آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Wednesday 14 August 2019

Kaath Ka Ghoda--NCERT Solution Class 10 Urdu

کاٹھ کا گھوڑا
رتن سنگھ

Courtesy NCERT
اس وقت بُندو کا ٹھیلہ تو ٹھیلہ خود بندو ایسا بے جان کاٹھ کا گھوڑا بن کر رہ گیا ہے جو اپنے آپ نہ ہل سکتا ہے نہ ڈُل سکتا ہے، نہ آگے بڑھ سکتا ہے۔
اسی لیے ، بندو کی ہی وجہ سے اندھیر دیو کےتنگ بازار میں راستہ قریب قریب بند ہو کر رہ گیا ہے۔ ضرورت سے زیادہ بوجھ سے لدا ہوا بندو کا ٹھیلہ سڑک پر چڑھائی ہونے کی وجہ سے رُک سا گیا ہے۔ رہ رہ کر اگر چلتا بھی ہے تو جوں کی رفتار سے رینگتا ہے اور پھر کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس کے پیچھے کاریں، ٹرک، بسیں ، موٹر سائیکل ، اسکوٹر غرض یہ کہ سبھی تیز رفتار گاڑیوں کی لمبی قطار ٹھہرسی گئی ہے اور انہی کے بیچ میں تانگے اور رکشے بھی پھنسے ہوئے ہیں۔
ان گاڑیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں وزیر، ملک کے بڑے بڑے کارخانے دار، کاروباری سیٹھ ، دفتروں کے افسر، دوکاندار، اور وردیوں والے فوجی اور پولس والے، سفید کالروں والے بابو، عام آدمی ، سودا سلف خریدنے کے لیے گھروں سے نکلی عورتیں، اسکولوں اور کالجوں کے بچّے ، ڈاکٹر، نرس، انجینئر سبھی کے سبھی ٹھہر گئے ہیں۔ لگتا ہے جیسے بندو کی سست رفتار کی وجہ سے سارے شهر، بلکہ ایک طرح سے کہا جائے تو سارے ملک، ساری دنیا کی رفتار دھیمی پڑ گئی ہے۔
یوں تو وزیر اپنی کار میں بیٹھا کچھ لوگوں سے گفتگو کر رہا ہے۔ لیکن بے چینی سے بار بار گھٹری دیکھ رہا ہے۔ کیوں کہ کسی غیرملکی وفد سے ملنے کا وقت قریب آرہا ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ آگے سے راستہ اس طرح بند کیوں ہو گیا ہے۔ اس کا ڈرائیور گھبرایا ہوا بار بار کار سے اترتا ہے، کچھ دور جا کر دیکھ کر آتا ہے ۔ اور پھر مایوس ہوکر گاڑی میں بیٹھ کر انتظار کرنے لگتا ہے ۔ وہ لوگ جو کار میں بیٹھے وزیر سے باتیں کر رہے ہیں، دل ہی دل میں خوش ہیں کہ راستہ بند ہونے کی وجہ سے کار کھڑی ہے اور انھیں وزیر کے سامنے اپنی بات رکھنے کا پورا پورا موقع مل رہا ہے ۔ کارخانے دار اور کاروباری سیٹھ البتّہ کاروں کی گدّیوں پر بیٹھے بے چین ہورہے ہیں ۔ ان کے لیے ہر گذرے ہوئے پل کے معنی ہیں لاکھوں کا گھاٹا۔
ریلوے کا ایک ڈرائیور بار بار اپنی سائیکل کا اگلا پہیہ اٹھا اٹھا کر پٹک رہا ہے۔ پریشانی کی وجہ سے اس کے ماتھے پر پسینہ آرہا ہے، کیوں کہ جس گاڑی کو لے کر اسے جانا ہے، اس کے جانے کا وقت ہو چکا ہے اور وہ یہاں راستے میں قید ہوکر رہ گیا ہے۔
اسکولوں اور کالجوں کے زیادہ تر بچّے خوش ہیں ۔ جتنے پیریڈ نکل جائیں اتنا ہی اچھا ہے لیکن کچھ ایک کو افسوس بھی ہے کہ ان کی پڑھائی پیچھے رہ جائے گی۔
