارہا ہے۔ افسانہ نگار کی نیت میں فتور آجاتا ہے۔ وہ مولا بخش سے وعدہ کر لیتا ہےکہ وہاس کا منی آرڈر لگا دے گا۔ مولا بخش اسے منی آرڈر اور پیسے دے کر چلا جاتا ہے۔ افسانہ نگار پیسے لے کر اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے نکل پڑتا ہے۔ وہ ایک ہوٹل میں بیٹھ کر خوب مزے اڑاتا ہے۔ ہوٹل میں وہ قورمہ، شیر مال اور کباب کے مزے لیتا ہے جن کی خشبو نے اسے کئی دن سے دیوانہ بنا رکھا تھا۔ وہ ہوٹل سے باہر نکلتا ہے اور منی آرڈر کو پھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔ اب اس کے پاس 22 روپے بچے ہوئے ہیں۔ جب وہ ناخدا مسجد کے پاس پہنچتا ہے تو وہاں ایک شخص آواز لگا رہا ہوتا ہے کہ یہاں ایک لاش پڑی ہے اس کے کفن دفن کے لیے کچھ پیسے دیتے جأؤ۔ وہ قریا جاتا ہے۔اسے لاش کے کان کی کٹی ہوئی لو دکھ جاتی ہے اس کے منہ سے بے ساختہ مولا بخش نکل جاتا ہے۔ لوگ لاش کے پاس 5،10 پیسے ڈال کر جا رہے تھے۔ وہ اپنی جیب میں مولا بخش کے باقی بچے 22 روپے اس کی لاش پر ڈال کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ وہاں بیٹھا نوجوان اسے دور تک دیکھتا رہتا ہے کہ یہ کون ہے۔ یہ اس کہانی کا کلائمکس ہے جس میں ایک گناہ گار کو لوگ دریا دل اور سخی سمجھتے ہیں۔

0 comments:

Post a Comment

خوش خبری