آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Wednesday 14 August 2019

Lai Hayat Aae Qaza Le Chali Chale-NCERT SOLUTION CLASS X URDU

لائی حیات، آئے، قضا لے چلی، چلے

لائی حیات، آئے، قضا لے چلی،چلے 
اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے 

ہو عمر خضر بھی تو کہیں گے بہ وقت مرگ 
ہم کیا رہے یہاں، ابھی آئے، ابھی چلے 

ہم سے بھی اس بساط پہ کم ہوں گے بد قمار
 جو چال ہم چلے سو نہایت بری چلے

 بہتر تو ہےیہی کہ نہ دنیا سے دل لگے 
پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے

نازاں نہ ہو خرد پہ، جو ہونا ہے ہو وہی
 دانش تری، نہ کچھ مری دانش وری چلے
تشریح:
لائی حیات آئی قضا لے چلی چلے شیخ محمد ابراہیم ذوق کی مشہور غزل ہے جس میں شاعر نے زندگی کی حقیقت کا ذکر بیان کیا ہے۔ اس غزل میں شاعر نے بتایا ہے کہ انسان کے اپنے اختیار میں کچھ بھی نہیں ہے جو کچھ بھی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ انسان دنیا میں نہ اپنی خوشی سے آتا ہے نہ اپنی مرضی سے جاتا ہے۔ غزل کے پہلے مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ وہ دنیا میں نہ اپنی خوشی سے آیا ہے نہ اپنی خوشی سے جائے گا۔ اُس کی حیات اُسے دنیا میں لے کر آئی اور اب اُسے اس کی قضا دنیا سے لے جائے گی ان دونوں کاموں میں اُس کی اپنی مرضی کا کوئی دخل نہیں۔
دوسرے مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ اُس کی عمر اگر حضرت خضر کی طرح بھی ہو تب بھی ہر انسان یہی کہتا ہے کہ وہ دنیا میں زیادہ دنوں تک نہیں رہا۔ یعنی دنیا میں رہنے کی خواہش کبھی ختم نہیں ہوتی اُسے ہمیشہ یہی لگتا ہے کہ وہ ابھی دنیا میں آیا تھا اور ابھی ہی اس کے جانے کا وقت آگیا۔ یعنی شاعر حضرت خضر کا ذکر کرکے اُن کی طویل العمری کی طرف اشارہ کررہا ہے کہ اتنی طویل عمر پانے کے بعد بھی مرنے کے وقت ہر انسان یہی رونا روتا ہے کہ وہ ابھی تو آیا تھا اور ابھی اُس کے جانے کا وقت آگیا۔
تیسرے شعر میں شاعر کہتا ہے کہ دنیا میں ہم جیسے بدقمار یعنی ناکام جواری شاید ہی ہوں گے جس نے جو بھی چال چلی ہمیشہ ہی اُلٹی چلی۔ یہاں شاعر اپنی ناکامیوں کا ذکر کر رہا ہے۔ دنیا اُسے ایک بساط کی طرح نظر آتی ہے جہاں ہرشخص اپنی چالیں چل رہا ہے۔ شاعر کو لگتا ہے کہ وہ ایک ایسا ناکام کھلاڑی ہے جس کا کوئی بھی حربہ کوئی بھی چال کبھی کامیاب نہیں ہوتی۔
اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ دنیا ایک بے وفا جگہ ہے اور اس سے دل لگانا اچھا نہیں ہے لیکن کیا کیا جائے کہ دنیا سے دل لگائے بغیر کام بھی نہیں چلتا ہے۔ ہر انسان اس دنیا سے دل لگانے کے لیے مجبور ہے۔
اس شعر میں شاعر کا کہنا ہے کہ اپنی ہوشیاری اور عقلمندی پر ناز کرنا فضول ہے۔ ہمیں اپنی عقلمندی پر ناز نہیں کرنا چاہیے اس لیے کہ نہ تو یہاں تمہاری سوجھ بوجھ، ہوشیاری یا عقلمندی کچھ کام آنے والی ہے نہ میری۔ اس دنیا میں تو وہی چلے گا جو اللہ کو منظور ہوگا۔
 ذوق کی یہ غزل پوری طرح انسان کی بے بساعتی کو ظاہر کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ دنیا میں انسان محض ایک کھلاڑی ہے جو دوسروں کی انگلیوں کے اشارے پر چلتا ہے اور کہیں بھی اس کی اپنی مرضی کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔

