آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Sunday, 15 November 2020

Bhola By Rajinder Singh Bedi NCERT Class 10 Nawa e Urdu

بھولا

راجندر سنگھ بیدی

میں نے مایا کو پتھر کے ایک کوزے میں مکھن رکھتے دیکھا۔ چھاچھ کی کھٹاس کو دور کرنے کے لیے مایا نے کوزے میں پڑے ہوئے مکھن کو کنوئیں کے صاف پانی سے کئی بار دھویا۔ اس طرح مکھن کے جمع کرنے کی کوئی خاص وجہ تھی۔ ایسی بات عموماً مایا کے کسی عزیز کی آمد کا پتہ دیتی تھی۔ ہاں! اب مجھے یاد آیا دو دن کے بعد مایا کا بھائی اپنی بیوہ بہن سے راکھی بندھوانے کے لیے آنے والا تھا۔ یوں تو اکثر بہنیں بھائیوں کے یہاں جا کر انھیں راکھی باندھتی ہیں مگر مایا کا بھائی اپنی بہن اور بھانجے سے ملنے کے لیے خود ہی آجایا کرتا تھا اور راکھی بندھوا لیا کرتا تھا۔ راکھی بندھوا کر وہ اپنی بیوہ بہن کو یقین دلاتا تھا کہ اگر چہ اس کا سہاگ لٹ گیا ہے مگر جب تک اس کا بھائی زندہ ہے ، اس کی رکھشا، اس کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لیتا ہے۔ ننھے بھولے نے میرے اس خیال کی تصدیق کردی ۔ گنا چوستے ہوئے اس نے کہا "بابا ! پرسوں ماموں جی آئیں گے نا۔۔۔۔؟

میں نے اپنے پوتے کو پیار سے گود میں اٹھا لیا۔ بھولے کا جسم بہت نرم و نازک تھا اور اس کی آواز بہت سریلی تھی جیسے کنول کی نزاکت اور سپیدی ، گلاب کی سرخی اور بلبل کی الحانی کو اکٹھا کر دیا ہو۔ اگر چہ بھولا میری لمبی اور گھنی داڑھی سے گھبرا کر مجھے اپنا منہ چومنے کی اجازت نہ دیتا تھا۔ تاہم میں نے زبردستی اس کے سرخ گالوں پر پیار کی مہر ثبت کردی ۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا

بھولے- تیرے ماموں جی۔۔۔۔۔  تیری ماتا جی کے کیا ہوتے ہیں؟

بھولے نے کچھ تامل کے بعد جواب دیا۔”ماموں جی"۔

مایا نے استوتر پڑھنا چھوڑ دیا اور کھلکھلا کر ہنسنے لگی۔ میں اپنی بہو کے اس طرح کھل کر ہنسنے پر دل ہی دل میں بہت خوش ہوا۔ مایا بیوہ تھی اور سماج اسے اچھے کپڑے پہننے اور خوشی کی بات میں حصہ لینے سے بھی روکتا تھا۔ میں نے بار ہا مایا کو اچھے کپڑے پہنے ہنسنے کھیلنے کی تلقین کرتے ہوئے سماج کی پروا نہ کرنے کے لیے کہا تھا ۔ مگر مایا نے از خود اپنے آپ کو سماج کے روح فرسا احکام کے تابع کرلیا تھا۔ اس نے اپنے تمام اچھے کپڑے اور زیورات کی پٹاری ایک صندوق میں مقفل کر کے چابی ایک جوہڑ میں پھینک دی تھی۔

مایا نے ہنستے ہوئے اپنا پاٹھ جاری رکھا۔

 

             ہری ہری ہری ہر، ہری ہر، ہری

             میری بار کیوں دیر اتنی کری

پھر اس نے اپنے لال کو پیار سے بلاتے ہوئے کہا۔

’’ بھولے تم ننھی کے کیا ہوتے ہو؟“

  ’’بھائی !‘‘ بھولے نے جواب دیا۔

"اسی طرح تیرے ماموں جی میرے بھائی ہیں ۔"

بھولا یہ بات نہ سمجھ سکا کہ ایک شخص کس طرح ایک ہی وقت میں کسی کا بھائی اور کسی کا ماموں ہوسکتا ہے۔ وہ تو اب تک یہی سمجھتا آیا تھا کہ اس کے ماموں جان اس کے با با جی کے بھی ماموں جی ہیں ۔ بھولے نے اس مخمصے میں پڑنے کی کوشش نہ کی اور اچک کر ماں کی گود میں جا بیٹھا اور اپنی ماں سے گیتا سننے کے لیے اصرار کرنے لگا۔ وہ گیتا محض اس وجہ سے سنتا تھا کہ وہ کہانیوں کا شوقین تھا اور گیتا کے ادھیائے کے آخر میں مہاتم سن کر وہ بہت خوش ہوتا اور پھر جو ہڑ کے کنارے اگی ہوئی دوب کی مخملی تلواروں میں بیٹھ کر گھنٹوں ان مہاتموں پر غور کیا کرتا۔

مجھے دو پہر کو اپنے گھر سے چھ میل دور اپنے مزرعوں میں پہنچنا ہوتا تھا۔ بوڑھا جسم، اس پر مصیبتوں کا مارا ہوا جوانی کے عالم میں تین تین من بوجھ اٹھا کر دوڑا کیا مگر اب بیس سیر بوجھ کے نیچے گردن پچکنے لگتی ہے۔ بیٹے کی موت نے امید کو یاس میں تبدیل کر کے کمرتوڑ دی تھی۔ اب میں بھولے کے سہارے ہی جیتا تھا ورنہ دراصل تو مر چکا تھا۔

رات کو میں تکان کی وجہ سے بستر پر لیٹتے ہی اونگھنے لگا۔ ذرا توقف کے بعد مایا نے مجھے دودھ پینے کے لیے آواز دی۔ میں اپنی بہو کی سعادت مندی پر دل ہی دل میں بہت خوش ہوا اور اسے سیکڑوں دعائیں دیتے ہوئے میں نے کہا۔

"مجھے بوڑھے کی اتنی پروا نہ کیا کرو بٹیا‘‘ -

۔۔۔۔۔بھولا ابھی تک نہ سویا تھا۔ اس نے ایک چھلانگ لگائی اور میرے پیٹ پر چڑھ گیا ، بولا۔ باباجی ! آپ آج کہانی نہیں سنائیں گے کیا؟

نہیں بیٹا میں نے آسمان پر نکلے ہوئے ستاروں کو دیکھتے ہوئے کہا۔ میں آج بہت تھک گیا ہوں ۔ کل دوپہر کو سناؤں گا۔"

بھولے نے روٹھتے ہوئے جواب دیا۔ "میں تمھارا بھولا نہیں بابا ۔ میں ماتا جی کا بھولا ہوں۔“

بھولا بھی جانتا تھا کہ میں نے اس کی ایسی بات کبھی برداشت نہیں کی ۔ میں ہمیشہ اس سے یہی سننے کا عادی تھا کہ ” بھولا بابا جی کا ہے ماتا جی کا نہیں۔ مگر اس دن ہلوں کو کندھے پر اٹھا کر چھ میل تک لے جانے اور پیدل ہی واپس آنے کی وجہ سے میں بہت تھک گیا تھا۔ شاید میں اتنا نہ تھکتا اگر میرا نیا جوتا ایڑی کو نہ دباتا اور اس وجہ سے میرے پاؤں میں ٹیسیں نہ اٹھتیں ۔ اس غیر معمولی تھکن کے باعث میں نے بھولے کی وہ بات بھی برداشت کی ۔ میں آسمان میں ستاروں کو دیکھنے لگا ۔ آسمان کے جنوبی گوشے میں ایک ستارہ مشعل کی طرح روشن تھا غور سے دیکھنے پر وہ مدھم ہونے لگا۔ میں اونگھتے اونگھتے سوگیا۔

صبح ہوتے ہی میرے دل میں خیال آیا کہ بھولا سوچتا ہوگا کہ کل رات بابا نے میری بات کس طرح برداشت کی ؟ میں اس خیال سے لرز گیا کہ بھولے کے دل میں کہیں یہ خیال نہ آیا ہو کہ اب بابا میری پروا نہیں کرتے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ صبح کے وقت اس نے میری گود میں آنے سے انکار کر دیا اور بولا ۔

"میں نہیں آؤں گا۔ تیرے پاس بابا‘‘

" کیوں بھولے؟"

"بھولا بابا جی کا نہیں۔۔۔۔۔۔ بھولا ما تا جی کا ہے۔"

میں نے بھولے کو مٹھائی کے لالچ سے منا لیا، اور چند ہی لمحات میں بھولا باباجی کا بن گیا اور اپنی ننھی ٹانگوں کے گرد میرے جسم سے لپٹے ہوئے کمبل کو لپیٹنے لگا۔ مایا ہری ہر استوتر پڑھ رہی تھی۔ پھر اس نے پاؤ بھر مکھن نکالا اور اسے کوزے میں ڈال کر کنویں کے صاف پانی سے چھاچھ کی کھٹاس کو دھوڈالا ۔ اب مایا نے اپنے بھائی کے لیے سیر کے قریب مکھن تیار کر لیا تھا۔ میں بہن بھائی کے اس پیار کے جذبے پر دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا۔ اتنا خوش کہ میری آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔ میں نے دل میں کہا عورت کا دل محبت کا ایک سمندر ہوتا ہے۔ ماں ، باپ، بہن ، بھائی ، خاوند ، بچے سب سے وہ بہت ہی پیار کرتی ہے اور اتنا کرنے پربھی دوختم نہیں ہوتا۔ ایک دل کے ہوتے ہوئے بھی وہ سب کو اپنا دل دے دیتی ہے۔ بھولے نے دونوں ہاتھ میرے گالوں کی جھریوں پر رکھے مایا کی طرف سے چہرے کو ہٹا کر اپنی طرف کر لیا اور بولا۔

بابا تمھیں اپنا وعدہ یاد ہے نا۔۔۔۔۔۔؟"

" کس بات کا بیٹا؟‘‘

تمھیں آج دوپہر کو مجھے کہانی سنانی ہے۔“

"ہاں بیٹا۔" میں نے اس کا منہ چومتے ہوئے کہا۔

یہ تو بھولا ہی جانتا ہو گا کہ اس نے دوپہر کے آنے کا کتنا انتظار کیا ۔ بھولے کو اس بات کا علم تھا کہ بابا جی کے کہانی سنانے کا وقت وہی ہوتا ہے جب وہ کھانا کھا کر اس پلنگ پر جا لیٹتے ہیں جس پر وہ بابا جی یا ماتا جی کی مدد کے بغیر نہیں چڑھ سکتا تھا۔ چنانچہ وقت سے آدھ گھنٹے پیشتر ہی اس نے کھانا نکلوانے پر اصرار شروع کر دیا۔ میرے کھانے کے لیے نہیں بلکہ اپنی کہانی سنے کے چاؤ سے۔

میں نے معمول سے آدھ گھنٹہ پہلے کھانا کھایا۔ ابھی آخری نوالہ میں نے توڑا ہی تھا کہ پٹواری نے دروازے پر دستک دی۔ اس کے ہاتھ میں ہلکی سی ایک جریب تھی۔ اس نے کہا کہ خانقاہ والے کنویں پر آپ کی زمین کو ناپنے کے لیے مجھے آج ہی فرصت مل سکتی ہے ، پھر نہیں۔

دالان کی طرف نظر دوڑائی تو میں نے دیکھا، بھولا چارپائی کے چاروں طرف گھوم کر بستر بچھا رہا تھا۔ بستر بچھانے کے بعد اس نے ایک بڑا سا تکیہ بھی ایک طرف رکھ دیا اور پائینتی پر پاؤں اڑا کر چار پائی پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ اگر چہ بھولے کا اصرار مجھے جلد روٹی کھلانا اور بستر بچھا کر میری تواضع کرنا اپنی خود غرضی پر مبنی تھا تاہم میرے خیال میں آیا۔

’’ آخر مایا کا بیٹا ہی ہے نا ایشور اس کی عمر دراز کرے۔"

میں نے پٹواری سے کہا تم خانقاہ والے کنویں کو چلو اور میں تمھارے پیچھے پیچھے آجاؤ نگا۔ جب بھولے نے دیکھا کہ میں باہر جانے کے لیے تیار ہوں تو اس کا چہرہ اس طرح مدھم پڑگیا جس طرح گزشتہ شب آسمان کے ایک کونے میں مشتعل کی مانند روشن ستاره مسلسل دیکھتے رہنے کی وجہ سے ماند پڑ گیا تھا۔ مایا نے کہا۔

”بابا جی اتنی بھی کیا جلدی ہے؟ خانقاہ والا کنواں کہیں بھاگا تو نہیں جاتا۔ آپ کم سے کم آرام تو کر لیں ۔

’’اوں ہوں‘‘ میں نے زیرلب کہا۔ " پٹواری چلا گیا تو یہ کام ایک ماہ سے ادھر نہ ہو سکے گا۔“

مایا خاموش ہوگئی ۔ بھولا منہ بسورنے لگا۔ اس کی آنکھیں نمناک ہوگئیں۔ اس نے کہا۔ ” بابا میری کہانی، میری کہانی “

"بھولے میرے بچے۔" میں نے بھولے کو ٹالتے ہوئے کہا۔ دن کو کہانی سنانے سے مسافر راستہ بھول جاتے ہیں ۔ راستہ بھول جاتے ہیں ؟‘‘ بھولے نے سوچتے ہوئے کہا۔ بابا تم جھوٹ بولتے ہو میں بابا جی کا بھولا نہیں بنتا‘‘

اب جب کہ میں تھکا ہوا بھی نہیں تھا اور پندرہ بیس منٹ استراحت کے لیے نکال سکتا تھا بھلا بھولے کی اس بات کو آسانی سے کس طرح برداشت کر لیتا۔ میں نے اپنے شانے سے چادر اتار کر چار پائی کی پائینتی پر رکھی اور اپنی دبتی ہوئی ایڑی کو جوتی کی قید سے نجات دلاتے ہوئے پلنگ پر لیٹ گیا ۔ بھولا پھر اپنے بابا کا بن گیا۔ لیٹتے ہوئے میں نے بھولے سے کہا۔

اب کوئی مسافر راستہ کھو بیٹھے تو اس کے تم ذمہ دار ہو۔"

اور میں نے بھولے کو دوپہر کے وقت سات شہزادوں اور سات شہزادیوں کی ایک لمبی کہانی سنائی ۔ کہانی میں ان کی باہمی شادی کو میں نے معمول سے زیادہ دلکش انداز میں بیان کیا ۔ بھولا ہمیشہ اس کہانی کو پسند کرتا تھا جس کے آخر میں شہزادہ اور شہزادی کی شادی ہو جائے مگر میں نے اس روز بھولے کے منہ پر خوشی کی کوئی علامت نہ دیکھی بلکہ وہ افسردہ سا منہ بنائے خفیف طور پر کانپتا رہا۔

اس خیال سے کہ پٹواری خانقاہ والے کنویں پر انتظار کرتے کرتے تھک کر اپنی ہلکی ہلکی جھنکار پیدا کرنے والی جر یب جیب میں ڈال کر کہیں اپنے گاؤں کا رخ نہ کرلے میں جلدی جلدی مگر اپنے نئے جوتے میں دبتی ہوئی ایڑی کی وجہ سے لنگڑاتا ہوا بھاگا ۔ گو مایا نے جوتی کو سرسوں کا تیل لگا دیا تھا تاہم وہ نرم مطلق نہ ہوئی تھی۔

شام کو جب میں واپس آیا تو میں نے بھولے کو خوشی سے دالان سے صحن میں اورصحن سے دالان میں کودتے پھاندتے دیکھا۔ وہ لکڑی کے ایک ڈنڈے

کو گھوڑا بنا کر اسے بھگا رہا تھا اور کہہ رہا تھا۔

 

"چل ماموں جی کے دیس ۔۔۔۔۔۔۔ رے گھوڑے ، ماموں جی کے دیس۔

ماموں جی کے دیس ، ہاں ، ہاں !ماموں جی کے دلیس ۔ گھوڑے۔۔۔۔۔

  جوں ہی میں نے دہلیز میں قدم رکھا۔ بھولے نے اپنا گانا ختم کر دیا اور بولا۔

بابا۔۔۔۔ آج ماموں جان آئیں گے نا؟‘‘

پھر کیا ہو گا بھولے ؟ میں نے پوچھا۔

"ماموں جان اگن بوٹ لائیں گے۔ ماموں جی کلو(کتا) لائیں گے۔ ماموں جی کے سر پر مکی کے بھٹوں کا ڈھیر ہوگا نا بابا ہمارے یہاں تو مکی ہوتی ہی نہیں بابا اور تو اور ... ایسی مٹھائی لائیں گے جو آپ نے خواب میں بھی نہ دیکھی ہوگی ۔"

میں حیران تھا اور سوچ رہا تھا کہ کس خوبی سے "خواب میں بھی نہ دیکھی ہوگی‘‘ کے الفاظ سات شہزادوں اور سات شہزادیوں والی کہانی کے بیان میں سے اس نے یاد رکھے تھے۔ "جیتا رہے" میں نے دعا دیتے ہوئے کہا۔ بہت ذہین لڑکا ہوگا اور ہمارے نام کو روشن کرے گا۔

شام ہوتے ہی بھولا دروازے میں جا بیٹھا تا کہ ماموں جی کی شکل دیکھتے ہی اندر کی طرف دوڑے اور پہلے پہل اپنی ماتا جی کو اور پھر مجھے اپنے ماموں جی کے آنے کی خبر سنائے۔

دیوں کو دیا سلائی دکھائی گئی ۔ جوں جوں رات کا اندھیرا گہرا ہوتا جاتا۔ دیوں کی روشنی زیادہ ہوتی جاتی ۔ متفکر انہ لہجے میں مایا نے کہا۔

"بابا جی...... ابھی تک نہیں آئے “

"کسی کام کی وجہ سےٹھہر گئے ہوں گے "۔

"ممکن ہے کوئی ضروری کام آپڑا ہو۔ راکھی کے رویئے ڈاک میں بھیج دیں گے ۔" مگر راکھی؟"

باں راکھی کی کہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انھیں اب تک تو آجانا چاہیے تھا۔"

میں نے بھولے کو زبردستی دروازے کی دہلیز پر سے اٹھایا۔ بھولے نے اپنی ماتا جی سے بھی زیادہ متفکرانہ لہجے میں کہا "ماتا جی ۔۔۔۔۔ ماموں جی کیوں نہیں آئے؟"

مایا نے بھولے کو گود میں اٹھاتے ہوئے اور پیار کرتے ہوئے کہا۔ شاید صبح کو آجائیں تیرے ماموں جی -

میرے بھولے !"