اسی طرح سر پر لوہے کی ٹوپی پہنے ہوئے فوجی بار بار موٹر سائیکل کا ہارن بجارہا ہے لیکن آگے نہیں بڑھ پا رہا ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ اگر دفتر پہنچنے میں دیر ہوگئی تو اس کا کمانڈنٹ آفیسر چالیس کلو کا وزن پیٹھ پر لدوا کر دس کلو میٹر کا روڈ مارچ کروادے گا۔
لیکن بُندوان سب سے بے خبر ہے۔ بے نیاز ہے۔
آج اس سے ٹھیلہ کھنچ بھی نہیں پا رہا۔ ایک تو سیٹھ کے بچے نے زیادہ بوجھ لاد دیا ہے دوسرے اس کے ٹھیلے کا دھُرا جام ہورہا ہے۔ تیسرے یہ کہ چڑھائی کا راستہ ہے اور چوتھے یہ کہ اس کا من ہی نہیں ہورہا ہے ٹھیلہ کھینچنے کا۔ وہی کاٹھ کے گھوڑے والی بات ہورہی ہے جواپنے آپ سرک نہیں سکتا۔ جب بھی اس کا من اداس ہوتا ہے تو اس کی کیفیت اس کا ٹھ کے گھوڑے جیسی ہو جاتی ہے جسے وہ بچپن میں ایک میلے سے خرید کر بڑا دکھی ہوا تھا۔
کاٹھ کا رنگین گھوڑا لے کر جب وہ بڑے فخر سے گلی کے بچوں کے بیچ گیا تو اس نے دیکھا کہ کسی کے پاس چابھی والی موٹر تھی جو گھوں گھوں کرتی ہوئی تیز بھاگتی تھی اور کسی کے پاس ریل گاڑی تھی ، انجن سمیت اپنے آپ چلنے والی گاڑی ۔ جس کے پاس ایسے دوڑنے والے کھلونے نہیں تھے، ان کے پاس رسّی کے سہارے گھومنے والے رنگین لٹّو تھے۔ تیزی سے گھومتے ہوئے وہ ایسے لگتے تھے جیسے وہ سارے میدان کو اپنے گھیرے میں لے رہے ہوں ۔ ان کھلونوں کے سامنے اس کا کاٹھ کا گھوڑا سا کت بے جان تھا۔ ویسے بچوں کے سامنے کھیلتے ہوئے اس نے بھی اپنے گھوڑے کو ٹانگوں کے بیچ پھنسا کر دوڑ نے کا سوانگ کیا تھا لیکن دل ہی دل میں وہ جانتا تھا کہ اس کا کھلونا دوسروں کے کھلونے کے سامنے بے کار اور بے معنی ہے ۔ اسی لیے گھر آ کر اس نے کاٹھ کے گھوڑے کو چولہے کی آگ میں جھونک دیا تھا۔ لیکن جلنے کے با وجود جیسے وہ بے جان کاٹھ کا گھوڑا اس کی شخصیت کے ساتھ چپک کر رہ گیا تھا۔ کیونکہ ہوا یہ کہ گلی کے ہی بچّے جو اس کے ساتھ کھیلا کرتے تھے ان میں سے کوئی پڑھ لکھ کر منیم بن گیا تھا تو کوئی وکیل ۔ کوئی اسکول کا ماسٹر ہوگیا تھا تو کوئی بڑا افسر اور اس کے برعکس بندو وہی کاٹھ کا گھوڑا ہی رہ گیا۔ باپ ٹھیلا چلاتا تھا تو وہ بھی ٹھیلہ ہی کھینچ رہا ہے۔
وہ اکثر سوچتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ کیسے ہوا کہ ایک ہی گلی میں رہتے ہوئے باقی لوگ آگے بڑھ گئے اور وہ پیچھے رہ گیا۔ ایسا کیوں کر ہوگیا ؟ لیکن وہ سوچے بھی تو کیا؟ کاٹھ کا گھوڑا بھلا سوچ ہی کیا سکتا ہے؟
لیکن آج وہی کاٹھ کا گھوڑا یہی سوچ کر اداس ہورہا ہے کہ اس کے آٹھ نو سال کے لڑ کے چندو نے محض اس لیے اسکول جانا بند کردیا ہے کہ وہ اس کے لیے ضرورت کی چیزیں جُٹا نہیں پاتا۔”جب میں اپنی زندگی کی گاڑی ٹھیک سے نہیں کھینچ پاتا تو پھر اس ٹھیلے کے بوجھ کو کیوں کھینچوں؟“ بندو سوچ رہا ہے۔
