آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Monday, 14 September 2020

Ann Devta By Devendra Satyarthi Gulzar e Urdu Class 10

 اَنّ دیوتا

دیویندر ستیارتھی

دیویندر ستیارتھی
1908-2003
 دیوندر ستیارتھی پنجاب کے ضلع سنگرور میں پیدا ہوئے ۔ 1925 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور ڈی اے وی کا لج لاہور میں داخلہ لیا۔ 1927 میں تعلیم ادھوری چھوڑ دی اور ہندوستان کے مختلف علاقوں میں جگہ جگہ گھوم کر انھوں نے ہزاروں لوک گیت جمع کیے۔
کچھ عرصے تک دہلی میں انڈین فارمنگ کی ادارت کی ۔ 1948 سے 1956 تک آج کل (ہندی) کے مدیر رہے۔ 1976 میں انھیں پدم شری کے اعزاز سے نوازا گیا۔ ان کا انتقال دہلی میں ہوا۔  دیوندر ستیارتھی کی پہلی اردو کہانی ’اور بانسری بجتی رہی‘ لاہور کے مشہور رسالے ’ادب لطیف‘ میں شائع ہوئی۔ ’نئے دیوتا‘ ، ’اور بانسری بجتی رہی‘ اور ’چائے کا رنگ‘ ان کے اردو افسانوں کے مجموعے ہیں ۔ ان کے علاوہ ’دھرتی گاتی ہے‘، ’میں ہوں خانہ بدوش‘ اورگائے جا ہندوستان‘ لوک گیتوں کے مجموعے ہیں۔ دیوندر ستیارتھی نے اردو کے علاوہ ہندی اورپنجابی میں بھی علمی اور ادبی سرمایہ چھوڑا ہے۔ ان کے افسانوں کی بنیاد دیومالا ؤں اور لوک گیتوں پر ہے۔

تب اَن دیو، برہما کے پاس رہتا تھا۔ ایک دن برہما نے کہا ”او بھلے دیوتا! دھرتی پر کیوں نہیں چلا جاتا ؟‘‘ 

اِن الفاظ کے ساتھ چنتُو نے اپنی دل پسند کہانی شروع کی۔ گونڈوں کو ایسی بیسیوں کہانیاں یاد ہیں۔ وہ جنگل کے آدمی ہیں، اور ٹھیک جنگل کے درختوں کی طرح اُن کی جڑیں دھرتی میں گہری چلی گئی ہیں۔ مگر وہ غریب ہیں، بھُوک کے پیدائشی عادی۔ چنتُو کو دیکھ کر مجھے یہ گمان ہوا کہ وہ بھی ایک دیوتا ہے جو دھرتی کے باسیوں کو اَن دیو کی کہانی سُنانے کے لیے آنکلا ہے۔ گہری تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ اَلاؤ کی روشنی میں بغل کی پگڈنڈی کسی جوان گونڈن کی مانگ معلوم ہوتی تھی۔ گھوم پھر کر میری نگاہ چنتو کے جھریوں والے چہرے پر جم جاتی۔ کہانی جاری رہی۔۔۔ 

دیوتا دھرتی پر کھڑا تھا۔ پر وہ بہت اُونچا تھا۔ بارہ آدمی ایک دوسرے کے کندھوں پر کھڑے ہوتے، تب جاکر وہ اُس کے سر کو چُھو سکتے۔

ایک دن برہما نے سندیس بھیجا۔ یہ تو بہت کٹھن ہے، بھلے دیوتا! تجھے چھوٹا ہونا ہوگا۔ آدمی کا آرام تو دیکھنا ہوگا۔

دیوتا آدھا رہ گیا۔ پر برہما کی تسلّی نہ ہوئی۔ آدمی کی مشکل اب بھی پوری طرح حل نہ ہوئی تھی۔ اُس نے پھر سندیس بھیجا اور دیوتا ایک چوتھائی رہ گیا۔ اب صرف تین آدمی ایک دوسرے کے کندھوں پر کھڑے ہوکر اس کے سر کو چُھوسکتے تھے۔  

پھر آدمی خود بولا۔ ’’تم اب بھی اُونچے ہو، میرے دیوتا!‘‘ 

اَن دیو اور بھی چھوٹا ہوگیا۔ اب وہ آدمی کے سینے تک آنے لگا۔ پھر جب وہ کمر تک رہ گیا تو آدمی بہت خوش ہوا۔

اُس کے جسم سے بالیں پھوٹ رہی تھیں۔ معلوم ہوتا تھا کہ سونے کا پیڑ کھڑا ہے۔  

آدمی نے اُسے جھنجھوڑا اور بالیں دھرتی پر آگریں۔  

میں نے سوچا اور سب دیوتاؤں کے مندر ہیں۔ مگر اَن دیو، وہ کھیتوں کا قدیمی سرپرست، کُھلے کھیتوں میں رہتا ہے، جہاں ہر سال دھان اُگتا ہے نئے دانوں میں دودھ پیدا ہوتا ہے۔۔۔۔ 

ہلدی بولی۔ ’’اب تو دیوتادھرتی کے بیچوں بیچ کہیں پاتال کی طرف چلا گیا ہے۔‘‘ 

چنتُو نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنی بیوی کی طرف دیکھا۔ ایسا بھیانک کال اُس نے اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا۔ دھرتی بنجر ہوگئی تھی۔ 

ہلدی پھر بولی۔ ’’اور دیوتاؤں کی طرح اَن دیو بھی بہرہ ہوگیا ہے۔‘‘

سال کے سال ہلدی اَن دیو کی منت مانتی تھی۔ ایک ہلدی پر ہی بس نہیں، ہر ایک گونڈ عورت یہ منت ماننا ضروری سمجھتی ہے۔ مگر اس سال دیوتا نے ایک نہ سُنی۔ کس بات نے دیوتا کو ناراض کردیا؟ غصّہ تو اور دیوتاؤں کو بھی آتا ہے مگر اّن دیو کو تو غصّہ نہ کرنا چاہیے۔ 

ہلدی کی گود میں تین ماہ کا بچہ تھا۔ میں نے اُسے اپنی گود میں لے لیا۔ اس کا رنگ اپنے باپ سے کم سانولا تھا۔ اُسے دیکھ کر مجھے تازہ پہاڑی شہد کا رنگ یاد آرہا تھا۔ 

ہلدی بولی۔ ’’ہائے! اَن دیو نے میری کوکھ ہری کی اور وہ بھی بھوک میں اور لاچاری میں۔‘‘ 

بچہّ مسکراتا تو ہلدی کو یہ خیال آتا کہ دیوتا اُس کی آنکھوں میں اپنی مسکراہٹ ڈال رہا ہے۔ پر اس کا مطلب ؟ دیوتا مذاق تو نہیں کرتا؟ پھر اُس کے دل میں غصّہ بھڑک اُٹھتا۔ دیوتا آدمی کو بھوکوں بھی مارتا ہے اور مذاق اُڑا کر اُس کا دِل بھی جلاتا ہے۔ 

چنتو بولا۔ ’’اس کی کہانی، جو میں آج کی طرح سَو سَو بار سُنا چکا ہوں، اب مجھے نری گپ معلوم ہوتی ہے۔‘‘ 

ہلدی یہ نہ جانتی تھی کہ چنتو کا طنز بہت حد تک سطحی ہے۔ یہ  وہ بھی سمجھنے لگی تھی کہ دیوتا روز روز کے پاپ ناٹک سے ناراض ہوگیا ہے۔ 

’’اَن دیو کو نہیں مانتے پر بھگوان کو تو مانوگے۔‘‘ 

’’میرا دِل تو تیرے بھگوان کو بھی نہ مانے۔ کہاں ہیں اس کے میگھ راج؟ اور کہاں سو رہا ہے وہ خود؟ ایک بُوند بھی تو نہیں برستی!‘‘ 

’’دیوتا سے ڈرنا چاہیے اور بھگوان سے بھی۔‘‘ 

چنتو نے سنبھل کر جواب دیا۔ ’’ضرور ڈرنا چاہیے۔ اور اب تک ہم ڈرتے ہی رہے ہیں!‘‘ 

’’اب آئے نا سیدھے رستے پر۔ جب میں چھوٹی تھی ماں نے کہا تھا دیوتا کے غصّہ سے سدا بچیو!‘‘ 

’’اری کہا تو میری ماں نے بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ پر کب تلک لگا رہے گا یہ ڈر، ہلدی ؟‘‘ 

دیوتا پھر خوش ہوگا اور پھر لہرائے گا وہی پیارا پیارا دھان۔

کال میں پیدا ہوئے بچّے کی طرف دیکھتے ہوئے میں سوچنے لگا۔ ’’اِتنا بڑا پاپ کیا ہوگا کہ اِتنا بڑا دیوتا بھی آدمی کو چھماں (معاف) نہیں کر سکتا!‘‘ 

کال نے ہلدی کی ساری سُندرتا چھین لی تھی۔ چنتو بھی اب اپنی بہار کو بھول رہا تھا۔۔۔ درخت اب بھی کھڑا تھا مگر ٹہنیاں پُرانی ہوگئی تھیں اور نئی کونپلیں نظر نہیں آتی تھیں۔ 

ہلدی کا بچہ میری گود میں رونے لگا۔ اُسے لیتے ہوئے اُس نے سہمی ہوئی نگاہ سے اپنے خاوند کی طرف دیکھا۔ بولی ’’یہ کال کب جائے گا؟‘‘ 

’’جب ہم مرجائیں گے اور نہ جانے یہ تب بھی نہ جائے۔‘‘ 

’’یہ کَنکی اور کودوں دھان کی طرح پانی نہیں مانگتے۔ یہ بھی نہ اُگے ہوتے تو ہم کبھی کے بھوک سے مر گئے ہوتے۔۔۔ اُنھوں نے ہماری لاج رکھ لی۔۔۔ ہماری بھی، ہمارے دیوتا کی بھی۔‘‘ 

’’دیوتا کا بس چلتا تو اُنہیں بھی اُگنے سے روک دیتا۔‘‘ 

’’ایسا بول نہ بولو۔ پاپ ہوگا۔‘‘ 

’’میں کب کہتا ہوں پاپ نہ ہو۔ ہو، سَو بار ہو۔‘‘ 

’’نہ نہ، پاپ سے ڈرو۔ اور دیوتا کے غصّہ سے بھی۔‘‘ 

میں نے بیچ بچاؤ کرتے ہوئے کہا ’’دوس تو سب آدمی کا ہے۔ دیوتا تو سدا نردوس ہوتا ہے۔‘‘ 

رات غمزدہ عورت کی طرح پڑی تھی۔ دُور سے کسی خُونی درندے کی دھاڑ گونجی۔ چنتُو بولا۔ ’’اِن بھوکے شیروں اور ریچھوں کو اَن دیو مِل جائے تو وہ اسے کچّا ہی کھاجائیں۔‘‘ 

بیساکُھو کے گھر روپے آئے تو ہلدی اسے بدھائی دینے آئی۔ ’’بپتا میں پچیس بھی پانچ سو ہیں۔ رامُو سدا سکھی رہے۔‘‘ 

’’اَن دیو سے تو رامو ہی اچھا نکلا۔‘‘ بیساکھو نے فرمائشی قہقہہ لگاکر کہا۔ 

چنتو بولا۔ ’’ارے یار چھوڑ اس اَن دیو کی بات۔۔۔۔‘‘ 

’’ہلدی نے اپنے خاوند کو سر سے پاوں تک دیکھا۔ اس طنز سے اُسے چڑ تھی۔ دیوتا کتنا بھی بُرا کیوں نہ ہوجائے، آدمی کو تو اپنا دل ٹھیک رکھنا چاہیے، اپنا بول سنبھالنا چاہیے۔‘‘ 

غُصّے میں جلی بھُنی ہلدی اپنی جھونپڑی کی طرف چل دی۔ بیساکھو نے پھر قہقہہ لگایا۔ ’’واہ بھئی واہ۔ اب بھی اَن دیو کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔‘‘ 

چنتو بولا۔ ’’جپنے دو اُسے اَن دیو کی مالا۔‘‘ 

رامو بمبئی میں تھا۔ چنتُو سوچنے لگا۔ کاش اس کا بھی بھائی وہاں ہوتا اور پچیس روپیے نہیں تو پانچ ہی بھیج دیتا۔ 

بیساکھو نے پوسٹ مین کو ایک دونی دے دی تھی۔ مگر اُسے اِس بات کا افسوس ہی رہا۔ بار بار وہ اپنی نقدی گنتا اور ہر بار دیکھتا کہ اُس کے پاس چوبیس روپے چودہ آنے ہیں، پچیس روپے نہیں۔ 

جھونپڑی میں واپس آیا تو چنتو نے ہلدی کو بے ہوش پایا۔ اُس نے اُسے جھنجھوڑا۔ ’’رسوئی کی بھی فکر ہے۔ اب سوؤ نہیں، ہلدی۔ دوپہر تو ڈھل گئی۔۔۔‘‘ 

اُس وقت اگر خود اَن دیو بھی اُسے جھنجھوڑتا تو ہوش میں آنے کے لیے اُسے کچھ دیر ضرور لگتی۔ 

تھوڑی دیر بعد ہلدی نے اپنے سرہانے بیٹھے خاوند کی طرف گھور کر دیکھا۔ چنتُو بولا۔ ’’آگ جلاؤ ہلدی۔۔۔! دیکھتی نہیں ہو۔ بھوک سے جان نکلی جارہی ہے۔‘‘ 

’’پکاؤں اپنا سر؟‘‘ 

چنتُو نے ڈرتے ڈرتے سات آنے ہلدی کی ہتھیلی پر رکھ دیے اور اُس کے چہرے کی طرف دیکھ کر بولا۔ ’’یہ بیساکھو نے دیئے ہیں، ہلدی، اور میں سچ کہتا ہوں میں نے اُس سے مانگے نہ تھے۔‘‘ 

ہلدی شک بھری نگاہوں سے چنتو کی طرف دیکھنے لگی۔ کیا آدمی غریبی میں اِتنا گِرجاتا ہے؟ مگر چنتو کے چہرے سے صاف پتہ چلتا تھا کہ اُس نے مانگنے کی ذلیل حرکت نہیں کی تھی۔ اور پھر جب ایک ایک کرکے سب کے سب پیسے گنے تو اُس کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔۔۔ چار روز دال بھات کا خرچ اور چل جائے گا۔ 

’’شکر ہے۔ اَن دیو کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔‘‘ 

’’اَن دیو کا یا بیساکھو کا؟‘‘ 

’’اَن دیو کا جس نے بیساکھو بھائی کے دل میں یہ پریم بھاؤ پیدا کیا۔‘‘ 

چنتو کا چہرہ دیکھ کر ہلدی کو سُوکھے پتے کا دھیان آیا جو ٹہنی سے لگا رہنا چاہتا ہو۔ دُور ایک بدلی کی طرف دیکھتی ہوئی بولی؟ ’’کاش! بوندا باندی ہی ہوجائے‘‘ مگر تیز ہوا بدلی کو اُڑا لے گئی۔ اور دھرتی بارش کے لیے برابر ترستی رہی۔ 

کال نے زندگی کا سب لُطف برباد کردیا تھا۔ معلوم ہوتا تھا دھرتی رو دے گی۔ مگر آنسوؤں سے تو سُوکھے دھانوں کو پانی نہیں ملتا۔ اَن دیو کو یہ شرارت کیسے سوجھی؟ مان لیا کہ وہ خود کسی وجہ سے کسانوں پر ناراض ہوگیا ہے مگر بادلوں کا تو کِسانوں نے کچھ نہیں بگاڑا تھا۔ وہ کیوں نہیں گھِر آتے؟ کیوں نہیں برستے؟ کاش وہ دیوتا کی طرفداری کرنے سے انکار کردیں! 

