آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Wednesday 14 August 2019

Kaath Ka Ghoda--NCERT Solution Class 10 Urdu

کاٹھ کا گھوڑا
رتن سنگھ

Courtesy NCERT
اس وقت بُندو کا ٹھیلہ تو ٹھیلہ خود بندو ایسا بے جان کاٹھ کا گھوڑا بن کر رہ گیا ہے جو اپنے آپ نہ ہل سکتا ہے نہ ڈُل سکتا ہے، نہ آگے بڑھ سکتا ہے۔
اسی لیے ، بندو کی ہی وجہ سے اندھیر دیو کےتنگ بازار میں راستہ قریب قریب بند ہو کر رہ گیا ہے۔ ضرورت سے زیادہ بوجھ سے لدا ہوا بندو کا ٹھیلہ سڑک پر چڑھائی ہونے کی وجہ سے رُک سا گیا ہے۔ رہ رہ کر اگر چلتا بھی ہے تو جوں کی رفتار سے رینگتا ہے اور پھر کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس کے پیچھے کاریں، ٹرک، بسیں ، موٹر سائیکل ، اسکوٹر غرض یہ کہ سبھی تیز رفتار گاڑیوں کی لمبی قطار ٹھہرسی گئی ہے اور انہی کے بیچ میں تانگے اور رکشے بھی پھنسے ہوئے ہیں۔
ان گاڑیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں وزیر، ملک کے بڑے بڑے کارخانے دار، کاروباری سیٹھ ، دفتروں کے افسر، دوکاندار، اور وردیوں والے فوجی اور پولس والے، سفید کالروں والے بابو، عام آدمی ، سودا سلف خریدنے کے لیے گھروں سے نکلی عورتیں، اسکولوں اور کالجوں کے بچّے ، ڈاکٹر، نرس، انجینئر سبھی کے سبھی ٹھہر گئے ہیں۔ لگتا ہے جیسے بندو کی سست رفتار کی وجہ سے سارے شهر، بلکہ ایک طرح سے کہا جائے تو سارے ملک، ساری دنیا کی رفتار دھیمی پڑ گئی ہے۔
یوں تو وزیر اپنی کار میں بیٹھا کچھ لوگوں سے گفتگو کر رہا ہے۔ لیکن بے چینی سے بار بار گھٹری دیکھ رہا ہے۔ کیوں کہ کسی غیرملکی وفد سے ملنے کا وقت قریب آرہا ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ آگے سے راستہ اس طرح بند کیوں ہو گیا ہے۔ اس کا ڈرائیور گھبرایا ہوا بار بار کار سے اترتا ہے، کچھ دور جا کر دیکھ کر آتا ہے ۔ اور پھر مایوس ہوکر گاڑی میں بیٹھ کر انتظار کرنے لگتا ہے ۔ وہ لوگ جو کار میں بیٹھے وزیر سے باتیں کر رہے ہیں، دل ہی دل میں خوش ہیں کہ راستہ بند ہونے کی وجہ سے کار کھڑی ہے اور انھیں وزیر کے سامنے اپنی بات رکھنے کا پورا پورا موقع مل رہا ہے ۔ کارخانے دار اور کاروباری سیٹھ البتّہ کاروں کی گدّیوں پر بیٹھے بے چین ہورہے ہیں ۔ ان کے لیے ہر گذرے ہوئے پل کے معنی ہیں لاکھوں کا گھاٹا۔
ریلوے کا ایک ڈرائیور بار بار اپنی سائیکل کا اگلا پہیہ اٹھا اٹھا کر پٹک رہا ہے۔ پریشانی کی وجہ سے اس کے ماتھے پر پسینہ آرہا ہے، کیوں کہ جس گاڑی کو لے کر اسے جانا ہے، اس کے جانے کا وقت ہو چکا ہے اور وہ یہاں راستے میں قید ہوکر رہ گیا ہے۔
اسکولوں اور کالجوں کے زیادہ تر بچّے خوش ہیں ۔ جتنے پیریڈ نکل جائیں اتنا ہی اچھا ہے لیکن کچھ ایک کو افسوس بھی ہے کہ ان کی پڑھائی پیچھے رہ جائے گی۔
اسی طرح سر پر لوہے کی ٹوپی پہنے ہوئے فوجی بار بار موٹر سائیکل کا ہارن بجارہا ہے لیکن آگے نہیں بڑھ پا رہا ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ اگر دفتر پہنچنے میں دیر ہوگئی تو اس کا کمانڈنٹ آفیسر چالیس کلو کا وزن پیٹھ پر لدوا کر دس کلو میٹر کا روڈ مارچ کروادے گا۔
لیکن بُندوان سب سے بے خبر ہے۔ بے نیاز ہے۔
آج اس سے ٹھیلہ کھنچ بھی نہیں پا رہا۔ ایک تو سیٹھ کے بچے نے زیادہ بوجھ لاد دیا ہے دوسرے اس کے ٹھیلے کا دھُرا جام ہورہا ہے۔ تیسرے یہ کہ چڑھائی کا راستہ ہے اور چوتھے یہ کہ اس کا من ہی نہیں ہورہا ہے ٹھیلہ کھینچنے کا۔ وہی کاٹھ کے گھوڑے والی بات ہورہی ہے جواپنے آپ سرک نہیں سکتا۔ جب بھی اس کا من اداس ہوتا ہے تو اس کی کیفیت اس کا ٹھ کے گھوڑے جیسی ہو جاتی ہے جسے وہ بچپن میں ایک میلے سے خرید کر بڑا دکھی ہوا تھا۔
کاٹھ کا رنگین گھوڑا لے کر جب وہ بڑے فخر سے گلی کے بچوں کے بیچ گیا تو اس نے دیکھا کہ کسی کے پاس چابھی والی موٹر تھی جو گھوں گھوں کرتی ہوئی تیز بھاگتی تھی اور کسی کے پاس ریل گاڑی تھی ، انجن سمیت اپنے آپ چلنے والی گاڑی ۔ جس کے پاس ایسے دوڑنے والے کھلونے نہیں تھے، ان کے پاس رسّی کے سہارے گھومنے والے رنگین لٹّو تھے۔ تیزی سے گھومتے ہوئے وہ ایسے لگتے تھے جیسے وہ سارے میدان کو اپنے گھیرے میں لے رہے ہوں ۔ ان کھلونوں کے سامنے اس کا کاٹھ کا گھوڑا سا کت بے جان تھا۔ ویسے بچوں کے سامنے کھیلتے ہوئے اس نے بھی اپنے گھوڑے کو ٹانگوں کے بیچ پھنسا کر دوڑ نے کا سوانگ کیا تھا لیکن دل ہی دل میں وہ جانتا تھا کہ اس کا کھلونا دوسروں کے کھلونے کے سامنے بے کار اور بے معنی ہے ۔ اسی لیے گھر آ کر اس نے کاٹھ کے گھوڑے کو چولہے کی آگ میں جھونک دیا تھا۔ لیکن جلنے کے با وجود جیسے وہ بے جان کاٹھ کا گھوڑا اس کی شخصیت کے ساتھ چپک کر رہ گیا تھا۔ کیونکہ ہوا یہ کہ گلی کے ہی بچّے جو اس کے ساتھ کھیلا کرتے تھے ان میں سے کوئی پڑھ لکھ کر منیم بن گیا تھا تو کوئی وکیل ۔ کوئی اسکول کا ماسٹر ہوگیا تھا تو کوئی بڑا افسر اور اس کے برعکس بندو وہی کاٹھ کا گھوڑا ہی رہ گیا۔ باپ ٹھیلا چلاتا تھا تو وہ بھی ٹھیلہ ہی کھینچ رہا ہے۔
وہ اکثر سوچتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ کیسے ہوا کہ ایک ہی گلی میں رہتے ہوئے باقی لوگ آگے بڑھ گئے اور وہ پیچھے رہ گیا۔ ایسا کیوں کر ہوگیا ؟ لیکن وہ سوچے بھی تو کیا؟ کاٹھ کا گھوڑا بھلا سوچ ہی کیا سکتا ہے؟
لیکن آج وہی کاٹھ کا گھوڑا یہی سوچ کر اداس ہورہا ہے کہ اس کے آٹھ نو سال کے لڑ کے چندو نے محض اس لیے اسکول جانا بند کردیا ہے کہ وہ اس کے لیے ضرورت کی چیزیں جُٹا نہیں پاتا۔”جب میں اپنی زندگی کی گاڑی ٹھیک سے نہیں کھینچ پاتا تو پھر اس ٹھیلے کے بوجھ کو کیوں کھینچوں؟“ بندو سوچ رہا ہے۔
اس کے دل نے کہا کہ ٹھیلہ جو پہلے ہی سرک نہیں پا رہا ہے اسے چھوڑ چھاڑ کر الگ کھڑا ہو جاؤں ۔ اس کی ہمت پہلے ہی جواب دے رہی ہے ۔ رہ رہ کر اس کے دل میں خیال اٹھ رہے ہیں کہ ایک دن اس کے چندو کو بھی اسی طرح ٹھیلے کے بوجھ کو سینچنا پڑے گا۔ اور اس خیال کے ساتھ اسے اپنی جان ٹوٹتی ہوئی سی محسوس ہو رہی ہے اور اس کے لیے ایک ایک قدم اٹھانا بھی دشوار ہورہا ہے۔
لیکن اس کے پیچھے جو لوگ کھڑے ہیں وہ اتاولے ہورہے ہیں۔ بار بار ہارن بجا کر اپنے غصّے کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک اس کے پاس آیا اور بولا ”بھیا جلدی کرو۔ تمھارے پچھے پوری دنیا رکی پڑی ہے۔“ اٹکی پڑی ہے۔ ”اٹکی ہے تو اٹکی رہے ۔“ بندو جھنجھلا کر بولا۔”جو لوگ تیز جانا چاہتے ہیں ان سے کہو کہ میرے پیروں میں بھی پہیے لگوادیں ۔‘‘
”بات تو ٹھیک کہتا ہے۔“ کسی نے کہا ”یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ اتنے تیز ہو جائیں کہ وہ ہوا سے باتیں کرنے لگیں اور کچھ کو اتنا مجبور کردیا جائے کہ ان کے لیے ایک قدم اٹھانا بھی دشوار ہو جائے۔“
یہ سب باتیں گاڑیوں کے ہارن کی آوازوں اور لوگوں کے شور میں دبی جا رہی ہیں۔
کاٹھ کے گھوڑے میں قدم اٹھانے کی ہمت نہیں ۔ وہ آگے نہیں بڑھ پا رہا ۔ اور اس کے پیچھے بھیڑ میں وہ وزیررکا ہوا ہے جسے کسی غیر ملکی وفد سے وقت مقررہ پر بات کرنا ہے، وہ ڈرائیور اٹکا ہوا ہے، جسے ملک کے کسی دوسرے شہر کی طرف ریل گاڑی لے کر جانا ہے، اسکول کے وہ پچّے رکے ہوئے ہیں جوکل کے مالک ہوں گے ۔ ڈاکٹر، نرس، انجینئر سب کے قدم بندھ کر رہ گئے ہیں۔
اور بُندو کاٹھ کا گھوڑا اندھیر دیو کے بازار میں اپنے ٹھیلے کے ساتھ کھڑا ہوگیا ہے۔ اس کے پاؤں میں حرکت آئے تو زندگی آگے بڑھے۔
رتن سنگھ
رتن سنگھ قصبہ داؤد، تحصیل نارووال ضلع سیالکوٹ میں 1927ء میں پیدا ہوئے۔ ایک مقامی اسکول میں میٹرک تک تعلیم پائی تقسیمِ وطن کے بعد ہندوستان چلے آئے ۔ 1962 میں آل انڈیا ریڈیو میں پروگرام ایکزیکیٹو کی حیثیت سے منسلک ہوئے۔ اپنی ملازمت کے دوران انھوں نے جالندھر، بھوپال، لکھنؤ ، جبل پور اور سری نگر وغیرہ شہروں میں قیام کیا۔
انھیں شروع سے افسانہ نگاری کا شوق تھا۔ طالب علمی کے دور میں کہانیاں لکھنے لگے۔ بطور افسانہ نگار ان کا نام بہت جلد مشہور ہوگیا۔ ’پہلی آواز‘ ، ’پنجرے کا آدمی‘، ’کاٹھ کا گھوڑا‘ اور ’پناہ گاہ‘ ان کے افسانوی مجموعے ہیں ۔ ان کے دو ناولٹ ’در بدری‘ اور ’اڑن کھٹولہ‘ اور ایک طویل سوانحی نظم ’ہڈ بیتی‘ اردو اور پنجابی میں شائع ہوچکی ہے۔ وہ مترجم کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں۔


