آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Saturday, 29 August 2020

Tazkira Imam Aali Muqam Hazrat Imam Hussain رضی اللہ تعلیٰ عنہ

امام باڑہ چھوٹی درگاہ ،حضرت دیورہ۔ بشکریہ ضو فشاں فاطمہ

محرم الحرام مسلمانوں کے لیے ایک عظیم مہینہ ہے جس سے اسلامی سال کا آغاز ہوتا ہے۔اس ماہ کے دیگر فضائل کے ساتھ عظیم شہادت کا ایک ایسا واقعہ وابستہ ہے جس نے عالم اسلام کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سوگوار کردیا ہے۔ اس مہینہ کے آغاز کے ۱۰ دنوں میں امام عالی مقام کےفضائل اور اُن کی شہادت کا بیان زور و شور سے ہوتا ہے۔ اوردنیاغم میں ڈوب جاتی ہے۔ خواہش تھی کہ آسان زبان میں حضرت امام حسین ؓ کی سیرت بچّوں کے سامنے پیش کی جائے جن کی شہادت کا واقعہ وہ بچپن سے ہی سنتے آرہے ہیں ۔ اس سلسلہ میں حضرت الحاج  علامہ محمد حسام الدین صاحب مدظلہ کا ایک رسالہ ”تذکرہ حسین“ نظر سے گزراجس میں جگر گوشہ رسول الثقلینؐ سیدنا امام حسینؓ کی مبارک زندگی کے حالات،اخلاق و فضائل و واقعۂ شہادت کو بیان کیا گیا ہے ۔عقیدت و محبت میں ڈوبی اس تحریر نے حد درجہ متاثر کیا۔ یہ تحریر گرچہ بحق مصنف محفوظ تھی لیکن صرف اس وجہ سے اسے آپ تک نہ پہچانا نا گزیر تھا لہٰذا آئینہ حضرت مولانا سے معافی کی درخواست کے ساتھ اس عقیدت بھری تحریر کو آپ تک پہنچانے کی جسارت کر رہا ہے۔ 

حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ

از: حضرت الحاج علامہ محمد حسام الدین صاحب مدظلہ

نام ،نسب،ولادت 

 حسینؓ ؓ نام۔ ابو عبداللہ کنیت۔ سید و شہید لقب آپ کے والد علی مرتضیٰؓ اور والدہ ماجدہ  سیدہ بتول  فاطمہ زہرہ جگر گوشئہ رسول تھیں۔ اس لحاظ سے آپ کی ذاتِ گرامی دوہرے شرف کی حامل تھی-

علی کا لخت جگر فاطمہ کا نور العین

دُر یگانہ   ویکتائے  مجمع   البحرین

      آپ ہجرت کے چوتھے سال شعبان کی چوتھی تاریخ منگل کے روز مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ ولادت با سعادت کی خبر سنکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمانےلگے ”بچے کو دیکھاؤ“ پھر نو مولود صاحبزادے کو گود میں لے کر کانوں میں اذان دی، اس طرح گویا پہلی مرتبہ خود زبان وحی و الہام نے اس مبارک بچے کے کانوں میں توحید الٰہی کا صور پھونکا در حقیقت اسی صور کا اثر تھا کہ۔۔۔

سرداد نداد دست در دست یزید

حقا کہ بنائے لا الہ است حسینؓ 

     والدین نے حرب نام رکھا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدل کر حسینؓ ؓ رکھا۔ حسن و جمال میں آپ سینے سے پاؤں تک حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ تھے۔ چہرہ مبارک ایسا تاباں تھا کہ لوگ اس کی روشنی میں راہ چلتے تھے ۔  

فضائل 

امام ہمام کی ذاتِ گرامی مجمع الفضا ئل تھی ۔ علم و عمل، زہد تقویٰ ،جود و سخا ،شجاعت و فتوت، اخلاق و مروت ، صبر و شکر، حلم و حیا غرض ہر فضیلت میں آپ کو کمال حاصل تھا۔

       آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر معمولی محبت و شفقت آپ کی کتاب فضیلت کا نہایت جلی عنوان ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

 ( ا )اہل بیت میں مجھکو حسنؓ و حسینؓ ؓ سب سے زیادہ محبوب ہیں 

(۲)  خدا یا میں ان کو محبوب رکھتا ہوں، اس لئے تو بھی انہیں محبوب رکھ اور ان کے محبوب رکھنے والوں کو بھی محبوب رکھ

(۳) حسن ؓوحسینؓ  ؓمیرے جنت کے دو پھول ہیں 

(۴) حسنؓ و حسینؓ  ؓنوجوانان جنت کے سردار ہیں

(۵) حسینؓ ؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ ؓ سے ہوں، جو شخص حسینؓ  کو دوست رکھتا ہے خدا اس کو دوست رکھتا ہے۔ 

عراق کے رہنے والوں میں ایک شخص نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مسٔلہ پوچھا کہ اگر کوئی شخص احرام کی حالت میں مچھر کو مار ڈالے اس کا کیا کفارہ ہے۔ حضرت عبداللہ نے کہا اہل عراق پر افسوس ہے مچھر کے متعلق فتویٰ پوچھتے ہیں اور رسول خدا کے نواسے حسینؓ  کو قتل کر دیا ہے حالانکہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ فرماتے تھے کہ حسن وحسینؓ  دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔

       ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے امام حسن کو سیدھے کاندھے اور امام حسینؓ  کو بائیں پر بیٹھا لیا تھا حضرت یعلی بن مرّہ رضی اللہ عنہ نے کہا صاحب زادے تمہاری سواری کتنی بہتر ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دونوں سوار بھی بہتر ہیں اور ان کے والد ان سے بہتر ہیں۔

       حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم امام حسینؓ  کا ہاتھ لے کر فرماتے کہ اے  نور نظر سوار ہو، پس حسینؓ  اپنے پاؤں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پائے مبارک پر رکھ دیتے پھر حضورؐ آپ کو اٹھا کر اپنے سینہ مبارک پر بیٹھا لیتے  اور فرماتے خداوند امیں اس کو دوست رکھتا ہوں تو بھی دوست رکھ۔

صحابہ کرام ؓ کا امام کی تعظیم کر نا

 حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں امام حسینؓ  کی عمر  ۷ ، ۸ سال سے زیادہ نہ تھی تاہم نبیرہ رسول کی حیثیت سے آپؐ حضرت حسینؓ  کو بہت مانتے تھے اور فرمایا کرتے محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے اہلبیت کی تعظیم کر و۔

       حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت حسن و امام حسینؓ  پر بے انتہا شفقت فرماتے تھے اور ان کی فضیلت و استحقاق اعلیٰ کو کسی طرح کم نہیں ہونے دیتے چنانچہ جب بدری صحابہ کے لڑکوں کا دو دو ہزار وظیفہ مقرر کیا تو حضرت حسینؓ  کا محض قرابت رسول کے لحاظ سے پانچ ہزار ماہوار مقرر کیا۔

       ایک دفعہ یمن سے چادریں آئیں۔ حضرت عمر نے تمام صحابہ میں تقسیم کر دیں ۔چادریں بڑی تھیں اور ان میں سے کوئی حضرت امام حسن و حضرت امام حسینؓ  کے لائق نہ تھیں۔ حضرت عمر قبر اور منبر نبویؐ کے درمیان تشریف فرما تھے۔ لوگ ان چادروں کو پہن پہن کر شکریہ کے طور پر آکر سلام کر تے تھے ۔آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ مجھے تمہیں چادریں پہنا کر مجھے کوئی خوشی نہیں ہو رہی کیونکہ ان دونوں صاحبزادوں کے جسم ان چادروں سے خالی ہیں۔ اس کے بعد فوراً حاکم یمن کو حکم بھیجا کہ جلد سے جلد حسینؓ  کے اندازہ کے موافق چادریں بنوا کر بھیجیں ۔چنانچہ وہ چادریں آئیں اور امام حسن و امام حسینؓ  نے پہنیں تو حضرت عمر بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ جب تک یہ چادریں ان پر نہ دیکھیں طبیعت خوش نہ ہوئی۔

       حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت حسینؓ  رضی اللہ عنہ کو اپنے صاحب زادے عبد اللہ سے بھی زیادہ مانتے تھے حالانکہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ان دونوں سے عمر میں زیادہ اور ذاتی فضل وکمال میں صحابہ کے پاس مسلم تھے ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ امام حسن و امام حسینؓ  کو اکثر اپنے پاس آنے کے واسطے کہا کرتے تھے کسی روز نہ دیکھتے تو پوچھتے آج آپ کیوں نہیں دکھائی دئیے۔

       ایک مرتبہ حضرت حسینؓ  رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور دیکھاکہ عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ کو اندر نہیں بلایا ہے اس لئے وہ دروازہ پر کھڑے ہیں۔ حسینؓ  رضی اللہ عنہ بھی ان کے پاس کھڑے ہو گئے اور بغیر ملے ہوئے ان ہی کے ساتھ واپس چلے گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو آدمی بھیج کر آپ کو بلایا اور پوچھا آپ واپس کیوں لوٹ گئے؟ انہوں نے جواب دیا امیر المومنین میں حاضر ہوا تھا اور دیکھا کہ آپ کے صاحبزادہ کو بھی اندر آنے کی اجازت نہ تھی اس لیے میں عبداللہ کے ساتھ کھڑا رہا پھر انہیں کے ساتھ واپس آ گیا ۔حضرت عمر نے فرمایا آپ کو ان کا ساتھ دینے کی کیا ضرورت تھی میرے پاس آنے کی اجازت حاصل کرنے کے آپ ابن عمر سے زیادہ حقدار تھے۔ ہماری بزرگی تو خدا کے بعد آپ ہی سے ہے۔

       ایک دن مال غنیمت تقسیم کر نے لگے تو امام حسن سے شروع کیا اور ان کو ہزار درہم دیئے اور پھر امام حسینؓ  کو ہزار درہم دیے جب اپنے بیٹے عبداللہ کی باری آئی تو پانسو درہم ان کو دیے ۔انہوں نے کہا امیر المومنین میں قوی آدمی ہوں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تلوار ماری ہے اور امام حسن و امام حسینؓ  تو اس وقت بچے تھے جو مدینہ کی گلیوں میں کھیلتے پھر تے تھے۔ ان کو ہزار ہزار درہم دیا گیا اور مجھکو پانسو یہ میرے حق سے کم ہے ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ جوش میں آ ئے اور فرما نے لگے جا تو بھی ان کے باپ جیسا باپ، ان کی ماں جیسی ماں، ان کے نانا جیسے نانا، ان کی نانی جیسی نانی ، ان کے چچا جیسے چچا ان کے ماموں جیسا ماموں، ان کی خالہ جیسی خالہ، لے آ جس کو تو نہیں لا سکے گا تجھے معلوم نہیں ان کا باپ علی مرتضیٰ،ماں فاطمتہ الزہرہ ،نانا محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ،نانی خدیجہ الکبریٰ ، چچا جعفر طیار ، ماموں ابرہیم  ا بن رسول اللہ رضی اللہ عنہ ، خالہ ابن کلثوم  اور رقیہ رسول اللہ کی بیٹیاں ہیں ، عبداللہ ابنِ عمر یہ سن کر خاموش ہوگئے۔

       حضرت عمر وابن العاص ایک دن کعبہ شریف کے سایہ میں بیٹھے ہوئےتھے دیکھا کہ حضرت حسینؓ  رضی اللہ عنہ تشریف لارہے ہیں حضرت عمر و ابن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا یہ شخص(یعنی حسینؓ  رضی اللہ عنہ) آسمان والوں کے پاس تمام زمین والوں میں سب سے زیادہ محبوب ہیں۔

       حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت امام حسینؓ  رضی اللہ عنہ کے نعلین مبارک سے خاک صاف کر تے۔ امام منع فر ما تےتو کہتے کی خدا کی قسم جو کچھ میں جانتا ہوں لو گوں کو معلوم ہو جائے تو آپ کو اپنی گردنوں پر سوار کر لیں گے۔

       حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور امام حسینؓ  رضی اللہ عنہ کے تعلقات ہمیشہ نہایت خوش گوار رہے۔ امیر معاویہ رضہ کے زمانے کی لڑائیوں میں حضرت حسینؓ  رضی اللہ عنہ برابر شریک ہوتے تھے چنانچہ سن ۴۹ میں قسطنطنیہ کی مشہور مہم میں مجاہدانہ شرکت کی تھی۔

       حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے خلافت سے دستبرداری کے وقت امام حسینؓ  رضی اللہ عنہ کے لئیے جو رقم مقرر کر وائی تھی امیر معاویہ برابر آپ کو بھیجتے تھے بلکہ اس رقم کے علاوہ بھی مسلو ک ہو تے رہتے تھے۔

       اپنی وفات کے وقت امیر معاویہ نے حضرت حسینؓ  کے بارے میں یزید کو ان الفاظ میں وصیت کی تھی کہ” عراق والے حسینؓ  رضی اللہ عنہ کو تمہارے مقابلہ میں لا کر چھوڑیں گے لیکن جب وہ تمہارے مقابلہ میں آئیں اور تم کو ان پر قابو حاصل ہو جائے تو در گزر سے کام لینا کیونکہ وہ قربتدار ہیں۔ ان کا بڑا حق ہے اور وہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے عزیز ہیں۔