چار ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ 

اُس روز یہاں دو تین سو گونڈ جمع ہوئے۔ پھڈکے صاحب اور منشی جی دھان بانٹ رہے تھے۔ اپنے حصّے کا دھان پاکر ہر کوئی دیوتا کی جے مناتا۔۔۔ اَن دیو کی جے ہو۔ 

چنتو گاؤں کی پنچایت کا دایاں بازو تھا۔ دھان بانٹنے میں وہ مدد دے رہا تھا۔ لوگ اس کی طرف احسان مندانہ نگاہوں سے دیکھتے اور وہ محسوس کرتا کہ وہ بھی ایک ضروری آدمی ہے۔ مگر لوگ دیوتا کی جے جے کار کیوں مناتے ہیں؟ کہاں ہے ۔۔۔ وہ خود بھی شاید دیوتا ہے۔۔۔ اور شاید اَن دیو سے کہیں ۔۔۔ 

ہلدی نے سوچا کہ یہ دھان شاید اَن دیو نے بھیجا ہے۔ اُسے دُکھیارے گونڈوں کا خیال تو ضرور ہے۔ مگر جب اُس نے پھڈ کے صاحب اور منشی جی کو حلوا اُڑاتے دیکھا تو وہ کسی گہری سوچ میں ڈوب گئی۔ پہلے تو اُس کے جی میں آئی کہ حلوے کا خیال اب آگے نہ بڑھے۔ پر یہ خیال بادل کی طرح اُس کے ذہن پر پھیلتا چلا گیا۔ 

قحط سبھا سے ملا ہوا دھان کِتنے دن چلتا؟ 

چنتو کے چہرے پر موت کی دُھندلی پرچھائیاں نظر آتی تھیں، مگر وہ دیوتا سے نہ ڈرتا تھا۔ کبھی کبھی گھُٹنوں کے بل بیٹھا گھنٹوں غیرشعوری طور پر گالیاں دیا کرتا۔ میں نے سمجھا کہ وہ پاگل ہو چلا ہے۔ دو چار بار میں نے اُسے روکا بھی۔ مگر یہ میرے بس کی بات نہ تھی۔ وہ دیوتا کو اپنے دل سے نکال دینا چاہتا تھا۔ مگر دیوتا کی جڑیں اُس کے جذبوں میں گہری چلی گئی تھیں۔ 

ایک دن چنتو بہت سویرے اُٹھ بیٹھا اور بولا۔ ’’دیوتا اَب دھنوانوں کا ہوگیا ہے۔۔۔ پاپی دیوتا! اری میں تو نہ مانوں ایسے دیوتا کو۔‘‘ 

’’پر نہیں، میرا دیوتا تو سب کا ہے۔‘‘ 

’’سب کا ہے۔ اری پگلی، یہ سب گیان جھوٹا ہے۔‘‘ 

’’پر دیوتا تو جُھوٹا نہیں۔‘‘ 

’’تو کیا وہ بہت سچا ہے؟ سچا ہے تو برکھا کیوں نہیں ہوتی؟‘‘ 

’’دیوتا کو بُرا کہنے سے دوس ہوتا ہے۔‘‘ 

’’ہزار بار ہو۔۔۔ وہ اب ہمارے کھیتوں میں کیوں آئے گا؟ وہ دھنوانوں کی پُوری کچوری کھانے لگا ہے۔ نِردھن گونڈوں کی اب اُسے کیا پروا ہے؟‘‘ 

چنتو کی نکتہ چینی ہلدی کے من میں غم گھول رہی تھی۔ اُس نے جھونپڑی کی دیوار سے ٹیک لگا لی اور دھیرے دھیرے اچھے وقتوں کو یاد کرنے لگی، جب بھوک کا بھیانک مُنہ کبھی اتنا نہ کُھلا تھا۔ وہ خوشی پھر لَوٹے گی، دیوتا پھر کھیتوں میں آئے گا۔ اُس کی مسکراہٹ پھر نئے دانوں میں دُودھ بھر دے گی۔ اس کے من میں عجب کشمکش جاری تھی۔ دیوتا۔۔۔! پاپی۔۔۔؟ نہیں تو۔۔۔ وہ باہر چلا گیا تو کیا ہوا۔ کبھی تو اُسے دَیا آئے گی ہی۔ 

ہلدی سنبھل کر بولی۔ ’’سچ مانو، میرے پتی، دیوتا پھر آئے گا یہاں۔۔۔‘‘ 

چنتو کا بول اور بھی تیکھا ہوگیا۔ ’’اری اب بس بھی کر، تیرا دیوتا کوئی سانپ تھوڑی ہے کہ تیری بین سُن کر بھاگا چلا آئے گا؟‘‘ 

اُس دن رامو بمبئی سے لوٹ آیا۔ اُسے دیکھ کر ہلدی کی آنکھوں کو ایک نئی زبان مِل گئی۔ بولی۔ ’’سناؤ، رامو بھائی، بمبئی میں دیوتا کو تو تم نے دیکھا ہوگا۔‘‘ 

رامو خاموش رہا۔ 

میرا خیال تھا کہ رامو نے بمبئی میں مزدور سبھا کی تقریر سن رکھی ہوں گی اور صاف صاف کہہ دے گا کہ اَن آدمی آپ اُپجاتا ہے اپنے لہُو سے، اپنے پسینے سے۔ اگر آدمی، آدمی کا لہو چوسنا چھوڑ دے تو آج ہی سنسار کی کایا پلٹ جائے۔ کال تو پہلے سے پڑتے آئے ہیں، بڑے بڑے بھیانک کال۔ مگر اب سرمایہ دار روز روز کسانوں اور مزدوروں کا لہو چوستے ہیں اور غریبوں کے لیے تو اب سدا ہی کال پڑا رہتا ہے۔ اور یہ کال  چُھومنتر سے نہیں جانے کا۔ اس کے لیے تو سارے سماج کو جھنجھوڑنے کی ضرورت ہے۔ 

ہلدی پھر بولی۔ ’’رامو بھائی! چُپ کیوں سادھ لی تم نے۔۔۔؟ ہمیں کچھ بتادوگے تو تمھاری وِدّیا تو نہ گھٹ جائے گی۔ بمبئی میں تو بہت برکھا ہوتی ہوگی۔ پانی سے بھری کالی اُودی بدلیاں گِھر آتی ہوگی۔۔۔ اور بجلی چمکتی ہوگی اِن بدلیوں میں رامُو۔۔۔! اور وہاں بمبئی میں دیوتا کو رتّی بھر کشٹ نہ ہوگا۔۔۔ 

رامو کے چہرے پر مُسکراہٹ پیدا ہونے کے فوراً بعد کسی قدر سنجیدگی میں بدل گئی۔ وہ بولا۔ ’’ہاں، ہلدی! اَن دیو اب بمبئی کے محلوں میں رہتا ہے۔۔۔ روپوں میں کھیلتا ہے۔۔۔ بمبئی میں۔۔‘‘ 

ہلدی کچھ نہ بولی۔ شاید وہ اُن  کے متعلق سوچنے لگی جب ریل ادھر آنکلی تھی اور اَن دیو پہلی گاڑی سے بمبئی چلا گیا تھا۔ 

آنسو کی ایک بوند، جو ہلدی کی آنکھ میں اٹکی ہوئی تھی، اُس کے گال پر ٹپک پڑی۔ پرے آسمان پر بادل جمع ہورہے تھے۔ میں نے کہا ’’آج ضرور دھرتی پر پانی برسے گا۔‘‘ 

ہلدی خاموشی سے اپنے بچّے کو تھپکنے لگی۔ شاید وہ سوچ رہی تھی کہ کیا ہوا اگر دیوتا کو وہاں سُندریاں مِل جاتی ہیں۔ کبھی تو اُسے گھر کی یاد ستائے گی ہی اور پھر وہ آپ ہی آپ اِدھر چلا آئے گا۔ 

خلاصہ:
'ان دیوتا ' دیوندرستیار تھی کا ایک طنزیہ افسانہ ہے، جو ان دیوتا کے گرد گھومتا ہے۔ جب دنیا میں انسان آیا تو اسے بھوک نے ستایا ، بھوک مٹانے کیلئے انسان نے درختوں کے پتے، چھال، پھل کھائے۔ جانوروں کا شکار کر کے ان کا کچا گوشت کھایا۔ پھر انسانی زندگی آگے بڑھی ، اور اس نے کھیتی باڑی شروع کی ۔ افسانه اسی پس منظر سے شروع ہوتا ہے۔ مصنف نے گونڈوں کی زندگی سے بات شروع کی کیونکہ وہ ابتدائی دور کے انسانوں کی طرح جنگل میں رہتے اور ٹھیک جنگل کے درختوں کی طرح ان کی جڑیں بھی گہری ہوتی چلی گئیں۔
افسانے کا پہلا جملہ ہے' تب ان دیوتا برہما کے پاس رہتا تھا۔' ایک دن برہما نے کہا " او بھلے دیوتا! - دھرتی پر کیوں نہیں چلا جاتا۔ اور برما کے کہنے پر ان دیوتا دھرتی پر آگیا، وہ بہت بڑا تھا۔ پھر برہمانے سندیں بھیجا کہ تم چھوٹے ہوجاؤ۔ یہاں تک کہ وہ آدمی کی کمر تک رہ گیا تو آدمی اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ کیونکہ اس کے جسم سے بالیں پھوٹ رہی تھیں ۔ معلوم ہوتا تھا کہ سونے کا پیڑ کھڑا ہے۔ آدمی نے اسے جھنجھوڑا، اور بالیں دھرتی پر گریں۔ یہ منظر بتاتا ہے کہ آدمی نے کھیتی باڑی شروع کی اور اناج کی فصل اگنے لگی۔ اب اچھی فصلیں اگ رہی ہیں ۔ مگر اسی کے ساتھ کال (قحط) بھی پڑنے لگا۔
افسانے کا مرکزی کردار جو اس بار کال پڑنے سے سخت ناراض ہے کیونکہ اس سے پہلے کبھی ایسا کال نہیں پڑا۔ اس کی بیوی ہلدی کی گود میں تین ماہ کا بچہ ہے۔ ہلدی ہر سال ان دیوتا کی منت مانتی۔ چنتوغصہ میں ہلدی سے کہتا ہے ، میرا دل تو تیرے بھگوان کو بھی نہ مانے۔ کہاں ہیں اس کے میگھ راج اور کہاں سورہا ہے . وہ خود ۔ ایک بوند بھی تو نہیں برسی۔ بستی کے ایک دوسرے گونڈ بیساکھو کا بھائی رامو بمبئی کے کسی مل میں کام کرتا
تھا اور ہر ماہ اپنے باپ کو پچیس روپے منی آرڈر سے بھیجا کرتا تھا۔ کال میں چثو کی بدحالی کو دیکھ کر بیسا کھونے اسے سات آنے دیے۔ ہلدی کو شک ہوا کہ چثو مانگ کر لایا ہے مگر چثو نے اسے بتایا کہ بیسا کھونے خوردیے ہیں۔ ہلدی سو چنے لگی کہ اس قحط کے زمانے میں چار روز دال بھاگ کا خرچ چل جائے گا ۔ گاؤں کی انتہائی خراب حالت دیکھ کر قحط سبھا نے دهان بانٹنے کافیصلہ کیا۔ گاؤں میں پھڈ کے صاحب اورمنشی جی دهان بانٹے آئے ۔ چثو گاؤں کی پنچایت کا دایاں بازو تھا، وہ سب کودهان با نٹے لگا۔ سب لوگ ان دیوتا کی جے جے کار کرنے لگے۔ ہلدی نے سوچا کہ یہ دھان شاید ان دیوتا نے بھیجا ہے اسے دکھیارے گونڈوں کا خیال تو ضرور ہے۔ مگر جب اس نے پھڈ کے صاحب اور منشی جی کو حلوہ اڑاتے دیکھا تو وہ کسی گہری سوچ میں پڑ گئی۔ چثو کہہ رہا تھا وہ اب ہمارے کھیتوں میں کیوں آئے گا۔ وہ دھنوانوں کی حلوہ پوری کھانے لگا ہے۔ نردھن گونڈوں کی اب اسے کیا پروا ہے۔
پھر ہوا یہ کہ رامو بمبئی سے لوٹ آیا۔ ہلدی بولی ، رامو بھائی ! بمبئی میں تو دیوتا کو تم نے ضرور دیکھا ہوگا۔ رامو خاموش رہا۔ اس کے بعد مصنف کا تبصرہ ہے کہ رامو نے بمبئی میں مزدور سبھا کی تقریر یں سنی ہوں گی، اور وہ صاف صاف کہہ دے گا کہ ان آدمی آپ اپچاتا ہے۔ اپنے لہو سے، اپنے پسینے سے، اگر آدمی آدمی کالہو چوسنا چھوڑ دے تو آج ہی سنسار کی کایا پلٹ جائے ۔ کال تو پہلے سے پڑتے آئے ہیں، بڑے بڑے بھیا نک کال۔ مگر اب سرمایہ دار روز کسانوں اور مزدوروں کا لہو چوستے ہیں۔ اور غریبوں کیلئے اب سداہی کال پڑتا ہے۔

سوالوں کے جواب لکھیے:

1. برہما نے اَنّ دیوتا کو کیا سندیس(پیغام) بھیجا؟

جواب: اَن دیوتا جب دھرتی پر پہنچا تو اس کا قد بہت ہی اونچا تھا۔ اتنا اونچا کہ جب  بارہ آدمی ایک دوسرے کے کندھوں پر کھڑے ہوتے تب جاکر وہ اُس کے سر کو چُھو سکتےتھے۔ یعنی وہ اتنا اونچا تھا کہ وہ لوگوں کی پہنچ سے دور تھا۔ تب ایک دن  برہما نے اُسے پیغام بھیجا کہ یہ تو بہت مشکل ہےتمہیں دوسروں کے لیے چھوٹا ہونا ہوگا۔ ان کی مشکلیں سننی ہوں گی اور انہیں حل کرنا ہوگا۔دیوتا نے برہما کی بات مانی اور اب اس کا قد آدھا رہ گیا تھا لیکن برہما کی تسلّی نہ ہوئی۔ آدمی کی مشکل اب بھی پوری طرح حل نہیں ہوئی تھی۔ اُس نے پھر سندیس(پیغام) بھیجا اور دیوتا ایک چوتھائی رہ گیا۔ اب صرف تین آدمی ایک دوسرے کے کندھوں پر کھڑے ہوکر اس کے سر کو چُھوسکتے تھے۔ آدمی اس سے بھی خوش نہیں تھا اس نے ایک بار پھر اَنّ دیوتا کے اونچے ہونے کی شکایت کی۔اَن دیو اور بھی چھوٹا ہوگیا۔ اب وہ آدمی کے سینے تک آگیا تھا۔ پھر جب وہ کمر تک رہ گیا تو آدمی بہت خوش ہوا۔اُس کے جسم سے بالیں پھوٹ رہی تھیں۔ معلوم ہوتا تھا کہ سونے کا پیڑ کھڑا ہے۔ اب اَن دیوتا آدمی کی پہنچ میں آچکا تھا۔ 


2. چِنتو اَنّ دیوتا سے ناراض کیوں رہتا تھا؟

جواب: چنتو اَنّ دیوتا سے اس لیے ناراض رہتا تھا کہ اُسے لگتا تھا کہ اُس کی ساری مصیبتیں اَنّ دیوتا کی وجہ سے ہیں۔ وہ ایک غریب گونڈ تھا۔ اور اُس کی زندگی بڑی مشکلوں میں گزرتی تھی۔ اس غریبی کے عالم میں ایک بار قحط پڑا اور اس کی حالت اور بھی خراب ہو گئی ۔یہاں تک کہ اُس کی بھوکے مرنے کی حالت ہو گئی۔ اُس کے آس پاس کے لوگ قحط سے اتنا متاثر نہیں تھے لیکن وہ ایک بدحال زندگی جی رہا تھا۔ اُسی زمانے میں اس کی بیوی کوبچّہ پیدا ہوا۔اور اس کی مشکلیں اور بھی بڑھ گئیں۔ آس پاس خوشحالی تھی اور اُس کے گھر میں فاقہ۔ اُسے لگا کہ اب اُس کا دیوتا صرف امیروں کا ہوگیا ہے۔ اُسے صرف اُن کی خوشیوں کا خیال ہے۔ اس بات سے اُس کی ناراضگی اور بھی بڑھ گئی اور وہ غصّے میں دیوتا کو برا بھلا کہنے پر اُتر آیا۔ اور اب وہ آنّ دیوتا سے ہر وقت ناراض رہنے لگا تھا۔


3. مصنف نے کہانی کے آخری حصّے میں کال کا ذمّہ دار کسے ٹھہرایا اور کیوں؟

جواب: اس کہانی کے مصنف نے کہانی کے آخری حصّے میں قحط کا ذمّہ دار آدمی کو ٹھرایا ہے۔ یہاں قحط بدحالی اور غریبی کی علامت ہے۔ مصنف کا ماننا ہے کہ انسان ہی انسان کی بدحالی کا ذمّہ دار ہے۔ ہر انسان دوسرے انسان کا خون چوس رہاہے۔ سرمایہ داری اور چور بازاری نے عام انسانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ آدمی آدمی کا لہو چوس رہا ہے۔ سرمایہ داروں نے سارا اناج اپنی کوٹھیوں میں بھر رکھا ہے اور دوسری جانب غریب آدمی بھوک سے مر رہا ہے۔ امیر و غریب کی اس تفریق نے لوگوں کا جیناحرام کر رکھا ہے۔ چنتو کو لگتا ہے کہ اس کے لیے اَنّ داتا ذمّہ دار ہے لیکن مصنف کا ماننا ہے کہ ساری سماجی نابرابری کا ذمّہ دار انسان خود ہے۔ اگر وہ ایک دوسرے کا خیال رکھے تو دنیا میں خوش حالی آ سکتی ہے۔

