قاضی سید احمد حسینؒ
جنگ آزادی کے مجاہد جلیل اور اخلاص و عمل کے پیکر جمیل
سر زمین بہار شروع سے ہی بہت مردم خیز خطہ رہا ہے۔اپنی علمی و ادبی ،روحانی و اخلاقی اور سیاسی و انقلابی کارناموں کی وجہ سے یہ ریاست ہمیشہ ممتاز رہی ہے۔ علم و ادب میں جہاں علامہ سید سلیمان ندوی،مولانا مناظرا حسن گیلانی،مولانا ابو المحاسن محمد سجاد جیسے جید عالم دین و ادب پیدا ہوئے وہیں سیاسی و اجتماعی زندگی میں غیر مسلموں میں ڈاکٹر راجندر پرشاد،جئے پرکاش نارائن جیسے سیاسی مدبر اور مسلمانوں میں مولانا مظہر الحق،مولانا شفیع داؤدی،ڈاکٹر سید محمود اور شاہ محمد زبیر جیسے اہل فکر و سیاست نے اس سرزمین کو رونق بخشی،اسی سرزمین میں جنگ آزادی کے مجاہد جلیل،دین و سیاست اور اخلاص و عمل کے پیکر جمیل جناب قاضی سیداحمد حسین ؒ پیدا ہوئے۔جن کی ہشت پہلو ہمہ جہت شخصیت کا مختصر تعارف اس وقت میرے پیش نظر ہے۔وہ ایک ایسے مرد مومن تھے جن کے دنوں کی تپش اور شبوں کے گداز کوان آنکھوں نے تقریباً دو سال شب و روز خلوت و جلوت میں ساتھ رہ کر دیکھا اور ان کی حکمت و دانائی ،روحانی و اخلاقی فکر و عمل سے فیضیاب ہوا۔ان کی پوری زندگی جنگ آزادی کی جدو جہد، ملک و ملت کی خدمت گذاری اور دعوت دین میں گذری۔ان کی مؤمنانہ بصیرت اور فطری ذہانت ا ن کی پیشانی سے عیاں ہوتی۔قاضی احمد حسین صاحب بہار کے ایک خوشحال زمیندار گھرانے میں 1888ء میں پیدا ہوئے۔ان کی جائے پیدائش موضع کونی بر، نرہٹ ضلع نوادہ ہے۔ان کے والد قاضی عبد اللطیف صاحب بہار کے بڑے زینداروں میں شمار ہوتے تھے۔خاندان سادات سے ان کا تعلق تھا۔اس خاندان میں قضا کا محکمہ کئی پشت سے چلا آرہا تھا اس لئے قاضی کا لفظ اس خاندان کے نام کا جزو بن گیا۔ آپ کی نانیہال سملہ ضلع اورنگ آباد (بہار) کے عثمانی خانوادہ میں تھی جو شروع سے رشد و ہدایت،تصوف و احسان اور روحانیت کا مرکز رہا ہے۔ ان کی والدہ بی بی رحمت اپنے وقت کی ولیہ کاملہ تھیں جن کا ذوق عبادت اور شوق ریاضت خاندان میں مشہور تھا۔قاضی صاحب کو جہاں دادیہال سے ریاست و خوشحالی ملی تھی،وہیں اپنی نانیہال سملہ کے بزرگوں اور اپنی والدہ سے روحانی تعلیم و تربیت حاصل ہوئی تھی،اس طرح ان کے مزاج میں سلطانی و درویشی کا حسین امتزاج تھا۔میں نے ان کو دن میں دینی و ملی اور سیاسی و اجتماعی سرگرمیوں میں مشغول پایا تو راتوں کو اخیر شب میں تہجد گذاری،ذکر و اشغال، اپنے خدا کے حضور میں روتے ،گڑگڑاتے اور آہ و بکا کرتے دیکھا،ایسی جامع شخصیت کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔
