آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Saturday, 14 November 2020

Sakhi By Kalam Haidari NCERT Class 10 Gulzar e Urdu

 سخی
کلام حیدری
میں زکر یا اسٹریٹ کے ایک گندے اور چھوٹے سے ہوٹل میں بیٹھا ہوں ۔ سامنے سیاہ رنگ کے ٹیبل پر چھوٹی سی چائے کی پیالی رکھی ہے جس میں تلخ قسم کی چائے پر بالائی پڑی ہوئی ہے۔ میرے ٹیبل کے سامنے ایک لمبا ساٹیبل ہے جس پر کئی دوسرے لوگ بیٹھے ہیں، ان میں سے ایک شخص کو میں پہچانتا ہوں۔ وہ جوشطرنجی ڈیزائن کی لنگی پہنے ہوا ہے اور جس کی گنجی بجائے بٹن کے فیتے سے بند ہونے والی ہے، میں اسے صرف اس وجہ سے پہچانتا ہوں کہ وہ مجھ سے مہینے میں ایک بارمنی آرڈر لکھواتا ہے۔ کبھی پیاس، کبھی چالیس اور کبھی سو بھی۔
یہ کہاں رہتا ہے، میں نہیں جانتا۔ یہ کیا کرتا ہے، یہ بھی میں نہیں جانتا۔ یہ منی آرڈر کہاں بھجواتا ہے صرف یہ میں جانتا ہوں ۔ بی بی سکینہ معرفت شرافت حسین، بیڑی دکان، پورنیہ۔
میں نے اب چائے کی پیالی اپنے ہونٹوں سے لگا لی ہے اور بالائی ہونٹوں سے الجھ رہی ہے۔ میں نے پھونک مار کر بالائی کو کچھ ہٹا دیا ہے ۔ اور تب پہلے گھونٹ کے ساتھ ایک میٹھی تلخ دھارحلق سے پیٹ میں اترتی ہوئی محسوس کر رہا ہوں ۔ میں نے پیالی واپس طشتری میں رکھ دی ہے۔
بی بی سکینہ کے بارے میں مجھے اتنا ضرور معلوم ہے کہ یہ اس شطرنجی ڈیزائن کی لنگی والے کی بیوی ہے اور یہ بھی جانتا ہوں کہ اس کا نام مولا ہے اور منی آرڈر لکھواتے وقت اپنا نام مولا بخش لکھواتا ہے۔ پہلے پہل جب میں نے اس سے منی آرڈر فارم پر لکھنے کے لیے اس کا پتہ پوچھا تو اس نے اپنا نام مولا بخش بتایا اور کہا: "معرفتی آپ اپنا ہی لکھ دیجیے۔"
چنانچہ میری معرفت روپیہ بھیجنے والے کے پتے سے بھی مجھے ناواقف ہی رہنا پڑا۔
میں نے چائے کی پیالی دو بار ہ اٹھا لی ہے اور بالائی کو غور سے دیکھ رہا ہوں جو چائے پینے میں حارج ہوگی۔ میں ایک لمبا گھونٹ لیتا ہوں اور بالائی تھوڑی سی چائے سمیت میرے منہ میں چلی جاتی ہے اور میں منھ چلانے لگتا ہوں۔
بی بی سکینہ کا شوہر پست قد کا گٹھا ہوا، سیاہی مائل آدمی ہے، جس کے کان کی لو تھوڑی سی کٹی ہوئی ہے اور گالوں کی دونوں جانب کی ہڈیاں باہر نکلی ہوئی ہیں۔ چہرہ بڑ ا اورمحنتی آدمی کا سا معلوم ہوتا ہے۔ سینہ چکلا اور گردن بھری بھری مگر اوسط درجے کی لمبی ہے ۔ آنکھوں میں چمک ہے مگر جیسے وہ دھندلاہٹوں میں ہو۔ داہنے ہاتھ کی شہادت والی انگلی کا ناخن نکیلا اور لمبا ہے۔
میں نے پیالی پھر ہاتھ میں لے لی ہے ۔ اور ہوٹل میں آنے والے دو افراد کو دیکھنے لگا ہوں جو دروازے کے پاس ہی رک گئے ہیں اور ہوٹل کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ایک کے سر پر دلی والوں جیسی ٹوپی ہے جو بے میل ہے اور دوسرا نگے سر ہے اور بال الجھے الجھے ہیں اور دونوں پھر اندر آجاتے ہیں۔
میں نے چائے کا تیسرا اور آخری گھونٹ لے کر پیالی تشتری پر رکھ دی ہے اور اسے میز کے ایک طرف کھسکا دیا ہے۔
ہوٹل کا ریڈیو چیخ چیخ کر فلمی گانے سنا رہا ہے۔ اچانک وہ زور سے کھڑ کھڑاتا ہے اور ہوٹل کا نوجوان مالک جو ٹھڈی ( ٹھوڑی) ہاتھوں پر رکھے کسی اردو اخبار کو جانے کب سے پڑھ رہا تھا، چونک کر ریڈیو کا بٹن گھمانے گاتا ہے۔ -
میں ان دونوں کو دیکھ رہا ہوں جو ابھی ابھی اس ہوٹل میں داخل ہو کر بیٹھے ہیں۔ دلی والوں کی ٹوپی پہنے ہوئے شخص نے اپنے ساتھی سے کچھ مشورے کرنے کے بعد دو شیر مال اور دو سیخ کباب کا آرڈر دے دیا ہے۔ ہوٹل کا لڑکا اس بڑے سے طاق نما سوراخ کے پاس کھڑا ہوا ہے جہاں سے ہوٹل کے باورچی خانے کا منظر دکھائی دیتا ہے۔
اور مولا بخش ایک کروٹ بیٹھے بیٹھے دوسرا پہلو بدل کر بیٹھ جاتا ہے اور باہر سے نظریں ہٹا کر وہ میری جانب دیکھنے لگتا ہے جیسے اسے میرے دیر تک بیٹھے رہنے پرتعجب ہو رہا ہے میں اس کی ٹولتی نگاہوں سے بچ کر پہلو بدلتا ہوں۔
اب میرے انتظار کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔ جس اخبار کے ایڈیٹر نے مجھ سے یہاں ملاقات کرنے کا وعدہ کیا تھا اس کے آنے کی امید تقریباً ختم ہو چکی ہے، اور ساتھ ہی ساتھ امید کی جس کرن کے سہارے میں نے تین روپے ساڑھے چودہ آنے میں پچھلے چار دن گزارے تھے وہ کرن اس ہوٹل میں جیسے گم ہوگئی ۔ اب تک وہ ایڈیٹر نہیں آیا۔ جس نے مجھے تر جمہ کا کام دینے کا وعدہ کیا تھا اور میں نے سوچا تھا کہ کام ٹھیک ہوتے ہی کچھ ایڈوانس مانگوں گا۔ جس سے زکر یا اسٹریٹ کے ایسے ہوٹلوں میں کم از کم چند دن کھپ سکوں۔
دلی والوں کی ٹوپی پہنے ہوئے شخص کے آگے ایک شیر مال رکھی ہوئی ہے، اوپر کا سرخی مائل حصہ بے حد اشتہا انگیز ہے اور کباب سے اٹھتا ہوا ہلکاہلکا دھواں میں آسانی سے دیکھ سکتا ہوں۔
وہ ایڈ یٹر ابھی تک نہیں آیا ہے۔ اور میں سوچ رہا ہوں کہ مولا بخش کی بیوی سکینہ کیسی ہوگی؟ اس کے کوئی بچہ ہے کہ نہیں ۔ اور اس وقت مجھے اچانک لگا کہ میں مولا بخش سے مخاطب ہو کر پوچھوں کہ اس کے کوئی بچہ ہے یا نہیں ۔ میں نے اس سوال کو مہمل اور بے موقع خیال کرتے ہوئے اپنے ذہن سے نکال دیا ہے۔
اب وہ دلی والوں کی ٹوپی پہنے شخص اور اس کا ساتھی آدھی سے زائد شیر مال کھا چکے ہیں اور سیخ کباب سے اٹھتے ہوئے دھوئیں کو اب میں نہیں دیکھ سکتا۔ شاید اب دھواں اٹھ بھی نہیں رہا ہے۔
وہ ایڈیٹر اب نہیں آئے گا۔ میں نے چار دن یوں ہی بے کار گنوا دیے۔ ورنہ ان چار دنوں میں دوڑ دھوپ کی جاسکتی تھی۔ کوئی ٹیوشن ہی تلاش کی جا سکتی تھی۔ مگر چار روز تک اس اطمینان سے بیٹھے رہنے کے بعد ابھی اچانک اس متوقع کام سے مایوسی پر اب آگے چلنے کی جیسے صلاحیت ہی نہ رہی ہو۔
سکینہ کی عمر بیس سال سے زیادہ نہ ہوگی اور بچہ بھی کوئی نہ ہوگا۔ یہ شرافت حسین کون ہوگا؟ اور تب میں سوچتا ہوں کہ یہ شرافت حسین مولا بخش کا رشتہ دار ہوگا۔ یا پھر دوست ہوسکتا ہے ۔ اور سکینہ..................... .
اب یہ کیا تک ہے کہ ایڈیٹر وعدہ کے خلاف اب تک نہیں آیا ہے اور مجھے سکینہ کی عمر کی پڑی ہے۔ شرافت حسین اور سکینہ کی رشتہ داری کی نوعیت کی فکر ہے۔ مولا بخش اور شرافت حسین کے تعلقات سے مجھے کیا تعلق ہے؟
اب وہ دونوں شیر مال کے بعد چائے بھی پی چکے ہیں اور کاؤنٹر پر ہوٹل کا نوجوان ما لک ان سے پیسے لے رہا ہے۔ اب تین بج رہے ہیں، گیارہ بجے سے تین بجے تک انتظار کے بعد نڈھال سا ہو رہا ہوں۔ یہ مولا بخش ہر ماہ کی 13 تاریخ کو منی آرڈر ضرور لکھواتا ہے۔ ایک دو روز آگے یا پیچھے مگر پوری پابندی سے لکھواتا ہے۔
اور میں سوچ رہا ہوں، سکینہ ضرور خوبصورت ہوگی ۔ اور یہ جو مولا بخش کی آنکھوں میں چمک ہے وہ اسی جوان محبت کی چمک ہے۔ اور جو یہ چمک کسی قدر دھندلاہٹوں میں ہے وہ فراق یار ہے۔
تین روپے ساڑھے چودہ آنے کے تقریباً جدا ہو جانے کے بعد ایڈیٹر نہیں آیا، تو اب کیا ہو گا سوچ رہا ہوں، یہ جو جیب میں اب فقط ساڑھے چھ آنے ہیں، اس میں سے چھ پیسے یعنی ڈیڑھ آنے بھی جدا ہونے والے ہیں۔
میں اس پیالی کو دیکھ رہا ہوں جسے میں کب کا خالی کر چکا ہوں مگر ہوٹل کے نوکر نے اسے ٹیبل سے نہیں اٹھایا ہے۔ یہی وہ پیالی ہے جو مجھے مزید ڈیڑھ آنے سے محروم کر دے گی اور میری جیب میں پانچ آنے رہ جائیں گے۔ اور کلکتہ شہر، اور یہ زکریا اسٹریٹ، اور یہ دلکشا ہوٹل ۔۔۔۔۔۔
دل سے مانتا ہوگا مولا بخش سکینہ کو جبھی تو ۔۔۔۔۔ اور اب مولا بخش اپنی جگہ سے اٹھ چکا ہے اور مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے وہ مجھے سے کچھ کہنا چاہتا ہے۔ اور اب وہ میرے قریب آ گیا ہے اور کہہ رہا ہے ہم کل آ ئیں گے جی۔۔۔۔۔۔ آپ رہیں گے نا؟“ میں اسے اثبات میں جواب دیتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ یہ کل منی آرڈر لکھائے گا اور کل صبح تک میری جیب میں پانچ آنے رہیں گے یا.........
میں اس وقت اپنی کوٹری کی ایک چوکی پر پڑا ہوں ۔ میرے سرہانے دو آنے پیسے تکیہ سے دبے پڑے ہیں۔ اور میں رات دیر تک جاگنے سے گرانی محسوس کر رہا ہوں۔
اس کلینڈر کی جانب دیکھ رہا ہوں جو ہوا سے پھڑ پھڑا رہا ہے جس میں ایک امریکن عورت جہاز کی سیڑھی پکڑے بڑے ہی قاتل انداز میں کھڑی ہے۔ امریکن کلینڈر ............... میں منہ ہاتھ دھو چکا ہوں، بھوک لگ رہی ہے۔ بڑی احتیاط سے میں تکیہ ہٹاتا ہوں اور دو آنے اٹھا کر جیب میں رکھ لیتا ہوں۔
میں سوچ رہا ہوں، ٹیوشن کی تلاش میں نکلنا بہتر ہوگا۔ کچھ سہارا ہو جائے۔ پھر اطمینان سے نوکری تلاش کروں گا۔ اور تب سوچتا ہوں کہ انگریزی کی جوڈکشنری پڑی ہے اسے بیچ کر کچھ پیسے حاصل کیے جا سکتے ہیں ۔ اس خیال سے تقویت محسوس کرتا ہوں۔
اور میرے سامنے حسین، بیڑی دوکان، پورنیہ، مولا بخش ............. ساٹھ روپے۔
اب میں منی آرڈر لکھ چکا ہوں اور مولا بخش کے ساتھ ہی ساتھ کوٹھری میں تالا بند کر کے سڑک پر آ گیا ہوں۔ اور مولا بخش مجھ سے کہہ رہا ہے کہ اسے آج مالک نے جلدی ہی بلایا ہے اس لیے وہ آج منی آرڈر نہیں بھیج سکے گا ۔ اور میں کچھ سوچ کر اس سے کہہ رہا ہوں کہ مجھے فرصت ہے وہ کہے تو میں منی آرڈر بھیج دوں۔
” آپ ؟“ وہ ہچکچاتا ہے مگر میں اسے ہمت دلاتا ہوں کہ آخر وہ بھی آدمی ہے۔ ایک کام ہی اس کا کر دوں گا تو کیا چھوٹا ہو جاؤں گا۔
مولا بخش جا چکا ہے اور میری جیب میں ساٹھ روپے ہیں، اور منی آرڈر فارم ہے۔ اور میں ٹیوشن کی تلاش میں جا رہا ہوں۔
ابھی شام ہوگئی ہے اور میں دل کشا ہوٹل میں نہیں ہوں، میں پارک سرکس میں ایک اوسط درجے کے ہوٹل میں بیٹھا ہوں، میری میز پر ابھی ابھی بیرے نے ایک شیر مال، قورمہ اور سیخ کباب لا کر رکھا ہے اور میں بغور اس شیر مال کو دیکھ رہا ہوں جو بہت ملائم، بے حد لذیذ اور خوبصورت نظر آ رہی ہے۔
میرے ذہن میں اس ایڈ یٹر کا خیال نہیں ہے جس نے مجھے ترجمہ کا کام دینے کا وعدہ کیا تھا اور گیارہ بجے سے تین بجے تک اس کا انتظار کرنے کے بعد بھی وہ نہیں آیا، اور اس وقت زیادہ سے زیادہ سات بجے ہیں ۔ اس ہوٹل میں رونق بڑھتی جا رہی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ اس ہوٹل تک میرے قدم کیسے آئے؟ کوئی ٹیوشن نہیں ملی، نوکری نہیں ملی۔ اور دفعتاً مجھے سکینہ کا خیال آتا ہے جس کے پاس اسی پابندی سے منی آرڈر بھیجا گیا ہے مگر جو اس کو نہیں ملے گا۔ ساٹھ روپے میری جیب میں پڑے ہیں۔ اور منی آرڈر فارم میں نے کراؤن سنیما کے سامنے پڑے ہوئے پیک کے گملے میں ٹکڑے ٹکڑے کر کے ڈال دیا ہے۔
میں شیر مال کھانے لگا اور مجھے خیال آیا ہے اگر میں مولا بخش سے بیس پچیس روپیے مانگ لیتا تو شاید وہ دے دیتا مگر مولا بخش کے سامنے دست سوال بڑھانے کے خیال سے مجھے بڑی ذلت محسوس ہورہی ہے۔
یہ کباب کتنا خوش ذائقہ ہے اور پیاز کے ان تراشوں کے ساتھ تو اس کا لطف ہی نرالا ہے ۔ میں ڈلہوزی اسکوائر کے ایک آفس سے نیچے اتر رہا ہوں ۔ پانچویں منزل سے اترتے اترتے پاؤں دکھنے لگے ہیں۔ اور ایسی کتنی ہی بلڈنگوں سے نامراد لوٹتے لوٹتے اب مجھے ایسا لگتا ہے جیسے نوکری نام کی کوئی چیز اس دنیا میں نہیں ہے۔
ٹرام کی گھنٹیاں بج رہی ہیں ۔ میں فٹ پاتھ پر کھڑا اپنی تھکن کو دور کر رہا ہوں ۔ میری جیب میں بائیس روپیے کچھ آنے ہیں اور سکینہ کومنی آڈر ابھی تک نہیں ملا ہے۔ بائیس روپیے کتنی بڑی طاقت کا مظہر ہیں۔ میں سوچتا ہوں ابھی کچھ روز اور بھی چکر کاٹ سکتا ہوں ۔ بائیس روپیے اب بھی میرے پاس ہیں۔
اب میں چلنے لگا ہوں اور رخ کو لوٹو لہ کی طرف کر دیا ہے۔ چلتے چلتے اس بلڈنگ تک آگیا ہوں جو جاپانی بمباری کی زد میں آئی تھی۔
میں وہاں پر آ گیا ہوں جہاں اردو رسالوں کی دوکان ہے اور میں اس سے آگے بڑھ گیا ہوں ۔ سکینہ کا خیال مجھے اس کوٹھی کا خیال دلاتا ہے جو تھیڑ روڈ پر ہے اور جہاں مجھے ٹیوشن کے لیے آج شام کو بلایا گیا ہے۔ کیا پتہ آج ٹیوشن مل ہی جائے ۔
یہ نا خدا مسجد ہے۔ وہی زکر یا اسٹریٹ کے دروازے کے باہر ایک لاش اسٹریچر پر پڑی ہوئی ہے اور ایک نوجوان آواز لگا رہا ہے۔ ایک غریب مرگیا ہے۔ کفن دفن کے لیے پیسے دے کر ثواب حاصل کیجیے ۔‘
میں قریب جاتا ہوں ۔ فیتے سے بند ہونے والی گنجی ایک کان کٹی ہوئی لو ۔
’’ مولا بخش ؟‘‘ میں ہلکے سے اس کا نام لیتا ہوں ، سکینہ کے پاس منی آرڈر پہنچنے سے پہلے یہ خدا کے یہاں پہنچ گیا۔
میں اس آواز لگانے والے نوجوان سے پوچھتا ہوں، یہ کیسے مرا؟‘‘ ’’ٹرک سے کچل کر نیچے کے دھڑ سے اس نے چادر ہٹا کر دکھایا۔ مجھے چکر آنے لگا ہے۔ یہ ناخدا مسجد ہے۔ مولا بخش ہے۔ جس کے کفن دفن کے لیے ایک آنے دو آنے راہ گیر چادر پر پھینکتے جارہے ہیں۔
میرا ہاتھ جیب میں جاتا ہے ۔ بائیس روپیے کچھ آنے اس چادر پر پھینک کر جلدی جلدی جانے لگتا ہوں، وہ نوجوان مجھے غور سے دیکھتا ہے۔
میں مڑ کر دیکھتا ہوں۔ وہ نو جوان مجھے اب بھی غور سے دیکھ رہا ہے۔
کلام حیدری
(1930-1994)
محمد کلام الحق حیدری ان کا پورا نام تھا ۔ کلام حیدری کی حیثیت سے مشہور ہوئے ۔ ان کی پیدائش مونگیر (بہار) میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم ایٹہ (اتر پردیش) میں حاصل کی ۔ رین کالج ، کلکتہ سے آئی۔ کام کا امتحان پاس کیا۔ رانچی کالج ، رانچی سے بی۔ اے اور پٹنہ یونیورسٹی سے ایم ۔ اے(اردو) کی ڈگریاں حاصل کیں۔ پورنیہ ڈگری کالج میں ملازمت کی ۔ انجمن ترقی اردو بہار کے جنرل سکریٹری اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے سرگرم رکن رہے۔ کلام حیدری نے ہفتہ وار مورچہ اور ماہنامہ' آہنگ' شہر گیا سے شائع کیا اور ان کی ادارت بھی کی۔
كلام حیدری کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ ' بے نام گلیاں' کے عنوان سے 1955 میں شائع ہوا۔ ان کے دوسرے افسانوی مجموعوں کے نام 'صفر', الف لام میم اور گولڈن جبلی ہیں ۔ 'برملا ' ان کے ادبی تبصروں کا مجموعہ ہے۔ ادب اور تصوف اور تفہیمات ان کی علمی کتابیں ہیں۔
خلاصہ:
خلاصه:- كلام حیدری کا افسانہ سخی ایک پڑھے لکھے مگر بے روزگارشخص کی زندگی کی ایک جھلک پیش کرتا ہے کہ انسان کی بنیادی ضرورتیں اس سے کیا کیا کراتی ہیں۔
شہر کلکتہ کی مشہور سڑک زکر یا اسٹریٹ کے ایک گندے اور چھوٹے ہوٹل میں کہانی کا ہیرو بیٹھا کسی ایڈیٹر کا انتظار کر رہا ہے جس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایسے ترجمے کا کام دے گا اور وہ اس سے کچھ ایڈوانس لے گا تاکہ وہ ز کر یا اسٹریٹ کے اسے ہوٹلوں میں دو وقت کچھ کھا سکے۔ اس کے سامنے ایک ٹیبل پر کئی لوگ بیٹھے ہیں، ان میں سے ایک کووہ پہچانتاہے، وہ مولا بخش ہے جو ہر ہفتے پابندی سے پورنیہ میں اپنی بیوی کو منی آرڈر بھیجتا ہے، کبھی پچاس روپے کی چالیس اور کبھی سو۔ یہ ایک مزدور ہے، جومحنت سے پیسا کماتا ہے، اس کے رہنے کی کوئی جگہ نہیں ، وہ منی آرڈر کہانی کے ہیرو کی معرفت بجھواتا ہے۔
آج ہیرو کی جیب میں ساڑھے چھ آنے ہیں اور کچھ دیر بعد پانچ آنے رہ جائیں گے۔ ڈیڑھ آنے چائے کی قیمت چلی جائے گی۔ اگلے روز ہیرو اپنی کوٹھری کی ایک چوکی پر پڑا ہے سرہانے دو آنے تکیے کے نیچے رکھے ہیں۔ بے روزگار ہیرو سوچتا ہے کہ ملازمت کرنے کے بجائے ٹیوشن کی تلاش کی جائے اور پیٹ بھرنے کیلئے اس کے پاس انگریزی کی جوڈکشنری ہے اسے بچکر کر کچھ پیسے حاصل کیے جائیں ۔ اسی اثنا میں مولا بخش وہاں آتا ہے اور ساٹھ روپے کا منی آرڈر کھواتا ہے، مولابخش کہتا ہے کہ آج اسے مالک نے جلدی بلایا ہے اسی لئے وہ منی آرڈرنہیں کر سکے گا ۔ ہیرو کچھ سوچ کر اس سے کہہ دیتا ہے کہ مجھے فرصت ہے وہ کہے تو وہ منی آرڈر بھیج دوں ۔ مولابخش ساٹھ روپے اور منی آرڈر فارم دے کر چلا گیا۔ اور ہیرو ٹیوشن تلاش کرنے نکالا ہے مگر شام ہوگئی ٹیوشن نہیں ملی۔ اب ہیرو زکر یا اسٹریٹ کے بجائے پارک سرکس میں ایک اوسط درجے کے ہوٹل میں بیٹھا شیر مال، قورمہ اور سیخ کباب کھا رہا ہے۔ اس کی جیب میں ساٹھ روپے ہیں، منی آرڈرکا فارم اس نے ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھینک دیا ہے۔ کھانا کھا کر ہیرو سڑک پر آتا ہے، اب اس کی جیب میں بائیس روپے کچھ آ نے ہیں۔
  اور سکینہ کومنی آرڈر ابھی تک نہیں بھیج ہے وہ چلتا ہوا زکریا اسٹریٹ کے دروازے کےباہر ناخدا مسجد کے سامنے ایک اسٹریچر پر پڑی ہوئی لاش کو دیکھتا ہے۔  نوجوان آواز لگا رہا ہے کہ ایک غریب مرگیا ہے کفن دفن کیلئے پیسے دے کر ثواب حاصل کیجئے۔ ہیروقریب جا کر دکھتا ہے تو وہ مولا بخش کی لاش ہے جو سکینہ کے پاس منی آرڈر بھیجنے سے پہلے ہی خدا کے یہاں پہنچ گیا۔ ہیرو اس نو جوان سے پوچھتا ہے کہ یہ کیسے مرا؟ اس نے بتایا ک ٹرک سے کچل کر مولابخش کے کفن دفن کیلئے ایک نے دو آنے راہ گیر چادر پر پھینکتے جارہے ہیں۔
ہیرو کا ہاتھ جیب میں جاتا ہے، بائیس روپے کچھ آنے اس چادر پر پھینک کر وہ جلدی جلدی جانے لگتا ہے۔ نوجوان اسے غور سے دیکھتا ہے کہ یہ کوئی سخی ہے جو اپنے پیسے دے رہا ہے۔
افسانے کا عنوان سخی اسلئے ہے کہ ہیرو نے منی آرڈر کی رقم کے بچے ہوئے پیسے ضرورت ہونے پر بھی مولا بخش کے کفن دفن کیلئے دے دیے۔ جبکہ یہ رقم مولا بخش ہی کی تھی۔
سوالوں کے جواب لکھیے:
1۔ افسانہ نگار ہوٹل میں کس کا منتظرتھا اور کیوں؟
جواب: افسانہ نگار ہوٹل میں بیٹھا ایک اخبار کے ایڈیٹر کا انتظار کر رہا تھا جس نے اسے ترجمے کا کام دینے کا وعدہ کیا تھا۔ وہ اس امید پر اس کا منتظر تھا کہ اگر اسے ترجمے کا کام مل گیا تو وہ اس ایڈیٹر سے کچھ ایڈوانس مانگے گا تاکہ وہ زکریا اسٹریٹ کے کسی ہوٹل میں کچھ دن گزارا کر سکے۔
2- اس کہانی میں زندگی کی کون سی سچائی بیان کی گئی ہے؟
جواب:  اس کہانی کے مطابق زندگی کی سچائی پیسہ کو بتایا گیا ہے۔ کیونکہ پیسے کے بغیرانسان کوئی کام  نہیں کر سکتا۔ پیسہ نہ ہونے پر آدمی بھیک مانگتا ہے، چوری کرتا ہے، ڈاکے ڈالتا ہے ، اور دیگر غلط کاموں میں ملوث ہوتا ہے تاکہ  دو وقت کی روٹی کا انتظام کر سکے  اور زندگی کی دوسری ضرورتیں پوری کر سکے۔
3۔ مولا بخش کے کردار پر روشنی ڈالیے۔
جواب: مولا بخش ایک محنتی شخص ہے جو مزدوری کرتا ہے اور اپنی محنت سے جو کچھ بھی کماتا ہے اُن میں سے ہر ماہ کی 13 تاریخ یا اس کے آس پاس 50،40 یا 30 روپے جو بھی میسر ہو اپنی بیوی سکینہ کو اپنے گھر پورنیہ بھیج دیتا ہے۔ وہ ایک گٹھے ہوئے جسم کا مالک ہے ۔وہ پستہ قد اورسیاہی مائل ہے اور اس کے کان کی لوتھڑی کٹی ہوئی ہے۔ چہرہ بڑا ،گردن موٹی اور آنکھوں میں چمک ہے۔محنت سے جی نہیں چراتا اور اپنی بیوی سے سخت محبت کرتا ہے۔
4۔ اس کہانی کا عنوان سخی کیوں رکھا گیا ہے؟
جواب: اس کہانی کا عنوان سخی در اصل ایک گہرا طنز ہے یہ ایک مہذب سماج پر طمانچے کی مانند ہے۔ کہانی کا مصنف جو ایک بے روزگار شخص ہے ایک بڑے شہر میں ملازمت کی تلاش میں اس درجہ پریشان اور بے بس ہو جاتا ہے کہ اسے ایمانداری اور بے ایمانی میں فرق سمجط نہیں ہوتا۔ وہ اس کہانی کے مرکزی کردار جو کہ ایک مزدور ہے اس کے 60 روپے ہتھیا لینے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتا۔ مولا بخش جو ہر ماہ کی 13 تاریخ کو پابندی سے پیسے بھیجتا ہے 60 روپے لے کر مولا بخش کے پاس آتا ہے اور اسے بتاتا ہے کہ وہ کچھ مجبوریوں کے باعث اپنی بیوی کو منی آرڈر نہیں لگا پا رہا ہے اور برسوں بعد پہلی بار ایسا ہوگا کہ وہ اپنی بیوی کو پیسہ اپنے وقت پر نہیں بھیج پارہا ہے۔ افسانہ نگار کی نیت میں فتور آجاتا ہے۔ وہ مولا بخش سے وعدہ کر لیتا ہےکہ وہاس کا منی آرڈر لگا دے گا۔ مولا بخش اسے منی آرڈر اور پیسے دے کر چلا جاتا ہے۔ افسانہ نگار پیسے لے کر اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے نکل پڑتا ہے۔ وہ ایک ہوٹل میں بیٹھ کر خوب مزے اڑاتا ہے۔ ہوٹل میں وہ قورمہ، شیر مال اور کباب کے مزے لیتا ہے جن کی خشبو نے اسے کئی دن سے دیوانہ بنا رکھا تھا۔ وہ ہوٹل سے باہر نکلتا ہے اور منی آرڈر کو پھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔ اب اس کے پاس 22 روپے بچے ہوئے ہیں۔ جب وہ ناخدا مسجد کے پاس پہنچتا ہے تو وہاں ایک شخص آواز لگا رہا ہوتا ہے کہ یہاں ایک لاش پڑی ہے اس کے کفن دفن کے لیے کچھ پیسے دیتے جأؤ۔ وہ قریا جاتا ہے۔اسے لاش کے کان کی کٹی ہوئی لو دکھ جاتی ہے اس کے منہ سے بے ساختہ مولا بخش نکل جاتا ہے۔ لوگ لاش کے پاس 5،10 پیسے ڈال کر جا رہے تھے۔ وہ اپنی جیب میں مولا بخش کے باقی بچے 22 روپے اس کی لاش پر ڈال کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ وہاں بیٹھا نوجوان اسے دور تک دیکھتا رہتا ہے کہ یہ کون ہے۔ یہ اس کہانی کا کلائمکس ہے جس میں ایک گناہ گار کو لوگ دریا دل اور سخی سمجھتے ہیں۔

