آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Monday, 10 August 2020

Likhe Na Padhe Naam Mohammed Fazil

 لکھے نہ پڑھے نام محمد فاضل

شوکت علی فہمی


ایک لڑکا تھا ۔خوب کھاتا تھا اور بہت اچھے اچھے کپڑے پہنتا تھا ۔کپڑے کو دیکھ کر ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ خدا جانے  کتنا پڑھا لکھا ہوگا۔ ایک دن  وہ بازار جارہا تھا ۔کوٹ پتلون پہنے ہوئے  سر پر ہیٹ،  ہاتھ میں ایک قیمتی بیگ ، پاؤں میں ایک ولایتی انگریزی جوتا،  عینک لگی ہوئی،  چال میں غرور  ،نگاہوں میں شيخي اور اسی چال کے ساتھ وہ چلا جا رہا تھا کہ ایک بزرگ شخص نے  جس کے ہاتھ میں ایک خط تھا اسے روکا:

”میاں صاحبزادے! ذرا ٹھہرنا، میاں آپ کا نام کیا ہے؟“

”مجھے محمد فاضل کہتے ہیں۔“ 

اچھا !تو میاں محمد فاضل صاحب ذرا میرا یہ خط پڑھ دیجئے،  آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔ اب تو میاں محمد فاضل صاحب بہت گھبرائے  ۔خط ہاتھ میں لے لیا اور یونہی خواہ مخوا ہ دیکھنے لگے۔  آخر اسے اپنی بد قسمتی پر رونا آگیا اور وہ سوچنے لگا کہ ان کپڑوں پر سب کو میرے پڑھے  لکھےہونے کا یقین ہوجاتا ہے اور میں ایک حروف بھی نہیں پڑھ سکتا  ۔خط پر اس کی نگاہیں جمی ہوئی تھیں کہ آنکھوں سے ندامت  کے آنسوں نکل آئے ۔بڈ ھا سمجھا کہ شاید کسی کے مرنے کے خبر لکھی ہوئی ہے کے پڑھنے والا رو رہا ہے تو وہ بھی رونے لگا۔

فیشن ایبل لڑکے نے پوچھا کہ ”بڑے میاں آپ کیوں روتے ہیں؟“

 بڑے میاں نے کہا ”بیٹا تمہیں روتا دیکھ کر میں بھی رونے لگا کے شاید خط میں کوئی ایسی ویسی بات لکھی ہو۔“

 لڑکے نے کہا ”میں تو صرف اس لئے رو رہا ہوں کے خط پڑھنا ہی نہیں آتا۔“

 ،بڑے میاں نے اس کے ہاتھ سے خط چھین لیا  اور کہا” واہ میاں واہ ،پہلے سے کیوں نہ کہہ دیا  میرا اتنا وقت بھی کھویا اور مفت میں رُلایا بھی ۔کپڑے ایسے بھڑک دار نام محمد فاضل اور لکھے پڑھےکچھ بھی نہیں ۔شرم کرو شرم کرو  ۔محمد فاضل کو شرم سے پسینہ آگیا اور وہ آنکھیں نیچے کیے ہوئےچلا گیا۔


Sunday, 9 August 2020

Bheek By Hayatullah Ansari NCERT Urdu ClassX Nawa e Urdu

 حیات الله انصاری

(1911 – 1999)

حیات الله انصاری لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ 1926 میں مدرسہ فرنگی محل سے مشرقی علوم کی سند حاصل کی ۔ علی گڑھ مسلم یونیورٹی سے بی۔ اے۔ کیا ۔ طالب علمی کے دوران ہی قومی تحریکوں میں دل چسپی پیدا ہوگئی تھی ۔ مہاتما گاندھی سے عقیدت کی بنا پر وہ کا نگریس میں میں شامل ہوئے اور آخر وقت تک کانگر یسی رہے۔ 1937 میں ہفتہ وار اخبار’ ہندوستان‘ جاری کیا۔ 1944 میں پنڈت جواہرلعل نہرونے لکھنؤ سے روزنامہ ”قومی آواز“ جاری کیا اور انصاری صاحب اس کے پہلے مدیر مقرر ہوئے ۔1966 اور 1982 میں راجیہ سبھاکے رکن رہے۔ حیات الله انصاری اور ان کی اہلیہ نے اردو کو اس کا جائز مقام دلانے کے لیے ڈاکٹر ذاکر حسین کے ساتھ ایک دستخطی مہم چلائی تھی۔