قاضی احمد حسین صاحب ؒ کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔اردو،فارسی،نوشت و خواند اور ساتھ ہی حفظ قران مکمل کیا۔کم عمری میں ان کے والد کا انتقال ہو گیا تھا۔14برس کی عمر میں ہی کاروبار زمینداری کا بوجھ ان کے کاندھوں پر آگیا،اسی باعث ان کی روائتی تعلیم ادھوری رہ گئی لیکن اپنی خداداد ذہانت اور ذوق مطالعہ سے ان کی علمی صلاحیت بہت بڑھ گئی تھی ۔علماء،شیوخ اور اہل علم و دانش کے درمیان وہ بڑی وقعت اور وقار کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے،قرآن مجید سے شغف اور تفاسیر کا مطالعہ ان کا خاص موضوع تھا۔روزانہ مطالعہ قرآن کسی نہ کسی معتبر تفسیر سے کرتے۔فقہ و حدیث،تاریخ اسلام اور سیرت نبوی کی کتابیں ان کے مطالعہ میں رہتیں۔ان کے علاوہ مختلف علمی موضوعات پر متنوع علمی مطالعہ ان کا خاص ذوق تھا،جس نے ان کی شخصیت اور فکر و نظر میں وسعت پیدا کردی تھی ، نگہہ بلند ،سخن دلنواز ،جاں پرسوز کے وہ مصداق بن گئے تھے اس طرح میر کارواں بننے کے وہ ہر طرح مستحق تھے۔
عنفوان شباب میں ہی کلکتہ کے انقلابیوں سے ان کا تعلق ہوگیااور ساتھ ہی مولانا ابوالکلام آزاد سے بھی بہت قریب ہو گئے،مولانا آزاد کا اخبار’’الہلال‘‘ مشرق کے افق سے طلوع ہو چکا تھا،اسی زمانہ میں مولانا آزاد کی تحریک ’حزب اللہ‘ میں بھی وہ شریک رہے۔پھر جب ملک میں خلافت تحریک کا زور ہوا تو وہ بہار میں تحریک خلافت کے روح رواں بن گئے۔مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی سے ان کا رابطہ ہوا۔اس سے پہلے تشدد چھوڑ کرگاندھی جی کے عدم تشدد کے فلسفہ کو بطور حکمت عملی اختیار کر چکے تھے اور گاندھی جی کے ایماء پربمبئی خلافت ہاؤس میں مولانا محمد علی ،مولانا شوکت علی کے ساتھ بھی کچھ دنوں کام کیا،پھر گاندھی جی نے اہلِ بہار کے اصرار پر قاضی صاحب کو بہار واپس بھیج دیا ۔
قاضی صاحب کی سیاسی و سماجی سرگرمیوں کی ابتدا 1906ء سے شروع ہوتی ہے، جب کہ وہ جوان تھے،شوق اور جوش انقلاب میں زمینداری کے سارے کاروبار اپنے چھوٹے بھائی قاضی محمد حسین صاحب جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اپنی تعلیم ختم کرکے گھر آگئے تھے حوالہ کرکے بنگال کی انقلابی تحریک میں شریک ہو گئے،اس طرح بنگالی نوجوانوں کے ساتھ تشدد کے ذریعہ انگریزوں کو ملک سے نکالنے کے لئے جنگ آزادی کی جدو جہد میں شریک رہے۔