عبادت

 حضرت امام حسینؓ  رضی اللہ عنہ کو تمام عبادات خصوصاً نماز سے بڑا شوق تھا۔ نماز کی تعلیم بچپن میں خود صاحب شریعت علیہ الصلواۃ والتسلیم سے حاصل کی تھی ۔اسی کا اثر تھا کے شب وروز میں ایک ایک ہزار نوافل ادا فرماتے تھے۔  روزے بھی کثرت سے رکھتے۔حج بھی بکثرت کرتے تھے چنانچہ آپ نے ۲۵ حج پاپیادہ ادا کیے۔

جودو سخا

 مالی اعتبار سے آپ کو خدا نے جیسے فارغ البالی عطا فرمائی تھی ۔ویسی ہی آپ اس کی راہ میں کثرت سے خیرات کرتے تھے۔ کوئی سائل کبھی آپ کے دروازہ سے ناکام واپس نہ ہو تا تھا۔ ایک مرتبہ ایک سائل دردولت پر حاضر ہوا اس وقت آپ نماز میں مشغول تھے۔ سائل کی صدا سن کر جلدی جلدی نماز ختم کر کے باہر نکلے اور خادم قنبر سے پوچھا کیا ہمارے اخراجات میں سے کچھ باقی رہ گیا ہے؟ قنبر نے جواب دیا کہ آپ نے دو سو درہم اہل بیت میں تقسیم کر نے کے لئے دیئے تھے وہ ابھی تقسیم نہیں کیے گئے ہیں ۔فرمایا اس کو لے آؤ اہل بیت سے زیادہ ایک مستحق آگیا ہے۔ چنانچہ اسی وقت دو سو کی تھیلی منگوا کر سائل کے حوالے کر دی اور معذرت کی کہ اس وقت ہمارا ہاتھ خالی ہے اس لئے اس سے زیادہ خدمت نہیں کر سکتے۔

   ایک دفعہ آپ نے دیکھا کہ ایک شخص دس ہزار درہم کے لئے خدا تعالیٰ سے دعا کر رہا ہے۔ آپ مکان تشریف لائے اور دس ہزار درہم غلام کے ہاتھ سائل کے پاس بھجوا دیے۔ ایک اور موقع پر پچاس ہزار درہم ایک سائل کو عطا فرمائے۔

تواضع

 آپ حد درجہ متواضع اور منکسرالمزاج تھے اور ادنیٰ ادنیٰ اشخاص سے بےتکلف ملتے۔ ایک مرتبہ کسی طرف جا رہے تھے راستے میں کچھ فقیر کھا نا کھا رہے تھے۔ حضرت حسینؓ  رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر انہیں بھی مدعو کیا۔ ان کی درخواست پر آپ فوراً سواری سے اتر پڑے اور کھانے میں شرکت کر کے فرمایا تکبر کرنے والوں کو خدا دوست نہیں رکھتا۔

 عفو وکرم 

  ایک مرتبہ آپ اپنے مہمانوں کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ آپ کا غلام گرم گرم آش کا پیالہ دسترخوان پر رکھنے کے لیے لایا ۔اتفاقاً اس کے ہاتھ سے امام کے سر پر گر گیا اور تمام آش چہر ۂِ مبارک پر بہہ گئی۔ امام رضی اللہ عنہ نے غلام کی طرف نظر کی تو اس نے کہا ” والکاظمین الغیظ “ وہ یعنی متقی لوگ غصے کو ضبط کر نے والے ہو تے ہیں۔ آپ نے فرمایا میں نے غصہ کو ضبط کر لیا، غلام نے کہا” والعافین عن الناس“ وہ لوگوں کے قصور معاف کر نے والے ہو تے ہیں۔ آپ نے فرمایا میں نے تیرا قصور معاف کر دیا ۔ غلام نے آیتہ کا تتمہ پڑھ دیا”و اللہ یحب المحسنین “اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ آپ نے اسی وقت غلام کو آزاد کر دیا اور انعام بھی عطا کیا۔

ذریعہ معاش

  حضرت امام حسینؓ  رضی اللہ عنہ مالی حیثیت سے ہمشہ فارغ البال رہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں پانچ ہزار ماہانہ وظیفہ مقرر کیا تھا ۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بھی یہی ملتا رہا ۔اس کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے خلافت سے دستبردار ی کے وقت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے ان کے لئے دو لاکھ سالانہ مقرر کر ا دیئے تھے۔ غرض اس حیثیت سے آپ کی زندگی مطمئن تھی ۔

 ایثار و حق پرستی 

 آپ کی کتاب فضائل اخلاق کا نہایت جلی عنوان ہے اس کی مثال کے لئے تنہا واقعہ شہادت کافی ہے کہ حق کی راہ میں سارا کنبہ تہ تیغِ کرا دیا لیکن ظالم حکومت کے مقابلہ میں سپر نہ ڈالی۔ 

واقعۂ شہادت

Monday, 24 August 2020

Aaina Audio Series - 2 - Bolti Aankhein - Voice: Aqsa Usmani

 آئینہ آڈیو سیریز کی دوسری پیش کش ”بولتی آنکھیں“ آواز: اقصیٰ عثمانی 


مزید ویڈیو دیکھیں


Saturday, 22 August 2020

Aaina Audio/Video Series -1 Rooh By Sehba Usmani

 

پیش ہے آئینہ کی جانب سے آپ سب کے لیے پہلی کہانی جس کا عنوان ہے ”روح“ کہانی کار اور قصّہ گو ہیں صحبہ عثمانی


مزید آڈیوز/ ویڈیوز

پتھر کا سوپ

Tuesday, 18 August 2020

Sher-Lion-Some Interesting Facts

شیر


پیارے بچّوں!

