آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Thursday 2 April 2020

Charpai - Rasheed Ahmad Siddiqui - NCERT Solutions Class IX Urdu

Charpai by Rasheed Ahmad Siddiqui  Chapter 2 NCERT Solutions Urdu
چارپائی
رشید احمد صدیقی
چارپائی اور مذہب ہم ہندوستانیوں کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ ہم اس پر پیدا ہوتے ہیں اور یہیں سے مدرسے، آفس، جیل خانے، کونسل، یا آخرت کا راستہ لیتے ہیں۔ چارپائی ہماری گھٹّی میں پڑی ہوئی ہے۔ ہم اس پر دوا کھاتے ہیں، دعا و بھیک بھی مانگتے ہیں ۔ کبھی فکرسخن کرتے ہیں اور کبھی فکر قوم ۔ اکثر فاقہ کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ ہم کو چارپائی پر اتنا ہی اعتماد ہے جتنا برطانیہ کو آئی۔ سی ۔ ایس پر، شاعر کو قافیہ پر یا طالب علم کو غل غپاڑے پر۔
چارپائی کی مثال ریاست کے ملازم سے دے سکتے ہیں ۔ یہ ہر کام کے لیے ناموزوں ہوتا ہے، اس لیے ہر کام پر لگادیا جاتا ہے۔ ایک ریاست میں کوئی صاحب ولایت پاس ہو کر آئے۔ ریاست میں کوئی آسامی نہ تھی جو ان کو دی جاسکتی ۔ آدمی سوجھ بوجھ کے تھے، راجا صاحب کے کانوں تک یہ بات پہنچا دی کہ کوئی جگہ نہ ملی تو وہ لاٹ صاحب سے طے کر آئے ہیں، راجا صاحب ہی کی جگہ پر اکتفا کریں گے۔ ریاست میں ہلچل مچ گئی ۔ اتفاق سے ریاست کے سول سرجن رخصت پر گئے ہوئے تھے، یہ ان کی جگہ پرتعینات کر دیے گئے۔ کچھ دنوں بعد سول سرجن صاحب واپس آئے تو انجینئر صاحب پرفالج  گرا۔ ان کی جگہ ان کو دے دی گئی۔ آخری بار یہ خبر سنی گئی کہ وہ ریاست کے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہو گئے تھے اور اپنے ولی عہد کو ریاست کے ولی عہد کا مصاحب بنوا دینے کی فکر میں تھے۔
یہی حالت چار پائی کی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان ملازم صاحب سے کہیں زیادہ کارآمد ہوتی ہے۔ فرض کیجیے آپ بیمار ہیں ، سفر آخرت کا سامان میسر ہو یا نہ ہو، اگر چار پائی آپ کے پاس ہے تو دنیا میں آپ کو کسی اور چیز کی حاجت نہیں ۔ دوا کی پڑیا تکیے کے نیچے ، جوشاندے کی دیگچی سرہانے رکھی ہوئی ، چار پائی سے ملا ہوا بول و براز کا برتن ، چارپائی کے نیچے میلے کپڑے، بچوں کے کھلونے ، جھاڑو، آش جو، روئی کے پھائے، کاغذ کے ٹکڑے، مچھر، بھنگے، گھر یا محلے کے دو ایک بچّے ، جن میں ایک آدھ زکام خسرے میں مبتلا۔ ا چھے ہو گئے تو بیوی نے چار پائی کھڑی کر کے غسل کرادیا۔ ورنہ آپ کے دشمن اسی چارپائی پرلب گورلائے گئے۔
ہندوستانی گھرانوں میں چار پائی کو ڈرائنگ روم، سونے کا کمرہ ،غسل خانہ، قلعہ، خانقاه ، خیمہ، دواخانہ، صندوق، کتاب گھر، شفاخانہ ، سب کی حیثیت کبھی کبھی بہ یک وقت ورنہ وقت وقت پر حاصل رہتی ہے۔ کوئی مہمان آیا، چار پائی نکالی گئی ۔ اس پر ایک نئی دری بچھا دی گئی، جس کے تہہ کے نشان ایسے معلوم ہوں گے جیسے کسی چھوٹی سی اراضی کو مینڈوں اور نالیوں سے بہت سے مالکوں میں بانٹ دیا گیا ہے اور مہمان صاحب مع اچکن ، ٹوپی، بیگ ، بغچی کے بیٹھ گئے۔ اورتھوڑی دیر کے لیے یہ معلوم کرنا دشوار ہوگیا کہ مہمان بے وقوف ہے یا میز بان بد نصیب ! چار پائی ہی پران کا منہ ہاتھ دھلوایا اور کھانا کھلایا جائے گا اور اسی چارپائی پر یہ سورہیں گے۔ سوجانے کے بعد ان پر سے مچھر مکھی  اسی طرح اڑائی جائے گی جیسے کوئی پھیری والا اپنے خوانچے پر سے جھاڑو نما مور چھل سے مکھیاں اڑارہا ہو۔