قاضی صاحب تشدد کا راستہ چھوڑ کر عدم تشدد کے اصول پر کانگریس کی تحریک آزادی میں کس طرح شریک ہوئے اس واقعہ کو خود انہوں نے مجھ سے اس طرح فرمایا:اسی زمانہ میں الہ آباد میں گاندھی جی نے کانگریس کا ایک جلسہ بلایا،جس میں ہم بھی شریک ہوئے اس جلسہ میں گاندھی جی نے ایک مختصر تقریر کی لیکن وہ اتنی موثر تھی کہ ہم اور دوسرے نوجوانوں نے متاثر ہوکر تشدد کا راستہ چھوڑ دیا اور پستول پھینک کر گاندھی جی کی عدم تشدد کے ذریعہ کانگریس کی تحریک آزادی میں ہم بھی شریک ہوئے۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ قاضی صاحب کانگریس کے ساتھ تحریک خلافت میں بھی برابر شریک رہے۔اسی دور میں جب ملک میں خلافت تحریک زوروں پرچل رہی تھی،بہار میں قاضی احمد حسین صاحب کے ساتھ متعدد ہندو مسلم رہنماگرفتار کر لئے گئے تو گاندھی جی نے اپنے اخبار ینگ انڈیا مورخہ 22دسمبر1921ء میں لکھا۔
’’کرشن پرشاد ،راج رنگ دت ،رانا شنکر، قاضی احمد حسین گیا کے ،یہ سب رہنما شخصیتیں ڈیڑھ سو رضاکاروں کے ساتھ گرفتار کر لی گئی ہیں۔بہار کی زمین غم و الم بن گئی ہے،یہ حضرات ہندوستان کے سب سے زیادہ بے غرض کارکن ہیں جو خاموشی سے کام کرتے ہیں اور بے غیر ریا اور نمائش کے۔‘‘
جنگ آزادی میں کانگریس ،تحریک خلافت، جمعیتہ علمائے ہند اورامارت شرعیہ بہار سے عملاً متعلق رہے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ مولانا ابو المحاسن محمد سجادؒ نے جب امارت شرعیہ بہار کا قیام عمل میں لایا تو قاضی صاحب اس دینی تحریک کے ثانی اثنین بن گئے اور اخیر عمر تک اعزازی طور پر بحیثیت ناظم امارت شرعیہ میں کام کرتے رہے۔
ندوہ سے فراغت کے بعد جنوری1954ء سے1955ء تک تقریباً دو سال میں امارت شرعیہ بہارسے متعلق رہا۔ ہفت روزہ نقیب پھلواری شریف پٹنہ میں بحیثیت مدیر میری تقرری ہوئی اور ساتھ ہی معاون ناظم کی حیثیت سے قاضی صاحب کے ساتھ معاونت میرے فرائض میں شامل تھی۔یہ دو سال میری زندگی کا انتہائی قیمتی دور گذرا ہے۔جس میں مجھے قاضی صاحب کے ساتھ صبح و شام رفاقت کا شرف حاصل رہا۔ملک کی دینی، سیاسی اور ملی تحریکات کے سلسلہ میں قاضی صاحب سے میں براہ راست مستفید ہوا،ان کے دینی و ملی اور سیاسی تجربے میری زندگی کے حاصل رہے۔
قاضی صاحب کی پوری زندگی ،تحریک خلافت،جمعیتہ علمائے ہنداور امارت شرعیہ بہار کے ارد گرد گھومتی ہے۔اخیر عمر میں وہ امارت شرعیہ بہارکے ہوکر رہ گئے تھے اور ناظم امارت شرعیہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے ۔دوران گفتگو مجھ سے کہا اور نصیحت کی کہ اجتماعی زندگی میں ہمیشہ نیو کی اینٹ بنو جس پر پوری عمارت کھڑی ہوتی ہے اور اسے کوئی نہیں دیکھتا،واقعہ یہ ہے کہ خود قاضی صاحب اس کے عملی نمونہ تھے، بے غرض و بے ریا،ملک و ملت اور دین کی خدمت کسی ستائش کی تمنا اور صلہ سے بے پرواہ ہو کرانجام دیتے رہے۔کبھی کوئی عہدہ اور ادارہ کی صدارت و نظامت قبول نہیں کی۔