پھر بھولے نے اپنے نرم و نازک بازوؤں کو اپنی ماں کے گلے میں ڈالتے ہوئے کہا۔ ” میرے ماموں بھی تمھارے کیا ہوتے ہیں؟

جوتم ننھی کے ہو۔“

"بھائی ؟"

"تم جانو".......

"اوربنسی ( بھولے کا دوست ) کے کیا ہوتے ہیں ۔"

کچھ بھی نہیں..."

" بھائی بھی نہیں؟"

"نہیں۔۔۔۔۔"

.......اور بھولا اس عجیب بات کو سوچتا ہوا سو گیا ۔ جب میں اپنے بستر پر لیٹا تو پھر وہ مشعل کی مانند چمکتا ہوا ستاره آسمان کے ایک کونے میں میرے گھورنے کی وجہ سے ماند ہوتا ہوا دکھائی دیا۔ مجھے پھر بھولے کا چہرہ یاد آگیا جو میرے خانقاہ والے کنویں کو جانے پر تیار ہونے کی وجہ سے یوں ہی ماند پڑ گیا تھا۔ کتنا شوق ہے بھولے کو کہانی سننے کا۔ وہ اپنی ماں کو استوتر بھی پڑھنے نہیں دیتا۔ اتنا چھوٹا بچہ بھلا گیتا کو کیا سمجھے۔ مگر صرف اس وجہ سے کہ اس کے ادھیائے کا مہاتم ایک دلچسپ کہانی ہوتی ہے وہ نہایت صبر سے ادھیائے کے ختم اور مہاتم کے شروع ہونے کا انتظار کیا کرتا ہے۔

"مایا کا بھائی ابھی تک نہیں آیا۔ شاید نہ آئے ۔" میں نے دل میں کہا۔” اسے اپنی بہن کا پیار سے جمع کیا ہوا مکھن کھانے کے لیے تو آجانا چاہیے تھا۔ میں ستاروں کی طرف دیکھتے دیکھتے اونگھنے لگا۔ یکا یک مایا کی آواز سے میری آنکھ کھلی ۔ وہ دودھ کا کٹورا لیے کھڑی تھی۔

” میں نے کئی بار کہا ہے۔ تم میرے لیے اتنی تکلیف نہ کیا کرو۔۔ " میں نے کہا،

دودھ پینے کے بعد فرط شفقت سے میرے آنسو نکل آئے۔ حد سے زیادہ خوش ہو کر میں مایا کو یہی دعا دے سکتا تھا نا کہ وہ سہاگ وتی رہے۔ کچھ ایسا ہی میں نے کہنا چاہا مگر اس خیال کے آنے سے کہ اس کا سہاگ تو برس ہوئے لٹ گیا تھا میں نے کچھ نہ کچھ کہنے کی غرض سے اپنی رقت کو دباتے ہوئے کہا،

"بیٹی... تمھیں اس سیوا کا پھل ملے بغیر نہ رہے گا۔"

پھر میرے پہلو میں بچھی ہوئی چار پائی پر سے بھولا ننھی کو جو کہ اس کے ساتھ ہی سورہی تھی ، پرے دھکیلتے ہوئے اور آنکھیں ملتے ہوئے اٹھا ۔ اٹھتے ہی اس نے کہا،

"بابا ۔۔۔۔۔۔۔ ماموں جی ابھی تک کیوں نہیں آئے؟"

آجائیں گے بیٹا سو جاؤ ۔ وہ صبح سویرے آجائیں گے۔

اپنے بیٹے کو اپنے ماموں کے لیے اس قدر بیتاب دیکھ کر مایا بھی کچھ بیتاب ہوگئی ۔ عین اس طرح جس طرح ایک شمع سے دوسری شمع روشن ہوجاتی ہے۔ کچھ دیر کے بعد وہ بھولے کولٹا کر تھپکنے لگی۔

مایا کی آنکھوں میں بھی نیند آنے لگی ، یوں بھی جوانی میں نیند کا غلبہ ہوتا ہے اور پھر دن بھر کام کاج کر کے تھک جانے کی وجہ سے مایا گہری نیند سوتی تھی۔ میری نیند تو عام بوڑھوں کی سی نیند تھی۔ کبھی ایک آدھ گھنٹے تک سولیتا پھر دو گھنٹے جاگتا رہتا۔ پھر کچھ دیر اونگھنے لگ جاتا اور باقی رات اختر شماری کرتے گزار دیتا۔ میں نے مایا کوسو جانے کے لیے کہا اور بھولے کو اپنے پاس لٹا لیا۔

بتی جلتی رہنے دو ، صرف دھیمی کردو ۔۔ ۔۔ میلے کی وجہ سے بہت سے چور چکار ادھر ادھر گھوم رہے ہیں- ‘‘ میں نے سوئی ہوئی مایا سے کہا۔

سب سے بڑی بات یہ تھی کہ اس دفعہ میلے پر جو لوگ آئے تھے ان میں ایسے آدمی بھی تھے جو کہ ننھے ننھے بچوں کو اغوا کر کے لے جاتے تھے۔ پڑوس کے ایک گاؤں میں دو ایک ایسی وارداتیں ہوئی تھیں اور اسی لیے میں نے بھولے کو اپنے پاس لٹا لیا۔ میں نے دیکھا بھولا جاگ رہا تھا۔ اس کے بعد میری آنکھ لگ گئی۔

تھوڑی دیر کے بعد جب میری آنکھ کھلی تو میں نے بتی کو دیوار پر نہ دیکھا۔ گھبرا کر ہاتھ پسارا تو میں نے دیکھا کہ بھولا بھی بستر پر نہ تھا۔ میں نے اندھوں کی طرح در و دیوار سے ٹکراتے اور ٹھوکریں کھاتے ہوئے تمام چار پائیوں پر دیکھا ، مایا کو جگایا گھر کا کونہ کونہ چھانا بھولا کہیں نہ تھا ۔۔۔ !

"مایا ہم لٹ گئے۔" میں نے اپنا سر پیٹتے ہوئے کہا۔

مایا ماں تھی۔ اس کا کلیجہ جس طرح شق ہوا یہ کوئی اسی سے پوچھے۔ اپنا سہاگ لٹنے پر اس نے اتنے بال نہ نوچے تھے جتنے کہ اس وقت نوچے۔ اس کا دل بیٹھا جا رہا تھا اور وہ دیوانوں کی طرح چیخنیں مار رہی تھی۔ پاس پڑوس کی عورتیں شور سن کر جمع ہو گئیں اور بھولے کی گمشدگی کی خبر سن کر رونے پیئے لگیں۔

        میں عورتوں سے زیادہ پیٹ رہا تھا۔ آج میں نے ایک بازی گر کو اپنے گھر کے اندر گھورتے بھی دیکھا تھا مگر میں نے پروا نہیں کی تھی ۔ آہ ! وہ وقت کہاں سے ہاتھ آئے میں نے دعائیں کیں کہ کسی وقت کا دیا کام آجائے منتیں مانیں کہ بھولا مل جائے ۔ وہی اندھیرے گھر کا اجالا تھا۔ اس کے دم سے میں اور مایا جیتے تھے ۔ اسی کے آس سے ہم آڑے پھرتے تھے ۔ وہی ہماری آنکھوں کی بینائی ، وہی ہمارے جسم کی توانائی تھا۔ اس کے بغیر ہم کچھ نہ تھے۔

میں نے گھوم کر دیکھا۔ مایا بے ہوش ہوگئی تھی ۔ اس کے ہاتھ اندر کی طرف مڑ گئے تھے نسیں کھنچی ہوئی اور آنکھیں پتھرائی ہوئی تھیں اور عورتیں اس کی ناک بند کر کے ایک چمچے سے اس کے دانت کھولنے کی کوشش کررہی تھیں۔

میں سچ کہتا ہوں ایک لمحے کے لیے میں بھولے کو بھی بھول گیا۔ میرے پاؤں تلے کی زمین نکل گئی۔ ایک ساتھ گھر کے دو بشر جب دیکھتے دیکھتے ہاتھوں سے چلے جائیں تو اس وقت دل کی کیا کیفیت ہوتی ہے۔ میں نے لرزتے ہوئے ایشور کو برا بھلا کہا

کہ ان دکھوں کے دیکھنے سے پیشتر اس نے میری ہی جان کیوں نہ لے لی ۔ آہ ! مگر جس کی قضا آتی ہے اس کے سوا کسی اور کا بال تک بیکا نہیں ہوتا۔

قریب تھا کہ میں بھی مایا کی طرح گر پڑوں کہ مایا ہوش میں آ گئی۔ مجھے پہلے سے کچھ سہارا ملا ۔ میں نے دل میں کہا۔ ” میں ہی مایا کو سہارا دے سکتا ہوں اور اگر میں خود اس طرح حوصلہ چھوڑ دوں تو مایا کسی طرح نہیں بچ سکتی“ میں نے حواس جمع کرتے ہوئے کہا،

مایا بیٹی دیکھو ! مجھے یوں خانہ خراب مت کرو حوصلہ کرو۔ بچے اغوا ہوتے ہیں مگر آخرمل بھی جاتے ہیں ۔ بازی گر بچوں کو مارنے کے لیے نہیں لے جاتے ۔ پال کر بڑا کر کے کسی کام میں لانے کے لیے لے جاتے ہیں بھولا مل جائے گا۔"

ماں کے لیے یہ الفاظ بے معنی تھے۔ مجھے بھی اپنے اس طرح صبر کرنے پر گمان ہوا۔ گویا میں اس وجہ سے چپ ہو گیا ہوں کہ مجھے مایا کے مقابلے میں بھولے سے بہت کم پیار ہے مگر" نہیں"۔ میں نے کہا" آدمی کو ضرور کچھ حوصلہ دکھانا چاہیے۔"

اس وقت آدھی رات ادھرتی اور آدھی ادھر۔ جب ہمارا پڑوسی اس حادثے کی خبر تھانے میں پہنچانے کے لیے جو گاؤں سے دس کوس دور شہر میں تھا ، روانہ ہوا۔

باقی ہم سب ہاتھ ملتے ہوئے صبح کا انتظار کرنے لگے تا کہ دن نکلنے پر کچھ سجھائی دے۔

دفعتاً دروازہ کھلا اور ہم نے بھولے کے ماموں کو اندر آتے دیکھا۔ اس کی گود میں بھولا تھا۔ اس کے سر پر مٹھائی کی ٹوکریاں اور ایک ہاتھ میں بنتی تھی۔ ہمیں تو گویا دنیا کی تمام دولت مل گئی۔ مایا نے بھائی کو پانی پوچھا نہ خیریت اور اس کی گود سے بھولے کو چھین کر اسے چومنے لگی ۔ تمام اڑوس پڑوس نے مبارک باد دی ۔ بھولے کے ماموں نے کہا۔

مجھے کسی کام کی وجہ سے دیر ہوگئی تھی۔ دیر سے روانہ ہونے پر شب کی تاریکی میں میں اپنا راستہ گم کر بیٹھا تھا۔ یکا یک مجھے ایک جانب سے روشنی آتی دکھائی دی میں اس کی جانب بڑھا۔ اس خوفناک تاریکی میں پرس پور سے آنے والی سڑک پر بھولے کو بتی پکڑے

ہوئے کانٹوں میں الجھے ہوئے دیکھ کر میں ششدر رہ گیا۔ میں نے اس کے اس وقت وہاں ہونے کا سبب پوچھا تو اس نے جواب دیا"... کہ بابا جی نے آج دوپہر کے وقت مجھے کہانی سنائی تھی اور کہا تھا کہ دن کے وقت کہانی سنانے سے مسافر راستہ بھول جاتے ہیں تم دیر تک نہ آئے تو میں نے یہی جانا کہ تم راستہ بھول گئے ہو گے اور بابا نے کہا تھا اگر کوئی مسافر راستہ بھول گیا تو تم ذمہ دار ہو گے نا.... !!

راجندر سنگھ بیدی

(1915 - 1984)

راجندر سنگھ بیدی تحصیل ڈسکا ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد لاہور آگئے۔ 1932 میں طالب علمی کے زمانے میں انگریزی، اردو اور پنجابی میں نظمیں اور کہانیاں لکھنے لگے تھے۔ کچھ مدت بعد پوسٹ آفس لاہور میں کلرک ہو گئے ۔ 1943 میں ڈاک خانے کی ملازمت سے مستعفی ہو کر مرکزی حکومت کے پبلسٹی ڈپارٹمنٹ میں کام کیا اور اس کے بعد آل انڈیا ریڈیو میں بحیثیت اسٹاف آرٹسٹ کام کرنے لگے۔ 1948 میں جموں ریڈیو اسٹیشن کے ڈائرکٹر بنائے گئے لیکن ایک ہی سال میں استعفی دے کر بمبئی چلے گئے اور فلموں کے لیے لکھنے لگے۔ ان کے افسانوں کے چھے مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ دانہ و دام (1965)" گرہن“ (1942) آزادی سے پہلے شائع ہو چکے تھے۔ کوکھ جلی (1949)، "اپنے دکھ مجھے دے دو" (1965)، "ہاتھ ہمارے قلم ہوئے ‘‘(1974) اور مکتی بودھ" (1982) آزادی کے بعد منظر عام پر آئے۔ ڈراموں کے دو مجموعے ” بے جان چیزی‘‘ (1943) اور سات کھیل‘‘ (1946) شائع ہوئے۔ راجندر سنگھ بیدی کا ناولٹ ایک چادر میلی سی (1962) ان کی تصانیف میں سب سے زیادہ مشہور ہوا۔ راجندر سنگھ بیدی نے کچھ  فلمیںں بھی بنائیں جن میں ’’ دستک‘‘ خاصی مشہور ہوئی۔ "مرزا غالب“، ’’دیوداس "، "مدھومتی" اور "انورادھا" میں بیدی کے مکا لمے بہت مشہور ہوئے۔

بیدی کے افسانوں میں ایک ہمدرد انسان کی نرمی اور دردمندی ہے۔ وہ ہر چیز کو گہری نظر سے دیکھتے ہیں ۔ بیدی نے اپنے افسانوں میں نئی تشبیہیں، نئے استعارے اور کنایے وضع کیے ہیں

غور کرنے کی بات

اس افسانے میں بھولا کی بھولی بھالی با تئیں، اس کی ذہانت اور شرارت اور پھر اچانک اس کا غائب ہو جا نا دلچسپ اور پر اثر انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ افسانے میں بھولا کے کردار کے ذریعے ایک بچے کی نفسیات بڑی خوبی کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔

اس زمانے میں بیوہ عورت کا سماج میں کوئی مقام نہیں تھا اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ جس عورت کا شوہر مر گیا ہو اسے دنیا میں جینے کا حقدار نہیں ۔ نہ تو وہ اچھا کھانا کھا سکتی ہے نہ نگین لباس پہن سکتی ہے۔ مصنف نے اس افسانے میں بوڑھے دادا کے ذریعے سماج کے اس رویے کی مخالفت کی ہے تا کہ بیوہ عورت کو سماج میں بہتر مقام حاصل ہو سکے۔

سوالوں کے جواب :

1. بھولا گیتا شوق سے کیوں سنتا تھا۔

2۔ دوپہر میں کہانی سننے کے باوجود بھولا کے چہرے پر خوشی کیوں نہیں نظر آ رہی تھی؟

3. ’’ عورت کا دل محبت کا سمندر ہوتا ہے۔ مصنف نے یہ بات کیوں کہی ہے؟

4. بھولا کہاں چلا گیا تھا اور کیوں؟

عملی کام :

بھولا کی واپسی کے منظر کو اپنے الفاظ میں بیان کیجیے۔

  اس سبق میں کچھ محاورے آئے ہیں جیسے نام روشن کرنا، آپ بھی ایسے چند محاورے تلاش کر کے لکھیے۔ افسانے میں کچھ ہندی کے الفاظ آئے ہیں انھیں لکھیے۔ افسانے کے آغاز میں راکھی باندھنے کا ذکر آیا ہے۔ اس تہوار کا کیا نام ہے اور اسے کیسے منایا جاتا ہے، اس پر ایک مختصر نوٹ لکھیے۔

 