حیات اللہ انصاری نے افسانے ، ناولٹ اور ناولوں کے ساتھ ساتھ تنقیدی مضامین بھی لکھے اور غیر اردو داں حضرات کو اردو سکھانے کے لیے ایک قاعده” دس دن میں اردو “لکھا۔ 1952 میں لکھنؤ میں تعلیم بالغان کے لیے تعلیم گھر قائم کیا۔ حیات اللہ انصاری نے پریم چند کے افسانوں سے متاثر ہوکر افسانے لکھے لیکن ان کے افسانوں کی فضا مختلف ہے۔ ان افسانوں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں مشاہدہ ،تخیل اور فکر تینوں ایک دوسرے کے متوازی ہیں ۔ ان کے افسانے زندگی کے تمام پہلووں کی ترجمانی کرتے ہیں۔

حیات الله انصاری کے افسانوں کا پہلا مجموعہ” انوکھی مصیبت‘‘1939 میں شائع ہوا۔ اس کے بعد ”بھرے بازار میں“، ”شکستہ کنگورے‘‘اور’’ ٹھکانا“ کے عنوان سے ان کے افسانوی مجموعے ، دو ناولٹ ’’مدار‘‘ اور ”گھروندا “ منظر عام پر آئے ۔ پانچ جلدوں پر مشتمل ضخیم ناول” لہو کے پھول‘‘ چھپا۔ ”جد یدیت کی سیر“ حیات اللہ انصاری کی تنقیدی کتاب ہے۔ انھوں نے بچوں کے لیے بھی کہانیاں لکھیں جو ”میاں خوخو “اور” کالا دیو“ کے نام سے شائع ہوچکی ہیں۔


Sunday, 2 August 2020

Bahadur Bano By Suraj Narain Mehr

بہادر بنو
سورج نرائن مہر

Ek Dehati Ladki Ka Geet By Akhtar Sheerani NCERT Class 9 Chapter 5


ایک دیہاتی لڑکی کا گیت
اختر شیرانی


سوچیے اور بتائیے
1. لڑکی کے گاتے وقت  کس طرح کا ماحول تھا ؟
جواب: لڑکی کے گاتے وقت  فضا، بستیوں اور جنگلوں پر ایک دھواں دھار بدلی چھا رہی ہے بارش کے قطرے چھماچھم ٹپک رہے ہیں۔

2. لڑکی غمگین لے میں کیوں گا رہی تھی؟
جواب: شاعر کا گمان ہے کہ یہ اس لڑکی کا سسرال ہوگا اور اُس کو اپنے ماں باپ کی یاد آرہی ہے اور اس لئے وہ آہ و فغاں میں مصروف ہے اور غمگین لے میں گا رہی ہے۔

3. لڑکی کن چیزوں سے بے پروا ہو کر گا رہی تھی؟
جواب:  مندر کی گجر بجنے، چڑیوں کے چہچہانے، بکری کی میں میں اور بچھیا کی ڈکرانے سے بے پروا لڑکی اپنی دھن میں مست گا رہی تھی۔

عملی کام
حرفِ عطف”و“ کے ذریعے دو لفظوں کو ملانے کی کچھ مثالیں لکھیے۔
جوش و خروش
دل و دماغ
لفظ و معنی
صبح و شام

