آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Saturday, 11 July 2020

Isra Art Gallery Flower-4



موسمِ بہار
 
 
 

Isra Art Gallery Flower-3

Isra Art Gallery Flower-2

آفتابِ گلابی
 
 
 

Isra Art Gallery Flowers



احاطۂ دل پذیر
 
 
 

Saturday, 4 July 2020

Sawere Uthna - Mohammad Husain Azad

سویرے اٹھنا
محمد حسین آزاد
Painting by Isra 

سویرے جو کل آنکھ میری کھلی
عجب تھی بہار اور عجب سیر تھی
خوشی کا تھا وقت اور ٹھنڈی هوا
پرندوں کا تھا ہر طرف چہچہا
یهی جی میں آئی که گھر سے نکل
ٹہلتا #ٹہلتا #ذرا#باغ #چل
چھڑی ہاتھ میں لے کے گھر سے چلا
اور اک باغ کا سید ها رسته لیا
وہاں اور ہی جا کے دیکھی بهار
درختوں کی ہے ہر طرف اک قطار
کہیں ہے چنبیلی کہیں موتیا
گلاب اور گیندا کہیں ہے کھِلا
کھلے پھول ہیں اس قدر جا بجا
که خوشبو سے ہے باغ مهکا ہوا
کہیں آم ہیں اور کہیں ہیں انار
کہیں کھٹے میٹھے ہیں دیتے بہار
لگے پھل درختوں میں ہیں اس قدر
کہ شاخیں زمین سے لگیں آن کر
بیان کیجئے کیا ہری گھاس کا
بچھونا ہے مخمل کا گویا بچھا
بہ جي چاہتا ہے کہ اس فرش پر
پھریں لوٹتے ہم ادهر اور ادهر
پہ سبزی ہے اک لطف دکھلا رہی
طراوت ہے آنکھوں میں کیا آرہی
خدا نے ہماری خوشی کے لئے
یہ سامان سارے ہیں پیدا کئے
سویرے ہی اٹھے گا جو آدمی
رہے گا وہ دن بھر ہنسی اور خوشی
نہ  آئے  گی  سستی  کبھی  نام  کو
کرے گا خوشی سے ہر اک کام کو
رہے گا وہ بیماریوں سے بچا
یہ ہے سو  دواؤں سے بہتر دوا

*بعد کے ایڈیشنوں میں یہ مصرع يوں ہے
 یہ سبزی تر و تازگی لا رہی۔

آئینۂ اطفال میں اور بھی بہت کچھ

Tuesday, 30 June 2020

Usi Se Thanda Usi Se garam - Dr Zakir Hussain

اُسی سے ٹھنڈا اُسی سے گرم
ڈاکٹر ذاکر حسین
میاں بالشتے لکڑہارے سے سوال پوچھتے ہوئے۔