Mirza Chapati by Ashraf Saboohi NCERT Class 10 Gulzar e Urdu


مرزا چپاتی 
اشرف صبوحی

خدا بخشے مرزا چپاتی کو، نام لیتے ہی صورت آنکھوں کے سامنے آگئی ۔ گورا رنگ، بڑی بڑی ابلی ہوئی آنکھیں، لمبا قد شانوں پر سے ذراجھکا ہوا، چوڑا شفاف ماتھا، تیموری ڈاڑھی، چنگیزی ناک مغلئی ہاڑ ۔ لڑکپن تو قلعے کی در و دیوار نے دیکھا ہوگا۔ جوانی دیکھنے والے بھی ٹھنڈا سانس لینے کے سوا کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ڈھلتا وقت اور بڑھاپا ہمارے سامنے گزرا ہے۔ لٹے ہوئے عیش کی ایک تصویر تھے۔ رنگ روغن اتراہوامحمد شاہی کھلونا تھا جس کی کوئی قیمت نہ رہی تھی۔
کہتے ہیں کہ دلی کے آخری تاج دار ظفر کے بھانجے تھے۔ ضرور ہوں گے۔ پوتڑوں کی شاه زادگی ٹھیکروں میں دم توڑ رہی تھی ، لیکن مزاج میں رنگیلا پن وہی تھا۔ جلی ہوئی رسی کے سارے بل گن لو۔ جب تک جیے پرانی وضع کو لیے ہوئے جیے۔ مرتے مرتے نہ کبوتر بازی چھوٹی، نہ پتنگ بازی ۔ مرغےلڑائے یا بلبل، تیرا کی کا شغل رہا یا شعبدے بازی کا ۔ شطرنج کے بڑے ماہر تھے۔ غائب کھیلتے تھے۔ خدا جانے غدر میں یہ کیوں کر بچ گئے اور جیل کے سامنے والے خونی دروازے نے ان کے سر کی بھینٹ کیوں نہ قبول کی؟ انگریزی عمل داری ہوئی۔ بدامنی کا کوئی اندیشہ نہ رہا تو مراحم خسروانہ کی لہر اٹھی۔ خاندان شاہی کی پرورش کا خیال آیا پینشنیں مقرر ہوئیں ۔ مگر برائے نام ۔
لیکن صاحب عالم مرزا فخرالدین عرف مرزا فخر والملقب بہ مرزا چپاتی نے مردانہ وار زندگی گزاری۔ گھر بار جب کبھی ہوگا ، ہوگا۔ ہماری جب سے یاد اللہ ہوئی دم نقد ہی دیکھا۔ قلعے کی گود میں بازیوں کے سوا اور سیکھا ہی کیا تھا جو بگڑے وقت میں آبرو بناتا۔ اپنے والد رحیم الدین حیا سے ایک فقط شاعری ورثے میں ملی تھی، پڑھنا لکھنا آتا نہ تھا۔ پھر زبان تو تلی مگر حافظہ اس بلا کا تھا کہ سوسو بند کے مسدس از بر تھے۔ کیا مجال کہ کہیں سے کوئی مصرع بھول جائیں ۔ گویا گراموفون تھے، کوک دیا اور چلے۔ ایک دن کسی شخص نے مرزا صاحب کے سامنے یہ مصرع پڑھا
          سر عدو کا ہو نہیں سکتا میرے سر کا جواب
اور اس پر مصرع لگانے کی فرمائش کی ۔ مرزا صاحب نے اسی وقت بہترین مصرع لگا کر اس طرح ایک اعلا پایہ کا شعر بنادیا۔
          شہ نے عابد سے کہا بدلہ نہ لینا شمر   سے
          سرعدو کا ہونہیں سکتا میرے سر کا جواب
قلعہ مرحوم کے حالات اور موجودہ تہذیب پر ان کی نوکا جھونکی جتنی مزہ دیتی تھی، وہ میرا دل ہی جانتا ہے۔ کبھی کبھی وہ مجھے پتنگ بازی کے دنگلوں میں لے جاتے تھے۔ مرغ اور بلبلوں کی بالیاں بھی دکھائیں ۔ تیراکی کے میلوں میں بھی لے گئے۔ کبوتر بھی مجھے دکھا دکھا کر اڑائے۔ سب کچھ کیا، میں جہاں تھا وہیں رہا۔ ہر جگہ ان کا دماغ کھایا۔ انھیں بھی میری خاطر ایسی منظور تھی کہ بادل خواستہ یا ناخواستہ وہ سب کچھ مجھے بتاتے۔
ایک دن دوپہر کے کوئی دو بجے ہوں گے۔ برسات کا موسم تھا۔ کئی گھنٹے کی موسلا دھار بارش کے بعد ذرا بادل چھٹے تھے کہ حضرت معمول کے خلاف میرے پاس تشریف لائے۔ منہ بنا ہوا، آنکھیں ابلی ہوئی۔ چہرے سے غصہ ٹپک رہا تھا۔ میں نے کہا خدا خیر کرے۔ آج تو صاحب عالم کے تیور کچھ اور ہیں ۔ کئی منٹ تک خاموش بیٹھے رہے اور میں ان کا منہ تکتا رہا۔ ذرا سانس درست ہوا تو بولے ’’سید! اس پٹھانچے کا ٹڑ مغزاپن بھی دیکھا۔ بڑا افلاطون بنا پھرتا ہے۔ باوا تو جھک جھک کر مجرا کرتے کرتے مر گیا، یہ بابو بن کر بابو کی طرح دلتیاں جھاڑتا ہے۔ ہے شرط کہ چار جامہ کس دوں، ساری ٹرفش نکل جائے گی۔
میں : میں بالکل نہیں سمجھا۔ ہوا کیا؟ کون پٹھانچہ؟ مرزا : ایسے ننھے سمجھے ہی نہیں ۔ میاں! وہی کالے خاں کا لڑکا جو کچہری میں نوکر ہے۔
میں : منیر۔ کیا اس نے کچھ گستاخی کی؟
مرزا : گستاخی ! نہ ہوا ہمارا زمانہ، خاندان بھر کو کولھو میں پسوا دیتا۔
میں : بڑا نالائق ہے۔ کیا بات ہوئی؟
مرزا : ہوا یہ کہ میں کبوتروں کا دانہ لینے نکلا۔ گلی کے نکڑ پر بنیے کی دکان ہے۔ نالیوں میں دھائیں دھائیں پانی بہہ رہا تھا۔ ساری گلی میں کیچڑ ہی کیچڑ تھی۔ محلے والوں نے جا بجا پتھر رکھ دیے تھے کہ آنے جانے والے ان پر پائو (پاؤں) رکھ کر گزر جائیں۔ دیکھتا کیا ہوں وہ اکڑے خاں بیچ گلی میں کھڑے ہوئے ایک خوانچے والے سے جھک جھک کر رہے ہیں ۔ گلی تنگ، کیچڑ اور پانی ۔ پتھروں پر ان کا قبضہ۔ کوئی بھلا اس پر گزرے تو کہاں سے؟ میں نے کہا کہ میاں راستہ چھوڑ کر کھڑے ہو۔ یہ کون سی انسانیت ہے کہ سارا راستہ روک رکھا ہے۔ ٹرا کر جواب دیا کہ چلے جاؤ۔ مجھے تاؤ آ گیا۔ بولا کہ تمھارے سر پر سے جاؤں ۔ بس پھر کیا تھا جامے سے باہر نکل پڑا۔ وہ تو پاس پڑوس کے دو چار آدمی نکل آئے اور بیچ بچاؤ
کرا دیا ورنہ آج یا وہ نہیں تھایا میں ۔ خیر جاتا کہاں ہے۔ آج کے تھپے آج ہی نہیں جلا کرتے۔
میں : صاحب عالم ! آپ اپنی طرف دیکھیے ۔ جوظرف میں ہوتا ہے وہی چھلکتا ہے۔ آنے دیجیے وہ ڈانٹ بتاؤں کہ ہاتھ جوڑتے۔
بنے......................... سنا ہے کہ قلعے کے آخری دور ہی میں شہر کی حالت بدل گئی تھی ۔ نہ چھوٹوں کا رکھ رکھاؤ رہا تھانہ بڑوں کا ادب ۔
مرزا : توبہ توبہ تم نے تو دلی کو دم توڑتے بھی نہیں دیکھا۔ اس کا مردہ دیکھا ہے۔ مردہ، وہ بھی لاوارث ! میاں شہر آبادی کی باتیں قلعے والوں کے صدقے میں تھیں۔ جیسے جیسے وہ اٹھتے گئے دلی میں اصلیت کا اندھیرا ہوتا گیا۔ اب تو نئی روشنی ہے نئی باتیں ۔ اور تو خدا بخشے دلی کی صفتیں تم کیا جانو۔ پڑھے لکھے ہو۔ شاعری کا بھی شوق ہے۔ بھلا بتاؤ تو سہی اردو کی کتنی قسمیں ہیں؟ میں نے حیران ہو کر پوچھا” صاحب عالم اردو کی قسمیں کیسی؟ یہ بھی ایک کہی ۔ مجھ پر بھی دائو کرنے لگے۔‘‘’ واہ بھئی معلوم ہوا کہ تم دلی والے نہیں کہیں باہر سے آ کر بس گئے ہو ۔" میں شرمندہ تھا کہ کیا جواب دوں ۔ میرے نزدیک تو صرف ایک ہی قسم کی اردوتھی ۔ زیادہ سے زیادہ عوام وخواص کا فرق سمجھ لو مگر یہ قسمیں کیا معنی؟ مجھے چپ دیکھ کر مرزا مسکرائے اور کہنے لگے" سید پریشان نہ ہو۔ مجھ سے سن اور یاد رکھ۔ بھولیو نہیں پھر پوچھے گا تو نہیں بتاؤں گا۔" میں بڑے شوق سے متوجہ ہوا اور انھوں نے انگرکھے کے دامن سے منہ پونچھ کر کہنا شروع کیا۔ دیکھ اول نمبر پرتو اردوئے معلیٰ ہے جس کو ماموں حضرت اور ان کے پاس اٹھنے بیٹھنے والے بولتے تھے۔ وہاں سے شہر میں آئی اور قدیم شرفا کے گھروں میں آچھپی ۔ دوسرا نمبر قل آعوذ اردو کا ہے جو مولویوں، واعظوں اور عالموں کا گلا گھوٹتی رہتی ہے۔ تیسرے خود رنگی اردو۔ یہ ماں ٹینی باپ کلنگ والوں نے رنگ برنگ کے بچے نکالے ہیں۔ اخبار اور رسالوں میں اسی قسم کی اردو ادب کا اچھوتا نمونہ کہلاتا ہے۔ چوتھے ہڑدنگی آردو، مسخروں اور آج کل کے قومی بلم ٹیروں کی منہ پھٹ زبان ہے۔ پانچویں لفنگی اردو ہے جسے آ کا بھائیوں کی لٹھ مار ، کڑاکے دار بولی کہو یا پہلوانوں، کرخنداروں، ضلع جگت کے ماہروں، پھبتی باز وں اور گلیروں کا روز مرہ ۔ چھٹے نمبر پر فرنگی اردو ہے جو تازہ ولایت انگیز ۔ ہندستانیوں عیسائی ٹوپ لگائے ہوئے کرانی، دفتر کے بابوں چھاونیوں کے سوداگر وغیرہ بولتے ہیں ۔ پھر ایک سربھنگی اردو ہے یعنی چرسیوں، بھنگڑوں، بے نواؤں اور تکیے داروں کی زبان ‘‘ میں نے کہا آج تو بہرہ کھلا ہوا ہے۔ بھئی خوب تقسیم ہے کیوں نہ ہو، آخر شاہ جہانی دیگ کی کھر چن ہے۔ میری طرف دیکھ کر ایک گہرا ٹھنڈا سانس بھرا۔ آنکھوں میں آنسو آ گئے اور کہنے لگے ”سید! ابھی تم نے کیا دیکھا ہے اور کیا سنا ہے۔ قلعہ آباد ہوتا، در بار دیکھے ہوتے تو اصلی زبان کا بناو سنگار نظر آتا۔ اب تو ہماری زبان بیسنی ہوگئی ہے۔ وہ لچیلی چونچلے کی باتیں، شریفوں کے انداز، امیروں کی آن، سپاہیوں کی اکڑفوں، وہ خادمانہ اور خور دانہ آداب وانکسار، شاعروں کے لچھے دار فقرے، شہروالوں کا میل جول، پرانے گھرانوں کے رسم و رواج، وہ مروت وہ آنکھ کا لحاظ کہاں؟ مجلسوں محفلوں کا رنگ بدل گیا، میلے ٹھیلے، پرانے کرتب، اگلے ہنرسب مٹتے جاتے ہیں ۔ اشراف گردی نے بھلے مانسوں کو گھر بیٹھا دیا۔ فیل نشین، پالکیوں میں بیٹھنے والے کھپر یلوں میں پڑے ہوئے ہیں ۔ مفلسی، ناداری نے رذالوں کے آگے سر جھکوا دیے۔ موری کی اینٹ چوبارے چڑھ گئی ۔ کم ظرفوں، ٹینیوں کے گھر میں دولت پھٹ پڑی۔ زمانہ جب کمینوں کی پشتی پر ہو تو خاندانیوں کی کون قدر کرتا؟ پیٹ کی مارنے صورتیں بگاڑ دیں، چال چلن میں فرق آ گیا۔ ہمت کے ساتھ حمیت بھی جاتی رہی۔
مرزا نے یہ تقریر کچھ ایسے عبرت خیز لفظوں میں کی کہ میرا دل بھر آیا اور میں نے گفتگو کا پہلو بدلنے کی کوشش کی۔
میں : کیوں حضت ، غدر سے پہلے دلی والوں کا لباس کیا تھا؟ دو چار پرانی وضع کے لوگ دیکھنے میں آئے ہیں ۔ ان کی برزخ توکچھ عجیب  ہی سی معلوم ہوتی تھی۔
مرزا : جھوٹے ہو تم نے کہاں دیکھا ہوگا۔ کوئی بہروپیا یا نقال نظر آ گیا ہوگا۔ میاں ان وقتوں میں ادنا اعلا میں یک رنگی نہ تھی.................... در باری اور بازاری لوگ لباس سے پہچانے جاتے تھے۔ عام طور پر اپنی شکل و شباہت، تن وتوش، جسامت اور پیشے کے مطابق کپڑا پہنا جاتا تھا کہ دور سے دیکھ کر پہچان لیں کہ کس خاندان کا اور کیسا آدمی ہے؟ اگر نوجوان ہے تو ایک ایک ٹانکے پر جوانی برستی ہے۔ بوڑھا ہے تو پیری اور سادگی ٹپکتی ہے۔ بانکوں کا بانک پن ، چھیلاؤں، ملاؤں کی ملائی ، پہلوانوں کی پہلوانی، رذالوں کی رذالت اور شریفوں کی شرافت لباس سے صاف بھانپ لی جاتی تھی ۔ چھوٹے آدمی جس پوشاک کو اختیار کر لیتے تھے، بھلے مانس چھوڑ دیتے تھے۔ دو پلڑی ٹوپیوں کا عام رواج تھا مگر چوگوشی، پچ گوشی، گول، مغلئی، تاج دار ٹوپیاں مغل بچے اور شریف زادے پہنتے تھے۔ قلعے کے آنے جانے والوں میں مندیلیں، بنارسی دوپٹے ، گولے دار پگڑیاں مسلمانوں کا حصہ تھا۔ درباری جامہ بھی پہنا کرتے تھے۔ أمرا چغہ سرپچ اور شہزادوں میں کلغیاں بھی مروج تھیں۔ ہندوؤں میں پہلے جامے کا زیادہ دستور تھا، پھر نیم جامہ اور الٹی چولی کے انگر کھے پہننے لگے۔ علاوہ ازیں الخالق، اچکن، قبا، عبا، جبہ ، چغہ، مرزی وغیرہ بھی استعمال ہوتے تھے۔ پایجامے یا تو تنگ موری کے یا اک برے یا غرارے دار ہوتے تھے۔ ڈاڑھی مونچھوں کی وضع بھی ہر خاندان اور ہر پیشہ ور کی علاحدہ کی۔
  میں : مگر یہاں والوں کو فضول کھیلوں، دولت کو لٹانے والی بازیوں اور بے کار مشغلوں کے سوا کام ہی نہ تھا۔ مرزا : تم کیا جانو کہ وہ بازیاں اور ان کے مشغلے کیسے کمال کے تھے۔ ویسے ہنر آج کوئی نہیں پیدا کر لیتا۔ زہرہ پھٹ جائے زہرہ۔ بات یہ ہے کہ ساری چیزیں وقت سے ہوتی ہیں ۔ نا مردوں کا زمانہ ہے تو نا مردوں کی سی باتیں بھی ہیں ۔ شریفوں کا شغل ڈنڑ، مگدر، با نک، بنوٹ پھکیتی ، اکنگ، تیراندازی، نیزہ بازی، پنجہ کشی تھا۔ کہ دو بے کار تھا۔ تیراکی کشتی شکرے اور بازکا شکار، پتنگ لڑانا، کبوتر بازی وغیرہ سے دل چسپی تھی ۔ کہہ دو یہ بھی فضولیات ہیں۔