Saturday, 25 July 2020

Prophet Hazrat Ibrahim

اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم  علیہ السلام
پیارے بچّوں! 
ذی الحجّہ کا چاند نظر آچکا ہے اور اب ہم سب کو چاند نظر آنے کے  دسویں دن کی صبح کا انتظار ہے جب ہم سب نئے نئے کپڑے پہن کر عید گاہ یا مسجد جانے کی تیاری کر رہے ہوں گے۔ اور نماز کے بعد قربانی کریں گے۔آؤ آج ہم تمہیں اُس پیغمبر کے بارے میں بتائیں جن کی سنت کے طور پر ہم یہ تہوار مناتے ہیں اور مسلمان اس ماہ میں حج ادا کرتے ہیں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے بہت بڑے پیغمبر گزرے ہیں۔آپ کو خلیل اللہ کے لقب سے جانا جاتا ہے۔اللہ کے آخری نبی اور رسول اور ہم سب کے آقا حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و اصحابہ وسلم آپ ہی کی اولاد میں ہیں۔ اپنی اسی نسبت کے لحاظ سے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
1. میں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا، میں آپکی اولاد میں آپ سے سب سے زیادہ مشابہ ہوں۔(حدیث)
2. میں اولاد ابراہیم علیہ السلام میں ، اُن(ابراہیم علیہ السلام)سے بہت زیادہ مشابہ ہوں۔(حدیث)
3. ابراہیم علیہ السلام کو دیکھنا ہو تو مجھے دیکھ لو۔(حدیث)
بعض علماء نے کہا ہے کہ:
”مقام ابراہیم پر، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جو نشانات قدم ہیں، وہ سرکار کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و اصحابہ وسلّم کے قدموں سے ملتے  جلتے ہیں۔“

ؑفضائل ابراہیم
قرآن مجید میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کیا ہے اور ہر ذکر سے آپ کی عظمت، بزرگی، دیانت،صداقت، پاکبازی و قربانی وغیرہ جیسے اوصاف کا اظہار ہوتا ہے۔ یہاں صرف ان قرآنی آیتوں کے مفہوم کے درج کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
1. کتاب اللہ میں ابراہیم کے  ذکر کو پڑھو وہ سچّے نبی تھے۔
2.ہم نے ابراہیمعلیہ السلام کو پہلے ہی سیدھی رات دکھادی۔ اور ہم اُسے(ابراہیمعلیہ السلام کو)جانتے تھے۔
3. ابراہیم برد بار، یاد الٰہی کے لیے بے چین رہنے والے اور ہر طرف سے منہ موڑ کرصرف ایک اللہ کی طرف متوجہ ہونے والے تھے۔
4. بلحاظ مذہب، اس سے اچھا کون ہے جو اللہ کامطیع اور فرماں برادر بن گیا اور نیکو کاری اس کا شیوہ ہو گیا، اسی کے ساتھ ساتھ ملت ابراہیمعلیہ السلام کا خلوص قلب کے ساتھ پیرو بن گیا۔ کیونکہ ابراہم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنا دوست بنا لیا۔
5. ابراہیم اخلاص کے ساتھ اللہ کے مطیع تھے۔ انھوں نے کبھی بھی خدا کی یکتائی اور بڑائی میں کسی کو شریک نہیں بنایا بلکہ وہ ہمیشہ اللہ کے شکر گزار رہے، اللہ نے انہیں نبوت و رسالت کے لیے چُن لیا اورانہیں سیدھی راہ دکھادی، وہ دنیا میں نیک رہے اور آخرت میں بھی، وہ اللہ کے نیک بندوں میں سے ہیں۔
6. اللہ نے چند بار ابراہیم کے ایمان کا امتحان لیا اور وہ ہر امتحان میں پورے اترے، تو اللہ نے فرمایا،”میں تجھے(ابراہیمؑ کو)لوگوں کا امام و پیشوا بناؤں گا، ابراہیم نے اللہ کی جناب میں عرض کا” اور میری اولاد کو بھی“ جواب ملا کہ”میرا عہد ظالموں کو نہیں ملے گا۔“
7.یاد کرو! جب ہم نے گھر (کعبہ)کو لوگوں کے لیے رجوع ہونے اور امن کی جگہ بنایا۔مقام ابراہیمؑ(کعبہ سے متصل ایک جگہ) کو جائے نماز بناؤ!
8. ہم نے ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ سے اس بات کا عہد لیا کہ میرے گھر(کعبہ) کو طواف کرنے والوں، عبادت گزاروں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک و صاف کرو!
9. ابراہیمؑ اللہ کے اطاعت گزاروں میں ہے، وہ اپنے پروردگار کے حضور قلب سلیم لے کر آیا۔
(جاری)
(خلیل احمد جامعی کی مرتبہ کتاب سے)