ایک لکڑہارا تھا ۔جنگل میں جا کر روز لکڑیاں کاٹتا۔اور شہر میں جاکر شام کو بیچ دیتا۔ ایک دن اس خیال سے کہ آس پاس سے تو سب لکڑہارے لکڑی کاٹ لے جاتے ہیں۔ سوکھی لکڑی آسانی سے ملتی نہیں۔یہ دور جنگل کے اندر تک چلا گیا۔ سردی کا موسم تھا۔ کٹکٹی کا جاڑا پڑ رہا تھا۔ ہاتھ پاؤں ٹھٹھرے جاتے تھے۔اُ سکی انگلیاں بالکل سُن ہوجاتی تھیں۔ یہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کلہاڑی رکھ دیتا اور دونوں ہاتھ منھ کے پاس لے جاکر خوب زور سے اُن میں پھونک مارتا کہ گرم ہوجائیں۔
جنگل میں نامعلوم کس کس قسم کی مخلوق رہتی تھی۔سنا ہے اس میں چھوٹے چھوٹے سے بالشت بھر کے آدمی بھی ہوتے ہیں۔ اُن کی داڑھی مونچھ سب کچھ ہوتی ہے مگر ہوتے ہیں بس میخ ہی سے۔ ہم تم جیسا کوئی آدمی اُن کی بستی میں چلا جائے تو اسے بڑ حیرت سے دیکھتے ہیں کہ دیکھیں یہ کرتا کیا ہے۔؟ لیکن ہم لوگوں سے ذرا اچھے ہوتے ہیں کہ اُن کے لڑکے کسی پردیسی کو ستاتے نہیں اور نہ اُن پر تالیاں بجاتے ہیں۔ نہ پتھر پھینکتے ہیں۔ خود ہمارے یہاں بھی اچھے بچّے ایسا نہیں کرتے لیکن یہاں تو سبھی اچھے ہوتے ہیں۔
خیر لکڑہارا جنگل میں لکڑیاں کاٹ رہا تھا تو ایک میاں بالشتے بھی کہیں بیٹھے اسے دیکھ رہے تھے۔ میاں بالشتے نے جو یہ دیکھا کہ یہ بار بار ہاتھ میں کچھ پھونکتا ہے تو سوچنے لگے کہ یہ کیا بات ہے۔دیر تک اپنی بتاشہ سے ٹھوڑی اپنے ننھے سے ہاتھ پر دھرے بیٹھے رہے مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا تو یہ اپنی جگہ سے اٹھے اور کچھ دور چل کر پھر لوٹ آئے کہ نہ معلوم کہیں پوچھنے سے یہ آدمی برا نہ مانے۔ مگر پھر نہ رہا گیا۔آخر کو ٹھمک ٹھمک کر لکڑہارے کے پاس گئے اور کہا
”سلام بھائی! بُرا نہ مانو تو ایک بات پوچھیں۔“
لکڑہارے کو یہ ذرا سا انگوٹھے برابر آدمی دیکھ کر تعجب بھی ہوا اور ہنسی بھی آئی۔ مگر اُس نے ہنسی روک کر کہا
”ہاں ہاں بھئی ضرور پوچھو۔“
”بس یہ پوچھتا ہوں کہ تم منھ سے ہاتھوں میں پھونک سی کیوں مارتے ہو؟“
لکڑہارے نے جواب دیا”سردی بہت ہے،ہاتھ ٹھٹھرے جاتے ہیں۔ میں منھ سے پھونک مار کر انھیں ذرا گرما لیتا ہوں۔ پھر ٹھٹھرنے لگتے ہیں پھر پھونک لیتا ہوں۔
میاں بالشتے نے اپنا سُپاری جیسا سر ہلایا اور کہا ”اچھا اچھا یہ بات ہے۔“
یہ کہہ کر بالشتے میاں وہاں سے کھسک گئے، مگر رہے آس پاس ہی۔ اور کہیں سے بیٹھے برابر دیکھا کیے کہ لکڑہارا اور کیا کرتا ہے۔
دوپہر کا وقت آیا۔ لکڑہارے کو کھانے کی فکر ہوئی۔ ادھر اُدھر سے دو پتھر اٹھاکر چولہا بنایا۔اُس کے پاس چھوٹی سی ہانڈی تھی۔ آگ سلگا کر اُسے چولہے پر رکھا اور اُس میں آلو ابلنے کے لیے رکھ دیے۔گیلی لکڑی تھی اس لیے آگ بار بار ٹھنڈی ہو جاتی تو لکڑہارا منھ سے پھونک کر اسے تیز کردیتا تھا۔”ارے“ بالشتے نے دور سے دیکھ کر اپنے جی میں کہا ” اب یہ پھر پھونکتا ہے۔کیا اس کے منہ سے آگ نکلتی ہے؟“ لیکن چُپ چاپ بیٹھا دیکھا کیا۔ لکڑہارے کو بھوک زیادہ لگی تھی، اس لیے چڑھی ہوئی ہانڈی میں سے ایک آلو جو ابھی پورے طور پر اُبلا بھی نہ تھا نکال لیا۔ اُسے کھانا چاہا تو وہ ایسا گرم تھا جیسے آگ۔ اس نے مشکل سے اُسے اپنی ایک انگلی اور انگوٹھے سے دبا کر توڑا اورمنہ سے پھوں پھوں کر کے پھونکنے لگا۔
”ارے“ بالشتے نے پھر جی میں کہا ”یہ پھر پھونکتا ہے اب کیا اس آلو کو پھونک کر جلائے گا۔“ مگر آلو جلا جلایا کچھ نہیں۔ وہ تو تھوڑی دیر پھوں پھوں کرکے لکڑہارے نے اپنے منہ میں دھر لیا اور غپ غپ کھانے لگا۔ اب تو اس بالشتے کی حیرانی کا حال نہ پوچھو۔ اس سے پھر نہ رہا گیا اور ٹھمک ٹھمک پھر لکڑہارے کے پاس آیا اور کہا ”سلام! بھائی بُرا نہ مانو تو ایک بات پوچھیں۔“
لکڑہارے نے کہا ”برا کیوں مانوں گا پوچھو۔ بالشتے نے کہا ”تم نے صبح مجھ سے کہا تھا کہ منہ سے پھونک کر اپنے ہاتھوں کو گرماتا ہوں۔ اب اس آلو کو کیوں پھونکتے تھے یہ تو بخود بہت گرم تھا  اسے اور گرمانے سے کیا فائدہ؟“
”نہیں میاں ٹِلّو۔ یہ آلو بہت گرم ہے میں اسے منہ سے پھونک پھونک کر ٹھنڈا کر رہا ہوں۔“
بات تو کچھ ایسی نہ تھی مگر یہ سُن کر میاں بالشتے کا منہ پیلا پڑگیا۔ ڈر کے مارے کپ کپ کانپنے لگے۔ وہ برابر پیچھے ہٹتے جاتے تھے۔ لکڑہارے سے ڈر کر کچھ سہم سے گئے تھے۔ ذرا ساآدمی یونہی دیکھ کر یونہی ہنسی آئے۔ لیکن اس تھر تھر، کپ کپ کی حالت میں دیکھ کر تو ہر کسی کو ہنسی بھی آئے رنج بھی ہو۔ لکڑہارے کو بھی ہنسی آئی لیکن وہ بھی بھلا مانس تھا۔ اُس نے آخر پوچھا”کیوں میاں، کیا ہوا، کیا جاڑا بہت لگ رہا ہے۔ “ مگر میاں بالشتے تھے کہ برابر پیچے ہٹتے چلے گئے۔ اور جب کافی دور ہو گئے تو بولے ”یہ نہ جانے کیا بلا ہے۔ کوئی بھوت ہے یا جن ہے۔اُسی منہ سے گرم تھی اُسی سے ٹھنڈا بھی۔ ہمارے عقل میں نہیں آتا۔“ اور واقعی یہ بات میاں بالشتے کی ننھی سی کھوپڑی میں آنے کی تھی بھی نہیں۔