Do Farlang Lambi Sadak By Krishan Chander Gulzar e Urdu Class 10

 دو فرلانگ لمبی سڑک

کرشن چندر

کچہریوں سے لے کر لا کالج تک بس یہی کوئی دوفرلانگ لمبی سڑک ہوگی، ہر روز مجھے اسی سڑک پر سے گزرنا ہوتا ہے، کبھی پیدل، کبھی سائیکل پر۔ سڑک کے دورویہ شیشم کے سوکھے سوکھے اداس سے درخت کھڑے ہیں۔ان میں نہ حسن ہے نہ چھاؤں،سخت کھردرے تنے اور ٹہنیوں پر گدھوں کے جھنڈ، سڑک صاف سیدھی اور سخت ہے۔ متواتر نو سال سے میں اس پر چل رہا ہوں، نہ اس میں کبھی کوئی گڑھا دیکھا ہے نہ شگاف، سخت سخت پتھروں کو کوٹ کوٹ کر یہ سڑک تیار کی گئی ہے اور اب اس پر کول تار بھی بچھی ہے جس کی عجیب سی بو گرمیوں میں طبیعت کو پریشان کردیتی ہے۔ 

سڑکیں تو میں نے بہت دیکھی بھالی ہیں لمبی لمبی، چوڑی چوڑی سڑکیں برادے سے ڈھنپی ہوئی سڑکیں، سڑکیں جن پر سرخ بجری بچھی ہوئی تھی، سڑکیں جن کے گرد سرو و شمشاد کے درخت کھڑے تھے، سڑکیں۔۔۔ مگر نام گنانے سے كیا فائده اسی طرح تو ان گنت سڑكیں دیكھی ہوں گی لیکن جتنی اچھی طرح میں اس سڑک کو جانتا ہوں کسی اپنے گہرے دوست کو بھی اتنی اچھی طرح نہیں جانتا۔متواتر نوسال سے اسے جانتا ہوں اور ہر صبح اپنے گھر سے جو کچہریوں سے قریب ہی ہے اٹھ کر دفتر جاتا ہوں جو لا کالج کے پاس واقع ہے۔ بس یہی دوفرلانگ کی سڑک،ہر صبح اور ہر شام کچہریوں سے لے کر لاکالج کے آخری دروازے تک، کبھی سائیکل پر کبھی پیدل۔ 

اس کا رنگ کبھی نہیں بدلتا، اس کی ہیئت میں تبدیلی نہیں آتی۔ اس کی صورت میں روکھا پن بدستور موجود ہے۔جیسے کہہ رہی ہو مجھے کسی کی کیا پرواہ ہے اور یہ ہے بھی سچ اسے کسی کی پرواکیوں ہو؟ سینکڑوں ہزاروں انسان، گھوڑے گاڑیاں، موٹریں اس پر سے ہر روز گزر جاتی ہیں اور پیچھے کوئی نشان باقی نہیں رہتا۔اس کی ہلکی نیلی اور سانولی سطح اسی طرح سخت اور سنگلاخ ہے جیسے پہلے روز تھی۔جب ایک یوریشین ٹھیکیدار نے اسے بنایا تھا۔ 

یہ کیا سوچتی ہے؟ یاشاید یہ سوچتی ہی نہیں، میرے سامنے ہی ان نو سالوں میں اس نے کیا کیا واقعات، حادثے دیکھے۔ہر روز ہر لمحہ کیا کیا نئے تماشے نہیں دیکھتی، لیکن کسی نے اسے مسکراتے نہیں دیکھا، نہ روتے ہی، اس کی پتھریلی چھاتی میں کبھی ایک درز بھی پیدا نہیں ہوئی۔ 

’’ہائے بابو!اندھے محتاج غریب فقیر پر ترس کر جاؤ ارے بابا، ارے بابو، خدا کے لئے ایک پیسہ دیتے جاؤ ارے بابا، ارے کوئی بھگوان کا پیارا نہیں، صاحب جی! میرے ننھے ننھے بچے بلک رہے ہیں ارے کوئی تو ترس کھاؤ ان یتمیوں پر۔ ‘‘ 

بیسیوں گداگر اسی سڑک کے کنارے بیٹھے رہتے ہیں۔ کوئی اندھا ہے تو کوئی لنجا، کسی کی ٹانگ پر ایک خطرناک زخم ہے تو کوئی غریب عورت دو تین چھوٹے چھوٹےبچےگودمیں لئےحسرت بھری نگاہوں سے راہ گیروں کی طرف دیکھتی جاتی ہے۔ کوئی پیسہ دے دیتا ہے۔ کوئی تیوری چڑھائے گزر جاتا ہے کوئی گالیاں دے رہا ہے، حرام زادے، مسٹنڈے، کام نہیں کرتے، بھیک مانگتے ہیں۔ 

کام، بےکاری، بھیک۔ 

دو لڑکے سائیکل پر سوار ہنستے ہوئے جارہے ہیں۔ ایک بوڑھا امیر آدمی اپنی شاندار فٹن میں بیٹھا سڑک پربیٹھی بھکارن کی طرف دیکھ رہا ہے، اور اپنی انگلیوں سے موچھوں کو تاؤ دے رہا ہے۔ ایک سست مضمحل کتا فٹن کے پہیوں تلے آگیا ہے۔ اس کی پسلی کی ہڈیاں ٹوٹ گئی ہیں۔ لہو بہہ رہا ہے، اس کی آنکھوں کی افسردگی، بےچارگی، اس کی ہلکی ہلکی دردناک ٹیاؤں ٹیاؤں کسی کو اپنی طرف متوجہ نہیں کرسکتی۔بوڑھا آدمی اب گدیلوں پر جھکا ہوا اس عورت کی طرف دیکھ رہا ہے جو ایک خوش نما سیاہ رنگ کی ساڑی زیب تن کئے اپنے نوکر کے ساتھ مسکراتی ہوئی باتیں کرتی جارہی ہے۔ اس کی سیاہ ساڑی کا نقرئی حاشیہ بوڑھے کی حریص آنکھوں میں چاند کی کرن کی طرح چمک رہا ہے۔ 

پھر کبھی سڑک سنسان ہوتی ہے۔صرف ایک جگہ شیشم کے درخت کی چھدری چھاؤں میں ایک ٹانگے والا گھوڑے کو سستا رہا ہے۔ گدھ دھوپ میں ٹہنیوں پر بیٹھے اونگھ رہے ہیں۔ پولس کا سپاہی آتا ہے۔ ایک زور کی سیٹی،’’او تانگے والے یہاں کھڑا کیا کررہا ہے۔ کیا نام ہے تیرا، کردوں چالان؟‘‘ 

’’ہجور‘‘ 

’’ہجور کا بچہ!چل تھانے ‘‘ 

ہجور! یہ تھوڑا ہے!‘‘ 

’’ اچھا جاتجھے معاف کیا۔‘‘ 

تانگے والا تانگے کو سرپٹ دوڑائے جارہا ہے۔ راستے میں ایک گورا آرہا ہے۔ سر پر تیڑھی ٹوپی، ہاتھ میں بید کی چھڑی، رخساروں پر پسینہ، لبوں پر کسی ڈانس کا سُر۔ 

’’کھڑا کردو کنٹونمنٹ۔‘‘ 

’’آٹھ آنے صاب۔‘‘ 

’’ویل۔ چھ آنے۔‘‘ 

’’نہیں صاب۔‘‘ 

’’کیا بکتا ہے، ٹم۔۔۔‘‘ 

تانگے والے كو مارتے مارتے بید كی چھڑی ٹوٹ جاتی ہے پھر تانگے والے کا چمڑے کا ہنٹر کام آتا ہے۔ لوگ اکٹھے ہورہے ہیں،پولس کا سپاہی بھی پہنچ گیا ہے۔’’حرام زادے! صاب بہادرسے معافی مانگو‘‘ تانگے والا اپنی میلی پگڑی کے گوشے سے آنسو پونچھ رہا ہے۔ لوگ منتشر ہوجاتے ہیں۔ 

اب سڑک پھر سنسان ہے۔ 

شام کے دھندلکے میں بجلی کے قمقمے روشن ہوگئے۔ میں نے دیکھا کہ کچہریوں کے قریب چند مزدور،بال بکھرے، میلے لباس پہنے باتیں کررہے ہیں۔ 

’’بھیا بھرتی ہوگیا؟‘‘ 

’’ہاں‘‘ 

’’تنخواہ تو اچھی ملتی ہوگی۔‘‘ 

’’ہاں‘‘ 

’’بڑھؤ کے لئے کمالائے گا۔ پہلی بیوی تو ایک ہی پھٹی ساڑی میں رہتی تھی۔‘‘ 

’’سنا ہے جنگ سروع ہونے والی ہے۔‘‘ 

’’کب سروع ہوگی؟‘‘ 

’’کب؟اس کا تو پتہ نہیں،مگر ہم گریب ہی تو مارے جائیں گے۔‘‘ 

’’کون جانے گریب مارے جائیں گے کہ امیر‘‘ 

’’ننھا کیسا ہے؟‘‘ 

’’بخار نہیں ٹلتا،کیا کریں، ادھر جیب میں پیسے نہیں ہیں ادھر حکیم سے دوا‘‘ 

’’بھرتی ہوجاؤ‘‘ 

’’سونچ رہے ہیں‘‘ 

’’رام رام‘‘ 

’’رام رام‘‘۔ 

پھٹی ہوئی دھوتیاں ننگے پاؤں، تھکے ہوئے قدم،یہ کیسے لوگ ہیں۔یہ نہ تو آزادی چاہتے ہیں نہ حریت۔یہ کیسی عجیب باتیں ہیں، پیٹ، بھوک، بیماری، پیسے، حکیم کی دوا، جنگ۔ 

قمقموں کی زرد، زرد روشنی سڑک پر پڑ رہی ہے۔ 

دوعورتیں، ایک بوڑھی ایک جوان، اپلوں کے ٹوکرے اٹھائے، خچروں کی طرح ہانپتی ہوئی گزر رہی ہیں۔ جوان عورت کی چال تیز ہے۔ 

’’بیٹی ذرا ٹھہر تو۔‘‘ بوڑھی عورت کے چہرے پر بے شمار جھریاں ہیں اس کی چال مدھم ہے۔ اس کے لہجے میں بے بسی ہے۔ 

’’بیٹی،میں، ذرا ٹھہر، میں تھک گئی۔۔۔ میرے الله۔‘‘ 

’’اماں، ابھی گھر جاكر روٹی پكانی ہے، تو تو باؤلی ہوئی ہے‘‘ 

’’اچھا بیٹی،اچھا بیٹی‘‘ 

بوڑھی عورت جوان عورت کے پیچھے بھاگتی ہوئی جارہی ہے۔ بوجھ کے مارے اس کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں،اس کے پاؤ ں ڈگمگا رہے ہیں۔ وہ صدیوں سے اسی سڑک پر چل رہی ہے اپلوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے،کوئی اس کا بوجھ ہلکا نہیں کرتا کوئی اسے ایک لمحہ سستانے نہیں دیتا، وہ بھاگی ہوئی جا رہی ہے اس کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں، اس کی جھریوں میں غم ہے اور بھوک، اور فکر اور غلامی اور صدیوں کی غلامی! 

تین چار نوخیز لڑکیاں بھڑکیلی ساڑھیاں پہنے، بانہوں میں بانہیں ڈالے ہوئے جا رہی ہیں۔ 

’’بہن! آج شملہ پہاڑی کی سیر کریں‘‘ 

’’بہن! آج لارنس گارڈن چلیں ‘‘ 

’’بہن! آج انار کلی !‘‘ 

’’ریگل؟‘‘ 

’’شٹ اپ ، یو فول !‘‘ 

آج سڑک پر سرخ بجری بچھی ہے، ہر طرف جھنڈیاں لگی ہوئی ہیں، پولیس کے سپاہی کھڑے ہیں، کسی بڑے آدمی کی آمد ہے، اسی لئے تو اسکولوں کے چھوٹے چھوٹے لڑکے نیلی پگڑیاں باندھے سڑک کے دونوں طرف کھڑے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں چھوٹی چھوٹی جھنڈیاں ہیں، ان کے لبوں پر پپڑ یاں جم گئی ہیں، ان کے چہرے دھوپ سے تمتما اٹھے ہیں اسی طرح کھڑے کھڑے وہ ڈیڑھ گھنٹے سے بڑے آدمی کا انتظار کر رہے ہیں۔ جب وہ پہلے پہلے یہاں سڑک پر کھڑے ہوئے تھے تو ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے۔ اب سب چپ ہیں چند لڑکے ایک درخت کی چھاؤں میں بیٹھ گئے تھے۔ اب استاد انہیں کان سے پکڑ کر اٹھا رہا ہے ۔شفیع کی پگڑی کھل گئی تھی۔ استاد اسے گھور کر کہہ رہا ہے، ’’او شفی ! پگڑی ٹھیک کر‘‘ پیارے لال کی شلوار اس کے پاؤں میں اٹک گئی ہے اور ازار بند جوتیوں تک لٹک رہا ہے۔ 

’’تمہیں کتنی بار سمجھایا ہے پیارے لال!“ 

”ماسٹر جی ،پانی!“ 

”پانی کہاں سے لاؤں! یہ بھی تم نے اپنا گھر سمجھ رکھا ہے دو تین منٹ اور انتظار کرو بس ابھی چھٹی ہوا چاہتی ہے۔  

دو منٹ، تین منٹ، آدھا گھنٹہ۔ 

’’ماسٹر جی پانی !‘‘ 

’’ماسٹر جی پانی !‘‘ 

’’ماسٹر جی بڑی پیاس لگی ہے۔‘‘ 

لیکن استاد اب اس طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے وہ ادھر ادھر دوڑتے پھر رہے ہیں۔ 

’’لڑکو! ہوشیار ہو جاؤ، دیکھو جھنڈیاں اس طرح ہلانا۔ ابے تیری جھنڈی کہاں ہے؟ قطار سے باہر ہو جا، بدمعاش کہیں کا۔۔۔‘‘ 

سواری آ رہی ہے۔  

موٹر سائیکلوں کی پھٹ پھٹ، بینڈ کا شور، پتلی اور چھوٹی جھنڈیاں بے دلی سے ہلتی ہوئی۔ سوکھے ہوئے گلوں سے پژمردہ نعرے۔ 

بڑا آدمی سڑک سے گزر گیا لڑکوں کی جان میں جان آ گئی ہے۔ اب وہ اچھل اچھل کر جھنڈیاں توڑ رہے ہیں شور مچا رہے ہیں۔ 

خوانچے والوں کی صدائیں۔ ریوڑیاں،گرم گرم چنے، حلوا پوری، نان، کباب۔ 

ایک خوانچے والا ایک طرّے والے بابو سے جھگڑ رہا ہے، ”آپ نے میرا خوانچہ الٹ دیا۔ میں آپ کو نہیں جانے دوں گا۔ میرا تین روپئے کا نقصان ہوگیا، میں غریب آدمی ہوں، میرا نقصان پورا کردیجئے تو میں جانے دوں گا۔“ 

صبح کی ہلکی ہلکی روشنی میں بھنگی سڑک پر جھاڑو دے رہا ہے۔ اس کے منہ اور ناک پر کپڑا بندھاہے جیسے بیلوں کے منہ پر، جب وہ کولھو چلاتے ہیں۔ وہ گردو غبار میں اٹا ہوا ہے اور جھاڑو دیئے جا رہا ہے۔ 

میونسپلٹی کا پانی والا چھکڑا آہستہ آہستہ سڑک پر چھڑکاؤ کررہا ہے۔ چھکڑے کے آگے جتے ہوئے دو بیلوں کی گردنوں پر زخم پیدا ہوگئے ہیں۔ چھکڑے والا سردی سے ٹھٹھرتا ہوا کوئی گیت گانے کی کوشش کررہا ہے۔ بیلوں کی آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ ابھی سڑک کا کتنا حصہ باقی ہے۔ 

سڑک کے کنارے ایک بوڑھا فقیر مرا پڑا ہے۔ اس کے میلے دانت ہونٹوں کے اندر دھنس گئے ہیں۔ اس کی کھلی ہوئی بے نور آنکھیں آسمان کی طرف تک رہی ہیں ۔ 

’’خدا کے لئے مجھ غر یب پر ترس کر جاؤ رے بابا۔‘‘ 

کوئی کسی پر ترس نہیں کرتا۔ سڑک خاموش اور سنسان ہے۔ یہ سب کچھ دیکھتی ہے، سنتی ہے، مگر ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ 

انتہائی غیض و غضب کی حالت میں اکثر میں سوچتا ہوں کہ اگر اسے ڈائنامائٹ لگا کر اڑا دیا جائے تو پھر کیا ہو، ایک بلند دھماکے کے ساتھ اس کے ٹکڑے فضا میں پرواز کرتے نظر آئیں گے۔ اس وقت مجھے کتنی خوشی حاصل ہو گی اس کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا۔کبھی کبھی اس کی سطح پر چلتے چلتے میں پاگل سا ہوجاتا ہوں، چاہتا ہوں کہ اسی دم کپڑے پھاڑ کر ننگا سڑک پر ناچنے لگوں اور چلا چلا کر کہوں۔ میں انسان نہیں ہوں، میں پاگل ہوں، مجھے انسانوں سے نفرت ہے، مجھے پاگل خانے کی غلامی بخش دو، میں ان سڑکوں کی آزادی نہیں چاہتا۔‘‘ 

سڑک خاموش ہے اور سنسان، بلند ٹہنیوں پر گدھ بیٹھے اونگھ رہے ہیں یہ دو فرلانگ لمبی سڑک۔۔۔ 