آج میں تمہیں شیر کے بارے میں بتاؤں گا۔ تم سب نے شیر کا نام تو سنا ہی ہے تم نے اسے دیکھا بھی ہوگا۔ اب تو ٹی وی پر ایسے چینل موجود ہیں جو جنگلی جانوروں اور پرندوں پر ڈاکیومینٹری دکھاتے رہتے ہیں۔ ہم نے اپنے بچپن میں سرکس میں زندہ شیر دیکھے تھے۔ بڑے شہروں میں چڑیا گھر میں بھی شیر رکھے جاتے ہیں۔بہت سی کتابوں میں ہم پڑھ چکے ہیں شیر ببر جانوروں کا بادشاہ کہلا تاہے ۔ یہ افر یقہ کے جنگل میں ممکن ہو سکتا ہے، جہاں ببر پائے جاتے ہیں۔ لیکن ہندوستان میں شیر جنگل کے بادشاہ کے مانند حکومت کرتا ہوا پایا گیا ہے۔ شیر بلی کے خاندان میں سب سے بڑا جانور ہے۔ ہندی میں انہیں باگھ اور انگلش میں ٹائیگر کہا جاتا ہے۔اس کا رنگ بلی سے مختلف ہوتا ہے لیکن اس کے پنجے اور دانت اسی طرح تیز ہو تے ہیں جیسے اس کے چھوٹے بھائی چیتے اور بور یچےکے ہو تے ہیں۔ یہ درخت پر آسانی سے چڑھ سکتا ہے۔

شیر کو دیکھو تو پہلی چیز نظر آئےگی وہ اس کا خوبصورت رنگ ہے جو پھیکا زرد اور اس پر سیاہ لکیریں ہوتی ہیں۔ اس کی خاص وجہ  یہ ہے کہ سال کے  بہت حصّے میں گھاس آفتاب کی گرمی سے سوکھ جاتی ہے۔ شیر اس گھانس میں چھپ کر رہتا ہے دھوپ کا سایہ گھانس پر پڑ تا ہے۔ اس کے اثر سے شیر کے بدن پر رنگ بنتا ہے  قدرت نے شیر کو جنگل میں محفوظ رہنے کے لئے گھانس کا رنگ دیا ہے۔ان کا رنگ زردی مائل ہوتا ہے اور اس میں بھوری یا سیاہ دھاریاں ہوتی ہیں۔ جبکہ سفید شیر کا رنگ سفید اور سیاہ دھاریاں ہوتی ہیں۔ ان میں دھاریوں کی تعداد تقریباً 100 کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ شیر کے دانت لمبے اور نکیلے گائے اور گھوڑوں سے بالکل مختلف گوشت کھانے کیلئے بنائے گئے ہیں۔ اپنے مضبوط، طاقتور اور شاندار جسم کی بدولت شیر بہترین شکاری ہوتے ہیں۔ شیر کو بطور علامت طاقتور، بہادر، ظالم اور سنگدل استعمال کیا جاتا ہے۔

بالغ نر کا وزن تقریباً 200 سے 320 کلو گرام تک اور مادہ کا تقریباً 120 سے 180 کلو گرام تک ہوتا ہے۔ جسم کی لمبائی 140 سے 280 سنٹی میٹر تک ہوتی ہے۔

شیر بہت اچھے تیراک ہوتے ہیں۔ ان کے شکار کرنے کا طریقہ بالکل بلی کی طرح ہے۔ یہ چھپ کر شکار کرتے ہیں۔ بتایا جاتا ہےکہ ایک شیر 50 کلو تک وزن اٹھا کر 2 میٹر اونچی رکاوٹ کو پھاند سکتا ہے۔ 

شیر بنگلہ دیش، بھوٹان، کمبوڈیا، ہندوستان، انڈونیشیا، میانمار، ملائیشیا، نیپال، شمالی کوریا، تھائی لینڈ، ویت نام اور روس کے مشرقی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔

شیر بہت سے جانوروں کا شکار کر تا ہے لیکن ہرن کے لیے زیادہ تر رات میں گاؤں کے اطراف گشت لگا تا ہے۔ جب کوئی گائے یا بھینس مل جا تی ہے تب چھلانگ مار کر غریب جانور پر حملہ کر دیتا ہے اکثر حلق کو پکڑ تا اور گردن توڑ ڈالتا ہے۔ بعض وقت شیر بوڑھا اور کمزور ہو جا تا ہے اور وہ ہرن کو نہیں پکڑ سکتا۔ جانوروغیرہ کے پکڑ نے میں بھی دقت ہوتی ہے کیونکہ گاؤں کے لوگ اپنے جانوروں کی حفاظت کرتے ہیں۔ جب ایسا ہو اور شیر بھوکا ہو جائے تب وہ آدمی پر حملہ کرنےلگتا ہے۔

آدم خور شیر اکثر گاؤں کے قریب رہنے ہیں اور تنہا جانے والوں پر حملہ کرتے ہیں ۔کہتے ہیں کوئمبٹورکے شمال میں ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک شیر رہتا تھا جس نے پچاس مرد اور عورتوں کو مارڈالا تھا۔

اب ہندوستان میں اتنے شیر باقی نہیں رہے۔ ہر سال جنوب اور میسور میں شیروں کی ا یک بڑی تعداد ماری جاتی رہی ہے۔ 1990 کے بعد اس رجحان میں کمی آئی ہے۔ شیر کے شکار کے لیےشکاری درخت پر مچان بناتے ہیں اور اس پر بیٹھ کر شیر کا شکار کرتے ہیں بعض دفعہ شیر شکاریوں پر حملہ کر دیتا ہے اور ان کو مار دیتا ہے۔

شیر نی شیر سے چھوٹی ہوتی ہے۔لیکن وہ زیادہ مکار اور خوفناک ہوتی ہے ۔


Sunday, 16 August 2020

Alif Laila Ke Hero

الف لیلہ کے ہیرو

(بادشاہ شہریار اور ملکہ شہرزاد کی داستان عشق) 

(بادشاہ، شہرزاد اور دنیا زاد ایک کمرے میں)

اگلے وقتوں کی بات ہے۔ ملک پارس میں ایک بادشاہ تھا شہریار۔ایک بار ملکہ سے ایسا خفا ہوا کہ اسے قتل ہی کرا کے چھوڑ ا۔ کچھ ایسی ہی بات تھی کہ اُس دِن سے اُس کے دل سے عورت ذات کا اعتبار اٹھ  گیا۔ اب وہ روز  نئی شادی کرتا اور صبح ہوتے ہی نئی بیوی کو قتل کرا دیتا۔ یہی دستور رہا۔ سینکڑوں لڑکیاں موت کے گھاٹ اتر گئیں۔  جو بچیں اُن کے ماں باپ اُنھیں لے  کرجلا وطن ہونے لگے۔ملک بھر میں ایک شور مچ گیا۔ 

