آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Monday 6 April 2020

Jeene Ka Saleeqa - NCERT Solutions Class 9 Urdu

Jeene ka saleeqa by Khwaja Ghulam Saiyidain  Chapter 7 NCERT Solutions Urdu
جینے کا سلیقہ
خواجہ غلام السیدین

میں ایسے مشاہیر کی صحبت میں بیٹھا ہوں جن کی گفتگو میں وولوچ ، دل آویزی اور سلیقہ ہوتا تھا کہ وہاں سے اٹھنے کو دل نہ چاہے مثلا سرتیج بہادر سپرو، سروجنی نائیڈو مولانا آزاد، سید راس مسعودی ڈاکٹر اقبال، ڈاکٹر ذاکر حسین ، یعنی یہ کیفیت کہ: وہ ہیں اور نا کرے کوئی اس کشش کی و جت یہ تھی کہ وہ زبان پر قدرت رکھتے تھے یا رکھتے ہیں بلکہ ان کا دماغ روشن اور مرتب تھا۔ انھیں دراصل کچھ ہوا ہوتا تھا۔ ان کی سیرت ان کے تجربوں سے مالامال تھی۔ وہ اپنے گنے والوں میں بھی رکھتے تھے۔ میں اپنی زندگی اور تجربوں میں شریک کرنا چاہتے
تھے۔ اور جمہوریت کے اس زمانے میں جب زبان سے ترغیب اور تبادلہ خیال کا زیادہ سے زیادہ کام لیا جاتا ہے، اپنی گفتگو نہ صرف ایک سا ہی بہتر ہے بلکہ ایک سیاسی ہتھیار بھی ہے، جس کا میچ استعمال سیکھنا ضروری ہے۔
اچھے لوگوں اور اچھی کتابوں کی صحبت کے علاوہ تیسری چیز جو اپنی زندگی کی بنیاد ہے، وہ کام ہے ۔ اس سے متعلق ہمارے صدرت مذاکرحسین نے اپنے ایک خطبے میں لکھا ہے کہ ”کام ہے مقصد نہیں ہوتا۔ کام کچھ کر کے وقت کاٹ دینے کا نام نہیں، کام خالی دل گئی ہیں، کا کھیل نہیں، کام کام ہے۔ بامقصد محنت ہے۔ کام دشمن کی طرح آپ اپنا محاسبہ کرتا ہے اور اس میں جو پورا تر تا ہے تو وہ خوشی دیتا ہے جو اور کہیں نہیں ملتی ۔ کام ریاضت ہے، کام عبادت ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان کی شخصیت اس وقت تک کسی حسین سانچے میں نہیں ڈال سکتی، جب تک اس کے دل  میں اس انداز سے کام کرنے کی لگن پیدا نہ ہو حقیر سے فقیر کام میں معنی اور لطف پیدا ہوسکتا ہے۔ بشرطیکہ کام کرنے والا اس کا رشتہ بڑے مقصد کے ساتھ قائم کرے۔ دومزدور ایک پہاڑ پر تھر توڑ رہے تھے۔ ایک راہ گیر نے پہلے سے پوچھا تم کیا کر رہے ہو؟ اس نے جل کر جواب دیا۔
دیکھتے ہیں ہو، اپنی قسمت کے لکھے پھر چھوڑ رہا ہوں ۔ ذرا اور آگے بڑھ کر اس نے دوسرے مزدور سے بھی یہی سوال کیا تو اس نے بہت فخر اور خوشی کے ساتھ جواب دیا۔ میں ایک گرجا کی تعمیر کر رہا ہوں ۔ دیکھا آپ نے ؟ پتھر وہی تھے لیکن ایک مزدوران سے اپنی قسمت پھوڑ رہا تھا، اور دوسرا ایک عبادت گاہ بنانے کا خواب دیکھ رہا تھا۔ ہمارے
ملک میں نہ صرف طالبہ بلکہ سب لوگوں کو کام کرنے کے آداب سکھانے کی ضرورت ہے۔ کسی کام کو سرسری انداز میں کرنا گویاسرسے ایک ناگوار بو جھ اتارتا ہے، نہ اس میں خوشی تلاش کرنا، نہ پانا، نہ اس حسین تشکیل میں فخر محسوس کرنا، نہ اس کے ذریعے اپنی دنیا کو جھنا اور اپنے ہم جنسوں کے دکھ سکھ میں شریک ہونا ۔ بیسب نہ تو ذہنی دیانت کا تقاضا ہے، نہ اخلاق کا۔ زندگی خدا کا ایک انمول عطیہ ہے اور وہ تمام صلاحیتیں اور ہنر مند ہیں اور جوہر، جو اس کے ساتھ قدرت ہمارے کیسے میں ڈالتی ہے ان کی قیمت انسان صرف کام کے ذریعے اور کام کے لئے میں ادا کرسکتا ہے۔ جو شخص اس قیمت کو خوش دلی اور ایمانداری کے ساتھ ادا نہیں کرتا، اس کی حیثیت میرے نزدیک ایک چور کی ہے وہ خود کا چور ہے، سماج کا چور اور خدا کا چور ہے۔