Saturday, 14 November 2020

Sakhi By Kalam Haidari NCERT Class 10 Gulzar e Urdu

 سخی
کلام حیدری
میں زکر یا اسٹریٹ کے ایک گندے اور چھوٹے سے ہوٹل میں بیٹھا ہوں ۔ سامنے سیاہ رنگ کے ٹیبل پر چھوٹی سی چائے کی پیالی رکھی ہے جس میں تلخ قسم کی چائے پر بالائی پڑی ہوئی ہے۔ میرے ٹیبل کے سامنے ایک لمبا ساٹیبل ہے جس پر کئی دوسرے لوگ بیٹھے ہیں، ان میں سے ایک شخص کو میں پہچانتا ہوں۔ وہ جوشطرنجی ڈیزائن کی لنگی پہنے ہوا ہے اور جس کی گنجی بجائے بٹن کے فیتے سے بند ہونے والی ہے، میں اسے صرف اس وجہ سے پہچانتا ہوں کہ وہ مجھ سے مہینے میں ایک بارمنی آرڈر لکھواتا ہے۔ کبھی پیاس، کبھی چالیس اور کبھی سو بھی۔
یہ کہاں رہتا ہے، میں نہیں جانتا۔ یہ کیا کرتا ہے، یہ بھی میں نہیں جانتا۔ یہ منی آرڈر کہاں بھجواتا ہے صرف یہ میں جانتا ہوں ۔ بی بی سکینہ معرفت شرافت حسین، بیڑی دکان، پورنیہ۔
میں نے اب چائے کی پیالی اپنے ہونٹوں سے لگا لی ہے اور بالائی ہونٹوں سے الجھ رہی ہے۔ میں نے پھونک مار کر بالائی کو کچھ ہٹا دیا ہے ۔ اور تب پہلے گھونٹ کے ساتھ ایک میٹھی تلخ دھارحلق سے پیٹ میں اترتی ہوئی محسوس کر رہا ہوں ۔ میں نے پیالی واپس طشتری میں رکھ دی ہے۔
بی بی سکینہ کے بارے میں مجھے اتنا ضرور معلوم ہے کہ یہ اس شطرنجی ڈیزائن کی لنگی والے کی بیوی ہے اور یہ بھی جانتا ہوں کہ اس کا نام مولا ہے اور منی آرڈر لکھواتے وقت اپنا نام مولا بخش لکھواتا ہے۔ پہلے پہل جب میں نے اس سے منی آرڈر فارم پر لکھنے کے لیے اس کا پتہ پوچھا تو اس نے اپنا نام مولا بخش بتایا اور کہا: "معرفتی آپ اپنا ہی لکھ دیجیے۔"
چنانچہ میری معرفت روپیہ بھیجنے والے کے پتے سے بھی مجھے ناواقف ہی رہنا پڑا۔
میں نے چائے کی پیالی دو بار ہ اٹھا لی ہے اور بالائی کو غور سے دیکھ رہا ہوں جو چائے پینے میں حارج ہوگی۔ میں ایک لمبا گھونٹ لیتا ہوں اور بالائی تھوڑی سی چائے سمیت میرے منہ میں چلی جاتی ہے اور میں منھ چلانے لگتا ہوں۔
بی بی سکینہ کا شوہر پست قد کا گٹھا ہوا، سیاہی مائل آدمی ہے، جس کے کان کی لو تھوڑی سی کٹی ہوئی ہے اور گالوں کی دونوں جانب کی ہڈیاں باہر نکلی ہوئی ہیں۔ چہرہ بڑ ا اورمحنتی آدمی کا سا معلوم ہوتا ہے۔ سینہ چکلا اور گردن بھری بھری مگر اوسط درجے کی لمبی ہے ۔ آنکھوں میں چمک ہے مگر جیسے وہ دھندلاہٹوں میں ہو۔ داہنے ہاتھ کی شہادت والی انگلی کا ناخن نکیلا اور لمبا ہے۔
میں نے پیالی پھر ہاتھ میں لے لی ہے ۔ اور ہوٹل میں آنے والے دو افراد کو دیکھنے لگا ہوں جو دروازے کے پاس ہی رک گئے ہیں اور ہوٹل کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ایک کے سر پر دلی والوں جیسی ٹوپی ہے جو بے میل ہے اور دوسرا نگے سر ہے اور بال الجھے الجھے ہیں اور دونوں پھر اندر آجاتے ہیں۔
میں نے چائے کا تیسرا اور آخری گھونٹ لے کر پیالی تشتری پر رکھ دی ہے اور اسے میز کے ایک طرف کھسکا دیا ہے۔
ہوٹل کا ریڈیو چیخ چیخ کر فلمی گانے سنا رہا ہے۔ اچانک وہ زور سے کھڑ کھڑاتا ہے اور ہوٹل کا نوجوان مالک جو ٹھڈی ( ٹھوڑی) ہاتھوں پر رکھے کسی اردو اخبار کو جانے کب سے پڑھ رہا تھا، چونک کر ریڈیو کا بٹن گھمانے گاتا ہے۔ -
میں ان دونوں کو دیکھ رہا ہوں جو ابھی ابھی اس ہوٹل میں داخل ہو کر بیٹھے ہیں۔ دلی والوں کی ٹوپی پہنے ہوئے شخص نے اپنے ساتھی سے کچھ مشورے کرنے کے بعد دو شیر مال اور دو سیخ کباب کا آرڈر دے دیا ہے۔ ہوٹل کا لڑکا اس بڑے سے طاق نما سوراخ کے پاس کھڑا ہوا ہے جہاں سے ہوٹل کے باورچی خانے کا منظر دکھائی دیتا ہے۔
اور مولا بخش ایک کروٹ بیٹھے بیٹھے دوسرا پہلو بدل کر بیٹھ جاتا ہے اور باہر سے نظریں ہٹا کر وہ میری جانب دیکھنے لگتا ہے جیسے اسے میرے دیر تک بیٹھے رہنے پرتعجب ہو رہا ہے میں اس کی ٹولتی نگاہوں سے بچ کر پہلو بدلتا ہوں۔
اب میرے انتظار کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔ جس اخبار کے ایڈیٹر نے مجھ سے یہاں ملاقات کرنے کا وعدہ کیا تھا اس کے آنے کی امید تقریباً ختم ہو چکی ہے، اور ساتھ ہی ساتھ امید کی جس کرن کے سہارے میں نے تین روپے ساڑھے چودہ آنے میں پچھلے چار دن گزارے تھے وہ کرن اس ہوٹل میں جیسے گم ہوگئی ۔ اب تک وہ ایڈیٹر نہیں آیا۔ جس نے مجھے تر جمہ کا کام دینے کا وعدہ کیا تھا اور میں نے سوچا تھا کہ کام ٹھیک ہوتے ہی کچھ ایڈوانس مانگوں گا۔ جس سے زکر یا اسٹریٹ کے ایسے ہوٹلوں میں کم از کم چند دن کھپ سکوں۔
دلی والوں کی ٹوپی پہنے ہوئے شخص کے آگے ایک شیر مال رکھی ہوئی ہے، اوپر کا سرخی مائل حصہ بے حد اشتہا انگیز ہے اور کباب سے اٹھتا ہوا ہلکاہلکا دھواں میں آسانی سے دیکھ سکتا ہوں۔
وہ ایڈ یٹر ابھی تک نہیں آیا ہے۔ اور میں سوچ رہا ہوں کہ مولا بخش کی بیوی سکینہ کیسی ہوگی؟ اس کے کوئی بچہ ہے کہ نہیں ۔ اور اس وقت مجھے اچانک لگا کہ میں مولا بخش سے مخاطب ہو کر پوچھوں کہ اس کے کوئی بچہ ہے یا نہیں ۔ میں نے اس سوال کو مہمل اور بے موقع خیال کرتے ہوئے اپنے ذہن سے نکال دیا ہے۔
اب وہ دلی والوں کی ٹوپی پہنے شخص اور اس کا ساتھی آدھی سے زائد شیر مال کھا چکے ہیں اور سیخ کباب سے اٹھتے ہوئے دھوئیں کو اب میں نہیں دیکھ سکتا۔ شاید اب دھواں اٹھ بھی نہیں رہا ہے۔
وہ ایڈیٹر اب نہیں آئے گا۔ میں نے چار دن یوں ہی بے کار گنوا دیے۔ ورنہ ان چار دنوں میں دوڑ دھوپ کی جاسکتی تھی۔ کوئی ٹیوشن ہی تلاش کی جا سکتی تھی۔ مگر چار روز تک اس اطمینان سے بیٹھے رہنے کے بعد ابھی اچانک اس متوقع کام سے مایوسی پر اب آگے چلنے کی جیسے صلاحیت ہی نہ رہی ہو۔
سکینہ کی عمر بیس سال سے زیادہ نہ ہوگی اور بچہ بھی کوئی نہ ہوگا۔ یہ شرافت حسین کون ہوگا؟ اور تب میں سوچتا ہوں کہ یہ شرافت حسین مولا بخش کا رشتہ دار ہوگا۔ یا پھر دوست ہوسکتا ہے ۔ اور سکینہ..................... .
اب یہ کیا تک ہے کہ ایڈیٹر وعدہ کے خلاف اب تک نہیں آیا ہے اور مجھے سکینہ کی عمر کی پڑی ہے۔ شرافت حسین اور سکینہ کی رشتہ داری کی نوعیت کی فکر ہے۔ مولا بخش اور شرافت حسین کے تعلقات سے مجھے کیا تعلق ہے؟
اب وہ دونوں شیر مال کے بعد چائے بھی پی چکے ہیں اور کاؤنٹر پر ہوٹل کا نوجوان ما لک ان سے پیسے لے رہا ہے۔ اب تین بج رہے ہیں، گیارہ بجے سے تین بجے تک انتظار کے بعد نڈھال سا ہو رہا ہوں۔ یہ مولا بخش ہر ماہ کی 13 تاریخ کو منی آرڈر ضرور لکھواتا ہے۔ ایک دو روز آگے یا پیچھے مگر پوری پابندی سے لکھواتا ہے۔
اور میں سوچ رہا ہوں، سکینہ ضرور خوبصورت ہوگی ۔ اور یہ جو مولا بخش کی آنکھوں میں چمک ہے وہ اسی جوان محبت کی چمک ہے۔ اور جو یہ چمک کسی قدر دھندلاہٹوں میں ہے وہ فراق یار ہے۔
تین روپے ساڑھے چودہ آنے کے تقریباً جدا ہو جانے کے بعد ایڈیٹر نہیں آیا، تو اب کیا ہو گا سوچ رہا ہوں، یہ جو جیب میں اب فقط ساڑھے چھ آنے ہیں، اس میں سے چھ پیسے یعنی ڈیڑھ آنے بھی جدا ہونے والے ہیں۔
میں اس پیالی کو دیکھ رہا ہوں جسے میں کب کا خالی کر چکا ہوں مگر ہوٹل کے نوکر نے اسے ٹیبل سے نہیں اٹھایا ہے۔ یہی وہ پیالی ہے جو مجھے مزید ڈیڑھ آنے سے محروم کر دے گی اور میری جیب میں پانچ آنے رہ جائیں گے۔ اور کلکتہ شہر، اور یہ زکریا اسٹریٹ، اور یہ دلکشا ہوٹل ۔۔۔۔۔۔
دل سے مانتا ہوگا مولا بخش سکینہ کو جبھی تو ۔۔۔۔۔ اور اب مولا بخش اپنی جگہ سے اٹھ چکا ہے اور مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے وہ مجھے سے کچھ کہنا چاہتا ہے۔ اور اب وہ میرے قریب آ گیا ہے اور کہہ رہا ہے ہم کل آ ئیں گے جی۔۔۔۔۔۔ آپ رہیں گے نا؟“ میں اسے اثبات میں جواب دیتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ یہ کل منی آرڈر لکھائے گا اور کل صبح تک میری جیب میں پانچ آنے رہیں گے یا.........
میں اس وقت اپنی کوٹری کی ایک چوکی پر پڑا ہوں ۔ میرے سرہانے دو آنے پیسے تکیہ سے دبے پڑے ہیں۔ اور میں رات دیر تک جاگنے سے گرانی محسوس کر رہا ہوں۔
اس کلینڈر کی جانب دیکھ رہا ہوں جو ہوا سے پھڑ پھڑا رہا ہے جس میں ایک امریکن عورت جہاز کی سیڑھی پکڑے بڑے ہی قاتل انداز میں کھڑی ہے۔ امریکن کلینڈر ............... میں منہ ہاتھ دھو چکا ہوں، بھوک لگ رہی ہے۔ بڑی احتیاط سے میں تکیہ ہٹاتا ہوں اور دو آنے اٹھا کر جیب میں رکھ لیتا ہوں۔
میں سوچ رہا ہوں، ٹیوشن کی تلاش میں نکلنا بہتر ہوگا۔ کچھ سہارا ہو جائے۔ پھر اطمینان سے نوکری تلاش کروں گا۔ اور تب سوچتا ہوں کہ انگریزی کی جوڈکشنری پڑی ہے اسے بیچ کر کچھ پیسے حاصل کیے جا سکتے ہیں ۔ اس خیال سے تقویت محسوس کرتا ہوں۔
اور میرے سامنے حسین، بیڑی دوکان، پورنیہ، مولا بخش ............. ساٹھ روپے۔
اب میں منی آرڈر لکھ چکا ہوں اور مولا بخش کے ساتھ ہی ساتھ کوٹھری میں تالا بند کر کے سڑک پر آ گیا ہوں۔ اور مولا بخش مجھ سے کہہ رہا ہے کہ اسے آج مالک نے جلدی ہی بلایا ہے اس لیے وہ آج منی آرڈر نہیں بھیج سکے گا ۔ اور میں کچھ سوچ کر اس سے کہہ رہا ہوں کہ مجھے فرصت ہے وہ کہے تو میں منی آرڈر بھیج دوں۔
” آپ ؟“ وہ ہچکچاتا ہے مگر میں اسے ہمت دلاتا ہوں کہ آخر وہ بھی آدمی ہے۔ ایک کام ہی اس کا کر دوں گا تو کیا چھوٹا ہو جاؤں گا۔
مولا بخش جا چکا ہے اور میری جیب میں ساٹھ روپے ہیں، اور منی آرڈر فارم ہے۔ اور میں ٹیوشن کی تلاش میں جا رہا ہوں۔
ابھی شام ہوگئی ہے اور میں دل کشا ہوٹل میں نہیں ہوں، میں پارک سرکس میں ایک اوسط درجے کے ہوٹل میں بیٹھا ہوں، میری میز پر ابھی ابھی بیرے نے ایک شیر مال، قورمہ اور سیخ کباب لا کر رکھا ہے اور میں بغور اس شیر مال کو دیکھ رہا ہوں جو بہت ملائم، بے حد لذیذ اور خوبصورت نظر آ رہی ہے۔
میرے ذہن میں اس ایڈ یٹر کا خیال نہیں ہے جس نے مجھے ترجمہ کا کام دینے کا وعدہ کیا تھا اور گیارہ بجے سے تین بجے تک اس کا انتظار کرنے کے بعد بھی وہ نہیں آیا، اور اس وقت زیادہ سے زیادہ سات بجے ہیں ۔ اس ہوٹل میں رونق بڑھتی جا رہی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ اس ہوٹل تک میرے قدم کیسے آئے؟ کوئی ٹیوشن نہیں ملی، نوکری نہیں ملی۔ اور دفعتاً مجھے سکینہ کا خیال آتا ہے جس کے پاس اسی پابندی سے منی آرڈر بھیجا گیا ہے مگر جو اس کو نہیں ملے گا۔ ساٹھ روپے میری جیب میں پڑے ہیں۔ اور منی آرڈر فارم میں نے کراؤن سنیما کے سامنے پڑے ہوئے پیک کے گملے میں ٹکڑے ٹکڑے کر کے ڈال دیا ہے۔
میں شیر مال کھانے لگا اور مجھے خیال آیا ہے اگر میں مولا بخش سے بیس پچیس روپیے مانگ لیتا تو شاید وہ دے دیتا مگر مولا بخش کے سامنے دست سوال بڑھانے کے خیال سے مجھے بڑی ذلت محسوس ہورہی ہے۔
یہ کباب کتنا خوش ذائقہ ہے اور پیاز کے ان تراشوں کے ساتھ تو اس کا لطف ہی نرالا ہے ۔ میں ڈلہوزی اسکوائر کے ایک آفس سے نیچے اتر رہا ہوں ۔ پانچویں منزل سے اترتے اترتے پاؤں دکھنے لگے ہیں۔ اور ایسی کتنی ہی بلڈنگوں سے نامراد لوٹتے لوٹتے اب مجھے ایسا لگتا ہے جیسے نوکری نام کی کوئی چیز اس دنیا میں نہیں ہے۔
ٹرام کی گھنٹیاں بج رہی ہیں ۔ میں فٹ پاتھ پر کھڑا اپنی تھکن کو دور کر رہا ہوں ۔ میری جیب میں بائیس روپیے کچھ آنے ہیں اور سکینہ کومنی آڈر ابھی تک نہیں ملا ہے۔ بائیس روپیے کتنی بڑی طاقت کا مظہر ہیں۔ میں سوچتا ہوں ابھی کچھ روز اور بھی چکر کاٹ سکتا ہوں ۔ بائیس روپیے اب بھی میرے پاس ہیں۔
اب میں چلنے لگا ہوں اور رخ کو لوٹو لہ کی طرف کر دیا ہے۔ چلتے چلتے اس بلڈنگ تک آگیا ہوں جو جاپانی بمباری کی زد میں آئی تھی۔
میں وہاں پر آ گیا ہوں جہاں اردو رسالوں کی دوکان ہے اور میں اس سے آگے بڑھ گیا ہوں ۔ سکینہ کا خیال مجھے اس کوٹھی کا خیال دلاتا ہے جو تھیڑ روڈ پر ہے اور جہاں مجھے ٹیوشن کے لیے آج شام کو بلایا گیا ہے۔ کیا پتہ آج ٹیوشن مل ہی جائے ۔
یہ نا خدا مسجد ہے۔ وہی زکر یا اسٹریٹ کے دروازے کے باہر ایک لاش اسٹریچر پر پڑی ہوئی ہے اور ایک نوجوان آواز لگا رہا ہے۔ ایک غریب مرگیا ہے۔ کفن دفن کے لیے پیسے دے کر ثواب حاصل کیجیے ۔‘
میں قریب جاتا ہوں ۔ فیتے سے بند ہونے والی گنجی ایک کان کٹی ہوئی لو ۔
’’ مولا بخش ؟‘‘ میں ہلکے سے اس کا نام لیتا ہوں ، سکینہ کے پاس منی آرڈر پہنچنے سے پہلے یہ خدا کے یہاں پہنچ گیا۔
میں اس آواز لگانے والے نوجوان سے پوچھتا ہوں، یہ کیسے مرا؟‘‘ ’’ٹرک سے کچل کر نیچے کے دھڑ سے اس نے چادر ہٹا کر دکھایا۔ مجھے چکر آنے لگا ہے۔ یہ ناخدا مسجد ہے۔ مولا بخش ہے۔ جس کے کفن دفن کے لیے ایک آنے دو آنے راہ گیر چادر پر پھینکتے جارہے ہیں۔
میرا ہاتھ جیب میں جاتا ہے ۔ بائیس روپیے کچھ آنے اس چادر پر پھینک کر جلدی جلدی جانے لگتا ہوں، وہ نوجوان مجھے غور سے دیکھتا ہے۔
میں مڑ کر دیکھتا ہوں۔ وہ نو جوان مجھے اب بھی غور سے دیکھ رہا ہے۔
کلام حیدری
(1930-1994)
محمد کلام الحق حیدری ان کا پورا نام تھا ۔ کلام حیدری کی حیثیت سے مشہور ہوئے ۔ ان کی پیدائش مونگیر (بہار) میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم ایٹہ (اتر پردیش) میں حاصل کی ۔ رین کالج ، کلکتہ سے آئی۔ کام کا امتحان پاس کیا۔ رانچی کالج ، رانچی سے بی۔ اے اور پٹنہ یونیورسٹی سے ایم ۔ اے(اردو) کی ڈگریاں حاصل کیں۔ پورنیہ ڈگری کالج میں ملازمت کی ۔ انجمن ترقی اردو بہار کے جنرل سکریٹری اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے سرگرم رکن رہے۔ کلام حیدری نے ہفتہ وار مورچہ اور ماہنامہ' آہنگ' شہر گیا سے شائع کیا اور ان کی ادارت بھی کی۔
كلام حیدری کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ ' بے نام گلیاں' کے عنوان سے 1955 میں شائع ہوا۔ ان کے دوسرے افسانوی مجموعوں کے نام 'صفر', الف لام میم اور گولڈن جبلی ہیں ۔ 'برملا ' ان کے ادبی تبصروں کا مجموعہ ہے۔ ادب اور تصوف اور تفہیمات ان کی علمی کتابیں ہیں۔
خلاصہ:
خلاصه:- كلام حیدری کا افسانہ سخی ایک پڑھے لکھے مگر بے روزگارشخص کی زندگی کی ایک جھلک پیش کرتا ہے کہ انسان کی بنیادی ضرورتیں اس سے کیا کیا کراتی ہیں۔
شہر کلکتہ کی مشہور سڑک زکر یا اسٹریٹ کے ایک گندے اور چھوٹے ہوٹل میں کہانی کا ہیرو بیٹھا کسی ایڈیٹر کا انتظار کر رہا ہے جس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایسے ترجمے کا کام دے گا اور وہ اس سے کچھ ایڈوانس لے گا تاکہ وہ ز کر یا اسٹریٹ کے اسے ہوٹلوں میں دو وقت کچھ کھا سکے۔ اس کے سامنے ایک ٹیبل پر کئی لوگ بیٹھے ہیں، ان میں سے ایک کووہ پہچانتاہے، وہ مولا بخش ہے جو ہر ہفتے پابندی سے پورنیہ میں اپنی بیوی کو منی آرڈر بھیجتا ہے، کبھی پچاس روپے کی چالیس اور کبھی سو۔ یہ ایک مزدور ہے، جومحنت سے پیسا کماتا ہے، اس کے رہنے کی کوئی جگہ نہیں ، وہ منی آرڈر کہانی کے ہیرو کی معرفت بجھواتا ہے۔
آج ہیرو کی جیب میں ساڑھے چھ آنے ہیں اور کچھ دیر بعد پانچ آنے رہ جائیں گے۔ ڈیڑھ آنے چائے کی قیمت چلی جائے گی۔ اگلے روز ہیرو اپنی کوٹھری کی ایک چوکی پر پڑا ہے سرہانے دو آنے تکیے کے نیچے رکھے ہیں۔ بے روزگار ہیرو سوچتا ہے کہ ملازمت کرنے کے بجائے ٹیوشن کی تلاش کی جائے اور پیٹ بھرنے کیلئے اس کے پاس انگریزی کی جوڈکشنری ہے اسے بچکر کر کچھ پیسے حاصل کیے جائیں ۔ اسی اثنا میں مولا بخش وہاں آتا ہے اور ساٹھ روپے کا منی آرڈر کھواتا ہے، مولابخش کہتا ہے کہ آج اسے مالک نے جلدی بلایا ہے اسی لئے وہ منی آرڈرنہیں کر سکے گا ۔ ہیرو کچھ سوچ کر اس سے کہہ دیتا ہے کہ مجھے فرصت ہے وہ کہے تو وہ منی آرڈر بھیج دوں ۔ مولابخش ساٹھ روپے اور منی آرڈر فارم دے کر چلا گیا۔ اور ہیرو ٹیوشن تلاش کرنے نکالا ہے مگر شام ہوگئی ٹیوشن نہیں ملی۔ اب ہیرو زکر یا اسٹریٹ کے بجائے پارک سرکس میں ایک اوسط درجے کے ہوٹل میں بیٹھا شیر مال، قورمہ اور سیخ کباب کھا رہا ہے۔ اس کی جیب میں ساٹھ روپے ہیں، منی آرڈرکا فارم اس نے ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھینک دیا ہے۔ کھانا کھا کر ہیرو سڑک پر آتا ہے، اب اس کی جیب میں بائیس روپے کچھ آ نے ہیں۔
  اور سکینہ کومنی آرڈر ابھی تک نہیں بھیج ہے وہ چلتا ہوا زکریا اسٹریٹ کے دروازے کےباہر ناخدا مسجد کے سامنے ایک اسٹریچر پر پڑی ہوئی لاش کو دیکھتا ہے۔  نوجوان آواز لگا رہا ہے کہ ایک غریب مرگیا ہے کفن دفن کیلئے پیسے دے کر ثواب حاصل کیجئے۔ ہیروقریب جا کر دکھتا ہے تو وہ مولا بخش کی لاش ہے جو سکینہ کے پاس منی آرڈر بھیجنے سے پہلے ہی خدا کے یہاں پہنچ گیا۔ ہیرو اس نو جوان سے پوچھتا ہے کہ یہ کیسے مرا؟ اس نے بتایا ک ٹرک سے کچل کر مولابخش کے کفن دفن کیلئے ایک نے دو آنے راہ گیر چادر پر پھینکتے جارہے ہیں۔
ہیرو کا ہاتھ جیب میں جاتا ہے، بائیس روپے کچھ آنے اس چادر پر پھینک کر وہ جلدی جلدی جانے لگتا ہے۔ نوجوان اسے غور سے دیکھتا ہے کہ یہ کوئی سخی ہے جو اپنے پیسے دے رہا ہے۔
افسانے کا عنوان سخی اسلئے ہے کہ ہیرو نے منی آرڈر کی رقم کے بچے ہوئے پیسے ضرورت ہونے پر بھی مولا بخش کے کفن دفن کیلئے دے دیے۔ جبکہ یہ رقم مولا بخش ہی کی تھی۔
سوالوں کے جواب لکھیے:
1۔ افسانہ نگار ہوٹل میں کس کا منتظرتھا اور کیوں؟
جواب: افسانہ نگار ہوٹل میں بیٹھا ایک اخبار کے ایڈیٹر کا انتظار کر رہا تھا جس نے اسے ترجمے کا کام دینے کا وعدہ کیا تھا۔ وہ اس امید پر اس کا منتظر تھا کہ اگر اسے ترجمے کا کام مل گیا تو وہ اس ایڈیٹر سے کچھ ایڈوانس مانگے گا تاکہ وہ زکریا اسٹریٹ کے کسی ہوٹل میں کچھ دن گزارا کر سکے۔
2- اس کہانی میں زندگی کی کون سی سچائی بیان کی گئی ہے؟
جواب:  اس کہانی کے مطابق زندگی کی سچائی پیسہ کو بتایا گیا ہے۔ کیونکہ پیسے کے بغیرانسان کوئی کام  نہیں کر سکتا۔ پیسہ نہ ہونے پر آدمی بھیک مانگتا ہے، چوری کرتا ہے، ڈاکے ڈالتا ہے ، اور دیگر غلط کاموں میں ملوث ہوتا ہے تاکہ  دو وقت کی روٹی کا انتظام کر سکے  اور زندگی کی دوسری ضرورتیں پوری کر سکے۔
3۔ مولا بخش کے کردار پر روشنی ڈالیے۔
جواب: مولا بخش ایک محنتی شخص ہے جو مزدوری کرتا ہے اور اپنی محنت سے جو کچھ بھی کماتا ہے اُن میں سے ہر ماہ کی 13 تاریخ یا اس کے آس پاس 50،40 یا 30 روپے جو بھی میسر ہو اپنی بیوی سکینہ کو اپنے گھر پورنیہ بھیج دیتا ہے۔ وہ ایک گٹھے ہوئے جسم کا مالک ہے ۔وہ پستہ قد اورسیاہی مائل ہے اور اس کے کان کی لوتھڑی کٹی ہوئی ہے۔ چہرہ بڑا ،گردن موٹی اور آنکھوں میں چمک ہے۔محنت سے جی نہیں چراتا اور اپنی بیوی سے سخت محبت کرتا ہے۔
4۔ اس کہانی کا عنوان سخی کیوں رکھا گیا ہے؟
جواب: اس کہانی کا عنوان سخی در اصل ایک گہرا طنز ہے یہ ایک مہذب سماج پر طمانچے کی مانند ہے۔ کہانی کا مصنف جو ایک بے روزگار شخص ہے ایک بڑے شہر میں ملازمت کی تلاش میں اس درجہ پریشان اور بے بس ہو جاتا ہے کہ اسے ایمانداری اور بے ایمانی میں فرق سمجط نہیں ہوتا۔ وہ اس کہانی کے مرکزی کردار جو کہ ایک مزدور ہے اس کے 60 روپے ہتھیا لینے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتا۔ مولا بخش جو ہر ماہ کی 13 تاریخ کو پابندی سے پیسے بھیجتا ہے 60 روپے لے کر مولا بخش کے پاس آتا ہے اور اسے بتاتا ہے کہ وہ کچھ مجبوریوں کے باعث اپنی بیوی کو منی آرڈر نہیں لگا پا رہا ہے اور برسوں بعد پہلی بار ایسا ہوگا کہ وہ اپنی بیوی کو پیسہ اپنے وقت پر نہیں بھیج پارہا ہے۔ افسانہ نگار کی نیت میں فتور آجاتا ہے۔ وہ مولا بخش سے وعدہ کر لیتا ہےکہ وہاس کا منی آرڈر لگا دے گا۔ مولا بخش اسے منی آرڈر اور پیسے دے کر چلا جاتا ہے۔ افسانہ نگار پیسے لے کر اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے نکل پڑتا ہے۔ وہ ایک ہوٹل میں بیٹھ کر خوب مزے اڑاتا ہے۔ ہوٹل میں وہ قورمہ، شیر مال اور کباب کے مزے لیتا ہے جن کی خشبو نے اسے کئی دن سے دیوانہ بنا رکھا تھا۔ وہ ہوٹل سے باہر نکلتا ہے اور منی آرڈر کو پھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔ اب اس کے پاس 22 روپے بچے ہوئے ہیں۔ جب وہ ناخدا مسجد کے پاس پہنچتا ہے تو وہاں ایک شخص آواز لگا رہا ہوتا ہے کہ یہاں ایک لاش پڑی ہے اس کے کفن دفن کے لیے کچھ پیسے دیتے جأؤ۔ وہ قریا جاتا ہے۔اسے لاش کے کان کی کٹی ہوئی لو دکھ جاتی ہے اس کے منہ سے بے ساختہ مولا بخش نکل جاتا ہے۔ لوگ لاش کے پاس 5،10 پیسے ڈال کر جا رہے تھے۔ وہ اپنی جیب میں مولا بخش کے باقی بچے 22 روپے اس کی لاش پر ڈال کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ وہاں بیٹھا نوجوان اسے دور تک دیکھتا رہتا ہے کہ یہ کون ہے۔ یہ اس کہانی کا کلائمکس ہے جس میں ایک گناہ گار کو لوگ دریا دل اور سخی سمجھتے ہیں۔