Tuesday, 21 July 2020

Watan Ki Muhabbat

وطن کی محبت
وہ ایک خوبصورت شام تھی۔ بارش ہورہی تھی اور اسے اپنے گھر پہنچنے کی فکر ستا رہی تھی۔  اس نے راستے میں ادھر ادھر  دیکھا دور دور تک کوئی سواری نظر نہیں آرہی تھی۔ اپنے گھر سے دور یہ خوبصورت شام کوئی معنی نہیں رکھتی تھی۔ اس نے سوچا کاش کوئی سواری مل جاتی اور وہ شام ڈھلنے سے قبل گھر پہنچ جاتا۔
یکایک اسے سامنے سے ایک آٹو رکشہ آتا نظر آیا۔ وہ امید بھری نظروں سے آٹو کی جانب دیکھنے لگا۔ جیسے ہی وہ آٹو قریب پہنچا اُس نے اسے رکنے کا اشارہ کیا لیکن یہ دیکھ کروہ مایوس ہوگیا کہ اس میں پہلے سے ہی ایک سواری بیٹھی تھی۔ وہ امید بھری نظروں سے دوسرے آٹو کو تکنے لگا۔ شام گہری ہونے لگی تھی اور بارش لگاتار بڑھتی جارہی تھی۔ ایک بڑے شہر میں گھر پہنچنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ اُسے وہ دن یاد آنے لگے جب ایک ہزار کلو میٹر کا سفر پیدل طے کیا تھا۔ وہ دن یاد کرکے وہ خوف سے سحر گیا اس کے بدن میں کپکپی دوڑ گئی ۔کہ کیا آج پھر اسے اپنے گھر پیدل ہی جانا پڑے گا۔ وہ دن اور تھے۔ تب وہ گریجویشن کرنے کے بعد بھی ایک معمولی مزدور تھا۔ دن رات کی محنت اور معمولی کھانا اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔ وہ نمدوری کے لیے پیدل ہی گھر سے نکلتا اور شام ڈھلے پیدل ہی گھر آتا اور اپنے یار دوستوں کے ساتھ گپیں اڑاتا اور بے فکری کی زندگی جیتا تھا ۔ 
اور ایسے میں جب غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا اس نے ایک طویل سفر پیدل ہی طے کیا تھا۔ راستے میں پیش آنے والی مشکلات پر اس نے کس طرح قابو پایا یہ وہی جانتا تھا۔ کئی بار اسے ایسا لگا اب اس کی ہمت جواب دے جائے گی اور اب وہ اپنے گھر والوں سے کبھی بھی مل سکے گا۔ لیکن پھر وہ ایک انجانے نشے میں اپنے گھر کی جانب بڑھنے لگتا۔ وہ کہتا وطن کی محبت کیا ہوتی ہے اسے کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ اسے اپنے کھیت اور کھلیان کھینچ رہے تھے۔گاوں کی پگڈنڈیاں اسے پکار رہی تھیں۔
اب حالات بدل چکے ہیں۔ گھر والوں کی بڑی منت سماجت کے بعد وہ دوبارہ شہر واپس آیا تھا۔ اور اسے شہر میں ایک اچھی نوکری مل گئی تھی۔ اب وہ ایک معمولی مزدور نہیں تھا۔ وہ ایک اچھی کمپنی میں نوکری کرنے لگا تھا اور اچھی تنخواہ پاتا تھا۔ اس کے رہنے کا اسٹائل بھی بدل چکا  تھا۔ اس کی فیملی اب اس کے ساتھ رہنے لگی تھی۔ اور اس کے بچے ایک اچھے اسکول میں پڑھتے تھے۔ اب اس کے لیے کچھ میٹر بھی پیدل چلنا آسان نہیں رہا تھا فارغ البالی کی زندگی نے اسے کمزور بنا دیا تھا۔ اسے گھر پہنچنا تھا لیکن سواری کے بغیر یہ ممکن نہ تھا۔ بارش تھی کے رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ اس نے پھر سوچا کہ وہ گھر کی جانب جو کہ صرف ۶ کیلومیٹر کی دوری پر تھا پیدل ہی نکل پڑے۔ لیکن ایک بار پھر اس کی ہمت جواب دے گئی۔ اور وہ امید بھری نظروں سے رستہ تکنے لگا۔ لیکن کسی سواری نے بھی نہ آنے کی قسم کھا رکھی تھی۔ خوشگوار موسم اب موسلادھار بارش سے خطرناک صورت اختیار کرنے لگا تھا۔ اسے اپنے بیوی اور بچوں کی یاد ستانے لگی لیکن یہ یاد اسے پیدل چلنے پر راغب نہ کرسکی۔ اس کے انتظار کی حد جواب دینے لگی تھی لیکن وہ اب بھی سواری کے بنا گھر جانے کو تیار نہ تھا۔ وہ پھر امید بھری نظروں سے رستہ تکنے لگا۔ وہ دل ہی دل میں دعائیں مانگ رہا تھا کاش کوئی گاڑی آجاتی اور وہ اپنے گھر پہنچ جاتا جہاں اس کی بیوی اور بچے انتظار کر رہے ہوں گے۔ تین گھنٹے بیت چکے تھے اور اسے اپنے گھر کی جانب جانے والی کوئی گاڑی نہیں ملی تھی۔ وہ انتظار کرتے کرتے تھک چکا تھا۔ اچانک اُسے دور سے آنے والی بس دکھائی دی۔قریب آنے پر پتہ چلا یہ بس اس کے گھر کی روڈ پر ہی جارہی تھی ۔بس اسٹینڈ پر رکی اور وہ دوڑ کر اس میں سوار ہوگیا۔ بس کی پچھلی سیٹ پر بیٹھا وہ سوچ رہا تھا۔ آخر وہ کیا شئے تھی جس نے اسے ایک ہزار کیلو میٹر کا سفر پیدل چلنے کی ہمت دی۔

