آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Monday 4 May 2020

Iswaran - The Story Teller - Urdu- R K Laxman

ایشورن۔ ایک قصّہ گو
آر کے لکشمن


مہیندر  ایک فرم میں جونیئر سپروائزر تھا جو مختلف قسم کے تعمیراتی سائٹ  جیسے فیکٹریوں، پلوں اور ڈیموں پر سپروائزری کی پیش کش کرتا تھا ۔ اس کا کام وہاں چلنے والے کام پر نظر رکھنا تھا۔اسے اپنے کام  کے سلسلے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا پڑتا تھا۔کوئلے کی کان سے لے کر ریلوے پُل کے تعمیراتی جگہ تک۔
وہ کنوارا تھا۔ اس کی ضرورتیںکم تھیں اور وہ اپنے آپ کو ہر طرح کی عجیب و غریب حالتوں میں ایڈجسٹ کرنے کے قابل تھا ۔ لیکن اس کے پاس ایک اثاثہ تھا اس کا باورچی ، ایشورن۔ باورچی  کا مہیندر کے ساتھ کافی لگاؤ  تھا اور جہاں بھی اس کی پوسٹنگ ہوتی بلاجواز اس کے پیچھے چل پڑتا۔ وہ مہیندر کے لئےکھانا پکا تا ،  کپڑے دھوتا اور رات کے وقت اپنے آقا سے باتیں کرتا۔
وہ مختلف موضوعات پر نہ ختم ہونے والی کہانیاں  سنااور  بنا سکتا تھا۔
ایشورن میں بنجر زمین  میں ، سبزیاں اور کھانا پکانے کے اجزا پیدا کرنے کی حیرت انگیز صلاحیت موجود تھی ، جس کے آس پاس میلوں دور تک کوئی دکان نہ تھی ۔ وہ۔ زنک شیٹ شیلٹر پہنچنے جو کے مہندر کے نئے کام کی جگہ تھی  یہاں پہُنچ کر ایشورن نے بہت لذیذ پکوان تیار کیے جو کے بلکل تازی سبزیوں سے بنے تھے۔
مہیندر صبح سویرے اٹھتا اور ناشتے کے بعد کام پر روانہ ہوتا ، اپنے ساتھ کچھ تیار کھانا لے کر جاتا ۔ ادھر ، ایشورن صاف صفائی کرتا ، کپڑے دھوتا اور آرام سے نہاتا ،  اس وقت تک لنچ کا وقت ہوجاتا ۔ کھانے کے بعد ، وہ کتاب پڑھتا  کتاب عام طور پر کچھ مشہور تامل زبان  کے ناول ہوتے ۔بہت صفحات پڑھ لینے کے بعد  اُسکی تصوّر اور داستان گوئی میں اضافہ ہو جاتا۔
ایشورن کا اپنا کردار تمل مصنفوں سے متاثر تھا  جب وہ چھوٹے چھوٹے واقعات کو بھی بیان کر رہا ہوتا تو وہ پیش بند مزید پر اسرار طریقے سے سناتا اور حیرت میں اس کو ختم کرتا ۔ مثال کے طور پر ، وہ یہ کہنے کے بجائے کہ وہ راہ پر ایک اکھڑے ہوئے درخت کے پاس آگیا ہے ، بھوؤں کو پراسرار انداز میں محراب بنا کر اور ہاتھوں کو ڈرامائی اشارے سے تھامے کہتا، ”سڑک ویران ہوگئی تھی اور میں بالکل تنہا تھا۔ اچانک میں نے کچھ ایسی چیز دیکھی جس کو دیکھ کر لگتا   تھا کہ ایک بہت بڑا جنگلی درندہ سڑک کے  اُس پار پھیلا پڑا ہے۔ میں آدھا مڑ گیا اور مڑ کر واپس گیا۔ لیکن جب میں قریب پہنچا تو میں نے دیکھا کہ یہ ایک گرا ہوا درخت ہے ، جس کی خشک شاخیں دور تک پھیل چکی ہیں۔“ مہیندر خود کو واپس اپنی  کرسی پر کھینچتا اور  غور سے  ایشورن کی داستانیں سنتا۔
”جس جگہ سے میں آیا ہوں وہ لکڑی کے لئے مشہور ہے ، “ ایشورن شروع کرتا ہے۔ ”وہ جگہ چاروں طرف جنگل سے بھرپور ہے۔ وہاں بہت سے ہاتھی ہیں ۔ وہ بہت خطرناک  جانور ہیں۔ جب وہ جنگلی ہوجاتے ہیں تب  انتہائی تجربہ کار مہاوت ان پر قابو نہیں رکھتا ہے۔“ اس  کے بعد ، ایشورن ایک ہاتھی کو شامل کرتے ہوئے  ایک طویل قصّے کی شروعات کرتا ہے۔