بادشاہ کے وزیر کی دو بیٹیاں تھیں۔ بڑی کا نام تھا شہرزاد اور چھوٹی کا دنیازاد۔شہرزاد بہت خوبصورت اور سمجھدار لڑکی تھی  ایک دن اپنے باپ سے کہنے لگی” ابّا جان ایک بات ہے آپ مانیں تو کہوں “وزیر بولا”کہو بی بی ،ضرور  کہو آخر ایسی کیا بات ہے،جو تم اس طرح منہ بنائے ہو!“شہرزاد بولی” نہیں ابّا جانی آپ وعدہ کریں تو عرض کروں!“ وزیر سوچنے لگا آخر ایسی کیا بات ہو گی، بولا ”اچھا کہو، ہم نے تمہاری بات  مانی!“شہرزاد کہنے لگی” ابّا جان آپ میری شادی بادشاہ سلامت سے کرا دیجئے ، آپ کا بڑا ہی احسان ہوگا۔“” اف،یہ کیا؟“وزیر نے کہا” بیٹی! یہ کیا غضب کیا تم نے، خیر تو ہے، تم کچھ دیوانی تو نہیں ہوئی ہو؟ نہیں بی بی میں جان بوجھ کر تمھیں بادشاہ سلامت کی  بھینٹ تو نہیں چڑھا سکتا۔ “ یہ کہہ وزیر بڑے سوچ میں پڑ گیا۔ لیکن  شہرزاد نے ایسی ضد کی کہ وزیر  مجبور ہو گیا۔ بادشاہ کے حضور میں عرض کی۔ بادشاہ بھی یہ پیام سن کر دنگ رہ گیا۔ بولا” تم اس دھو کے میں مت رہنا کہ تمہاری خاطر سے میں اپنے معمول کو چھوڑدوں گا “وزیر نے عرض کی” اعلیٰ حضرت میں تو کچھ عرض نہیں کر سکتا غلام زادی کی ضد اور  اسی کی درخواست ہے۔ “

آخر شہرزاد کی بادشاہ شہریار سے شادی طے پا گئی  رخصتی کے وقت شہرزاد اپنی چھوٹی بہن دنیازاد کو الگ لے گئی اسے سمجھایا بجھایا اور جتایا، پھر باپ کے ساتھ شاہی محل کو چلی۔ نکاح کے بعد باپ سینے پر پتھر رکھ بیٹی خدا کو سونپ گھر واپس آیا۔ 

بادشاہ شہریار نئی دلہن کے کمرے میں داخل ہوا۔  دلہن بیگم کی صورت شکل بہت ہی بھا ئی۔شہرزاد سچ مچ بہت خوبصورت تھی۔  لیکن بادشاہ نے دیکھا کہ اُس کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے ہیں، بس رونے ہی کو تو ہے۔  بادشاہ نے پوچھا تو بولی ”میری ایک چھوٹی بہن  ہے۔ اسے میں بہت چاہتی ہوں اور  ہم دونوں کبھی جدا نہیں ہوئیں ، وہ بھی مجھ پر جان دیتی ہے ۔ اگر آپ اجازت دیں تو رات کی رات وہ بھی اسی کمرے میں گزارے ۔ اور صبح ہم ایک دوسرے کہ آخری دیدار کر سکے ۔“ خدا کا کرنا ،بادشاہ نے خوشی سے یہ بات مان لی اور اسی دم دنیازاد بھی شاہی محل پہنچ گئی اور اسی کمرے میں اُس کے  آرام کرنے کا انتظام کیا گیا۔ 

تھوڑی رات گئے دنیازاد نے بہن کو پکارا اور کچھ رونے سی لگی، پھر بولی” باجی بیگم! میں تمہارے غم میں بےچین ہوں ۔ بن بن کے لیٹی لیکن پلک سے پلک نہ لگی۔ نیند نہ آنی تھی نہ آئی ،تمھیں تو اچھی کہانیاں یاد ہیں اچھی باجی کوئی کہانی سناؤ  تاکہ میری بھی رات کٹے ۔

شہرزاد نے بادشاہ سے اجازت چاہی۔ بادشاہ نے کہا” ہاں ہاں ضرور ہم بھی سنیں گے ضرور۔ کوئی کہانی سناؤ ۔“ اب شہرزاد نے  ’سوداگر اور جن‘کی کہانی سنا نی  جو شروع کی تو صبح ہو گئی اور کہانی پوری نہ ہوئی۔ کہانی کہتے کہتے ملکہ شہرزاد ایک دم چپ ہو گئی، بادشاہ بولا”کیوں کیوں،چپ کیوں ہو گئیں۔ “

شہرزاد نے عرض کی” جہاں پناہ ! ملا حظہ ہو،پوپھٹ چلی ہے، مشہور ہے دن میں کئی کہانی  سنائی جائے تو مسافر راستہ بھول جاتے ہیں۔“بادشاہ کو کہانی بہت پسند آئی،بولا”اچھا تو باقی کل رات کو!“ شہرزاد آداب بجا لائی؛ اپنی کامیابی پر دل ہی دل میں خوش تھی۔ اُدھر چھوٹی بہن دنیازاد کے دل میں بھی لڈو پھوٹ رہے تھے کے باجی بیگم نے ،ایسا لگتا ہے بازی جیت لی ملکہ شہرزاد اسی طرح کوئی نہ کوئی کہانی سنانی شروع کرتی اور اس کا سلسلہ کئی کئی رات تک چلا کرتا ، یہاں تک کہ اُس کی سنائی ہوئی کہانیوں کا سلسلہ ایک ہزار اور ایک رات تک چلا اس زمانے میں  شہرزاد نے بادشاہ کو اپنا  کر کے ہی چھوڑا  ۔بادشاہ کے دل میں یہ بات بٹھادی کہ سب عورتیں ایک سی نہیں ہوتیں، بری بری ہیں اور اچھی اچھی۔ بادشاہ نے بھی اپنے پچھلے دستور کو چھوڑ دیا ۔ اب بادشاہ اور بادشاہ بیگم یعنی شہریار اور شہرزاد دونوں ہنسی خوشی رہا کرتے۔ دونوں ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے اور ایک دوسرے سے سچّی محبت کرتے۔

(بشکریہ غنچہ)


Saturday, 15 August 2020

Safai - Ek Nemat Hae

 صفائی

1۔ تندرستی سے بڑھ کر دنیا میں کوئ نعمت نہیں سچ ہے کہ تندرست نہ رہنے سے آدمی کسی کام کا نہیں رہتا۔  ہر شخص اس بات کو اچھی طرح جانتا اور سمجھتا ہے مگر پھر بھی بعض لوگ اس سے اتنی غفلت کرتے ہیں کہ خود بھی مرض اور مصیبت میں مبتلا رہتے ہیں اور دوسروں کے لیے بھی وبال ہو جاتے ہیں۔

2۔  صحت قائم رکھنے کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں ایک تو یہ کہ آ دمی جو کھانا کھائے وہ ایسا ہو کہ صحت کو نقصان نہ پہنچا ئے ۔ دوسرے ورزش سے اپنے بدن کو مضبوط رکھے۔ تیسری اور ان سب سے زیادہ ضروری چیز صفائی ہے۔