اس کے دل نے کہا کہ ٹھیلہ جو پہلے ہی سرک نہیں پا رہا ہے اسے چھوڑ چھاڑ کر الگ کھڑا ہو جاؤں ۔ اس کی ہمت پہلے ہی جواب دے رہی ہے ۔ رہ رہ کر اس کے دل میں خیال اٹھ رہے ہیں کہ ایک دن اس کے چندو کو بھی اسی طرح ٹھیلے کے بوجھ کو سینچنا پڑے گا۔ اور اس خیال کے ساتھ اسے اپنی جان ٹوٹتی ہوئی سی محسوس ہو رہی ہے اور اس کے لیے ایک ایک قدم اٹھانا بھی دشوار ہورہا ہے۔
لیکن اس کے پیچھے جو لوگ کھڑے ہیں وہ اتاولے ہورہے ہیں۔ بار بار ہارن بجا کر اپنے غصّے کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک اس کے پاس آیا اور بولا ”بھیا جلدی کرو۔ تمھارے پچھے پوری دنیا رکی پڑی ہے۔“ اٹکی پڑی ہے۔ ”اٹکی ہے تو اٹکی رہے ۔“ بندو جھنجھلا کر بولا۔”جو لوگ تیز جانا چاہتے ہیں ان سے کہو کہ میرے پیروں میں بھی پہیے لگوادیں ۔‘‘
”بات تو ٹھیک کہتا ہے۔“ کسی نے کہا ”یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ اتنے تیز ہو جائیں کہ وہ ہوا سے باتیں کرنے لگیں اور کچھ کو اتنا مجبور کردیا جائے کہ ان کے لیے ایک قدم اٹھانا بھی دشوار ہو جائے۔“
یہ سب باتیں گاڑیوں کے ہارن کی آوازوں اور لوگوں کے شور میں دبی جا رہی ہیں۔
کاٹھ کے گھوڑے میں قدم اٹھانے کی ہمت نہیں ۔ وہ آگے نہیں بڑھ پا رہا ۔ اور اس کے پیچھے بھیڑ میں وہ وزیررکا ہوا ہے جسے کسی غیر ملکی وفد سے وقت مقررہ پر بات کرنا ہے، وہ ڈرائیور اٹکا ہوا ہے، جسے ملک کے کسی دوسرے شہر کی طرف ریل گاڑی لے کر جانا ہے، اسکول کے وہ پچّے رکے ہوئے ہیں جوکل کے مالک ہوں گے ۔ ڈاکٹر، نرس، انجینئر سب کے قدم بندھ کر رہ گئے ہیں۔
اور بُندو کاٹھ کا گھوڑا اندھیر دیو کے بازار میں اپنے ٹھیلے کے ساتھ کھڑا ہوگیا ہے۔ اس کے پاؤں میں حرکت آئے تو زندگی آگے بڑھے۔
رتن سنگھ
رتن سنگھ قصبہ داؤد، تحصیل نارووال ضلع سیالکوٹ میں 1927ء میں پیدا ہوئے۔ ایک مقامی اسکول میں میٹرک تک تعلیم پائی تقسیمِ وطن کے بعد ہندوستان چلے آئے ۔ 1962 میں آل انڈیا ریڈیو میں پروگرام ایکزیکیٹو کی حیثیت سے منسلک ہوئے۔ اپنی ملازمت کے دوران انھوں نے جالندھر، بھوپال، لکھنؤ ، جبل پور اور سری نگر وغیرہ شہروں میں قیام کیا۔
انھیں شروع سے افسانہ نگاری کا شوق تھا۔ طالب علمی کے دور میں کہانیاں لکھنے لگے۔ بطور افسانہ نگار ان کا نام بہت جلد مشہور ہوگیا۔ ’پہلی آواز‘ ، ’پنجرے کا آدمی‘، ’کاٹھ کا گھوڑا‘ اور ’پناہ گاہ‘ ان کے افسانوی مجموعے ہیں ۔ ان کے دو ناولٹ ’در بدری‘ اور ’اڑن کھٹولہ‘ اور ایک طویل سوانحی نظم ’ہڈ بیتی‘ اردو اور پنجابی میں شائع ہوچکی ہے۔ وہ مترجم کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں۔