امارت شرعیہ کی اعزازی نظامت بھی مولانا ابو المحاسن محمد سجادؒ کے اصرار و خواہش اور امارت کی ناگذیر ضرورت کی بنا پر اختیار کی۔بہار میں انڈی پنڈنٹ پارٹی جسے مولانا سجاد نے قائم کیا تھاجس کے روح رواں خود قاضی صاحب تھے بہار کونسل میں کانگریس کے بعد دوسری پارٹی تھی جب وزارت سازی کا وقت آیاتو کانگریس نے بعض مصالح کی بنا پر وزارت بنانے سے انکار کردیا اور گورنر نے انڈی پنڈنٹ پارٹی کو مدعو کیا،مسٹر محمد یونس بیرسٹر نے جو پارٹی لیڈر تھے وزارت بنائی،قاضی صاحب جو خود کونسل کے ممبر منتخب ہوئے تھے وزارت میں شریک نہیں ہوئے اور ہمیشہ نیو کی اینٹ بنے ملک و ملت کی خدمت انجام دیتے رہے۔
جب ملک آزاد ہوا اور نئی پارلیمنٹ بنی تو راجیہ سبھا کی ممبری کے لئے دہلی کانگریس آفس میں خواہشمندوں کا تانتا بندھ گیا،تقسیم ہند اور آزادی کے بعد حالات بدلے، مسلمانوں کی مرکزی قیادت دہلی میں تھی،کانگریس کی مرکزی حکومت میں ،مولانا آزاد،رفیع احمد قدوائی،ڈاکٹر سید محمود جیسے رہنما،ملت مسلمہ کے مسائل کے ڈور کو سلجھانے اور حل کرنے کے لئے کوشاں تھے۔،جمعیتہ علمائے ہند،جماعت اسلامی ہند اور تبلیغی جماعت اپنے اپنے دائرے میں ملک و ملت کی تعمیر و ترقی میں اپنی سی کوششیں کر رہے تھے،ایسے میں قاضی احمد حسین جیسے پیکر اخلاص و عمل اور مدبر کی ضرورت دہلی میں رہنے کی تھی ،پھر بھی قاضی صاحب کا خیال راجیہ سبھا کی ممبری کی طرف نہ گیا،بہار میں رہ کر بہار سنی وقف بورڈ کی اصلاح اور امارت شرعیہ کے ذریعہ مسلمانوں کے دینی شعور کو بیدار کرنے اور اصلاحِ احوال میں لگے رہے۔ایک دن ان کے چھوڈے بھائی قاضی محمد حسین صاحب پھلواری پہنچے اور اپنے آنے کا مدعا بیان کیااور راجیہ سبھا کی ممبری کے لئے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔قاضی محمد حسین صاحب ایک پڑھے لکھے علیگ تھے،قومی کاموں میں اپنے بڑے بھائی کے ساتھ سرگرم رہے تھے،گیا میں ضلع ڈسٹرکٹ بورڈ کے وائس چیرمین رہ چکے تھے وہ ہر طرح اس عہدہ کے مستحق تھے۔لیکن اس دوڑ میں پٹنہ سے دہلی تک ان کی پہنچ ذرا مشکل تھی۔کچھ دیر سوچتے رہے اور پھر بولے ٹھیک تو ہے تمہاری اہلیت و صلاحیت کی وہاں ضرورت ہے لیکن تم نہیں ہو سکتے ،ممکن ہے ہم ہو جائیں۔قاضی صاحب کا دل فقیرانہ اور مزاج شاہانہ تھا،پٹنہ اور دہلی کی دربار داری ان کے بس کی نہ تھی۔پھر پٹنہ اور دہلی کا چکر لگائے بغیر پھلواری سے بیٹھے بیٹھے،صرف دو سطروں کا خط مولانا آزاد کے نام لکھا’’جی چاہتا ہے کچھ دنوں دہلی میں آپ کی معیت حاصل ہو‘‘۔