مشق
خلاصہ:
اس وقت بندو خاں بے جان ہورہا تھا۔ وہ ہل جل بھی نہیں سکتا تھا۔ بندو کے ٹھیلے کی وجہ سے اندھیر دیو کے تنگ بازار میں راستہ تقریباً بند ہو کر رہ گیا۔ بندو کے ٹھیلے کے پیچھے کاریں ، ٹرک ، بسیں، موٹر سائیکلیں، اسکوٹر وغیرہ کی ایک لمبی قطار لگ گئی۔ ان ہی کے درمیان تانگے اور رکشے بھی پھنسے ہوئے تھے۔ ان گاڑیوں میں بڑے بڑے امیر کبیر لوگ کارخانے دار، کاروباری سیٹھ ، دفتروں کے افسران، دکان دار ، فوجی اور پولیس والے، بابو، عام آدمی ، گھر کا سامان خریدنے والی عورتیں، اسکول اور کالج کے بچے، ڈاکٹر، نرس، انجینئر سب رک گئے تھے۔ یوں تو وزیر اپنی گاڑی میں بیٹھا باتیں کر رہا تھامگر بار بار گھڑی بھی دیکھتا جاتا تھا۔ اس کا غیرملکی وفد سے ملنے کا وقت قریب آتا جارہا تھا۔ اس کا ڈرائیور بھی خاصا پریشان ہورہا تھا۔ جولوگ وزیر سے باتیں کررہے تھے وہ خوش تھے کہ انھیں وزیر سے اتنی دیر بات کرنے اور اپنے مسئلہ رکھنے کا پورا موقعہ مل گیا تھا۔ ادھر کارخانے دار اور کاروباری سیٹھ بھی بار بار اپنی کاروں کی گدیوں پر پہلو بدل رہے تھے۔ ان کی نگاہوں میں لاکھوں کا گھاٹا گھوم رہا تھا۔ ریلوے ڈرائیور بھی خاصا پریشان تھا، وہ اپنی سائیکل کا اگلا پہیہ اٹھا اٹھا کر پٹخ رہا تھا۔ اسے گاڑی لے کر جانا تھا، اور وہ لیٹ ہو گیا تھا۔ ادھر ایک فوجی بار بار اپنی موٹر سائیکل کا ہارن بجارہا تھا، اسے ڈر تھا کہ لیٹ ہونے پر کمانڈ ینٹ آفیسر بھاری وزن لدوا کر روڈ مارچ کروادے گا۔ لیکن بندو ان سب باتوں سے بے نیاز تھا۔ آج اس میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ ٹھیلے کو آگے بڑھا سکے۔ اسے بچپن میں خریدا ہوا کاٹھ کا گھوڑا یاد آ رہا تھا۔ جو دوسرے بچوں کے کھلونوں کے سامنے بالکل حقیر سا تھا۔ اس کے ساتھ کے ساتھی کہاں سے کہاں پہنچ گئے لیکن قسمت نے اسے بھی کاٹھ کا گھوڑا ہی بنا ڈالا۔ بے بس لاچار بندو ٹھیلے والا ۔ وہ اپنے بیٹے چند کو پڑھا بھی نہ سکا۔ اس کے دل میں آیا کہ یہ ڈھیلا پہلے ہی سرک نہیں رہا تھا، کیوں نہ اسے چھوڑ کر الگ کھڑا ہو جائے ۔ رہ کر اس کے دل میں خیال اٹھ رہے تھے کہ ایک دن چندو کو بھی یہی سب کچھ کرنا پڑے گا۔ اس کے لیے ایک ایک قدم بڑھانا بھی دشوار ہورہا تھا۔ لیکن اس کے پیچھے جولوگ جام میں پھنسے تھے، بار بار ہارن بجا کر اپنے غصےکا اظہار کر رہے تھے۔ لیکن بندو ایک جگہ کھڑا تھا۔ وہ آگے بڑھے، اس کے پاؤں میں حرکت آئے تو زندگی آگے بڑھے۔
معنی یاد کیجیے :
کاٹھ کا گھوڑا : لکڑی کا گھوڑا
وفد : نمائندوں کی جماعت
روڈ مارچ : حکم نہ ماننے پرفوجی کی پیٹھ پر بھاری بوجھ لدوا کر سڑک پر دوڑایا جانا
بے نیاز : بے پروا
ساکت  : بے حرکت 
سوانگ  : خاموش نقل (روپ بدلنا)
برعکس  : بر خلاف 
محض  : صرف 
مقررہ  : طے شدہ 
غور کیجیے:
ہمیں ان اسباب کی تہ تک پہنچنا چاہیے کہ زندگی کی دوڑ میں کچھ لوگ بہت آگے کیوں نکل جاتے ہیں اور کچھ لوگ کیوں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اگر ہمیں ترقی اور پچھڑجانے کے اسباب کا علم ہوجائے تو پھر ہم آسانی سے اپنی کمزوریوں پر قابو پاسکتے ہیں۔
نیچے دیئے ہوئے لفظوں سے خالی جگہوں کو بھر یے: 

حرکت#### سوانگ#### رفتار#### ساکت #### شخصیت

1۔ ساری دنیا کی .....رفتار..... دھیمی پڑگئی۔ 
2۔ ان کھلونوں کے سامنے اس کا کاٹھ کا گھوڑا ....ساکت.....بے جان تھا۔
3. اس نے بھی اپنے گھوڑے کو ٹانگوں کے نیچے پھنسا کر دوڑنے کا......سوانگ...... کیا تھا۔ 
4۔ وہ بے جان کاٹھ کا گھوڑا اس کی .....شخصیت....سے چپک کر رہ گیا تھا۔ 
5۔ اس کے پاؤں میں...حرکت....آئے تو زندگی آگے بڑھے۔

نیچے دیے ہوئے جملوں پر غور کیجیے: 

1. اسکولوں اور کالجوں کے زیادہ تر بچے خوش ہیں۔ 
2۔ ان کے پاس رسّی کے سہارے گھومنے والے رنگین لٹّو تھے۔ 
3. کچھ ایک کو افسوس بھی ہے کہ ان کی پڑھائی پیچھے رہ جائے گی۔

* پہلا جملہ ’ہیں‘ پر ختم ہوتا ہے، جو موجودہ زمانے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جہاں ایسی حالت اور کیفیت واقع ہوتی ہے اسے ’حال‘ کہتے ہیں۔
 * دوسرا جملہ ’تھے‘ پر ختم ہوتا ہے ، جو گزرے ہوئے زمانے کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ جہاں ایسی حالت اورکیفیت واقع ہوتی ہے، اسے ’ماضی‘ کہتے ہیں۔
 * تیسرا جمله ’گی‘ پر ختم ہوتا ہے، جو آنے والے زمانے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جہاں ایسی حالت اور کیفیت واقع ہوتی ہے اسے ’مستقبل‘ کہتے ہیں۔ 

نیچے دیے ہوئے جملوں میں زمانے کی نشان دہی کیجیے۔ 

1. احمد کل آیا تھا۔########اا اااا#ماضی
2. موہن بازار سے لوٹ آیا ہے۔ ####حال
3. سردی کا زمانہ کب آئے گا۔#####مستقبل
4. گرمی کا موسم جا رہا ہے۔ ####گگ#حال
5. ہم عید کے دن ملیں گے۔###گ#مستقبل

سوچیے اور بتائیے: 

1. بندو کو کاٹھ کا گھوڑا کیوں کہا گیا ہے؟
جواب: بندو ایک نہایت سست انسان تھا اور ہر کام بہت دھیرے کرتا تھا اس لیے اسے کاٹھ کا گھوڑا کہا گیا ہے۔ 

2. بندو کی سست رفتاری کا اثر کن کن لوگوں پر پڑا؟
جواب:  وزیر، ملک کے بڑے بڑے کارخانے دار، کاروباری، سیٹھ ،دفتروں کے افسر، دکاندار، وردیوں والے فوجی، پولیس والے، عام آدمی، سودا سلف خریدنے کے لئے گھروں سے نکلی عورتیں، اسکولوں اور کالجوں کے بچے، ڈاکٹر، نرس، انجینئر ان سب پر بندو کی سست رفتاری کا اثر پڑا۔

3. وزیر کی بے چینی کا سبب کیا تھا؟
جواب:  وزیر جام کی وجہ سے بے چین تھا کیونکہ غیر ملکی  وفد سے ملنے کا وقت قریب آرہا تھا۔

4. کاروباریوں کے لیے ”پل“ کے معنی لاکھوں کے گھاٹے کے کیوں ہیں؟
جواب:  کاربار میں ایک پل میں لاکھوں کے گھاٹے ہوجاتے ہیں۔ اس لیے ان کےلیے ایک  پل کے معنی لاکھوں کا گھاٹا ہوتے ہیں۔ 

5. چندو کے بارے میں بندو کے ذہن میں کیا خیال آیا؟
جواب: اُس کے ذہن میں یہ خیال  آیا کہ اُس کا بیٹا چندو اس لئے اسکول نہیں جا پایا کیونکہ وہ اُس کے لیے ضرورت کی چیزیں نہیں جُٹا پایا۔

6.  پیروں میں پہیے لگوانے سے بندو کی کیا مراد تھی؟
جواب: پیروں میں پہیے لگوانے سے مراد تھی کہ بُندو موٹر گاڑیوں کی طرح تیز رفتار ہوجائے اور بالکل ان کے جیسا بن جائے۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں سے جملے بنائے:
قطار : بندو کے پیچھے گاڑیوں کی لمبی قطار ہے۔
رفتار : گاڑی کی رفتار بہت دھیمی تھی۔
کیفیت : مریض کی کیفیت اچھی نہیں تھی۔
فخر : استاد کو اپنے شاگردوں پر فخر ہے۔
دشوار : لوگوں کے لیے اس مہنگائی میں جینا دشوار ہوگیا ہے۔
حرکت : سیما کی اس حرکت سے مینا بہت ناراض ہوئی۔
عملی کام: 
کاٹھ کے گھوڑے کی تصویر بنائیے اور اس میں رنگ بھریے۔
پیارے بچّو! کاٹھ کے گھوڑے کی تصویر بناکر رنگ بھر کر ہمیں بھیجو ہم تمہارے نام اور پتے کے ساتھ شائع کریں گے۔
کلک برائے دیگر اسباق