میں : فضولیات نہیں تو اور کیا ہیں؟
مرزا : جی ہاں فضولیات ہیں ۔ خدا کے بندے ان ہی باتوں سے تو دلی دلی تھی ۔ ورنہ شاہجہاں کی بسائی ہوئی محمد شاہی دلی اور خورجہ بلند شہر میں کیا فرق ۔ پھکیت اور بنوٹییے ایسے ہوتے تھے کہ موقع پڑتا تو رومال میں صرف پیسا یا ٹھیکری با ندھ کر حریف کے سامنے آ جاتے اور دو جھکائیوں میں ہتھیار چھین لیتے۔ تیراکی کا یہ حال تھا کہ پالتی مارے ہوئے پانی پر بیٹھے ہیں جیسے مسند پر۔۔۔۔۔۔۔ دھواں اڑاتے اور ملہار سنتے چلے جاتے ہیں ۔ قلعے کی حمام والی نہر تو دیکھی ہوگی ۔ گز سواگز کا پاٹ ہے اور بالشت بھر سے زیادہ گہرائی نہیں ۔ اس میں آج کوئی مائی کا لال تیر کر دکھائے تو میں جانوں ۔ میر مچھلی تو خیر استاد تھے، ان کا سا کمال تو کسے میسر ہے۔ دو چار گز تو اتنے پانی میں تیر کر میں بھی دکھا سکتا ہوں۔
میں : اجی جناب آپ ریت پر تیر ہے ، حبابوں پر کھڑی لگایئے ،نتیجہ؟ کھیل ہی تو تھے۔ پھر یہ کبوتر بازی، پتنگ بازی ، مرغ بازی، مینڈھے بازی کیا بلا تھی؟ بچارے بے زبانوں کو لہولہان کرنا اور اپنا دل بہلانا کیا اچھے ہنر تھے۔
مرزا : ارے میاں ایرانی تورانی منچلے، دہم ہو کر کیا چوڑیاں پہن لیتے۔ جنگ و جدال کا خیال انسانی قربانیوں، ملک ستانیوں کے
چاو ، خون کی پچکاریوں سے ہولی کا وقت تو لد گیا تھا۔ نہ ان پر کوئی چڑھ کر آتا تھا نہ یہ کہیں چڑھائی کرتے تھے۔ انگریزی عمل داری کی برکت سے نکسیر یں بھی نہیں پھوٹتی تھیں ۔ وہ جانوروں کو ہی لڑا کر اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے تھے۔
میں کچھ اور کہنے والا تھا کہ مرزا نے ایک جھر جھری لی اور یہ کہتے ہوئے کہ بھئی غضب ہو گیا شام ہونے آئی ۔ کبوتر بھوکے میری جان کو رو رہے ہوں گے اور چوک کا وقت بھی آلگا ہے۔ لال بند کا جوڑ اگانا ہے، یہ جا وہ جا۔
ان باتوں کو کوئی ایک مہینا گزرا ہوگا کہ صبح ہی صبح مرزا صاحب چلے آتے ہیں ۔ آتے ہی فرمانے لگے " پرانی عید گاہ چلنا ہوگا ۔ میں نے کہا ” خیریت؟ بولے” لکھنؤ وں سے پینچ ہیں۔ جانوں ڈھیری یا مالوں ڈھیری۔ پانچ روپے ، پینچ ٹھہرا ہے، بڑا معرکہ ہوگا۔ میں نے عرض کیا ”صاحب عالم مجھے نہ تو پتنگ بازی سے کوئی دل چسپی ہے نہ میرے پاس اتنا فضول وقت ہے کہ آپ کے ساتھ واہی تباہی پھروں ۔‘‘ تاؤ کھا کر آنکھیں نکال لیں اور حاکمانہ انداز سے کہنے لگے تمھاری اور تمھارے وقت کی ایسی تیسی ۔ بس کہہ دیا کہ چلنا ہوگا ۔ دوپہر کو آؤں گا تیار رہنا ‘‘ میں بہت پریشان ہوا مگر کرتا کیا، دوستی تھی یا مزاق ۔ قہر درویش بجان درویش ۔ اپنی ساری ضرورتوں کو طاق پر رکھا اور حضرت مرزا چپاتی کا منتظر تھا کہ ٹھیک بارہ بجے آواز پڑی' سید آو‘۔ آگے آگے مرزا صاحب اور پیچھے پیچھے میں ۔ اجمیری دروازے سے نکل کر قبرستان لا نگتے پھالا نگتے پرانی عید گاہ پہنچے۔ وہاں دیکھا تو خاصا میلا لگا ہوا ہے۔ کبابی، کچالو والے، دہی بڑوں کی چاٹ، پان بیڑی، پانی پلانے والے سقے ، پوری خرافات موجود ہے۔ جا بجا پتنگ بازوں کی ٹکڑیاں بیٹھی ہیں۔ مرزا صاحب کو دیکھتے ہی "صاحب عالم ارھر،" مرزا صاحب ادھر ، "استاد پہلے میری سن لیجیے"
میاں ادھر آنے دو۔ بات سمجھتے ہیں نہ بات کی دم، اڑنے سے کام ”حضت آپ یہاں آئیے ۔ میر کنکیا آپ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں۔" چاروں طرف سے آوازیں پڑنے لگیں ۔ مرزا چو کنے ایک ایک کو جواب دیتے ، شامیانے کے نیچے جہاں میر کنکیا تشریف فرما تھے، پہنچے۔
میر کنکیا لکھنؤ کے واجد علی شاہی پتنگ باز تھے۔ کا کریزی رنگ، گول چہرہ، چھوٹی چھوٹی آنکھیں، بڑی ناک، دانتوں میں کھڑکیاں، سر پر کڑ بڑے پٹھے ۔ خشخاشی داڑھی، چھاتی کھلا ، سنجاف دار ڈھیلا ڈھالا انگرکھا، سر پر دو انگل کی کلابتو کے حاشیے کی ٹوپی، پاؤں میں مخملی گرگابی، گلے میں گلوری، اٹھ کر مرزا چپاتی سے بغل گیر ہوئے۔ پھر جو پتنگ بازی کا ذکر شروع ہوا تو تین بج گئے۔ میں بے وقوفوں کی طرح بیٹھا ہوا ایک ایک کا منہ تک رہا تھا۔ پتنگ بازی کی ہوتی تو ان کی اصطلاحیں سمجھ میں آتیں۔ آخر خدا خدا کر کے لوگ اپنی اپنی ٹکڑیوں میں گئے ۔ آسمان پر چیل کوے منڈلانے شروع ہوئے۔ میں مرزا صاحب کے ساتھ تھا۔ عید گاہ کی دیوار کے نیچے سے انھوں نے بھی اپنا اختر بختر کھول کر ایک انگارا ادھا اڑایا۔ ہچکا ایک لڑکے کے ہاتھ میں تھا۔ کوئی دس منٹ تک جھکایاں دیتے رہے، پینچ ہوا۔ کبھی آگے بڑھتے تھے کبھی پیچھے ہٹتے تھے۔ ایک دفعہ ہی چھلا کر لڑکے کو تمانچا رسید کیا اور بولے ابے ہچکا پکڑنے کی سرت بھی نہ تھی تو یہاں آن کیوں مرا آخر کٹوا دیانا‘‘
پر ایک الفن پڑھائی اور اب کے ہچکا پکڑنے کی خدمت مجھے انجام دینی پڑی۔ بدقسمتی سے یہ گڈی بھی کٹ گئی۔ بہت بگڑے کہ بس جب تم جیسے منحوس ساتھ ہوں تو ہم اڑا چکے ۔ غضب ہے سانولیا ہمیں استاد کہنے والا ، میر گولنداز ہمارے ہاں کے شاگرد، شیخ پیچک جیسے برابر پینچ  نکالے جاتے ہیں اور مرزافخرو اوپر نیچے دوکنکو ے کٹوائے ’’ سمیٹو میاں سمیٹو مجھے اپنی استادی تھوڑی گنوانی ہے۔" وہ کہتے رہے، میں تو وہاں سے ہٹ کر رومال بچھا کر الگ جا بیٹھا۔ تھوڑی دیر میں وہ بھی اپنا اسباب جہالت لنگی میں باندھے میرے پاس آ بیٹھے۔ تیوری پر بل تھے، چہرہ سرخ، آنکھیں ابلی ہوئی۔ میں نے کہا مرزا صاحب ہوا کا کھیل ہے۔ اس میں کسی کی کیا پیری۔ آپ کی استادی میں کہیں فرق آتا ہے ۔ سلطنت ہی جب ہتھے پر سے کٹ گئی تو ان دو کاغذ کے ٹکڑوں کا کیا غم ! آپ، آپ ہی ہیں ۔ کہنے لگے " سچ کہتے ہو میاں ۔ ہم قلعے والوں کی تقدیر ہی خراب ہے۔ ہوا بھی موافقت نہیں کرتی۔ میں نے ان کے بشرے سے ان کی دلی تکلیف کا اندازہ کرتے ہوئے اس ذکر کو موقوف کر دیا۔ اور پوچھا کیوں مرزا صاحب قلعہ جب آباد تھا اس وقت بھی پتنگ بازی کے ایسے ہی دنگل ہوتے تھے؟
مرزا : إک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے۔ اس وقت کا سماں کیوں کر دکھاؤں ۔ میاں ہر بات میں اک شان تھی، ایک قاعده تھا اور ہزاروں غریبوں کی روٹیوں کے سہارے۔ معمول تھا کہ عصر کا وقت ہوا اور سلیم گڑھ پر جمگھٹ لگا۔ بڑے بڑے پتنگ، دوتاوی اور سیہ تاوی تکلیں ، ڈور کی چرخیاں لے کر شاہی پتنگ باز پہنچ گئے ، خلوت کے امیر اور شوقین شہزادے مرزا نبو ، مرزا کدال، مرزا کالیٹن، مرزا چڑیا، مرزا جھر جھری بھی آ موجود ہوئے۔ یہ سلاطین زادے بہت منہ چڑھے تھے۔
میں : (بات کاٹ کر ) حضت یہ نام کیسے؟ کیا اسی بولی کا نام اردوے مععلی ہے؟
مرزا : کچھ پڑھا لکھا بھی، یا گھاس ہی کھودتے رہے ہو۔ ارے زبان کی ٹکسال قلعے ہی میں تو تھی وہاں محاورات نہ ڈھلتے تو کہاں ڈھلتے طبیعتیں ہر وقت حاضر رہتی تھیں۔ ہر بات میں جدت مد نظرتھی ۔ ہنسی مذاق میں جو منہ سے نکل گیا گویا سکہ ڈھل گیا کسی کے پھٹے پھٹے دیدے ہوئے مرزا بٹو کہہ دیا۔ لمبا چہرہ، چگی ڈاڑھی دیکھی ، مرزا چکایا مرزا کدال کہنے لگے ۔ چکلے چہرے والے پر چو پال کی اور ٹھنگنے پر گھٹنے کی پھبتی اڑا دی ۔ غرض کہ مرزا چیل، مرزا جھپٹ ، مرزا یا ہو، مرزا رنگیلے، مرزا رسیلے، بیسوں اسم با مسمی تھے ۔ میں جمعرات کو چپاتیاں اور حلوا با نٹا کرتا تھا، میرا نام مرزا چپاتی مشہور کر دیا۔
میں : لیجیے ہمیں آج تک مرزا چپاتی کی وجہ تسمیہ ہی معلوم نہ تھی ۔ یہ آپ کا خیر سے ٹکسالی نام ہے۔
مرزا : اب زیادہ نہ اتراو۔ قصہ سنتے ہو یا کوئی پھبتی سننے کو جی چاہتا ہے۔
میں : اچھا اب کان پکڑتا ہوں بیچ میں نہیں بولوں گا۔ فرمایئے ۔
مرزا : سب سامان لیس ہو گیا تو بڑے حضرت کی سواری آئی۔ دعا سلام مجرے کے بعد حکم لے کر دریا کی طرف پتنگ بڑھایا گیا۔
دوسری جانب سے معین الملک نظارت خاں بادشاہی ناظر کا، مرزا یاور بخت بہادر یا جس کے لیے پہلے سے ارشاد ہو چکا ہے، پتنگ اٹھا۔ ریتی میں سوار کھڑے ہو گئے ۔ پینچ لڑے، ڈھیلیں چلیں ۔ پتنگ یا تکلیں چھپکتی ہوئی چلی جاتی ہیں ۔ یا ہاتھ روک کر ڈور دی تو ڈوبتے آسمان سے جالگیں۔ پیٹا چھوڑ دیا، ڈور یں زمین تک لٹک آئیں، سواروں نے دوشاخے بانسوں پر لے لیں۔ پتنگ کٹا تو دریا کے وار پار ڈور پڑ گئی۔ ڈور یں لٹیں۔ پتنگ کے پیچھے پیچھے غول کے غول شاہدرہ تک نکل گئے ۔ جس نے وہ تکل با پتنگ لوٹی پانچ روپے کی مزدوری کی ۔ ڈور بھی بیس بیس تیس تیس رو پے سیر بک جاتی تھی۔ بادشاہ کبھی تو خالی سیر ہی دیکھتے رہتے۔ کبھی جی میں آتا تو تخت رواں سے اتر پڑتے۔ مچھلی کے چھلکوں کے دستانے پہن لیے۔ پتنگ ہاتھ میں لیا، ایک آدھ پینچ لڑایا اور ہنستے بولتے محل معلی میں داخل ہو گئے ۔ سید ! یہ بھی خبر ہے کہ وہ پتنگ یا تکلیں کتنی بڑی اور کیسی محنت سے بنائی ہوئی ہوتی تھیں تکلیں تو تمھارے پیدا ہونے سے پہلے مرچکیں ۔ خیر میں کبھی ان کی تصویر دکھاؤں گا۔ تو وہ قد آدم ہوتی تھی اور ایک ایک کی تیاری میں کئی کئی دن لگ جاتے تھے۔ ڈور یں بھی اک بلی، دو بلی، تبلی، چوبلی کنکوں اور تکلوں کے زور کے موافقت بنتی تھیں ۔ مانجھوں کے نسخے بھی ہر گھرانے کے الگ تھے۔ تکلیں تو تکلیں آج ویسے پتنگ بھی نہ بنتے ہیں نہ کسی میں اتنا بوتا ہوتا ہے کہ ان کی جھونک سنبھال سکے۔ چھوٹی تنخیں رہ گئی ہیں یا
بڑے نامی پتنگ بازوں کے ہاں ادھے ۔ وہ بھی کنکوے نہیں گڈیاں ہوتی ہیں ۔ لنڈوری بن پنچھلے کی۔
میں : بھئی واقعی لطف تو بڑا آتا ہوگا۔
مرزا : جہاں اپنی حکومت، گھر کی بادشاہت اور پرائی دولت ہوتی ہے، یہی رنگ ہوا کرتے ہیں ۔ عشرت گاہوں میں ہر وقت نماز یں نہیں پڑھی جاتیں ۔ مجاہدے اور مراقبے نہیں ہوتے ، یہ نہ اٹھائیں تو زندگی کی راحتیں کون اٹھائے ۔ دنیا میں ہمیشہ یہی ہوتا رہا ہے اور یہی ہوتا رہے گا۔ سلطنتوں کی بھی عمر یں ہوتی ہیں۔ جس طرح آدمی کوئی پیٹ میں، کوئی پیدا ہوتے ہی ، کوئی بچپن میں، کوئی جوان ہو کر، اور کوئی عمر طبعی طے کرنے کے بعد مرتا ہے، اسی طرح بادشاہتیں ہیں۔ کوئی ایک پشت چلتی ہے، کوئی دو پشت ۔ کسی کا سلسلہ سو پچاس ہی برس میں ٹوٹ جاتا ہے اور کسی کی عمارت صدیوں کی خبر لاتی ہے ۔ مغلوں نے چھ سو برس تخت کوسنبھالا ۔ آخر بڑھاپا تو سب ہی کو آتا ہے۔ ان کے کندھے بھی شل ہو گئے ۔ دنیا کا یہی کارخانہ ہے۔ آج اس کا ، تو کل اس کا زمانہ ہے۔ موت اور زوال بہانہ ڈھونڈتے ہیں ۔ ہمارے لیے عیش وعشرت ہی بہانہ ہوگئی۔
میں سمجھتا تھا کہ مرزا نرے شہزادے ہیں اور ان کی معلومات میں بازیوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ آج معلوم ہوا کہ قلعے والوں کا دماغ بگڑی میں بھی کتنا بنا ہوا تھا۔ میں نے کہا" مرزا صاحب ! یہ آپ نے کس فلسفی کا لکچر یاد کر لیا ہے۔ دو چار جملوں میں کیسے کیسے نکتے حل کر گئے ۔ " بولے ” پیارے ہمارے احوال پر نہ جاؤ۔ جان کر دیوانے بنے ہوئے ہیں۔ نہیں تو کیا نہیں جانتے کیا نہیں آتا
عالم میں اب تلک بھی مذکور ہے ہمارا
افسانہ۔   محبت۔   مشہور   ہے   ہمارا