راجیہ سبھا کی ممبری کا کوئی ذکر بھی نہیں تھامولانا آزاد اپنی ذہانت سے مقصد کو سمجھ گئے اور جواب میں اپنے سکریٹری پروفیسر اجمل صاحب سے کہلوایاکہ ’’جب اس کا موقع اور محل آئے گاتو ہو جائے گا‘‘پھر مولانا آزاد کے ایماء پر قاضی صاحب راجیہ سبھا کے ممبر منتخب ہو گئے اور دو ٹرم رہے۔قاضی صاحب کی راجیہ سبھا کی یہ ممبری با مقصد تھی۔ملک و ملت کی خدمت اور دینی کاموں کی سہولت ان کے پیش نظر تھی۔دہلی میں ان کی قیام گاہ ساؤتھ ایونیوپورے ملک کے مختلف پارٹیوں کے رہنماؤں اور کارکنوں کا مرکز بنی رہتی تھی۔جمعیتہ علمائے ہند کے اکابر،جماعت اسلامی کے محمد مسلم مرحوم مدیر’ دعوت‘ ان کے علاوہ پسماندہ اور پست اقوام کے رہنما اور کارکنان سے ان کا رابطہ رہتاسب کے مشیر اور اچھے کاموں میں شریک رہتے۔اپنی ذات میں ایک انجمن تھے سب سے جدا اور سب کے رفیق۔مرکزی سطح سے پورے ملک پر اپنی فکر صالح کی چھاپ ڈالتے۔پارلیمنٹ میں بھی اپنی بات پہنچانے میں وہ باز نہ آئے۔پارلیمنٹ میں ہندو کوڈ بل پر آپ کی تقریر کا بڑا شہرہ ہوا۔کانگریس پارٹی کے اندر پسند نہیں کی گئی لیکن دوسرے حلقوں میں بڑی پذیرائی ہوئی۔قاضی صاحب کا جوش تبلیغ اور دعوت دین کا جذبہ وہاں بھی چین سے نہ بیٹھا 12ربیع الا ول یوم میلاد النبی کے موقع پر عید کارڈ کی طرح سیرت نبوی پر انگریزی زبان میں کارڈ چھپوایا اور اپنی طرف سے لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے تمام ممبران پارلیمنٹ کے نام آنحضرت ﷺکی سیرت پاک کے تناظر میں اسلام کی دعوت پیش کی جسے عام طور پر سراہا گیا اور قاضی صاحب کی ذہانت و جدت کی بڑی پذیرائی ہوئی۔
قاضی صاحب اس ملک میں دعوت دین کے لئے ہندو مسلم اتحاد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے بہت قائل تھے اور اس کے لئے ہر سطح پر کوشاں رہے اس سلسلہ میں پہلے صدرجمہوریہ ہند ڈاکٹر راجندر پرشاد کے نام ان کا ایک خط جیتا جاگتا ثبوت ہے جس سے ان کی ذہانت و دانائی سے لبریز ان کی بہترین تمنا کا اظہار ہوتا ہے۔
’’میں یقین رکھتا ہوں کہ مسلمان اگراسلام کی حقیقی روح کو سمجھ لیں اور ہندو اپنے سناتن دھرم کی روایتی رواداری کے حامل ہوجائیں تو ہماری دنیا چین و مسرت کی دنیا بن جائے۔
میں کانگریسی حکومتوں سے یہ امید رکھتا ہوں کہ وہ ہندو مسلمانوں میں اس روح کو بیدار کریں گے جو ہندؤوں کی روایات اور مسلمانوں کے مذہب نے انہیں بخشا ہے۔ میں اس گمشدہ چین و مسرت کو واپس لانے کا خواہشمند ہوں، اگر مجھ سے یہ امید اور خواہش چھین لی جائے تو اس امید سے خالی زندگی میں کوئی لذت نہیں پاؤں گا۔‘‘
(اقتباس از مکتوب قاضی احمد حسین بنام ڈاکٹر راجندر پرشاد)