چارپائی پر سوکھنے کے لیے اناج پھیلایا جائے گا، جس پر تمام دن چڑیاں حملے کرتی ، دانے چگتی اور گالیاں سنتی رہیں گی۔ کوئی تقریب ہوئی تو بڑے پیمانے پر چار پائی پر آلو چھیلے جائیں گے ۔ ملازمت میں پنشن کے قریب ہوتے ہیں تو جو کچھ رخصت جمع ہوتی رہتی ہے، اس کو لے کر ملازمت سے سبک دوش ہوجاتے ہیں ۔ اس طرح چار پائی پنشن کے قریب پہنچتی ہے تو اس کو اسیکال کوٹھری میں داخل کر دیتے ہیں اور اس پر سال بھر کا پیاز کا ذخیرہ جمع کر دیا جا تا ہے۔ ایک دفعہ دیہات کے ایک میزبان نے پیاز ہٹا کر اس خاکسار کو ایسی ہی ایک پنشن یافتہ چار پائی پر اسی کال کوٹھری میں بچھا دیا تھا اور پیاز کو چارپائی کے نیچے اکٹھا کردیا گیا تھا۔ اس رات کو مجھ پر آسمان کے اتنے ہی طبق روشن ہو گئے تھے جتنی ساری پیازوں میں چھلکے تھے اور وہ یقیناً چودہ سے زیادہ تھے۔
چار پائی ایک اچھے بکس کا بھی کام دیتی ہے، تکیے کے نیچے ہر قسم کی گولیاں ، جن کے استعمال سے آپ کے سوا کوئی واقف نہیں ہوتا، ایک آدھ روپیہ، چند دھیلے پیسے، اسٹیشنری ، کتابیں ، رسالے، جاڑے کے کپڑے، تھوڑا بہت ناشتہ، نقش سلیمانی ، فہرست دواخانہ،سمن، جعلی دستاویز کے کچھ مسوّدے، یہ سب چار پائی میں آباد ملیں گے۔ میں ایک ایسے صاحب سے واقف ہوں جو چارپائی پر لیٹے لیٹے ان میں سے ہر ایک کو ، اجالا ہو یا اندھیرا ، اس صحت کے ساتھ آنکھ بند کر کے نکال لیتے اور پھر رکھ دیتے، جیسے حکیم نابینا صاحب مرحوم اپنے لمبے چوڑے بکس میں سے ہر مرض کی دوائیں نکال لیتے اور پھر رکھ دیتے تھے۔
حکومت بھی چار پائی ہی پر سے ہوتی ہے۔ خاندان کے کرتا دھرتا چار پائی ہی پر براجمان ہوتے ہیں ۔ وہیں سے ہر طرح کے احکام جاری ہوتے رہتے ہیں اور گناہ گار کو سزا بھی وہیں سے دی جاتی ہے۔ آلات سزامیں ہاتھ ، پاؤں ، زبان کے علاوہ ڈنڈا، جوتا، تاملوٹ بھی ہیں جن میں اکثر پھینک کر مارتے ہیں۔ یہ اس لیے کہ توقف کرنے میں غصّے  کا تاؤ  مدھم نہ پڑ جائے اور ان آلات کو مجرم پر استعمال کرنے کے بجائے اپنے اوپر استعمال کرنے کی ضرورت محسوس ہونے لگے۔
چار پائی ہی کھانے کا کمرہ بھی ہوتی ہے ۔ باورچی خانے سے کھا نا چلا اور اس کے ساتھ پانسات چھوٹے بڑے بچے ، اتنی ہی مرغیاں، دو ایک کتے، بلی، اور بے شمار مکھیاں آ پہنچیں۔ سب اپنے قرینے سے بیٹھ گئے ۔ صاحب خانہ صدر دستر خوان ہیں ۔ ایک بچہ زیادہ کھانے پر مار کھاتا ہے، دوسرا بدتمیزی سے کھانے پر، تیسرا کم کھانے پر، چوتھا زیادہ کھانے پر اور بقیہ اس پر کہ ان کو مکھیاں کھائے جاتی ہیں ۔ دوسری طرف بیوی مکھی اڑاتی جاتی ہے اور شوہر کی بد زبانی سنتی اور بدتمیزی سہتی جاتی ہے۔ کھانا ختم ہوا۔ شوہر شاعر ہوئے تو ہاتھ دھوکر فکرسخن میں چار پائی ہی پر لیٹ گئے کہیں دفتر میں ملازم ہوئے تو اس طرح جان لے کر بھاگے جیسے گھر میں آگ لگی ہے۔ اور کوئی مذہبی آدمی ہوئے تو اللہ کی یاد میں قیلولہ کرنے لگے، بیوی بچے بدن دبانے لگے۔
چارپائی ہندوستان کی آب و ہوا، تمدن و معاشرت ،ضرورت اور ایجاد کا سب سے بھر پور نمونہ ہے۔ ہندوستان اور ہندوستانیوں کے مانند ڈھیلی ڈھالی ، شکستہ حال، بے سروسامان لیکن ہندوستانیوں کی طرح غالب اور حکمراں کے لیے ہر قسم کا سامان راحت فراہم کرنے کے لیے آمادہ، کوچ اور سوفے کے دلدادہ اور ڈرائنگ روم کے اسیر اس راحت و عافیت کا کیا اندازہ لگا سکتے ہیں جو چار پائی پر میسر آتی ہے شعرا نے انسان کی خوشی اور خوش حالی کے لیے کچھ باتیں منتخب کر لی ہیں ، مثلا سچے دوست ، شرافت ، فراغت، اور گوشہ چمن۔ ہندوستان جیسے ملک کے لیے عیش وفراغت کی فہرست اس سے مختصر ہونی چاہیے۔ میرے نزدیک تو صرف ایک چار پائی ان تمام لوازم کو پورا کرسکتی ہے۔

