آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Tuesday 5 July 2022

Allah Ke Khalil: Hazrat Ibrahim Alaihissalam ke Halat e Zindagi (Day-5)

 اللہ کے خلیل
حضرت ابراہیم علیہ السلام 
کےحالاتِ زندگی
آگ کا سرد ہونا
عقل و دلیل کی تمام سرحدوں کو توڑ کر ، شاہ اور قوم، جب ظلم و جبر کی منزل پر اُتر آئے اور دہکتی آگ کے شعلے، حق گوئی کی سزا تجویز کر دی گئی، ایک طرف یہ ہو رہا تھا، دوسری طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے کہ گھر اور باہر سب طرف مخالفت ہی مخالفت کا ہجوم تھا۔ کسی طرف سے ہمدردی کی مدھم سی آواز کی بھی توقع نہ ره گئی تھی، تمام
مادّی سہارے مفقود تھے، ایسے وقت میں حضرت ابراہیمؑ کو جس زبردست سہارے نے قوی دل اور جواں ہمت بنائے رکھا، وہ خداے بزرگ و برتر کی ذاتِ اقدس تھی،جس کے مقابلے میں بڑی سے بڑی مادّی طاقتیں ہیچ ہوکر رہ جاتی ہیں۔ یہی سہارا ہمیشہ حق کا ساتھی رہا ہے، اور اسی سہارے نے حق گویوں کو ظلم و باطل پر فتح دلائی ہے۔ یہی سہارا اس نازک وقت میں حضرت ابراہیمؑ کے کام آیا۔
سزا کے لیے ایک خاص جگہ تیار کی گئی۔ لکڑیوں کا ایک انبار اکٹھا کیا گیا، مسلسل کئی دن تک آگ دہکائی گئی، جس کی گرمی کا یہ حال تھا کہ دور دور تک اس کی حدّت سے چیزیں جھلس گئی تھیں۔ اس آگ میں ایک خاص ڈھنگ سے اللہ کے نیک اور برگزیدہ بندے حضرت ابراہیمؑ کو پھینک دیا گیا۔
قرآن مجید، جس کی صداقت شک و شبہ سے بالاتر ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی نصرت کا حال اس طرح بیان کرتا ہے کہ ایک طرف نمرود اور اس کی قوم اپنے ہلاکت آفریں مادّی کی انتظام پر مطمئن تھے کہ اب ابراہیمؑ کے بچ نکلنے کی کوئی صورت نہیں، لیکن اللہ تعالیٰ جس نے آگ کو جلانے، پانی کو آگ بجھانے اور ہوا کو سرد کرنے کی اور کائنات کی ہر چیز کو کوئی نہ کوئی خاصیت اور طاقت بخشی ہے، جو اتنی عظیم قدرت کا، بلا شرکت غیرے مالک ہے، وہ اس بات کی بھی پوری پوری قدرت رکھتا ہے کہ وہ جب چاہے اور جس چیز سے چاہے اپنی دی ہوئی طاقت و خاصیت کو سلب کرلے۔ اگر وہ صرف دینے کی طاقت رکھے اور سلب کر لینے کی نہ رکھے۔ تو یہ عقل میں نہ آنے والی بات
ہے، تو اس خداے قادر و توانا نے، آگ کو حکم دیا کہ
”اے آگ! ابراہیمؑ کے لیے ٹھنڈک اور سلامتی بن جا“ آگ نے امر الٰہی کی تعمیل کی اور حضرت ابراہیمؑ کا بال بیکا نہ ہوا۔
ترک وطن
اب وہ وقت آگیا تھا کہ حضرت ابراہیمؑ ،دلائل و براہین کی ساری قوّتیں صرف کرنے کے بعد یہ سوچیں کہ ان کی قوم قبول حق کے لیے آمادہ نہیں ہوسکتی، کیوں کہ اس نے اپنی عقلی و فکری صلاحیتوں کو صحیح راہ پر صرف کرنے کے بجاے، اپنی خواہشات و مرضیات کا تابع بنالیا تھا اور ان کے اختیار فکری و عقلی نے ضلالت و گمراہی کو ہی ان کی نظروں میں پسندیده بنا دیا تھا۔ اس لیے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہ گیا تھا کہ وہ اعلان و تبلیغ حق کے لیے کسی دوسری سرزمین کا رُخ کریں۔ چنانچہ آپ نے اپنے وطن قصبہ اُور کو خیر باد کہا اور اپنے بھتیجے حضرت لوط علیہ السّلام (لوط بن ہازن بن آزار) اور اپنی بیوی حضرت سارہؓ (اس وقت تک یہ ہی دو آپ پر ایمان لائے تھے) کے ساتھ، اُور کلدانیین میں پہنچے جو فرات کے مغربی کنارے کے قریب ایک بستی تھی، یہاں کچھ دنوں قیام فرمایا، پھر بیوی اور بھتیجے کے ساتھ حرّان چلے گئے اور اپنا وقت وہاں کے لوگوں کے سامنے پیغام حق پہنچانے میں صرف کرنے لگے۔
(جاری)

0 comments:

Post a Comment

خوش خبری