امارت شرعیہ بہار کی نظامت کے زمانہ ہی میں قاضی صاحب کو تبلیغی جماعت کے طریقہ تبلیغ سے دلچسپی پیدا ہو گئی تھی اور کہا کرتے تھے کہ یہ طریقہ تبلیغ عوامی رابطہ اور اصلاح کا بہترین طریقہ ہے ،چنانچہ انہوں نے امارت شرعیہ کے شعبۂ تبلیغ کو عملاً اسی طریقہ تبلیغ پر ڈھال دیا تھا۔اپنی کبر سنی،تنفس کی بیماری اور ضعف و نقاہت کے با وجود بستی بستی قریہ قریہ سفر فرماتے، اصلاح معاشرہ اور دعوت و تبلیغ میں عملاً شریک رہتے۔ امت مسلمہ کی دینی اصلاح اور ان کے اندر ایک داعی امت کی صفات پیدا کرنے کی ہمہ جہت کوشش ان کا مقصدِ زندگی تھا،جو زندگی کے آخری لمحوں تک ان کے ساتھ رہا۔
جناب مولانا منت اللہ رحمانیؒ جب امیر شریعت رابع منتخب ہوگئے تو امارت شرعیہ بہار کے کاموں کی نگرانی براہ راست مولانامنت اللہ صاحب کے ہاتھوں میں آگئی اور قاضی صاحب کی ذاتی دلچسپی زیادہ تر تبلیغی کاموں سے ہو گئی،چنانچہ انہوں نے اس کام کے لئے زیادہ وقت گیا میں گذارنا شروع کیا اور راجیہ سبھا کا سیشن بند ہوتے ہی اکثر گیا چلے آتے تھے۔ان دنوں میں بھی اپنے تعلیمی پیشہ اور ملا زمت کے سلسلہ میں گیا آگیا تھا،اس لئے جب بھی وہ گیا آتے پھلواری شریف کی طرح یہاں بھی میرا زیادہ وقت ان کے ساتھ گزرتا،اس طرح ان کے فکری اور روحانی فیضان سے میں برابر مستفیض ہوتا رہا اور مستقبل میں میری اجتماعی زندگی اور دینی تحریکات میں میری عملی شرکت کا باعث بنا۔
29جولائی1961ء میں گیا کے اپنے مکان رحمت منزل میر ابو صالح روڈ میں اپنے چھوٹے بھائی قاضی محمد حسین صاحب کے ساتھ ان کا قیام تھا،قاضی صاحب بیمار تو تھے ہی اس دن ان پر قلب کا شدید دورہ پڑا،شہر کے مشہور معالج ڈاکٹر منظور صاحب موجود تھے،علاج معالجہ کی ہر تدبیریں ناکام ہوئیں، وہ ایک مرد مومن کی طرح چوں مرگ آید تبسم بر لب اوست کی تصویر بنے اپنے رب سے جا ملے،انا للہ و انا الیہ راجعون۔خدا مغفرت فرمائے اور کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔
ہندوستان کی جنگ آزادی کا یہ بطل جلیل 1918ء سے 1961ء تک ملک و ملت کی تمام تحریکات کا روح رواں،مسلم ہندوستان کی تاریخ کا عملی نمونہ،اخلاص و عمل اور دعوت دین کا پیکر جمیل آج ہم سے جدا ہو گیا۔بقول ایک عرب شاعر:
’’وہ لوگ تو چلے گئے جن کے سایہ میں زندگی گذاری جاتی تھی،وہ لوگ رہ گئے ہیں جن کی زندگی کچھ کارآمد نہیں۔‘‘
دوسرے دن بعد نماز ظہر،گیا کے مرکز تبلیغ محلہ گھسیار ٹولہ کی چھوٹی مسجد میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور شہر سے قریب پھلگو ندی کے اس پار آبگلہ کے قبرستان میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔
آسماں ان کی لحد پہ شبنم افشانی کرے