Pani ki aaloodgi -- NCERT SOLUTION CLASS X URDU

پانی کی آلودگی

 Courtesy NCERT 
ہوا، پانی اور غذا ہماری صحت اور زندگی کے لیے ضروری ہیں۔ بے احتیاطی اور بے قاعدگی سے ان چیزوں میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے۔ کھانے کی چیز یں اگر کھلی چھوڑ دی جائیں تو مکھیاں، گرد اور بیماری پھیلانے والے جراثیم، ان کو آلودہ کر دیتے ہیں۔ گردوغبار، کارخانوں سے نکلنے والا دھواں اور مہلک گیسیں ہوا میں آلودگی پیدا کر دیتی ہیں۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے پینے کے پانی کے ذخیرے کس طرح آلودہ ہوتے ہیں؟ باؤلیوں ، تالا بوں اور نہروں کے پانی میں کپڑے دھوئے جاتے ہیں، مویشیوں کو نہلایا جاتا ہے، انسان بھی وہیں نہاتے ہیں، اس طرح انسانوں اور جانوروں کی ساری گندگیاں باؤ لیوں اور تالابوں میں داخل ہو جاتی ہیں اور پانی آلودہ ہو جاتا ہے۔ نالیوں کی گندگی اور کوڑا کرکٹ بھی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ کارخانوں سے نکلنے والا میل کچیل اور کیڑے مار دواؤں کا چھڑکاؤ بھی پانی کی آلودگی میں اضافہ کرتا ہے۔ اس قسم کی گندگیاں پانی میں آکسیجن کی مقدار کم کر دیتی ہیں جس کی وجہ سے مچھلیاں مر جاتی ہیں۔
بارش کا پانی قدرتی طور پر صاف ستھرا اور پینے کے قابل ہوتا ہے۔ جب وہ زمین پر بہتا ہے تو نالوں کی شکل میں بہتا ہوا ندیوں اور تالابوں میں جمع ہو جاتا ہے۔ اس پانی میں مٹّی کے ذرّات ، نمکیات اور دوسرے مادّے بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ پانی گدلا ہو جاتا ہے اور پیچش قبض، پیٹ کا درد اور ہیضہ جیسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں۔
آلودہ پانی کو پینے کے قابل بنانے کے لیے اسے جوش دے کر ٹھنڈا کریں اور چھان کر کسی صاف برتن میں رکھیں۔ پانی کو جوش دیتے وقت دو چٹکی پوٹاشیم پرمیگنیٹ ڈالنے سے جراثیم مر جاتے ہیں ۔ گدلا پانی صاف کرنے کے لیے اس میں پھٹکری کے ٹکڑے ڈالنے کے بعد کپڑے سے چھان لینا چاہیے۔ اس طرح مٹی کےذرّات تہ میں بیٹھ جاتے ہیں اور پانی صاف ہو جاتا ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ پانی کے نلوں کو گندی نالیوں سے دور رکھا جائے۔

مشق
خلاصہ:
اس سبق میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہماری زندگی اور صحت کے لئے غذاکے ساتھ ساتھ ہوا اور پانی بھی ضروری ہیں ۔ اگر ان تینوں میں احتیاط نہ برتی جائے، ہوا، پانی اور غذا میں آلودگی ہوتو جراثیم پیدا ہونے کے باعث طرح طرح کی آلودگی اور خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ۔ یہی نہیں، گردوغبار کارخانوں سے نکلنے والی گیسوں اور دھوئیں سے بھی آلودگی پیدا ہوتی ہے۔ ہمارے پینے کا پانی کس طرح آلودہ ہوتا ہے، اس کی چند مثالیں یہ ہیں کہ جہاں جہاں پانی کے ذخیرے ہیں ، باولیاں ، تالاب، نہریں ہیں، وہاں مویشیوں کو نہلایا جاتا ہے، کپڑ ے دھوئے جاتے ہیں۔ اسی طرح انسانوں اور جانوروں کی ساری گندگیاں اس پانی میں داخل ہو کر اسے آلودہ کر دیتی ہیں۔ نالیوں کا گندہ پانی اور کوڑا کرکٹ بیماریوں کی وجہ بن جاتا ہے۔ کارخانوں سے نکلنے والا میل کچیل اور کیڑے مار دواؤں کے چھڑکاؤ سے بھی پانی آلودہ ہوتا ہے۔ اس طرح کے گندے پانی میں آکسیجن کم ہونے کے باعث مچھلیاں مر جاتی ہیں۔ بارش کا پانی قدری طور پر صاف ستھرا اور پینے کے لائق ہوتا ہے۔ مگر زمین پر نالوں کی شکل میں بہ کر ندیوں اور تالابوں میں جمع ہو جاتا ہے اور اس میں مٹی کے ذرات نمکیات اور دوسرے مادے بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ پانی گدلا ہو جاتا ہے اور اس کے پینے سے پیچش قبض، پیٹ کا درد اور ہہضہ جیسی بیماریاں پھیلتی ہیں ۔ ایسے آلودہ پانی کو پینے کے لائق بنانے کے لئے ابالا جائے اور ابالتے وقت اس میں دوچٹکی پوٹاشیم پر میگنیٹ ڈالنے سے جراثیم مر جاتے ہیں ۔ گدلا پانی صاف کرنے کے لئے اس میں پھٹکری کے بعد کپڑے میں چھان لینا چاہئے۔ اس طرح مٹی کے ذرات تہہ میں بیٹھ جاتے ہیں اور پانی صاف ہو جاتا ہے۔ پینے کے پانی کو آلودگی سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ پانی کے نلوں کو گندی نالیوں سے دور رکھا جائے۔
معنی یاد کیجیے:
آلودگی : ملاوٹ ، گندگی ، میلا پن
بے احتیاطی : لاپروائی
بے قاعدگی : بے ترتیبی
جراثیم : کیڑے مکوڑے
آلودہ : گندا
گندا : ذرّہ کی جمع، ریزے، چھوٹے ٹکڑے
نمکیات : کھاری چیزیں

غور کیجیے:
صحت کے لیے ہوا، پانی اور غذا ضروری ہے۔
جانوروں اور انسانوں کے نہانے سے باؤلیوں اور تالابوں کا پانی گندا ہوجا تا ہے۔
بیماریوں کے پھیلنے کی ایک وجہ گندے پانی کا استعمال بھی ہے۔
 آلودہ پانی کو پینے کے لائق بنانے کے لیے خوب اُبالنا چاہیے۔


سوچیے اور بتائیے:
سوال: آلودگی سے کیا مراد ہے؟
جواب:    آلودگی سے مراد گندگی ملاوٹ اورمیل ہے۔

سوال:  کھانے پینے کی چیزیں کس طرح آلودہ ہو جاتی ہیں؟
جواب:    کھانے کی چیزیں اگر کھلی چھوڑ دی جائیں تو  مکھیاں گرد اور بیماری پھیلانے والے جراثیم اُن کوآلودہ اور گندا کردیتے ہیں۔

سوال:  پانی حاصل کرنے کے قدرتی ذریعے کون کون سے ہیں؟
جواب:   بارش،جھرنے، ندیاں،جھیلیں، کنویں اور تالاب  پانی حاصل کرنے کے قدرتی طریقے ہیں۔

سوال: پانی کی آلودگی کس طرح پیدا ہوتی ہے؟
جواب:   باؤلیوں،  تالابوں اور نہروں کے پانی میں کپڑے دھوئے جاتے ہیں۔ مویشیوں کو نہلایا جاتا ہے، انسان بھی وہیں نہاتے ہیں۔ اس طرح انسانوں اور جانوروں کی ساری گندگی باؤلیوں اور تالابوں میں داخل ہوجاتی ہیں اور پانی آلودہ ہوجاتا ہے ۔ نالیوں کی گندگی اور کوڑا کرکٹ بھی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ کارخانوں سے نکلا میل کچیل اور کیڑے مارنے والی دوائیں بھی پانی کی آلودگی میں اضافہ کرتی ہیں۔

سوال: شہروں کی گندگی کس طرح دریاؤں میں شامل ہو جاتی ہے؟
جواب: شہروں کی گندگیاں نالیوں سے جاکر ندیوں میں گرتی ہیں اور دریاؤں میں شامل ہوجاتی ہیں۔

سوال: آلودہ پانی کو پینے کے قابل کیسے بنایا جاتا ہے؟
جواب:  آلودہ پانی کو پینے کے قابل بنانے کے لیے اسے جوش دے کر ٹھنڈا کیا جاتا ہے اور چھان کر کسی برتن میں رکھا جاتا ہے۔ پانی کوں جوش دیتے وقت ایک چٹکی پوٹاشیم پر میگنیٹ ڈالنے سے جراثیم مر جاتے ہیں۔ گدلا  پانی  صاف کرنے کے لیے  اُس میں پھٹکری کے ٹکڑے ڈالنے کے بعد اسے کپڑے سے چھان لیا جاتا ہے  اس طرح مٹی کے ذرّات تہ میں بیٹھ جاتے ہیں اور پانی صاف ہو جاتا ہے۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں سے جملے بنائے:
صحت : صحت اللہ کی دی ہوئی بہت بڑی نعمت ہے۔
آلودگی : آلودگی سے کئی بیماریاں ہوئی ہیں۔
گرد و غبار : پورا میدان گرد وغبار میں ڈوب گیا۔
جراثیم : بیماری پھیلانے والے جراثیم کھانے کو آلودہ کر رہے ہیں۔
دریا : دریا کا پانی بھی آلودہ ہوتا جا رہا ہے۔
قدرتی : بارش اور تالاب پانی حاصل کرنے کے قدرتی طریقے ہیں۔
تالاب : تالاب میں مچھلیاں تیر رہی تھیں۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کی مدد سے خالی جگہوں کو بھر یے:

پانی ####آلوده#### بارش#### جراثیم

تالابوں کا پانی جانوروں کے نہانے سے .........آلوده........ہو جا تا ہے۔
صحت کے لیے صاف .......پانی............ضروری ہے۔
.........بارش ............ کا پانی قدرتی طور پر صاف ہوتا ہے۔
 مکھیاں ........جراثیم.......... پھیلاتی ہیں۔

واحد اور جمع
اقسام : قسم
ذرات : ذرہ
خرابی : خرابیاں
ذخائر : ذخیرہ
عملی کام :
پانی کی آلودگی پر ایک مختصر نوٹ لکھیے
پانی کا آلودہ ہونا اس دور میں ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔خاص طور سے پینے کے پانی کا مسئلہ اور بھی سنگین ہو گیا ہے۔ پانی کے آلودہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ ندیوں اور تالابوں کا آلودہ ہونا ہے۔ شہر کے قریب سے گزرنے والی ندیاں شہر کی گندگی اور کارخانوں کے گندے پانی کی وجہ سے روز بروز تشویشناک شکل اختیار کرتی جارہی ہیں۔ گنگا، جمنا اور اس جیسی دوسری ندیوں کی حالت اور بھی خراب ہوتی جا رہی ہے۔ ان ندیوں کو صاف کرنے کی ہر کوشش ناکام ثابت ہوئی ہے۔ ان ندیوں کو عوامی شراکت اورسرکاری تعاون سے ہی صاف و شفاف اور پینے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔

کلک برائے دیگر اسباق

NAI ROSHNI--NCERT SOLUTION CLASS X URDU

نئی روشنی

اسکول میں کھانے کا وقفہ تھا۔ کچھ طلبا کھانا لے کر باہر پیڑ کے نیچے جا بیٹھے تھے۔ کچھ اپنی کلاس میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ سبھی حیرت میں تھے۔ روز کی طرح درجہ میں شور بھی نہیں تھا۔ اسلم اور جاوید کی بات چیت صاف سنائی دے رہی تھی۔
اسلم : ماسٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ کل سے ہماری کلاس میں ایک ایسا لڑکا پڑھنے آئے گا جو نابینا ہے۔ اسے آج ہی داخلہ ملا ہے۔
جاوید : (حیرت سے) میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ وہ پڑھے گا کیسے؟


(وقفہ ختم ہونے کی گھنٹی بجتی ہے)
 اسلم : ماسٹر صاحب آتے ہی ہوں گے۔ انہیں سے پوچھیں گے۔

:
(ماسٹر صاحب کلاس میں داخل ہوتے ہیں ۔ سبھی طلبا ان کے احترام میں کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ اسلام اور جاوید سوال کرتے ہیں۔)
اسلم و جاوید : (ایک ساتھ ) ماسٹر صاحب معلوم ہوا ہے کہ ایک ایسے لڑکے کو ہماری کلاس میں داخلہ ملا ہے۔ جو دیکھ نہیں سکتا پھروہ پڑھے گا کیسے؟
ماسٹر صاحب :  تم لوگوں نے ٹھیک سُنا ہے۔ محمود کل سے تمھاری کلاس میں آئے گا اور تمھارے ساتھ ہی پڑھے گا ۔ تم سب اتنےحیران ہو کر میری طرف کیوں دیکھ رہے ہو؟ محمود بالکل تم جیسا ہی ہے۔ بس وہ دیکھ نہیں سکتا۔ جانتے ہو وہ گذشتہ سال اپنی کلاس میں اول آیا تھا۔
اسلم : ماسٹر صاحب ! جب محمود کو دکھائی ہی نہیں دیتا تو وہ پڑھتا کس طرح ہے؟
ماسٹر صاحب : محمود اور اس جیسے بچّے ایک خاص تحریر کے ذریعے پڑھتے ہیں۔ اسے ’بریل‘ کہتے ہیں ۔ 
جاوید : لیکن ماسٹر صاحب! آنکھوں کے بغیر تحریر کیوں کر پڑھی جاسکتی ہے؟
ماسٹر صاحب :  ایک خاص آلے سے موٹے کاغذ پرحروف کو ابھارا جاتا ہے جنہیں تھوڑی تربیت کے بعد انگلی سے چھو کر پڑھ سکتے ہیں۔ بریل میں چھ نقطے ہوتے ہیں، جن کو کئی طرح سے ملا کرحروف ابھارے جاتے ہیں۔ دنیا کی کوئی بھی زبان اس تحریر میں لکھی اور پڑھی جاسکتی ہے۔ آج اسی کی مدد سے اس طرح کے بچّے اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
زاہده : یہ تحریر کس نے ایجاد کی ہے؟
ماسٹر صاحب : اس کی ایجاد کرنے والے فرانس کے ’لوئی بریل‘ تھے۔ وہ پیرس کے نزدیک ’کوپ بِرے‘ نام کے قصبے میں جنوری 1809 میں پیدا ہوئے تھے۔ دو سال کی عمر میں ایک نوکیلا اوزار لگ جانے سے لوئی کی آنکھوں کی روشنی جاتی رہی مگر لوئی نے ہار نہیں مانی اور کسی نہ کسی طرح تعلیم حاصل کرنے میں لگے رہے۔ اپنی بیس سال کی محنت اور لگن سے انھوں نے اس تحریر کو ایجاد کیا جسے انھیں کے نام پر ’بریل‘ تحریر کہا جاتا ہے۔ بچو! اس تحریر کو ایجاد کر کے لوئی نے نابینا لوگوں کے لیے تعلیم کا راستہ کھول دیا اور ان کی تاریک زندگی میں روشنی کی کرن بکھیر دی۔
اسلم : ماسٹر صاحب! کیا آپ کو بریل تحریر آتی ہے؟ آپ محمود کو کیسے پڑھائیں گے؟ آپ اس کے ہوم ورک کی جانچ کس طرح کریں گے اور پھر امتحان کی کاپی کیسے جانچی جائے گی؟
جاوید : اور پھر وہ ایک کلاس سے دوسری کلاس میں کیسے جائے گا؟
ماسٹر صاحب : محمود بہت محنتی طالب علم ہے۔ ویسے تو اپنا ہوم ورک کسی سے لکھوا کر بھی مجھے دکھا سکتا ہے مگر وہ دوسروں کا سہارا لینا پسند نہیں کرتا۔ وہ آج کل بڑی لگن سے ٹائپ سیکھنے میں لگا ہوا ہے تا کہ وہ ہماری تحریر میں ہی ہوم ورک کر سکے اور امتحان دے سکے۔ رہی آنے جانے کی بات تو ایک بار تم لوگ اسے کلاسوں اور لائبریری وغیرہ کے راستے کو بتا دو گے تو پھر وہ اپنی سفید چھڑی کی مدد سے خود ہی راستہ ڈھونڈ لے گا۔
 زاہده : سفید چھڑی ہی کیوں؟
ماسٹر صاحب : سفید چھڑی نابینا لوگوں کی پہچان ہے۔ اس چھڑی کو دیکھ کر لوگ انھیں راستہ دے دیتے ہیں اور ضرورت ہونے پر انہیں ان کی منزل تک پہنچا دیتے ہیں۔
اسلم : کیا محمود اپنی روزی خود کما سکے گا؟
ماسٹر صاحب : محمود اور اس جیسے دوسرے بچّے ہماری ہی طرح تعلیم حاصل کر کے اپنی روزی خود کماتے ہیں۔ وہ کارخانوں میں بڑی مہارت سے مشینوں پر کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ استاد، وکیل، اخبار نویس اور موسیقار وغیرہ بن سکتے ہیں۔ آج کل ایسے کئی لوگ اعلیٰ عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔ وہ سماج کے لیے مفید بن سکتے ہیں۔ آج وہ سماج پر کوئی بوجھ نہیں ہیں ۔ یہ ضروری ہے کہ ہم انہیں اپنے سے الگ نہ سمجھیں۔ ان کے ساتھ سچّے دوست جیسا برتاؤ کریں۔ مجھے یقین ہے کہ کلاس کے سبھی طلبا پڑھنے لکھنے میں محمود کی بھر پور مدد کریں گے۔ جاوید ! کیا تم اور کچھ پوچھنا چاہتے ہو؟
جاوید : ماسٹر صاحب میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا ایسے سبھی بچّے محمود کی طرح ہمارے جیسے اسکول ہی میں پڑھتے ہیں؟
ماسٹر صاحب : نہیں جاوید ایسا نہیں ہے۔ ان کے اسکول الگ ہوتے ہیں جہاں ان کے رہنے کا بھی انتظام ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں تقریباً ڈھائی سو ایسے اسکول ہیں ۔ ان اسکولوں میں پڑھنے لکھنے اور کھیل کود کے ساتھ ساتھ انھیں روزگار کے لیے مفید کام بھی سکھائے جاتے ہیں ۔ یہ بہت سے کھیلوں میں حصہ لے سکتے ہیں ۔ جیسے کبڈی، رسّا کشی، تیراکی ، دوڑ وغیرہ۔ تاش اور شطرنج بھی ان کے پسندیدہ کھیل ہیں ۔ کھیلوں کے علاوہ یہ اسکاؤٹنگ، موسیقی اور سیّاحی میں بھی دلچسپی لیتے ہیں۔
اکرم : ماسٹر صاحب! کیا یہ لوگ کرکٹ کھیل سکتے ہیں؟
ماسٹر صاحب : کیوں نہیں ۔ کچھ ماہ پہلے ہی دور درشن پر ایسے کھلاڑیوں کو کرکٹ کھیلتے دکھایا گیا تھا۔ ان کے لیے خاص قسم کی گیند بنائی جاتی ہے جس سے آواز نکلتی ہے۔ آواز سن کر ہی کھلاڑی اپنے بلّے سے گیند کو مارتے یا پکڑتے ہیں۔
پرکاش : ان کے لیے اور کیا کیا خاص چیزیں بنائی گئی ہیں؟
ماسٹر صاحب :  ان کے لیے انگریزی اور ہندی کا ایسا کمپیوٹر تیار کیا گیا ہے جو بولتا ہے یعنی جس حرف کے بٹن کو دبائیں گے توکمپیوٹر اسی حرف کو ادا کرے گا۔ پھر وہ سن سن کر جو بھی ٹائپ کریں، وہ سب کچھ خاص پرنٹر کے ذریعے بریل تحریر میں فوراً ان کے سامنے آ جائے گا۔
موہن : ارے واہ! یہ تو بہت مزے دار بات ہوئی۔
ماسٹر صاحب :  یہی نہیں، ان لوگوں کی انگلیوں کے پور اور کان بہت زیادہ حساس ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ چیزوں کو چھوکر محسوس کرتے ہیں اور سن کر وہ اپنا نصاب یاد کر لیتے ہیں ۔ ایک بار سنا ہوا اور ایک بار چھوا ہوا وہ کبھی نہیں بھولتے انہیں دکھائی نہیں دیتا تو کیا ہوا۔ بدلے میں بہت ساری صلاحیتیں ہیں جن سے وہ اپنی زندگی اچھی طرح گزار سکتے ہیں۔
 اسلم : ماسٹر صاحب، آنکھیں خراب کیوں ہوتی ہیں؟
ماسٹر صاحب : کبھی کبھی کھانے میں وٹامن اے کی کمی کی وجہ سے بینائی کم ہو جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے بچے حادثوں میں اپنی بینائی کھو بیٹھتے ہیں ۔ بچّو! وٹامن ’اے‘ کی کمی پورا کرنے کے لیے اپنے کھانے میں ہری سبزیاں، گاجر، پیلے پھل، آم، پپیتا، کدو، وغیره مناسب مقدار میں استعمال کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی گِلی ڈنڈا اور پٹاخوں یا نوکیلی چیزوں سے اپنی آنکھوں کی خاص طور پر حفاظت کرنا چاہیے۔ کبھی کبھی گندگی سے بھی آنکھیں خراب ہو جاتی ہیں۔ آنکھوں کو ہمیشہ صاف پانی سے دھوتے رہنا چاہیے۔ صاف تولیے یا رومال سے آنکھیں پوچھنی چاہئیں۔ کم روشنی میں نہیں پڑھنا چاہیے اور آنکھوں کی ورزش بھی کرتے رہنا چاہیے۔ ان سب باتوں کا خیال رکھنے سے تمھاری آنکھیں محفوظ رہ سکتی ہیں۔