کرشن چندر

(1914-1977)

کرشن چندر وزیر آبا ضلع گوجرانوالہ (پنجاب) میں پیدا ہوئے ۔ ان کی ابتدائی تعلیم پونچھ (جموں وکشمیر ) میں ہوئی۔ 1930 کے بعد اعلی تعلیم کے لیے لاہور آگئے ۔ فورمین کر سچین کالج میں داخلہ لے لیا۔ 1934 میں پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم ۔ اے کیا۔ اسی زمانے میں کرشن چندر کو آل انڈیا ریڈیو، لاہور میں ملازمت مل گئی۔ اس سلسلے میں انھوں نے کچھ وقت دہلی اور لکھنؤ میں بھی گزارا۔ اس کے بعد ان کا تعلق فلمی دنیا سے ہو گیا اور وہ اپنے آخری وقت تک ممبئی میں رہے۔ ممبئی ہی میں ان کا انتقال ہوا۔ پریم چند

کے بعد جن افسانہ نگاروں نے اردو افسانے کونئی بلندیوں تک پہنچایا، ان میں بیدی، منٹو، عصمت چغتائی اور کرشن چندر کے نام ممتاز ہیں ۔ ترقی پسند تحریک سے ان کا گہرا تعلق تھا۔ اس تعلق کا اثر ان کی کہانیوں اور ناولوں میں بہت نمایاں ہے۔

کرشن چندر نے ناول، افسانے ، ڈرامے، رپورتاژ اور مضامین لکھے ہیں لیکن ان کی بنیادی حیثیت افسانہ نگار کی ہے۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں کشمیر کی کہانیاں ،طلسم خیال، زندگی کے موڑ پر، ان داتا، مہالکشمی کا پل، پشاور ایکسپر یس اور ناولوں میں ’’ شکست‘‘ ’’ جب کھیت جاگے، باون پتے‘اور’’ آسان روشن ہے‘ قابل ذکر ہیں۔ ان کی تحریروں کی مقبولیت کا اہم سبب ان کی رومانیت اور ان کا خوب صورت انداز بیان ہے۔ کرشن چندر نے بچوں کے لیے چڑیوں کی " الف لیلہ" اور "الٹا درخت‘‘ لکھا ہے۔ ان کی طنز یہ تحریروں میں" ایک گدھے کی سرگزشت" کو کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔

خلاصہ:
دوفرلانگ لمبی سڑک، کرشن چندر کا طنز یہ افسانہ ہے۔ ایسی سڑک کسی بھی بڑے شہر میں ہوسکتی ہے۔ اور اس سڑک پر اور آس پاس وہی سب کچھ ہو سکتا ہے جو یہاں کرشن چندر نے پیش کیا ہے۔ یہ سڑک انگریزوں کے دور کی ہے۔ اور انگریز یہاں حکمراں ہیں۔ مصنف نے اپنی زبانی اس سڑک کی روداد پیش کی ہے کہ اسے ہر روز کبھی پیدل اور کبھی سائیکل پر اسی سڑک پر سے گزرنا ہوتا ہے۔ اس نے بہت کی سڑکیں دیکھی ہیں لیکن وہ اس سڑک کو اسی طرح جانتا ہے جتنا کسی گہرے دوست کو بھی نہیں جانتا۔ متواتر نوسال سے وہ ہر صبح اپنے گھر سے جو کچہری کے قریب ہے اپنے دفتر جو لاکالج کے پاس واقع ہے، پہنچتا ہے۔ کچہریوں سے لے کر لا کالج تک بس یہی کوئی دو فرلانگ لمبی سڑک ہے۔ اس نو سال میں مصنف نے ان گنت واقعات اور حادثات دیکھے مگر ان سب کا اس سڑک پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اس سڑک کے دائیں بائیں بیسیوں گدا گر بیٹھے رہتے ہیں۔ اور صدائیں لگاتے رہتے ہیں۔ ہائے بابو! اندھے محتاج غریب فقیر پر ترس کھاؤ۔ کوئی انہیں پیسہ دیتا ہے اور کوئی گالیاں کبھی کوئی امیر اپنی فٹن میں بیٹھ کر گزرتا ہے اور کبھی کالج جانے والے کے۔ ایک بار ایک تانگے والا ایک گورے (انگریز)سے چھ آنے کرایے کے بجائے آٹھ آنے مانگتا ہے تو تا نگے والے کو بری طرح مارتا ہے۔ پولیس والا وہاں پہنچ کر کہتا ہے حرام زادے صاب بہادر سے معافی مانگو۔ اس واقعہ کے بعد سڑک سنسان ہوجاتی ہے۔ پھر شام ہوتے ہوتے لوگ اس پر سے گزرتے ہیں مختلف باتیں کرتے ہوئے کوئی جنگ کی بات کر رہا ہے کوئی اپنی بیوی کی بیماری کی۔ ان ہی میں سے کچھ لوگ پھٹی ہوئی دھوتیاں پہنے ہیں، ننگے پاؤں، تھکے ہوئے قدم ، مصنف انہیں دیکھتا ہے کہ یہ کیسے لوگ ہیں، یہ نہ تو آزادی چاہتے ہیں، نہ حر یت۔ یہ کیسی عجیب باتیں ہیں، پیٹ، بھوک، بیماری، پیسے... مصنف ایک اور منظر بیان کرتا ہے کہ اسکول کے چھوٹے چھوٹے بچے ڈیڑھ گھنٹے سے سڑک کے دونوں طرف قطار باندھے کھڑے ہیں کسی بڑے آدی کا انتظار کررہے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں چھوٹی چھوٹی جھنڈیاں ہیں جنہیں ہلا ہلا کر استقبال کرتا ہے۔ سڑک پر دھوپ گرمی ہے، اور بچے پیاس سے بے حال ہیں ، تھک گئے ہیں، دو گھنٹے بعد بڑا آدی سڑک سے گزر گیا۔لڑکوں کی جان میں جان آئی۔ سڑک خاموش تھی لیکن اب چہل پہل شروع ہوگئی ۔ خوا نچے والے صدائیں لگانے لگے۔ ریوڑیاں گرم گرم چنے حلوہ پوری ، نان کباب۔ سڑک کے کنارے ایک بوڑھا گداگر مرا پڑا ہے۔ اس کے پیلے دانت ہونٹوں کے اندر دھنس گئے ہیں۔ اس کی کھلی ہوئی بے نور آنکھیں آسمان کی طرف تک رہی ہیں۔ "خدا کیلئے مجھ غریب پرترس کر جاؤ رے بابا !" کوئی کسی پر ترس نہیں کرتا سڑک خاموش اور سنسان ہے۔ یہ سب کچھ دیکھتی ہے سنتی ہے مگر ٹس سے مس نہیں ہوتی ۔ انسان کے دل کی طرح ہے، بے رحم ، بے حس اور وحشی ہے۔ ایسے مناظر دیکھ کر مصنف پریشان ہو جاتا ہے اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ چلا چلا کر کہے" میں انسان نہیں ہوں، میں پاگل ہوں، مجھے انسانوں سے نفرت ہے، مجھے پاگل خانے کی غلامی بخش دو، میں ان سڑکوں کی آزادی نہیں چاہتا

سوالوں کے جواب لکھیے:

1. تانگے والے کو گورے نے کیوں مارا؟
جواب: کرایہ طے کرنے میں گورے اور تانگے والے کے درمیان کہا سنی ہو گئی۔ تانگے والا آٹھ آنے مانگ رہا تھا جب کہ گورا چھ آنے سے زیادہ دینے کے لیے تیار نہ تھا۔ تانگے والے کو اپنی محکومی کا احساس تھا اور گورے کو اپنے حکمراں ہو نے کا گھمنڈ۔ تانگے والا بھی کم پیسے پر جانے کے لیے راضی نہ تھا ۔ اسی وجہ سے دونوں کے درمیان بات کہا سنی سے مارپیٹ تک پہنچ گئی اور گورے نے طاقت کے نشے میں تانگے والے کی پٹائی کردی۔ مارتے مارتے گورا اُس کے جسم پر بید کی چھڑی توڑ دیتا ہے یہاں تک کہ وہ پھر تانگے والے کے ہنٹر سے اُس کی پٹائی کرتا ہے ۔ تانگے والا صرف آنسو پونچھ کر رہ جاتا ہے اور لوگ تماشہ دیکھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔
2. بڑے آدمی کے استقبال کی افسانہ نگار نے کیا جھلک دکھائی ہے؟
جواب:افسانہ نگار کرشن چندر نے بڑے آدمی کے استقبال کا منظر بڑے دلچسپ انداز میں کھینچا ہے اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ دی ہے۔ وہ استقبال کا نقشہ کھینچتے ہوئے بتاتے ہیں کہ سڑک پر سُرخ فرش بچھا تھا۔ اسکولی بچّے دو رویہ کھڑے تھے۔ اُن کے ہاتھوں میں چھوٹی چھوٹی جھنڈیاں تھیں۔ بڑے آدمی کے آنے میں جیسے جیسے دیر ہو رہی تھی اُن کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔ بچّے پیاس سے نڈھال ہو رہے تھے لیکن اُن کے لیے پانی کا کوئی انتظام نہ تھا۔ دیر پر دیر ہوتی چلی جا رہی تھی لیکن بچّے بڑے آدمی کا انتظار کرنے کے لیے مجبور تھے۔ استادوں کو صرف اس بات کی فکر تھی کہ بڑے آدمی کا قافلہ خیر و خوبی سے گزر جائے۔استاد ان بچّوں کو بار بار اپنی جگہ کھڑے رہنے کے لیے کہہ رہے تھے۔ جب بڑے آدمی کی موٹروں کا قافلہ وہاں سے گزرا بچّوں نے جھنڈیاں ہلا کر قافلے کا استقبال کیا اور بے دلی سے دبی دبی زبان سے نعرے لگائے۔ قافلہ گزرنے کے بعد بچوں نے اپنی آزادی کا جشن منایا اور مارے خوشی کے جھنڈیاں توڑ ڈالیں۔
3. کہانی کے اُس منظر کا بیان کیجیے جس میں آپ کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔
جواب: اس افسانے کا وہ منظر جس میں افسانہ نگار نے ایک فقیر کی درد بھری فریاد اور بے رحم سماج کی نظروں کے سامنے اُس کی درد ناک موت کا نقشہ کھینچا ہے اس منظر نے   مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا۔ اس بوڑھے گداگر کی بے نور آنکھیں جیسے لوگوں سے فریاد کر رہی ہوتی ہیں کہ ”خدا کے لیے مجھ غریب پر ترس کر جاؤ رے بابا“ لیکن لوگ گزرتے جاتے ہیں اور کوئی وہاں رکنا گوارا نہیں کرتا۔ افسانہ نگار نے یہاں بے رحم سماج کی بے حسی اور سنگدلی کا نقشہ کھینچا ہے۔
4. سڑک کے کسی ایسے منظر کا بیان کیجیے جو عام طور پر سڑکوں پر دیکھنے کو ملتا ہے لیکن اس کہانی میں اُس کا ذکر نہیں ہے۔
جواب: سڑک پر لوگوں کا ہجوم تھا۔ کاندھے سے کاندھا چھل رہا تھا۔ سڑک کے دونوں جانب مختلف سامانوں کی ریڑیاں لگی تھیں۔ عورتیں دوکانداروں سے بحث میں مصروف تھیں اچانک ایک عورت چلّا اُٹھتی ہے ”ارے میرا پرس۔ کسی نے میرے سارے پیسے نکال لیے۔ اُف اب میں کیا کروں۔“ وہ رونے لگتی ہے۔آس پاس کی عورتیں اسے ہمدردی سے دیکھنے لگتی ہیں ۔کچھ اسے دلاسا دیتی ہیں۔ لیکن اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ وہ عورت سامان دوکاندار کے پاس ہی چھوڑ دیتی ہے اور آداس گھر جانے کے لیے رکشے پر بیٹھ جاتی ہے۔
(نوٹ: یہ صرف ایک واقعہ ہے جو آپ کو صرف یہ بتانے کے لیے لکھا گیا ہے کہ آپ کو جواب کس طرح لکھنا ہے۔ امتحانات میں اسے نقل نہ کریں ۔ اس طرح کے درجنوں واقعات آپ نے بازار میں دیکھے ہونگے اُنہیں اپنی زبان میں لکھیں اور آئینہ کے کمینٹ باکس میں ہمیں بھیجیں۔ ہم اُن کے نوک پلک سنوار کر  اس صفحہ پر آپ کے اور آپ کے اسکول کے نام کے ساتھ شائع کریں گے۔)

Sunday, 13 September 2020

Aaina Audio/Video Series

آئینہ آڈیو/ ویڈیو سیریز
 آئینہ نے کہانیوں، نظموں اور این سی ای آر ٹی کے اسباق  کی ایک آڈیو سیریز کا نیا سلسلہ شروع کیا ہے۔ یہ شروعاتی کوشش آپ سب کو یقیناً پسند آئے گی ۔ انگریزی ادب سے بھی چنندہ کہانیاں آپ کے لیے منتخب کی گئی ہیں۔ یہ سلسلہ آپ کو کیسا لگا ہمیں ضرور اپنے کمینٹ بھیجیں اور آئینہ اکیڈمی کے اس یو ٹیوب چینل کو سبسکرائب بھی کریں۔
تازہ ترین آڈیو/ ویڈیو    ncert solutions,ncert solutions 10th,ncert solution,ncert,ncert books in urdu,ncert chapterss in urdu,cbse solutions,complete ncert solution 10th urdu,solution,ncert book in urdu,ncert urdu class 7,all solution,chapters in urdu,ncert books for upsc,Chapters basics in urdu,urdu 6,class 7 urdu,class 8 urdu,class 9 urdu,class 10 urdu,ncert maths,application for ncert books,chapters question solution,download ncert books in online,ncert audio books,aaina academy, aaina academy youtube

1


2

3


4











 انتظار کی گھڑیاں ختم!
کیا ہوا شرط کا انجام؟ کٹی انگلی؟یا ملاانعام! کہانی حاضر ہے!
 آئینہ آڈیو سیریز کی دلچسپ پیش کش ”شرط(آخری قسط)“ آواز: صحبہ عثمانی 


 آئینہ آڈیو سیریز کی ایک اور دلچسپ پیش کش ”شرط“ آواز: صحبہ عثمانی 

ختم ہونے کو ہیں انتظار کی گھڑیاں!
کیا کٹ جائے گی انگلی؟یا ملے گی کار! جانیں شام 6 بجے
 آئینہ آڈیو سیریز کی دوسری پیش کش ”بولتی آنکھیں“ آواز: اقصیٰ عثمانی 

پیش ہے آئینہ کی جانب سے آپ سب کے لیے پہلی کہانی جس کا عنوان ہے ”روح“ کہانی کار اور قصّہ گو ہیں صحبہ عثمانی


مزید آڈیوز/ ویڈیوز

پتھر کا سوپ

Anokha Darakht - Maqbool Ahmad Dehlavi

 انوکھا  درخت

مقبول احمد دہلوی

ایک بادشاہ کی دو  رانیاں تھیں۔ بڑی رانی کے چار بیٹے تھے اور چھوٹی رانی کا صرف ایک لڑکا تھا۔ بادشاہ اپنے پانچوں شہزادوں کو ایک نظر سے دیکھتا تھا لیکن سب سے چھوٹا شہزادہ اپنے چاروں بڑے بھائیوں سے زیادہ عقلمند، ذہین اور نیک تھا۔ اس لیے بادشاہ اسے زیادہ چاہتا اور پسند کرتا تھا۔

ایک رات کا ذکر ہے، بادشاہ نے خواب دیکھا۔ خواب اتنا دلچسپ اور عجیب و غریب تھا کہ صبح ہونے کے بعد بھی بادشاہ اس خواب کے بارے میں سوچتا رہا۔ آخر میں بادشاہ نے اپنے پانچوں شہزادوں کوبلا کر کہا۔

 ”پیارے بیٹو! آج میں نے ایک عجیب و غریب اور انوکھا درخت دیکھا ہے جس کا جڑوں سے تنے کا حصہ چاندی کا بنا ہوا ہے اس کی شاخیں سونے کی ہیں اور اس میں ہیرے کی پتیاں لگی ہیں اس میں موتیوں کے گچھے پھلوں کی طرح لٹک رہے ہیں۔اس درخت پر میں نے  ایک طوطی کو بیٹھے ہوئے دیکھا ہے۔جب تک وہ طوطی خوش رہی تو درخت بھی سرسبز اور ہرا بھرا رہا۔لیکن جیسے ہی طوطی اُداس اور مغموم ہوئی سارا درخت مرجھا گیا جیسے بہار ایک دم خزاں میں بدل گئی ہو۔ پیارے بچو! میں اس درخت سے اتنا متاثر ہوا ہوں کہ میرا دل چاہتا ہے کہ یہ انوکھا درخت میرے محل میں ہونا چاہیے۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کے تم پانچوں شہزادوں میں سے جو شہزادہ اس عجیب و غریب درخت کو لا کر پیش کرے گا وہی میرے بعد تخت و تاج  کاحقدار ہوگا اس کام کے لیے میں تم سب کو دو سال کی مہلات دیتا ہوں۔اور ہاں سفر خرچ کے لیے جس قدر دولت کی ضرورت ہو تم شاہی خزانے سے لے سکتے ہو۔“