آئینۂ اطفال میں اور بھی بہت کچھ

Saturday, 27 June 2020

kahani Ek Chor Ki - Hikayat e Rumi

کہانی ایک چور کی

ایک چور ایک باغ میں گھس گیا اور آم کے درخت پر چڑھ کر آم کھانے لگا
اتفاقًا باغبان بھی وہاں آ پہنچا اور چور سے کہنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ او بے شرم یہ کیا کر رہے ہو؟
چور مسکرایا اور بولا:
”ارے بے خبر! یہ باغ اللہ کا ہے اور میں اللہ کا بندہ ہوں ، وہ مجھے کھلا رہا ہے اور میں کھا رہا ہوں ، میں تو اُس کا حکم پورا کر رہا ہوں ، ورنہ ایک پتّہ بھی اس کے حکم کے بغیر حرکت نہیں کر سکتا۔“
باغبان نے چور سے کہا
”جناب! آپ کا یہ وعظ سن کر دل بہت خوش ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ذرا نیچے تشریف لائیے تاکہ میں آپ جیسے مومن باللہ کی دست بوسی کرلوں ۔۔۔۔ سبحان اللہ اس جہالت کے دور میں آپ جیسے عارف کا دم غنیمت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے تو مدت کے بعد توحید ومعرفت کا یہ نکتہ ملا ہے کہ جو کرتا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا ہی کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بندے کا کچھ بھی اختیار نہیں ۔۔۔۔۔۔ قبلہ ذرا نیچے تشریف لائیے ۔۔۔۔۔۔“
چور اپنی تعریف سن کر پھولا نہ سمایا اور جھٹ سے نیچے اتر آیا ۔۔۔۔۔۔ پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب وہ نیچے آیا تو باغبان نے اسکو پکڑ لیا اور رسی کے ساتھ درخت سے باندھ دیا ۔ پھر خوب مرمت کی ، آخر میں جب ڈنڈا اٹھایا تو چور چلا اٹھا ، کہ ظالم کچھ تو رحم کرو ، میرا اتنا جرم نہیں جتنا تو نے مجھے مار لیا ہے ۔ باغبان نے ہنس کر اس سے کہا کہ جناب ابھی تو آپ نے فرمایا تھا کہ جو کرتا ہے اللہ کرتا ہے ، اللہ کے حکم کے بغیر کوئی کچھ نہیں کر سکتا ، اگر پھل کھانے والا اللہ کا بندہ تھا تو مارنے والا بھی تو اللہ کا بندہ ہے اور اللہ کے حکم سے ہی مار رہا ہے کیونکہ اس کے حکم کے بغیر تو پتہ بھی نہیں ہلتا.
چور ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خدارا مجھے چھوڑ دے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اصل مسئلہ میری سمجھ میں آگیا ہے کہ بندے کا بھی کچھ اختیار ہے
باغبان نے کہا اور اسی اختیار کی وجہ سے اچھے یا برے کام کا ذمہ داربھی...!!!

(حکایت رومی )
(اقبال حسن آزاد کے فیس بُک صفحہ سے)

