آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Friday 1 July 2022

Allah Ke Khalil: Hazrat Ibrahim Alaihissalam ke Halat e Zindagi (Day-1)

 آئینہ پیش کرتا ہے آج سے 10ذوالحجہ تک روزانہ اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام (از خلیل احمد جامعی)کی مختصر حالاتِ زندگی۔ اپنے بچّوں اور اہل خانہ کو بلند آواز میں پڑھ کر سنائیں یا اُن سے سنیں تاکہ آپ کو اس بات کا علم ہو کہ کس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے گھر والوں،اپنی حکومت اور اپنی قوم کی دشمنی کے باعث کن مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا اور کس طرح آپ ان سے عہدہ بر آہوئے اور کس انہماک اور لگن کے ساتھ آپ نے اپنے فرائض کو انجام دیا، یہ ایک بڑی دلچسپ اور سبق آموز داستان ہے،عام مسلمانوں اور طلبہ کو اس سے عبرت و نصیحت حاصل ہوگی ۔
 اللہ کے خلیل
حضرت ابراہیم علیہ السلام 
کےحالاتِ زندگی

حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ ، بہت بڑے پیغمبر گزرے ہیں آپ ہی کی اولاد میں ، اللہ کے آخری نبی اور رسول، ہم سب کے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و اصحابہٖ وسلّم ہیں اپنی اسی نسبت کے لحاظ سے، سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا:
ا۔ میں نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو دیکھا ، میں آپ کی اولاد میں آپ سے سب سے زیادہ مشابہ ہوں۔(حدیث)
۲- میں اولاد ابراہیمؑ میں، اُن (ابراہیمؑ) سے بہت زیادہ مشابہ ہوں۔ (حدیث)
۳۔ ابراہیم علیہ السّلام کو دیکھنا ہو تو مجھے دیکھ لو۔ (حدیث)
بعض علماء نے کہا ہے کہ
”مقام ابراہیمؑ پر، حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے جو نشاناتِ قدم ہیں، وہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و اصحابہٖ وسلّم کے قدموں سے ملتے جلتے ہیں۔ “
فضائل ابراہیمؑ
 قرآن مجید میں جگہ جگہ ، اللہ تعالی نے حضرت ابراہیمؑ کا ذکر کیا ہے اور ہر ذکر سے ، آپ کی عظمت، بزرگی، دیانت، صداقت، پاکبازی و قربانی وغیرہ جیسے اوصاف کا اظہار ہوتا ہے ، یہاں صرف ان قرآنی آیتوں کے مفہوم کے درج کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
(۱)کتاب اللہ میں ابراہیمؑ کے ذکر کو پڑھو ، وہ سچے نبی تھے۔
(۲)ہم نے ابراہیمؑ کو پہلے ہی سے سیدھی راہ دکھا دی اور ہم اُسے (ابراہیمؑ کو) جانتے تھے۔ 
(۳)ابراہیمؑ بردبار، یاد الہٰی کے لیے بے چین رہنے والے اور ہر طرف سے منہ موڑ کر صرف ایک اللہ کی طرف متوجہ ہونے والے تھے۔
(۴) بلحاظ مذہب، اس سے اچھا کون؟ جو اللہ کا مطیع و فرماں بردار بن گیا اور نیکوکاری اس کا شیوہ ہو گیا، اسی کے ساتھ ساتھ ملّت ابراہیمیؑ کا خلوص قلب کے ساتھ پیرو بن گیا ، کیونکہ ابراہیمؑ کو اللہ تعالیٰ نے اپنا دوست بنالیا ہے۔ 
(۵)ابراہیم اخلاص کے ساتھ اللہ کے مطیع تھے۔ انھوں نے کبھی بھی خدا کی یکتائی اور بڑائی میں کسی کو شریک نہیں بنایا بلکہ وہ ہمیشہ اللہ کے شکر گزار رہے، اللہ نے انھیں نبوّت و رسالت کے لیے چُن لیا اور انھیں سیدھی راہ دکھادی، وہ دنیا میں نیک رہے اور آخرت میں بھی،وہ اللہ کے نیک بندوں میں سے ہیں۔ 
(۶) اللہ نے چند بار ابراہیمؑ کے ایمان کا امتحان لیا اور وہ ہر امتحان میں پورے اُترے، تو اللہ نے فرمایا، ”میں تجھے (ابراہیمؑ کو) لوگوں کا امام و پیشوا بناؤں گا، ابراہیمؑ نے (اللہ کی جناب میں) عرض کیا ”اور میری اولاد کو بھی “جواب ملا کہ "میرا عہد ظالموں کو نہیں ملے گا۔ “
(۷) یاد کرو! جب ہم نے گھر (کعبہ) کو لوگوں کے لیے رجوع ہونے اور امن کی جگہ بنایا۔ مقامِ ابراہیمؑ (کعبہ کے متّصل ایک جگہ) کو جاے نماز بناؤ!