بڑی رانی کے چاروں بیٹوں نے بادشاہ کے خزانے سے کافی دولت لی اور اس انوکھے درخت کی تلاش میں چل دیئے۔ان کے ساتھ ہی سب سے چھوٹا شہزادہ بھی تھوڑی سے اشرفیاں لے کر محل سے چل پڑا۔

چلتے چلتے جب پانچوں شہزادے ملک کی حد کو پار کرکے ایک جنگل میں پہونچے تو چاروں بڑے شہزادوں نے سب سے چھوٹے شہزادے سے اشرفیاں چھین کر اسے ایک اندھے کنویں میں ڈھکیل دیا۔ اس کے بعد چاروں بھائی آگے چل دیئے۔ تھوڑی دور چلنے کے بعد چاروں شہزادے ایک بڑے شہر میں پہونچے اور سب سے ہوشیار سنارکے پاس جاکر چاروں شہزادوں نے بادشاہ کے بتائے ہوئے درخت کے مطابق ایک درخت تیار کرنے کا آرڈر دیا ۔سنار نے کئی لاکھ روپے میں انوکھا درخت بنانے کا ٹھیکہ لے لیا۔چاروں شہزادے اسی شہر میں رہنے لگے۔ 

ادھر چھوٹا شہزادہ کنویں میں پڑا اپنی قسمت پر آنسو بہا رہا تھا۔ اتفاق سے کچھ چرواہے پانی کی تلاش میں کنویں پر پہنچے۔ کنویں کے اندر ایک اجنبی نوجوان کو دیکھ کر انھوں نے رسّی ڈال کر شہزادے کو باہر نکالا۔ چھوٹے شہزادے نے کہا۔

”آپ لوگوں نے کنویں سے باہر نکال کر مجھے نئی زندگی دی ہے۔ خدا آپ سب کا بھلا کرے“اس کے بعد شہزادے نے سارا واقعہ چرواہوں کو سنایا۔ شہزادہ بھوکا تھا۔چرواہوں نے ایک بکری کہ دودھ نکال کر شہزادے کو دیا۔ شہزادہ دودھ پی کر چرواہوں کا شکریہ ادا کرکے انوکھے درخت کی تلاش میں آگے بڑھا۔ ندی نالے پار کرنے اور کئی پہاڑیاں عبور کرنے کے بعد چھوٹا شہزادہ ایک ایسے بیابان جنگل میں پہونچا جہاں ایک فقیر کے علاوہ اسے کوئی  جاندار نظر نہ آیا۔فقیر ایک درخت کے نیچے پڑا سو رہا تھا وہ چھ مہینے سوتا اور چھ مہینے جاگ کر عبادت و ریاضت کرتا تھا۔ چھوٹا شہزادے فقیروں اور درویشوں کی بڑی عزت کرتا تھا۔ سوئے ہوئے فقیر کے ارد گرد لمبی گھاس اگی ہوئی تھی۔ شہزادے نے گھاس کو کا ٹ کر جگہ کو صاف کیا اور فقیر کے پاؤں دبانے بیٹھ گیا۔فقیر کے جاگنے میں صرف دو چار ہی دن رہتے تھے۔شہزادہ فقیر کی خدمت کرتا رہا۔

جب فقیر بابا کی آنکھ کھلی تو خوش ہو کر شہزادے سے بولا۔”بیٹا تم نہ جانے کتنے عرصے سے میری خدمت کر رہے ہو۔ میں تمہاری خدمت سے بہت خوش ہوں۔میری خواہش ہے کہ تم مجھ سے کچھ طلب کرو۔“

شہزادے نے کہا۔ ”بابا میں آپ سے کیا چیز طالب کروں۔ اگر آپ وہ چیز دینے کا وعدہ کریں تو میں کچھ مانگوں بھی؟“فقیر نے کہا۔”تم جو کچھ مانگو گے میں دوں گا۔“

شہزادے نے فقیر سے کہا۔”بابا! مجھے اپنے ابّا جان کے لئے اس انوکھے درخت کی ضرورت ہے جس کی جڑے اور تنہ چاندی کا،شاخیں سونے کی، پتیاں ہیرے کی اور پھولوں کی جگہ اس پر موتیوں کے گچھے لٹکے ہوں۔ درخت پر ایک طوطی بیٹھی ہو جس کے خوش رہنے سے درخت ہرا بھرا رہتا ہے اور اُداس ہونے سے مرجھا جاتا ہے۔“

فقیر نے کہا۔” بیٹا! میں نے یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ تم ایک ایسی چیز مانگو گے جو میری طاقت سے باہر ہوگی۔ بہرحال میں تمہیں مایوس نہیں کروں گا تم میرے استاد کے پاس چلے جاؤ۔یہاں  سے تھوڑی ہی دور اُن کی جھونپڑی ہے۔وہ سال بھر سوتے ہیں اور سال بھر جاگتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ وہ تمہاری یہ خواہش پوری کریں گے۔“

فقیر کو سلام کرکے چھوٹا شہزادہ چلتے چلتے دوسرے فقیر کے پاس پہنچا اس فقیر کے آس پاس بھی بہت لمبی لمبی جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں۔شہزادے نے اُن سب جھاڑیوں کو کاٹ کر جگہ صاف ستھری کی اور فقیر کا سر دبانے بیٹھ گیا۔فقیر بابا کو سوتے ہوئے سال ہو چکا تھا۔جاگنے میں دو تین ہفتے رہتے تھے جب اس کی آنکھ کھلی تو شہزادے کو سر دباتے دیکھ کر فقیر بابا بہت خوش ہوئے۔بولے۔” کہو بیٹا کیسے آنا ہوا، کسی چیز کی ضرورت ہو تو مانگ لو۔“

 شہزادے نے ساری کہانی سنانے کے بعد فقیر بابا سے اس انوکھے درخت کی فرمائش کی۔

 فقیر بابا نے کہا۔” بیٹا تم نے بہت بڑی چیز مانگ لی۔خیر میں تمہاری اس خواہش کو پورا کرنے میں تمہار ی مدد کروں گا۔یہاں سے تھوڑے ہی فاصلے پر میرے استاد رہتے ہیں تم ان کے پاس جاؤ امید ہے وہ تمہاری خواہش پوری کریں گے۔ وہ دو سال سوتے ہیں اور دو سال جاگتے ہیں۔ ان کے جاگنے میں صرف ایک مہینہ رہ گیا ہے۔“

فقیربابا کو سلام کرکے شہزادہ آگے بڑھا۔تھوڑے ہی فاصلے پر شہزادے نے تیسرے فقیر کو سوتے دیکھا۔یہ فقیر پہلے دونوں فقیروں سے بہت بوڑھا اور ضعیف تھا۔ اس فقیر کے آس پاس تو بہت بڑی جھاڑیاں اُگ آئی تھیں۔

 شہزادے نے تمام جھاڑیوں کو کاٹ کر جگہ صاف کی اور بزرگ کے پاؤں دبانے لگا۔ایک ماہ بعد جب بزرگ سو کر اٹھے تو شہزادے کو پاؤں دباتے ہوئے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔بولے۔ ”بیٹا! میں تمہاری خدمت سے بہت خوش ہو جو مانگو گے سو پاؤگے۔“

 شہزادے نے اپنی ساری بپتا سناتے ہوئے بزرگ سے کہا۔”نیک بزرگ! ہم پانچ بھائی ہیں۔ پانچوں  بھائی ابا جان کے لیے انوکھے درخت کی تلاش میں نکلے ہوئے ہیں اس درخت کی جڑیں اور تنہ چاندی کا بنا ہوا ہے۔  شاخیں سونے کی ہیں، پتیاں ہیرے کی ہیں اور پھولوں کی جگہ اس میں سچے موتیوں کے گچھے انگور کی طرح لٹکے دکھائی دیتے ہیں اس عجیب و غریب درخت پر ایک طوطی کہیں سے اڑ کر آتی ہے۔ شاخ پر بیٹھ کر طوطی جب تک ہستی رہتی ہے تو درخت سر سبز رہتا ہے لیکن جب وہ اُداس ہو جاتی ہے تو درخت پر بھی خیزا چھا جاتی ہے اس درخت کو اگر آپ مجھے دے سکیں تو میں آپ کا بہت ممنوں ہوں گا۔“ بزرگ نے کہا۔” بیٹا! تم نے ایک ایسی چیز مانگی ہے جسے حاصل کرنا بہت دُشوار اور کٹھن ہے۔ بہرحال تم اُداس نہ ہو، میں تمہاری مدد کروں گا۔ “اتنا کہہ کر بزرگ نے اپنی داڑھی کا ایک بال شہزادے کو دیا اور کہا۔”جنگل پار کرنے کے بعد تمہیں بڑکا ایک پرانا درخت ملےگا۔ اس کی کھو میں ایک غار ہے جس میں ایک کالا ناگ رہتا ہے۔ اس کے سر پر ایک چراغ جل رہا ہے ۔میرا یہ بال دکھا کر تم اس ناگ سے چراغ لے لینا۔ اس چراغ کو لے کر تم ندی کی تہہ میں چلے جانا وہاں تمہیں ایک عالیشان محل نظر آئےگا۔ دروازہ کھول کر محل کے اندر چلے جانا۔ وہاں تمہیں ایک انوکھا درخت مل جائے گا۔“ بزرگ کو سلام کرکے چھوٹا شہزادہ بڑ کے درخت میں کالے ناگ کے پاس پہونچا۔بال دکھا کر چراغ حاصل کیا اور اُسے ہاتھ پر رکھ کر ندی میں چلا گیا۔ جیسے جیسے وہ آگے بڑھتا، چراغ کی وجہ سے ندی میں راستہ بنتا جاتا تھا۔ندی کی تہہ میں پہونچ کر شہزادے کو ایک خوبصورت محل دکھائی دیا۔ شہزادہ محل کا دروازہ کھول کر اندر جانے  لگا تو ایک پہریدار نے اسے روک کر پوچھا۔”تم کون ہو؟ اس محل میں پریوں کی اجازت کے بغیر کوئی بھی داخل نہیں ہو سکتا۔“

شہزادے نے کہا۔”میں ملک زمستان سے آیا ہوں۔فلاں بزرگ کی ہدایت کے مطابق مجھے اس محل میں ضرور جانا ہے۔ تم جاکر محل میں رہنے والی پریوں کو خبر کرو۔“

پہریدار نے محل کے اندر جا کر پریوں کو خبر کیا کہ ”کوئی شہزادہ آیا ہے اور محل کے اندر آنا چاہتا ہے۔“

پری نے کہا۔”بلا لاؤ۔“

پہریدار واپس پھاٹک پر گیا اور بڑی عزت کے ساتھ شہزادے کو محل کے اندر لےگیا۔ 

شہزادے نے محل کے اندر پہونچ کر بہت سے کمرے دیکھے۔ پہلے کمرے پر لکھا تھا۔ ”چاندی کی پری۔“ شہزادی نے دیکھا، اس کمرے کی ہر چیز چاندی کی بنی ہوئی تھی۔

 شہزادہ حیران اور متعجب سا چاندی کی پری کے کمرے میں چلا گیا۔ چاندی کی پری چاندی کی مسہری پر لیٹی تھی۔ شہزادے کو دیکھ کر وہ فوراً  اٹھی اور بولی۔”وہ!آپ ہیں! آپ کو اپنا شوہر بنا نے کے لئے میں کب سے انتظار کر رہی ہوں۔ شکر ہے کہ آج آپ آگئے۔“

شہزادی نے کہا۔”میں فلاں نیک بزرگ کی مدد سے تم تک پہنچا ہوں۔ آپ کون ہیں؟“چاندی کی پری نے کہا۔” میں انوکھے درخت جس کی تمہیں تلاش ہے، کا چاندی تنا ہوں۔“ شہزادے نے کہا۔” یہ بات ہے تو میں تم سے شادی کروں گا۔“ چاندی کی پری کے پاس تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد شہزادے نے کہا۔”میرے پاس وقت کم ہے۔ مجھے اپنے باپ کے پاس جلدی واپس جانا ہے۔ تم میرے ساتھ چلنے کی تیاری کرو۔ محل میں گھوم کر ابھی واپس آتا ہوں۔“ اتنا کہہ کر شہزادہ چاندی کی پری کے کمرے سے باہر نکلا۔ تھوڑا آگے چلا تو ایک کمرے کے دروازے پر لکھا تھا۔ ”سونے کی پری۔“ اس کمرے کی سبھی چیز سونے کی تھیں شہزادہ اندر داخل ہوا تو سونے کی پری نے آگے بڑھ کر شہزادے کا استقبال کیا اور اسے اپنے ساتھ رہنے کو کہا۔ شہزادے کے پوچھنے پر سونے کی پری نے کہا۔ ”شہزادے جب چاندی کی پری درخت کا تنا بن کر کھڑی ہو جاتی ہے تو میں اس کے ساتھ سونے کی شاخیں بن کر لگ جاتی ہوں۔“شہزادہ کو اپنی خواہش پوری ہوتی نظرآئی اس نے سونے کی پری کو بھی اپنی بیوی بنانے پر رضامند کر لیا۔ تھوڑی دیر سونے کی پری کے پاس رہنے کے بعد شہزادے نے محل کے دوسرے حصے کو دیکھنے کے خواہش ظاہر کی سونے کی  پری نے اُسے تیسرے کمرے میں بھیج دیا۔ تیسرے کمرے کے دروازے پر لکھا تھا۔”ہیرے کی پری۔“ ہیرے کی پری کے کمرے کی ساری چیزیں ہیرے کی بنی ہوئی تھیں۔ پہلی دو پریوں کی طرح ہیرے کی پری نے بھی شہزادے کا استقبال کیا اور کہا۔ ”شہزادے! میرے اندر یہ خوبی ہے کہ جب چاندی کی پری انوکھے درخت کا تنا اور سونے کی پری اس کی شاخیں بن جاتی ہیں۔ تو میں ہیرے کی پتیاں بن کر شاخیں میں لٹک جاتی ہوں۔“ چھوٹا شہزادہ ہیرے کی پری کے گن سن کر اور بھی خوش ہوا اس کے ساتھ بھی شادی کرکے اسے تیسری بیوی بنانے پر آمادہ ہو گیا کچھ دیر ٹھہرنے کے بعد شہزادے نے ہیرے کی پری سے کہا۔ ”میرے پاس وقت بہت تھوڑا ہے اس لئے جلد از جلد محل کا باقی حصہ بھی دیکھ لینا چاہتا ہوں۔“ ہیرے کی پری نے شہزادے کو موتی کی پری کے کمرے میں بھیج دیا موتی کی پری کے کمرے میں تمام چیزیں موتی کی بنی ہوئی تھیں۔ شہزادے کو دیکھ کر موتی کی پری کی خوشی کا ٹھکانا     نہ رہا۔شہزادے  سے  بولی۔ ”اچھے شہزادی میرے اندر یہ صفت ہے کہ میں انوکھے درخت پر موتیوں کے گچھے بن کر لٹک جاتی ہوں۔“

 پہلی تین پریوں کی طرح شہزادہ موتی کی پری سے بھی شادی پر راضی ہو گیا۔ موتی کی پری کے کمرے سے نکل کر شہزادہ محل کے پانچویں کمرے کی طرف بڑھا۔ دروازے پر ”طوطے کی پری“ لکھا  ہوا تھا دیکھ کر وہ ایک لمحہ کے لیے رکا۔ پھر ہمت کرکے کمرے کے اندر چلا گیا۔ کمرے کی ساری چیزیں طوطے کے پروں کی مانند سبز تھیں۔ سبز پری ایک مسہری پر لیٹی ہوئی تھی۔ شہزادے کو دیکھتے ہی وہ تیزی سے اٹھی اور بڑے تپاک سے بولی۔”اوہ شہزادے تم آگئے۔ میں تمہارا انتظار کر رہی تھی“ شہزادے کے پوچھنے  پر سبز پری نے بتایا۔”شہزادے میرے اندر یہ گن ہے کے جب چاندی،سونے،ہیرے اور موتی کی پریاں ایک ایک کرکے انوکھے درخت کا روپ دھار لیتی ہیں تو میں طوطی بن کر اس درخت پر جا بیٹھتی ہوں جب تک میں درخت پر خوش بیٹھی رہتی ہو تب تک انوکھا درخت سر سبز رہتا ہے لیکن جب میں اُداس ہو جاتی ہو تو درخت بھی مرجھا جاتا ہے۔“ شہزادہ سبز یعنی طوطے کی پری کے گن سن کر بہت خوش ہوا۔سبز پری سے بھی شادی کی ٹھان لی۔ تھوڑی دیر وہاں رکا جب جانے لگا تو طوطے کی پری نے کہا۔”اب آپ میرے سرتاج ہیں۔ جہاں جائیں مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلیں۔“ 