لیکن جانے کا سلیقہ صرف بڑے بڑے اصولوں کی پابندی پرہی شخص نہیں ۔ اس میں بہت کی چھوٹی چیز میں بھی ہیں ۔ ایک معمولی انسان کی زندگی کا ہر یہ اسی پر بس نہیں ہوتا جہاں ہر قدم پر منصور کی طرح بات کہنے کی ضرورت ہے۔ اس میں اس سے بھی زیادہ اہمیت ہے۔ ایسی بظاہر معمولی صفات کی جو انسانی رشتوں میں خوشگواری پیدا کرتی ہیں ۔ یہ کون سی صفات ہیں؟ آپس کے میل جول میں دوستی اور مہربانی، معاملات میں انصاف ، سچائی اور بھروسا مل جل کر کام کرنا، دوسروں کے حقوق کی پاسداری اور ان کی رائے کا احترام ، خوش مزاجی اور ظرافت اور خواہ واہ کی دل شکنی اور بدگوئی سے پر ہیز ۔ میرا خیال ہے کہ ہماری آئے دن کی زندگی میں بہت سے نفسیاتی دکھ اور محرومیاں اس وجہ سے پیدا ہوتی ہیں کہ ہم اپنے دوستوں، عزیزوں اور ہم جنسوں سے مهربانی ، فیاضی اور ہمدردی کا سلوک نہیں کرتے ۔ ان کے بارے میں دوسرے لوگوں کے سامنے غیر ذمے داری کے ساتھ ایسی بات چیت کرتے ہیں جس سے ان کی نیک نامی پر برا اثر پڑتا ہے۔ بخش تفرین اور گرمی محفل کی خاطر این گفتگو میں شامل ہو جاتے ہیں ۔ دوسروں کی برائی کو بغیر جانچ پڑتال کے آسانی سے مان لیتے ہیں، ان کو شہ کا فائدہ بھی نہیں دیتے بلکہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ بے قصور ہیں، ہم جرات سے کام لے کر ان کے حق میں کلمہ خیر نہیں کہتے لیکن دراصل لوگوں کے بارے میں حسن ظن رکھنا اور ان کی اچھی باتوں کی تلاش اور قدر کرنا اس سے کہیں بہتر ہے کہ ہم ان کی طرف سے بدن پر ہیں اور ان کی عیب جوئی کرتے رہیں ۔ یا ہے ۔ بعض دفعہ انسان ہرکسی کو شریف اور قابل اعتماد جھ کر نقصان اٹھاتا ہے لیکن اخلاقی اور سابی اعتبار سے نقصان بہت کم ہے اور اس کے مقابلے میں دلتنگی ، بد بینی اور شے کی ذہنیت سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ جو اس تم کی طبیعت اور دل و دماغ رکھتا ہے، وہ عمر بھر کے لیے ایک روگ خرید لیتا ہے، نہ خودخوش رہ سکتا ہے، نہ دوسروں کو خوش رکھتا ہے۔ برخلاف اس کے خوش مزاجی روز مرہ کی زندگی اور رشتوں میں لطف اور شہر میں پیدا کرتی ہے اوری ختم کی ظرافت بہت ہی ناگواریوں کا علاج ہے۔ وہ ظرافت
جس کا مقصد دل کھانا نہ ہو، جو دل سوزی اور ہمدردی کے ساتھ حماقتوں پر نہ کرے لیکن کسی کی ذاتی تحقیر نہ کرے، جو دوسروں سے زیادہ خود اپنی حماقتوں کا خاکہ اڑائے اور اپنے بارے میں دوسروں کی ظرافت کو جھیل سکے۔ جو شخص خود کو بہت اہم سمجھتا ہے، اپنی شان میں گستاخی نہیں کرسکتا، اپنے کو تنقید سے بلند اور دوسروں کو اپنے سے کمتر جانتا ہے، جس کی طبیعت میں ضبط ہیں، جس کا مزاج آسانی سے بھڑ ک اٹھتا ہے، جو اپنی دولت یا خاندان یا منصب کو نہ بھول سکے ، خودبھی ان سے مرعوب رہے اور دوسروں پر بھی ان کا رعب ڈالنا چاہے، وہ جینے کے سلیقے سے بالکل نا آشنا ہے۔ اگر ہماری تعلیم خود پسندی اور خود پرستی کے ان بتوں کو نہ توڑنے اور لوگوں کو خود پرستی کے ساتھ احتساب کرنا اور دوسروں کے ساتھ مجھے داری اور نرمی کے ساتھ پیش آنا نہ کھائے تو وہ زندگی کے لیے تیار نہیں کرسکتی۔ یہ انکسار اور خود شناسی کی صفت بھی زندگی کے گونا گوں نقشے میں ایک لطیف رنگ بھرتی ہے۔ بات صرف اتنی ہی نہیں کہ اخلاقی اعتبار سے ایک کھلا دل ، ایک فیاض طبیعت ، تنگ دلی سے بہتر ہے، بلکہ دوسرے لوگ جو سلوک ہم سے کرتے ہیں، وہ بھی بڑی حد تک اس سلوک پر مختصر ہے جو ہم ان کے ساتھ کرتے ہیں۔ اگر ہم ان کے ساتھ دوستی، نیک نیتی اور بھروسے کے ساتھ پیش آئیں تو توقع ہوسکتی ہے کہ ان کا رویہ بھی ہمارے ساتھ دوستانہ ہو لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شخص جو میرے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے، وہ دوسروں کے ساتھ بدسلوکی کرے ۔ اگر وہ اس کے ساتھ شرافت سے پیش نہ آئیں ۔ لیکن لوگ صرف سفید و سیاہ رنگ میں رائے نہیں ہوتے کہ سب کے ساتھ اچھے ثابت ہوں گے یا برے۔ دراصل دوسروں کی فطرت کی خوبیوں کو اجاگر کرنا ایک حد تک خود ہمارے اختیار میں ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی یادر ہے کہ یک طرفہ نیکی کرنے میں بڑی برکت ہے خواہ لوگ اس بات کوما میں بانه ما نیں ، نیکی میں بی صلاحیت ہے کہ وہ اکثر بدی کے ہتھیار رکھوا لیتی ہے۔ اگر ہم میں اتنی اخلاقی جرات ہے کہ جس بات کو نیک اور پچ سمجھتے ہیں، وہی کر یں اور اس کی زیاد فکر نہ کریں کہ دوسرے کیا کرتے ہیں، تو ہم وایر ے والیبرے اپنے مخالفوں کے دل کو جیت سکتے ہیں۔ نیکی بھی بدی کی طرح متعدی ہے، اس کا اثر دور دور تک پھیلتا ہے۔ اگر ہم روز مر د کے چھوٹے چھوٹے کاموں میں چھوٹی چھوٹی باتوں میں نیکی اور پائی
سے کام لیں تو وہ آہستہ آہستہ ہماری ساری زندگی کے کاروبار میں راہ پا جاتی ہے اور جب بھی کوئی ایسی نازک صورت حال پیش آتی ہے جہاں میں خیر و شر کی ازلی جنگ میں حصہ لینا پڑتا ہے اور اپنی تقدس کو بنانے یا بگاڑنے والے فیصلے کرنے ہوں تو عمر بھر کی یہ عادتیں اور رجحان ہمارے کام آتے ہیں ۔ اس طرح زندگی کے چھوٹے اور بڑے کاموں میں ایک نفسیاتی رشتہ قائم ہو جا تا ہے اور بقول پیغمبر اسلام کے ساری دنیا ایک مسجد بن جاتی ہے، جہاں انسان ہر کام اس انداز سے کرتا
ہے گویا وہ اپنے بنانے والے کے سامنے کھڑا عبادت کر رہا ہے۔ بہت مشکل ہے ایسی کیفیت پیدا کرنا اپنے دل و دماغ میں ، لیکن یہ سب نہ ہوں کی مشترک تعلیم ہے اور بہت سے مردان خدانے بلکہ بہت سے نیک اور گمنام لوگوں نے بھی اس شان کے ساتھ زندگی گزاری ہے۔ اور پھر کیسی قوت پیدا ہو جاتی ہے ایسے لوگوں میں کہ موت بھی نھیں زی نہیں کرسکتی۔ ایک نظر سے دیکھے تو انسان کی زندگی ایک ٹمٹماتے چراغ کی طرح ہے، جو چندیوں کے لیے روشن ہوتا ہے اور پھر موت