مشق
خلاصہ:
اسکول میں کھانے کے وقفے کے دوران دو طالب علم اسلم اور جاوید یہ گفتگو کر رہے تھے کہ کلاس میں ایک ایسا لڑکا پڑھنے آئے گا جو نابینا ہے، دیکھ نہیں سکتا۔ جاوید کو اس بات پر حیرت تھی کہ جب لڑکا نابینا ہے تو وہ پڑھے گا کیسے؟ اسلم نے کہا کہ ماسٹر صاحب سے پوچھیں گے۔ کلاس میں ماسٹر صاحب کے آنے پر اسلم و جاوید نے نابینا لڑکے کے تعلق سے سوال کیا۔ ماسٹر صاحب نے بتایا وہ لڑکا محمود ہے اور وہ نابینا لوگوں کے لئے ایک خاص تحریر " بر یل‘‘ کے ذرایہ پڑھے گا۔ ماسٹر صاحب نے "بریل" کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایک خاص آلے کی مدد سے موٹے کاغذ پرحروف کو ابھارا جاتا ہے جنہیں تھوڑی تربیت کے بعد انگلی سے چھوکر پڑھ سکتے ہیں ۔ بریل میں چھ نقطے ہوتے ہیں جن کو کئی طرح سے ملا کر حروف ابھارے جاتے ہیں ۔ دنیا کی کوئی بھی زبان اس تحریر میں پڑھی جاسکتی ہے۔ فرانس میں ایک شخص لوئی بریل نے یہ طریقہ ایجاد کیا تھا۔ اس کے نام پر اس تحریر کو بریa کہا جاتا ہے۔ بریل پیرس کے قریب کوپ برے نام کے ایک قصبے میں جنوری 1809 کو پیدا ہوا تھا۔ دو سال کی عمر میں ایک نوکیلا اوزار لگ جانے سے لوئی کی آنکھوں کی روشنی جاتی رہی ۔ مگر لوئی نے ہار نہیں مانی اور وہ کسی نہ کسی طرح پڑھتا رہا۔ بیس سال سخت محنت کرنے کے بعد اس نے نابینا لوگوں کے پڑھنے کے لئے یہ طریقہ ایجاد کرلیا۔ اسلم نے جب یہ پوچھا کہ ماسٹر صاحب آپ کو بریل تحریر پڑھنی آتی ہے آپ اسے کیسے پڑھائیں گے اور ہوم ورک کی جانچ کیسے کریں گے؟ ماسٹر صاحب نے بتایا کہ نابینا طالب علم کسی اسے لکھوا کر بھی دکھا سکتا ہے مگر محمود دوسروں کا سہارا لینے کے بجاۓ آج کل ٹائپ سیکھ رہا ہے تا کہ وہ لکھ سکے اور امتحان بھی دے سکے اور ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ نابینا افراد اپنے ساتھ ایک سفید چھڑی رکھتے ہیں ۔ یہ ان کی پہچان ہے تا کہ لوگ انہیں راستہ دے سکیں۔ نابیناپڑھ لکھ کر مختلف پیشے اختیار کرتے ہیں اور اپنی روزی خود کماتے ہیں۔ انہیں خود سے علیحدہ نہیں سمجھنا چاہئے۔ جاوید کے پوچھنے پر ماسٹر صاحب نے بتایا کہ نابینا افراد کو پڑھانے کے لئے ان کے اپنے اسکول ہوتے ہیں جہاں ان کے رہنے کا بھی بندوبست ہوتا ہے۔ انہیں پڑھنے کے ساتھ ساتھ کھیل کود اور روزگار کے لئے کام بھی سکھائے جاتے ہیں۔ ایک طالب علم اکرم نے پوچھا کہ کیا لوگ کرکٹ کھیل سکتے ہیں؟ تو ماسٹر صاحب نے بتایا کہ پچھلے دنوں دور درشن پر نابینا لوگوں کو کرکٹ کھیلتے دکھایا گیا تھا ان کے لئے ایک ایسی گیند بنائی گئی تھی جس سے آوازنکلتی ہے۔
معنی یاد کیجیے:
نابینا : جسے دکھائی نہ دے
تحریر : لکھاوٹ، عبارت
تربیت : پرورش
سیاحی : سفر کرنا، سیر و سیاحت کرنا
حساس : زیادہ محسوس کرنے والا
نصاب : پڑھائی کا کورس
صلاحیت : لیاقت، استعداد
ورزش : کسرت
مقدار : اندازه، وزن
غور کیجیے:
آنکھیں وٹامن ’اے‘ کی کمی سے خراب ہو جاتی ہیں ۔ وٹامن ’اے‘ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ہری سبزیاں اور پیلے پھل کھانا چاہیے۔

سوچیے اور بتائیے:
1.  کلاس میں بچے کس بات پر حیرت زدہ تھے؟
جواب: کلاس کے بچے اس لیے  حیرت زدہ تھے کہ ان کی کلاس میں ایک نابینا طالب علم آنے والا تھا۔

2.  بریل ایجاد کرنے والے کا نام کیا تھا؟
جواب: بریل کو لوئی بریل نے ایجاد کیا تھا۔

3.  بریل کے ذریعے پڑھائی کس طرح ہوتی ہے؟
جواب: بریل میں ایک خاص آلے سے موٹے کاغذ پر حروف کو اُبھارا جاتا ہے جنہیں تھوڑی تربیت کے بعد انگلیوں سے چھو کے پڑھ سکتے ہیں۔ اس میں چھ نقطے ہوتے ہیں جنہیں کئی طرح سے ملاکر حروف اُبھارے جاتے ہیں۔ دنیا کی کوئی بھی زبان اس تحریر میں لکھی یا پڑھی جا سکتی ہے۔

4.  لوگ سفید چھڑی کیوں رکھتے ہیں؟
جواب: سفید چھڑی نابینا لوگوں کی پہچان ہے۔ اس چھڑی کو دیکھ کر لوگ انہیں راستہ دے دیتے ہیں اور ضرورت ہونے پر انہیں ان کی منزل تک پہنچا دیتے ہیں۔

5. آنکھوں کی حفاظت کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
جواب: کبھی کبھی کھانے میں وٹامن اے کی کمی کی وجہ سے بینائی کم ہو جاتی ہیں۔ اس لیے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے کھانے میں ہری سبزیاں، گاجر، پیلے پھل، آم، پپیتا، کدو، وغیره مناسب مقدار میں استعمال کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی گِلی ڈنڈا اور پٹاخوں یا نوکیلی چیزوں سے اپنی آنکھوں کی خاص طور پر حفاظت کرنا چاہیے۔ آنکھوں کو گندگی سے پاک رکھنا چاہیے اور اسے ہمیشہ صاف پانی سے دھوتے رہنا چاہیے۔ صاف تولیے یا رومال سے آنکھیں پوچھنی چاہئیں۔ کم روشنی میں نہیں پڑھنا چاہیے اور آنکھوں کی ورزش بھی کرتے رہنا چاہیے۔ ان سب باتوں کا خیال رکھنے سے ہماری آنکھیں محفوظ رہ سکتی ہیں۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے :
موسیقار :  نوشاد ایک معروف موسیقار ہیں۔
حیرت زدہ : نابینا بچّے کے پڑھنے کی بات سن کرکلاس کے سبھی بچے حیرت زدہ تھے۔
مقدار : اس نے زیادہ مقدار میں کھانے میں نمک ڈال دیا۔
وقفہ : اسلم نے کھانے کے وقفہ میں ہوم ورک مکمل کرلیا۔
اخبار نویس : نابینا افراد اخبار نویس بھی بن سکتے ہیں۔
عہدہ : رضیہ سلطان نے میر آخر کا عہدہ ایک حبشی غلام کو دے دیا۔
آلہ : سائنسدانوں نے سماعت کا آلہ ایجاد کر لیا۔

خالی جگہوں کو صحیح لفظوں سے بھریے:
 1. ان کے .....اسکول..... الگ ہوتے ہیں۔ (گھر، اسکول، ہاسٹل)
2. کم روشنی میں نہیں ......پڑھنا....چاہیے۔ (سونا، کھانا، پڑھنا)
3 ارے واہ یہ تو بہت .....مزے دار..... بات ہوگی ۔ (خراب ، مزے دار، بیکار)
4. ان سب باتوں کا خیال رکھنے سے تمھاری آنکھیں....محفوظ... رہ سکتی ہیں ۔ (اچھی، محفوظ ، بہتر)

عملی کام:
* بینائی کی حفاظت کس طرح کی جاسکتی ہے ۔ اس پر پانچ جملے لکھیے۔
وٹامن اے کا استعمال کرنا چاہئے۔
بینائی کی حفاظت کے لیے ہمیں ہری سبزیاں زیادہ کھانی چاہئیں۔
 پٹاخوں یا نوکیلی چیزوں سے اپنی آنکھوں کی خاص طور پر حفاظت کرنی چاہیے۔ 
گندگی سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنی آنکھوں کو صاف کرتے رہنا چاہئے۔
ہمیں موبائل اور ٹی وی کا کم سے کم استعمال کرنا چاہیے۔

* اسم کی تعریف آپ کو بتائی جا چکی ہے ۔ اس سبق سے پانچ اسم تلاش کر کے لکھیے ۔
اسلم، چھڑی،بریل،گلی ڈنڈا،آم

