آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Saturday 26 December 2020

Tinka Thoda Hawa Se Udd Jata Hai NCERT Class 9 Jaan Pehchan

تنکا تھوڑی ہوا سے اڑ جاتا ہے
ایک عقاب گھٹاؤں کو چیرتا ہوا ایک اونچے پہاڑ کی چوٹی پر پہنچا اور چگر پر چکر لگا کر صدیوں پرانے ساگوان کے ایک درخت پر بیٹھ گیا۔ وہاں سے جو منظر دکھائی دے رہا تھا، اس کی خوب صورتی میں وہ کھو سا گیا اور اسے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے دنیا ایک سرے سے دوسرے سرے تک تصویر کی طرح سامنے رکھی ہوئی ہے۔ کہیں دریا میدانوں میں بل کھاتے ہوئے بہہ رہے ہیں۔
کہیں جھیلیں آئینے کی مانند چمک رہی ہیں۔ کہیں پھولوں سے ہے پیڑ پودے جھوم رہے ہیں اور کہیں سمندر غصے کے عالم میں اپنی پیشانی پر بل ڈالے ہوئے اپنے منہ سے جھاگ اڑا رہا ہے۔
اے خدا ! عقاب نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا: میں کس طرح تیرا شکر ادا کروں؟ تو نے مجھے پرواز کی ایسی طاقت عطا کی ہے کہ دنیا میں کوئی بلندی نہیں جہاں میری رسائی نہ ہو سکے۔ میں فطرت کے حسین مناظر کا لطف ایسے مقام پر بیٹھ کر اٹھا ل سکتا ہوں، جہاں کسی اور کا گذر ممکن نہیں ۔ عقاب اور کچھ کہنا چاہتا تھا کہ نزدیک ہی سے ایک مکڑی بول اٹھی: اے عقاب! تو آخر کیوں اپنے منہ مٹھو بنتا ہے؟ کیا میں تجھ سے کچھ کم ہوں؟
اس آواز پر عقاب چوکنا ہوا اور ادھر ادھر نظریں دوڑائیں ۔ دیکھتا کیا ہے کہ نزدیک ہی ایک مکڑی بیٹھی جالا تن رہی ہے۔
عقاب نے پوچھا: تو اس سر بہ فلک چوٹی پرکس طرح پہنچی؟ وہ پرندے جو اپنی بلند پروازی پر ناز کرتے ہیں، وہ بھی یہاں تک پہنچنے کا حوصلہ نہیں  رکھتے۔ تو تو مکڑی ہے، پر بھی نہیں تیرے، جو اڑ سکے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ تو رینگتی رینگتی یہاں تک آگئی؟
  مکڑی نے جواب دیا: نہیں ، میں رینگتی رینگتی یہاں نہیں پہنچی۔
  عقاب : پھر تو یہاں کیسے آگئی؟
  مکڑی: جب تو اڑنے لگا، میں تیری دم سے چپک گئی ۔ اس طرح تو نے خود مجھے یہاں تک پہنچا دیا لیکن اب میں تیری مدد کے بغیر یہاں تیرے برابر ٹھہر سکتی ہوں ۔ تو اکیلا ہی یہاں سر بلند نہیں، میں بھی تیرے ساتھ ہوں۔
  اتنے میں ایک طرف سے تیز وتند ہوا کا جھونکا آیا اور مکڑی پہاڑ کی چوٹی سے زمین پر آرہی ۔ عقاب اپنی جگہ بیٹھا رہا۔
  دنیا میں ایسے آدمی بھی ہیں جو مکڑی کی خصلت کے ہوتے ہیں ۔ اور اپنے کسی ہنر یا اپنی کسی قابلیت کے بغیر کسی بڑی شخصیت سے چمٹ کر سماج میں اپنا مقام پیدا کر لیتے اور سینہ پھلا کر ایسا چلتے ہیں گویا انھوں نے اپنے ذاتی جوہر کی وجہ سے یہ مقام حاصل کیا ہے۔ غرور ان کی عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے اور وہ نہیں جانتے کہ جس طرح مکڑی ہوا کے ایک جھونکے کی تاب نہ لاسکی، وہ بھی دنیا کی آزمائشوں کے مقابلے میں اپنا مقام کھو سکتے ہیں۔
  . (روسی کہانی سے ترجمہ)

پروفیسر محمد مجیب
(1902 -1985)
پروفیسر محمد مجیب لکھنؤ میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی۔ اعلی تعلیم کے لیے 1919 میں آکسفورڈ یونیورسٹی، لندن
گئے۔ وہاں جدید تاریخ میں بی ۔ اے (آنرز) کیا اور فرانسیسی زبان سیکھی۔ برلن جا کر انھوں نے جرمن اور روسی زبانیں سیکھیں۔ ہندوستان واپسی کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں تدریسی اور انتظامی امور سے وابستہ ہوگئے۔ 1948 میں جامعہ کے وائس چانسلر بنائے گئے۔
پروفیسر محمد مجیب کا شمار اردو کے ممتاز نثر نگاروں میں ہوتا ہے۔ وہ مورخ ، ڈراما نگار اور مترجم بھی تھے۔ مجیب صاحب نے آٹھ ڈرامے لکھے جن کے عنوانات کھیتی ، انجام ، خانہ جنگی، حبہ خاتون، ہیروئن کی تلاش، دوسری شام، آزمائش اور آؤ ڈراما کر یں، ہیں۔
پروفیسر محمد مجیب اپنی منصبی ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا کام مسلسل کرتے رہے۔ انھوں نے دو سو سے بھی زیادہ مضامین لکھے۔ اردو اور انگریزی میں ان کی تینتالیس (43) کتابیں شائع ہوئیں۔
پیش نظر سبق روسی کہانی سے محمد مجیب کا ترجمہ ہے۔

0 comments:

Post a Comment

خوش خبری