(۸) ہم نے ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ سے اس بات کا عہد لیا کہ میرے گھر (کعبہ) کو طواف کرنے والوں ، عبادت گزاروں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک صاف کرو!
(۹) ابراہیمؑ اللہ کے اطاعت گزاروں میں ہے، وہ اپنے پروردگار کے حضور قلب سلیم لے کر آیا۔
(۱۰) ہم نے کہا ، اے آگ! ٹھنڈی ہوجا ابراہیم کے لیے اور سلامتی بن جا۔
مزکورہ بالا آیات کے ملخّص و مفہوم سے، جہاں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی پوری زندگی سامنے آجاتی ہے وہاں یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیّدنا حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو کیسی کیسی فضیلتیں اور بزرگیاں عنایت کی تھیں اور یہاں سے تو صرف چند آیات کا خلاصہ دیا گیا ہے ۔ اگر ان تمام آیتوں کو جن کا تعلق حضرت ابراہیمؑ کے ذکر سے ہے ، ایک جگہ جمع کر دیا جائے تو حضرت کی بے شمار فضیلتیں اور بزرگیاں سامنے آجاتی ہیں اور آپ کی بڑائی اور غیر معمولی شخصیت ہونے کا اقرار کرنا پڑتا ہے۔
نسب نامہ 
اللہ کے خلیل کا سلسلۂ نسب اس طرح بیان کیا جاتا ہے۔
ابراہیم ابن آزر ابن تاجور ابن سروج ابن رعو ابن فالح ابن عامر ابن شالح ابن ارفکشاذ ابن سام ابن نوح۔
 آزر کے علاوہ حضرت ابراہیمؑ کے باپ کے دو اور نام تاریخوں میں آتے ہیں ۔ ایک تارخ دوسرا تارح ، یہ تینوں نام ایک ہی شخصیت کے ہیں۔آزر، آوار کا مُعرّب ہے ، کالدی زبان میں بڑے پجاری کو آوار کہتے تھے۔ عربی میں وہی آوار، آزر کہلایا کیونکہ تارخ بت تراش بھی تھا اور سب سے بڑا پجاری بھی، اسی لیے لقب نے اتنی شہرت پائی کہ وہ اصلی نام سمجھا جانے لگا ۔ اسی لیے قرآن نے بھی اس کو اسی نام سے پکارا۔
حضرت ابراہیم علیہ السّلام چونکہ بڑے مہمان نواز بھی تھے،اسی لیے آپ کو اَبُوالضيفان بھی کہتے تھے۔
وطن 
کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام غُوطَۂ دمشق کے کسی گاؤں میں پیدا ہوئے ، جو قَاسِیون پہاڑ پر آباد تھا۔ لیکن یہ صحیح نہیں،بَرُزَہ جس کا نام بطور جاے پیدایش لیا جاتا ہے ، کسی مغالطہ کا نتیجہ ہے ۔ ہاں آپ بَرُزہ تشریف ضرور لے گئے، کیونکہ وہ آپ کے بھتیجے لوطؑ مسکن تھا۔
آپ کی پیدایش کے سلسلے میں تورات کا بیان ہے کہ ابرامیم عراق کے قصبہ اُور کے باشندے تھے۔ کھیتی باڑی پیشہ تھا، اور جس قوم کے آپ ایک فرد تھے وہ بت پرست تھی۔ انجیل بَرنَابا کی تصریح کے مطابق آپ کے والد کا پیشہ نجّاری تھا اور اپنی قوم کے مختلف قبیلوں کے بت لکڑی کے بناتے اور فروخت کرتے تھے لیکن حضرت ابراہیمؑ،اللہ کی عطا کی ہوئی بصیرت کی موجودگی میں ، ابتداۓ شعور ہی سے اس بات کا یقین رکھتے تھے کہ بت سننے دیکھنے اور کسی کو نقصان پہنچانے اور کسی قسم کی طاقت اپنے اندر نہیں رکھتے، اس لیے اعلانِ نبوّت کے بعد، آپ نے سب سے پہلے اسی کی طرف توجہ فرمائی۔ ملاحظہ ہو، سورۂ انبیا کی آیت ۵۱  تا ۵۶   ارشاد ہوا:-
”اور بلا شبہہ ہم نے پہلے ہی سے، ابراہیمؑ کو رشد و ہدایت عطا کردی تھی اور ہمیں اس بات کا علم ہے، جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا ، یہ مجسّمے کیا ہیں، جن کو لیے بیٹھے ہو ... تو انھوں نے جواب دیا .... ہم نے اپنے باپ دادا کو انھیں کی پرستش کرتے پایا ہے.... ابراہیمؑ نے کہا.... یقیناً تم اور تمھارے باپ دادا کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہیں.... تو انھوں نے کہا کیا تو ہمارے لیے کوئی امر حق لایا ہے یا یہ محض مزاق ہے.... ابراہیمؑ نے کہا (یہ بُت تمھارے معبود نہیں ہیں) بلکہ تمھارا پالن ہار آسمانوں اور زمینوں کا پالن ہار ہے، جس نے اِن سب کو پیدا کیا ہے اور میں اُسی کا قائل ہوں۔ “

0 comments:

Post a Comment

خوش خبری