Tuesday, 14 July 2020

Andaz e Aarifana - Ek khiraj e Aqeedat

جلوے ہیں میکدے کے، انداز عارفانہ
شبلی فردوسی

ہے بھیڑ عاشقوں کی ، انداز عاشقانہ 
مجلس ہے یہ ادب کی اور جشنِ صوفیانہ

ہیں دیپ سارے روشن افکارِ صوفیاء کے 
جلوے ہیں میکدے کے ، انداز عارفانہ  

محفل ہے معرفت کی اور راہ مُعتقد کی
ہیں جامِ اسماع پیہم ، تحسینِ ساقیانہ

باتیں ہیں ساری دل کی اور تیرے دردِ دل کی 
کیسے نہ کِھنچ کے آوے کوئی یہاں دِوانہ 

اِلہام و القاء ہر سمت ، انوار کی تپش ہے 
نغمہ سِرا کی دُھن میں ہے بیعتِ عافیانہ 

ہے جُستجو محبت اور خانقاہ کی خدمت 
ہم ایسے نااہل کا نعرہ ہے فاتحانہ 

شعلوں میں عشق کے ہم دن رات جل رہے ہیں
غُنچہ و باغ و بُلبل اور ذوقِ عاشقانہ 

ہیں کشف کے مسافر سارے ہی ایک صف میں
غافل نہیں ہے جن سے یہ گردشِ زمانہ 

ہو راہِ حق کا طالب تو سر کے بل کو آوے
بن وعظ و ذکر پاوے وہ ڈھنگِ زاہدانہ  

شبلی بھی ایک راہی قسمت سے اُن کے در کا 
وہ جن کی خاکِ پا ہے لاکھوں کا آستانہ 


Saturday, 11 July 2020

Isra Art Gallery Flower-6


گل در سبزہ
 
 
 

Isra Art Gallery Flower-7


گلابِ سرخ
 
 
 

Isra Art Gallery Flower-5


آفتاب در سبزۂ ہندی
 
 
 

خوش خبری