اشرف صبوحی
(1905 - 1990)
سید ولی اشرف نام اور صبوحی تخلص، ادبی دنیا میں اشرف صبوحی کے نام سے مشہور ہوئے۔ 11 مئی 1905 کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ 1922 میں اینگلو عربک ہائی اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد ادیب کامل، منشی فاضل ، ایف اے اور بی اے کے امتحانات پرائیوٹ طور پر پنجاب یونیورسٹی لاہور سے پاس کر کے 1929 میں محکمہ ڈاک اور تار میں ملازم ہوئے۔
ابتدا میں بچوں کے لیے کہانیاں لکھیں۔ دہلی سے شائع ہونے والے ادبی رسالوں میں کئی مضامین شائع ہوئے۔ ایک ادبی ماہنامہ" ارمغان" بھی جاری کیا جو دو سال تک شائع ہوتا رہا۔ 1947 میں تقسیم ملک کے بعد لاہور (پاکستان) چلے گئے ۔ ان کا انتقال کراچی میں ہوا۔
اشرف صبوحی نے دہلی کے روز مرہ بامحاورہ ٹکسالی زبان میں ادبی مضامین اور افسانے لکھے اور تراجم بھی کیے۔’’دلی کی چند عجیب ہستیاں اور "غبار کارواں"ان کے خاکوں کے مجموعے ہیں۔’’ جھرو کے" افسانوں اور خاکوں کا مجموعہ ہے۔ ”سلمی‘‘ (بغدادکا جوہری)، بن باسی دیوی‘‘ ’’ دھوپ چھاؤں"، "ننگی دھرتی‘‘اور’’ موصل کے سوداگر انگریزی کے تراجم ہیں۔ ان کے علاوہ بیس سے زائد بچوں کی کہانیوں پرمشتمل کتابیں ہیں۔
خلاصہ:
اشرف صبوحی نے دہلی کے روز مرہ بامحاورہ اور ٹکسالی زبان میں دلی کی چند عجیب ہستیوں کے خاکے لکھے ہیں انہیں عجیب ہستیوں میں دلی کے آخر مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے بھانجے تھے۔ نام تو صاحب عالم مرزا فخر الدین عرف مرزا فخرو تھا لیکن مرزا چپاتی کے نام سے مشہور ہوئے۔ پرانی وضع کولئے ہوئے جیے، مرتے مرتے نہ کبوتر بازی چھوڑی نہ پتنگ بازی، مرغے لڑائے یا بلبل، تیرا کی کاشغل رہا۔ شعبدے بازی کا شطرنج کے بڑے ماہر تھے۔ پڑھنا لکھنا نہیں آتا البتہ والد رحیم الدین حیاسے شاعری ورثے میں ملی تھی ۔ حافظہ بلا کا تھا، سوسو بندوں کے مسدس زبانی یاد تھے۔
مصنف سے ان کے مراسم تھے، اور انہوں نے اشرف صبوی کو پتنگ بازی ۔ کی مقا بلے مرغ اور بلبلوں کی پالیاں، تیراکی کے میلے بھی دکھائے اور کبوتر بازی بھی۔ بادشاہت چھن گئی معمولی پنشن مقرر تھی مگر مزاج وہی شاہانہ تھا۔ ایک بار کسی لڑکے نے گستاخی کی تو برہم ہو گئے کہ ہمارا زمانہ نہیں ہوا ور نہ خاندان بھر کو کولہو میں پسوا دیتا۔
ایک روز مرزا چپاتی نے مصنف سے پوچھا، بھلا بتاؤ تو سہی اردو کی کتنی قسمیں ہیں۔ مصنف کے نزدیک تو صرف ایک ہی قسم کی اردو تھی ۔ زیادہ سے زیادہ عوام و خواص کا فرق سمجھ لو مگر یہ قسمیں کیا معنی ! مصنف کو خاموش دیکھ کر مرزا چپاتی نے بتانا شروع کیا کہ اول نمبر پر اردوئے معلٰی ہے جس کو ماموں حضرت (بہادر شاه ظفر) اور ان کے پاس اٹھنے بیٹھنے والے بولتے تھے۔ وہاں سے شہر میں آئی ۔ دوسرا نمبر قل آعوز اردو کا ہے جو مولوی ، واعظوں اور عالموں کا گلا گھونٹتی رہتی ہے تیسری خودرنگی اردو یہ ماں بیٹی باپ کلنگ والوں نے رنگ برنگ بچے نکالے۔ اخبار اور رسالوں میں اسی قسم کی اردو ادب کا اچھوتا نمونہ کہلاتا ہے۔ چوتھے ہڑدنگی اردو مسخروں اور آج کل کے قومی بلم ٹیڑوں کی منھ پھٹ زبان ہے۔ پانچویں فنگی اردو ہے جے آ کا بھائیوں کی لٹھ مارہ کڑاکے دار بولی کہو یا پہلوانوں، کرخنداروں ضلع جگت کے ماہر بولتے ہیں۔ چھٹے نمبر پر فرنگی اردو ہے جو ولایت سے نئے نئے آنے والے بولتے ہیں، پھر ایک سر بھنگی اردو ہے یعنی چرسیوں، بھنگڑوں، بے نواؤں اور تکیے داروں کی زبان۔
اسی طرح مرزا چپاتی دلی والوں کے لباس کا ذکر کرتے ہیں کہ درباری اور بازاری لوگ لباس سے پہچانے جاتے ہیں۔ عام طور پر اپنی شکل و شباہت تن وتوش، جسامت اور پیشے کے مطابق کپڑا پہنا جاتا تھا کے دور سے پہچان لیں کہ کس خاندان کا ہے اور کیسا آدمی ہے۔ اس طرح دو پلڑی ٹوپیوں کا عام رواج تھا۔ مگر چوگوشی پچ گوشی، گول، مغلئی، تاج دار ٹوپیاں، مغل بچے اور شریف زادے پہنتے تھے ہندؤں میں پہے جامے کا زیادہ دستور تھا، پھر نیم جامہ اور الٹی چولی کے انگر کھے پہننے لگے۔ داڑھی مونچھوں کی طبع بھی ہر خاندان اور ہر پیشہ ور کی علیحدہ تھی۔
مصنف اشرف صبوی نے مرزا چپاتی سے پوچھا کہ دلی والوں کو فضول کھیلوں، دولت کو لٹانے والی بازیوں اور بیکار مشغلوں کے سوا کام ہی نہ تھا۔ مرزا چپاتی نے جل کر کہا تم کیا جانو وہ بازیاں اور ان کے مشغلے کیسے ہوتے تھے۔ کمال کے ہوتے تھے۔ ویسے ہنر آج کوئی پیدا نہیں کر لیتا۔ بات یہ ہے کہ ساری چیزیں وقت کے ساتھ ہوتی ہیں۔ نامردوں کا زمانہ ہے تو نا مردوں کی سی باتیں بھی ہیں۔
مرزا چپاتی اسی طرح کی باتیں کیا کرتے تھے۔ ایک بار ان کا مقابلہ امیر کنکیا لکھنؤ کے واجدعلی شاه پتنگ بازسے ہوا تو انہوں نے پتنگ بازی ڈور اور مانجھے کی قسمیں بتا کر مصنف کو حیران کر دیا۔ مصنف نے پوچھا کہ ان سب بازیوں میں لطف تو بڑا آتا ہوگا مرزا چپاتی بولے، جہاں اپنی حکومت گھر کی بادشاہت اور پرائی دولت ہوتی ہے یہی رنگ ہوتے ہیں ۔ عشرت گاہوں میں نمازیں نہیں پڑھی جاتیں، مراقبے نہیں ہوتے ، دنیا میں ہمیشہ یہی ہوتا رہا ہے اور یہی ہوتا رہے گا۔ سلطنتوں کی بھی عمر یں ہوتی ہیں، کوئی ایک پشت چلتی ہے کوئی دو پشت، کسی کا سلسلہ سو پچاس برس ہی میں ٹوٹ جاتا ہے اور کسی کی عمارت صدیوں کی خبر لاتا ہے۔ مغلوں نے چھ سو برس تخت کوسنبھالا آخر بڑھاپا تو سب ہی کو آتا ہے موت اور زوال بہانہ ڈھونڈتے ہیں ۔ ہمارے لیے عیش وعشرت ہی بہانہ ہوگئی ۔ 

سوالوں کے جواب لکھے 
1۔ مرزا چپاتی کون تھے اور ان کا حلیہ کیا تھا؟
2۔ مرزا چپاتی نے اردو زبان کی جو قسمیں بتائیں ان کے نام اور خصوصیات لکھیے۔
3.  مرزا چپاتی نے کیوں کہا کہ " دنیا کا یہی کارخانہ ہے۔ آج اس کا ، تو کل اس کا زمانہ ہے۔‘‘
4۔ قلعے کی پتنگ بازی اور آج کی پتنگ بازی میں کیا فرق ہے؟
 

Guddi Ka Lal-Noor Khan by Maulwi Abdul Haq NCERT Class 10 Gulzar e Urdu

گدڑی کا لال نورخان

لوگ بادشاہوں اور امیروں کے قصیدے اور مرثیے لکھتے ہیں ۔ نامور اور مشہور لوگوں کے حالات قلم بند کرتے ہیں۔ میں ایک غریب سپاہی کا حال لکھتا ہوں اس خیال سے کہ شاید کوئی پڑھے اور سمجھے کہ دولت مندوں، امیروں اور بڑے لوگوں ہی کے حالات لکھنے اور پڑھنے کے قابل نہیں ہوتے بلکہ غریبوں میں بھی بہت سے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی زندگی ہمارے لیے سبق آموز ہوسکتی ہے۔ انسان کا بہترین مطالعہ انسان ہے اور انسان ہونے میں امیر غریب کا کوئی فرق نہیں ہے