سبز پری کو ساتھ لے کر شہزادہ موتی کی پری کے پاس آیا موتی کی پری سے جب اس نے اپنے واپس جانے کی بات کہی تو موتی کی پری نے کہا۔”آپ میرے شوہر ہیں۔اس لئے میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گی۔“ موتی کی پری کو بھی ساتھ لے کر شہزادہ ہیرے کی پری کے پاس پہنچا وہ بھی پہلی دونوں پریوں کی طرح شہزادے کے ساتھ ہولی۔ سونے اور چاندی کی پریاں بھی بلا کسی عذر  کے شہزادے کے ساتھ جانے کے لئے راضی ہو گئیں۔ شہزادے نے پانچوں پریوں کو ایک جگہ کھڑی کرکے کہا۔”اچھی پریوں! میں اپنے باپ کے لئے انوکھا درخت تلاش کرتا ہوا تم تک پہونچا ہوں اور تم سب نے مجھے اپنا سرتاج بنا لیا ہے تم سب کو اپنی بیویاں بنا کر میں خود کو دنیا کا خوش نصیب شہزادہ سمجھتا ہوں۔آج میں جتنا بھی فخر کرو کم ہے۔ اب تم سب میرے ساتھ چل تو رہی ہو لیکن جانے سے پہلے میں چاہتا ہوں تم سب میرے سامنے ایک بار اپنی ہنر مندی کا مظاہرہ کرکے مجھے دکھاؤ۔“ شہزادے کے کہنے کی دیر تھی کہ اسی وقت چاندی کی پری انوکھے درخت کا تنا بن کر کھڑی ہو گئی۔ دوسرے لمحے میں سونے کی پری اس کی شاخیں بن گئی۔ تیسرے لمحے میں ہیرے کی پری سونے کی شاخوں میں پتیاں بن کر چپک گئیں۔ اس کے بعد موتی کی پری موتیوں کے گچھے بن کر ڈالیوں میں لٹک گئی۔ جب انوکھا درخت پوری طرح تیار ہو گیا تو آخر میں سبز پری طوطی بن کر اُڑی اور درخت پر جا بیٹھی۔ پانچوں پریوں کے گن دیکھ کر شہزادہ بہت ہی خوش ہوا اور انھیں ساتھ لے کر بڑے بزرگ کے پاس پہونچا۔ بزرگ نے شہزادے کو پانچوں پریوں کے ساتھ دیکھا تو بڑے خوش ہوئے۔ شہزادے کی کامیابی پر مبارک باد دیتے ہوئے انھوں نے کہا۔ ”بیٹا! بڑکے درخت کے ناگ کے سر سے تمہیں جو چراغ ملا تھا اسے جاکر وہیں رکھ آؤ چراغ کا کام بس اتنا ہی تھا۔ اس چراغ کی بدولت تم پریوں تک آسانی سے پہونچے ہو اور ان پریوں نے تمہیں اپنا شوہر بھی مان لیا ہے۔ اب تم خوشی سے باپ کے پاس جاکر ان کی آرزو پوری کر سکتے ہو۔ لیکن جانے سے پیشتر ایک بار انوکھا درخت  بنا کر مجھےدکھاتے جاؤ۔“

چھوٹے شہزادے نے اسی وقت پانچوں پریوں کو انوکھے درخت کا روپ دھار نے کے لئے کہا۔ دوسرے ہی لمحہ پریوں نے مل کر انوکھا درخت کھڑا کردیا۔ نیک بزرگ قدرت کا عجوبہ دیکھ کر بہت ہی خوش ہوئے اور شہزادے کو دعا دے کر بولے۔”بیٹا تمہارے والد تمہارے اس کارنامے سے بہت خوش ہوں گے لیکن راستے میں تمہارے دشمن تم سے اس درخت کو چھیننا چاہیں گے۔ یہ لاٹھی اور رسی تمہیں دیتا ہوں اسے اپنے پاس رکھو۔ ان چیزوں کی مدد سے تم اپنا درخت واپس لے سکوگے۔“

بزرگ کو اسلام کرکے چھوٹا شہزادہ  پریوں اور رسی و لاٹھی کو کے کر دوسرے فقیر بابا کے پاس پہنچا۔ انھوں نے بھی شہزادے کو اس کامیابی پر مبارکباد دی اور کہا۔ ”بیٹا! قدرت کا یہ عجوبہ ذرا مجھے بھی دکھاؤ۔“

پانچوں پریاں ایک بار پھر انوکھا درخت بن کر کھڑی ہو گئیں۔ فقیر بابا نے خوش ہو کر شہزادے کو لکڑی کا پیالہ دیتے ہوئے کہا۔ ”لو بیٹا اسے اپنے پاس رکھو۔ اس پیالے میں یہ خوبی ہے کہ جب بھی تمہیں کھانے کی ضرورت ہوگی پکّا پکایا کھانا تمھیں مل جائے گا۔“

شہزادہ اور پانچوں پریاں فقیر کو سلام کرکے آگے بڑھیں تھوڑی دیر میں پہلے فقیر کی جھونپڑی آگئی۔ انھوں نے بھی شہزادے کی کامیابی پر مبارکباد دی اور پہلے دونوں فقیروں کی طرح انوکھے درخت کا مظاہرہ  دیکھ کر کہا” بیٹا میرے پاس تو کچھ بھی نہیں صرف لکڑی کا یہ گلاس ہے اسے تم لے جاؤ۔ضرورت کے وقت دودھ، شربت اور پانی ان سے حاصل کرسکتے ہو۔“شہزادہ فقیر کو سلام کر کے اپنی پانچوں پریوں اور رسی، لاٹھی، کٹورا اور گلاس کے ساتھ آ گے بڑھا ۔ دو برس پورے ہونے میں کچھ ہی دن رہ گئے تھے چھوٹا شہزادہ پریوں کو ساتھ لے کر واپس اسی کنویں پر پہنچا جس میں اس کے چاروں بھائیوں نے ڈھکیل دیا تھا کچھ دیر سستانے اور  آرام کر نے کی غرض سے شہزادہ اسی کنویں کے پاس ہی بیٹھ گیا۔اسے بیٹھے دیر نہیں ہوئ تھی کہ ایک طرف سے ان کے چاروں  بھائی گھوڑوں پر سوار وہاں آ پہنچے چھوٹے بھائی کو زندہ سلامت دیکھ کر انہوں نے پوچھا ”کہو بھائی کیسے ہو؟ اباجان نے جس کام کے لیے کہا تھا وہ کیا یا جب سے یہی بیٹھے مکھیاں مار رہے ہو۔“

چھوٹا شہزادہ بہت بھولا اور سیدھا تھا ۔اس نے چاروں بھائیوں کو اپنی کامیابی کی ساری داستان کہہ سنائ۔

چاروں بھائی چھوٹے شہزادےکےکامیاب لوٹنے پر مارے حسد کے جل ہی تو گئے۔مو قعہ پا کر چاروں بڑے بھائیوں نے اپنے چھوٹے بھائی کو ایک بار پھر کنویں میں ڈال دیا اور پانچوں پریوں کو لے کر محل کی طرف چل دیئے۔

چھوٹا شہزادہ کنویں میں گر کر بیہوش ہوگیا جب ہوش آ یا تو بہت رویا اچانک اسے بزرگ کی دی ہوئی لاٹھی اور رسی کا خیال آ یا۔اس نے فوراً دونوں چیزیں تھیلے میں سے نکال کر پریوں کو واپس لانے کے لیے بھیجا۔آن کی آ ن میں رسی نے جاکر چاروں شہزادوں کو جکڑ لیااور لاٹھی نے انھیں پیٹنا شروع کیا۔چاروں بھائی پریوں کو جنگل میں چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔

گھر پہونچتےہی چاروں شہزادوں نے کہا۔” ابا جان ! ہم ایک بہت ہوشیار اور کاریگرسنار سے کئی لاکھ روپے میں آ پ کا مطلوبہ درخت تیار کرا لائے ہیں۔ آ ئیے ہم آ پ کو اپنا لایا ہوا انوکھادرخت دکھائیں۔“

لیکن بادشاہ نے کہا ”نہیں ابھی دو برس پورے ہونے میں ایک دن باقی ہے کل تک چھوٹے شہزادے کا انتظار کرو۔“انوکھے درخت کی نمائش اگلے روز پر ملتوی کر دی گئی۔

ادھر چھوٹا شہزادہ رسی اور لاٹھی کو پریوں کی مددکےلئےبھیجنےکے بعد خود کنویں میں پڑا تھا اتفاق سے پھر وہی چرواہے اس کنویں پر آنکلے جنھوں نے اسےپچھلی بار کنویں سے نکالا تھا۔چرواہوں نے چھوٹے شہزادے کو کنویں سے نکال کر پوچھا ۔ ”بھائی ایک بار پہلے بھی تم اس کنویں میں گرے  تھے تب تم نے کہا تھا کہ بھائیوں نے گرا دیا۔ بھلا اس بار تمہیں کس نے گرا یا ؟“

چھوٹے شہزادے نے کہا ”بھائیو! اس بار بھی میرے بھائیوں ہی نے مجھے اس کنویں میں  ڈھکیلا  ہے۔ میں آ پ سب کا بہت ہی شکر گزار ہوں۔ اس وقت میں آپ کی کوئ خدمت نہیں کر سکتا لیکن آ پ کو پیٹ بھر کر لذیذ کھا نے ضرور کھلا سکتا ہوں۔“

اتنا کہہ کر شہزادے نے تھیلے میں سےفقیر کا پیالہ اور گلاس نکالا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دسترخوان پر مزےدار کھانے سج گئے۔ سب نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا بعد میں دودھ اور میٹھے پانی کے گلاس پی کر سب اپنے اپنے گھر کو چلے گئے۔ چھوٹا شہزادہ بھی کٹورا اور گلاس لے کر چل دیا۔ راستہ میں پانچوں پریاں رسی اور لاٹھی سمیت مل گئیں۔ شہزادہ انھیں لے کر جلدی سے محل میں پہنچا کیونکہ آ ج دوسرے سال کا آ خری دن تھا۔

باپ کو سلام کر کے چھوٹے شہزادے نے ساری باتیں بادشاہ کو سنائیں۔ چاروں بڑے شہزادوں کے ظلم کی داستان سن کر بادشاہ کو بہت غصہ آ یا اور انہیں سخت سزا دینے کا فیصلہ کیا۔

دوسرے دن سب وزیر اور درباری محل میں جمع ہوئے۔ محل کو ایک دلہن کی طرح سجا یا گیا تھا۔

بادشاہ نے سب سے پہلے بڑے شہزادے کو اپنا لایا ہوا انوکھا درخت پیش کرنے کا حکم دیا۔

چاروں شہزادوں نے لاکھوں روپے کی لاگت سے تیار کیا ہوا انوکھا درخت بادشاہ کے سامنے لا کر رکھ دیا۔ اس درخت کی جڑیں اور تنا چاندی کا تھا، ڈالیاں سونے کی تھیں اور پتیاں ہیرے کی اور پھل کی جگہ موتیوں کے گچھے لٹک رہے تھے۔

بادشاہ نے کہا ”لیکن اس درخت پر طوطی کہاں بیٹھی ہے جس کے خوش رہنے پر سارا درخت سر سبز رہتا ہے اور مغموم ہونے پر مرجھا جاتا ہے۔“

  چاروں شہزادے چپ تھے بادشاہ نے کہا ”میں نے خواب میں انوکھے درخت کو آہستہ آہستہ بنتے اور سرسبز ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔اس لیے میں اس درخت کو اپنا خواب والا درخت ماننے کےلئے تیار نہیں۔ ہاں اب چھوٹا شہزادہ اپنا لایا ہوا درخت پیش کرے۔“

چھوٹے شہزادے نے باپ کا حکم پاتے ہی پانچوں پریوں کو انوکھا درخت بنانے کے لیے  کہا۔ دوسرے ہی لمحہ چاندی کی پری نے چاندی کی جڑیں اور تنا تیار کر دیا۔ اس کے بعد سونے کی پری نے سونے کی شاخیں لگادیں۔بادشاہ اور سب درباری اس عجیب وغریب منظر کو دیکھ کر حیران ہورہے تھے کہ ہیرے کی پری نے سونے کی ڈالیوں میں ہیر کی پتیاں جڑد یں۔  آ خر میں موتی کی پری نے درخت میں پھلوں کی جگہ موتیوں کے گچھے لٹکادیے۔جب درخت مکمل ہوگیا تو سبز پری طوطی بن کر اڑی اور درخت کی ایک شاخ پر جا بیٹھی اس کے مسکرانے سے سارا درخت ھرا بھرا ہوگیا۔اس وقت چاروں شہزادوں نے شور مچا کر اس کھیل میں 

رکا وٹ ڈالنے کی کوشش کی تو طوطی اداس ہو گئ۔ اس کے اداس ہوتے ہی درخت مرجھا گیاسب کو ایسا محسوس ہوا جیسے درخت پر اچانک خزاں آ گئ ہے یہ دیکھ کر دربار میں موجود سبھی لوگ چھوٹے شہزادے کے نعرے لگانے لگے۔ بادشاہ بھی چھوٹے شہزادے کے کارنامے سے بہت خوش تھا وعدے کے مطابق اس نے اعلان کیا” آ ج سے یہ تخت و تاج اپنے بہادرچھوٹے شہزادے کو سونپتا ہوں اور اس کے حق میں تخت سے دستبردار ہو تا ہوں۔ اب چھوٹا شہزادہ اس ملک پر راج کےگا۔ چاروں بڑے شہزادے اپنی شرارت کی وجہ سے آج  دس دس سال کی سزا کا ٹیں گے اس کے بعد چھوٹا شہزادہ انھیں گزارے کے لایق الاونس دےگا۔“

لوگ یہ اعلان سن کر اچھل پڑے۔ لیکن چاروں بڑے شہزادے مغموم نظر آتے تھے کیونکہ انھوں نے راستے میں چھوٹے شہزادے سے دغا کی تھی۔ اسی وقت سپاہی ان چاروں کو پکڑ کر قید خانے میں لے گیے اور چھوٹا شہزادہ اپنی پانچوں پریوں سمیت تخت کی طرف بڑھ گیا۔

کہتے ہیں کہ ملک زمستان کا یہ بادشاہ وہاں مدتوں حکومت کرتا رہا اور جب مرا تو پانچوں پریاں انوکھی رسی،لاٹھی اور پیالے کے ساتھ وہاں سے غائب ہو گئیں۔ درباریوں  نے بہت تلاش کیا تینوں فقیر بزرگوں کو بھی ڈھونڈا لیکن کچھ حاصل نہ ہوا۔ ہاں ان سب کی یاد اب تک ان کے دل میں ہے۔

ختم شد

(نئی نسل کو اردو کی کلاسیکی کہانیوں سے روشناس کرانے کے لیے مقبول احمد دہلوی و نسیم بک ڈپو کے شکریہ کے ساتھ)

Saturday, 12 September 2020

Hazrat Jalaluddin Kabir ul Auliya Panipati RA

 حضرت شیخ جلال الدین کبیر الاولیا پانی پتی ؒ

از شیخ اللہ دیا چشتی

(زیر نظر مضمون سلسلہ چشتیہ کے ممتاز بزرگوں کے حالات پر مشتمل فارسی میں لکھی گئی قدیم کتاب ’’سیرالاقطاب“  کا ترجمہ ہے۔1646ء میں لکھی گئی اس  کتاب کا پہلا اردو ترجمہ 1888ء میں  شائع ہوا تھا۔)

(قسط 4)