”ایک دن لکڑی کے صحن سے ایک ہاتھی فرار ہوگیا اور گھومنے پھرنے لگا ، جھاڑیوں کو کچلنے  لگا   ،  اپنی مرضی سے شاخیں توڑ رہا تھا۔ آپ جانتے ہیں ، جناب ، جب ہاتھی پاگل ہوجاتا ہے تو وہ کیسا سلوک کرتا ہے۔“ ایشورن اپنی کہانی کے جوش میں اتنا پھنس جاتا کہ وہ فرش سے اٹھ کر پھلانگ جاتا ، پاگل ہاتھی کی تقلید میں اپنے پاؤں کو فرش پر مار نے لگتا۔
”ہاتھی ہمارے شہر کے وسط  میں پہنچ کر مرکزی سڑک پر آگیا اور پھلوں ، مٹی کے برتنوں اور کپڑے فروخت کرنے والے تمام اسٹالوں کو توڑ دیا۔ گھبراہٹ میں لوگ یہاں وہاں  بھاگے! ہاتھی اب اینٹوں کی دیوار کو توڑ کر اسکول کے میدان میں داخل ہوا جہاں بچے کھیل رہے تھے ،  سب لڑکے کلاس روموں میں بھاگے اور دروازوں کو سختی سے بند کیا۔ وہ جانور  گھوم رہا ،ہاتھی نے فٹ بال کا گول پوسٹ کھینچا ، والی بال کا جال پھاڑ دیا ، پانی  رکھے ہوئے ڈرام کو لات مار کر چپٹا کیا ، اور جھاڑیوں کو جڑ سے اکھاڑ دیا۔ اسی دوران ، تمام استا د اسکول کی عمارت کی چھت پر چڑھ گئے تھے۔ وہاں سے انہوں نے بے بسی سے ہاتھی کی تباہی  دیکھی۔ زمین پر نیچے کوئی  نہیں تھا۔ سڑکیں خالی تھیں جیسے پورے قصبے کے باسی اچانک غائب ہو گئے ہوں۔
میں اس وقت جونیئر کلاس میں پڑھ رہا تھا اور چھت سے پورا ڈرامہ دیکھ رہا تھا۔ مجھے نہیں معلوم  اچانک میرے دماغ میں کیا آیا۔ میں نے ایک استا د کے ہاتھ سے ایک چھڑی پکڑی اور سیڑھیاں اتر کر باہر کی طرف بھاگا۔ ہاتھی نے  ایک شاخ کو گرا دیا ،  یہ خوفناک لگتا تھا.مگر میں آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھا۔  لوگ اس منظر کو قریبی گھروں کی چھتوں سے خوفزدہ نظروں سےدیکھ رہے تھے۔ ہاتھی نے سرخ آنکھوں سے میری طرف دیکھا ، ہاتھی میری طرف جھپٹنے کو تیار تھا  اس وقت میں آگے بڑھا اور  اپنی ساری قوت کو اکٹھا کرتے ہوئے  جلدی سے اس کی تیسری انگلی پر مارا حیوان ایک لمحے کے لئے دنگ رہ گیا۔ تب یہ سر سے پاؤں تک ہل گیا - اور وہیں ڈھیرہوگیا۔“
اس موقع پر ایشورن اس کہانی کو ادھورا چھوڑ دیتا ،”میں گیس جلانے اور رات کا کھانا گرمانے کے بعد واپس آؤں گا۔“
مہندر جو بڑے غور سے کہانی سن  رہا تھا کہانی کے درمیان میں لٹکا رہ گیا ۔
جب  ایشوران لوٹ کر آتا ، وہ کہانی نہیں سناتا تھا  مہیندر کواُسے یاد دلانا پڑتا تھا کہ کہانی ختم نہیں ہوئی تھی آخر میں کیا ہوا ۔
 ”خیر ، ایک ویٹنری ڈاکٹر کو جانور کو ٹھیک کرنے کے لئے طلب کیا گیا تھا ، دو دن بعد اسے جنگل کی طرف روانہ کردیا گیا۔“
”ٹھیک ہے ، تم نے اس کا انتظام کیسے کیا ، ایشورن - تم نے اس درندے کو کیسے نیچے  گرایا؟“
”میرے خیال میں ، اس کا جاپانی فن سے کوئی تعلق ہے۔ کراٹے یا ’جو-جیتسو‘  کہتے ہیں۔ میں نے اس کے بارے میں کہیں پڑھا تھا۔ آپ دیکھیں گے کہ عارضی طور پر یہ اعصابی نظام کو مفلوج کردیتا ہے۔“
ایسا کوئی دن نہیں گزرتا تھا جب ایشورن کوئی پُر اسرار ،سسپنس سے بھرپور ڈراؤنی کہانی نہیں سناتا چاہے وہ قابلِ اعتبار ہو یہ نہ ہو۔
مہیندر کو ایشورن کے انداز میں کہانی سننا بہت پسند تھا ۔ایشورن مہیندر کے لیے ٹیلی ویژن کا کام کرتا تھا۔
 ایک صبح جب مہیندر ناشتہ کر رہا تھا ایشورن نے پوچھا ، ”کیا میں آج رات کے کھانے کے لئے کچھ خاص بنا سکتا ہوں؟ بہر حال ، آج کا دن ایک اچھا دن ہے۔ روایت کے مطابق ہم آج اپنے پروجوں کی روح کو کھانا کھلانے کے لئے طرح طرح کے پکوان تیار کرتے ہیں۔“