3۔ صفائی کے معنے ہیں صاف رہنا اور صاف رہنے میں سب ھی کچھ آ جاتا ہے ۔ سب سے پہلی چیز جس کو صاف رہنا اور رکھنا چاہیے وہ انسان کا جسم ہے۔ہمارے جسم میں بے شمار چھوٹے چھوٹے سوراخ ہیں جن کو مسام کہتے ہیں ان مساموں کا ہر وقت کھلا رہنا نہایت ضروری ہے کیونکہ انہی کے ذریعے پسینہ باہر نکلتا ہے جو اندر کا بہت میل کچیل اپنے ساتھ باہر لے آ تا ہے۔ اگر  جسم کو برابر دھوتے نہ رہیں اور اس پر گردو غبار جمتا رہے تو ظاہر ہے کہ مسام بند ہو جائیں گے اور پسینے کے باہر نہ نکلنے سے اندر کے خراب اور زہریلے مادّے اندر ہی رکے رہیں گے اور آ دمی کو بہت ہی نقصان پہنچا ئیں گے ۔ اندر کی صفائی کے لئے ضروری ہے کہ آدمی پانی خوب پیا کرے اور اس قسم کی غذا کھائے جو اندر رک کر خرابیاں نہ پیدا کرے۔ باہر کی صفائی کے لیے بدن کو پاک صاف رکھنا ضروری ہے بعض لوگ صبح کو اٹھ کر ایک بار ہاتھ منہ دھو لینا کافی سمجھتے ہیں مگر ان کا یہ خیال اور طریقہ غلط ہے۔ خود ہوا میں اس قدر گرد و غبار ہوتا ہے کہ گھر میں بیٹھے بیٹھے جسم کے مساموں کو بند کر دینے کے لیے کافی ہے اور باہر کا تو کچھ پوچھنا ہی نہیں آدمیوں ، جانوروں اور گاڑیوں کے چلنے پھر نے سے  جتنی گرد اور مٹی اڑتی ہے وہ سب جسم ہی پر پڑتی اور جمتی ہےاس کہ علا وہ مٹی گوبر اور کوڑے کر کٹ کے بے شمار نننھے نننھے زہر یلے کیڑے ہر وقت ہوا میں اڑتے پھرتے ہیں۔ سڑکوں اور گلیوں میں چلتے پھر تے یہ سب کیڑے بدن پر پڑ کر چمٹے رہ جا تے ہیں اور سانس کے ساتھ  اندر بھی چلے جا تے ہیں اس لیے یہ قائدہ بنا لو کہ جب کبھی با ہر سے چل پھر کر آؤ گھر پہنچتے ہی فوراً صا بن سے خوب اچھی طرح منہ ہاتھ دھو ڈالو اور خوب کلّیاں کرو تاکہ گرد و غبار دھل جائے ۔

4 ۔ مگر صرف منہ ہاتھ دھو ڈالنا ہی کافی نہیں، بلکہ اس سے بھی زیادہ فائدہ نہا نے سے ہوتا ہے کیونکہ اس سے پورے جسم کی صفائی ہو جاتی ہے ۔ ہر روز کم از کم ایک دفعہ ضرور نہانا چا ہیے ۔ جہاں تک ہو سکے سرد پانی ہی سے غسل کرنے کی عادت ڈالو لیکن میلے گدلے اور کھڑے ہوئے پانی میں ہرگز ہرگز نہ نہانا چاہئے اور ایسے مقام سے بھی پرہیز کرنا چاہئے۔ جہاں مویشی آکر پانی پیتے ہیں ایسی جگہ میں نہا نے سے بجائے صفائی کے اور غلاظت لگ جاتی ہے اور صحت کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔

5 ۔ جسم کی صفائی بے کار ہے جب تک کہ رہنے سہنے کی جگہ اور مکان صاف نہ ہو ۔ اپنے کمرے ، مکان اور اس کے آس پاس کی زمین کو صاف ستھرا رکھنا چاہیے۔ ان کی صفائی کا خیال نہ رکھنا گویا بیماری کو بلانا ہے ۔ ہوا اور دھوپ صفائی  میں بہت مدد دیتے ہیں۔ اس لئے مکان  ایسا ہو نا چاہیے کہ ہوا اوردھوپ کا اچھی طرح گزر  ہو سکے۔مکان کے اندر باہر کسی جگہ ذرا سا بھی کوڑا کرکٹ پڑا نہ رہنا چاہیے۔ ہرہفتے تمام جالے صاف کردینے چاہئیں۔ روزمرّہ ہر چیز جھاڑنا اور اس کے نیچے کی جگہ صاف کردینی چاہیے۔

6. کپڑوں کو بھی صاف ستھرا رکھنا بہت ضروری ہے۔ ہم تمہیں بتا چکے ہیں کہ پسینے میں بدن کے اندر کا میل اور زہر ہوتا ہے۔ جہاں تک ہو سکے پسینے میں بھیگے کپڑے مت پہنو۔ اس کے علاوہ پسینے کی بدبو سے طبیعت الٹتی ہے اور دوسروں کو بھی نفرت ہوتی ہے۔ میلے کچیلے کپڑے والے کو کوئی پسند نہیں کرتا۔اسی طرح نہا دھو کر میلے اور بدبودار کپڑے پہننا اور بھی زیادہ نادانی کی بات ہے۔ بدن اور کپڑے صاف ہوں تو آدمی خود بھی ہلکا پھلکا اور چست چالاک رہتا ہے اور دوسرے بھی اسے پسند کرتے ہیں۔یہی حال کتاب، کاپی، قلم، دوات، کاغذ کا ہے۔میلا کاغذ، غلیظ کتاب اور دوات بس یہ سمجھو کہ بیماری کا گھر ہیں۔ ان سے  بھی طرح طرح کی بیماریاں پھیلتی ہیں۔ غرض یہ کہ انسان اگر صحت کے ساتھ رہنا چاہے تو اس کو چاہیے کہ اپنی ہر چیز کو ہر وقت صاف سُتھرا رکھے ورنہ انسان سے حیوان ہی اچھے ہیں جو مقدور بھر اپنی صفائی کا خیال رکھتے ہیں۔