مشق
خلاصہ:
اس وقت بندو خاں بے جان ہورہا تھا۔ وہ ہل جل بھی نہیں سکتا تھا۔ بندو کے ٹھیلے کی وجہ سے اندھیر دیو کے تنگ بازار میں راستہ تقریباً بند ہو کر رہ گیا۔ بندو کے ٹھیلے کے پیچھے کاریں ، ٹرک ، بسیں، موٹر سائیکلیں، اسکوٹر وغیرہ کی ایک لمبی قطار لگ گئی۔ ان ہی کے درمیان تانگے اور رکشے بھی پھنسے ہوئے تھے۔ ان گاڑیوں میں بڑے بڑے امیر کبیر لوگ کارخانے دار، کاروباری سیٹھ ، دفتروں کے افسران، دکان دار ، فوجی اور پولیس والے، بابو، عام آدمی ، گھر کا سامان خریدنے والی عورتیں، اسکول اور کالج کے بچے، ڈاکٹر، نرس، انجینئر سب رک گئے تھے۔ یوں تو وزیر اپنی گاڑی میں بیٹھا باتیں کر رہا تھامگر بار بار گھڑی بھی دیکھتا جاتا تھا۔ اس کا غیرملکی وفد سے ملنے کا وقت قریب آتا جارہا تھا۔ اس کا ڈرائیور بھی خاصا پریشان ہورہا تھا۔ جولوگ وزیر سے باتیں کررہے تھے وہ خوش تھے کہ انھیں وزیر سے اتنی دیر بات کرنے اور اپنے مسئلہ رکھنے کا پورا موقعہ مل گیا تھا۔ ادھر کارخانے دار اور کاروباری سیٹھ بھی بار بار اپنی کاروں کی گدیوں پر پہلو بدل رہے تھے۔ ان کی نگاہوں میں لاکھوں کا گھاٹا گھوم رہا تھا۔ ریلوے ڈرائیور بھی خاصا پریشان تھا، وہ اپنی سائیکل کا اگلا پہیہ اٹھا اٹھا کر پٹخ رہا تھا۔ اسے گاڑی لے کر جانا تھا، اور وہ لیٹ ہو گیا تھا۔ ادھر ایک فوجی بار بار اپنی موٹر سائیکل کا ہارن بجارہا تھا، اسے ڈر تھا کہ لیٹ ہونے پر کمانڈ ینٹ آفیسر بھاری وزن لدوا کر روڈ مارچ کروادے گا۔ لیکن بندو ان سب باتوں سے بے نیاز تھا۔ آج اس میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ ٹھیلے کو آگے بڑھا سکے۔ اسے بچپن میں خریدا ہوا کاٹھ کا گھوڑا یاد آ رہا تھا۔ جو دوسرے بچوں کے کھلونوں کے سامنے بالکل حقیر سا تھا۔ اس کے ساتھ کے ساتھی کہاں سے کہاں پہنچ گئے لیکن قسمت نے اسے بھی کاٹھ کا گھوڑا ہی بنا ڈالا۔ بے بس لاچار بندو ٹھیلے والا ۔ وہ اپنے بیٹے چند کو پڑھا بھی نہ سکا۔ اس کے دل میں آیا کہ یہ ڈھیلا پہلے ہی سرک نہیں رہا تھا، کیوں نہ اسے چھوڑ کر الگ کھڑا ہو جائے ۔ رہ کر اس کے دل میں خیال اٹھ رہے تھے کہ ایک دن چندو کو بھی یہی سب کچھ کرنا پڑے گا۔ اس کے لیے ایک ایک قدم بڑھانا بھی دشوار ہورہا تھا۔ لیکن اس کے پیچھے جولوگ جام میں پھنسے تھے، بار بار ہارن بجا کر اپنے غصےکا اظہار کر رہے تھے۔ لیکن بندو ایک جگہ کھڑا تھا۔ وہ آگے بڑھے، اس کے پاؤں میں حرکت آئے تو زندگی آگے بڑھے۔
معنی یاد کیجیے :
کاٹھ کا گھوڑا : لکڑی کا گھوڑا
وفد : نمائندوں کی جماعت
روڈ مارچ : حکم نہ ماننے پرفوجی کی پیٹھ پر بھاری بوجھ لدوا کر سڑک پر دوڑایا جانا
بے نیاز : بے پروا
ساکت  : بے حرکت 
سوانگ  : خاموش نقل (روپ بدلنا)
برعکس  : بر خلاف 
محض  : صرف 
مقررہ  : طے شدہ 
غور کیجیے:
ہمیں ان اسباب کی تہ تک پہنچنا چاہیے کہ زندگی کی دوڑ میں کچھ لوگ بہت آگے کیوں نکل جاتے ہیں اور کچھ لوگ کیوں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اگر ہمیں ترقی اور پچھڑجانے کے اسباب کا علم ہوجائے تو پھر ہم آسانی سے اپنی کمزوریوں پر قابو پاسکتے ہیں۔
نیچے دیئے ہوئے لفظوں سے خالی جگہوں کو بھر یے: 