کی ایک ہلکی سی پھونک سے بجھا دیتی ہے لیکن جب کوئی انسان اپنی زندگی کو بڑے مقاصد کے ساتھ وابستہ کر لیتا ہے اور ان کی قدروں کا حامل بن جاتا ہے اور انھیں روز مرہ کی زندگی میں برتا ہے، تو کوئی آندھی اس چراغ کونہیں بجھا سکتی ۔ موت اس کے جسم کو فنا کر دیتی ہے لیکن اس کے دماغ کی جولانی، اس کے دل کا گداز، اس کی روح کی بلندی، اس کے مقصد کی تابانی قائم رہتی ہے اور تھکے ماندے، راستے سے بھٹکے مسافروں کی ہمت بڑھاتی ہے۔ اس قسم کے چراغ جلانا ہر انسان کا فرض ہے اور چراغ کا کمال یہ ہے کہ خواہ کتنا ہی چھوٹا ہو ساری دنیا کا اند میرا بھی اسے نہیں بجھا سکتا۔ لیکن انسان کی شخصیت کو صرف فکر کی روشنی اور کام کی تپسیانی تا جمیل نہیں بناتی۔ اس کو جذبات کی دولت بھی ملی ہے جن کی میں تربیت کے بغیر اس کی تکمیل ممکن نہیں ہے۔ اس مقصد کے لیے اس کی حسن شناسی اور سن آفرینی کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا اور اس میں ذوق جمال کی شمع جلانا ضروری ہے۔ خوبصورتی سے لطف اٹھانے کی صلاحیت قدرت کی ایک انمول دین ہے، جو زندگی میں مسرت کا رنگ بھرتی ہے اور اس کو طرح طرح سے مالا مال کرتی ہے، خواہ وہ خوبصورتی عالم فطرت میں پائی جائے یا انسانوں کے خدوخال میں، اعلم اورحق کی تلاش میں یا آرٹ اور دستکاری کی تخلیق میں۔
خلاصہ:
”جینے کا سلیقہ“ میں مضمون نگار نے ابتداء میں ان مشاہیر کا ذکر کیا ہے جن کی صحبت میں وہ بیٹھے۔ ان شخصیتوں میں سرتیج بہادر سپرو ، سروجنی نائیڈرو۔ مولانا آزاد، راس مسعود، ڈاکٹر اقبال اور ذاکر حسین ہیں ، مذکورہ لوگوں کی گفتگو میں وہ لوچ دل آویزی اور سلیقہ تھا جن سے زندگی بنتی ہے۔ ان کی گفتگو کو انہوں نے نہ صرف سماجی گردانا ہے بلکہ ایک کامیاب سیاسی ہتھیاری مانتے ہیں لہذااسے سیکھنے پر زور دیتے ہیں ۔ اس کے بعد وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ اچھی کتابوں کے علاوہ بھی اچھی زندگی کی بنیاد ہے اور وہ شئے وہ کام ۔ کام سے متعلق انہوں نے ڈاکٹر ذاکر حسین کا ایک قول نقل کیا ہے۔ جس میں بہت کچھ کے علاوہ یہ بھی کہا گیا ہے "کام ریاضت ہے۔ کام عبادت ہے۔ اور واقعہ بھی یہی ہے کہ انسان کی شخصیت اس وقت تک کسی سانچے میں نہیں ڈھل سکتی، جب تک اس کے دل میں اس انداز سے کام کرنے کی لگن پیدا نہ ہو۔ چھوٹے اور معمولی کام میں بھی اور لطف پیدا ہوسکتا ہے ۔ بشرطیکہ کام کرنے والا اس کا رشتہ بڑے مقصد کے ساتھ قائم کرے ۔ خواجہ صاحب نے مضمون میں تعلیم کا مقصد بتاتے ہوئے کہا ہے کہ اسے خود پرستی کے ساتھ احساس کرنا اور دوسروں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرنا سکھانا چاہئے ۔ پھر حق و باطل کی ازلی اور ابدی کشاکش کا ذکر ہے اور دوسروں کے دل پر حکمرانی کی بات کہی ہے۔ اچھی قدروں کی پیروی اور صحیح تربیت کو زندگی کا لازمی جز قرار دیا ہے۔ زندگی میں حسن اور خوبصورتی کی بات کہتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ خوبصورتی سے لطف اٹھانے کی صلاحیت قدرت کی ایک انمول دین ہے۔ جو زندگی میں خوشی کا رنگ بھرتی ہے اور اس کو اس طرح سے مالا مال کرتی ہے، خواہ وہ خوبصورتی عالم فطرت میں ہو یا انسانوں کے خدوخال میں ۔ یا علم اور حق کی تلاش میں یا آرٹ اور دستکاری کی تخلیق میں ۔