Mirza Chapati by Ashraf Saboohi NCERT Class 10 Gulzar e Urdu


مرزا چپاتی 
اشرف صبوحی

خدا بخشے مرزا چپاتی کو، نام لیتے ہی صورت آنکھوں کے سامنے آگئی ۔ گورا رنگ، بڑی بڑی ابلی ہوئی آنکھیں، لمبا قد شانوں پر سے ذراجھکا ہوا، چوڑا شفاف ماتھا، تیموری ڈاڑھی، چنگیزی ناک مغلئی ہاڑ ۔ لڑکپن تو قلعے کی در و دیوار نے دیکھا ہوگا۔ جوانی دیکھنے والے بھی ٹھنڈا سانس لینے کے سوا کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ڈھلتا وقت اور بڑھاپا ہمارے سامنے گزرا ہے۔ لٹے ہوئے عیش کی ایک تصویر تھے۔ رنگ روغن اتراہوامحمد شاہی کھلونا تھا جس کی کوئی قیمت نہ رہی تھی۔
کہتے ہیں کہ دلی کے آخری تاج دار ظفر کے بھانجے تھے۔ ضرور ہوں گے۔ پوتڑوں کی شاه زادگی ٹھیکروں میں دم توڑ رہی تھی ، لیکن مزاج میں رنگیلا پن وہی تھا۔ جلی ہوئی رسی کے سارے بل گن لو۔ جب تک جیے پرانی وضع کو لیے ہوئے جیے۔ مرتے مرتے نہ کبوتر بازی چھوٹی، نہ پتنگ بازی ۔ مرغےلڑائے یا بلبل، تیرا کی کا شغل رہا یا شعبدے بازی کا ۔ شطرنج کے بڑے ماہر تھے۔ غائب کھیلتے تھے۔ خدا جانے غدر میں یہ کیوں کر بچ گئے اور جیل کے سامنے والے خونی دروازے نے ان کے سر کی بھینٹ کیوں نہ قبول کی؟ انگریزی عمل داری ہوئی۔ بدامنی کا کوئی اندیشہ نہ رہا تو مراحم خسروانہ کی لہر اٹھی۔ خاندان شاہی کی پرورش کا خیال آیا پینشنیں مقرر ہوئیں ۔ مگر برائے نام ۔
لیکن صاحب عالم مرزا فخرالدین عرف مرزا فخر والملقب بہ مرزا چپاتی نے مردانہ وار زندگی گزاری۔ گھر بار جب کبھی ہوگا ، ہوگا۔ ہماری جب سے یاد اللہ ہوئی دم نقد ہی دیکھا۔ قلعے کی گود میں بازیوں کے سوا اور سیکھا ہی کیا تھا جو بگڑے وقت میں آبرو بناتا۔ اپنے والد رحیم الدین حیا سے ایک فقط شاعری ورثے میں ملی تھی، پڑھنا لکھنا آتا نہ تھا۔ پھر زبان تو تلی مگر حافظہ اس بلا کا تھا کہ سوسو بند کے مسدس از بر تھے۔ کیا مجال کہ کہیں سے کوئی مصرع بھول جائیں ۔ گویا گراموفون تھے، کوک دیا اور چلے۔ ایک دن کسی شخص نے مرزا صاحب کے سامنے یہ مصرع پڑھا
          سر عدو کا ہو نہیں سکتا میرے سر کا جواب
اور اس پر مصرع لگانے کی فرمائش کی ۔ مرزا صاحب نے اسی وقت بہترین مصرع لگا کر اس طرح ایک اعلا پایہ کا شعر بنادیا۔
          شہ نے عابد سے کہا بدلہ نہ لینا شمر   سے
          سرعدو کا ہونہیں سکتا میرے سر کا جواب
قلعہ مرحوم کے حالات اور موجودہ تہذیب پر ان کی نوکا جھونکی جتنی مزہ دیتی تھی، وہ میرا دل ہی جانتا ہے۔ کبھی کبھی وہ مجھے پتنگ بازی کے دنگلوں میں لے جاتے تھے۔ مرغ اور بلبلوں کی بالیاں بھی دکھائیں ۔ تیراکی کے میلوں میں بھی لے گئے۔ کبوتر بھی مجھے دکھا دکھا کر اڑائے۔ سب کچھ کیا، میں جہاں تھا وہیں رہا۔ ہر جگہ ان کا دماغ کھایا۔ انھیں بھی میری خاطر ایسی منظور تھی کہ بادل خواستہ یا ناخواستہ وہ سب کچھ مجھے بتاتے۔
ایک دن دوپہر کے کوئی دو بجے ہوں گے۔ برسات کا موسم تھا۔ کئی گھنٹے کی موسلا دھار بارش کے بعد ذرا بادل چھٹے تھے کہ حضرت معمول کے خلاف میرے پاس تشریف لائے۔ منہ بنا ہوا، آنکھیں ابلی ہوئی۔ چہرے سے غصہ ٹپک رہا تھا۔ میں نے کہا خدا خیر کرے۔ آج تو صاحب عالم کے تیور کچھ اور ہیں ۔ کئی منٹ تک خاموش بیٹھے رہے اور میں ان کا منہ تکتا رہا۔ ذرا سانس درست ہوا تو بولے ’’سید! اس پٹھانچے کا ٹڑ مغزاپن بھی دیکھا۔ بڑا افلاطون بنا پھرتا ہے۔ باوا تو جھک جھک کر مجرا کرتے کرتے مر گیا، یہ بابو بن کر بابو کی طرح دلتیاں جھاڑتا ہے۔ ہے شرط کہ چار جامہ کس دوں، ساری ٹرفش نکل جائے گی۔
میں : میں بالکل نہیں سمجھا۔ ہوا کیا؟ کون پٹھانچہ؟ مرزا : ایسے ننھے سمجھے ہی نہیں ۔ میاں! وہی کالے خاں کا لڑکا جو کچہری میں نوکر ہے۔
میں : منیر۔ کیا اس نے کچھ گستاخی کی؟
مرزا : گستاخی ! نہ ہوا ہمارا زمانہ، خاندان بھر کو کولھو میں پسوا دیتا۔
میں : بڑا نالائق ہے۔ کیا بات ہوئی؟
مرزا : ہوا یہ کہ میں کبوتروں کا دانہ لینے نکلا۔ گلی کے نکڑ پر بنیے کی دکان ہے۔ نالیوں میں دھائیں دھائیں پانی بہہ رہا تھا۔ ساری گلی میں کیچڑ ہی کیچڑ تھی۔ محلے والوں نے جا بجا پتھر رکھ دیے تھے کہ آنے جانے والے ان پر پائو (پاؤں) رکھ کر گزر جائیں۔ دیکھتا کیا ہوں وہ اکڑے خاں بیچ گلی میں کھڑے ہوئے ایک خوانچے والے سے جھک جھک کر رہے ہیں ۔ گلی تنگ، کیچڑ اور پانی ۔ پتھروں پر ان کا قبضہ۔ کوئی بھلا اس پر گزرے تو کہاں سے؟ میں نے کہا کہ میاں راستہ چھوڑ کر کھڑے ہو۔ یہ کون سی انسانیت ہے کہ سارا راستہ روک رکھا ہے۔ ٹرا کر جواب دیا کہ چلے جاؤ۔ مجھے تاؤ آ گیا۔ بولا کہ تمھارے سر پر سے جاؤں ۔ بس پھر کیا تھا جامے سے باہر نکل پڑا۔ وہ تو پاس پڑوس کے دو چار آدمی نکل آئے اور بیچ بچاؤ
کرا دیا ورنہ آج یا وہ نہیں تھایا میں ۔ خیر جاتا کہاں ہے۔ آج کے تھپے آج ہی نہیں جلا کرتے۔
میں : صاحب عالم ! آپ اپنی طرف دیکھیے ۔ جوظرف میں ہوتا ہے وہی چھلکتا ہے۔ آنے دیجیے وہ ڈانٹ بتاؤں کہ ہاتھ جوڑتے۔
بنے......................... سنا ہے کہ قلعے کے آخری دور ہی میں شہر کی حالت بدل گئی تھی ۔ نہ چھوٹوں کا رکھ رکھاؤ رہا تھانہ بڑوں کا ادب ۔
مرزا : توبہ توبہ تم نے تو دلی کو دم توڑتے بھی نہیں دیکھا۔ اس کا مردہ دیکھا ہے۔ مردہ، وہ بھی لاوارث ! میاں شہر آبادی کی باتیں قلعے والوں کے صدقے میں تھیں۔ جیسے جیسے وہ اٹھتے گئے دلی میں اصلیت کا اندھیرا ہوتا گیا۔ اب تو نئی روشنی ہے نئی باتیں ۔ اور تو خدا بخشے دلی کی صفتیں تم کیا جانو۔ پڑھے لکھے ہو۔ شاعری کا بھی شوق ہے۔ بھلا بتاؤ تو سہی اردو کی کتنی قسمیں ہیں؟ میں نے حیران ہو کر پوچھا” صاحب عالم اردو کی قسمیں کیسی؟ یہ بھی ایک کہی ۔ مجھ پر بھی دائو کرنے لگے۔‘‘’ واہ بھئی معلوم ہوا کہ تم دلی والے نہیں کہیں باہر سے آ کر بس گئے ہو ۔" میں شرمندہ تھا کہ کیا جواب دوں ۔ میرے نزدیک تو صرف ایک ہی قسم کی اردوتھی ۔ زیادہ سے زیادہ عوام وخواص کا فرق سمجھ لو مگر یہ قسمیں کیا معنی؟ مجھے چپ دیکھ کر مرزا مسکرائے اور کہنے لگے" سید پریشان نہ ہو۔ مجھ سے سن اور یاد رکھ۔ بھولیو نہیں پھر پوچھے گا تو نہیں بتاؤں گا۔" میں بڑے شوق سے متوجہ ہوا اور انھوں نے انگرکھے کے دامن سے منہ پونچھ کر کہنا شروع کیا۔ دیکھ اول نمبر پرتو اردوئے معلیٰ ہے جس کو ماموں حضرت اور ان کے پاس اٹھنے بیٹھنے والے بولتے تھے۔ وہاں سے شہر میں آئی اور قدیم شرفا کے گھروں میں آچھپی ۔ دوسرا نمبر قل آعوذ اردو کا ہے جو مولویوں، واعظوں اور عالموں کا گلا گھوٹتی رہتی ہے۔ تیسرے خود رنگی اردو۔ یہ ماں ٹینی باپ کلنگ والوں نے رنگ برنگ کے بچے نکالے ہیں۔ اخبار اور رسالوں میں اسی قسم کی اردو ادب کا اچھوتا نمونہ کہلاتا ہے۔ چوتھے ہڑدنگی آردو، مسخروں اور آج کل کے قومی بلم ٹیروں کی منہ پھٹ زبان ہے۔ پانچویں لفنگی اردو ہے جسے آ کا بھائیوں کی لٹھ مار ، کڑاکے دار بولی کہو یا پہلوانوں، کرخنداروں، ضلع جگت کے ماہروں، پھبتی باز وں اور گلیروں کا روز مرہ ۔ چھٹے نمبر پر فرنگی اردو ہے جو تازہ ولایت انگیز ۔ ہندستانیوں عیسائی ٹوپ لگائے ہوئے کرانی، دفتر کے بابوں چھاونیوں کے سوداگر وغیرہ بولتے ہیں ۔ پھر ایک سربھنگی اردو ہے یعنی چرسیوں، بھنگڑوں، بے نواؤں اور تکیے داروں کی زبان ‘‘ میں نے کہا آج تو بہرہ کھلا ہوا ہے۔ بھئی خوب تقسیم ہے کیوں نہ ہو، آخر شاہ جہانی دیگ کی کھر چن ہے۔ میری طرف دیکھ کر ایک گہرا ٹھنڈا سانس بھرا۔ آنکھوں میں آنسو آ گئے اور کہنے لگے ”سید! ابھی تم نے کیا دیکھا ہے اور کیا سنا ہے۔ قلعہ آباد ہوتا، در بار دیکھے ہوتے تو اصلی زبان کا بناو سنگار نظر آتا۔ اب تو ہماری زبان بیسنی ہوگئی ہے۔ وہ لچیلی چونچلے کی باتیں، شریفوں کے انداز، امیروں کی آن، سپاہیوں کی اکڑفوں، وہ خادمانہ اور خور دانہ آداب وانکسار، شاعروں کے لچھے دار فقرے، شہروالوں کا میل جول، پرانے گھرانوں کے رسم و رواج، وہ مروت وہ آنکھ کا لحاظ کہاں؟ مجلسوں محفلوں کا رنگ بدل گیا، میلے ٹھیلے، پرانے کرتب، اگلے ہنرسب مٹتے جاتے ہیں ۔ اشراف گردی نے بھلے مانسوں کو گھر بیٹھا دیا۔ فیل نشین، پالکیوں میں بیٹھنے والے کھپر یلوں میں پڑے ہوئے ہیں ۔ مفلسی، ناداری نے رذالوں کے آگے سر جھکوا دیے۔ موری کی اینٹ چوبارے چڑھ گئی ۔ کم ظرفوں، ٹینیوں کے گھر میں دولت پھٹ پڑی۔ زمانہ جب کمینوں کی پشتی پر ہو تو خاندانیوں کی کون قدر کرتا؟ پیٹ کی مارنے صورتیں بگاڑ دیں، چال چلن میں فرق آ گیا۔ ہمت کے ساتھ حمیت بھی جاتی رہی۔
مرزا نے یہ تقریر کچھ ایسے عبرت خیز لفظوں میں کی کہ میرا دل بھر آیا اور میں نے گفتگو کا پہلو بدلنے کی کوشش کی۔
میں : کیوں حضت ، غدر سے پہلے دلی والوں کا لباس کیا تھا؟ دو چار پرانی وضع کے لوگ دیکھنے میں آئے ہیں ۔ ان کی برزخ توکچھ عجیب  ہی سی معلوم ہوتی تھی۔
مرزا : جھوٹے ہو تم نے کہاں دیکھا ہوگا۔ کوئی بہروپیا یا نقال نظر آ گیا ہوگا۔ میاں ان وقتوں میں ادنا اعلا میں یک رنگی نہ تھی.................... در باری اور بازاری لوگ لباس سے پہچانے جاتے تھے۔ عام طور پر اپنی شکل و شباہت، تن وتوش، جسامت اور پیشے کے مطابق کپڑا پہنا جاتا تھا کہ دور سے دیکھ کر پہچان لیں کہ کس خاندان کا اور کیسا آدمی ہے؟ اگر نوجوان ہے تو ایک ایک ٹانکے پر جوانی برستی ہے۔ بوڑھا ہے تو پیری اور سادگی ٹپکتی ہے۔ بانکوں کا بانک پن ، چھیلاؤں، ملاؤں کی ملائی ، پہلوانوں کی پہلوانی، رذالوں کی رذالت اور شریفوں کی شرافت لباس سے صاف بھانپ لی جاتی تھی ۔ چھوٹے آدمی جس پوشاک کو اختیار کر لیتے تھے، بھلے مانس چھوڑ دیتے تھے۔ دو پلڑی ٹوپیوں کا عام رواج تھا مگر چوگوشی، پچ گوشی، گول، مغلئی، تاج دار ٹوپیاں مغل بچے اور شریف زادے پہنتے تھے۔ قلعے کے آنے جانے والوں میں مندیلیں، بنارسی دوپٹے ، گولے دار پگڑیاں مسلمانوں کا حصہ تھا۔ درباری جامہ بھی پہنا کرتے تھے۔ أمرا چغہ سرپچ اور شہزادوں میں کلغیاں بھی مروج تھیں۔ ہندوؤں میں پہلے جامے کا زیادہ دستور تھا، پھر نیم جامہ اور الٹی چولی کے انگر کھے پہننے لگے۔ علاوہ ازیں الخالق، اچکن، قبا، عبا، جبہ ، چغہ، مرزی وغیرہ بھی استعمال ہوتے تھے۔ پایجامے یا تو تنگ موری کے یا اک برے یا غرارے دار ہوتے تھے۔ ڈاڑھی مونچھوں کی وضع بھی ہر خاندان اور ہر پیشہ ور کی علاحدہ کی۔
  میں : مگر یہاں والوں کو فضول کھیلوں، دولت کو لٹانے والی بازیوں اور بے کار مشغلوں کے سوا کام ہی نہ تھا۔ مرزا : تم کیا جانو کہ وہ بازیاں اور ان کے مشغلے کیسے کمال کے تھے۔ ویسے ہنر آج کوئی نہیں پیدا کر لیتا۔ زہرہ پھٹ جائے زہرہ۔ بات یہ ہے کہ ساری چیزیں وقت سے ہوتی ہیں ۔ نا مردوں کا زمانہ ہے تو نا مردوں کی سی باتیں بھی ہیں ۔ شریفوں کا شغل ڈنڑ، مگدر، با نک، بنوٹ پھکیتی ، اکنگ، تیراندازی، نیزہ بازی، پنجہ کشی تھا۔ کہ دو بے کار تھا۔ تیراکی کشتی شکرے اور بازکا شکار، پتنگ لڑانا، کبوتر بازی وغیرہ سے دل چسپی تھی ۔ کہہ دو یہ بھی فضولیات ہیں۔