Charpai by Rasheed Ahmad Siddiqui  Chapter 2 NCERT Solutions Urdu
رشید احمد صدیقی
(1977ء - 1876ء)
رشید احمد صدیقی اتر پردیش کے شہر جون پور کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم جون پور میں حاصل کی اور اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کی غرض سے علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ ایم ۔ اے کرنے کے بعد وہیں ملازم ہو گئے ۔ جب علی گڑھ یونیورسٹی میں شعبہ اردو قائم ہوا، تو رشید احمد صدیقی اس کے صدر بنائے گئے۔ انھیں علی گڑھ بہت عزیز تھا اور انھوں نے ساری زندگی وہیں گزاری۔
رشید احمدصدیقی نے طالب علمی کے زمانے ہی سے لکھنا شروع کردیا تھا۔ ان کے مضامین طنز اور ظرافت کے اعلیٰ نمونے ہیں۔ وہ عموماً اشاروں، کنایوں اور چبھتے ہوئے جملوں میں اپنی بات کہتے ہیں ۔ ملتے جلتے لفظوں اور متضاد لفظوں کو وہ ایک نئے انداز سے استعمال کرتے ہیں۔ ان کے موضوعات میں تنوّع ہے۔ معاشرتی ، سیا سی اور ادبی مسائل پر جب وہ قلم اٹھاتے ہیں تو ان کے طرزتحریر کو سمجھنے والا قاری ان کی نُکتہ رسی کی داد دئیے بغیر نہیں رہتا۔ ان کے یہاں دلچسپ فقروں، نادر تشبیہوں، معنی خیز اشاروں ، برجستہ لطیفوں اور پر لطف انداز بیان کی وجہ سے نرالی ادبی شان پیدا ہو جاتی ہے۔ رشید احمد صدیقی کو ”ادبی مزاح نگاری“ کے میدان میں سب سے پہلا اوربعض لوگوں کی نظر میں اہم ترین مصنف قرار دیا جاتا ہے ۔ ان دنوں مشتاق احمد یوسفی اس طرز کے بہتر ین نمائندے ہیں۔
رشید احمد صدیقی کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت ہند نے 1963ء میں انھیں’   پدم شری‘ کا اعزاز عطا کیا۔ ان کو ساہتیہ اکادمی کے ایوارڈ سے بھی سرفراز کیا گیا۔ ان کا انتقال علی گڑھ میں ہوا۔
’مضامین رشید‘ ( مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ) ’خنداں‘ (ریڈ بائی تقریروں کا مجموعہ )’ گنج ہائے گراں مایہ‘ اور ’ہم نفسان رفتہ‘ (خاکوں کے مجموعے )’طنزيات ومضحکات‘ اور ’جدید غزل‘ (تنقید) اور ’آشفتہ بیانی میری‘ (خودنوشت ) رشید احمد صدیقی کی اہم تصانیف ہیں۔