کلک برائے دیگر اسباق

Razia Sultan - NCERT Solutions Class 10 Urdu

رضیہ سلطان

Courtesy NCERT
رضیہ سلطان ہندوستان کی پہلی ملکہ تھی جو دلّی کے تخت پر بیٹھی ۔ وہ دہلی کے بادشاہ التتمش کی بیٹی تھی۔ اپنے بہن بھائیوں میں رضیہ سب سے زیادہ ذہین، محنتی اور ہوشیارتھی۔ باپ نے اپنی زندگی ہی میں اسے اپنا جانشین مقرر کر دیا۔ وہ جانتا تھا کہ بیٹے عیش پسند ہیں، بیٹی کے علاوہ کوئی اور حکومت چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس نے اپنے آخری دنوں میں چاندی کے سکّے پر رضیہ کا نام بھی شامل کر لیا تھا۔
التتمش کی وفات کے بعد دربار میں وزیر نے جب بادشاہ کی وصیت پڑھ کر سنائی تو ترک امیروں نے یہ پسند نہیں کیا کہ ایک عورت دلّی کے تخت و تاج کی مالک ہو۔ رضیہ نے یہ دیکھا تو امیروں سے کہا: ”میرے عورت ہونے پر اعتراض ہے تو میں امن کی خاطر اپنے بھائی رکن الدین کا نام پیش کرتی ہوں ۔ آؤ ہم سب مل کر اس سے وفاداری کا عہد کریں۔“
لیکن حکومت ہاتھ آتے ہی رکن الدین عیش و آرام میں پڑ گیا ۔ اس کی ماں ایک حاسد عورت تھی۔ اس نے دوسری بیگمات اور ان کے بچوں کو طرح طرح سے پریشان کیا۔ وہ سوتیلی بیٹی رضیہ کی مقبولیت سے جلنے لگی۔ مگر جلد ہی رکن الدین اپنی عیش پسندی اور اپنی ماں کی زیادتیوں کی وجہ سے اس قدر بدنام ہو گیا کہ دلّی کے لوگوں نے اس کو گرفتار کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔
دلّی کے عوام رضیہ کی خوبیوں اور التتمش کی وصیت سے واقف تھے۔ ان میں ایک بزرگ صوفی کاظم الدین زاہد نے رضیہ کی تخت نشینی کا اعلان کر دیا۔
تخت نشین ہونے پر رضیہ نے عہد کیا کہ ”میں عوام کی بھلائی اور سلطنت کی ترقی کے لیے کام کروں گی۔ میں اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گی جب تک یہ ثابت نہ کر دوں کہ میں مردوں سے کم نہیں ۔“
رضیہ نے تخت نشینی کے بعد نہایت بہادری سے مشکلوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ وہ فوج کی کمان خود سنبھالتی تھی ۔ اس نے بادشاہوں کی طرح ”قبا“ اور” كلاہ“  پہنی۔ اپنے نام کے سکّے جاری کیے۔ سلطنت میں امن قائم کیا، انتظام کو بہتر بنایا اور عوام کی  خوش حالی کا ہر طرح سے خیال رکھا۔ تجارت کو فروغ دیا، سڑکیں بنوائیں، درخت لگوائے اور کنویں کھدوائے۔ اس نے مدرسے اور سرکاری کتب خانے بھی قائم کیے۔ رضیہ سلطان کو خود بھی پڑھنے لکھنے کا شوق تھا۔ وہ اچھی گھوڑ سوارتھی ۔ اور اسے جنگی اسلحوں کے استعمال کا ہنر بھی آتا تھا۔ اس کی حکومت بنگال سے سندھ تک پھیلی ہوئی تھی۔
رضیہ سلطان با قاعده دربار لگاتی تھی۔ اس نے برابری اور بھائی چارے کو عام کیا۔ رضیہ سلطان نے حکومت کے اختیارات کو چالیس امیروں میں بانٹا جن سے وہ ملکی معاملات میں مشورہ کرتی تھی ۔ اس نے ”میرآخور‘‘ کا سب سے بڑا عہدہ ایک حبشی غلام یاقوت کو دیا کیونکہ وہ ایمان دار اور جفاکش تھا۔ یہ اہم عہدہ اب تک صرف ترک امیروں کو ملتا تھا۔ یہ بات ترک امیروں کو پسند نہیں آئی۔ انھوں نے رضیہ کو تخت سے اتارنے کی سازش کی اور بھٹنڈا کے گورنر التونیہ کو بہکا کر بغاوت کروا دی۔ جب وہ بغاوت کو کچلنے کے لیے پنجاب میں بھٹنڈا پہنچی تو اس کے سپاہی طویل سفر اور گرمی سے پریشان ہو چکے تھے۔ اگرچہ دونوں فوجوں میں زبردست مقابلہ ہوا مگر رضیہ کی فوج کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔ وہ قید کر لی گئی۔ ادھر دلّی میں سازشیوں نے رضیہ کے بھائی بہرام کو تخت پر بٹھا دیا اور بڑے بڑے عہدے آپس میں بانٹ لیے۔ بہرام کمزور بادشاہ ثابت ہوا۔ التونیہ کو جب اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اس نے رضیہ سے معافی مانگی اور اپنی وفاداری کا یقین دلایا پھر دونوں کی شادی ہوگئی۔
اب رضیہ اور التونیہ نے دلّی کا تخت واپس لینے کا ارادہ کیا۔ انھوں نے کچھ ترک امیروں اور راجپوتوں کی مدد سے دلّی پر حملہ کیا۔ مخالف امیروں نے سوچا کہ رضیہ دلّی میں بڑی مقبول ہے اگر اس کی فوجیں یہاں پہنچ گئیں تو اس کے مددگار اٹھ کھڑے ہوں گے اس لیے جنگ دلّی سے دور ہونی چاہیے۔ چنانچہ بہرام کی فوج نے رضیہ کو راستے ہی میں روک دیا۔ شاہی فوج تعداد میں زیادہ تھی اور اس کے پاس بہتر ہتھیار بھی تھے۔ گھمسان کی لڑائی ہوئی۔ رضیہ نے بڑی ہمت دکھائی لیکن اسے شکست ہوئی اور اسے قتل کر دیا گیا۔
رضیہ سلطان نے صرف ساڑھے تین سال حکومت کی لیکن اس مختصر مدت میں اس نے  اپنی ہمت ، حوصلے اور حسنِ انتظام   سے ثابت کر دیا کہ وہ اعلیٰ درجے کی حکمراں تھی۔   


مشق
خلاصہ:
رضیہ سلطان ہندوستان کی پہلی خاتون ملکہ تھی جو دہلی کے تخت پر بیٹھی وه بادشاہ التمش کی بیٹی تھی۔ وہ اپنے بھائی بہنوں میں سب سے زیادہ ذہین اور ہوشیار تھی۔ التمش نے رضیہ سلطان کو اپنی زندگی میں ہی اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا۔ التمش کے انتقال کے بعد جب اس کی وصیت پڑھی گئی تو اس میں رضیہ کو بادشاہ بنانے کی بات سامنے آئی ۔ترک امیروں نے اس بات کو پسند نہیں کیا کہ ایک عورت ان کی حاکم بنے۔ جب رضیہ نے سرداروں کی مخالفت دیکھی تو اس نے خود بادشاہ بنےکے بجائے اپنے بھائی رکن الدین التمش کو بادشاہ بنا دیا مگر رکن الدین بادشاہ بنتے ہی عیش و آرام میں ڈوب گیا۔ لیکن جلد ہی سردار اس سے ناراض ہو گئے۔ دلی کے لوگوں نے اسے گرفتار کر کے قتل کر دیا۔ اس کے بعد رضیہ سلطان کی تخت نشینی کی گئی۔ رضیہ نے بادشاہ بنتے ہی نہایت بہادری سے مشکلوں کا مقابلہ کیا۔ وہ فوج کی کمان خود سنبھالتی تھی۔ سلطنت میں امن و امان قائم کیا ۔ انتظام کو بہتر بنایا اور عوام کی خوش حالی کا ہر طرح خیال رکھا۔ اس نے تجارت کو فروغ دیا، سڑکیں تعمیر کرائیں ، درخت لگوائے اور کنوئیں کھدوائے ۔ مدرسے اور کتب خانے قائم کیے۔ رضیہ سلطان کی حکومت بنگال سے سندھ تک جاپہنچی ۔ رضیہ سلطان با قاعده در بار لگاتی تھی ۔ اس نے برابری اور بھائی چارے کو عام کیا۔ اس نے حکومت کے اختیارات کو چالیس امیروں میں تقسیم کیا ۔ اس نے "میرآخور" کا سب سے بڑا عہدہ ایک حبشی غلام یاقوت کو دیا۔ یہ بات ترک سرداروں کو پسند نہیں آئی ۔ انھوں نے بھٹنڈا کے گورنر التونیہ کے ذریعہ رضیہ کے خلاف بغاوت کروادی ۔ رضیہ اورالتو نیہ کی فوجوں میں جنگ ہوئی جس میں رضیہ کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہونا پڑا اور اسے قید کر لیا گیا۔ ادھر دلی میں سازشیوں نے رضیہ کے بھائی بہرام کو تخت پر بٹھا دیا مگر وہ بھی ناکارہ اور کمزور بادشاہ ثابت ہوا۔ ادھر التونیہ نے رضیہ سے معافی مانگ لی اور اس سے شادی کر لی۔ اب رضیہ اور التونیہ نے دلی کا تخت واپس لینے کے لیے دلی کی طرف کوچ کیا مگر بہران کی فوجوں نے اسے راستے ہی میں روک دیا۔ دونوں فوجوں میں جنگ ہوئی ، اس میں رضیہ کو شکست ہوئی اور اسے قتل کردیا گیا۔ رضیہ سلطان نے صرف ساڑھے تین سال حکومت کی مگر اس مختصر مدت میں ہی اس نے اپنی ہمت ، حوصلے اور حسن انتظام سے یہ ثابت کردیا کہ اعلی درجے کی حکمراں تھی۔
معنی یاد کیجیے:
واحد : ایک، اکیلا
وصیت : موت سے پہلے کی جانے والی ہدایت
کلاہ : ٹوپی
محافظ : حفاظت کرنے والا
صلہ : بدلہ ، انعام
جفا کش : محنت کرنے والا
حسن انتظام : اچھا انتظام ، کام کرنے کی خوبی
حکمراں : حاکم، حکومت کرنے والا
عالم : علم والا ، پڑھا لکھا
    
غور کیجیے:
1. رضیہ سلطان ہندوستان کی پہلی خاتون حکمراں تھی۔
 2. رضیہ سلطان نے اپنے کارناموں سے یہ دکھا دیا کہ عورتیں مردوں سے کسی طرح کم نہیں ہوتیں۔

سوچیے اور بتائیے:

1.رضیہ سلطان کی خوبیاں کیا تھیں؟
جواب: رضیہ ذہین، محنتی اور ہوشیار حکمراں تھی۔

2. رکن الدین کس کا بیٹا تھا، اسے کس نے مارا؟
جواب: رکن الدین سلطان التتمش کا بیٹا تھا۔ اس کی نا اہلی سے تنگ آکر دلّی کے لوگوں نے اسے گرفتار کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا۔

3. التتمش کی وصیت کیا تھی؟
جواب: التتمش کی وصیت یہ تھی کہ  رضیہ دلی سلطنت کی اگلی سلطان بنے گی اور حکومت کی باگ ڈور سنبھالے گی۔

4. تخت نشینی کے بعد رضیہ نے کیا عہد کیا؟
جواب: تخت نشینی کے بعد رضیہ نے عہد کیا کہ وہ عوام کی بھلائی اور سلطنت کی ترقی کے لیے کام کرے گی۔ اور وہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گی جب تک  یہ ثابت نہ کردے کہ وہ مردوں سے کم نہیں ۔

5. رضیہ نے میرآخور کا عہدہ کسے دیا؟
جواب: رضیہ سلطان نے میرآخور کا عہدہ ایک حبشی غلام یاقوت کو دیا۔

6. رضیہ کی فوج کا مقابلہ کس سے ہوا تھا؟
جواب: بھٹنڈہ کے گورنر التونیہ نے رضیہ کی حکومت کے خلاف بغاوت کردی تھی جسے ختم کرنے کے لیے رضیہ کی فوج نے بھٹنڈہ کے گورنر التونیہ کی فوج کا مقابلہ کیا۔

7. رضیہ سلطان نے کتنے برس حکومت کی؟
جواب: رضیہ سلطان نے ساڑھے تین برس حکومت کی۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں سے جملے بنائیے: 