Friday, 14 August 2020

Hatim Aur Ek Sakhi

حاتم اور ایک سخی

حاتم سے کسی نے پوچھا کہ تم نے کوئی ایسا شخص بھی دیکھا ہے جو تم سے  زیادہ سخی ہو؟ حاتم نے کہا کہ یہاں! میں ایک شخص کے ہاں مہمان ہوا - وہ مجھ کو دیکھتے ہی فوراً ایک بکری ذبح کر کے  اوّل اس کی کلیجی بھون کر لا یا- مجھ کو وہ خوش ذائقہ معلوم  ہوئی - میں نے کہا ”یہ کلیجی تو بہت ہی مزیدار ہے-“  وہ یہ سنتے ہی فوراً باہر گیا اور تھوڑی دیر میں پھر بھنی ہوئی کلیجی لا یا - اسی طرح یکے بعد دیگرے دس مرتبہ لا یا - میں خوب شکم سیر ہو کر  وہاں سے  رخصت ہوا - جب باہر نکلا، تو بہت سا خون اور دس بکریاں ذبح ہوئی دیکھیں - معلوم ہوا کہ اس کے پاس صرف یہی دس بکریاں تھیں ، جو  اس نے سب کی سب مغز کلیجی کے لئے یکے بعد دیگرے ذبح کر ڈالیں -  میں نے بہت افسوس  کیا اور اس سے کہا کہ تو نے ناحق تمام بکریوں کو ذبح کر ڈالا - اس نے کہا - جو چیز آپ کو پسند آئی، میں اس میں کنجوسی کر کے ملک عرب میں بد نام  کیوں ہوتا ؟ پھر حاتم سے دریافت کیا گیا،  کہ تم نے  اس کو کلیجی  کے  بدلے میں کچھ دیا ؟  حاتم نے کہ -  پانسو بکریاں - پوچھنے والے نے کہا - پھر تو زیادہ  سخی  آپ ہی ہوئے- حاتم نے کہا- نہیں- زیادہ سخی وہی ہے - اُس نے اپنی تمام بکریاں میرے لیے خرچ کر دیں اور میں نے اپنی تمام بکریوں میں سے  صرف ایک حصہ اس کو دیا۔

Ghazal - Nooh Narvi

غزل

نوح ناروی

 خدائی میں حاجت روا ایک ہے

قسم ہے خدا کی خدا ایک ہے

جو کوئی گینےتو گنا تا رہوں

مری جان پر کیا جفا ایک ہے

نہیں ہے دوعالم میں اس کا جواب

جو مقبول ہو وہ دعا ایک ہے

پہنچ کر جلا دے جو افلاک کو

وہ لاکھوں میں آ ہ رسا ایک ہے

تمہیں نوح سے کیا نہیں آ گہی

زمانے میں بس ناخدا ایک ہے

Tuesday, 11 August 2020

Rahat Indori - Bhool Jana Bhi Use Sahl Nahin

راحت اندوری

آئینہ کی آرٹسٹ اسرا عثمانی کی جانب سے راحت اندوری کو بہترین خراج عقیدت
(1960-2020)

بھول جانا بھی اسے سہل نہیں

یاد رکھنا بھی ہنر ہے اس کو

مشہور شاعر اور شہنشاہ  مشاعرہ حضرت راحت اندوری کا 11 اگست2020 کو کورونا جیسی مہلک بیماری سے انتقال ہوگیا۔اس طرح ایک آزاد منش شاعر ملک کی آزادی کی 73 ویں سالگرہ منانے سے  چار دن پہلے ہی اس دنیائے فانی سے آزاد ہوگیا۔ایک للکار تھی جو ماند پڑگئی۔ قوم کا ایک دردمند دل تھا جو گہری نیند سوگیا۔راحت مشاعروں کی جان تھے ان کے بغیر دنیا بھر میں مشاعرے کی محفل سونی محسوس کی جاتی تھی۔  آج اُس پار مشاعرہ کی محفل سجی ہوگی ساغر، خمار خوش ہوں گے کہ آج اُن کا دلدار آگیا۔ اِدھر منور کا دل اداس ہوگا کہ اُن کی دنیا تاریک ہوگئی۔ بشیر بدر کی آنکھیں دیکھ رہی ہوں گی کہ چاند چھپ گیا۔ندا فاضلی کی لوریاں راحت کو تھپکیاں دے کر سُلا رہی ہوں گی کہ ان کی نیم خوابی کو قرار آجائے۔ تاریک آسمان میں قوم کا مستقبل تلاش کرتی آنکھیں۔ نیم باز آنکھوں سے جگنو کی تلاش۔ ایک انقلابی آواز تھی جو خاموش ہوگئی، شاید نہیں،یہ آواز تو فضائے محیط میں اسی طرح گونجتی رہے گی ۔ سوشل میڈیا میں راحت کی ہی حکومت ہوگی۔ یقیناً مشاعروں میں آنکھیں برسوں انہیں تلاش کریں گی اور مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ انہیں۔ 

یہ! حادثہ! تو!کسی دن !گزرنے والا تھا

میں بچ بھی جاتا تو ایک روز مرنے والا تھا

***

وبا پھیلی ہوئی ہے ہر طرف

ابھی ماحول مرجانے کا نئیں

***

(اوپر: آئینہ کی آرٹ ڈائریکٹر نے راحت اندوری کو خراج پیش کرتے ہوئے ان کا ایک پورٹریٹ بنایا ہے جو قارئین کے لیے پیش ہے۔)

راحت اندوری کو خراج عقیدت کے طور پرپیش ہے پروفیسر  ظفر احمد نظامی کا تحریر  کردہ خاکہ

چہرہ کتابی، آنکھیں نیم خوابی، ستواں ناک ، زبان بے باک، بڑے بڑے کان، بلندی کا نشان، تا بحد نظر پیشانی،ذہانت کی کہانی۔ یہ ہیں شاعر طرحدار، ممتاز فنکار ، مشاعروں کی شان، محفلوں کی جان، پردۂ سیمیں کا وقار، مقبول نغمہ نگار، نا واقف کمزوری و شہزوری یعنی ڈاکٹر راحت اندوری۔

راحت  یکم جنوری 1950 کو اندور میں پیدا ہوئے۔شب  وماه پُر  شیدا ہوئے ۔ ابتدائی اسباق گھر میں پڑھے پھر اعلیٰ تعلیم کی   سیڑھیاں چڑھے۔ ارد و  میں ایم اے پاس کیا۔ خود کو پی ایچ ڈی سے روشن ناز کیا۔ درس و تدریس کو پیشہ بنایا۔ آئی کے کالج میں پڑھایامصوری کے ناز اٹھائے، رنگ ریزی کے دیپ جلائے۔