لفظ ومعنی 
فکر سخن کرنا : شعر کہنا، شعر کہنے کی کوشش کرنا
آئی۔سی۔ایس : انڈین سول سروس، انگریزوں کے زمانے کی انتظامی ملازمت کی سروس جسے اب آئی۔اے۔ ایس (انڈین ایڈمنسٹریٹو سرویس) کہتے ہیں
غل غپاڑے : شوروغل
اسامی : نوکری ، منصب
اکتفا کرنا : قناعت کر تا مطمئن رہنا
مصاحب : در باری
بول : پیشاب
براز : پاخانہ
پانسات : پانچ سات یافظ بول چال کے ہے یا بے تکلف تحریر میں استعمال ہوتا ہے
چودہ طبق روشن ہونا : چودہ طبق کے معنی سات زمین سات آسمان ، مراد د ماغ یا طبیعت کا خوب مل جاتا، مزاج میں پوری طرح بحالی آجانا۔
آشِ جو : جو کا جوش دیا ہوا پانی جو کمزور مریضوں کو دیا جا تا ہے
لب گور : مرنے کے قریب (لفظی معنی قبر کے کنارے)
آراضی : زمین ، کھیت
سبک دوش : فارغ
نقش سلیمانی : تعویذ یا دعا، عملیات کی مشہور کتاب
تاملوٹ : بغیر ٹونٹی کا لوٹا، ڈونگا
سمّن : عدالت میں حاضر ہونے کا تحریری حکمنامہ
قیلولہ : دوپہر کے کھانے کے بعد کی مختصر نیند



Charpai  Chapter 2 NCERT Solutions Urdu
غور کرنے کی بات 
*   رشید احمد صدیقی کا شمار اردو کے معروف انشائیہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کی نثر ظرافت کا  اعلیٰ نمونہ ہے۔ وہ عام طور پر اپنی تحریروں میں سیاسی ، معاشرتی اور ادبی مسائل کا ذکر کرتے ہیں اور ان کو دلچسپ بنانے کے لیے نادر تشبیہات متضاد الفاظ   اور رمز واشارہ سے کام لیتے ہیں۔ ان کے طنز کا وار بھر پور ہوتا ہے۔

سوالوں کے جواب لکھیے 
1. رشید احمد صدیقی نے چارپائی کو ہندوستانیوں کا اوڑھنا بچھونا کیوں کہا ہے؟ 
جواب: کیونکہ ہم اس پر پیدا ہوتے ہیں اور یہیں سے مدرسے آفس، جیل خانے، کونسل، یا آخرت کا راستہ لیتے ہیں۔

2. رشید احمد صدیقی نے چار پائی کی مثال ریاست کے ملازم سے کیوں دی ہے؟
جواب: کیوں کہ چارپائی ہر کام کے لئے ناموزوں ہوتی ہے اس لیے ہر کام پر اسے لگا دیا جاتا ہے مثلاً کسی ریاست میں کوئی شخص ولایت پاس کر کے لوٹا ریاست میں اس وقت کوئی آسامی نہ ہونے کی وجہ سے انہیں کسی دوسرے شخص کی ملازمت پر لگا دیا گیا چونکہ وہ آدمی سوجھ بوجھ والے اور سمجھدار تھے ٹھیک یہی مثال چارپائی کی ہے کہ وہ گھر کے تمام ناموزوں کاموں کیلئے مستعمل ہے۔