میں : فضولیات نہیں تو اور کیا ہیں؟
مرزا : جی ہاں فضولیات ہیں ۔ خدا کے بندے ان ہی باتوں سے تو دلی دلی تھی ۔ ورنہ شاہجہاں کی بسائی ہوئی محمد شاہی دلی اور خورجہ بلند شہر میں کیا فرق ۔ پھکیت اور بنوٹییے ایسے ہوتے تھے کہ موقع پڑتا تو رومال میں صرف پیسا یا ٹھیکری با ندھ کر حریف کے سامنے آ جاتے اور دو جھکائیوں میں ہتھیار چھین لیتے۔ تیراکی کا یہ حال تھا کہ پالتی مارے ہوئے پانی پر بیٹھے ہیں جیسے مسند پر۔۔۔۔۔۔۔ دھواں اڑاتے اور ملہار سنتے چلے جاتے ہیں ۔ قلعے کی حمام والی نہر تو دیکھی ہوگی ۔ گز سواگز کا پاٹ ہے اور بالشت بھر سے زیادہ گہرائی نہیں ۔ اس میں آج کوئی مائی کا لال تیر کر دکھائے تو میں جانوں ۔ میر مچھلی تو خیر استاد تھے، ان کا سا کمال تو کسے میسر ہے۔ دو چار گز تو اتنے پانی میں تیر کر میں بھی دکھا سکتا ہوں۔
میں : اجی جناب آپ ریت پر تیر ہے ، حبابوں پر کھڑی لگایئے ،نتیجہ؟ کھیل ہی تو تھے۔ پھر یہ کبوتر بازی، پتنگ بازی ، مرغ بازی، مینڈھے بازی کیا بلا تھی؟ بچارے بے زبانوں کو لہولہان کرنا اور اپنا دل بہلانا کیا اچھے ہنر تھے۔
مرزا : ارے میاں ایرانی تورانی منچلے، دہم ہو کر کیا چوڑیاں پہن لیتے۔ جنگ و جدال کا خیال انسانی قربانیوں، ملک ستانیوں کے
چاو ، خون کی پچکاریوں سے ہولی کا وقت تو لد گیا تھا۔ نہ ان پر کوئی چڑھ کر آتا تھا نہ یہ کہیں چڑھائی کرتے تھے۔ انگریزی عمل داری کی برکت سے نکسیر یں بھی نہیں پھوٹتی تھیں ۔ وہ جانوروں کو ہی لڑا کر اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے تھے۔
میں کچھ اور کہنے والا تھا کہ مرزا نے ایک جھر جھری لی اور یہ کہتے ہوئے کہ بھئی غضب ہو گیا شام ہونے آئی ۔ کبوتر بھوکے میری جان کو رو رہے ہوں گے اور چوک کا وقت بھی آلگا ہے۔ لال بند کا جوڑ اگانا ہے، یہ جا وہ جا۔
ان باتوں کو کوئی ایک مہینا گزرا ہوگا کہ صبح ہی صبح مرزا صاحب چلے آتے ہیں ۔ آتے ہی فرمانے لگے " پرانی عید گاہ چلنا ہوگا ۔ میں نے کہا ” خیریت؟ بولے” لکھنؤ وں سے پینچ ہیں۔ جانوں ڈھیری یا مالوں ڈھیری۔ پانچ روپے ، پینچ ٹھہرا ہے، بڑا معرکہ ہوگا۔ میں نے عرض کیا ”صاحب عالم مجھے نہ تو پتنگ بازی سے کوئی دل چسپی ہے نہ میرے پاس اتنا فضول وقت ہے کہ آپ کے ساتھ واہی تباہی پھروں ۔‘‘ تاؤ کھا کر آنکھیں نکال لیں اور حاکمانہ انداز سے کہنے لگے تمھاری اور تمھارے وقت کی ایسی تیسی ۔ بس کہہ دیا کہ چلنا ہوگا ۔ دوپہر کو آؤں گا تیار رہنا ‘‘ میں بہت پریشان ہوا مگر کرتا کیا، دوستی تھی یا مزاق ۔ قہر درویش بجان درویش ۔ اپنی ساری ضرورتوں کو طاق پر رکھا اور حضرت مرزا چپاتی کا منتظر تھا کہ ٹھیک بارہ بجے آواز پڑی' سید آو‘۔ آگے آگے مرزا صاحب اور پیچھے پیچھے میں ۔ اجمیری دروازے سے نکل کر قبرستان لا نگتے پھالا نگتے پرانی عید گاہ پہنچے۔ وہاں دیکھا تو خاصا میلا لگا ہوا ہے۔ کبابی، کچالو والے، دہی بڑوں کی چاٹ، پان بیڑی، پانی پلانے والے سقے ، پوری خرافات موجود ہے۔ جا بجا پتنگ بازوں کی ٹکڑیاں بیٹھی ہیں۔ مرزا صاحب کو دیکھتے ہی "صاحب عالم ارھر،" مرزا صاحب ادھر ، "استاد پہلے میری سن لیجیے"
میاں ادھر آنے دو۔ بات سمجھتے ہیں نہ بات کی دم، اڑنے سے کام ”حضت آپ یہاں آئیے ۔ میر کنکیا آپ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں۔" چاروں طرف سے آوازیں پڑنے لگیں ۔ مرزا چو کنے ایک ایک کو جواب دیتے ، شامیانے کے نیچے جہاں میر کنکیا تشریف فرما تھے، پہنچے۔
میر کنکیا لکھنؤ کے واجد علی شاہی پتنگ باز تھے۔ کا کریزی رنگ، گول چہرہ، چھوٹی چھوٹی آنکھیں، بڑی ناک، دانتوں میں کھڑکیاں، سر پر کڑ بڑے پٹھے ۔ خشخاشی داڑھی، چھاتی کھلا ، سنجاف دار ڈھیلا ڈھالا انگرکھا، سر پر دو انگل کی کلابتو کے حاشیے کی ٹوپی، پاؤں میں مخملی گرگابی، گلے میں گلوری، اٹھ کر مرزا چپاتی سے بغل گیر ہوئے۔ پھر جو پتنگ بازی کا ذکر شروع ہوا تو تین بج گئے۔ میں بے وقوفوں کی طرح بیٹھا ہوا ایک ایک کا منہ تک رہا تھا۔ پتنگ بازی کی ہوتی تو ان کی اصطلاحیں سمجھ میں آتیں۔ آخر خدا خدا کر کے لوگ اپنی اپنی ٹکڑیوں میں گئے ۔ آسمان پر چیل کوے منڈلانے شروع ہوئے۔ میں مرزا صاحب کے ساتھ تھا۔ عید گاہ کی دیوار کے نیچے سے انھوں نے بھی اپنا اختر بختر کھول کر ایک انگارا ادھا اڑایا۔ ہچکا ایک لڑکے کے ہاتھ میں تھا۔ کوئی دس منٹ تک جھکایاں دیتے رہے، پینچ ہوا۔ کبھی آگے بڑھتے تھے کبھی پیچھے ہٹتے تھے۔ ایک دفعہ ہی چھلا کر لڑکے کو تمانچا رسید کیا اور بولے ابے ہچکا پکڑنے کی سرت بھی نہ تھی تو یہاں آن کیوں مرا آخر کٹوا دیانا‘‘
پر ایک الفن پڑھائی اور اب کے ہچکا پکڑنے کی خدمت مجھے انجام دینی پڑی۔ بدقسمتی سے یہ گڈی بھی کٹ گئی۔ بہت بگڑے کہ بس جب تم جیسے منحوس ساتھ ہوں تو ہم اڑا چکے ۔ غضب ہے سانولیا ہمیں استاد کہنے والا ، میر گولنداز ہمارے ہاں کے شاگرد، شیخ پیچک جیسے برابر پینچ  نکالے جاتے ہیں اور مرزافخرو اوپر نیچے دوکنکو ے کٹوائے ’’ سمیٹو میاں سمیٹو مجھے اپنی استادی تھوڑی گنوانی ہے۔" وہ کہتے رہے، میں تو وہاں سے ہٹ کر رومال بچھا کر الگ جا بیٹھا۔ تھوڑی دیر میں وہ بھی اپنا اسباب جہالت لنگی میں باندھے میرے پاس آ بیٹھے۔ تیوری پر بل تھے، چہرہ سرخ، آنکھیں ابلی ہوئی۔ میں نے کہا مرزا صاحب ہوا کا کھیل ہے۔ اس میں کسی کی کیا پیری۔ آپ کی استادی میں کہیں فرق آتا ہے ۔ سلطنت ہی جب ہتھے پر سے کٹ گئی تو ان دو کاغذ کے ٹکڑوں کا کیا غم ! آپ، آپ ہی ہیں ۔ کہنے لگے " سچ کہتے ہو میاں ۔ ہم قلعے والوں کی تقدیر ہی خراب ہے۔ ہوا بھی موافقت نہیں کرتی۔ میں نے ان کے بشرے سے ان کی دلی تکلیف کا اندازہ کرتے ہوئے اس ذکر کو موقوف کر دیا۔ اور پوچھا کیوں مرزا صاحب قلعہ جب آباد تھا اس وقت بھی پتنگ بازی کے ایسے ہی دنگل ہوتے تھے؟
مرزا : إک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے۔ اس وقت کا سماں کیوں کر دکھاؤں ۔ میاں ہر بات میں اک شان تھی، ایک قاعده تھا اور ہزاروں غریبوں کی روٹیوں کے سہارے۔ معمول تھا کہ عصر کا وقت ہوا اور سلیم گڑھ پر جمگھٹ لگا۔ بڑے بڑے پتنگ، دوتاوی اور سیہ تاوی تکلیں ، ڈور کی چرخیاں لے کر شاہی پتنگ باز پہنچ گئے ، خلوت کے امیر اور شوقین شہزادے مرزا نبو ، مرزا کدال، مرزا کالیٹن، مرزا چڑیا، مرزا جھر جھری بھی آ موجود ہوئے۔ یہ سلاطین زادے بہت منہ چڑھے تھے۔
میں : (بات کاٹ کر ) حضت یہ نام کیسے؟ کیا اسی بولی کا نام اردوے مععلی ہے؟
مرزا : کچھ پڑھا لکھا بھی، یا گھاس ہی کھودتے رہے ہو۔ ارے زبان کی ٹکسال قلعے ہی میں تو تھی وہاں محاورات نہ ڈھلتے تو کہاں ڈھلتے طبیعتیں ہر وقت حاضر رہتی تھیں۔ ہر بات میں جدت مد نظرتھی ۔ ہنسی مذاق میں جو منہ سے نکل گیا گویا سکہ ڈھل گیا کسی کے پھٹے پھٹے دیدے ہوئے مرزا بٹو کہہ دیا۔ لمبا چہرہ، چگی ڈاڑھی دیکھی ، مرزا چکایا مرزا کدال کہنے لگے ۔ چکلے چہرے والے پر چو پال کی اور ٹھنگنے پر گھٹنے کی پھبتی اڑا دی ۔ غرض کہ مرزا چیل، مرزا جھپٹ ، مرزا یا ہو، مرزا رنگیلے، مرزا رسیلے، بیسوں اسم با مسمی تھے ۔ میں جمعرات کو چپاتیاں اور حلوا با نٹا کرتا تھا، میرا نام مرزا چپاتی مشہور کر دیا۔
میں : لیجیے ہمیں آج تک مرزا چپاتی کی وجہ تسمیہ ہی معلوم نہ تھی ۔ یہ آپ کا خیر سے ٹکسالی نام ہے۔
مرزا : اب زیادہ نہ اتراو۔ قصہ سنتے ہو یا کوئی پھبتی سننے کو جی چاہتا ہے۔
میں : اچھا اب کان پکڑتا ہوں بیچ میں نہیں بولوں گا۔ فرمایئے ۔
مرزا : سب سامان لیس ہو گیا تو بڑے حضرت کی سواری آئی۔ دعا سلام مجرے کے بعد حکم لے کر دریا کی طرف پتنگ بڑھایا گیا۔
دوسری جانب سے معین الملک نظارت خاں بادشاہی ناظر کا، مرزا یاور بخت بہادر یا جس کے لیے پہلے سے ارشاد ہو چکا ہے، پتنگ اٹھا۔ ریتی میں سوار کھڑے ہو گئے ۔ پینچ لڑے، ڈھیلیں چلیں ۔ پتنگ یا تکلیں چھپکتی ہوئی چلی جاتی ہیں ۔ یا ہاتھ روک کر ڈور دی تو ڈوبتے آسمان سے جالگیں۔ پیٹا چھوڑ دیا، ڈور یں زمین تک لٹک آئیں، سواروں نے دوشاخے بانسوں پر لے لیں۔ پتنگ کٹا تو دریا کے وار پار ڈور پڑ گئی۔ ڈور یں لٹیں۔ پتنگ کے پیچھے پیچھے غول کے غول شاہدرہ تک نکل گئے ۔ جس نے وہ تکل با پتنگ لوٹی پانچ روپے کی مزدوری کی ۔ ڈور بھی بیس بیس تیس تیس رو پے سیر بک جاتی تھی۔ بادشاہ کبھی تو خالی سیر ہی دیکھتے رہتے۔ کبھی جی میں آتا تو تخت رواں سے اتر پڑتے۔ مچھلی کے چھلکوں کے دستانے پہن لیے۔ پتنگ ہاتھ میں لیا، ایک آدھ پینچ لڑایا اور ہنستے بولتے محل معلی میں داخل ہو گئے ۔ سید ! یہ بھی خبر ہے کہ وہ پتنگ یا تکلیں کتنی بڑی اور کیسی محنت سے بنائی ہوئی ہوتی تھیں تکلیں تو تمھارے پیدا ہونے سے پہلے مرچکیں ۔ خیر میں کبھی ان کی تصویر دکھاؤں گا۔ تو وہ قد آدم ہوتی تھی اور ایک ایک کی تیاری میں کئی کئی دن لگ جاتے تھے۔ ڈور یں بھی اک بلی، دو بلی، تبلی، چوبلی کنکوں اور تکلوں کے زور کے موافقت بنتی تھیں ۔ مانجھوں کے نسخے بھی ہر گھرانے کے الگ تھے۔ تکلیں تو تکلیں آج ویسے پتنگ بھی نہ بنتے ہیں نہ کسی میں اتنا بوتا ہوتا ہے کہ ان کی جھونک سنبھال سکے۔ چھوٹی تنخیں رہ گئی ہیں یا
بڑے نامی پتنگ بازوں کے ہاں ادھے ۔ وہ بھی کنکوے نہیں گڈیاں ہوتی ہیں ۔ لنڈوری بن پنچھلے کی۔
میں : بھئی واقعی لطف تو بڑا آتا ہوگا۔
مرزا : جہاں اپنی حکومت، گھر کی بادشاہت اور پرائی دولت ہوتی ہے، یہی رنگ ہوا کرتے ہیں ۔ عشرت گاہوں میں ہر وقت نماز یں نہیں پڑھی جاتیں ۔ مجاہدے اور مراقبے نہیں ہوتے ، یہ نہ اٹھائیں تو زندگی کی راحتیں کون اٹھائے ۔ دنیا میں ہمیشہ یہی ہوتا رہا ہے اور یہی ہوتا رہے گا۔ سلطنتوں کی بھی عمر یں ہوتی ہیں۔ جس طرح آدمی کوئی پیٹ میں، کوئی پیدا ہوتے ہی ، کوئی بچپن میں، کوئی جوان ہو کر، اور کوئی عمر طبعی طے کرنے کے بعد مرتا ہے، اسی طرح بادشاہتیں ہیں۔ کوئی ایک پشت چلتی ہے، کوئی دو پشت ۔ کسی کا سلسلہ سو پچاس ہی برس میں ٹوٹ جاتا ہے اور کسی کی عمارت صدیوں کی خبر لاتی ہے ۔ مغلوں نے چھ سو برس تخت کوسنبھالا ۔ آخر بڑھاپا تو سب ہی کو آتا ہے۔ ان کے کندھے بھی شل ہو گئے ۔ دنیا کا یہی کارخانہ ہے۔ آج اس کا ، تو کل اس کا زمانہ ہے۔ موت اور زوال بہانہ ڈھونڈتے ہیں ۔ ہمارے لیے عیش وعشرت ہی بہانہ ہوگئی۔
میں سمجھتا تھا کہ مرزا نرے شہزادے ہیں اور ان کی معلومات میں بازیوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ آج معلوم ہوا کہ قلعے والوں کا دماغ بگڑی میں بھی کتنا بنا ہوا تھا۔ میں نے کہا" مرزا صاحب ! یہ آپ نے کس فلسفی کا لکچر یاد کر لیا ہے۔ دو چار جملوں میں کیسے کیسے نکتے حل کر گئے ۔ " بولے ” پیارے ہمارے احوال پر نہ جاؤ۔ جان کر دیوانے بنے ہوئے ہیں۔ نہیں تو کیا نہیں جانتے کیا نہیں آتا
عالم میں اب تلک بھی مذکور ہے ہمارا
افسانہ۔   محبت۔   مشہور   ہے   ہمارا