انہیں ابتدا ہی سے شاعری کا شوق رہا۔شعر و ادب کا ذوق رہا۔ ہزارہا شعر ازبر تھے۔مستقبل کا مظہر تھے۔انہوں نے اختر شیرانی کو دل میں بٹھایا۔ ساحر کو اپنایا۔مجاز سے پیار کیا۔مخدوم پر اعتبار کیا۔فیض سے فیضیاب ہوئے۔کوچۂ سخن میں کامیاب ہوئے۔ آخر کار تحقیق کا کرب سہا۔1968 میں پہلا شعر کہا۔پھر مسلسل شعر کہنے لگے۔

دریائے سخن میں بہنے لگے۔ اگرچہ وہ شعر کہتے تھے، تنہا ہی اس کا بوجھ سہتے تھے۔ پھر نشستوں میں شرکت کرنے لگے ، اندورکے ماحول میں ابھرنے لگے۔لوگ انہیں پہچاننے لگے۔ شاعر کی حیثیت سے جاننے لگے۔ محفلوں میں موجود پائےگئے ، مشاعروں میں بلائےگئے ۔شہرتوں سے قریب ہو گئے ، اردو والوں کے حبیب ہو گئے۔ انہوں نے ترقی پسندی کی چادر تانی، گلی کو چوں کی خاک چھانی۔ اب نامور گیت کار ہیں ، پردۂ سیمیں  کے نغمہ نگار ہیں۔ راہ میں کہیں نہیں رکےہیں۔ بے شمار فلموں میں گیت لکھ چکے ہیں ۔ انہوں نے ادب کا بلند اقبال کیا، دنیا کے سخن کو مالا مال کیا۔ ”دھوپ دھوپ“ سفر میں رہے۔”میرے بعد“ اپنی نظر میں رہے۔پانچویں درویش کا قصہ سنایا۔ شاعری کو نیا تاج پہنایا۔ لیلائے غزل کا حسن نکھارا۔ ہندی کے قالب میں اتارا۔ ان کے نزدیک شاعری آہستہ خرام ہے۔ نازک احساس کا نام ہے۔خوشبو خوشبو ہے۔سرچڑھتا جادو ہے۔ وہ بارِ سخن اٹھاتے ہیں۔ اسے پیشہ بناکر اپناتے ہیں ۔خود نئے گیت بنتے ہیں۔ پرانی دھنوں پر سر دھنتے ہیں۔ وہ ناقدوں کے ناقد ہیں۔ ناقدین کرام کی ضد ہیں۔ ”آب حیات“ سے دل فگار ہیں۔ تنقید نگاروں کے تنقید نگار ہیں۔زندگی کو فن سے عاری سمجھتے ہیں۔ آج کی تنقید کو دوکانداری سمجھتے ہیں۔اگرچہ یہ کار بے ارادہ ہے۔ ادب ان کے نزدیک زوال آمادہ ہے۔ وہ شاعر ہند نازک خیالاں ہیں۔ گروہ بندیوں سے نالاں ہیں۔اگرچہ صورت حال خوابناک ہے۔تاہم اردو کا مستقبل تابناک ہے۔اردو والے ہی اسے بچا سکتے ہیں۔ہمالیہ سے اونچا اٹھا سکتے ہیں۔اردو کو کوئی اجاڑ نہیں سکتا۔اسے جڑ سے اکھاڑ نہیں سکتا۔یہ مثل امر بیل رہی ہے۔ دنیا بھر میں پھیل رہی ہے۔اردو کی خدمت اکادمیوں کا کام ہے جو اب برائے نام ہے۔وہ مشاعرے کی افادیت کے قائل ہیں۔اسے لیے اُن کی جانب مائل ہیں۔ اُسے اردو کی امانت سمجھتے ہیں۔تشہیر کی ضمانت سمجھتے ہیں۔اس نے اردو کو زندہ رکھا ہے۔زبان و ادب کو تابندہ رکھا ہے۔ انہوں نے اسے تحقیق کا موضوع بنایا۔ اس کی معنویت پر قلم اٹھایا۔بیشتر ملکوں کا سفر کرچکے ہیں۔غیروں کے دلوں میں گھر کرچکے ہیں۔ سامعین کے قدر دان ہیں۔ جن کے دلوں میں شعر جوان ہیں۔کتابوں کے چھپنے کو معیار نہیں سمجھتے۔عزت و عظمت کا مینار نہیں سمجھتے۔وہ اپنی ہی دنیا میں رہتے ہیں۔اپنے بارے میں خود ہی کہتے ہیں۔

میری غزل سے بنا ذہن میں کوئی تصویر

سبب نہ پوچھ میرے دیو داس ہونے کا

***

راحت اندوری کے متفرق اشعار


عشق کے کاروبار میں ہم نے

جان دے کر بڑی کمائی کی

***

ٹوٹ کر ہم ملے ہیں پہلی بار

یہ شروعات ہے جدائی کی

***

میں نے دنیا سے مجھ سے دنیا نے

سیکڑوں! بار !بے وفائی! کی

***

میرے مرنے کی خبر ہے اس کو

جانے کس بات کا ڈر ہے اس کو

***

جنازے پر میرے لکھ دینا یارو

محبت کرنے والا جارہا ہے

***

بھول جانا بھی اسے سہل نہیں

یاد رکھنا بھی ہنر ہے اس کو

***

ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے

کم !سے کم! راہ کے !پتھر تو ہٹاتے! جاتے

***

صرف اتنا فاصلہ ہے زندگی سے موت کا

شاخ سے توڑے گئے گل دان میں رکھے رہے

***

طوفاں تو اس شہر میں اکثر آتا ہے

دیکھیں اب کے کس کا نمبر آتا ہے

***

سر رکھ کہ میرے زانو پر سوئی ہے زندگی

ایسے میں آئی بھی تو قضا کیسے آئے گی

***

سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں

کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے

***

ہمیں چراغ سمجھ کر بجھا نہ پاؤ گے

ہم اپنے گھر میں کئی آفتاب رکھتے ہیں

***

دوگز سہی مگر یہ مری ملکیت تو ہے

اے موت تونے مجھ کو زمیندار کردیا

***

وہ چاہتا تھا کہ کاسہ خرید لیں میرا

میں اس کے تاج کی قیمت لگا کے لوٹ آیا

***

افواہ تھی کہ میری طبیعت خراب ہے

لوگوں نے پوچھ پوچھ کر بیمار کردیا

***

میں جانتا ہوں دشمن بھی کم نہیں لیکن

ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے

***

شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتّے نہیں ہیں ہم

آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے

***

یہ بوڑھی قبر تجھے کچھ نہیں بتائے گی

مجھے تلاش کرو دوستو یہیں ہوں میں

***



Monday, 10 August 2020

Jahan Main Hoon Wahan Wahshat Hae Ya Deewan Pan Saqi - Dr Kaleem Ajiz

خوش خبری