 3. ہندوستانی گھرانوں میں چار پائی کو کس کس کام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے؟
جواب: ہندوستانی گھرانوں میں چارپائی کو ڈرائینگ روم، سونے کا کمرہ، غسل خانہ، قلعہ، خانقاہ، خیمہ، دواخانہ، صندوق، کتاب گھرسب کی حیثیت کبھی کبھی بیک وقت ورنہ وقت وقت پر حاصل ہے۔

 4. مصقف نے چار پائی کو ضرورت اور ایجاد کا سب سے بھر پور نمونہ کیوں کہا ہے؟ 
جواب: کیونکہ چارپائی بھی ہندوستان اور ہندوستانیوں کی طرح ڈھیلی ڈھالی، شکستہ حال، بے سروسامان لیکن ہندوستانیوں کی طرح غالب اور حکمران کیلۓ ہر قسم کا سامان راحت فراہم کرنے کیلئے آمادہ،کوچ اور سوفے پر بیٹھنے والے حضرات چارپائی کی راحت کا اندازہ نہیں لگا سکتے اور روز مرہ کی زندگی میں چارپائی ہر ناموزوں کاموں کے لئے موزوں ہے۔

5. چارپائی میں رشید احمد صدیقی نے عام ہندوستانی رہن سہن کا جو نقشہ کھینچا ہے، اسے مختصر لکھیے۔
جواب: رشید احمد صدیقی نے چارپائی کو ہندوستانی تہذیب اور اس کے رہن سہن کا بہترین نمونہ بتلایا ہے مثلاً اگر کوئی شخص بیمار ہے اسے سفر آخرت میسر ہو یا نہ ہو اگر چارپائی اسکے پاس ہے تو اسے دنیا کی کوئی دوسری چیز کی حاجت نہیں۔اسی طرح اگر کوئی مہمان آیا تو چارپائی نکالی گئی اور اس پر ایک نئ دری بچھا دی گئی اور مہمان صاحب اسی چارپائی پر جلوہ افروز ہوئے، اسی طرح روز مرہ کے ہر چھوٹے بڑے کام کو چارپائی سے منسلک کیا ہے جس میں ہندوستانی تہذیب ابھر کر سامنے آتی ہے مثلاً ہندوستانی تہذیب میں خاندان کے بڑے حضرات چارپائی پر ہی براجمان ہوتے ہیں اور وہیں سے ہر طرح کے احکام جاری کرتے ہیں چاہے جزا کے ہوں یا سزا کے، چارپائی سے بکس کا کام بھی لیا جاتا ہے مثلاً حوائج یومیہ کے تمام تر اشیاء اس کے نیچے محفوظ کی جاتی ہیں خواہ وہ طبیب کا نسخہ ہو، ایک آدھ روپیہ، اسٹیشنری، کتابیں، رسالے، جاڑے کے کپڑے، تہوڑا بہت ناشتہ، جعلی دستاویز کے کچھ مسودے وغیرہ وغیرہ الغرض یہ سارے ہندوستانی تہذیب سے وابستہ ہیں۔
Charpai  Chapter 2 NCERT Solutions Urdu
عملی کام
چار پائی کا جو پیراگراف آپ کو پسند ہو اسے اپنی کاپی میں خوش خط نقل کیجیے۔
 اس سبق میں جو محاورے استعمال کیے گئے ہیں ، ان میں سے کوئی پانچ محاورے تلاش کیجیے اور ان کے معنی بھی لکھیے۔