Friday, 26 June 2020

Oas By Khwaja Hasan Nizami NCER Class IX Chapter 4


اوس
خواجہ حسن نظامی

برسات کے موسم میں کوئی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کا خواست گار ہے۔ کسی کو اودی اودی کالی کالی گھٹائیں پسند ہیں۔ کسی کا دل بادلوں کی کڑک اور بجلی کی چمک سے مست ہوجاتا ہے۔ مجھ کو تو برسات کی یہ ادا بھاتی ہے کہ مینہ برس کر کھل جاتا ہے اور صاف آسمان کی رات گزر جاتی ہے توصبح کے وقت درختوں، پھولوں اور جنگل کی گھاس کی عجیب شان ہوتی ہے ۔ اوس کے قطرے پھولوں کی پتیوں پر ایسے چپ چاپ نظر آتے ہیں جیسے رات کو آسمان کے تارے تھے۔ کیا خبر ہے کہ رات کے وقت تارے ٹوٹ پڑے ہوں اور یہ انھی کی گل افشانیاں ہوں۔
کہتے ہیں کہ اوس میں سونا، اوس میں پھرنا جسمِ انسانی کے لیے مضر ہے۔ خبر نہیں یہ کیوں کہتے ہیں ۔ خدا کی ساری مخلوق تو اوس باری‘ سے تروتازہ اور نہال ہو جاتی ہے ۔ تو انسان بھی ایک مخلوق ہے۔ اُس کو اِس سے کیوں کر نقصان پہنچ سکتا ہے؟
یہ تو سائنس والے بتائیں گے کہ اوس کیا چیز ہے کہاں سے آتی ہے ، کیوں آتی ہے؟ فقیر تو اتنا ا جانتا ہے کہ اوس قدرتِ ربّانی کا عجیب و غریب جلوہ ہے۔ جن کی آنکھ سویرے کو بیدار ہونے کی عادی ہے وہ صبح کے  وقت سورج نکلنے سے پہلے اوس میں ذاتِ الٰہی کے ہزاروں جلووں کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔ ایک شخص کو دیکھا . کہ باغ میں جوہی کے پھولوں کے پاس جھکا ہوا کچھ دیکھ رہا تھا اور ایسا مستغرق تھا کہ دنیا و مافیہا کی خبر نہیں تھی ۔ در حقیقت جوہی کے پھول پر اوس کا انداز قیامت کا ہوتا ہے۔ چھوٹا پھول، نازک پتّیاں اور اس پراوس کی ننّھی ننّھی بوندیں، حِس و حرکت کرنے والے دل کے لیے محشر سے کم نہیں ۔ اوس کی عمر بہت تھوڑی ہے۔ رات کو پیدا ہوتی ہے اور سورج نکتے وقت مر جاتی ہے۔ اوس کی سیرابی بارانِ رحمت کی طرح ہر خاص و عام، چھوٹے بڑے، اونچے نیچے کے لیے یکساں مفید ہے مگر مینہ سورج کا مقابلہ کرتا ہے۔ بادلوں کے لشکر لاتا ہے تو آفتاب کو پوشیده ہونا پڑتا ہے ۔ مگر اوس بے چاری بڑی ڈر پوک صُلح کُل ہے۔ آسمان پر جب سورج کا عمل دخل نہیں رہتا اور بادل بھی اپنے گھروں سے چلے جاتے ہیں اس وقت بی نمودار ہوتی ہے اور سورج کے نکلنے کے ساتھ ہی جان دے دیتی ہے۔
انسان اگر یہ شکایت کرے تو حق بجانب ہے کہ ایسی تمام درو دیوار کو شجر و حجر کو تر کردیتی ہے۔ مگر کسی پیاسی زبان کی تشنگی دور نہیں کرسکتی ۔ اردو زبان میں ایک مَثَل ہے کہ اوس جب پڑتی ہے تو ہاتھی بھیگ جاتا ہے۔ گویا ہاتھی اوس میں نہا لیتا ہے مگر چڑیا کی پیاس نہیں بجھتی ۔ یہ قدرت کا ایک گہرا راز ہے۔ اس میں اوس کی کچھ شکایت نہ کرنی چاہیے۔ بہرحال الله تعالیٰ کی نشانیوں میں سے اوس بھی ایک نشانی ہے، جس کو دیکھ کر دلِ حق پرست میں عرفانِ یزداں کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔
خواجہ حسن نظامی
(1878 - 1955)
خواجہ حسن نظامی دہلی کے ایک معزز خاندان کے فرد تھے۔ ان کا بچین تنگ دستی میں گزرا لیکن اپنی ذاتی کوششوں سے انھوں نے بہت جلد ترقی کی۔ وہ خواجہ حضرت نظام الدین اولیا کے عاشقوں میں سے تھے۔ اس عشق و محبت کے اثرات ان کی تحریروں میں نمایاں نظر آتے ہیں۔
اردو زبان و ادب میں ان کا مرتبہ بلند ہے۔ انھیں مصور فطرت کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ انھوں نے کئی کتابیں لکھیں جن میں غدر دہلی کے افسانے اور سی پاره دل کافی مشہور ہیں۔
ان کے مضامین کی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر نہایت ہی معمولی چیزوں پر لکھے گئے ہیں ۔ لیکن خواجہ صاحب نے بات میں سے بات پیدا کر کے ان چھوٹی چھوٹی چیزوں سے جو مطالب نکالے ہیں وہ بڑے سبق آموز ہیں۔ خواجہ صاحب کے لکھنے کا ایک مخصوص انداز ہے۔
معنی یاد کیجیے۔
 اوس باری : اوس کا برسنا
خواستگار :  طلب گار، چاہنے والا
اودی اودی : ہلکا بیگنی رنگ
مینہ : بارش
گل افشانیاں : پھول بکھیرنا
مُضر : نقصان دہ
مخلوق : پیدا کی ہوئی چیزیں اور انسان وغیره
نہال ہونا : خوش ہونا
قدرتِ ربّانی : خدا کی قدرت
بیدار ہونا : جاگنا
مستغرق : ڈوبا ہوا
 دنیا وما فيها : دنیا اور دنیا میں جوکچھ ہے
محشر : قیامت
سیرابی : شادابی
پارانِ رحمت : رحمت کی بارش
یکساں : ایک جیسا
پوشیدہ : چھپا ہوا
صُلح کُل : سب سے مل جل کر رہنا ، سب سے بنا کر رکھنا
نمودار ہونا : ظاہر ہونا
شجر : درخت
حق بجانب :  سچائی کے ساتھ، حق کی طرف
حجر : پتّھر
تشنگی : پیاس
دلِ حق پرست : خدا پرست دل
عرفانِ یزداں : خدا کی پہچان

سوچیے اور بتائیے
1. اوس کے قطریں  پھولوں کی پتیوں پر کیسے لگتے ہیں؟
جواب: اوس کے قطرے پھولوں کی پتیوں پر ایسے چپ چاپ نظر آتے ہیں جیسے رات کے تارے ٹوٹ گئے ہوں اور یہ انہی کی گل افشانیاں ہوں۔

2.خدا کی ساری مخلوق کس چیز سے تروتازہ اور نہال ہوتی ہے؟
جواب:خدا کی ساری مخلوق اوس گرنے سے تروتازہ اور نہال ہوتی ہے۔

3.مصنف نے اوس کو قدرتی ربانی کا جلوہ کیوں کہا ہے؟
جواب:مصنف نے اوس کو قدرتی ربانی کا جلوہ  اس لئے کہا ہے کیونکہ  جن لوگوں کی آنکھ سویرے بیدار ہونے کی عادی ہیں وہ صبح سورج نکلنے سے پہلے اوس کو دیکھ کر  ذاتِ الٰہی کے ہزاروں جلوؤں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

4.اوس کے بارے میں کون سی ضرب المثل مشہور ہے؟
جواب: اوس جب پڑتی ہے تب ہاتھی بھیگ جاتا ہے گویا ہاتھی اوس میں نہا لیتا ہے مگر چڑیا کی پیاس نہیں بجھتی ہے۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے۔
اوس : رات بہت زیادہ اوس گری۔
مخلوق : انسان بھی خدا کی مخلوق ہیں۔
عجیب و غریب : ڈیناسور ایک عجیب وغریب جانور ہے۔
عمل دخل : دسویں کے ریزلٹ میں ٹیچر کا کوئی عمل دخل نہیں
صُلح کُل : ہمیں ہمیشہ صُلح کُل سے کام لینا چاہیے
نیچے لکھے لفظوں کے واحد اور جمع بنائیے۔
جذبہ : جذبات
مشاہدہ : مشاہدے
جلوے : جلوہ
خبر : اخبار
گھٹائیں : گھٹا
بوند : بوندیں