اشرف صبوحی
(1905 - 1990)
سید ولی اشرف نام اور صبوحی تخلص، ادبی دنیا میں اشرف صبوحی کے نام سے مشہور ہوئے۔ 11 مئی 1905 کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ 1922 میں اینگلو عربک ہائی اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد ادیب کامل، منشی فاضل ، ایف اے اور بی اے کے امتحانات پرائیوٹ طور پر پنجاب یونیورسٹی لاہور سے پاس کر کے 1929 میں محکمہ ڈاک اور تار میں ملازم ہوئے۔
ابتدا میں بچوں کے لیے کہانیاں لکھیں۔ دہلی سے شائع ہونے والے ادبی رسالوں میں کئی مضامین شائع ہوئے۔ ایک ادبی ماہنامہ" ارمغان" بھی جاری کیا جو دو سال تک شائع ہوتا رہا۔ 1947 میں تقسیم ملک کے بعد لاہور (پاکستان) چلے گئے ۔ ان کا انتقال کراچی میں ہوا۔
اشرف صبوحی نے دہلی کے روز مرہ بامحاورہ ٹکسالی زبان میں ادبی مضامین اور افسانے لکھے اور تراجم بھی کیے۔’’دلی کی چند عجیب ہستیاں اور "غبار کارواں"ان کے خاکوں کے مجموعے ہیں۔’’ جھرو کے" افسانوں اور خاکوں کا مجموعہ ہے۔ ”سلمی‘‘ (بغدادکا جوہری)، بن باسی دیوی‘‘ ’’ دھوپ چھاؤں"، "ننگی دھرتی‘‘اور’’ موصل کے سوداگر انگریزی کے تراجم ہیں۔ ان کے علاوہ بیس سے زائد بچوں کی کہانیوں پرمشتمل کتابیں ہیں۔
خلاصہ:
اشرف صبوحی نے دہلی کے روز مرہ بامحاورہ اور ٹکسالی زبان میں دلی کی چند عجیب ہستیوں کے خاکے لکھے ہیں انہیں عجیب ہستیوں میں دلی کے آخر مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے بھانجے تھے۔ نام تو صاحب عالم مرزا فخر الدین عرف مرزا فخرو تھا لیکن مرزا چپاتی کے نام سے مشہور ہوئے۔ پرانی وضع کولئے ہوئے جیے، مرتے مرتے نہ کبوتر بازی چھوڑی نہ پتنگ بازی، مرغے لڑائے یا بلبل، تیرا کی کاشغل رہا۔ شعبدے بازی کا شطرنج کے بڑے ماہر تھے۔ پڑھنا لکھنا نہیں آتا البتہ والد رحیم الدین حیاسے شاعری ورثے میں ملی تھی ۔ حافظہ بلا کا تھا، سوسو بندوں کے مسدس زبانی یاد تھے۔
مصنف سے ان کے مراسم تھے، اور انہوں نے اشرف صبوی کو پتنگ بازی ۔ کی مقا بلے مرغ اور بلبلوں کی پالیاں، تیراکی کے میلے بھی دکھائے اور کبوتر بازی بھی۔ بادشاہت چھن گئی معمولی پنشن مقرر تھی مگر مزاج وہی شاہانہ تھا۔ ایک بار کسی لڑکے نے گستاخی کی تو برہم ہو گئے کہ ہمارا زمانہ نہیں ہوا ور نہ خاندان بھر کو کولہو میں پسوا دیتا۔
ایک روز مرزا چپاتی نے مصنف سے پوچھا، بھلا بتاؤ تو سہی اردو کی کتنی قسمیں ہیں۔ مصنف کے نزدیک تو صرف ایک ہی قسم کی اردو تھی ۔ زیادہ سے زیادہ عوام و خواص کا فرق سمجھ لو مگر یہ قسمیں کیا معنی ! مصنف کو خاموش دیکھ کر مرزا چپاتی نے بتانا شروع کیا کہ اول نمبر پر اردوئے معلٰی ہے جس کو ماموں حضرت (بہادر شاه ظفر) اور ان کے پاس اٹھنے بیٹھنے والے بولتے تھے۔ وہاں سے شہر میں آئی ۔ دوسرا نمبر قل آعوز اردو کا ہے جو مولوی ، واعظوں اور عالموں کا گلا گھونٹتی رہتی ہے تیسری خودرنگی اردو یہ ماں بیٹی باپ کلنگ والوں نے رنگ برنگ بچے نکالے۔ اخبار اور رسالوں میں اسی قسم کی اردو ادب کا اچھوتا نمونہ کہلاتا ہے۔ چوتھے ہڑدنگی اردو مسخروں اور آج کل کے قومی بلم ٹیڑوں کی منھ پھٹ زبان ہے۔ پانچویں فنگی اردو ہے جے آ کا بھائیوں کی لٹھ مارہ کڑاکے دار بولی کہو یا پہلوانوں، کرخنداروں ضلع جگت کے ماہر بولتے ہیں۔ چھٹے نمبر پر فرنگی اردو ہے جو ولایت سے نئے نئے آنے والے بولتے ہیں، پھر ایک سر بھنگی اردو ہے یعنی چرسیوں، بھنگڑوں، بے نواؤں اور تکیے داروں کی زبان۔
اسی طرح مرزا چپاتی دلی والوں کے لباس کا ذکر کرتے ہیں کہ درباری اور بازاری لوگ لباس سے پہچانے جاتے ہیں۔ عام طور پر اپنی شکل و شباہت تن وتوش، جسامت اور پیشے کے مطابق کپڑا پہنا جاتا تھا کے دور سے پہچان لیں کہ کس خاندان کا ہے اور کیسا آدمی ہے۔ اس طرح دو پلڑی ٹوپیوں کا عام رواج تھا۔ مگر چوگوشی پچ گوشی، گول، مغلئی، تاج دار ٹوپیاں، مغل بچے اور شریف زادے پہنتے تھے ہندؤں میں پہے جامے کا زیادہ دستور تھا، پھر نیم جامہ اور الٹی چولی کے انگر کھے پہننے لگے۔ داڑھی مونچھوں کی طبع بھی ہر خاندان اور ہر پیشہ ور کی علیحدہ تھی۔
مصنف اشرف صبوی نے مرزا چپاتی سے پوچھا کہ دلی والوں کو فضول کھیلوں، دولت کو لٹانے والی بازیوں اور بیکار مشغلوں کے سوا کام ہی نہ تھا۔ مرزا چپاتی نے جل کر کہا تم کیا جانو وہ بازیاں اور ان کے مشغلے کیسے ہوتے تھے۔ کمال کے ہوتے تھے۔ ویسے ہنر آج کوئی پیدا نہیں کر لیتا۔ بات یہ ہے کہ ساری چیزیں وقت کے ساتھ ہوتی ہیں۔ نامردوں کا زمانہ ہے تو نا مردوں کی سی باتیں بھی ہیں۔
مرزا چپاتی اسی طرح کی باتیں کیا کرتے تھے۔ ایک بار ان کا مقابلہ امیر کنکیا لکھنؤ کے واجدعلی شاه پتنگ بازسے ہوا تو انہوں نے پتنگ بازی ڈور اور مانجھے کی قسمیں بتا کر مصنف کو حیران کر دیا۔ مصنف نے پوچھا کہ ان سب بازیوں میں لطف تو بڑا آتا ہوگا مرزا چپاتی بولے، جہاں اپنی حکومت گھر کی بادشاہت اور پرائی دولت ہوتی ہے یہی رنگ ہوتے ہیں ۔ عشرت گاہوں میں نمازیں نہیں پڑھی جاتیں، مراقبے نہیں ہوتے ، دنیا میں ہمیشہ یہی ہوتا رہا ہے اور یہی ہوتا رہے گا۔ سلطنتوں کی بھی عمر یں ہوتی ہیں، کوئی ایک پشت چلتی ہے کوئی دو پشت، کسی کا سلسلہ سو پچاس برس ہی میں ٹوٹ جاتا ہے اور کسی کی عمارت صدیوں کی خبر لاتا ہے۔ مغلوں نے چھ سو برس تخت کوسنبھالا آخر بڑھاپا تو سب ہی کو آتا ہے موت اور زوال بہانہ ڈھونڈتے ہیں ۔ ہمارے لیے عیش وعشرت ہی بہانہ ہوگئی ۔ 