 درج ذیل الفاظ کے واحد لکھیے : 
ملازمین  ملازم
 طلبا  طالب علم
 کتب  کتاب
تقاریب  تقریب
مجرمین  مجرم
انشائیہ ’چارپائی‘کا مرکزی خیال لکھیے۔
چارپائی رشید احمد صدیقی کا لکھا ہوا انشائیہ ہے۔ اس میں رشید احمد صدیقی نے چارپائی کو انسانی زندگی کا ایک اٹوٹ حصّہ بتلایا ہے یہ کہا ہے کہ چارپائی انسان کی گھٹی میں شامل ہے خاص کر ہندوستان کی تہذیب وتمدن میں شامل ہے یہاں تک کہ روز مرہ کے ہر چھوٹے بڑے کاموں کو چارپائی سے منسوب کیا ہے مثلاً چارپائی پر انسان پیدا ہوتا ہے اور اسی پر مر جاتا ہے اگر بیمار ہوتا ہے تو ‌چارپا‌ئی پر ہی ہوتا ہے،حکومت بھی چارپائی سے ہی ہوتی ہے،خاندان کے بڑے حضرات بھی چارپائی پر ہی تشریف فرما ہوتے ہیں،چھوٹی چھوٹی استعمال کی چیزیں اگر انہیں چارپائی کے نیچے رکھ دیں تو یہ ایک بکس کا کام بھی کرتی ہیں،کبھی ہم چارپائی پر فکر قوم کرتے ہیں تو کبھی فکر سخن، دعا،دوا،فقیری ،خاکساری، حاجت مندی وامیری غرض چارپائی انسانی زندگی کے تمام مراحل کی بہترین ساتھی ہےاور انسانی زندگی کا صاف وشفاف آئینہ ہے۔

چارپائی (خلاصہ)
چارپائی رشید احمد صدیقی کا ایک انشائیہ ہے جس میں انہوں نے چار پائی کو بنیاد بناکر ہندوستانیوں کے رہن سہن کے انداز اور ان کے طور طریقوں پر اپنے مخصوص انداز میں طنز کے تیر چلائے ہیں ۔ ان کے کہنا ہے کہ مذہب اور چار پائی ہندوستانیوں کے لئے لازم وملزوم ہیں ۔ ان دو چیزوں کے بغیر کسی ہندوستانی کا تصور بھی محال ہے۔ رشید احمد صدیقی چارپائی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم یہیں پیدا ہوتے ہیں اور یہیں سے دنیا جہان کے کام کرتے ہیں بلکہ حکم بھی چلاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مہد سے لحدتک یعنی پیدائش سے موت تک کے تمام کام چار پائی پر ہی انجام دیے جاتے ہیں۔
وہ ہندوستانی گھروں میں چارپائی کی اہمیت بیان کرتے ہوئےکہتے ہیں کہ چار پائی صندوق بھی ہے اور بستر بھی ، سونے سے لے کر سامان رکھنےتک کا ہر کام چار پائی ہی پرانجام پاتا ہے۔ کتا ہیں ، دوائیں، اناج ، آلو، پیاز ،کھاناغرض ہر کام کے لئے چار پائی حاضر ہو جاتی ہے۔ ہمارےگھروں میں چار پائی ڈرائنگ روم بھی ہے اور باتھ روم تھی ، لائبریری بھی ہے اور دوا خانہ بھی محض ایک چار پائی ہزار کام انجام دیتی ہے۔
ہندوستانی اپنی ضرورت کے مطابق چار پانی کا استعمال کرتے ہیں ۔ گھروں میں یہ ملاقات کرنے ، سونے، بول و براز کرنے ، بزرگوں کے رہنے، کتابیں اور دوائیں وغیرہ رکھنے ،نیچے سامان رکھنے، اناج سکھانے اور پیاز کا ذخیرہ کرنے کے لئے اسی چار پانی کا استعمال ہوتا ہے۔ چار پائی اور سرکاری ملا زم میں بہتری مشترک با تیں ہیں اور ان مشترک باتوں سے طنز و مزاح پیدا ہوتا ہے۔رشید احمد صدیقی کے مطابق ایک سرکاری ملازم جتنا حکم کا غلام ہے اسی طرح چارپائی بھی ہر کام کے لیے مجبور ہے۔ ایک سرکاری ملازم کی طرح چارپائی سے بھی ہر طرح کا کام لیا جاتا ہے۔
چار پائی ہندوستانیوں کی زندگی میں ایک مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ ہندوستان کی پہچان قالینوں اور صوفہ سیٹوں سے نہیں بلکہ چارپائی سے ہے جسے کروڑوں ہندوستانی استعمال کرتے ہیں۔ اور جس کے بغیر کسی بھی ہندوستانی کی زندگی نامکمل ہے۔
کلک برائے دیگر اسباق

0 comments:

Post a Comment

خوش خبری