نقل ہے کہ حضرت حجت الاولیا حضرت شیخ محمد عبد الحق قدس سرہ ساکن رودکی کہ بڑےاولیاء تھے اور حضرت خلیفہ خاص تھے، جذبہ عشق الہی سے جوياے رہنما تھے اور کمال ریاضت اور مجاہدہ کرتے تھے۔ ایک روز بشارت ہوئی کہ جلال الدین پانی پتی کی خدمت کرو، وہاں تجھ کو نعمت حاصل ہوگی۔ چنانچہ آپ نے اس طرف کا قصد کیا اور روانہ ہوئے۔ یہاں حضرت نے خادمان سے فرمایا کہ ایک شخص فضول آتا ہے، آج دستر خوان پر انواع انواع کا کھانا حاضر کرتا اور شراب وغیرہ نامشروع چیزیں بھی چند رکھنا، اور دروازے پرگھوڑےمع ساز و یراق کے مہیا رکھنا۔ خادموں نے ایسا ہی کیا۔ جب حضرت حجت الاولیا تشریف لائے تو یہ سامان دیکھ کر کہ دروازے پر بھی اسباب دولت مندانہ مہیا ہے ، نہایت بد اعتقاد ہوئے۔ پھر دسترخوان پر کھانا نامشروع دیکھ کر اور بھی بدگمان ہو کر وہاں سے چلے اور دل میں کہا کہ یہ تو محض دھوکا ہوا۔ آخر صبح کو وہاں سے روانہ ہوئے۔ جب شام ہوئی تو در یافت کیا کہ یہ شہر کون سا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ پانی پت ہے۔ آپ یہ حال دیکھ کر حیران ہوئے ۔ دوسرے دن پھر اسی طرح چلے ، شام تک اور وہیں موجود ہوئے۔ تیسرے دن آپ کو ایک جنگل نظر آیا اور اس میں درخت خشک تھے۔ ہر ایک درخت پر ایک ایک مخملی کلاه سر پر دیئے ہوئے بیٹھا تھا۔ اس سے انہوں نے دریافت کیا کہ راستہ کدھر ہے؟ اس نے جواب دیا کہ راستہ تو جلال کے دروازے پر بھول آیا۔ اگر پا نہیں ہے تو یہ دوآ دی سامنے سے آتے ہیں، ان سے دریافت کر۔ حضرت نے ان سے سوال کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے کیا در یافت کرتا ہے؟ تجھ سے پہلے ہی اس شخص نے راست راست کہہ دیا ہے کہ راستہ تو جلال کے دروازے پر ہے۔ یہ کہتے ہی غائب ہو گئے۔ پھر جو یہ نگاہ کر کے دیکھتے ہیں تو نہ وہاں جنگل ہے نہ وہ آدی ، پانی پت میں موجود ہیں۔ اب حضرت کو اعتقادی کلی ہوا اور حضرت کی خدمت میں چلے اور یہ سوچتے چلے کہ اگر آج حضرت کلاه سر اپنے پیر کی لحد سے مس کر کے مجھے کوعنایت فرما دیں اور شیرینی بھی مرحمت کریں تو میں پھر اعتقاد میں کسی طرح کا فرق نہ لاؤں گا۔ آخر یہی ہوا۔ آپ اس وقت حضرت مخدوم العالمین کے مزار اقدس پر تشریف رکھتے تھے اور ایک ہاتھ میں کلاه تھی ، مزارشریف کومس کر کے آپ کو عنایت کی اور پھر نیاز کا حلواحوالے کیا اور مقراض سے سرمونڈا۔ پھریہ حضرت نہایت معتقد ہوئے اور خدمت میں رہ کر خلافت سے مشرف ہوئے اور چند روز میں رتبه عالی پر پہنچے اور حجت الاولیاء ہوئے۔

اور جب حضرت حجت الاولیاء کو حضرت نے مرید کیا اور کلا ہ چارتر کی عنایت کی اور مقراض سر پر چلائی تو آپ مکان کو تشریف لائے۔ دیکھا کہ وہاں اسی طرح کا دستر خوان پر سامان مہیا ہے۔ آپ نے کھانا کھانا شروع کیا لیکن حضرت حجت الاولیا نے طعام نامشروع کے کھانے میں تامل کیا۔ آپ نے فرمایا کہ اے احمد ، جو چیز کی غیر خدا ہے یا غیر نعمت اس کے کی ہے، اس سے دست کشی چاہئے۔ اس بات کے سننے سے بالکل وسواس حضرت کے جاتے رہے اور کوئی بدگمانی دل میں نہ رہی اور آپ کو ایک وجد طاری ہوا اور بآواز بلند تین مرتبہ کہا کہ حق حق حق !چنانچہ حضرت نے آپ کا نام عبدالحق  رکھا اور اکثر مکتوبات پر حق حق حق لکھتے ہیں۔ یہ آپ کے نسبت ہے اور پھر رتبه عالیہ پر پہنچ کر آپ وطن مالوفہ کوتشریف لے گئے اور بڑی بڑی کرامت آپ سے ظہور میں آئیں اور ہزارہا طالبان حق در جہ ولایت کو پہنچے۔ (جاری ہے) 

(قسط 3)

نقل ہے کہ ایک بار آپ مشرق کے سفر میں تھے کہ ایک موضوعے میں فروکش ہوئے۔ دیکھا تو تمام گاؤں کے آدمی بھاگنے پر آمادہ ہیں۔ ان سے دریافت کیا کہ تم لوگ کیوں بھاگتے ہو؟ انہوں نے عرض کی کہ حاکم ہم سے مال

تحصیل طلب کرتا ہے، اور اب کی مرتبہ ہمارے یہاں کچھ پیدا نہیں ہوا، اس واسطے ہم لوگ حاکم کے خوف سے بھاگتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم اس کا روپہ دے دو تو پھر تو نہ بھاگو گے؟ انہوں نے عرض کی، پھر کیوں بھاگنے لگے تھے۔ حضرت مخدوم العالمین نے ارشاد کیا کہ پہلے تم اپنا گاؤں ہمارے ہاتھ فروخت کرو۔ انہوں

نے فروخت کر دیا اور کاغذ پر لکھ دیا۔ شام کو آپ نے فرمایا کہ تم لوگ اپنے اپنے یہاں سے لو ہا لائو ۔ وہ لوگ جس قدر ان کے یہاں آہنی آلات تھے سب حاضر کئے۔ آپ نے پاچک کے بٹورے میں ان کو رکھ کر آگ لگا دی اور بعد آدھی رات کے خفیہ طور پر آپ وہاں سے تشریف لے گئے ۔صبح کو وہ لوگ دیکھیں تو تمام طلائے خالص

ہے۔ ان لوگوں نے زرحام ادا کیا، اور اب تک ان کی اولاد موجود ہے اور وہ لوگ مر فہ حال ہیں۔ نقل ہے کہ ایک بار آپ کوہستان کی سیر کرتے پھرتے تھے کہ ایک جوگی آنکھیں بند کئے ہوئے کسی کوہ میں بیٹھا دیکھا۔ آپ اس کے قریب گئے۔ اس

نے آنکھیں کھول کر آپ سے کہا، اے شخص، تیرے حال پر مجھ کو رحم آتا ہے۔ جیب میں سے ایک سنگر یز نکال کر حضرت کے حوالے کیا اور کہا کہ یہ سنگ پارس ہے آپ نے اس کے ہاتھ سے لے کر ایک دریا میں پھینک دیا۔ یہ حال دیکھ کر جوگی در پے ہوا کہ اے شخص تو نے مجھ سے بھی کھویا اور آپ بھی نہ رکھا۔ بہتر اس میں ہے کہ دریا سے نکال کر میرے حوالے کر۔ آپ نے فرمایا کہ تو نے تو مجھ کو دے

دیا تھا، اب میں نے جو چاہا کیا۔ جوگی نے کہا کہ اس واسطے نہیں دیا تھا کہ تو دریا میں پھینک د ے۔

اگر اپنی خیر چاہتا ہے تو سنگ پارس کو دریا میں سے نکال ۔ آپ نے تبسّم فرمایا اور کہا کہ جا تو آپ نکال لا مگر اس شرط پر کہ اس دریا میں اور بھی سنگ اس قسم کے بہت ہیں، دوسرے کو ہاتھ نہ لگانا ۔ وہ جوگی دریا میں گیا اور دیکھا کہ کیا وہ پتھر

ہے، اسی طرح کے اور بھی پتھر بہت ہیں ۔ آخر جوگی نے ایک اپنا پتھر اور ایک اور لیا اور باہر آیا ۔ حضرت نے فرمایا کہ اے جوگی ۔ مردان خدا کے حکم میں زمین و آسمان ہیں، اور پارس ان کی نعلین کی گرد سے پیدا ہوتا ہے۔ ان کو سنگ پارس کی حاجت کیا ہے؟ یہ کرامت آپ کی ملاحظہ کر کے وہ جوگی مسلمان ہوا اور آخر شرف خدمت سے رتبہ ولایت کو پہنچا۔

نقل ہے کہ حضرت شیخ شرف الدین بوعلی قلندر سے ایک روز آپ بہت بضد ہوئے کہ اس راہ کومجھ پرمنکشف کرو۔ آپ نے فرمایا کہ صبر کر آج کل میں ایک شخض کلیر سے یہاں آئے گا، اس سے تجھ کو حاصل ہوگا۔ چنانچہ ایساہی ہوا۔ جب آپ نے خلافت پائی تو حضرت پیردستگیر نے فرمایا کہ اے جلال، سنت نبوی صلعم ادا کر اور نکاح کر۔ اول تو آپ نے عذر کیا، پھر قبول فرمایا۔ حضرت قطب العالمین نے ارشاد کیا کہ اے جلال، تجھ سے اولاد اس قدر عرصه عالم پر ہونے والی ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ چنانچہ دیکھ کر لوح محفوظ میں، اور نیک تیرے ہیں۔ آخر شیخ زادہ ہائے کرنال میں آپ کی شادی ہوئی اور جب آپ مکان پر آئے تو اول آتے ہی بی بی سے فرمایا کہ بی بی ، وضوکے واسطے پانی لاؤ۔ آپ نے اسی وقت پانی لا کر دیا اور وضوکرایا۔آپ نے قرآن شریف بی بی صاحبہ کے روبرو رکھا اور فرمایا کہ پڑھ قرآن شریف ۔ بی بی صاحب نے فرفر پڑھنا شروع کیا، حالانکہ نا خواندہ تھیں۔ آخر حضرت بی بی سے پانچ فرزند اور دولڑکیاں تولد ہوئیں۔ اول حضرت مخدوم زادہ خواجہ عبدالقادر بہ شش واسطه و دین واسطه بنده آلہ دین مولف ہذاابن شیخ عبدالرحیم ابن نتھاحکیم ابن شیخ حسن حکیم بن شیخ عبد الصمد بن شیخ بوعلی بن خواجہ يوسف بن قطب عالم حضرت خواجہ عبد القادر ابن حضرت جلال الدین رحمته اللّٰہ علیہم اجمعین۔ نقل ہے کہ احد قلندر ولایت سے جذب الٰہی میں یہاں آیا اور لکھی جنگل میں مقیم ہوا۔ جہاں جس درویش کوسنتا ، وہاں جاتا اور خدمت کرتا۔ آخر ایک روز اس نے اکثر مشائخِ کی دعوت کی۔ چنانچہ آپ بھی تشریف لے گئے۔ جب کھانا سامنے آیا، سب نے ہاتھ کھینچا اور حضرت نے بھی ہاتھ کھینچا اور فرمایا کہ ابھی تونے اب تک اپنے خاص پیروں کو حرام کھانے سے بچایا ہے۔ اب بھی محفوظ رکھ ، اور حرام کو یہاں سے نکال به مجرداس فرمانے کے جس جس جانور کا گوشت مثل سگ وغیرہ کے دستر خوان پر تھا، وہ جانور بجنسہ صورت پڑ کر چلے گئے ۔ یہ حال جو قلندر نے دیکھا، قدم پکڑ لیئے اور عرض کیا کہ یا حضرت، میں نے اسی واسطے بی حرکت کی تھی کہ تا کامل کے حال سے مجھ کو اطلاع ہو۔ آخر مرید کیا اور خلافت دے کر ملتان کو روان فرمایا۔ (جاری ہے)


(قسط 2)

نقل ہے کہ ایک روز آپ گھوڑے پر سوار ہو کر جاتے تھے۔ حضرت مخدوم عالم شیخ شرف الدین بوعلی قلندر ؒنے دیکھ کر فرمایا کہ اچھا گھوڑا اور اچھا سوار ہے۔ یہ سنتے ہی آپ کو حالت طاری ہوئی اور اسی وقت ترک دنیا کر کے سیاحت کو تشریف لے گئے ۔ آخر بعد چالیس برس کے وطن میں آئے اور خدمت پیر روشن ضمیر سے مشرف ہوکر اس رتبهٔ عالیہ کو پہنچے۔

نقل ہے کہ ایک وقت آپ ہمراہ چند درویشوں کے بانسی کو تشریف لے گئے تھے۔ اور اس وقت حضرت شیخ جمال قطب عالم حیات تھے۔ ان کو علم ہوا کہ جلال پانی پتی تشریف لائے ہیں، ان سے ملاقات کر کے  ان کی برکت دعا سے ان کا سلسلہ جاری ہوگا۔ آپ ابھی تک شہر کے باہر تھے کہ شیخ جلال نے ایک خادم کوآپ کی طلب میں بھیجا۔ اس نے درویشوںکو شخ جمال کا  پیغام دیا۔ انہوں نے قبول کیا اور ایک جگہ اسباب تمام رکھ کر اور حفاظت کے واسطے حضرت کو وہاں چھوڑ کر ہمراہ خادم کے ہوئے اور نزدیک شیخ جمال کے آئے ۔ آپ نے ان کو دیکھ کر فرمایا کہ برادران تمہارے ہمراہ کوئی اور درویش بھی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ایک جوان ہمارے ہمراہ اور ہے، کہ اس کو اسباب پر چھوڑ کر آئے ہیں۔ شیخ موصوف نے کہا کہ ایک درویش کو بھیج کر اس جوان کو یہاں بلالو، کہ میرا مطلب اسی سے ہے، اور آپ چوکھٹ پکڑ کر کھڑے  رہے۔ جب حضرت تشریف لائے تو آپ نے پہچانا اور جونشان خواب میں دیکھے تھے وہ آپ میں نظر آئے۔ نہایت تعظیم وتکریم سے صدر میں بٹھایا اور کھانا کھلایا۔ بعد تناول طعام کے فاتحہ کوسب نے ہاتھ اٹھایا اور رخصت چاہی۔ حضرت شیخ جمال قطب عالم نے سب کو رخصت دی، اِلّاحضرت سے کہا کہ آپ تشریف رکھیے اور بعد کو چلے جانا۔ آپ ٹھہرگئے۔ اس وقت حضرت شیخ جمال نے حال شال حضرت مخدوم علاء الدین علی احمد صابرؒ کا اور ان کی دعا کا کےوقت چاک کرنے شال کے یہ دعا کی تھی کہ ہم نے تمہاری شال نیچے سے چاک کی کی اور حضرت فرید شکرگنج کا یہ فرمانا کہ مریدان علی احمد صابر سے ایک شخص ہوگا کہ وہ پھر جمال کے سلسلےکے جاری ہونے کی دعا کرے گا، چنانچہ وہ اب ہو۔ اور واقعے میں بھی آپ کی صورت دکھائی ہے۔ یہ سب بیان کیا۔ حضرت مخدوم عالم نے دعا کی اور وہ دعا مقبول ہوئی ۔ کیونکہ بعد وفات شیخ کے ان کے فرزند شیخ نور الدین کو ،که شش ماہہ تھے حضرت نظام الدین اولیا کی خدمت میں لے گئے تھے اور آپ نے خرقہ خاص عنایت کیا تھا اور خلیفہ کیا تھا۔ اسی واسطے بعد نام حضرت سلطان المشائخ کے نام شیخ نور الدین کا لکھتے ہیں۔ غرض آپ کی برکت اور سلطان المشائخ کی عنایت سے سلسلہ حضرت قطب عالم کا جاری ہوا۔ آخر حضرت مخدوم صاحب شیخ جمال سے رخصت ہوکر درویشاں کی جماعت میں شامل ہوئے۔ ان لوگوں نے یہ حال پہلے بھی معائنہ کیا تھا۔ بہت تعظیم سے پیش آئے۔ اور پہلے کہ اسباب حضرت کے دوش پر رکھ کر چلّہ کرتے تھے۔ آئندہ اس حرکت سے باز آئے اور بہت خدمت کیا کرتے۔ ایک روز آپ نے فرمایا کہ اب باری ہماری ہے، آج اسباب ہم لے چلیں گے۔ درویشوں نے عذر کیا۔ آپ نے نہ مانا۔ آخر اسباب سر پر رکھ کر چلے۔ سب نے دیکھا کہ اسباب سر سے اونچا جاتا ہے۔ یہ دیکھ کر حیران ہوئے۔ اور بموجب فرمانے قطب عالم کے کہ اب تم پانی پت کو جاؤ ، وہاں تمہارا مقصد حاصل ہو گا ، آپ وطن کو تشریف لائے۔

(قسط 1)