پھول میں گر آن ہے کانٹے میں بھی ایک شان ہے

  نور خاں مرحوم کنٹنجنٹ کے اول رسالے میں سپاہی سے بھرتی ہوئے ۔ انگریزی افواج میں حیدرآباد کی کنٹنجنٹ خاص حیثیت اور امتیاز رکھتی تھی۔ ہر شخص اس میں بھرتی نہیں ہوسکتا تھا، بہت دیکھ بھال ہوتی تھی ۔ بعض اوقات نسب نامے تک دیکھے جاتے تھے تب کہیں جا کر ملازمت ملتی تھی ۔ کوشش یہ ہوتی تھی کہ صرف شرفا اس میں بھرتی کیے جائیں ۔ یہی و جہ تھی کہ کنٹنجنٹ والے عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ لیکن بعد میں یہ قید بھی اٹھ گئی اور اس میں اور انگریزوں کی دوسری فوجوں میں کوئی فرق نہ رہا۔ پہلے زمانے میں سپاہ گری بہت معزز پیشہ سمجھا جاتا تھا۔ اب اس میں اور دوسرے پیشوں میں کوئی فرق نہیں رہا۔ بات یہ ہے کہ اشراف کا سنبھالنا مشکل کام ہے۔ اس میں ایک آن بان اور خودداری ہوتی ہے جو بہادری اور انسانیت کا اصل جوہر ہے، ہر کوئی اس کی قدر نہیں کرسکتا۔ اس لیے شریف روتا اور ذلیل ہنستا ہے۔ یہ جتنا پھیلتا ہے وہ اتنا ہی سکڑتا ہے۔ کرنل نواب افرالملک بہادر بھی نور خاں مرحوم ہی کے رسالے کے ہیں ۔ کنٹنجنٹ کے بہت سے لوگ اکثر تو کرنل صاحب موصوف کے توسط سے اور بعض اور ذرائع سے حیدرآباد ریاست میں آ کر ملازم ہو گئے ۔ ان میں بہت سے نواب ، کرنل، میجر، کپتان اور بڑے بڑے عہدے دار ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کوئی نور خاں بھی ہے؟

اول رسالے کے بعض لوگوں سے معلوم ہوا کہ خان صاحب مرحوم فوج میں بھی بڑی آن بان سے رہے اور سچائی اور فرض شناسی میں مشہور تھے۔ یہ ڈرل انسٹرکٹر تھے یعنی گوروں کو جو نئے بھرتی ہو کر آتے تھے ڈرل سکھاتے تھے۔ اس لیے اکثر گورے افسروں سے واقف تھے۔ وہ بڑے شہسوار تھے۔ گھوڑے کو خوب پہچانتے تھے۔ بڑے بڑے سرکش گھوڑے جو پٹھے پر ہاتھ نہ دھرنے دیتے تھے، انھوں نے درست کیے۔ گھوڑے کے سدھانے اور پھیرنے میں انھیں کمال تھا۔ چوں کہ بدن کے چھریرے اور ہلکے پھلکے 

تھے، گھڑ دوڑوں میں گھوڑے دوڑاتے تھے اور اکثر شرطیں جیتے تھے۔ ان کے افسر ان کی مستعدی، خوش تدبیری اور سلیقے سے بہت خوش تھے لیکن کھرے پن سے وہ اکثر اوقات ناراض ہو جاتے تھے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ان کے کمانڈنگ افسر نے کسی بات پر خفا ہوکر جیسا کہ انگریزوں کا عام قاعدہ ہے انھیں 'ڈیم' کہہ دیا۔ یہ تو گالی تھی، خاں صاحب کسی کی ترچھی نظر کے بھی روادار نہ تھے۔ انھوں نے فوراً رپورٹ کر دی ۔ لوگوں نے چاہا کہ معاملہ رفع دفع ہوجائے اور آگے نہ بڑھے مگر خاں صاحب نے ایک نہ سنی۔ معاملے نے طول کھینچا اور جنرل صاحب کو لکھا گیا۔ کمانڈنگ افسر کا کورٹ مارشل ہوا اور اس سےکہا گیا کہ خان صاحب سے معافی ما نگے ۔ ہر چند اس نے بچنا چاہا مگر پیش نہ گئی اور مجبوراً اسے معافی مانگنی پڑی۔ ایسی خودداری اور نازک مزاجی پر ترقی کی توقع رکھنا عبث ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دفعداری سے آگے نہ بڑھے۔

اچھے برے ہر قوم میں ہوتے ہیں ۔ شریف افسر خاں صاحب کی سچائی ، دیانت اور جفاکشی کی بہت قدر کرتے تھے اور ان کو اپنی اردلی میں رکھتے تھے مگر بعض ایسے بھی تھے جن کے سر میں خناس سمایا ہوا تھا، انھیں خاں صاحب کے بہ ڈھنگ پسند نہ تھے اور

وہ ہمیشہ ان کے نقصان کے در پے رہتے تھے۔ ایسے لوگ اپنی اور اپنی قوم والوں کی خوداری کو تو جو ہر شرافت سمجھتے ہیں لیکن اگر یہی جو ہرکسی دیسی میں ہوتا ہے تو اسے غرور اور گستاخی پر محمول کرتے ہیں ۔ تاہم ان کے بعض انگریزی افسران پر بہت مہربان تھے۔ خاص کر کرنل فرن ٹین ان پر بڑی عنایت کرتے تھے اور خاں صاحب پر اس قدر اعتبار تھا کہ شاید کسی اور پر ہو۔ جب کرنل صاحب نے اپنی خدمت سے استعفا دیا تو اپنا تمام مال و اسباب اور سامان جو ہزارہا روپے کا تھا، خاں صاحب کے سپرد کر گئے ۔ یہ امر انگریز افسروں کو بہت ناگوار ہوا۔ اس وقت کے کمانڈنگ افسر سے نہ رہا گیا اور اس نے کرنل موصوف کو خط لکھا کہ آپ نے ہم پر اعتماد نہ کیا اور ایک دیسی دفعدار کو اپنا تمام قیمتی سامان حوالے کر گئے ۔ اگر آپ یہ سامان ہمارے سپرد کر جاتے تو اسے اچھے داموں میں فروخت کر کے قیمت آپ کے پاس بھیج دیتے۔ اب بھی اگر آپ لکھیں تو اس کا انتظام ہوسکتا ہے۔ کرنل نے جواب دیا کہ مجھے نورخان پرتمام انگریز افسروں سے زیادہ اعتماد ہے ، آپ کوزحمت کرنے کی ضرورت نہیں ۔ اس پر یہ لوگ اور برہم ہوئے۔

ایک بار کمانڈنگ افسر یہ سامان دیکھنے آیا اور کہنے لگا کہ فلاں فلاں چیز میم صاحب نے ہمارے ہاں سے منگائی تھی، چلتے

وقت واپس کرنی بھول گئے ، اب تم یہ سب چیزیں ہمارے بنگلے پر بھیج دو۔ خاں صاحب نے کہا میں ایک چیز بھی نہیں دوں گا، آپ کرنل صاحب کو لکھیے وہ اگر مجھے لکھیں گے تو مجھے دینے میں کچھ عذر نہ ہوگا۔ وہ اس جواب پر بہت بگڑا اور کہنے لگا تم ہمیں جھوٹا سمجھتے ہو؟ خاں صاحب نے کہا میں آپ کو جھوٹا نہیں سمجھتا، یہ سامان میرے پاس امانت ہے اور میں کسی کو اس میں سے ایک تنکا بھی دینے کا مجاز نہیں ۔ غرض وہ بڑ بڑاتا ہوا کھسیانا ہو کر چلا گیا۔ خاں صاحب نے ایک انگریزی محرر سے اس سامان کی مکمل فہرست تیار کرائی اور کچھ تو خود خرید کر کچھ نیلام کے ذریعے بیچ کر ساری رقم کرنل صاحب کو بھیج دی۔

نہ معلوم یہی کرنل تھا یا کوئی دوسرا افسر، جب ملازمت سے قطع تعلق کر کے جانے لگا تو اس نے ایک سونے کی گھڑی، ایک عمدہ بندوق اور پانسوروپے نقد خاں صاحب کو بطور انعام یاشکرانے کے دیے۔ خاں صاحب نے لینے سے انکار کیا کرنل اور اس کی بیوی نے بہتیرا اصرار کیا مگر انھوں نے سوائے ایک بندوق کے دوسری چیز نہ لی اور باقی سب چیز یں واپس کر دیں۔

کرنل اسٹوارٹ بھی جو ہنگو لی چھاؤنی کے افسر، کمانڈنگ افسر تھے، ان پر بہت مہربان تھے۔ رسالے کے شریف انگریز ان سے کہا کرتے تھے کہ ہمارے بعد انگریز افسرتم کو بہت نقصان پہنچائیں گے ۔ وہ ان کی روش سے خوش نہ تھے اور خوش کیوں کر ہوتے، خوشامد سے انھیں چڑ تھی اور غلامانہ اطاعت آتی نہیں تھی۔ ایک بار کا ذکر ہے کہ اپنے کرنل کے ہاں کھڑے تھے کہ ایک انگریز افسر گھوڑے پر سوار آیا، گھوڑے سے اتر کر اس نے خاں صاحب سے کہا کہ گھوڑا پکڑو ۔ انھوں نے کہا ” میں سائیں نہیں ہوں ۔ اس نے ایسا جواب کا ہے کو سنا تھا، بہت چیں بہ جببیں ہوامگر کیا کرتا، آخر باگ درخت کی ایک شاخ سے انکا کر اندر چلا گیا۔ اب نہ معلوم یہ خاں صاحب کی شرارت تھی یا اتفاق تھا کہ باگ شاخ میں سے نکل گئی اور گھوڑا بھاگ نکلا۔ اب جو صاحب باہر آئے تو گھوڑا ندارد۔ بہت جھنجھلایا، بڑی مشکل سے تلاش کر کے پکڑوایا تو جگہ جگہ سے زخمی پایا۔ اس نے کرنل صاحب سے خاں صاحب کی بہت شکایت کی۔ معلوم نہیں کرنل نے اس انگر یز کو کیا جواب دیا لیکن وہ خاں صاحب سے بہت خوش ہوا اور کہا کہ تم نے خوب کیا۔

خاں صاحب نے جب یہ رنگ دیکھا تو خیر اسی میں دیکھی کہ کسی طرح وظیفہ لے کر الگ ہو جائیں۔ وہ بیمار بن گئے اور ہسپتال میں رجوع ہوئے۔ کرنل اسٹوارٹ نے ڈاکٹر سے کہہ کر ان کو مدد دی اور اس طرح وہ کچھ دنوں بعد ڈاکٹر کی رپورٹ پر وظیفہ لے کر فوجی ملازمت سے سبک دوش ہوگئے ۔ سچ ہے انسان کی برائیاں ہی اس کی تباہی کا باعث نہیں ہوتیں بعض وقت اس کی خوبیاں بھی اسے لے ڈوبتی ہیں ۔

کرنل اسٹوارٹ نے بہت چاہا کہ وہ مسٹر ہنکن ناظم پولیس سے سفارش کر کے انھیں ایک اچھا عہده دلا دیں مگر خاں صاحب نے اسے قبول نہ کیا اور کہا کہ میں اب اپنے وطن دولت آباد ہی میں رہنا چاہتا ہوں ۔ اگر آپ صوبے دار صاحب اورنگ آباد سے سفارش فرما دیں تو بہت اچھا ہو ۔ کرنل صاحب بہت اصرار کرتے رہے کہ دیکھو میں پولیس میں بہت اچھی خدمت مل جائے گی انکار نہ کرو مگر یہ نہ مانے۔ آخر مجبور ہو کر نواب مقتدر جنگ بہادر صوبے دار صوبہ اورنگ آباد سے سفارش کی ۔ صوبے دار صاحب کی عنایت سے وہ قلعہ دولت آباد کی جمعیت کے جمعدار ہو گئے اور بہت خوش تھے۔

نواب مقتدر جنگ کے بعد نواب بشیر نواز جنگ اورنگ آباد کی صوبے داری پر آئے۔ وہ بھی خاں صاحب پر بہت مہربان تھے۔ اسی زمانے میں لارڈ کرزن وائسراے دولت آباد تشریف لائے ۔ خاں صاحب نے سلامی دینے کی تیاری کی کئی توپیں ساتھ ساتھ رکھ کر سلامی دینی شروع کی ۔ لارڈ کرزن گھڑی نکال کر دیکھ رہے تھے۔ جب سلامی ختم ہوئی تو نواب صاحب سے خاں صاحب کی تعریف کی ۔ سلامی ایسے قاعدے اور اندازے سے دی کہ ایک سیکنڈ کا فرق نہ ہونے پایا۔ نواب صاحب نے اس کا تذکرہ خاں صاحب سے کیا اور کہا کہ میاں اب تمھاری خیر نہیں معلوم ہوتی۔

لارڈ کرزن جب قلعہ کے اوپر بالا حصار پر گئے تو وہاں سستانے کے لیے کرسی پر بیٹھ گئے اور جیب سے سگرٹ دان نکال کر سگریٹ پینا چاہا۔ دیا سلائی نکال کر سگرٹ سلگایا ہی تھا کہ یہ فوجی سلام کر کے آگے بڑھا اور کہا کہ یہاں سگریٹ پینے کی اجازت نہیں ہے۔ لارڈ کرزن نے جلتا ہوا سگرٹ نیچے پھینک دیا اور جوتے سے رگڑ ڈالا۔ یہ حرکت دیکھ کر نواب بشیر نواز جنگ بہادر اور دوسرے عہدے داروں کا رنگ فق ہو گیا مگر موقع ایسا تھا کہ کچھ کہ نہیں سکتے تھے لہو کے سے گھونٹ پی کر چپ رہ گئے۔ بعد میں بہت کچھ لے دے کی مگر اب کیا ہوسکتا تھا۔ خاں صاحب نے قاعدے کی پوری پابندی کی تھی، اس میں چوں و چرا کی گنجائش نہ تھی۔

اب اسے اتفاق کہیے یا خاں صاحب کی تقدیر کہ لارڈ کرزن نے جانے کے بعد ہی فنانس کی معتمدی کے لیے مسٹر وا کر کا انتخاب کیا ۔ ریاست کے مالیے کی حالت اس زمانے میں بہت خراب تھی۔ مسٹر واکر نے اصلاحیں شروع کیں ۔ اس لپیٹ میں قلعہ دولت آباد بھی آ گیا، اوروں کے ساتھ خاں صاحب بھی تخفیف میں آگئے۔

دولت آباد میں ان کی کچھ زمین تھی، اس میں باغ لگانا شروع کردیا۔ مسٹر وا کر دورے پر دولت آباد آئے تو ایک روز ٹہلتے ٹہلتے ان کے باغ میں بھی آپہنچے۔ خاں صاحب بیٹھے گھاس کرپ رہے تھے ۔ مسٹر واکر کو آتے دیکھا تو اٹھ کر سلام کیا۔ پوچھا کیا حال ہے، کہنے لگے آپ کی جان و مال کو دعا دیتا ہوں ۔ اب آپ کی بدولت گھاس کھودنے کی نوبت آگئی ۔ مسٹر واکر نے کہا یہ اچھا کام ہے ۔ دیکھو تمھارے درخت انجیروں سے کیسے لدے ہوئے ہیں ۔ ایک ایک آنے کو بھی ایک ایک انجیر بیچو توکتنی آمدنی ہوجائے گی ۔ خاں صاحب گھبرائے کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ کم بخت انجیروں پر بھی ٹیکس لگا دے۔ تڑ سے جواب دیا کہ آپ نے انجیر لدے ہوئے تو دیکھ لیے اور یہ نہ دیکھا کہ کتے سڑ گل کر گر جاتے ہیں۔ کتنے آندھی ہواسے گر پڑتے ہیں، کتے پرند کھا جاتے ہیں اور پھر ہماری دن رات کی محنت مسٹرواکر مسکراتے ہوئے چلے گئے۔

اسی زمانے میں ڈاکٹر سید سراج الحسن صاحب اورنگ آباد کے صدر مہتمم تعلیمات ہوکر آئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب بلا کے مردم شناس ہیں ۔ تھوڑی ہی دیر میں اور چند ہی باتوں میں آدمی کو ایسا پرکھ لیتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ پھر جیسا وہ آدمی کو سمجھتے ہیں ویسا ہی نکلتا ہے۔ کبھی خطا ہوتے نہیں دیکھی۔ ڈاکٹر صاحب ایسے قابل جوہروں کی تلاش میں رہتے ہیں، فوراً ہی اپنے سایۂ عاطفت میں لے لیا۔ ڈاکٹر صاحب کا برتاؤ ان سے بہت شریفانہ اور دوستانہ تھا۔ نواب برز ور جنگ اس زمانے میں صوبے دار تھے ۔ مقبرے کا باغ ان کی نگرانی میں تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے سفارش کر کے باغ سے پانچ روپے ماہانہ الونس (الاؤنس) مقرر کر دیا۔

نواب برزور جنگ کے پاس ایک گھوڑا تھا، وہ اسے بیچنا چاہتے تھے ۔ کلب میں کہیں اس کا ذکر آیا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا مجھے گھوڑے کی ضرورت ہے۔ میں اسے خرید لوں گا مگر پہلے نورخاں کو دکھالوں ۔ وہاں سے آ کر ڈاکٹر صاحب نے خاں صاحب سے یہ واقعہ بیان کیا اور کہا کہ بھئی اس گھوڑے کو دیکھ آؤ کوئی عیب تو نہیں ۔ خاں صاحب نے کہا آپ نے غضب کیا میرا نام لے دیا۔ گھوڑے میں کوئی عیب ہوا تو میں چھپاؤں گا نہیں اور صوبے دار صاحب مفت میں مجھ سے ناراض ہو جائیں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا تم خواہ مخواہ و ہم کرتے ہو، کل جا کے ضرور گھوڑا د یکھ لو۔ خاں صاحب گئے ۔ گھوڑا نسل کا تو اچھا تھا مگر پانچوں شرعی عیب موجود تھے۔ انھوں نے صاف صاف آکے کہہ دیا اور ڈاکٹر صاحب نے خریدنے سے انکار کردیا۔ صوبے دار صاحب آگ بگولا ہوگئے ۔ دوسرے روز مقبرے میں آئے۔ باغ کا رجسٹر منگایا اور نور خاں کے نام پر اس زور سے قلم کھینچا کہ اگر لفظوں میں جان ہوتی تو وہ بلبلا اٹھتے ۔ ڈاکٹر صاحب کو معلوم ہوا تو بہت افسوس کیا مگر انھوں نے اس کی تلافی کر دی ۔ یہ سن کر صوبے دار صاحب اور بھی جھنجلائے۔