ذہن : آج کل ایسا ماحول ہے کے ذہن کو سکون نہیں ملتا۔
وفاداری : کتا اپنی وفاداری کے لیے مشہور ہے۔
عہدہ : رضیہ سلطان نے میرآخور کا عہدہ ایک حبشی غلام یاقوت کو دیا۔
محافظ : ہم سب کا محافظ اللہ ہے۔
محاوروں کو جملوں میں استعمال کیجیے:
میدان چھوڑنا : اکبر کی فوج سے پسپا ہوکر دشمن کی فوج میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوئی۔
ہتھیار ڈالنا : ہندوستانی فوج کے سامنے دشمن نے ہتھیار ڈال دیے۔
موت کے گھاٹ اتارنا : رانا پرتاپ نے دشمن فوج کے متعدد سپاہیوں کو موت کے
 گھاٹ اتار دیا۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں سے مذکرسےمونث اور مونث سے مذکر بنائیے:
ملکہ : بادشاہ
عالم : عالمہ
بہن : بھائی
بیٹی : بیٹا

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کے متضاد لکھیے:
بھلائی : برائی
خوش حالی : بدحالی
امن : بدامنی
شکست : فتح
 خالی جگہوں کو بھریے: 
1. رضیہ سلطان دہلی کے بادشاه .....التتمش.....کی بیٹی تھی۔
 2 رضیہ .....ہندستان.....کی پہلی ملکہ تھی۔
3، رضیہ کے شوہر کا نام ......التونیہ...... تھا۔
4. ترک امیروں نے رضیہ کے بھائی ....بہرام شاہ....کو تخت پر بٹھا دیا۔
5 رضیہ سلطان اعلیٰ درجے کی ....حکمراں..... تھی۔

عملی کام:
 * بلند آواز سے پڑھیے۔
رضیہ سلطان
حبشی غلام
حسن انتظام
یاقوت
وصیت
التونیہ

ازراہ مزاق: 
امتحان میں اساتذہ کو بعض اوقات بڑے دلچسپ جوابات پڑھنے کو ملتے ہیں۔ اس مضمون میں ایک سوال ہے کہ ”رکن الدین کس کا بیٹا تھا، اسے کس نے مارا؟ ایک طالب علم جو گانوں کا شوقین تھا اُس نے جواب میں لکھا:
رکن الدین سلطان التتمش کا بیٹا تھا  اور
کس کس کا نام لوں میں
 اُسے ہر کسی نے مارا


کلک برائے دیگر اسباق

Tuesday 13 August 2019

Khuda ke naam khat ۔ NCERT Solutios Class X Urdu


خدا کے نام خط

اس وادی کا اکلوتا مکان ایک چھوٹی سی چٹان کے اوپر بنا ہوا تھا۔ وہاں کھڑے ہوکر بہتے ہوئے دریا، مٹر اور چنے کے کھیتوں کو به خوبی دیکھا جا سکتا تھا۔ یہ کھیت بڑی عمدہ فصل دیتے تھے ۔ اور انھیں جس چیز کی بے حد ضرورت تھی وہ بارش تھی۔
ین شو اپنی زمین اور کھیتوں کے چپّےچپّے سے واقف تھا۔ وہ آج صبح سے بار بار آسمان دیکھے جا رہا تھا ۔ اس نے تشویش ناک لہجے میں کہا:
”بی بی! میرا قیاس ہے کہ آج بارش ہوگی۔“
 بی بی نے جو اس وقت کھانا تیار کر رہی تھی ، یہ سن کر جواب دیا:
”ہاں، آج کسی بھی وقت بارش ہوسکتی ہے اگر رب چاہے تو..........“
اس وقت بڑی عمر کے لڑ کے کھیتوں میں کام کررہے تھے اور چھوٹے بچے مکان کے نزدیک کھیل رہے تھے ۔ تھوڑی دیر بعد بی بی نے انھیں آواز دی:
”آجاؤ ، سب آجاؤ ، کھانا تیار ہے۔“
جب سب مل کر کھانا کھارہے تھے تو جیسا کہ لین شونے قیاس آرائی کی تھی، بارش ہونے لگی۔ بارش کے شفاف قطرے زمین پر برس رہے تھے اور آسمان پرشمال کی جانب سے بادلوں کے پہاڑ چلے آرہے تھے۔ ہوا بھی تیز تھی ۔ لین شو باہر کھیتوں میں نکل گیا۔ اس کا مقصد اس کے سوا کچھ اور نہ تھا کہ بارش سے پیدا ہونے والی ترنگ کو اپنے تن من میں رواں دواں دیکھے۔ جب وہ گھر میں واپس آیا تو جذباتی اور جوشیلی آواز میں بولا:
” جو کچھ اس وقت آسمان سے برس رہا ہے وہ بارش کے قطرے نہیں بلکہ سکّے ہیں، بڑے اور چھوٹے ‘‘
پھر اس نے بڑے اطمینان سے یہ بھی کہا کہ غلّے کے کھیت اور مٹر کے نئے نئے کھلے ہوئے پھول بارش کی چادریں اوڑھ کر بہت خوش ہیں۔ ابھی اس نے یہ کہا ہی تھا کہ یک بارگی تند و تیز آندھی اُٹھی پھر بارش کے ساتھ ژالہ باری ہونے لگی۔ اولے واقعی چاندی کے گول گول ڈلوں سے مشابہ تھے۔ بچوں نے یہ دیکھا تو لپک کر اندر سے باہر آگئے اور انھیں چنے میں جٹ گئے ۔ بچے خوش تھے لیکن ان کا باپ فکر مند ہوکر خود سے کہنے لگا ”اب تو معاملہ بگڑنے لگا ہے، لیکن پھر بھی مجھے امید ہے کہ سب کچھ بہت جلد ٹھیک ہوجائے گا۔“
لیکن سب کچھ ٹھیک نہیں ہوا اور بہت دیر تک اولے گرتے رہے ۔ زمین ایسے سفید ہوگئی ، جیسے اس پر نمک کی چادر بچھادی گئی ہو ۔ درختوں پر ایک پتہ بھی نہ رہا۔ غلّے کے کھیتوں کا ستیاناس ہو گیا، مٹر کی بیلیں اور پودوں کے تازہ پھول ٹوٹ کر بکھر گئے۔ لین شو پریشان ہو گیا۔ اس نے اپنے بیٹوں سے کہا:
”اگر ان کھیتوں پر ٹڈی دل نے حملہ کیا ہوتا تو بھی ہمارے پاس اس سے زیادہ بچ رہا ہوتا لیکن اس ژالہ باری نے تو ہمیں مفلس اور قلاش بنا دیا ہے۔ اب ہمارے پاس نہ غلہ ہے اور نہ سبزی ہے۔ اس سال تو میں فاقے پر فاقے کرنا ہوں گے۔“
وہ تمام لوگ جو وادی کے اس اکلوتے مکان میں رہتے تھے اپنے دلوں میں ایک ناقابلِ شکست امید لیے بیٹھے تھے اور ایک اَن دیکھی قوت پر تکیہ کیے ہوئے تھے۔ وہ اپنے آپ سے کہہ رہا تھا:
”دل چھوٹا مت کرو، ہمت مت ہارو“
”اس میں کوئی شک نہیں کہ سب کچھ تباہ ہوگیا ہے۔ لیکن یاد رکھو کہ بھوک سے کوئی نہیں مرتا‘‘
لین شو کے تمام خیالات اپنی آخری امید یعنی آسمانی امداد کے گِرد گھومتے رہے۔ اس کو بچپن ہی سے تعلیم دی گئی تھی کہ سب کا پالن ہار بڑا رحیم اور کریم ہے۔ انسان کے دل کی گہرائیوں کی بات جانتا ہے۔
لین شو اپنے کھیتوں میں بیل کی طرح کام کرتا تھا۔ وہ کچھ لکھنا پڑھنا بھی جانتا تھا۔ آئنده اتوار تک اس نے اپنے آپ کواس بات کا یہ پختہ یقین دلا دیا کہ ایک ان دیکھی محافظ ہستی موجود ہے۔ اس یقین کے بعد اس نے خدا کے نام ایک خط لکھنا شروع کیا۔
”یاربّی !“
اگر تو نے میری مد د نہیں کی تو میں اور میرا کنبہ اس سال فاقوں کا شکار ہو جائیں گے۔ اس وقت ایک سو روپیوں کی اشد ضرورت ہے تا کہ میں کھیتوں کی حالت دوبارہ ٹھیک کر سکوں اور ان میں بوائی کرسکوں اور نئی فصل کی کٹائی تک زندہ بھی رہ سکوں کیوں کہ ژالہ باری نے ساری فصل تباہ کر دی ہے۔“
الفانے پر پتے کی جگہ اس نے یہ الفاظ لکھے:
 ”یہ خط خدا کو ملے“
اس کے بعد اس نے لفافے کو بند کیا اور غمگین دل کے ساتھ شہر کی طرف چل دیا۔ ڈاک خانے پہنچ کر اس نے ٹکٹ خریدے، لفافے پر چپکائے اورلفافہ سپرد ڈاک کردیا۔
اس ڈاک خانے کے ایک ڈاکیے نے جو خطوں کی تقسیم کے ساتھ ان کی چھٹائی کا کام کیا کرتا تھا، ہنستے ہوئے یہ لفافہ اپنے افسر کو پیش کردیا۔ اپنی ساری ملازمت کے دوران اس نے اس پتے پر کبھی ڈاک نہیں پہنچائی تھی۔ پوسٹ ماسٹر ایک خوش مزاج اور دردمند دل کا آدمی تھا وہ بھی اس لفافے کو دیکھ کر بے اختیار ہنسنے لگا لیکن قہقہوں کے درمیان وہ یک بارگی ، خاموش اور سنجیدہ ہو گیا ۔ اس نے لفافہ میز پر رکھ دیا اور کہنے لگا:
”واہ، واہ! کیا پختہ ایمان ہے ، کاش مجھے بھی ایسا ایمان نصیب ہوتا اور میں بھی ایسے ہی یقین کا حامل ہوتا ۔ کیا بات لکھنے والے کی جس نے ایک پختہ امید پر خدا سے خط و کتابت شروع کردی ، واہ، وا“
پھر اس نے سوچا ایسے پختہ ایمان اور امید کو پاش پاش کرنا اچھا نہیں ۔ اس نے اپنے ماتحتوں کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ خط پڑھا جائے اور اس کا جواب دیا جائے۔ جب لفافہ چاک کیا اور خط پڑھا تب اندازہ ہوا کہ اس خط کا جواب کاغذ، قلم، دوات، روشنائی، دردمندی اور نیک دلی سے کچھ زیادہ کا طلب گار ہے۔ اس نے اپنے ماتحتوں کو ساری بات بتا کر چندے کی درخواست کی اور خود بھی ایک اچھی خاصی رقم پیش کی ۔ اس کے عملے نے اس کارِ خیر میں حسب توفیق ہاتھ بٹایا۔
لین شونے جس قدر رقم طلب کی تھی اتنی تو جمع نہ ہوسکی پھر بھی اس کے نصف سے کچھ زیادہ کا انتظام ہو گیا۔ پوسٹ ماسٹر نے تمام نوٹ ایک لفافے میں بند کیے پھر اس پر لین شو کا پتہ تحریر کیا اور ایک چٹھی لکھ کر لفافے میں رکھ دی جس پر دستخط کے طور پر صرف اتنا لکھا تھا۔
”خدا“
اگلے اتوار کو پھر لین شو ڈاک خانے میں آیا اور پوچھا کہ کیا اس کے نام کوئی خط آیا ہے؟ پوسٹ ماسٹر نے لین شو کا خط اس کے حوالے کیا اور اس کار خیر کے انجام دینے پر ایک طرح کی خوشی محسوس کی۔ اس کے بعد وہ دروازے کی دراز سے لین شوکی کیفیات دیکھنے لگا۔ اس نے دیکھا کہ نوٹ پا کر لین شو کو کوئی حیرت نہیں ہوئی ہے۔ اس کو تو جیسے اس بات کا پختہ یقین تھا کہ یہ رقم تو اس کو ملنے ہی والی ہے ۔ پھر جب اس نے رقم گن لی تو بگڑ گیا اور بڑ بڑانے لگا۔
”خدا نے تو ہرگز ایسی غلطی نہیں کی ہوگی اور نہ اس کے پاس اس چیز کی کمی ہے جو میں نے اس سے خط کے ذریعے طلب کی تھی۔ وہ تو اس سے بھی زیادہ دے سکتا ہے۔“
پھر کچھ سوچ کر ڈاک خانے کی کھڑکی پر گیا ، کاغذ قلم طلب کیا اور پھر خط لکھنے بیٹھ گیا۔ اس کی پیشانی پر ابھرنے والی لکیریں بتا رہی تھیں کہ وہ جملے بنانے کے لیے اپنے ذہن کو بری طرح ٹٹول رہا ہے۔ اس کیفیت میں اس نے خط بہ مشکل پورا کیا اور اچھی طرح دیکھ بھال کے اسے لفافے میں بند کیا پھر ٹکٹ خریدا اور اس کو ایک زور دار مکے کے ساتھ بند کر دیا۔
پھر جیسے ہی خط لیٹربکس میں گرا تو ڈاکیے نے فوراً ہی اسے نکال لیا۔ خط پڑھا گیا، اس میں لکھا تھا۔ ”یاربّی !‘‘ جو رقم میں نے طلب کی تھی، اس میں سے مجھے صرف ستر روپے ہی ملے ہیں ۔ باقی رقم بھی فوراً ارسال کریں۔ مجھے اس کی شدید ترین ضرورت ہے۔ لیکن اب باقی رقم ڈاک کے ذریعے ہرگز نہ بھیجیں کیونکہ اس ڈاک خانے کے ملازمین بے ایمان اور بد دیانت ہیں۔“
(گریگور پولو پینز فوآنتے)
لوک کہانی
یہ سبق اسپینی زبان کی ایک لوک کہانی پرمشتمل ہے۔ لوک کہانی کسی معاشرے کے افراد میں سنی سنائی جانے والی ایسی کہانی ہوتی ہے جس میں فطرت، انسان اور ماحول کی دوسری تفصیلات کے متعلق روایتوں کو اخلاقی تعلیم وتربیت کی خاطر کہانی کے روپ میں بیان کیا جاتا ہے۔
اس کہانی میں خدا پر ایک کسان کے پختہ یقین کو اس ڈھنگ  سے  پیش کیا گیا ہے کہ اس سے باہمی ہمدردی اور انسان دوستی کی تصویر کشی ہوجاتی ہے۔