نیچے

Monday, 22 June 2020

The Corona Phase - By - Albeena Sohail

The Corona Phase
By - Albeena Sohail

Happy was I
So were you
All busy in the daily schedule
None pondered to see these days
When life would run at slow pace
Hustle and bustle came to an end
Joy and laughter all went
Now like the birds in cage
With clipped wings
Man is in his home indeed
All because of a virus
Which is called the corona virus
 Now you know the bird's pain
Locked in a cage in vain
There are heroes who still remain
Leaving their families and mates
Fighting with the corona virus
Virus which caused pain
Now you know who's the real hero
Risking their lives for you and me 
No doubt they need a 
Great grand salute 
Let's join hand in hand
So that corona vanishes
And returns the happy days of life
Where every day is super bright
ALBEENA SOHAIL
CLASS: 9,
AGE: 14 YRS,
Place: Dhanbad


Sunday, 21 June 2020

Tasawwuf - Allah Aur Bande Ke Ruhani Taalluq Ki Buniyaad

از : شبلی فردوسی
اورنگ آباد (بہار)
ایم - اے (اردو) جامعہ ملیہ اسلامیہ (نئی دہلی)  و مگدھ یونیورسٹی (بودھ گیا)

یہاں اس بات کا موقع نہیں کہ یہ بحث کی جائے کہ تصوّف کا ہندی ، ایرانی ، یونانی ، عیسائی یا اسلامی پسِ منظر کیا ہے ، تاریخِ اسلام میں تصوّف کی حیثیت ایک ایسے مستقل ادارے کی رہی ہے جس کے اثرات ہمہ گیر اور مختلف النوع رہے ہیں ، آج سے پچاس ساٹھ برس پہلے تک مغرب کے بعض مستند عالموں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسلام میں تصوّف کی ابتدا محض عجمی و عیسائی اثرات کے تحت ہوئی اور ان کا یہ نظریہ خاصا مقبول بھی ہوا لیکن در حقیقت صورتحال ایسی نہ تھی جیسی کہ ان لوگوں نے پیش کی تھی ۔

اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے اور اس امر میں کسی کو شک نہیں رہا کہ اسلام میں احسان اور تزکیہ نفس کا جو قوی عنصر ہے ، جس پر خدا اور بندے کے مابین اس گہرے روحانی تعلق کی بنیاد ہے جو مزہب کا مقصود اصلی ہے ، اسی پر اسلامی تصوف کی اصلی عمارت قائم ہے ۔ اس عمارت میں بعد میں جو توسیع ہوئی اور بعض متوسطین و متاخرینِ صوفیاء کے عہد میں اس میں جو نقش و نگار بنائے گئے ان میں سے بعض چیزیں اسلامی تصوّف سے میل نہیں کھاتیں ، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تصوّف کی بنیاد قرآن کی تعلیمات ، احادیثِ نبویؐ ، صحابہؓ کی پاک سیرت و زندگی ، تابعین اور تبع تابعین (رحمتہ اللہ عنہم اجمعین) کی پاک سیرت پر ہے ۔ اس سلسلے میں خود لفظِ صوفی کے متعلق طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی گئیں لیکن اب مشرق اور مغرب دونوں جگہ اس امر پر اتفاق ہو گیا ہے کہ لفظ "صوفی" صوف (پشمینہ) سے ہے ۔

کتاب ' للّمع فی التصوّف ' جو ابو نصر سرّاج کی تالیف ہے، اس موضوع پر قدیم ترین کتاب ہے ، اس کتاب میں سراج نے لکھا ہے کہ :

" کسی پوچھنے والے نے پوچھا کہ اصحابِ حدیث کی نسبت حدیث اور فُقہا کی نسبت فِقہہ سے ہے ، اسی طرح زہاد کی نسبت زہد سے ، متوکلین کی نسبت توکّل سے اور صابرین کی نسبت صبر سے ہے ، لیکن صوفیہ کی نسبت کس سے ہے ؟؟
جواب ملا کہ صوفیہ کی نسبت نہ کسی علم سے ہے اور نہ کسی حال سے ، وہ در حقیقت تمام عُلوم کے معدن اور تمام نیک اعمال و اخلاق کے مخزن ہیں ۔ وہ مسلسل ایک حال سے دوسرے حال کی طرف بڑھتے رہتے ہیں اور ان کی غالب خصوصیات لمحہ بہ لمحہ بدلتی رہتی ہے ، اس لئے انہیں ان کے احوال میں کسی ایک حال سے منسوب نہیں کیا جا سکتا ۔
(لفظ صوفی) کی نسبت صوف سے ہے کہ انبیاء ، اولیاء اور اصفیا کا لباس تھا ۔ کیا تمہیں علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کے خاص احباب کی ایک جماعت کو ان کے لباس کی طرف منسوب فرمایا ہے اور انہیں حواری فرمایا ہے :  ( وَاِذْ قالَ الحوّارَیّونْ ۔۔۔۔۔ )
اور حوّاری کے معنی سفید لباس والوں کے ہیں ۔
پوچھنے والے نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کے زمانے میں کسی صوفی لفظ کا ذکر نہیں ملتا ۔۔۔۔
جواب دیا گیا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اگر یہ لفظ نہیں ملتا تو اسکی وجہ یہ ہے کہ صحابی سے بڑھ کر کوئی اور محترم اور معزز لفظ نہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بات کہ اہلِ بغداد نے اس لفظ کو اختیار کیا غلط ہے ۔ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ اور سفیان ثوری ؒ کے عہد میں بھی یہ لفظ رائج تھا ۔ حسن بصری ؒ  سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک صوفی کو (حرم میں) طواف کرتے دیکھا ، انہوں نے اسے کوئی چیز دینی چاہی پر اس نے لینے سے انکار کر دیا ۔ سفیان ثوری ؒ  سے روایت ہے کہ اگر ابو ہاشم صوفی نہ ہوتے تو مجھے ریاکاری کی باریکیاں نہ معلوم ہو سکتیں ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام سے پہلے بھی لوگ اس لفظ سے آشنا تھے "