 اس رات مہیندر نے انتہائی  لذیذ کھانے کا لطف اٹھایا اور اُس نے ایشورن  کی مہارت کی تعریف کی۔ وہ بہت خوش تھا لیکن ، اچانک ایشورن نے بھوت پریت کی کہانی سناني شروع کردی۔
”آپ جانتے ہیں کے یہ فیکٹری کی جگہ کبھی قبرستان تھی ۔“
مہند ر لذیذ کھانے کھا کے بیٹھا تھا یہ سن کر اسے جھٹکا لگا۔
ایشورن کہتا گیا میں تو پہلے دن ہی  سے جانتا تھا جب میں نے راستے میں بہت سی ہڈیاں اور کھوپڑیاں دیکھی تھیں۔
ایشورن سناتا گیا ”میں نے دو راتوں سے بھوت کو بھی دیکھا ہے، میں ڈرتا نہیں ہو ںکیونکہ میں بہادر ہوں، لیکن ایک عورت کی روح جو پورے چاند کی آدھی رات کو دکھائی دیتی ہے۔یہ بہت ڈراؤنی عورت ہے اُلجھے ہوئے بال خوفناک جھریوں سے بھرا چہرہ اور ہاتھ میں ایک بچّے کا کنکال لیے رہتی ہے ۔“
 مہیندر یہ سن کر کانپ اٹھا اُس نے ایشورن کو ٹوکا” تم پاگل ہو بھوت پریت کچھ نہیں ہوتا  یہ سب تمہاری سوچ ہے میرے خیال سے تمہارا ہاضمہ ٹھیک نہیں اور  دماغ بھی ،تم  بکواس کر رہے ہو۔“
وہ سونے کے لئے چلا گیا اور سوچنے لگا کہ ایشورن اگلے دو دن تک اُداس رہیگا لیکن اگلے دن ایشورن  پہلے کی طرح خوش اور باتونی تھا۔
اس دن سے مہیندر کو سوتے وقت بے چینی رہنے لگی ہر  رات وہ اپنے کمرے میں کھڑکی سے اندھیرے میں جھانکتا تھا کے آس پاس کوئی بھوت یا روح تو نہیں ۔
لیکن اسے کچھ نظر نہیں آتا۔
 ایک رات مہیندر کی نیند کھڑکی کے پاس  کراہنے کی آواز سے کھلی۔ پہلے تو اُس نے یہ سمجھا کے کوئی بلی گھوم رہی ہے مگر آواز کسی انسان کی لگ رہی تھی۔
اس نے سوچا کہ جھانک کر دیکھے مگر وہ ڈرتا تھا کے کوئی بھوت نہ ہو مگر آواز تیز ہوتی گئی  اور یہ صاف ہو گیا کے یہ کسی بلی کی آواز نہیں ہے وہ اپنے آپ کو نہیں روک سکا اور اُس نے نیچے جھانکا، ایک سایہ نیچے کھڑا تھا۔  اس کو ٹھنڈا پسینہ آگیا اور وہ تکیے پر آ گرا ۔جب وہ  اس  سایہ کے خوف سے تھوڑا ٹھیک ہوا تو اُس نے اسے اپنا دماغی فتور مان لیا۔اگلے دن جب وہ اٹھا  اور کمرے سے نکلا تو رات کی باتیں اُس کے دماغ سے نکل گئی تھیں۔ ایشورن نے اسے دوپہر کے کھانے کا تھیلا پکڑایا پھر ہنس کر کہا:
صاحب اس دن کو یاد کیجیے ایک عورت جو ہاتھ میں بچّہ لیے تھی آپ اس بات کے لیے مجھ سے بہت ناراض ہوئے
آپ نے بھی تو اسے پچھلی رات دیکھ لیا ۔
جب میں نے آپ کے کمرے سے آواز آتی سنی تو میں دوڑ کر آیا تھا ۔
مہیند ر ٹھنڈا پڑ گیا اور اس سے پہلےکہ ایشورن پوری بات کہتا   وہ چلا گیا۔
اوراُسی دن  اُس نے آفس میں لیٹر دے دیا کے اب وہ یہاں نہیں رہے گا اور کل ہی واپس چلا جائیگا۔

0 comments:

Post a Comment

خوش خبری