سوالوں کے جواب لکھے 
1۔ مرزا چپاتی کون تھے اور ان کا حلیہ کیا تھا؟
2۔ مرزا چپاتی نے اردو زبان کی جو قسمیں بتائیں ان کے نام اور خصوصیات لکھیے۔
3.  مرزا چپاتی نے کیوں کہا کہ " دنیا کا یہی کارخانہ ہے۔ آج اس کا ، تو کل اس کا زمانہ ہے۔‘‘
4۔ قلعے کی پتنگ بازی اور آج کی پتنگ بازی میں کیا فرق ہے؟
 

Guddi Ka Lal-Noor Khan by Maulwi Abdul Haq NCERT Class 10 Gulzar e Urdu

گدڑی کا لال نورخان

لوگ بادشاہوں اور امیروں کے قصیدے اور مرثیے لکھتے ہیں ۔ نامور اور مشہور لوگوں کے حالات قلم بند کرتے ہیں۔ میں ایک غریب سپاہی کا حال لکھتا ہوں اس خیال سے کہ شاید کوئی پڑھے اور سمجھے کہ دولت مندوں، امیروں اور بڑے لوگوں ہی کے حالات لکھنے اور پڑھنے کے قابل نہیں ہوتے بلکہ غریبوں میں بھی بہت سے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی زندگی ہمارے لیے سبق آموز ہوسکتی ہے۔ انسان کا بہترین مطالعہ انسان ہے اور انسان ہونے میں امیر غریب کا کوئی فرق نہیں ہے

پھول میں گر آن ہے کانٹے میں بھی ایک شان ہے

  نور خاں مرحوم کنٹنجنٹ کے اول رسالے میں سپاہی سے بھرتی ہوئے ۔ انگریزی افواج میں حیدرآباد کی کنٹنجنٹ خاص حیثیت اور امتیاز رکھتی تھی۔ ہر شخص اس میں بھرتی نہیں ہوسکتا تھا، بہت دیکھ بھال ہوتی تھی ۔ بعض اوقات نسب نامے تک دیکھے جاتے تھے تب کہیں جا کر ملازمت ملتی تھی ۔ کوشش یہ ہوتی تھی کہ صرف شرفا اس میں بھرتی کیے جائیں ۔ یہی و جہ تھی کہ کنٹنجنٹ والے عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ لیکن بعد میں یہ قید بھی اٹھ گئی اور اس میں اور انگریزوں کی دوسری فوجوں میں کوئی فرق نہ رہا۔ پہلے زمانے میں سپاہ گری بہت معزز پیشہ سمجھا جاتا تھا۔ اب اس میں اور دوسرے پیشوں میں کوئی فرق نہیں رہا۔ بات یہ ہے کہ اشراف کا سنبھالنا مشکل کام ہے۔ اس میں ایک آن بان اور خودداری ہوتی ہے جو بہادری اور انسانیت کا اصل جوہر ہے، ہر کوئی اس کی قدر نہیں کرسکتا۔ اس لیے شریف روتا اور ذلیل ہنستا ہے۔ یہ جتنا پھیلتا ہے وہ اتنا ہی سکڑتا ہے۔ کرنل نواب افرالملک بہادر بھی نور خاں مرحوم ہی کے رسالے کے ہیں ۔ کنٹنجنٹ کے بہت سے لوگ اکثر تو کرنل صاحب موصوف کے توسط سے اور بعض اور ذرائع سے حیدرآباد ریاست میں آ کر ملازم ہو گئے ۔ ان میں بہت سے نواب ، کرنل، میجر، کپتان اور بڑے بڑے عہدے دار ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کوئی نور خاں بھی ہے؟

اول رسالے کے بعض لوگوں سے معلوم ہوا کہ خان صاحب مرحوم فوج میں بھی بڑی آن بان سے رہے اور سچائی اور فرض شناسی میں مشہور تھے۔ یہ ڈرل انسٹرکٹر تھے یعنی گوروں کو جو نئے بھرتی ہو کر آتے تھے ڈرل سکھاتے تھے۔ اس لیے اکثر گورے افسروں سے واقف تھے۔ وہ بڑے شہسوار تھے۔ گھوڑے کو خوب پہچانتے تھے۔ بڑے بڑے سرکش گھوڑے جو پٹھے پر ہاتھ نہ دھرنے دیتے تھے، انھوں نے درست کیے۔ گھوڑے کے سدھانے اور پھیرنے میں انھیں کمال تھا۔ چوں کہ بدن کے چھریرے اور ہلکے پھلکے 

تھے، گھڑ دوڑوں میں گھوڑے دوڑاتے تھے اور اکثر شرطیں جیتے تھے۔ ان کے افسر ان کی مستعدی، خوش تدبیری اور سلیقے سے بہت خوش تھے لیکن کھرے پن سے وہ اکثر اوقات ناراض ہو جاتے تھے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ان کے کمانڈنگ افسر نے کسی بات پر خفا ہوکر جیسا کہ انگریزوں کا عام قاعدہ ہے انھیں 'ڈیم' کہہ دیا۔ یہ تو گالی تھی، خاں صاحب کسی کی ترچھی نظر کے بھی روادار نہ تھے۔ انھوں نے فوراً رپورٹ کر دی ۔ لوگوں نے چاہا کہ معاملہ رفع دفع ہوجائے اور آگے نہ بڑھے مگر خاں صاحب نے ایک نہ سنی۔ معاملے نے طول کھینچا اور جنرل صاحب کو لکھا گیا۔ کمانڈنگ افسر کا کورٹ مارشل ہوا اور اس سےکہا گیا کہ خان صاحب سے معافی ما نگے ۔ ہر چند اس نے بچنا چاہا مگر پیش نہ گئی اور مجبوراً اسے معافی مانگنی پڑی۔ ایسی خودداری اور نازک مزاجی پر ترقی کی توقع رکھنا عبث ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دفعداری سے آگے نہ بڑھے۔

اچھے برے ہر قوم میں ہوتے ہیں ۔ شریف افسر خاں صاحب کی سچائی ، دیانت اور جفاکشی کی بہت قدر کرتے تھے اور ان کو اپنی اردلی میں رکھتے تھے مگر بعض ایسے بھی تھے جن کے سر میں خناس سمایا ہوا تھا، انھیں خاں صاحب کے بہ ڈھنگ پسند نہ تھے اور

وہ ہمیشہ ان کے نقصان کے در پے رہتے تھے۔ ایسے لوگ اپنی اور اپنی قوم والوں کی خوداری کو تو جو ہر شرافت سمجھتے ہیں لیکن اگر یہی جو ہرکسی دیسی میں ہوتا ہے تو اسے غرور اور گستاخی پر محمول کرتے ہیں ۔ تاہم ان کے بعض انگریزی افسران پر بہت مہربان تھے۔ خاص کر کرنل فرن ٹین ان پر بڑی عنایت کرتے تھے اور خاں صاحب پر اس قدر اعتبار تھا کہ شاید کسی اور پر ہو۔ جب کرنل صاحب نے اپنی خدمت سے استعفا دیا تو اپنا تمام مال و اسباب اور سامان جو ہزارہا روپے کا تھا، خاں صاحب کے سپرد کر گئے ۔ یہ امر انگریز افسروں کو بہت ناگوار ہوا۔ اس وقت کے کمانڈنگ افسر سے نہ رہا گیا اور اس نے کرنل موصوف کو خط لکھا کہ آپ نے ہم پر اعتماد نہ کیا اور ایک دیسی دفعدار کو اپنا تمام قیمتی سامان حوالے کر گئے ۔ اگر آپ یہ سامان ہمارے سپرد کر جاتے تو اسے اچھے داموں میں فروخت کر کے قیمت آپ کے پاس بھیج دیتے۔ اب بھی اگر آپ لکھیں تو اس کا انتظام ہوسکتا ہے۔ کرنل نے جواب دیا کہ مجھے نورخان پرتمام انگریز افسروں سے زیادہ اعتماد ہے ، آپ کوزحمت کرنے کی ضرورت نہیں ۔ اس پر یہ لوگ اور برہم ہوئے۔

ایک بار کمانڈنگ افسر یہ سامان دیکھنے آیا اور کہنے لگا کہ فلاں فلاں چیز میم صاحب نے ہمارے ہاں سے منگائی تھی، چلتے

وقت واپس کرنی بھول گئے ، اب تم یہ سب چیزیں ہمارے بنگلے پر بھیج دو۔ خاں صاحب نے کہا میں ایک چیز بھی نہیں دوں گا، آپ کرنل صاحب کو لکھیے وہ اگر مجھے لکھیں گے تو مجھے دینے میں کچھ عذر نہ ہوگا۔ وہ اس جواب پر بہت بگڑا اور کہنے لگا تم ہمیں جھوٹا سمجھتے ہو؟ خاں صاحب نے کہا میں آپ کو جھوٹا نہیں سمجھتا، یہ سامان میرے پاس امانت ہے اور میں کسی کو اس میں سے ایک تنکا بھی دینے کا مجاز نہیں ۔ غرض وہ بڑ بڑاتا ہوا کھسیانا ہو کر چلا گیا۔ خاں صاحب نے ایک انگریزی محرر سے اس سامان کی مکمل فہرست تیار کرائی اور کچھ تو خود خرید کر کچھ نیلام کے ذریعے بیچ کر ساری رقم کرنل صاحب کو بھیج دی۔

نہ معلوم یہی کرنل تھا یا کوئی دوسرا افسر، جب ملازمت سے قطع تعلق کر کے جانے لگا تو اس نے ایک سونے کی گھڑی، ایک عمدہ بندوق اور پانسوروپے نقد خاں صاحب کو بطور انعام یاشکرانے کے دیے۔ خاں صاحب نے لینے سے انکار کیا کرنل اور اس کی بیوی نے بہتیرا اصرار کیا مگر انھوں نے سوائے ایک بندوق کے دوسری چیز نہ لی اور باقی سب چیز یں واپس کر دیں۔

کرنل اسٹوارٹ بھی جو ہنگو لی چھاؤنی کے افسر، کمانڈنگ افسر تھے، ان پر بہت مہربان تھے۔ رسالے کے شریف انگریز ان سے کہا کرتے تھے کہ ہمارے بعد انگریز افسرتم کو بہت نقصان پہنچائیں گے ۔ وہ ان کی روش سے خوش نہ تھے اور خوش کیوں کر ہوتے، خوشامد سے انھیں چڑ تھی اور غلامانہ اطاعت آتی نہیں تھی۔ ایک بار کا ذکر ہے کہ اپنے کرنل کے ہاں کھڑے تھے کہ ایک انگریز افسر گھوڑے پر سوار آیا، گھوڑے سے اتر کر اس نے خاں صاحب سے کہا کہ گھوڑا پکڑو ۔ انھوں نے کہا ” میں سائیں نہیں ہوں ۔ اس نے ایسا جواب کا ہے کو سنا تھا، بہت چیں بہ جببیں ہوامگر کیا کرتا، آخر باگ درخت کی ایک شاخ سے انکا کر اندر چلا گیا۔ اب نہ معلوم یہ خاں صاحب کی شرارت تھی یا اتفاق تھا کہ باگ شاخ میں سے نکل گئی اور گھوڑا بھاگ نکلا۔ اب جو صاحب باہر آئے تو گھوڑا ندارد۔ بہت جھنجھلایا، بڑی مشکل سے تلاش کر کے پکڑوایا تو جگہ جگہ سے زخمی پایا۔ اس نے کرنل صاحب سے خاں صاحب کی بہت شکایت کی۔ معلوم نہیں کرنل نے اس انگر یز کو کیا جواب دیا لیکن وہ خاں صاحب سے بہت خوش ہوا اور کہا کہ تم نے خوب کیا۔

خاں صاحب نے جب یہ رنگ دیکھا تو خیر اسی میں دیکھی کہ کسی طرح وظیفہ لے کر الگ ہو جائیں۔ وہ بیمار بن گئے اور ہسپتال میں رجوع ہوئے۔ کرنل اسٹوارٹ نے ڈاکٹر سے کہہ کر ان کو مدد دی اور اس طرح وہ کچھ دنوں بعد ڈاکٹر کی رپورٹ پر وظیفہ لے کر فوجی ملازمت سے سبک دوش ہوگئے ۔ سچ ہے انسان کی برائیاں ہی اس کی تباہی کا باعث نہیں ہوتیں بعض وقت اس کی خوبیاں بھی اسے لے ڈوبتی ہیں ۔

کرنل اسٹوارٹ نے بہت چاہا کہ وہ مسٹر ہنکن ناظم پولیس سے سفارش کر کے انھیں ایک اچھا عہده دلا دیں مگر خاں صاحب نے اسے قبول نہ کیا اور کہا کہ میں اب اپنے وطن دولت آباد ہی میں رہنا چاہتا ہوں ۔ اگر آپ صوبے دار صاحب اورنگ آباد سے سفارش فرما دیں تو بہت اچھا ہو ۔ کرنل صاحب بہت اصرار کرتے رہے کہ دیکھو میں پولیس میں بہت اچھی خدمت مل جائے گی انکار نہ کرو مگر یہ نہ مانے۔ آخر مجبور ہو کر نواب مقتدر جنگ بہادر صوبے دار صوبہ اورنگ آباد سے سفارش کی ۔ صوبے دار صاحب کی عنایت سے وہ قلعہ دولت آباد کی جمعیت کے جمعدار ہو گئے اور بہت خوش تھے۔

نواب مقتدر جنگ کے بعد نواب بشیر نواز جنگ اورنگ آباد کی صوبے داری پر آئے۔ وہ بھی خاں صاحب پر بہت مہربان تھے۔ اسی زمانے میں لارڈ کرزن وائسراے دولت آباد تشریف لائے ۔ خاں صاحب نے سلامی دینے کی تیاری کی کئی توپیں ساتھ ساتھ رکھ کر سلامی دینی شروع کی ۔ لارڈ کرزن گھڑی نکال کر دیکھ رہے تھے۔ جب سلامی ختم ہوئی تو نواب صاحب سے خاں صاحب کی تعریف کی ۔ سلامی ایسے قاعدے اور اندازے سے دی کہ ایک سیکنڈ کا فرق نہ ہونے پایا۔ نواب صاحب نے اس کا تذکرہ خاں صاحب سے کیا اور کہا کہ میاں اب تمھاری خیر نہیں معلوم ہوتی۔

لارڈ کرزن جب قلعہ کے اوپر بالا حصار پر گئے تو وہاں سستانے کے لیے کرسی پر بیٹھ گئے اور جیب سے سگرٹ دان نکال کر سگریٹ پینا چاہا۔ دیا سلائی نکال کر سگرٹ سلگایا ہی تھا کہ یہ فوجی سلام کر کے آگے بڑھا اور کہا کہ یہاں سگریٹ پینے کی اجازت نہیں ہے۔ لارڈ کرزن نے جلتا ہوا سگرٹ نیچے پھینک دیا اور جوتے سے رگڑ ڈالا۔ یہ حرکت دیکھ کر نواب بشیر نواز جنگ بہادر اور دوسرے عہدے داروں کا رنگ فق ہو گیا مگر موقع ایسا تھا کہ کچھ کہ نہیں سکتے تھے لہو کے سے گھونٹ پی کر چپ رہ گئے۔ بعد میں بہت کچھ لے دے کی مگر اب کیا ہوسکتا تھا۔ خاں صاحب نے قاعدے کی پوری پابندی کی تھی، اس میں چوں و چرا کی گنجائش نہ تھی۔

اب اسے اتفاق کہیے یا خاں صاحب کی تقدیر کہ لارڈ کرزن نے جانے کے بعد ہی فنانس کی معتمدی کے لیے مسٹر وا کر کا انتخاب کیا ۔ ریاست کے مالیے کی حالت اس زمانے میں بہت خراب تھی۔ مسٹر واکر نے اصلاحیں شروع کیں ۔ اس لپیٹ میں قلعہ دولت آباد بھی آ گیا، اوروں کے ساتھ خاں صاحب بھی تخفیف میں آگئے۔

دولت آباد میں ان کی کچھ زمین تھی، اس میں باغ لگانا شروع کردیا۔ مسٹر وا کر دورے پر دولت آباد آئے تو ایک روز ٹہلتے ٹہلتے ان کے باغ میں بھی آپہنچے۔ خاں صاحب بیٹھے گھاس کرپ رہے تھے ۔ مسٹر واکر کو آتے دیکھا تو اٹھ کر سلام کیا۔ پوچھا کیا حال ہے، کہنے لگے آپ کی جان و مال کو دعا دیتا ہوں ۔ اب آپ کی بدولت گھاس کھودنے کی نوبت آگئی ۔ مسٹر واکر نے کہا یہ اچھا کام ہے ۔ دیکھو تمھارے درخت انجیروں سے کیسے لدے ہوئے ہیں ۔ ایک ایک آنے کو بھی ایک ایک انجیر بیچو توکتنی آمدنی ہوجائے گی ۔ خاں صاحب گھبرائے کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ کم بخت انجیروں پر بھی ٹیکس لگا دے۔ تڑ سے جواب دیا کہ آپ نے انجیر لدے ہوئے تو دیکھ لیے اور یہ نہ دیکھا کہ کتے سڑ گل کر گر جاتے ہیں۔ کتنے آندھی ہواسے گر پڑتے ہیں، کتے پرند کھا جاتے ہیں اور پھر ہماری دن رات کی محنت مسٹرواکر مسکراتے ہوئے چلے گئے۔

اسی زمانے میں ڈاکٹر سید سراج الحسن صاحب اورنگ آباد کے صدر مہتمم تعلیمات ہوکر آئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب بلا کے مردم شناس ہیں ۔ تھوڑی ہی دیر میں اور چند ہی باتوں میں آدمی کو ایسا پرکھ لیتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ پھر جیسا وہ آدمی کو سمجھتے ہیں ویسا ہی نکلتا ہے۔ کبھی خطا ہوتے نہیں دیکھی۔ ڈاکٹر صاحب ایسے قابل جوہروں کی تلاش میں رہتے ہیں، فوراً ہی اپنے سایۂ عاطفت میں لے لیا۔ ڈاکٹر صاحب کا برتاؤ ان سے بہت شریفانہ اور دوستانہ تھا۔ نواب برز ور جنگ اس زمانے میں صوبے دار تھے ۔ مقبرے کا باغ ان کی نگرانی میں تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے سفارش کر کے باغ سے پانچ روپے ماہانہ الونس (الاؤنس) مقرر کر دیا۔