خلاصہ:
وادی کا اکلوتا مکان ایک چٹان کے اوپر بنا ہوا تھا۔ وہاں کھڑے ہو کر بہتے ہوئے دریا مٹر اور چنے کے کھیتوں کو بخوبی دیکھا جا سکتا تھا۔ یہ کھیت عمدہ فصل د یتے تھے اور فصل کے لئے ہمیشہ بارش کی ضرورت ہوتی تھی ۔ اس مکان میں کھیتوں کا مالک اور کسان اپنی بیوی بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ آج صبح بار بار آسمان کو دیکھے جارہا تھا۔ اس نے آسمان دیکھ کر اپنی بیوی سے کہا آج بارش ہوسکتی ہے۔ اس وقت بڑی عمر کے لڑ کے کھیتوں میں کام کررہے تھے اور چھوٹے بچے مکان کے نزدیک کھیل رہے تھے۔ بیوی کھانا پکا رہی تھی ۔ کھانا تیار ہو گیا تو سب مل کر کھانے لگے۔ کھانا کھانےکے دوران بارش شروع ہوگئی ۔ بارش ہونے پر لین شو کھیت دیکھنے چلا گیا۔ کچھ دیر بعد واپس آیا اور بڑے جذباتی اور جوشیلی آواز میں بولا ، جو کچھ اس وقت آسمان سے برس رہا ہے وہ بارش کے قطرے نہیں بلکہ سکے ہیں چھوٹے بڑے۔ ابھی اس نے اتنا کہا ہی تھا کہ ایک بارگی تند و تیز آندھی آئی اور پھر بارش کے ساتھ ژالہ باری ہونے لگی۔ بچے اولے دیکھ کر خوش تھے لیکن باپ فکر مند تھا کہ اولے گرنے سے فصل تباہ ہو جائے گی۔ اس روز اس قدرژالہ باری ہوئی کہ ساری فصل کا ستیاناس ہو گیا ۔ لین شو نے پریشان ہو کر بیٹوں سے کہا ”اس ژالہ باری نے تو ہمیں مفلس اور قلاش بنا دیا ہے۔ اس سال تو ہمیں فاقے پہ فاقے کرنے ہوں گے" ۔ حالات سے پریشان ہو کر اس نے خدا کے نام ایک خط لکھا اور پوسٹ کر دیا۔ ڈاک خانے میں جب یہ خط پہنچا تو ڈاکیے نے پوسٹ ماسٹر کو دیا کہ اپنی ساری ملازمت کے دوران اس نے اس پتے پر کبھی ڈاک نہیں پہنچائی ۔ پوسٹ ماسٹر نے خط لیا اور کھول کر دیکھا اور پڑھ کر کہا کہ اس شخص کا کتنا پختہ ایمان ہے کہ خدا اس بری حالت میں ضرور مدد کرے گا۔ چنانچہ اس نے لین شوکی مدد کرنے کے لئے اپنے ماتحتوں سے چندہ کیا اور ایک لفافے میں یک رقم رکھ کر اس کے ساتھ ایک چٹھی بھی رکھ دی۔ خط ختم کرنے پر دستخط کی جگہ ”خدا“ لکھ دیا۔ ایک ہفتے بعد اتوار کو لین شو ڈاکخانے پہنچا اور اپنے نام خط دیکھ کر اسے کھولا ۔ لفافے میں رکھی رقم گن کر وہ بڑبڑانے لگا۔ خدا تو نے ہرگز ایسی غلطی نہیں کی ۔ پھر اس نے ایک اور خط لکھا۔ لیٹربکس میں ڈال دیا۔ اس کے جانے کے بعد ڈاکیے نے خط نکالا۔ اس میں لکھا تھا یار بی ! جتنی رقم میں نے طلب کی تھی اس میں سے صرف 70 روپے ملے ہیں۔ باقی رقم بھی ارسال کر دیں مگر ڈاک کے ذریعے نہیں ۔ ڈاکخانے کے ملازمین بے ایمان اور بددیانت ہیں۔
مشق
معنی یاد کیجیے:
قياس : اندازہ
شُدبُد : سمجھ
شفاف : صاف
ترنگ : جوش، خوشی
قلّاش : غربت
پاش پاش کرنا : ٹکڑے ٹکڑے کرنا
کارخیر : نیک کام
بددیانت : بے ایمان

غور کیجیے:
نقصان ہوجانے کے باوجود انسان کو ہمت نہیں ہارنا چاہیے اور نہ ہی نا امید ہونا چاہیے۔

سوچیے اور بتائیے:
1. لین شو نے  بی بی سے کیا قیاس آرائی کی؟
جواب: لین شو کا پہلے سے ہی قیاس تھا کہ آج بارش ہوگی۔

2.  لین شو بارش میں کھیتوں کی طرف کیوں گیا؟
جواب: اس کا مقصد تھا کہ بارش سے پیدا ہونے والی ترنگ اپنے من تن میں رواں دواں دیکھے۔

3.   ژالا باری سے کیا نقصانات ہوئے؟
جواب: ژالا باری سے درختوں پر ایک پتّہ نہ رہا غلّے کے کھیتوں کا ستیاناس ہوگیا مٹر کی بیلیں، پودے اور تازہ پھول تک جل گئے۔

4.  لین شو نے خدا کے نام خط میں کیا لکھا؟
جواب: لین شو نے  خدا کے نام خط میں لکھا کہ  یا ربّی اگر تونے میری مدد نہیں کی تو میں اور میرا کنبہ اس سال فاقوں کے شکار ہو جائیں گے۔ اس نے خدا کو لکھا کہ  اس وقت اسے ایک سو روپوں کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے کھیتوں کی حالت دوبارہ ٹھیک کر سکے اور ان میں بوائی کر سکے اور  فصل کی کٹائی تک زندہ بھی رہ سکے کیونکہ ژالا باری نے ساری فصل تباہ کر دی ہے۔

5.   لین شو نے لفافے پر کیا پتہ لکھا؟
جواب:  لفافے پر پتہ لکھنے کی جگہ اُس نے لکھا کہ یہ خط خدا کو ملے۔

 6.  پوسٹ ماسٹر نے لین شو کا خط پڑھنے کے بعد کیا کیا؟
جواب: پوسٹ ماسٹر نے اپنے ماتحتوں سے لین شو کی مدد کے لیے چندے اکٹھا کرنے کو کہا اور خود بھی ایک بڑی رقم چندے میں دی۔

7.  لین شو نے پہلے خط کا جواب ملنے کے بعد دوسرے خط میں خدا کو کیا لکھا؟
جواب: دوسرے خط میں لین شو نے لکھا کہ یا ربّی! جو رقم میں نے طلب کی تھی  اُس میں سے مجھے صرف ستتر روپیے ہی ملے ہیں باقی رقم بھی فوراً ارسال کریں مجھے اس کی شدید ترین ضرورت ہے  لیکن اب باقی رقم ہرگز  ڈاک کے ذریعے نہ بھیجیں کیونکہ اس ڈاک خانے کے ملازمین بے ایمان اور بد دیانت ہیں۔

لکھے ہوئے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے:

لفظ
:
معنی
:
جملہ
اکلوتا : اکیلا : یوسف اپنے مان باپ کا اکلوتا بیٹا ہے۔
ملازمین : خدمت گزار : لین شو کے ڈاک خانے کے ملازمین بہت بے ایمان تھے۔
نیک دلی : سچّے دل سے : اللہ ہمیں ہماری نیک دلی کا پورا اجر دیتا ہے۔
پختہ یقین : مکمل یقین : لین شو کو اپنے خدا پر پختہ یقین تھا۔
تکیا کرنا : دوسروں پر منحصر ہونا : لین شو نے دوسروں پر تکیا کرنا چھوڑ دیا۔
۔
ان لفظوں کے متضاد لکھیے:
شہر : گاؤں
موجود : غیرحاضر
پختہ : کچّا
شکست : فتح
تیز : آہستہ
نزدیک : دُور

واحد اورجمع:
خط : خطوط
افسر : افسران
سبزی : سبزیاں
روح : ارواح
چادر : چادریں
مکان : مکانات

عملی کام:
 * خدا کے نام لکھے گئے لین شو کے خطوں کو اپنے الفاظ میں لکھیے۔


کلک برائے دیگر اسباق

خوش خبری