اہلِ علم حضرات نے لکھا ہے کہ مومنین میں ان اولوٰالعلم کا مرتبہ جو قائمین باالقسط ہیں ، بلند و برتر ہے اور یہی لوگ انبیاء کے جانشین ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کتاب اللہ کا سر رشتہ مضبوطی سے تھامنے والے ، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں پورے طور پر کوشاں اور صحابہؓ اور تابعین کے نقشِ قدم پر چلنے والے اور اولیاءاللہ متّقین اور صالحین کی راہ اختیار کرنے والے ہیں ۔

سراج نے ایسے لوگوں کو تین طبقات میں تقسیم کیا ہے  :
1. اصحاب الحدیث
2. فقہا
3. صوفیہ

حضراتِ صوفیہ کے معتقدات بھی وہی ہیں جو اصحابِ حدیث اور فُقہا کے ہیں ، انہوں نے ان کے علوم کو قبول کیا اور ان کی تشریحات و مفاہیم کی مخالفت نہیں کی ۔ کیونکہ یہ بدعت اور نفسانیت ہوتی ۔ صوفیہ کا ایک خاص وصف یہ ہے کہ وہ اپنی عبادت ، اطاعت اور اخلاقِ جمیلہ کے سہارے درجاتِ عالیہ اور منازلِ رفیعہ کو طئے کرتے ہیں ۔ یہ خصوصیت ان لوگوں میں نہیں پائی جاتی جو محض عالم ، فقہہ اور اصحابِ حدیث ہیں ۔ صوفیہ کی خصوصیت اور انفرادیت یہ ہے کہ وہ فرائض کی ادائیگی اور محارم سے اجتناب کے علاوہ ہر اس لایعنی چیز کو ترک اور ہر اس تعلق کو منقطع کرتے ہیں ،جو ان کے اور انکے مطلوب و مقصود کے مابین حائل ہوتا ہے اور ان کا مطلوب و مقصود اللہ کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔ ان کے آداب و احوال مختلف ہوتے ہیں ،مثلاً ان میں قناعت ہوتی ہے اور کھانے پینے، لباس و دنیاداری کے دوسرے معاملات میں نہایت اختصار سے کام لیتے ہیں ۔ بس وہ اتنے ہی پر اکتفا کرتے ہیں جتنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے ۔ وہ اپنی مرضی سے غنا کے بجائے فقر اختیار کرتے ہیں، جاہ و مرتبے اور قوت و اقتدار سے منھ پھیر لیتے ہیں ۔ خلق پر شفقت کرتے ہیں ، ہر چھوٹے بڑے سے تواضع و انکسار سے پیش آتے ہیں ۔ ایثار سے کام لیتے ہیں، اپنی طاعت و عبادت میں مخلص ہوتے ہیں ، نیکی اور خیر کی راہ میں تیزگام ہوتے ہیں ۔ توجہ الی اللہ کے لئے ہمہ وقت بیچین رہتے ہیں ، قضائے الٰہی پر راضی رہتے ہیں ، مجاہدہ کی مداوات اور نفس کی مخالفت پر جمے رہتے ہیں ۔

حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ کے شاگرد رشید حضرت ابوبکر شبلی ؒ نے فرمایا پرہیزگاری تین طرح کی ہوتی ہے :

1. زبان سے
2. ارکان سے (اعضاء و جوارح)
3. دل سے

زبان کی پرہیزگاری یہ ہے کہ جس امر سے کچھ تعلق نہ ہو اس میں انسان خاموش رہے ۔ ارکان کی پرہیزگاری یہ ہے کہ شبہات چھوڑ دئے جائیں اور جن چیزوں سے شک پیدا ہوتا ہے انہیں چھوڑ کر اس چیز کی طرف رجوع کیا جائے جس میں شک و شبہہ نہیں اور دل کی پرہیزگاری یہ ہے کہ ذلیل و حقیر ارادوں اور برے خیالات سے پیچھا چھڑا لیا جائے ۔ ایک موقع پر شبلی ؒ نے فرمایا کہ صوفی اس وقت صوفی ہوتا ہے جب ساری خلقت کو اپنی عیال خیال کرے یعنی اپنے آپ کو سب کا کفیل اور بوجھ اٹھانے والا سمجھے ۔

شریعت ، طریقت اور حقیقت کا فرق اس طرح واضح کیا : شریعت یہ ہے کہ تو خدائے عزّوجل کی عبادت کرے ، طریقت یہ ہے کہ تجھے اس کی طلب ہو اور حقیقت یہ ہے کہ تو اس کو دیکھے ۔

حضرت شبلی ؒ کے یہ اقوال تصوّف کی بنیادی باتیں ہیں :

1. آزادی دل کی آزادی ہے اور بس ۔
2. مُحبّ اگر خاموش ہوا اور عارف اگر نہ خاموش ہوا تو ہلاک ہوا ۔
3. شکم منعم کی طرف دیکھنے کا نام ہے نا کہ نعمت کی طرف ۔
4. دل ، دنیا اور آخرت دونوں سے بہتر ہے کیونکہ دنیا محنت کا گھر ہے اور آخرت نعمت کا جبکہ دل معرفت کا گھر ہے ۔
5. ہزار ہا سال کی عبادت میں ایک وقت کی غفلت بھی رسوائی ہے ۔
6. عبادت کی زبان علم ہے اور اشارت کی زبان معرفت ہے ۔

سماع کے بارے میں شبلی ؒ کا بھی وہی خیال تھا جو آپکے مُرشد حضرت جنید بغدادی ؒ  کا تھا کہ سماع کے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہے : زمان ، مکان اور اخوان (دوست).