حرکت#### سوانگ#### رفتار#### ساکت #### شخصیت

1۔ ساری دنیا کی .....رفتار..... دھیمی پڑگئی۔ 
2۔ ان کھلونوں کے سامنے اس کا کاٹھ کا گھوڑا ....ساکت.....بے جان تھا۔
3. اس نے بھی اپنے گھوڑے کو ٹانگوں کے نیچے پھنسا کر دوڑنے کا......سوانگ...... کیا تھا۔ 
4۔ وہ بے جان کاٹھ کا گھوڑا اس کی .....شخصیت....سے چپک کر رہ گیا تھا۔ 
5۔ اس کے پاؤں میں...حرکت....آئے تو زندگی آگے بڑھے۔

نیچے دیے ہوئے جملوں پر غور کیجیے: 

1. اسکولوں اور کالجوں کے زیادہ تر بچے خوش ہیں۔ 
2۔ ان کے پاس رسّی کے سہارے گھومنے والے رنگین لٹّو تھے۔ 
3. کچھ ایک کو افسوس بھی ہے کہ ان کی پڑھائی پیچھے رہ جائے گی۔

* پہلا جملہ ’ہیں‘ پر ختم ہوتا ہے، جو موجودہ زمانے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جہاں ایسی حالت اور کیفیت واقع ہوتی ہے اسے ’حال‘ کہتے ہیں۔
 * دوسرا جملہ ’تھے‘ پر ختم ہوتا ہے ، جو گزرے ہوئے زمانے کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ جہاں ایسی حالت اورکیفیت واقع ہوتی ہے، اسے ’ماضی‘ کہتے ہیں۔
 * تیسرا جمله ’گی‘ پر ختم ہوتا ہے، جو آنے والے زمانے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جہاں ایسی حالت اور کیفیت واقع ہوتی ہے اسے ’مستقبل‘ کہتے ہیں۔ 