Jeene ka saleeqa by Khwaja Ghulam Saiyidain  Chapter 7 NCERT Solutions Urdu
خواجہ غلام السیدین
(1904ء -1971 ء)
خواجہ غلام السیدین ہریانہ کے تاریخی قصے پانی پت میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد خواجہ غلام ثقلین علی گڑھ کا بچے کے نامور طالب علم تھے اور والدہ مشتاق فاطمہ حالی کی پوتی تھیں ۔ غلام السید ین کی ابتدائی اور ثانوی تعلیم پانی پت میں ہوئی ۔ کالج کی تعلیم کے لیے دو علی گڑھ گئے جہاں انھوں نے نبی ۔اے اور بی ۔ ایڈ کیا اور پھر اعلی تعلیم کے لیے انگلستان گئے۔ وہاں سے آ کر علی گڑھ میچرز ٹرینینگ کالج میں لیکچرر ہوئے اور پھر پیپل ہوگئے۔
خواجہ غلام السیدین ماہر تعلیم تھے ۔ انھوں نے آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد ہندوستان میں تعلیمی امور کے سلسلے میں کئی مقامات پرمختلف حیثیتوں سے کام کیا۔ انھوں نے گاندھی جی کی عملی تعلیم سے متعلق ڈاکٹر ذاکر حسین کے ساتھ خاکہ تیار کیا۔ غلام السیدین کو اردو زبان اور ادب سے بھی بہت محبت تھی۔ انھوں نے اردو میں تعلیم اور ادب سے تعلق کئی کتابیں لکھی ہیں۔ ان کی مشہور کتاب آندھی میں چراغ ہے جس پر انھیں ساہتیہ اکادمی کا نام بھی ملا۔ حکومت ہند نے ان کی علمی خدمات پر انھیں پدم بھوشن کے خطاب سے نوازا۔ انہیں دنیا کے سات ماہرین تعلیم میں شمار کیا جاتا تھا۔
خواجہ غلام السیدین کی نشر نہایت سادہ لیکن پر زور اور موثر ہوتی ہے۔ وہ اپنی بات کو بیان کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے الفاظ سے وہ کام لیتے ہیں جو بہت سے لوگ بڑے بڑے الفاظ سے بھی نہیں لے سکتے۔