حضرت جنید ؒ سے یہ بھی روایت ہے کہ جس نے تکلفاً سماع کو چاہا اس کے لئے یہ فتنہ ہوگا مگر جسے خود بخود یہ حاصل ہوا اس کے لئے سماع راحت ہے ۔

جناب شبلی ؒ سے سماع کے بارے میں پوچھا گیا تو کہا کہ اس کا فتنہ ظاہر ہے اور باطن عبرت یعنی جس شخص کو رموزِ باطن کی معرفت حاصل ہو وہی اس کے ذریعے عبرت حاصل کر سکتا ہے ورنہ وہ مصیبت میں پڑ جائے گا ۔
کسی نے شبلی ؒ سے عرض کیا کہ بعض لوگ سماع سنتے ہیں مگر باوجود اس کے کہ کچھ نہیں سمجھتے انہیں حال آ جاتا ہے ایسے لوگوں کی نسبت آپکی کیا رائے ہے؟؟
جواب میں آپنے چند اشعار پڑھے جن سے حقیقتِ حال واضح تھی ۔ ان اشعار کا خلاصہ یہ ہے :
" ہمارے صحن میں ایک کبوتر کی آواز آ رہی ہے جس میں درد اور کسک ہے ، وہ بھی کسی کی شکوہ سنج ہے لیکن میں سمجھ نہیں پاتا ، میں بھی کسی کی شکایت کرتا ہوں جسے وہ سمجھ نہیں پاتی مگر دونوں کو اس بات کا احساس ہے کہ ہم عشق کے مارے ہوئے ہیں ، وہ محبت کے درد سے روئی اور اس سے میرے غم میں حرکت پیدا ہو گئی " ۔۔۔۔

پہلے بتایا جا چکا ہے کہ صوفیہ کا خاص موضوعِ فکر و بحث " توحید " تھا اور وہ عام طور پر اپنے معاصرین میں " اربابِ توحید " کے نام سے مشہور تھے ۔ ایک صوفی کے مزہبی تجربے میں یہ احساس بنیادی اہمیت کا حامل ہے کہ خدا اور بندے کے درمیان ایک عظیم فاصلہ ہے اور یہ احساس اس کے شعور و ادراک پر چھایا رہتا ہے ، صوفیہ کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس فاصلے کو عبور کر جائیں اور در حقیقت اسی کا نام تصوّف ہے ۔ فکر ، ریاضت اور زندگی کے طریقوں اور اظہارِ بیان میں صوفیہ کے مابین اختلاف ہو سکتا ہے اور ہوتا رہا ہے لیکن سب کا مقصود ایک ہی ہوتا ہے اور وہ یہ کہ انہیں قُربِ الہیٰ حاصل ہو جائے یعنی وہ فاصلہ کم سے کم یا دور ہو جائے جو خدا اور بندے کے درمیان حائل ہے ۔

حضرت جنید بغدادی ؒ نے تصوّف کی ماہئیت کے بارے میں جو کچھ کہا اس میں یہ بھی ہے کہ " انسان خدا کے ساتھ اس طرح رہے کہ اس کا پھر کسی دوسری ہستی سے کوئی تعلق باقی نہ رہے اور یہ کہ تصوّف ایک سعی مسلسل ہے جس میں انسان ہمیشہ مشغول رہتا ہے " ۔۔۔۔

پوچھا گیا کہ یہ حق کی صفت ہے یا خلق کی؟؟ جواب ملا کہ " اصل کے اعتبار سے تو یہ حق کی صفت ہے لیکن حالتِ انعکاس میں یہ خلق کی صفت بن جاتی ہے یعنی انسان کی تمام صفات دراصل عکسی صفات ہیں "  ۔ ہجویری نے اس بات کی وضاحت یوں کی ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ توحید کی حالت میں انسانی صفات باقی نہیں رہتیں کیونکہ انہیں بقا نہیں ، محض عکس ہیں ۔

ایک سچے صوفی ، زاہد اور عبادت گزار کی یہ تمنا کہ وہ اپنے دنیوی اور غیر حقیقی وجود کو خیرباد کہہ کر اپنی ابتدائی حالت کی طرف لوٹ جائے ، تصوف کی روح ہے اور اللہ تعالیٰ کے ایسے خاص اور عبادت گزار بندوں کا حال ہمیں معلوم ہے جو اپنی انفرادیت کھو کر توحیدِ حقیقی کے اسرار کی لذّت سے بہرہ یاب تھے لیکن وہ یہ چیز نہیں کہ بندہ محض اپنی کوشش سے حاصل کر لے ، یہ چیز خدا کی نصرت و تائید ہی سے حاصل ہو سکتی ہے ۔ یہ گویا انعام ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے خاص اور برگزیدہ بندوں پر .....

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اور کوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے  ( یعنی فرائض مجھ کو بہت پسند ہیں جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ )  اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں .......

حضرت محبوب الاولیاء مولانا شاہ محمد قاسم عثمانی فردوسی سملوی رحمتہ اللہ علیہ " تصوّف و احسان " کی حقیقت پر بڑی وضاحت سے روشنی ڈالتے ہیں ، چنانچہ آپ کا ارشاد ہے :

" تصوّف سراپا عمل ہے،  تصوّف اتباع نبوی علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام ہے "

پھر فرماتے ہیں :

" تصوّف میں منازل و مقامات اور فنا و بقا کی اصطلاح نظری نہیں بلکہ عملی ہے ، اسی طرح ذکر ، شغل و مراقبہ بھی صرف ذہنی چیز نہیں بلکہ ساراپا عمل ہے "

تصوف کیا ہے؟؟  عموماً لوگ اسے ہندوانہ جوگ یا نصرانی رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں ، آپ فرماتے ہیں :