نیچے دیے ہوئے جملوں میں زمانے کی نشان دہی کیجیے۔ 

1. احمد کل آیا تھا۔########اا اااا#ماضی
2. موہن بازار سے لوٹ آیا ہے۔ ####حال
3. سردی کا زمانہ کب آئے گا۔#####مستقبل
4. گرمی کا موسم جا رہا ہے۔ ####گگ#حال
5. ہم عید کے دن ملیں گے۔###گ#مستقبل

سوچیے اور بتائیے: 

1. بندو کو کاٹھ کا گھوڑا کیوں کہا گیا ہے؟
جواب: بندو ایک نہایت سست انسان تھا اور ہر کام بہت دھیرے کرتا تھا اس لیے اسے کاٹھ کا گھوڑا کہا گیا ہے۔ 

2. بندو کی سست رفتاری کا اثر کن کن لوگوں پر پڑا؟
جواب:  وزیر، ملک کے بڑے بڑے کارخانے دار، کاروباری، سیٹھ ،دفتروں کے افسر، دکاندار، وردیوں والے فوجی، پولیس والے، عام آدمی، سودا سلف خریدنے کے لئے گھروں سے نکلی عورتیں، اسکولوں اور کالجوں کے بچے، ڈاکٹر، نرس، انجینئر ان سب پر بندو کی سست رفتاری کا اثر پڑا۔

3. وزیر کی بے چینی کا سبب کیا تھا؟
جواب:  وزیر جام کی وجہ سے بے چین تھا کیونکہ غیر ملکی  وفد سے ملنے کا وقت قریب آرہا تھا۔

4. کاروباریوں کے لیے ”پل“ کے معنی لاکھوں کے گھاٹے کے کیوں ہیں؟
جواب:  کاربار میں ایک پل میں لاکھوں کے گھاٹے ہوجاتے ہیں۔ اس لیے ان کےلیے ایک  پل کے معنی لاکھوں کا گھاٹا ہوتے ہیں۔ 

5. چندو کے بارے میں بندو کے ذہن میں کیا خیال آیا؟
جواب: اُس کے ذہن میں یہ خیال  آیا کہ اُس کا بیٹا چندو اس لئے اسکول نہیں جا پایا کیونکہ وہ اُس کے لیے ضرورت کی چیزیں نہیں جُٹا پایا۔

6.  پیروں میں پہیے لگوانے سے بندو کی کیا مراد تھی؟
جواب: پیروں میں پہیے لگوانے سے مراد تھی کہ بُندو موٹر گاڑیوں کی طرح تیز رفتار ہوجائے اور بالکل ان کے جیسا بن جائے۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں سے جملے بنائے:
قطار : بندو کے پیچھے گاڑیوں کی لمبی قطار ہے۔
رفتار : گاڑی کی رفتار بہت دھیمی تھی۔
کیفیت : مریض کی کیفیت اچھی نہیں تھی۔
فخر : استاد کو اپنے شاگردوں پر فخر ہے۔
دشوار : لوگوں کے لیے اس مہنگائی میں جینا دشوار ہوگیا ہے۔
حرکت : سیما کی اس حرکت سے مینا بہت ناراض ہوئی۔
عملی کام: 
کاٹھ کے گھوڑے کی تصویر بنائیے اور اس میں رنگ بھریے۔
پیارے بچّو! کاٹھ کے گھوڑے کی تصویر بناکر رنگ بھر کر ہمیں بھیجو ہم تمہارے نام اور پتے کے ساتھ شائع کریں گے۔
کلک برائے دیگر اسباق

0 comments:

Post a Comment

خوش خبری