لفظ ومعنی
مشاہیر : مشہور کی جمع، یعنی مشہور لوگ
دل آویزی : ول کو کھینچنے کی صفت
محاسبہ کرنا : حساب کرنا، جائزہ لینا
ریاضت : محنت، جدوجہد
کیسہ : تھیلی
حقیر : بے وقعت
تکمیل : مکمل کر نا مکمل ہونا
عطیہ : بخشش، انعام
منصور : ایک مشہور صوفی تھے ان کے خیالات کی وجہ سے سزائے موت دی گئی تھی (عربی) میں مطلق حق ہوں لیکن میں خدا ہوں
اناالحق : میں مطلق حق ہوں یعنی میں خدا ہوں
بدگوئی : برا کہنا
کلمہ : اچھی بات
حسن ظن : نیک خیال، اچھا خیال
اعتماد : یقین
تحقیر : کسیکو حقارت کی نظر سے دیکھنا، کم تر ٹھہرانا
منصب : عہدہ
گونا گوں : قسم قسم کے
اجاگر کرنا : روشن کرنا ، ظاہر کرنا
متعدی : کوئی چیز، مثلاً بیماری جو چھوت سے لگتی ہو
ازل : ہمیشگی

غور کرنے کی بات
جینے کا سلیقہ خواجہ غلام السیدین کا بہت اچھا مضمون ہے۔ اس میں مصنف نے یح معنوں میں زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھایا ہے۔ ان کے نزدیک زندگی گزارنے کے لیے جہاں ان لوگوں کی صحبت کی ضرورت ہوتی ہے وہاں کام کرنا بھی اچھی زندگی کے لیے بہت ضروری ہے۔ دنیا میں جتنے بھی بڑے لوگ گزرے ہیں اگر آپ ان کی زندگی کے حالات پڑھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہر بڑے انسان کے پیچھے اس کے اچھے کام ہیں جنھوں نے اس کے نام کو زندہ رکھا ہے لیکن بڑا آدمی بنانے کے لیے انسان کو بہت سی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔

سوالوں کے جواب لکھیے
1. ڈاکٹر ذاکر حسین نے کام کی کیا اہمیت بتائی ہے؟
جواب: ذاکر حسین کہتے ہیں کام کھیل نہیں ، کام کام ہے، بامقصد محنت ہے۔ کام دشمن کی طرح اپنا محاسبہ کرتا ہے اور اس میں جو پورا اترتا ہے وہ خوشی دیتا ہے جو اور کہیں نہیں ملتی۔ کام ریاضت ہے، کام عبادت ہے۔

2. تنگ دلی ، بد نیتی اور شبہے کی ذہنیت کس طرح گھاٹے کا سودا ہے؟
جواب: جو شخص تنگ دل ہوتا ہے اس کی نیت میں بھی فتور ہوتا ہے۔ وہ دوسروں کو بھی شبہ کی نظر سے دیکھتا ایسا شخص دوسروں کی نظروں میں گر جاتا ہے اور لوگ اسے اچھا نہیں سمجھتے ۔ یہی بات گھاٹے یعنی نقصان کا سودا ہے۔ جوشخص دوسروں کو اچھا کہتا ہے ان کی خوبیوں کو بیان کرتا ہے، اس شخص سے لوگ خوش ہوتے ہیں اسے اچھا کہتے ہیں، اس سے تعلقات قائم کرتے ہیں یہ فائدے کا سودا ہے-

3. مصنف کی نظر میں کیسے لوگ جینے کے سلیقے سے نا آشنا ہیں؟
جواب:جو لوگ خود کو بہت بہتر کہتے ہیں اور دوسروں کو کمتر اور حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اپنی دولت اور خاندانی منصب سے دوسروں پر رعب ڈالنا چاہتے ہیں وہی جینے کے سلیقے سے ناآشنا ہیں۔

4. اپنی گفتگو کے ذریعے ہم کس طرح کامیابی حاصل کر سکتے ہیں؟
جواب: اچھی گفتگو کرکے ہم دوسروں کہ دل کو جیت سکتے ہیں۔

5. مصنف نے اس مضمون میں کیا سمجھانے کی کوشش کی ہے بتلائیے ۔
جواب

عملی کام
”چراغ کا کمال یہ ہے کہ خواہ کتنا ہی چھوٹا ہو ساری دنیا کا اندھیرا اسے نہیں بجھا سکتا۔ اسی طرح کے چند جملے جو آپ کو اچھے لگے ہوں انھیں اپنی کاپی میں لکھے اور زبانی یاد کیجیے۔ اس مضمون میں ایک جگہ دو لفظ آئے ہیں بامقصد اور بے مقصد ان الفاظ میں صرف بنے اور باہ کے استعمال سے لفظ کے معنی ہی بدل گئے ہیں یعنی با مقصد جس کا کوئی مقصد ہو اور
بے مقصد جس کا کوئی مقصد نہ ہو۔ آپ بھی ایسے چند الفاظ تھے جن میں ہے اور یا کا استعمال کیا گیا ہو۔
مصنف اپنی بات میں زور اور اثر پیدا کرنے کے لیے بھی بھی تاریخی واقعات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس مضمون میں بھی مصنف نے ایک صوفی حضرت منصور حلاج کی طرف اشارہ کیا ہے۔ انھوں نے ایک خاص کیفیت میں ان امت میں خدا ہوں) کہہ دیا تھا۔ لوگوں نے یہ سمجھا کہ وہ خدائی کا دعوی کررہے ہیں، جس کی وجہ سے بادشاہ وقت نے انھیں سزائے موت دی تھی۔ اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ مندرجہ ذیل تاریخی اشارات کے بارے میں اپنے استاد سےون کا خزانہ نمرود کی خدائی حسن يوسف
نیچے لکھے ہوئے الفاظ کو جملوں میں استعمال کیجیے:
لفظ : معنی : جملہ
تکمیل : مکمل کرنا : کام کی تکمیل تک آپ کہں نہیں جا سکتے۔
عطیہ : بخشش،انعام : اسکول کو ایک بڑے عطیہ کا انتظار تھا۔
منصب : عہدہ : ایک اونچے منصب پر پہنچنا سلیم کا خواب تھا۔
اعتماد : بھروسہ، یقین : سلیم کو اپنے فوجیوں پر اعتماد تھا۔

کلک برائے دیگر اسباق

0 comments:

Post a Comment

خوش خبری