ڈاکٹر صاحب ترقی پاکر حیدر آباد چلے گئے ۔ ان کی خدمت کا دوسرا انتظام ہو گیا۔ کچھ دنوں بعد ڈاکٹر صاحب ناظم تعلیمات ہو گئے اور میں ان کی عنایت سے صدر مہتمم تعلیمات ہوکر اورنگ آباد آیا۔ ڈاکٹر صاحب ہی نے مجھے نورخان سے ملایا اور ان کی سفارش کی ۔ ڈاکٹر صاحب نے انھیں عارضی طور پر دولت آباد میں مدرس کر دیا تھا، میں نے عارضی طو پر اپنے دفتر میں محرر کردیا، وہ مدرسی اور محرری تو کیا کرتے مگر بہت سے مدرسوں اور محرروں سے زیادہ کارآمد تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے جب باغ کی نگرانی میرے حوالے کی تو خاں صاحب کا الونس بھی جاری ہو گیا۔

  اعلاحضرت واقدس بعد تخت نشینی اورنگ آباد رونق افروز ہوئے تو یہاں کی خوش آب و ہوا کو بہت پسند فرمایا اور عظیم الشان  باغ لگانے کا حکم دیا۔ یہ کام ڈاکٹر صاحب کے سپرد ہوا اور ان سے بہتر کوئی یہ کام کر بھی نہیں سکتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی مہربانی سے آخر اس باغ کے عملے میں خاں صاحب کو بھی ایک اچھی سی جگہ مل گئی جو ان کی طبیعت کے مناسب تھی اور آخر دم تک وہ اسی خدمت پر ہے۔ اور جب تک دم میں دم رہا، اپنے کام کو بڑی محنت اور دیانت سے کرتے رہے۔

   یوں محنت سے کام تو اور بھی کرتے ہیں لیکن خاں صاحب میں بعض ایسی خوبیاں تھیں جو بڑے بڑے لوگوں میں بھی نہیں ہوتیں ۔ سچائی بات کی اور معاملے کی ان کی سرشت میں تھی ۔ خواہ جان ہی پر کیوں نہ بن جائے وہ سچ کہنے سے کبھی نہیں چوکتے  تھے۔ اس میں انھیں نقصان بھی اٹھانے پڑے مگر وہ سچائی کی خاطر سب کچھ گوارا کر لیتے تھے ۔ مستعد ایسے تھے کہ اچھے اچھے جوان ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔ دن ہو، رات ہو، ہر وقت کام کرنے کے لیے تیار۔ اکثر دولت آباد سے پیدل آتے جاتے تھے۔ کسی کام کو کہے تو ایسی خوشی خوشی کرتے تھے کہ کوئی اپنا کام بھی اس قدر خوشی سے نہ کرتا ہوگا۔ دوستی کے بڑے پکے اور بڑے وضع دار تھے ۔ چونکہ ادنا اعلا سب ان کی عزت کرتے تھے اس لیے ان سے غریب دوستوں کے بہت سے کام نکلتے تھے ۔ ان کا گھر مہمان سرائے تھا۔ اورنگ آباد کے آنے جانے والے کھانے کے وقت بے تکلف ان کے گھر جاتے اور وہ اس سے بہت خوش ہوتے تھے۔ بعض لوگ جو مسافر بنگلے میں آ کر ٹھہر جاتے تھے ان کی بھی دعوت کر دیتے تھے ۔ بعض اوقات ٹولیوں کی ٹولیاں پہنچ جاتی تھیں اور وہ ان کی دعوتیں بڑی فیاضی سے کرتے تھے۔ اس قدر قلیل معاش ہونے پر ان کی یہ مہمان نوازی دیکھ کر حیرت ہوتی تھی۔ ان کی بیوی بھی ایسی نیک بخت تھی کہ دفعتاً مہمانوں کے پہنچ جانے سے کبیدہ خاطر نہ ہوتی تھی بلکہ خوشی خوشی کام کرتی اور کھلاتی تھی ۔ خوددار ایسے تھے کہ کسی سے ایک پیسے کا روادار نہ ہوتے تھے۔ ڈاکٹر سراج الحسن ہر چند طرح طرح سے ان کے ساتھ سلوک کرنا چاہتے تھے مگر وہ ٹال جاتے تھے۔ مجھ سے انھیں خاص أنس تھا۔ میں کوئی چیز دیتا تو کبھی انکار نہ کرتے بلکہ کبھی کبھی خود فرمائش کرتے تھے۔ مٹھاس کے بے حد شائق تھے۔ ان کا قول تھا کہ اگر کسی کو کھانے کو میٹھا ملے تو نمکین کیوں کھائے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ نمکین کھانا مجبوری سے کھاتا ہوں، مجھ میں اگر استطاعت ہو تو ہمیشہ مٹھاس ہی کھایا کروں اور نمکین کو ہاتھ نہ لگاؤں ۔ انھیں مٹھاس کھاتے دیکھ کر حیرت ہوتی تھی۔ اکثر جیب میں گڑ رکھتے تھے۔ ایک بار میرے ساتھ دعوت میں گئے قسم قسم کے تکلف کے کھانے تھے۔ خاں صاحب نے چھوٹتے ہی میٹھے پر ہاتھ ڈالا۔ ایک صاحب جو دعوت میں شریک تھے یہ خیال کر کے کہ خان صاحب کو دھوکا ہوا ہے کہنے لگے کہ حضرت یہ میٹھا ہے۔ مگر انھوں نے کچھ پروا نہ کی اور برابر کھاتے رہے۔ جب وہ ختم ہو گیا تو دوسرے میٹھے پر ہاتھ بڑھایا۔ ان صاحب نے پھرٹوکا کہ حضرت یہ میٹھا ہے، انھوں نے کچھ جواب نہ دیا اور اسے بھی ختم کر ڈالا۔ جب بھی وہ کسی دوست کے ہاں جاتے تو وہ انھیں ضرور میٹھا کھلاتے اور یہ خوش ہو کر کھاتے۔

  خان صاحب بہت زندہ دل تھے، چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی جسے دیکھ کر خوشی ہوتی تھی۔ وہ بچوں میں بچے، جوانوں میں جوان اور بوڑھوں میں بوڑھے تھے۔ غم اور فکر کو پاس نہ آنے دیتے تھے اور ہمیشہ خوش رہتے تھے اور دوسروں کو بھی خوش رکھتے تھے۔ ان سے ملنے اور باتیں کرنے سے غم غلط ہوتا تھا۔ آخر دم تک ان کی زندہ دلی ویسی ہی رہی۔

  ڈاکٹر سراج الحسن صاحب جب کبھی اورنگ آباد آتے تو اسٹیشن سے اترتے ہی اپنا روپیہ پیسہ سب ان کے حوالے کر دیتے اور سب خرچ انھیں کے ہاتھ سے ہوتا تھا۔ جانے سے پہلے ایک روز قبل وہ حساب لے کے بٹھتے بعض وقت جب بدہ نہ ملتی تو آدھی آدھی رات تک لیے بیٹھے رہتے تھے۔ ہر چند ڈاکٹر صاحب کہتے کہ خاں صاحب یہ تم کیا کرتے ہو، جو خرچ ہوا ہوا، باقی جو بچا وہ دے دیا یا زیادہ خرچ ہوا ہو تو لے لیا مگر وہ کہاں مانتے تھے، جب تک حساب ٹھیک نہ بیٹھتا انھیں اطمینان نہ ہوتا۔ چلتے وقت کہتے کہ لیجیے صاحب یہ آپ کا حساب ہے، اتنا خرچ ہوا اور اتنا بچا۔ یا کچھ زیادہ خرچ ہو جاتا تو کہتے کہ اتنے پیسے ہمارے خرچ ہوئے ہیں یہ ہمیں دلوائیے کبھی ایسا ہوا کہ انھیں کچھ شبہ ہوا تو جانے کے بعد پھر حساب لے کے بیٹھتے اور خط لکھ کر بھیجتے کہ اتنے آنے آپ کے رہ گئے تھے وہ بھیجے جاتے ہیں یا اتنے پیسے میرے زیادہ خرچ ہوگئے تھے وہ بھیج دیجیے گا۔ ڈاکٹر صاحب ان باتوں پر بہت جھنجھلاتے تھے مگر وہ اپنی وضع نہ چھوڑتے تھے۔

  وہ حساب کے کھرے، بات کے کھرے اور دل کے کھرے تھے۔ وہ مہر و وفا کے پتلے اور زندہ دلی کی تصویر تھے۔ ایسے نیک نفس، ہم درد، مرنج و مرنجان اور وضع دار لوگ کہاں ہوتے ہیں ۔ ان کے بڑھاپے پر جوانوں کو رشک آتا تھا اور ان کی مستعدی کو دیکھ کر دل میں امنگ پیدا ہوتی تھی۔ ان کی زندگی بے لوث تھی اور ان کی زندگی کا ہر لمحہ کسی نہ کسی کام میں صرف ہوتا تھا۔ مجھے وہ اکثر یاد آتے ہیں اور یہی حال ان کے دوسرے جاننے والوں اور دوستوں کا ہے۔ اور یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ وہ کیسا اچھا آدمی تھا۔ قومیں ایسے ہی لوگوں سے بنتی ہیں ۔ کاش ہم میں بہت سے نورخاں ہوتے !   

خاکہ

اصطلاحی معنی میں لفظ " خاکہ انگریزی لفظ اسکیچ (Sketch) کا ترجمہ ہے۔ خاکے سے مراد ایک ایسی نثری تحریر ہے جس میں کسی شخصیت کی منفرد اور نمایاں خصوصیات کو اس انداز سے بیان کیا جاتا ہے کہ اس کی مکمل تصویر آنکھوں کے سامنے آجائے ۔ اس کے لیے خاکہ لکھنے والے کا اس انسان کی شخصیت سے نہ صرف متاثر ہونا ضروری ہے بلکہ اس سے واقفیت اور قربت بھی لازمی ہے۔ خاکہ نگاری سوانح نگاری سے مختلف ہے۔ اس میں سوانح حیات کی طرح واقعات ترتیب وار نہیں لکھے جاتے اور نہ ہی تمام حالات و واقعات کا بیان کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ خاکہ نگاراسی شخصیت کا خاکہ لکھتا ہے جس سے وہ کسی نہ کسی طور پر متاثر ہوتا ہے لیکن اس کی تحریر سے مرعو بیت ظاہر نہیں ہونی چاہیے۔ اس کا بیان ایسا ہونا چاہیے کہ وہ غیر جانبدار نظر آئے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ خاکے میں شخصیت کی خوبیوں اور خامیوں دونوں کو بیان کیا جائے۔ جس طرح خوبیوں کا بیان مرعوبیت سے پاک ہونا چاہیے اسی طرح خامیوں کے بیان میں ذاتی دشمنی و عناد کا پہلو نہیں آنا چاہیے خامیوں کے بیان میں بھی اپنائیت کا احساس نمایاں ہونا چاہیے۔

مولوی عبدالحق

(1870-1961)

بابائے اردو مولوی عبد الحق مغربی اتر پردیش کے قصبہ ہاپوڑ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وطن ہی میں حاصل کی ۔ 1894 میں ایم۔ اے۔ او کالج علی گڑھ سے بی۔ اے پاس کیا۔ مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ انجمن ترقی اردو کے سکریٹری مقرر ہوئے اور زندگی بھر اردو زبان کی خدمت میں مصروف رہے۔ انجمن کی جانب سے ان کی ادارت میں سہ ماہی ادبی رسالہ " اردو " جاری ہوا۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں الہ آباد یونیورسٹی نے ایل ایل  - ڈی اور علی گڑھ یونیورسٹی نے ڈی لٹ کی اعزازی ڈگریاں دیں۔

مولوی عبدالحق محقق، سوانح نگار، خاکہ نگار، لغت نویس، ماہر قواعد اور صاحب طرز انشا پرداز تھے۔ زبان سادہ اور پر اثر لکھتے تھے۔ انھوں نے کئی کتابیں لکھیں اور مرتب کیں۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ دکن اور شمالی ہندوستان کے قدیم ادبی سرمائے کی بازیافت ہے۔ اس طرح بہت کی بیاضیں اور رسالے ضائع ہونے سے بچ گئے۔
ہندوستان اور پاکستان میں اردو زبان کی اشاعت کے سلسلے میں مولوی عبدالحق کی خدمات بے مثال ہیں۔
خلاصہ:
خلاصه:- مولوی عبدالحق نے نامور اور مشہور لوگوں کے حالات قلم بند کرنے کے بجائے ایک غریب سپاہی کا حال لکھا ہے۔ یہ نورمحمد خاں کنٹنجٹ کے اول رسالے میں سپاہی بھرتی ہوئے ۔ انگریزی افواج
حیدرآباد کی کنٹنجٹ خاص اور امتیازی حیثیت رکھتی تھی۔ بعض لوگوں کا بیان ہے کہ نور خاں نے فوج میں بڑی آن بان کے ساتھ ملازمت کی اور اپنی سچائی، فرض شناسی کے باعث مشہور ہوئے۔ ان کے افسر ان کی مستعدی اور سلیقے سے بہت خوش تھے لیکن کھرے پن سے وہ اکثر ناراض ہو جاتے تھے۔ اچھے برے ہرقوم میں ہوتے ہیں، افسروں میں بعض ایسے بھی تھے جن کے سر میں خناس سمایا ہوا تھا، انہیں خاں صاحب کے یہ ڈھنگ پسند نہ تھے اور وہ ہمیشہ ان کے نقصان کے درپے رہتے تھے، تاہم ان کے بعض انگریزی افسران ان پر بہت مہربان تھے، خاص کر کریل فرن مٹین ان پر بڑی عنایت کرتے تھے اور خاں صاحب پر اس قدر اعتبار تها کہ شاید کسی پرہو۔
کرنل اسٹوارٹ بھی ہنگو لی چھاؤنی کے افسر، کمانڈنگ افسر تھے، ان پر بہت مہربان تھے ، رسالے کے شریف انگریز ان سے کہا کرتے تھے کہ ہمارے بعد اور انگریز افسرتم کو بہت نقصان پہنچائیں گے اکثر انگریز افسران سے ایسا کام لینا چاہتے تھے جیسے ادنی غلام یاسائیس وغیرہ کا۔ خان صاحب نے جب یہ رنگ دیکھا تو خیر اسی میں دیکھی کہ کسی طرح وظیفہ لے کر الگ ہو جائیں۔ وہ بیمار بن گئے اور ہسپتال میں رجوع ہوئے۔ کریل اسٹوارٹ نے ڈاکٹر سے کہہ کر ان کو مدد دی اور وہ کچھ دنوں بعد ڈاکٹر کی رپورٹ پروظیفہ لے کر فوجی ملازمت
سے سبکدوش ہوگئے۔ کرنل اسٹوارٹ نے چاہا کہ وہ مسٹر نکن ، ناظم پولیس سے سفارش کر کے انہیں ایک اچھا عہدہ دلا دیں مگر خاں صاحب تیار نہ ہوئے ۔ نواب مقتدر جنگ بہادر صوبے دار اورنگ آباد نے انہیں قلعہ دولت آباد کی ریعیت کا جمعدار مقرر کر دیا تو خاں صاحب بہت خوش ہوئے۔
ایک بار لارڈ کرزن جب قلعہ کے اوپر بالاحصار پر گئے تو سستانے کیلئے کر سی پر بیٹھ گئے اور جیب سے سگریٹ نکال کر پینا چاہا۔ دیا سلائی نکال کر سگریٹ سلگایا ہی تھا کہ خاں صاحب فوجی سلام کر کے آگے بڑھے اور کہا کہ یہاں سگریٹ پینے کی اجازت نہیں ہے۔ لارڈ کرزن نے جلتا ہوا سگریٹ نیچے پھینک کر جوتے سے رگڑ ڈالا۔ یہ دیکھ کر دوسرے عہدے داروں کا رنگ فق ہو گیا۔ انہیں دنوں فنانس کی معتدی کیلئے مسٹر واکر آگئے۔ ریاست کے مالیے کی حالت اس زمانے میں بہت خراب تھی۔ مسٹر وا کرنے اصلاحیں شروع کیں تو اوروں کے ساتھ نور خاں صاحب بھی تخفیف میں آگئے ۔ چنانچہ ملازمت ختم ہونے کے بعد دولت آباد میں ان کی کچھ زمین تھی، اس میں باغ اگانا شروع کر دیا۔ اسی زمانے میں ڈاکٹر سید سراج الحسن صاحب اورنگ آباد کے صدر مہتمم  تعلیمات ہو کر آئے تھے وہ بلا کے مردم شناس تھے، انہوں نے نواب پر زور سے سفارش کر کےخاں صاحب کو باغ کا نگراں مقرر کر دیا۔ نواب برز ور جنگ کے پاس ایک گھوڑا تھا جسے وہ بیچنا چاہتے تھے، ڈاکٹر سراج الحسن  نے اسے خریدنا چاہا لیکن خاں صاحب کو گھوڑا دکھانے پر پتہ چلا کہ اس گھوڑے میں عیب ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے گھوڑا خریدنے سے انکار کر دیا۔ نواب بزرور جنگ نے طیش میں آ کر خاں صاحب کی ملازمت ختم کر دی۔
مولوی عبدالحق لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر سید سراج الحسن ترقی پاکر حیدرآباد چلے گئے، کچھ دنوں بعد ڈاکٹر صاحب نے مولوی صاحب کوصدر ۔مہتمم تعلیمات اورنگ آباد بنا دیا۔ اور نور محمد خاں سے انہیں عارضی طور پر دولت آباد ہی میں مدرس کر دیا تھا۔ مولوی صاحب نے انہیں عارضی طور پر اپنے دفتر میں محرر کر دیا۔ مگر خان صاحب کی دلچسپی کے سامان یہاں نہیں تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے مولوی صاحب کو باغ کی نگرانی سپرد کی تو نور خاں باغ کے عملے میں شامل ہو گئے اور جب تک دم میں دم رہا اپنے کام کو بڑی محنت اور دیانت داری سے کرتے رہے۔ یوں محنت سے تو اور بھی کام کرتے تھے لیکن خاں صاحب میں بعض ایسی خوبیاں تھیں جو بڑے بڑے لوگوں میں بھی نہیں ہوتیں۔ وہ سچ کہنے سے کبھی نہیں چوکتے تھے۔ خواہ اس میں انہیں نقصان بھی اٹھانا پڑے مگروہ سچائی کی خاطر سب کچھ گوارا کر لیتے تھے۔ بڑے وضعدار تھے،کم آمدنی میں فراخدلی سے مہمان نوازی
کرتے، کسی سے کچھ مدد قبول نہ کرتے۔ میٹھا کھانے کے بہت شوقین تھے ، نور خاں بہت زندہ دل تھے غم اور فکر کو پاس نہ آنے دیتے خود خوش رہتے دوسروں کو بھی خوش رکھتے۔
نور خاں صاحب بات کے اور دل کے کھرے تھے۔ ان کے بڑھاپے پر جوانوں کو رشک آتا تھا۔ اور ان کی مستعدی دیکھ کر امنگ پیدا ہوتی تھی۔ ان کی زندگی بے لوث تھی اور ان کی زندگی کا ہر لمحہ کسی نہ کسی کام میں صرف ہوتا تھا۔ قو میں ایسے ہی لوگوں سے بنتی ہیں۔ کاش ہم میں بہت سے نورخاں ہوتے!