" تصوّف نہ ہندوانہ جوگ ہے اور نہ نصرانی رہبانیت ۔۔۔۔۔۔ تصوّف ماسویٰ اللہ سے دلی تعلق کو قطع کر کے خدا کی طرف یکسو کر دینے کی تعلیم دیتا ہے ۔ تصوّف مادی نعمتوں کا ترک کرنا نہیں سکھاتا بلکہ ان کا صحیح استعمال بتاتا ہے ۔ حقیقت میں اسلامی تصوف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صوری و معنوی پیروی کا نام ہے " ۔۔۔۔۔

ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں :

" شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ایمان بالله کا نام شریعت ہے اور اتباع نبوی کا نام طریقت "
اس کی وضاحت میں آپ آگے لکھتے ہیں :

" الغرض ارشاداتِ نبویؐ کا نام شریعت ہے ، افعالِ نبویؐ کا نام طریقت اور احوالِ نبویؐ کا نام حقیقت ہے ۔ پس تصوّف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری و باطنی پیروی کا نام ہے اور بس " ۔۔۔۔

اسی طرح " آغازِ طریقت " کے حوالے سے آپکا ارشاد ہے کہ :

" آغازِ طریقت یہ ہے کہ شریعت کی رخصتوں اور آسانیوں سے اپنے آپ کو بچایا جائے اور شریعت کے احسن اور مستحبات حکموں کو اپنے اوپر لازم کیا جائے " ۔۔۔۔

" سلوک کی حقیقت " کی نشاندہی اس طرح فرماتے ہیں :

" سلوکِ طریقت سے مراد تہزیب الاخلاق ہے ، طالب کے لئے ضروری ہے کہ ہر قسم کی بری اور خسیسس صفتوں : بخل ، حسد ، غرور ، خود بینی ، ریا ، مکر وغیرہ کو دور کر کے اچھے اوصاف : سخاوت ، اخلاص ، عجز ، تواضع وغیرہ کو اپنے اندر پیدا کرے تاکہ " وصول " کی استطاعت میسر آئے " ۔۔۔۔۔۔۔

اسی حوالے سے اپنے ایک مخلص عزیز کو اس طرح نصیحت کرتے ہیں :

" تلاوت قرآن مجید سے بڑھکر کوئی وظیفہ نہیں ، درود سے بڑھکر کوئی دعا نہیں ، لا اله الا الله سے بڑھکر کوئی ذکر نہیں اور الله عزوجل کو حاضر و ناظر جاننے سے بڑھ کر کوئی مراقبہ نہیں ۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو اپنی عبادت کی توفیق بخشے اور اتباع سنت کی ہمت عطا فرمائے "۔۔۔۔۔   اٰمین ۔

آج کے دور میں تصوّف و احسان اور سلوک کا موضوع بڑا نازک بن گیا ہے ، اس کی نِت نئی تعبیریں ہیں جو مختلف حضرات مختلف الفاظ ، نقطہ نظر اور اپنے اپنے انداز سے کرتے ہیں ، لیکن واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں ابتدا سے ایک ایسا گروہ موجود ہے جس نے تمام مقاصدِ دنیوی سے قطعِ نظر کر کے اپنا نصب العین محض یادِ خدا اور ذکرِ الٰہی کو رکھا اور صدق و صفا ، سلوک و احسان کے مختلف طریقوں پر عامل رہا ، یہی گروہ رفتہ رفتہ گروہِ صوفیہ کہلایا اور اس کے مسلک کا نام " مسلکِ تصوّف پڑ گیا " ...

موجودہ دور میں تصوف کی مسخ شدہ شکل ، جو عام طور پر نظر آتی ہے وہ اسلامی اور غیر اسلامی عناصر کا ایک معجونِ مرکب بن گئی ہے ۔۔۔ جس کے اسلامی اجزاء غیر اسلامی افکار و نظریات کے دھندلکوں میں چھپ کر رہ گئے ہیں ، سچ تو یہ ہے کہ اسلامی تصوّف وہ ہے جو خود حضرت سرورِ کائنات صلی الله عليه وسلم کا تھا ، جو حضرت ابوبکر صدیقؓ و حضرت علی مرتضیٰ ؓ کا تھا ، جو حضرت سلمان فارسی ؓ اور حضرت ابوذر غفاری ؓ کا تھا اور جس کی تعلیم حضرت جنید بغدادی ؒ شیخ عبد القادر جیلانی ؒ ، شیخ شہاب الدین سہروردی ؒ  ، خواجہ معین الدین چشتی ؒ ، محبوبِ الٰہی حضرت نظام الدین اولیاء دہلوی ؒ اور مخدوم الملک حضرت شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری ؒ نے دی ۔۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین ، تابعین ؒ اور تبع تابعین ؒ کی طرح صلحاء اور اخیارامت کی زندگی بھی ہمارے لئے اسوہ اور نمونہ ہے ۔ ان اہلِ دل بزرگوں کے حالات کو جاننا اور ان کی حقیقی اسلامی تعلیمات کی واقفیت بہم پہنچانا ، ہماری سعادت کا باعث ہے ۔۔۔۔۔۔



حوالہ جات :

کتاب ' للّمع فی التصوّف ' از شیخ ابو نصر سراج ( م 378 ھ)  (باب 1 ، 9 ، 10 ، 11 )

حضرت جنید بغدادی ؒ  سیرت و شخصیت مع اردو ترجمہ ' معالی الہمم ' از ضیاء الحسن فاروقی ۔

رسالہء قشیریہ باب 49 بعنوان " سماع " ۔۔

صحیح بخاری ( کتاب الرقاق ، باب التواضع ) صحیح حدیث 6502 ۔۔

حیاتِ دوام - سوانح مصلح امت محبوب الاولیاء حضرت مولانا شاہ محمد قاسم عثمانی فردوسی رحمتہ اللہ علیہ از طیّب عثمانی ندوی ۔ ( بابِ دوم - سلوک و تصوّف کی حقیقت)

خوش خبری