شیخ محمد ابراہیم ذوق
(1854 - 1788)

ذوق کا اصل نام شیخ محمد ابراہیم تھا۔ دہلی میں پیدا ہوئے اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔ وہ ایک سپاہی کے بیٹے تھے۔ انھوں نے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی لیکن اپنی ذہانت اور محنت سے علمی صلاحیت پیدا کر لی تھی ۔ وہ شاہ نصیر کے شاگرد اور بہادر شاہ ظفر کے استاد تھے۔
بہادر شاہ ظفر نے انہیں ’ملک الشعراء‘ اور ’خاقانی ہند‘ کے خطابات دیے۔ ذوق نے کئی اصناف میں اظہار خیال کیا ہے۔ ان کی اصل پہچان قصیدہ نگار کی ہے بالخصوص بہادر شاہ ظفر پر لکھے ہوئے قصائد کا مرتبہ بلند ہے۔ لیکن وہ غزل کے بھی ایک قابل ذکر شاعر ہیں۔
ذوق نے اپنے کلام میں نیا پن پیدا کرنے اور زبان اور محاورے کی صفائی پر خاص توجہ دی ہے۔

معنی یاد کیجیے: 
حیات : زندگی
قضا : موت
عمر خضر : مرادلمبی عمر
مرگ : موت
بساط : وہ خانے دار کپڑا جو چوسر یا شطرنج کھیلنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے
بدقمار : ناکام جواری
نازاں ہونا : ناز کرنا، فخر کرنا
خرد : عقل
دانش : سمجھ بوجھ
دانش وری : ہوشیاری ،سمجھ داری، زیادہ علم رکھنا

غور کیجیے:
اس غزل کے ہر شعر کے آخر میں لفظ ”چلے“ آیا ہے۔ اسے ردیف کہتے ہیں۔ 
” چلے“ ردیف سے پہلے چلی، خوشی، ابھی، بری اور دل لگی جیسے ہم آواز الفاظ استعمال ہوئے ہیں، انہیں قافیہ کہتے ہیں۔


سوچیے اور بتائیے:
1. پہلے شعر میں شاعر کیا بات کہنا چاہتا ہے؟
جواب: شاعر کہنا چاہتا ہے کہ زندگی اسے دنیا میں لائی تو وہ آگیا موت اسے لے جا رہی ہے تو وہ جارہا ہے۔

2. ”ابھی آئے ابھی چلے“ سے شاعر کی کیا مراد ہے؟
جواب: اس شعر سے شاعر کی مراد ہے کہ وہ ابھی تو آیا تھا اور اسے ابھی ہی جانا پڑ رہا ہے۔

3. دنیا سے دل لگانے کے کیا معنی ہے؟
جواب: دنیا سے دل لگانے کے معنی دنیا سے محبت کرنا  یعنی دنیا کے کاموں میں گرفتار ہوجانا ہے۔

4. شاعر نے عقل پر فخر کر نے سے کیوں منع کیا ہے؟
جواب: شاعر نے عقل پر فخر کرنے سے اس لیے منع کیا ہے کہ جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے انسان کی عقل کچھ کام نہیں کرتی۔ یہی سبب ہے کہ شاعر نے عقل پر فخر کرنے سے منع کیا ہے۔

ان لفظوں کے متضاد لکھیے:                                                                        
حیات : قضا
خوشی : غم
بہتر : بدتر
مرگ : زندگی
بری : اچھی

عملی کام:
اس غزل کو یاد کیجیے۔

کلک برائے دیگر اسباق

1 comment:

خوش خبری