  سوالوں کے جواب لکھے :

   1۔ مصنف نے نورخاں کو گدڑی کا لال کیوں کہا ہے؟

   2۔ نور خاں نے کمانڈرنگ آفیسر کی رپورٹ کیوں کی اور اس کا کیا اثر ہوا؟

   3. نورخاں کی فرض شناسی کے کسی ایک واقعے کو اپنے الفاظ میں بیان کیجیے۔

   4. ”قومیں ایسے ہی لوگوں سے بنتی ہیں“ اس جملے کی وضاحت کیجیے۔

 

Thursday, 12 November 2020

Sultan by Ahmad Nadeem Qasmi NCERT Class 10 Gulzar e Urdu

سلطان
احمد ندیم قاسمی
دادا کے بائیں پنجے میں سلطان کی کھوپڑی تھی اور دائیں میں لاٹھی جو پٹری کے پکے فرش پر ٹھن ٹھن بجے جارہی تھی ۔ سلطان ذرا سا رکا تو دادا جلدی سے بولنے لگا " ہے بابو جی۔ اندھے فقیر کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
نہیں نہیں داد‘‘ سلطان بولا” بابونہیں ہے۔ مداری کا تماشا ہور ہا ہے۔“
تیرے مدارکی .......‘‘ گالی کومکمل کرنے سے پہلے ہی دادا پر کھانسی کا دورہ پڑا اور وہ سلطان کے سر پر رکھے ہوئے ہاتھ کو اپنے سینے پر رکھ کر کھانسی کے ایک  لمبے چکر میں ڈوب گیا۔
جب تک دادا کی سانس معمول پر آئی، سلطان مداری کی ٹوکری کے نیچے رکھے ہوئے چتھڑوں کو سفید براق رنگ کے دوموٹے موٹے کبوتروں میں بدلتا دیکھ چکا تھا۔
دادا نے اپنا بایاں بازو ہوا میں پھیلا کر پوچھا کہاں گیا تو؟“
سلطان نے فوراً اپنا سر دادا کے پنجے میں تھما دیا اور وہ پٹڑی پر چلنے لگے۔
  ایک جگہ دادا کی لاٹھی بجلی کے کھمبے سے ٹکرائی تو کھمبا بج اٹھا اور سلطان بول ”دادا ! سنا؟ کھمبا کیسا بولا ؟
   ’’ہان‘ دادا رک گیا اور کھمبے کو ایک بار بجانے کی کوشش کی مگر نشانہ چوک گیا۔ کھمے بولتے ہیں۔ لے ذرا سا بجالے‘‘
سلطان نے دادا کی لاٹھی کھمبے پر ماری اور دادا بولا دیکھا؟ جب میں تمھاری طرح چھوٹا سا تھا تو دیر دیر تک کھمبوں پر کان رکھے کھڑا رہتا تھا۔ ان دنوں کھمبوں میں میمیں انگریزی بولتی تھیں ، پھر دادا نے میموں کی نقل کی ۔ "یوگڈ ۔ یو بیڈ۔"
میمیں بولتی تھیں کھمبوں میں؟‘‘سلطان حیران رہ گیا۔ آج کل کون بولتا ہے دادا؟ پھر ایک دم سلطان کا لہجہ بدلا اور اس نے سرگوشی میں دادا سے کہا ” دو بابو آرہے ہیں دادا‘‘
دادا جلدی جلدی بولنے لگا ” بابو جی۔ اندھے فقیرکو راہ مولا ایک روٹی کے پیسے دیتے جاؤ۔ اللہ تمھیں ترقیاں دے۔ اللہ تمھیں بیٹے اور پوتے دے۔“
ایک با بو قہقہ مار کر بولا ” یہ بڈھا تو خاندانی منصوبہ بندی کے خلاف پروپیگنڈا کرتا پھرتا ہے۔ پھر دونوں زور زور سے ہنستے ہوئے گذر گئے ۔
” چلے گئے !‘‘ سلطان نے آہستہ سے کہا پھر ذرا سارک کر اس نے بابووں کو گالی دے دی۔
دادا نے اپنے پنجے کو سلطان کی کھوپڑی پر دبایا۔ ” پھر وہی بک بک ۔ کل کیا کہا تھا میں نے کبھی کسی نے سن لیا تو ادھر کا منہ ادھر لگا دے گا‘‘
سلطان چپ چاپ دادا کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ کچھ دیر کے بعد بولا ” میرے سر پر جہاں تمہارا انگوٹھا ہے نا دادا۔ وہاں ذرا سا کھجا دو"
دادا نے اپنا انگوٹھا سلطان کی کنپٹی پر زور سے رگڑا۔ ’’سلطان ‘‘ خاصی دیر کے بعد دادا بولا ” کیا بات ہے آج تو تم کہیں رکتے ہی نہیں، آج با بولوگ کہاں چلے گئے؟
مر گئے‘ سلطان نے جواب دیا۔ پھر یکا یک رک گیا اور بولا آج کون سا دن ہے دادا ؟
میں کیا جانوں بیٹا۔‘‘ دادا بولا۔ ” تم دن یا درکھا کرو نا۔ میرے لیے تو دن رات دونوں برابر ہیں ۔‘ دادا نے ذرا سا رک کر سوچا پھر بولا۔
پرسوں تم مجھے نیلا گنبد کی مسجد میں لے گئے تھے نا؟ پرسوں جمعہ تھا۔ اس حساب سے تو آج اتوار ہے۔ بیڑا غرق ہو اس اتوار کا۔ آج تو بابولوگ اپنے گھروں میں بیٹھے بیوی بچوں سے کھیل رہے ہوں گے ۔
سلطان یوں دم بخود کھڑا رہ گیا جیسے کوئی زبردست حادثہ ہو گیا ہے۔ اچانک ٹن کی آواز آئی کسی راہ چلتے نے سلطان کے ہاتھ کے کٹورے میں ایک پیسہ ڈال دیا تھا۔
’’ کچھ ملا ؟ کیا ملا؟“ دادا نے پوچھا۔
ایک پیسہ ہے۔“ سلطان بولا ” چھوٹے والا۔ نئے والا ۔ دادا نے اپنا پنجہ سلطان کے سر پر گھمایا۔’’جا کوئی چیز لے کر کھالے۔ جا۔ میں یہیں کھڑا ہوں ‘‘
ایک پیسے کا تو کوئی کچھ نہیں دیتا دا دا ‘‘ سلطان بولا ” دو تین ہو گئے ۔ گنڈیری کھاؤں گا۔“
دادا نے سلطان کے سر پر سے ہاتھ اٹھا کر جیب میں ڈالا ” لے یہ دو نئے پیسے کل کے بچے رکھے ہیں ۔ کوئی چیز کھالے۔ تو نے صبح سے کچھ کھایا بھی نہیں ۔ بچوں کو تو بڑی بھوک لگتی ہے۔ جا‘‘
سلطان نے پیسے لے لیے تو دادا بولا ’’ جلدی سے آجا۔ اچھا میں یہیں کھڑا ہوں ۔ کہاں کھڑا ہوں میں؟‘‘
"ذرا سا بائیں کو ہو جا دادا" سلطان نے دادا کا ہاتھ پکڑ کر کہا ” کھمبے کے ساتھ لگ جا‘‘
دادا کھمبے سے لگ کر کھڑا ہو گیا۔ وہ دیر تک یوں ہی کھڑا رہا۔ پھر وہ کھمبے پر کان رکھ کر جیسے کچھ سنے لگا اور مسکرانے لگا۔ یکا یک وہ چونک سا اٹھا اور سلطان کو پکارنے لگا۔ "سلطان ۔ اے سلطان ‘‘ پھر وہ اسے گالیاں دینے لگا۔ ” او سلطان ! تو کہاں جا کر مرگیا؟‘‘ کوئی جواب نہ پا کر وہ ادھر ادھر گھوم کر بولا۔ ” اے بھئی، خدا کے بندہ! میرا چھوٹا سا پوتا ادھر کہیں سے پیسے دو پیسے کی کوئی چیز لینے گیا ہے۔ سلطان نام ہے۔ کہیں تانگے موٹر کے نچے تو نہیں آ گیا بدنصیب کی اولاد ‘‘ پھر وہ چلا دیا۔ ” اوسلطان ‘‘
’’ آیا دادا۔ دور سے سلطان کی آواز آئی مگر زور سے چیخنے کی وجہ سے دادا کے کھانسی چھوٹ گئی۔
دادا کی سانس معمول پر آنے لگی تو اس نے پلٹ کر جیسے کھمبے سے پوچھا۔ ” کہاں مر گیا تھا تو؟“
سلطان نے دادا کا بایاں ہاتھ اٹھا کر اپنے سر پر رکھ لیا۔ ”مداری تماشا دکھا رہا تھا۔ پیٹ سے گولے نکال رہا تھا۔‘‘
دادا نے اپنے اپنے کو سلطان کی کھوپڑی پر یوں دبایا جیسے اسے اوپر اٹھالے گا۔ چل گھر چل۔ وہاں میں تجھے مداری کا تماشا دکھاؤں ۔ یہ نہیں سوچا کہ میں اندھا اپاہج یہاں رستے میں کھڑا ہوں ۔
سلطان چپ چاپ چلنے لگا۔ کچھ دیر بعد دادانے نرمی سے پوچھا کیا کھایا؟
"گنڈیریاں‘‘ سلطان بولا۔
”ارے بد بخت گنڈیریاں تو پانی ہوتی ہیں۔ دادا پیر غصے ہونے لگا۔ چنے کھالیتا تو دوپہر تک کا سہارا تو ہو جاتا ‘‘ سلطان چپ چاپ چتا رہا۔
" کٹورا ہاتھ میں لٹکا تو نہیں رکھا؟“ دادا نے پوچھا۔
"نہیں دادا" سلطان بولا۔
’’ہاں‘‘ دادا نے نرمی سے نصیحت کی ۔’’ اٹھائے رکھا کرو۔ لٹکا رہے تو لوگ سمجھتے ہیں یہ بھکاری نہیں ہیں ۔ سودا لینے چلے ہیں ‘‘
سلطان چہکنے لگا۔ ایک بار میں کٹورے میں تیل لینے جارہا تھا تو ایک بابو نے اس میں دونی ڈال دی تھی ۔ یاد ہے دادا؟
ہاں دا دا بولا۔ ” پر ایساکم ہوتا ہے ایسے با ہوکم ہوتے ہیں ۔ ’’ دادا‘‘ سلطان نے کہا۔ انگوٹھے والی جگہ کو ایک بار پھر کھجادے۔“ دادا نے سلطان کی کنپٹی پر انگوٹھا زور سے رگڑا اور بولا ”آج واپس جا کر میں زہبو بیٹی سے کہوں گا کہ میرے بچے کے سر سے جوئیں چن لے۔
تم بھی اس کا کوئی کام کر دینا۔ بالٹی بھرلا نا نل سے۔ اچھا؟
      گھر واپس آ کر جب سلطان ، دادا کو کھٹولے کے پاس لاتا تو کہتا۔ ” لے دادا بیٹھ جا۔ دادا لاٹھی کو کھٹولے کے پائے سے لگادیتا اور سلطان کے سر پر سے ہاتھ اٹھا کر کھٹولے پر بیٹھ جاتا۔ سر پر سے دادا کا ہاتھ اٹھتے ہی سلطان کو یوں محسوس ہوتا جیسے ایک دم  وہ ہلکا پھلکا ہو گیا ہے اور اس کے پاؤں میں لوہے کے گولوں کی جگہ ربڑ کے پہیے بندھ گئے ہیں ۔ وہ چپکے سے چھپریا میں سے نکل آتا۔ پھر خالہ زیبو کی آنکھ بچا کر بھاگ نکلتا اور بنگلوں سے گھرے ہوئے میدان میں پہنچ جاتا جہاں امیروں کے بچے کرکٹ کھیلتے تھے اور غریبوں کے بچے انھیں گیند اٹھا کر دیتے تھے۔ پھر جب وہ میدان خالی کر دیتے تھے تو بیروں، خانساموں اور چپراسیوں کے بچے بلور کی گولیاں کھیلتے تھے۔ ایک بار سلطان نے بھی اس کھیل میں شامل ہونے کی کوشش کی تھی ۔ چند روز تک کھیلا بھی تھا مگر پھر ایک دن ایک لڑکے نے انکشاف کیا تھا کہ سلطان تو اندھے بھکاری کا بچہ ہے۔ جب سے اسے کھیل میں شامل نہیں کیا جاتا تھا۔ البتہ جب کوئی بچہ بلور کی گولی بہت دور پھنیک بیٹھتا تو سلطان لپک کر یہ گولی اٹھا لاتا تھا اور مالک کے حوالے کرنے سے پہلے اسے چند بار انگلیوں میں گھما لیتا تھا۔ ایک بار دادا کے سامنے دیر تک زار زار رو کر اس نے چند پیسے حاصل کر لیے تھے اور ان سے بلور کی گولیاں خرید لایا تھا مگر جب میدان میں پہنچا اور بچوں نے اس کے ہاتھ میں گولیاں دیکھی تھیں، تو وہ یہ کہہ کر اس پر جھپٹ پڑے تھے کہ یہ تو ہماری گولیاں ہیں ۔ وہ اس دن خوب پاؤں پٹخ پٹخ کر رویا تھا مگر دوسرے دن پھر میدان میں جا نکلا تھا۔
ایک بار میدان میں آنے کے بعد اسے واپس گھر جانے سے ڈر لگتا تھا کہ کہیں دادا پھر سے اس کے سر کو اپنے سوکھے ہاتھ میں جکڑ کر اسے سڑک سڑک نہ لیے پھرے۔ اسے معلوم تھا کہ صبح کو آنکھ کھلتے ہی اسے دادا کے ساتھ گدا کرنے کے لیے نکل جانا ہوگا۔ اس لیے کھٹولے سے اٹھتے ہی اسے ایسا لگتا جیسے اس نے پتھر کی ٹوپی پہن لی ہے۔ دادا کے ہاتھ کی پانچوں انگلیاں درد کی پانچ لہریں بن کر اس کی کھوپڑی میں دوڑ جاتیں اور جب دادا نماز پڑھنے اور دعا مانگنے کے بعد لاٹھی سنبھالتا اور سلطان کو پاس بلاکر اس کے سر پر ہاتھ رکھتا تو سلطان آدھا مر جاتا۔ دادا کا یہ ہاتھ سوتے جاگتے میں اسے بھوت کی طرح ڈراتا تھا۔ یہ ہاتھ اسے گرفتار کر لیتا تھا۔ اور وہ پٹری پر یوں چلتا تھا جیسے ملزم ہتھکڑیاں پہنے سپاہی کے ساتھ چلتے ہیں اور پھر قید خانے کے صدر دروازے کے جنگلے میں سے باہر سڑک پر لوگوں کو چلتا پھرتا ہنستا مسکراتا دیکھتے ہیں مگر بس دیکھتے رہ جاتے ہیں اور ان کی بصارت کے ساتھ سلاخیں صلیبوں کی طرح چمٹ جاتی ہیں۔
جب دادا کا ہاتھ اپنے سر پر رکھے وہ اس کے ساتھ ساتھ چلتا تھا تو کئی بار اس کا جی چاہا کہ گنڈیری والے کے خوانچے میں سے جوگنڈیری لڑھک کر گندی نالی کے کنارے جا کر رک گئی تھی، وہ لپک کر کھالے۔ بابو نے کیلا کھا کر جو چھلکا بھی پھینکا ہے اسے بڑھ کر اٹھالے اور ذرا سا چاٹ لے۔ مگر جب بھی اس نے کسی بہانے دادا سے ذرا سارک جانے کو کہا تو دادا نے اپنی انگلیاں اس کے سر کی ہڈی میں گاڑ دیں اور بولا ” میں تجھے ٹہلانے نکلا ہوں کہ تو مجھے گدا کرانے نکلا ہے؟ ارے بدبخت! دن بھر میں چار پانچ آنے کی بھیک نہ ملی تو ز یبو بٹی دو وقت کی روٹی ہمیں کیا اپنی گرہ سے کھلائے گی؟ اس کی یہی مہربانی کیا کم ہے کہ اس نے ہمارے سر چھپانے کو اپنی چھپریا دے رکھی ہے؟
کافی دنوں کی بات ہے دادا بنگلوں سے بھیک مانگنے کے بعد جب کوارٹروں کے پیچھے بیگو کوچوان کے گھروندے کے سامنے سے گزرا تو اس کی ماں زیو لپک کر آئی اور بولی ارے بابا دعا کر۔ الله میرے بیٹے کی پسلی کا دردٹھیک کردے۔ میں تجھے پورا ایک روپیہ دوں گی“
دادا نے وہیں کھڑے ہو کر دعا مانگی تھی پھر چند روز کے بعد اس نے سلطان کو دوبارہ ان ہی بنگلوں کی طرف چلنے کو کہا۔ ابھی وہ بنگلوں تک نہیں پہنچے تھے کہ زیبو نے انھیں رستے ہی میں پکڑ لیا۔ دادا کو ایک روپیہ دیا اور بولی’’ مجھے بتا تو کہاں رہتا ہے بابا؟ میں جمعرات کی جمعرات تیری سلامی کو آیا کروں گی ۔‘ پھر جب اسے معلوم ہوا تھا کہ یہ دادا پوتا تو کسی دکان کے چھجے تلے پڑرہتے ہیں تو اس نے بیٹے سے کہہ کر چھپریا خالی کرا دی تھی اور جب سے دونوں وہیں رہتے تھے۔ دن بھر کی بھیک اس کو لا دیتے تھے اور وہ اسی حساب سے انھیں روٹی پکا دیتی تھی۔ ان دنوں دادا سے وہ اپنے بیٹے کے اولاد ہونے کی دعا کرا رہی تھی۔
سلطان کو دادا کے علاوہ خالہ ز یبو بھی اچھی نہیں لگتی تھی۔ وہ جب بھی دادا کو واپس چھپریا میں پہنچا کر نکلا تو زیبو سے چھپ کر نکلا۔ ورنہ وہ شور مچا دیتی تھی کہ لو دیکھو۔ اپنے بوڑھے اپاہج دادا کو اکیلا چھوڑ کر کھیلنے چلا ہے۔
جس روز دا دا دن ڈھلے ہی تھک کر واپس آجاتا اور سلطان کو کھسک جانے کا موقع نہ ملتا تو ذرا سا سستالینے کے بعد وہ پھر سے لاٹھی سنبھال کر کہتا چل سلطان ۔ چوک کا ایک اور چکر لگوادے۔ آج کچھ زیادہ مل گیا تو کل تیری چھٹی‘ مگر یہ چھٹی کبھی نہیں ملتی تھی۔ اس لیے کہ کچھ زیادہ کبھی نہیں ملتا تھا۔
البتہ اب کچھ عرصے سے یوں ہونے لگا تھا کہ دادا کو آدھی رات کے بعد دمے کے دورے پڑتے اور وہ کھانس کھانس اور ہانپ ہانپ کر صبح تک ادھ موا ہو جاتا۔ اس روز وہ گدا پرنہیں نکلتا تھا۔ مگر سلطان کو جب بھی چھٹی نہیں ملتی تھی ۔ وہ دن بھر بیٹھا دادا کے کندھے اور پسلیاں دباتا رہتا اور اس کے ہاتھ رکتے تو دادا کھانسی سے بھنجی ہوئی آواز میں پکارتا " کیوں سلطان کیا کر رہا ہے؟ مرتو نہیں گیا؟ "
سلطان فوراً دادا کے کندھے پکڑ لیتا اور جی میں کہتا ”اللہ کرے تو خود مرجائے دادا۔ تو مر جائے تو اللہ قسم کیسے مزے آئیں۔ اللہ کرے تو جلدی جلدی سے بس ابھی ابھی مر جائے اور میں بنگلے کی بی بی سے اس کے بچے کی ٹوپی کی بھیک مانگ کر اپنا سر ڈھانپ لوں ۔“
پھر ایک روز دادا سچ مچ مر گیا۔ وہ ٹوٹتی رات سر کو گھٹنوں پر رکھے کھانستا اور ہانپتا رہا اور اس کی پسلیاں پھنکتی اور سمٹتی رہیں ۔ سلطان اس کے کندھے دباتا رہا اور اس کی ریڑھ کی ہڈی کے کناروں کو انگوٹھوں کی پوروں سے سہلاتا رہا۔ پھر وہ سو گیا۔ اور جب صبح کو اس کی آنکھ کھلی تو روتی ہوئی خالہ زبیو نے اسے بتایا کہ " سلطان ۔ تیرا دادا تو اللہ کو پیارا ہو گیا۔ "
ایکا ایکی سلطان کے اندر چار طرف پھلجھڑیاں سی چھوٹیں اور وہ بولا "سچ ؟ " جیسے اسے یقین نہیں آرہا کہ دادا لوگ بھی مر سکتے ہیں ۔ پھر بیگو کو چوان آس پاس کے لوگوں کو جمع کر لایا اور وہ دادا کو غسل دے
کر دفنانے لے گئے۔
خالہ زیبو وقفے وقفے سے روتی رہی اور اس کی بہو نے بھی سلطان کو بڑے پیار سے دن بھر اپنے پاس بٹھائے رکھا۔ بیگو بھی قبرستان سے واپس آیا تو سلطان کے لیے گنڈیریاں لیتا آیا اور گنڈیریاں چوستے ہوئے سلطان نے سوچا۔ جب دادا مر جاتے ہیں تو کیسے مزے آتے ہیں۔
رات بھی خالہ زیپو نے اسے چھپریا میں نہ جانے دیا کہ بچہ ہے، ڈر جائے گا۔ صبح کو اس نے سلطان کو رات کی ایک چپاتی اور لسی کا ایک پیالہ دیا۔ خوب پیٹ بھر کر وہ اٹھا تو زیبو نے پوچھا۔ کہاں چلے بیٹا؟‘‘
سلطان کو یہ سوال بڑا عجیب سا لگا۔ ہم کہیں بھی جائیں تمھیں کیا۔ ہمارا دادا تو مر گیا ہے۔
سلطان کو خاموش پا کر وہ بولی نہیں بیٹا۔ کھیلتے ویلتے نہیں ہیں ۔ پھر وہ اسے ہاتھ سے پکڑ کر چھپریا میں لے آئی اور کٹورا اٹھا کر اس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولی "آج کہیں سے آٹھ دس آنے کمالا ۔۔۔۔۔۔ میں تجھے چاول کھلاؤں گی۔ جا بیٹا کسی آباد سڑک کا ایک پھیرا لگا لے۔ اللہ تیرا ساتھی ہو۔"
سلطان نے ہاتھ میں کٹورا لے لیا مگر چھپر یا سے باہر آتے ہی وہ رک گیا۔ واپس چھپریا میں گھسا جیسے کچھ بھول آیا ہے۔ پھر وہ بلبلا کر رو دیا اور خالہ زیبو کے پھیلے ہوئے ہاتھوں سے کترا کر بھاگ نکلا۔
اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر ہورہا تھا جب اس نے سڑک پر ایک بابو کے سامنے کٹورا پھیلایا۔ ”بابو جی اندھے فقیر کو راہ مولا ایک روٹی ۔" اس نے زار زار روتے ہوئے دادا کے الفاظ دہرا دیے۔
کیا تو اندھا ہے؟“بابو نے سختی سے پوچھا۔
سلطان کو یکا یک اپنی غلطی کا احساس ہوا اور گھبرا کر اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔ پھر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ جھوٹ بھی بکتا ہے اور روتا بھی ہے؟
بابونے ڈانٹا۔ نوکری کرے گا ؟ اس نے پوچھا پھر سلطان کو مسلسل روتا پا کر جانے لگا۔ سلطان رندھی ہوئی آواز میں بولا " ہے بابو جی۔ راہ مولا پیسے دو پیسے دیتے جاؤ“
بابو پلٹے بغیر آگے بڑھ گیا۔ وہ کافی دور نکل گیا تھا جب روتا ہوا سلطان یکا یک اس کی طرف دوڑنے لگا اور پکارنے لگا ”بابوجی۔ ہے بابو جی ۔
با بورک گیا۔ آس پاس سے گزرتے ہوئے لوگ بھی ٹھٹھک گئے ۔ ” نوکری کرے گا؟“بابو نے پوچھا۔
"بابو جی." ہانپتا ہوا سلطان بابو کے پاس رکا۔ پھر اس کا نچلا ہونٹ ذرا سا لٹکا اور وہ بولا ”بابوجی - دیکھیے۔ میں نوکری نہیں مانگتا ۔ بھیک نہیں مانگتا ۔ اس نے کٹورا زمین پر پٹخ دیا۔
تو پھر مجھے کیوں پکارا ؟ بابو نے جمع ہوتے ہوئے لوگوں پر ایک نظر دوڑا کر ذرا تلخی سے پوچھا۔
ایک دم سلطان کی آنکھوں میں اکٹھے بہت سے آنسو آگئے ۔ اس کے ہونٹ پھڑ کنے لگے اور وہ بڑی مشکل سے بولا بابو جی ۔ خدا آپ کا بھلا کرے۔ خدا آپ کو بہت بہت دے۔ کیا آپ ذرا دور تک میرے سر پر ہاتھ رکھ کر چل سکیں گے؟
" لو اور سنو۔" بابواحمقوں کی طرح ہجوم کو دیکھنے لگا۔
احمد ندیم قاسمی
(1916 - 2006)
احمد ندیم قاسمی ضلع شاہ پور (پاکستان) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم آبائی گاؤں ہی میں ہوئی۔ 1935 میں بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی اور پنجاب کے مختلف اضلاع میں ملازمت کرتے رہے۔ 1942 میں تہذیب نسواں اور "پھول‘‘ کے ایڈیٹر رہے۔ وہ ادب لطیف‘ اور نقوش“ کے بھی مدیر رہے۔ انھوں نے ” فنون“ کے نام سے خود اپنا بھی ایک سہ ماہی جریدہ جاری کیا جس کے وہ آخر وقت تک مدیر رہے۔
احمد ندیم قاسمی ادب میں کئی حیثیتوں کے مالک تھے۔ وہ شاعر بھی تھے اور ایک معروف ادبی صحافی بھی ۔ ان کے نصف درجن کے قریب شعری مجموعے اور ایک درجن سے زیادہ افسانوں کے مجموعے شائع ہوئے۔ ادبی مضامین اور اخباری کالم نویسی کا سلسلہ بھی برابر جاری رہا، انھوں نے سب سے زیادہ شہرت اپنے افسانوں کی وجہ سے پائی۔ پنجاب کی دیہی زندگی اور عام انسانوں کے مسائل کی عکاسی کا وہ غیر معمولی سلیقہ رکھتے تھے۔ اسی لیے عام پڑھنے والوں میں ان کی کہانیاں بہت مقبول تھیں۔
احمد ندیم قاسمی کا تعلق ایک روایتی مزہبی خاندان سے تھا۔ ترقی پسندتحریک سے بھی انھوں نے اپنی ترجیحات کے ساتھ رابطہ قائم رکھا۔ ان کے اس ذہنی رویہ کے اثرات ان کی تخلیقات میں صاف دکھائی دیتے ہیں۔