حضرت جلال الدین کبیر الاولیا پانی پتی ؒ صاحب کشف و کرامت اور عالی درجات بزرگ تھے۔ آپ کو علم ظاہری اور باطنی میں کمال حاصل تھا۔ اول نام آپ کا  محمد تھا۔ اور جلال الدین خطاب عطا کیا ہوا پیر روشن ضمیر حضرت خواجہ شمس الدین ترک پانی کا ہے اور قدیم وطن آپ کا گازرون ہے۔ آپ نسباً عثمانی ہیں اور آپ کا سلسلہ نسب ویں پشت پر حضرت عثمان غنی ؓ سے ملتا ہے، اور آپ کی عمر  ایک سو ستر برس سے زیادہ تھی ۔ اور کمالات جو آپ کی ذات اقدس میں تھے کسی کو حاصل نہیں ہوئے۔ آپ نے خرقہ فقر واردات کا حضرت مخدوم العالمین خواجہ شمس الدین ترک پانی پتی سے حاصل کیا، اور حضرت کے فرزند اور مرید اور خلیفہ وخدام کثرت سے تھے۔ اور ایام طفلی سے جذ بہ شوق الٰہی اور محبت خداوندی دامن گیر جان تھی ۔ اور اکثر آپ جنگل میں رہا کرتے اور ذکر خدا میں ہر وقت مشغول رہتے تھے۔ اور آخر عمر میں استغراق بدرجہ کمال ہو گیا تھا، چنانچہ خادم لوگ تین بار به آواز بلند حق حق حق آپ کے گوش مبارک میں کہتے، جب ہوش میں آتے اور نماز پڑھتے ۔ اورسماع  ہمیشہ سماعت فرماتے اورعرس مشائخ عظام کا اکثر کیا کرتے۔ اور آپ جلال کمال رکھتے اور علما ومشائخ آپ کی بزم میں بہت حاضر ہوتے اور فیض حاصل کرتے۔ اور صاحب کرامت اور مستجاب الدعوات تھے، خلفا آپ کے اکثر صاحب جذب اور قطب وقت تھے۔ کتاب بینظیر عالم گیرمسمیٰ بهزاد الابرارتصنیف حضرت سے ہے۔ اور آپ نے چالیس برس تک سیاحت فرمائی ہے اور ہمیشہ حج ادا کئے ہیں اور اکثر مشائخ کرام اور اولیائے عظام سے نعمت حاصل کی ہے۔ اور الہام زبانی سے آپ نے ارادہ ارادت پیرومرشد کا کیا تھا۔ وقت خلافت اسم اعظم، کہ سینہ بہ سینہ چلا آتا تھا، آپ کو عنایت ہوا، اور بجائے فرزند کے آپ ہی سجاده نشین تھے۔ اور تصرف آپ کا یہاں تک تھا کہ ایک ہزار آدمی کا کھانا ہر روز مطبخ میں پکتا تھا، اور اگر ہزار آدی سے کمتر ہوتے تو خادم لوگ کوچہ و بازارسے اس قدر آدمی فراہم کرلاتے۔ اور آپ بھی دسترخوان پر بیٹھتے تھے لیکن کچھ اس میں سے تناول نہ فرماتے۔ اور انواع اطعمہ موجود ہوتا تھا اور طباق سی وسر پوش، جس کے سامنے آتا، وہ اسی کو مرحمت ہوتا، پھرکر باورچی خانے میں نہ جاتا ۔مگر معلوم نہیں کہ اس قدر طباق وسر پوش کہاں سے آتے تھے کہ ہر روز ہزاروں تقسیم ہوتے تھے۔ آپ کو اکثر شوق شکار کا تھا، چنانچہ کبھی دس روز کے بعدکبھی پندرہ روز کے بعد آپ صحراکو تشریف لے جاتے اور دس دس روز تک وہاں شکارکرتے۔ اور اسی قدر کھانا وہاں بھی غیب سے موجود ہوتا اور اسی قدر آدمی دسترخوان پر موجود ہوتے اور آپ کے گھر میں ہر روز فاقہ رہتا تھا، اور ایک دن کا غلّہ بھی آپ کے گھر میں حاضر نہ ہوتا۔ خدا جانے کی کیا تصرف حضرت کا تھا، والله اعلم ۔ نقل ہے کہ قطب ابدال مخدوم شیخ شرف الدین بوعلی قلندر حضرت کو ایام طفولیت سے دوست رکھتے تھے، اور حضرت کے منظور نظر تھے اور بغیر دیکھنے کے آپ کوتسکین نہ ہوتی تھی۔ جہاں سنتے تھے کہ آپ تشریف لے گئے ہیں، وہیں حضرت بوعلی قلندر پہنچتےتھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ اپنے کھیت پر گئے تھے۔ حضرت قلندر صاحب کو جو معلوم ہوا کہ آپ کھیت پر گئے ہیں ، سوار ہو کر وہیں پہنچے۔آپ نے جو دیکھا کہ مخدوم صاحب تشریف لائے ہیں، ایک ظرف میں غلّہ تازہ بھر کرنذر کے واسطے لائے، اور وہ غلّہ نخود تھا۔ حضرت شاہ قلندراں نےتبسم فرمایا اورکہا کہ اے فرزند کیالائے ہو؟ آپ نے عرض کی کہ داناآپ کے گھوڑے کے واسطے۔ حضرت نے فرمایا کہ پہلے گھوڑے سے دریافت کر کہ تجھکو حاجت دانے کی ہے یا نہیں؟ وہ گھوڑا آپ گویا ہوا کہ میں سیر ہوں۔ آپ یہ گویائی اسپ کی دیکھ کر حیران ہوئے۔ حضرت مخدوم بوعلی شاہ قلندر نے ارشادفرمایا کہ اے فرزند جس قدر تیرے پاس دانہ ہے اس قدر خداوندتعالیٰ نے اولادا مجادعنایت کی۔ چنانچہ آپ کو  با سبب کثرت اولاد کے نوح ثانی کہتے ہیں۔ (جاری )

(نخود: انگریزی میں اسے chickpea اور مقامی زبان میں اسے کابلی چنا کے نام سے جانا جاتا ہے۔)


Saturday, 5 September 2020

Karbalai Mushaira By Dilawar Figar

کربلائی مشاعرہ

دلاورفگار

(یو پی کے ایک شہر میں محرم کے ماہ میں سخت گرمی کے موسم میں ایک مشاعرہ منعقد ہوا تھا۔ جس میں شعرا کو پانی سے بھی محروم کر دیا گیا تھا۔ اس جشن تشنہ لبی میں شعرا کی جو حالت ہوئی تھی وہ اس نظم میں بیان کی گئی ہے۔ )

کل ایک مشاعرہ میں غضب ہو گیا فگارؔ
ہم اس مشاعرہ کو نہ بھولیں گے زینہار

وہ شخص جس کے ذمہ تھا محفل کا انتظام
کرتا تھا دل سے ماہ محرّم کا احترام

محفل سخن تھی محرّم کے ماہ میں
فنکار چل دئیے تھے ”شہادت“ کی راہ میں

زندہ رہیں گے حشر تک ان شاعروں کے نام
جو اس مشاعرہ میں سنانے گئے کلام

بیکلؔ کو بیکلی تھی تبسمؔ نڈھال تھے
گلزارِؔ نیم جاں بھی قریبِ وصال تھے

صدرِ مشاعرہ کہ جنابِ خمارؔ تھے
بےکس تھے بے وطن تھے غریب الدیار تھے

ماہرؔ تھے بیقرار تو احقرؔ تھے بدحواس
کوثرؔ پکارتے تھے کہ پانی کا اِک گلاس

شوقؔ و نشورؔ و ساحرؔ و شاعر فگارؔ و رازؔ
اِک مقبرہ میں دفن تھے جملہ شہیدِ ناز

ایسا بھی ایک وقت نظر سے گزر گیا
جب صابریؔ کے صبر کا پیما نہ بھر گیا

یہ میہماں تھے اور کوئی میزباں نہ تھا
ان ”آل انڈیوں“ کا کوئی قدرداں نہ تھا

گرمی سے دل گرفتہ نہ تھا صرف اِک امیرؔ
کتنے ہی شاعروں کا وہاں اٹھ گیا خمیر

رو رو کے کہہ رہا تھا اِک استادِ دھام پور
مارا دیارِغیر میں مجھ کو وطن سے دور

القصّہ شاعروں کی وہ مٹی ہوئی پلید
شاعر سمجھ رہے تھے کہ ہم اب ہوئے شہید

وہ شاعروں کا جمِّ غفیر ایک ہال میں
دم توڑتے ہوں جیسے مریض اسپتال میں

وہ تشنگی، وہ حبس، وہ گرمی کہ الاماں!
”منہ سے نکل پڑی تھی ایک استاد کی زباں“

شاعر تھے بند ایک سنیما کے ہال میں
پنچھی پھنسے ہوئے تھے شکاری کے جال میں

وہ پیاس تھی کہ جامِ قضا مانگتے تھے لوگ
وہ حبس تھا کہ لو کی دعامانگتے تھے لوگ

موسم کچھ ایسا گرم کچھ اتنا خراب تھا
شاعر جو بزمِ شعر میں آیا کباب تھا

بزمِ سخن کی رات قیامت کی رات تھی
ہم شاعروں کے حق میں شہادت کی رات تھی

کچھ اہلِ ذوق لائے تھے ساتھ اپنے تولیا
ننگے بدن ہی بیٹھے تھے کچھ پیر و اولیا

پاجامہ و قمیض نہ آیا بدن کو راس
بیٹھے تھے لوگ پہنے ہوئے قدرتی لباس

کیسے کہوں وہ اہلِ ادب بیوقوف تھے
اتنا ضرور ہے کہ وہ موسم پروف تھے

گرمی سے مضطرب تھے یہ شاعر یہ سامعین
کہتے تھے  ہم یہ رحم کر اے رب العالمین

یہ آخری گناہ تو ہو جائے در گزر!
اَب ہم مشاعرے میں نہ جائیں گے بھول کر

کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ کوفہ تھا وہ مقام
شاعر جہاں بلائے گئے ہیں بہ انتظام

تھے بانیانِ بزم کئی شمر اور یزید
کہتے تھے شاعروں کو سزا دوبہت شدید

سامع تلک پئیں تو منع تم نہ کیجیو
ہاں‘ شاعروں کی قوم کو پانی نہ دیجیو

یہ ہوش کس کو تھا کہ وہاں کس نے کیا کہا
سب کو یہ فکر کہ ملے جلد ”خوں بہا“

حالانکہ جان بچنے کی صورت نہ تھی کوئی
حکمِ خدا کہ اپنی قضا ملتوی ہوئی

ہم کو یقین آہی گیا اس جفا کے بعد
فنکار زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

Sunday, 30 August 2020

Waqia e Shahadat Hazrat Imam Hussain رضی اللہ عنہ

 واقعۂ شہادت

امام عالی مقام ؓ کی شہادت کا واقعہ انتہائی دلسوز ہے۔ اس کا بیان اس رسالہ میں تفصیل سے کیا گیا ہے۔یہ حسد ،بغض، ظلم و ستم ،احسان فراموشی  کی ایسی داستان ہے جو آج مسلمانوں کا مقدر بن گئی ہے۔ مصنفِ کتاب نے ان تمام واقعات کا ذکر مختصر مگر جامع کیا ہے۔انشاءاللہ آئینہ اُن واقعات کو آپ کے سامنے آئندہ  پیش کرے گا۔آج دس محرم ہے  ہم تفصیل نہ بیان کرتے ہوئے حضرت امام حسینؓ کی شہادت کا المناک ذکر لے کر حاضر ہیں۔

امام تشنہ کام کی شہادت

از: حضرت الحاج علامہ محمد حسام الدین صاحب مدظلہ

فغاں میں آہ میں فر یاد میں شیون میں نالے میں

سناؤں  درد  دل طاقت  اگر  ہو سننے  والے  میں

             بلا آخر وہ قیا مت خیز ساعت بھی آگئی کہ امام بچوں کو کلیجے سے لگا کر  عور توں کو صبر کی تلقین فرما کر اپنے بیمار مصیبت زدہ صاحبزادے حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ سے رخصت ہو کر شامی فوج کی طرف بڑھے ۔ ہائے اس وقت کوئی اتنا بھی نہ تھا کہ رکاب تھام کر سوار کرا دے یا میدان تک ساتھ جائے پیاس کی شدّت سے امام رضی اللہ عنہ کے لب خشک تھے ۔حلق سوکھ رہا تھا ۔عزیزوں کے قتل سے دل فگار ہو رہا تھا۔  جی چھوٹ چکا تھا ۔اس لئے کوفیوں کے لئے آپ کا کام تمام کر دینا آسان تھا لیکن وہ لاکھ سنگ دل سہی پھر بھی مسلمان تھے جگر گوشئہ رسول کے خون کا بار اپنے سر پر نہ لینا چاہتے تھے ہمت کر کے بڑھتے اور پلٹ جاتے تھے۔

             حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی پیاس لمحہ بہ لمحہ زیادہ بڑھتی جاتی تھی مگر کوئی گھونٹ بھر پانی بھی  دینے والا نہ تھا۔ دریائے فرات کی طرف متوجہ ہوئے لیکن کوفیوں نے جانے نہ دیا۔ وہی تشنہ لب ہے کہ ایک مرتبہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں پانی نہ تھا  حضرت حسین رضی اللہ عنہ پیاس سے رو رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے قرار ہوگئے اور اپنی زبان مبارک چُسا کر ان کی تسکین فرمائی۔

             آہ صاحبِ انا اعطیناک الکوثر کا نواسہ اور یوں تشنہ کام رہے ؎ 

ائے تشنۂ  کربلا شہید اکبر

سیر اب گلوئے تو زِ آبِ خنجر

تو آب نیا فتی ز دستِ امّت

اُمت ز تو آب خواہ روز مِحشر

  آخر جب پیاس کی شدت ناقابل برداشت ہو گئی تو پھر ایک مرتبہ نرغۂ اعدا کی طرف سے فرات کی طرف بڑھے اور پانی تک پہنچ گئے، پانی لیکر پینا چاہتے تھے کہ حصین بن نُمیر نے ایسا تیر مارا کہ دہن مبارک سے خون کا فوارہ پھوٹ نکلا ، آپ نے ہاتھ میں خون لے کر آسمان کی طرف اچھالا کہ اے بے نیاز یہ لالہ گوں منظر تو بھی دیکھ لے اور عرض کی کہ خدا یا جو کچھ تیرے نبی کے نواسہ کے ساتھ کیا جا رہا ہے اس کا شکوہ تجھی سے کرتا ہوں ؎ 

دردوغم رنج و الم جورو جفا کرب و بلا

لاکھوں صدمے ہیں مگر سہنے کو ایک جان حسینؓ

جب شوریدہ بخت شامی ہر طرف سے امام پر ٹوٹ پڑے تو آپ نے بھی سخت حملہ کر دیا۔ اور جدھر رخ کیا دشمن کی صفین درہم برہم کر دیں۔ لڑائی نے طول کھینچا دشمنوں کے چھکے چھوٹ گئے ، نا گاہ امام کا گھوڑا کام آگیا پا پیادہ آپ نے وہ داد ِشجاعت دی کہ سواروں سے بھی ممکن نہیں ، آپ حملہ کرتے جاتےتھے اور فرماتے جاتےتھے ”آج میرے قتل پر جمع ہوئے ہو خدا کی قسم اگر تم نے مجھے قتل کیا تو خدا تم پر سخت عذاب نازل فرمائے گا۔“

بلآخر آپ بہت تھک گئے، زخموں سے سارا بدن چور ہو گیا۔ ۳۳ زخم نیزے، ۳۴ گھاؤ تلواروں کے لگے ہوئے تھے ، تیروں کا شمار نہیں،  حالت لمحہ بہ لمحہ غیر ہو تی جا تی تھی ، باوجود اس کے کسی کی ہمت نہ پڑتی تھی کہ آپ کو شہید کرے سب ایک دوسرے پر ٹال رہے تھے کہ شمر نے لشکر کو للکارا کیا انتظار کر رہے ہو حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کر دو۔  اس پکار پر شامی چاروں طرف سے امام ہمام پر ٹوٹ پڑے۔ مالک بن شبر نے تلوار کا ایسا کا ری وار کیا کہ تلوار کلاہ مبارک کو کاٹتی ہوئی کاسہ سر تک پہنچ گئی، خون کا فوارہ پھوٹ نکلا ،ایک شخص نے تیر مارا تیر گردن میں آکر بیٹھ گیا، امام نے اس کو ہاتھوں سے نکالا۔

ابھی آپ نے تیر نکالا تھا کہ زرعہ بن شریک نے بائیں ہاتھ پر تلوار ماری پھر گردن پر وار کیا ، ان پیہم زخموں نے امام کو بلکل نڈھال کر دیا، اعضاء جواب دے گئےاور کھڑے ہو نے کی طاقت باقی نہ رہی۔   ؎ 

رخصت اے طاقت ایام وصال جاناں

آج مجبور ہیں کروٹ بھی بدل نے کے لئے

آپ اُٹھتے  اور سکت نہ پا کر گر پڑتے تھے ۔عین اسی حالت میں سنان بن انس نے کھینچ کر ایسا کاری نیزہ مارا کہ وہ عرش کا تارہ زمین پر ٹوٹ کر گرا ، سنگ دل خولی بن یزید سر کاٹنے کے لئے بڑھا لیکن ہاتھ کانپ گئے  تھرتھرا کر پیچھے ہٹ گیا اور سنان بن انس نے اس سر کو جو بوسہ گاہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم تھا جسم اطہر سے جدا کر لیا۔ اور دس محرم  اکسٹھ ھجری میں خاندان ِنبوی کا آفتابِ ہدایت ہمیشہ کےلئے روپوش ہوگیا۔ ریاض ِنبوی کا گل سرسبد ہمشہ کے لئے مرجھا گیا،علی کا چمن اجڑ گیا،اور فاطمہ کا گھر بے چراغ ہو گیا ۔

بے سر تن شاہ تشنہ کام است امروز + انا اللہ

بر آلِ رسول قتل عام است امروز  +بے جرم و گناہ

اے تعزیہ داران حسینؓ مظلوم + نالید بدر و

بااللہ کہ دم زدن حرام است امروز + جز نالہ و آہ

Dukhtar e Haidar e Karrar Ki Hikmat Dekho By Umaima Quadri

دختر حیدر کرار کی حکمت دیکھو
 امیمہ قادری




 

خوش خبری