خلاصہ:
سلطان معروف ادیب اور شاعر احمد ندیم قاسمی کا مشہور افسانہ ہے۔ اس افسانے میں انسانی نفسیات اور جذبات کو سلیقے سے بیان کیا گیا ہے۔ سلطان نام کا ایک لڑکا ہے جو اپنے نابینا دادا کے ساتھ بھیک مانگنے کیلئے سڑکوں پر نکلتا ہے۔ دادا کا بایاں ہاتھ ہمیشہ سلطان کی کھوپڑی پر رہتا ہے۔ دارا مختلف سڑکوں سے گزرتا ہوا ان سڑکوں اور بازاروں کی خصوصیت بتاتا ہے۔ اتوار کا دن تھا جب حسب معمول دادا اور سلطان بازار میں نکلے۔ ادھر ادھر جانے کے بعد بھی انہیں کچھ نہیں ملا تو دادا نے پوچھا ”آج بابو لوگ کہاں چلے گئے؟ سلطان نے کہا ” پرسوں تم مجھے نیلا گنبد کی مسجد میں لے گئے تھے نا، پرسوں جمعہ تھا اس حساب سے تو آج اتوار ہے۔“ بیڑاغرق ہواس اتوار کا آج تو بابو لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے بیوی بچوں سے کھیل رہے ہوں گے۔ "سلطان یوں دم بخود کھڑارہ گیا جیسے کوئی زبردست حادثہ ہو گیا ہو۔ شام کو سلطان اور دادا گھر واپس آئے تو دادا نے کھٹولے پر بیٹھ کر سلطان کے سر سے اپنا ہاتھ اٹھالیتا ہے۔ دادا کا ہاتھ ہے ہی سلطان کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ایک دم وہ ہلکا پھلکا ہو گیا ہو۔ اور اس کے پاؤں میں لوہے کے گولوں کی جگہ ربڑ کے پہیے بندھ گئے ہوں۔ وہ چپکے سے چھپریا سے نکل آتا، پھر خالد زیبوکی آنکھ بچا کر بھاگ نکلتا اور بنگلوں سے گھرے ہوئے میدان میں پہنچ جاتا جہاں امیروں کے بچے کرکٹ کھیلتے تھے اور غریبوں کے بچے انہیں گیند اٹھا کر دیے تھے۔ پھر جب وہ میدان خالی کر دیتے تھے تو بیروں، خانساموں اور چپراسیوں کے بچے بلور کی گولیاں کھیلتے تھے۔ ایک بار سلطان نے بھی اس کھیل میں شامل ہونے کی کوشش کی تھی تو ایک لڑکے نے انکشاف کیا تھا کہ سلطان تو اندھے بھکاری کا بچہ ہے، بچوں نے اس کے ساتھ کھیلنے سے انکار کر دیا۔ میدان میں آنے کے بعد اسے واپس گھر جانے سے ڈر لگتا تھا کہ کہیں دادا پھر سے اس کے سر کو اپنے سو کھے ہاتھ میں جکڑ کر اسے سڑک سڑک نہ لیے پھرے ۔ ہر صبح اسے ایسا لگتا جیسا اس نے پتھر کی ٹوپی پہن لی ہے۔ دادا کے ہاتھ کی پانچوں انگلیاں در کی پانچ لہریں بن کر اس کی کھوپڑی میں دوڑ جاتیں ۔ ایک بار دارابنگلے کے بعد جو کوارٹروں کے پیچھے بیگو کوچوان کے گھروندے کے سامنے سے گزرا تو اس کی ماں زیبو لپک کرائی اور بولی ۔ ارے بابا! دعا کر میرے بیٹے کی پسلی کا درد ٹھیک ہو جائے میں تجھے ایک روپیہ دوں گی۔ پھر ایک بار ز یبو نے انہیں راستے میں پکڑ لیا اور دادا کو ایک روپیہ دے کر بولی، مجھے بتا کہاں رہتا ہے؟ میں جمعرات کی جمعرات تیری سلامی کو آیا کروں گی۔ زبیو کو معلوم ہوا کہ ان کا کوئی گھر نہیں ہے تو اس نے اپنے بیٹے سے چھپر یا خالی کرا دی۔ دادا اور سلطان وہاں رہنے لگے۔ انہیں جو بھیک ملتی تو وہ اس کا ایک حصہ زیبو خالہ کودیتے اور وہ انہیں دو وقت کی روٹی کھلا دیتی۔ ایک روز اس چھپریا میں دادا مر گیا۔ اسی روز زیبو اور بہو نے سلطان کو بڑے پیار سے دن بھر اپنے پاس رکھا۔ زیبوکابیٹا بیگو بھی قبرستان سے واپس آیا تو سلطان کیلئے گنڈیریاں لایا اور سلطان سوچنے لگا، جب دادا مر جاتے ہیں تو کیسے مزے آتے ہیں۔ اگلے دن سلطان پھر بھیک مانگنے نکلا ۔ اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا،آج اس کے سر پر دادا کا ہاتھ نہ تھا۔ ایک بابو کو دیکھ کر سلطان رندھی ہوئی آواز میں بولا ہے بابو جی ! راہ مولا میں پیسے دو پیسے دیتے جاؤ۔ بابو پلٹے بغیر آگے بڑھ گیا۔ وہ کافی دور نکل گیا جب روتا ہوا سلطان یکایک اس کی طرف دوڑنے لگا اور پکارنے لگا۔ ہے بابو جی ! ہے بابوجی ! بابو رک گیا۔ آس پاس سے گزرتے ہوئے لوگ بھی ٹھٹھک گئے ۔ نوکری کرے گا باہو نے پوچھا۔ ہانپتا ہوا سلطان نچلا ہونٹ ذرا سا لٹکا کر بولا۔ بابوجی! میں نوکری نہیں مانگتا، بھیک نہیں مانتا۔ یہ کہ کر اس نے کٹورا زمین پر پٹخ دیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ پھر وہ بڑی مشکل سے بولا کیا آپ ذرا دور تک میرے سر پر ہاتھ رکھ کر چل سکیں گے ۔” لو اور سنو !“بابو احمقوں کی طرح ہجوم کو دیکھنے لگا۔

  سوالوں کے جواب لکھیے:
1۔ سلطان کو ز یبو خالہ کا باہر جانے پر ٹوکنا کیوں برا لگتا ہے؟
جواب: سلطان کو زیبو خالہ کا باہر جانے پر ٹوکنا اس لیے برا لگتا تھا کہ وہ دوسرے بچّوں کی طرح ہی سب کے ساتھ کھیلنا چاہتا تھا۔ جب وہ اپے بوڑھے دادا کو چھپریا میں پہنچا دیتا تھا تب اسے لگتا تھا کہ اس نے اپنا کام ختم کرلیا ہے اور اب وہ دوسروں کے ساتھ کھیلنے کے لیے آزاد ہے لیکن وہ جیسے ہی اپنے قدم باہر نکلتا زیبو خالہ اسے ٹوک دیتی اور وہ اس سے سخت ناراض ہوتا۔

2۔ سلطان کو دادا کا ہاتھ لوہے کی ٹوپی جیسا کیوں لگتا تھا اور بعد میں اس کے نہ ہونے پر اسے کیا محسوس ہوا؟
جواب: سلطان کو دادا کا ہاتھ لوہے کی ٹوپی جیسا اس لیے لگتا تھا کہ سلطان کے دادا اپنی سخت ہتھیلیوں سے اس کے سر کواس طرح پکڑتے تھے کہ جیسے وہ کسی شکنجے میں کس گیا ہوا ہو۔ دادا کو اس بات کا ڈر رہتا کہ سلطان اسے باہر اکیلا چھوڑ کر کھیلنے نہ بھاگ جائے اس لیے وہ اس کے سر پر اپنی گرفت بہت سخت رکھتا اور اسے لگتا کہ اس نے اپنے سر پر ایک لوہے کی ٹوپی پہن رکھی ہو۔ 

3۔ سلطان نے بابوجی سے اپنے سر کے اوپر ہاتھ رکھ کر تھوڑی دور چلنے کی درخواست کیوں کی؟
جواب: بابو جی کے سوال جواب سے اسے اپنے دادا کے نہ ہونے کا شدت سے احساس ہوا۔ اور اس یاد کی شدت میں وہ بے ساختہ بابوجی کی طرف دوڑ پڑا۔ اسے بابو جی میں اپنے دادا اپنے سرپرست کی صورت نظر آنے لگی اور وہ بے ساختہ ان سے اپنی خواہش کا اظہار کر بیٹھا کہ کیا وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کچہ دور چلیں گے۔ اس نے بھیک کا کٹورہ دور پھیک دیا تھا کیونکہ اسے بھیک کی خواہش نہیں تھی بس وہ اپنے سر پر ایک سرپرست کا شفقت بھرا ہاتھ چاہتا تھا۔ بابو جی چونکہ پورے احوال سے واقف نہ تھے اس لیے وہ صرف حیرت سے اسے دیکھتے رہے۔

خوش خبری