نواب برزور جنگ کے پاس ایک گھوڑا تھا، وہ اسے بیچنا چاہتے تھے ۔ کلب میں کہیں اس کا ذکر آیا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا مجھے گھوڑے کی ضرورت ہے۔ میں اسے خرید لوں گا مگر پہلے نورخاں کو دکھالوں ۔ وہاں سے آ کر ڈاکٹر صاحب نے خاں صاحب سے یہ واقعہ بیان کیا اور کہا کہ بھئی اس گھوڑے کو دیکھ آؤ کوئی عیب تو نہیں ۔ خاں صاحب نے کہا آپ نے غضب کیا میرا نام لے دیا۔ گھوڑے میں کوئی عیب ہوا تو میں چھپاؤں گا نہیں اور صوبے دار صاحب مفت میں مجھ سے ناراض ہو جائیں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا تم خواہ مخواہ و ہم کرتے ہو، کل جا کے ضرور گھوڑا د یکھ لو۔ خاں صاحب گئے ۔ گھوڑا نسل کا تو اچھا تھا مگر پانچوں شرعی عیب موجود تھے۔ انھوں نے صاف صاف آکے کہہ دیا اور ڈاکٹر صاحب نے خریدنے سے انکار کردیا۔ صوبے دار صاحب آگ بگولا ہوگئے ۔ دوسرے روز مقبرے میں آئے۔ باغ کا رجسٹر منگایا اور نور خاں کے نام پر اس زور سے قلم کھینچا کہ اگر لفظوں میں جان ہوتی تو وہ بلبلا اٹھتے ۔ ڈاکٹر صاحب کو معلوم ہوا تو بہت افسوس کیا مگر انھوں نے اس کی تلافی کر دی ۔ یہ سن کر صوبے دار صاحب اور بھی جھنجلائے۔

ڈاکٹر صاحب ترقی پاکر حیدر آباد چلے گئے ۔ ان کی خدمت کا دوسرا انتظام ہو گیا۔ کچھ دنوں بعد ڈاکٹر صاحب ناظم تعلیمات ہو گئے اور میں ان کی عنایت سے صدر مہتمم تعلیمات ہوکر اورنگ آباد آیا۔ ڈاکٹر صاحب ہی نے مجھے نورخان سے ملایا اور ان کی سفارش کی ۔ ڈاکٹر صاحب نے انھیں عارضی طور پر دولت آباد میں مدرس کر دیا تھا، میں نے عارضی طو پر اپنے دفتر میں محرر کردیا، وہ مدرسی اور محرری تو کیا کرتے مگر بہت سے مدرسوں اور محرروں سے زیادہ کارآمد تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے جب باغ کی نگرانی میرے حوالے کی تو خاں صاحب کا الونس بھی جاری ہو گیا۔

  اعلاحضرت واقدس بعد تخت نشینی اورنگ آباد رونق افروز ہوئے تو یہاں کی خوش آب و ہوا کو بہت پسند فرمایا اور عظیم الشان  باغ لگانے کا حکم دیا۔ یہ کام ڈاکٹر صاحب کے سپرد ہوا اور ان سے بہتر کوئی یہ کام کر بھی نہیں سکتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی مہربانی سے آخر اس باغ کے عملے میں خاں صاحب کو بھی ایک اچھی سی جگہ مل گئی جو ان کی طبیعت کے مناسب تھی اور آخر دم تک وہ اسی خدمت پر ہے۔ اور جب تک دم میں دم رہا، اپنے کام کو بڑی محنت اور دیانت سے کرتے رہے۔

   یوں محنت سے کام تو اور بھی کرتے ہیں لیکن خاں صاحب میں بعض ایسی خوبیاں تھیں جو بڑے بڑے لوگوں میں بھی نہیں ہوتیں ۔ سچائی بات کی اور معاملے کی ان کی سرشت میں تھی ۔ خواہ جان ہی پر کیوں نہ بن جائے وہ سچ کہنے سے کبھی نہیں چوکتے  تھے۔ اس میں انھیں نقصان بھی اٹھانے پڑے مگر وہ سچائی کی خاطر سب کچھ گوارا کر لیتے تھے ۔ مستعد ایسے تھے کہ اچھے اچھے جوان ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔ دن ہو، رات ہو، ہر وقت کام کرنے کے لیے تیار۔ اکثر دولت آباد سے پیدل آتے جاتے تھے۔ کسی کام کو کہے تو ایسی خوشی خوشی کرتے تھے کہ کوئی اپنا کام بھی اس قدر خوشی سے نہ کرتا ہوگا۔ دوستی کے بڑے پکے اور بڑے وضع دار تھے ۔ چونکہ ادنا اعلا سب ان کی عزت کرتے تھے اس لیے ان سے غریب دوستوں کے بہت سے کام نکلتے تھے ۔ ان کا گھر مہمان سرائے تھا۔ اورنگ آباد کے آنے جانے والے کھانے کے وقت بے تکلف ان کے گھر جاتے اور وہ اس سے بہت خوش ہوتے تھے۔ بعض لوگ جو مسافر بنگلے میں آ کر ٹھہر جاتے تھے ان کی بھی دعوت کر دیتے تھے ۔ بعض اوقات ٹولیوں کی ٹولیاں پہنچ جاتی تھیں اور وہ ان کی دعوتیں بڑی فیاضی سے کرتے تھے۔ اس قدر قلیل معاش ہونے پر ان کی یہ مہمان نوازی دیکھ کر حیرت ہوتی تھی۔ ان کی بیوی بھی ایسی نیک بخت تھی کہ دفعتاً مہمانوں کے پہنچ جانے سے کبیدہ خاطر نہ ہوتی تھی بلکہ خوشی خوشی کام کرتی اور کھلاتی تھی ۔ خوددار ایسے تھے کہ کسی سے ایک پیسے کا روادار نہ ہوتے تھے۔ ڈاکٹر سراج الحسن ہر چند طرح طرح سے ان کے ساتھ سلوک کرنا چاہتے تھے مگر وہ ٹال جاتے تھے۔ مجھ سے انھیں خاص أنس تھا۔ میں کوئی چیز دیتا تو کبھی انکار نہ کرتے بلکہ کبھی کبھی خود فرمائش کرتے تھے۔ مٹھاس کے بے حد شائق تھے۔ ان کا قول تھا کہ اگر کسی کو کھانے کو میٹھا ملے تو نمکین کیوں کھائے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ نمکین کھانا مجبوری سے کھاتا ہوں، مجھ میں اگر استطاعت ہو تو ہمیشہ مٹھاس ہی کھایا کروں اور نمکین کو ہاتھ نہ لگاؤں ۔ انھیں مٹھاس کھاتے دیکھ کر حیرت ہوتی تھی۔ اکثر جیب میں گڑ رکھتے تھے۔ ایک بار میرے ساتھ دعوت میں گئے قسم قسم کے تکلف کے کھانے تھے۔ خاں صاحب نے چھوٹتے ہی میٹھے پر ہاتھ ڈالا۔ ایک صاحب جو دعوت میں شریک تھے یہ خیال کر کے کہ خان صاحب کو دھوکا ہوا ہے کہنے لگے کہ حضرت یہ میٹھا ہے۔ مگر انھوں نے کچھ پروا نہ کی اور برابر کھاتے رہے۔ جب وہ ختم ہو گیا تو دوسرے میٹھے پر ہاتھ بڑھایا۔ ان صاحب نے پھرٹوکا کہ حضرت یہ میٹھا ہے، انھوں نے کچھ جواب نہ دیا اور اسے بھی ختم کر ڈالا۔ جب بھی وہ کسی دوست کے ہاں جاتے تو وہ انھیں ضرور میٹھا کھلاتے اور یہ خوش ہو کر کھاتے۔

  خان صاحب بہت زندہ دل تھے، چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی جسے دیکھ کر خوشی ہوتی تھی۔ وہ بچوں میں بچے، جوانوں میں جوان اور بوڑھوں میں بوڑھے تھے۔ غم اور فکر کو پاس نہ آنے دیتے تھے اور ہمیشہ خوش رہتے تھے اور دوسروں کو بھی خوش رکھتے تھے۔ ان سے ملنے اور باتیں کرنے سے غم غلط ہوتا تھا۔ آخر دم تک ان کی زندہ دلی ویسی ہی رہی۔

  ڈاکٹر سراج الحسن صاحب جب کبھی اورنگ آباد آتے تو اسٹیشن سے اترتے ہی اپنا روپیہ پیسہ سب ان کے حوالے کر دیتے اور سب خرچ انھیں کے ہاتھ سے ہوتا تھا۔ جانے سے پہلے ایک روز قبل وہ حساب لے کے بٹھتے بعض وقت جب بدہ نہ ملتی تو آدھی آدھی رات تک لیے بیٹھے رہتے تھے۔ ہر چند ڈاکٹر صاحب کہتے کہ خاں صاحب یہ تم کیا کرتے ہو، جو خرچ ہوا ہوا، باقی جو بچا وہ دے دیا یا زیادہ خرچ ہوا ہو تو لے لیا مگر وہ کہاں مانتے تھے، جب تک حساب ٹھیک نہ بیٹھتا انھیں اطمینان نہ ہوتا۔ چلتے وقت کہتے کہ لیجیے صاحب یہ آپ کا حساب ہے، اتنا خرچ ہوا اور اتنا بچا۔ یا کچھ زیادہ خرچ ہو جاتا تو کہتے کہ اتنے پیسے ہمارے خرچ ہوئے ہیں یہ ہمیں دلوائیے کبھی ایسا ہوا کہ انھیں کچھ شبہ ہوا تو جانے کے بعد پھر حساب لے کے بیٹھتے اور خط لکھ کر بھیجتے کہ اتنے آنے آپ کے رہ گئے تھے وہ بھیجے جاتے ہیں یا اتنے پیسے میرے زیادہ خرچ ہوگئے تھے وہ بھیج دیجیے گا۔ ڈاکٹر صاحب ان باتوں پر بہت جھنجھلاتے تھے مگر وہ اپنی وضع نہ چھوڑتے تھے۔

  وہ حساب کے کھرے، بات کے کھرے اور دل کے کھرے تھے۔ وہ مہر و وفا کے پتلے اور زندہ دلی کی تصویر تھے۔ ایسے نیک نفس، ہم درد، مرنج و مرنجان اور وضع دار لوگ کہاں ہوتے ہیں ۔ ان کے بڑھاپے پر جوانوں کو رشک آتا تھا اور ان کی مستعدی کو دیکھ کر دل میں امنگ پیدا ہوتی تھی۔ ان کی زندگی بے لوث تھی اور ان کی زندگی کا ہر لمحہ کسی نہ کسی کام میں صرف ہوتا تھا۔ مجھے وہ اکثر یاد آتے ہیں اور یہی حال ان کے دوسرے جاننے والوں اور دوستوں کا ہے۔ اور یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ وہ کیسا اچھا آدمی تھا۔ قومیں ایسے ہی لوگوں سے بنتی ہیں ۔ کاش ہم میں بہت سے نورخاں ہوتے !   

خاکہ

اصطلاحی معنی میں لفظ " خاکہ انگریزی لفظ اسکیچ (Sketch) کا ترجمہ ہے۔ خاکے سے مراد ایک ایسی نثری تحریر ہے جس میں کسی شخصیت کی منفرد اور نمایاں خصوصیات کو اس انداز سے بیان کیا جاتا ہے کہ اس کی مکمل تصویر آنکھوں کے سامنے آجائے ۔ اس کے لیے خاکہ لکھنے والے کا اس انسان کی شخصیت سے نہ صرف متاثر ہونا ضروری ہے بلکہ اس سے واقفیت اور قربت بھی لازمی ہے۔ خاکہ نگاری سوانح نگاری سے مختلف ہے۔ اس میں سوانح حیات کی طرح واقعات ترتیب وار نہیں لکھے جاتے اور نہ ہی تمام حالات و واقعات کا بیان کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ خاکہ نگاراسی شخصیت کا خاکہ لکھتا ہے جس سے وہ کسی نہ کسی طور پر متاثر ہوتا ہے لیکن اس کی تحریر سے مرعو بیت ظاہر نہیں ہونی چاہیے۔ اس کا بیان ایسا ہونا چاہیے کہ وہ غیر جانبدار نظر آئے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ خاکے میں شخصیت کی خوبیوں اور خامیوں دونوں کو بیان کیا جائے۔ جس طرح خوبیوں کا بیان مرعوبیت سے پاک ہونا چاہیے اسی طرح خامیوں کے بیان میں ذاتی دشمنی و عناد کا پہلو نہیں آنا چاہیے خامیوں کے بیان میں بھی اپنائیت کا احساس نمایاں ہونا چاہیے۔

مولوی عبدالحق

(1870-1961)

بابائے اردو مولوی عبد الحق مغربی اتر پردیش کے قصبہ ہاپوڑ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وطن ہی میں حاصل کی ۔ 1894 میں ایم۔ اے۔ او کالج علی گڑھ سے بی۔ اے پاس کیا۔ مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ انجمن ترقی اردو کے سکریٹری مقرر ہوئے اور زندگی بھر اردو زبان کی خدمت میں مصروف رہے۔ انجمن کی جانب سے ان کی ادارت میں سہ ماہی ادبی رسالہ " اردو " جاری ہوا۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں الہ آباد یونیورسٹی نے ایل ایل  - ڈی اور علی گڑھ یونیورسٹی نے ڈی لٹ کی اعزازی ڈگریاں دیں۔

مولوی عبدالحق محقق، سوانح نگار، خاکہ نگار، لغت نویس، ماہر قواعد اور صاحب طرز انشا پرداز تھے۔ زبان سادہ اور پر اثر لکھتے تھے۔ انھوں نے کئی کتابیں لکھیں اور مرتب کیں۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ دکن اور شمالی ہندوستان کے قدیم ادبی سرمائے کی بازیافت ہے۔ اس طرح بہت کی بیاضیں اور رسالے ضائع ہونے سے بچ گئے۔
ہندوستان اور پاکستان میں اردو زبان کی اشاعت کے سلسلے میں مولوی عبدالحق کی خدمات بے مثال ہیں۔
خلاصہ:
خلاصه:- مولوی عبدالحق نے نامور اور مشہور لوگوں کے حالات قلم بند کرنے کے بجائے ایک غریب سپاہی کا حال لکھا ہے۔ یہ نورمحمد خاں کنٹنجٹ کے اول رسالے میں سپاہی بھرتی ہوئے ۔ انگریزی افواج
حیدرآباد کی کنٹنجٹ خاص اور امتیازی حیثیت رکھتی تھی۔ بعض لوگوں کا بیان ہے کہ نور خاں نے فوج میں بڑی آن بان کے ساتھ ملازمت کی اور اپنی سچائی، فرض شناسی کے باعث مشہور ہوئے۔ ان کے افسر ان کی مستعدی اور سلیقے سے بہت خوش تھے لیکن کھرے پن سے وہ اکثر ناراض ہو جاتے تھے۔ اچھے برے ہرقوم میں ہوتے ہیں، افسروں میں بعض ایسے بھی تھے جن کے سر میں خناس سمایا ہوا تھا، انہیں خاں صاحب کے یہ ڈھنگ پسند نہ تھے اور وہ ہمیشہ ان کے نقصان کے درپے رہتے تھے، تاہم ان کے بعض انگریزی افسران ان پر بہت مہربان تھے، خاص کر کریل فرن مٹین ان پر بڑی عنایت کرتے تھے اور خاں صاحب پر اس قدر اعتبار تها کہ شاید کسی پرہو۔
کرنل اسٹوارٹ بھی ہنگو لی چھاؤنی کے افسر، کمانڈنگ افسر تھے، ان پر بہت مہربان تھے ، رسالے کے شریف انگریز ان سے کہا کرتے تھے کہ ہمارے بعد اور انگریز افسرتم کو بہت نقصان پہنچائیں گے اکثر انگریز افسران سے ایسا کام لینا چاہتے تھے جیسے ادنی غلام یاسائیس وغیرہ کا۔ خان صاحب نے جب یہ رنگ دیکھا تو خیر اسی میں دیکھی کہ کسی طرح وظیفہ لے کر الگ ہو جائیں۔ وہ بیمار بن گئے اور ہسپتال میں رجوع ہوئے۔ کریل اسٹوارٹ نے ڈاکٹر سے کہہ کر ان کو مدد دی اور وہ کچھ دنوں بعد ڈاکٹر کی رپورٹ پروظیفہ لے کر فوجی ملازمت
سے سبکدوش ہوگئے۔ کرنل اسٹوارٹ نے چاہا کہ وہ مسٹر نکن ، ناظم پولیس سے سفارش کر کے انہیں ایک اچھا عہدہ دلا دیں مگر خاں صاحب تیار نہ ہوئے ۔ نواب مقتدر جنگ بہادر صوبے دار اورنگ آباد نے انہیں قلعہ دولت آباد کی ریعیت کا جمعدار مقرر کر دیا تو خاں صاحب بہت خوش ہوئے۔
ایک بار لارڈ کرزن جب قلعہ کے اوپر بالاحصار پر گئے تو سستانے کیلئے کر سی پر بیٹھ گئے اور جیب سے سگریٹ نکال کر پینا چاہا۔ دیا سلائی نکال کر سگریٹ سلگایا ہی تھا کہ خاں صاحب فوجی سلام کر کے آگے بڑھے اور کہا کہ یہاں سگریٹ پینے کی اجازت نہیں ہے۔ لارڈ کرزن نے جلتا ہوا سگریٹ نیچے پھینک کر جوتے سے رگڑ ڈالا۔ یہ دیکھ کر دوسرے عہدے داروں کا رنگ فق ہو گیا۔ انہیں دنوں فنانس کی معتدی کیلئے مسٹر واکر آگئے۔ ریاست کے مالیے کی حالت اس زمانے میں بہت خراب تھی۔ مسٹر وا کرنے اصلاحیں شروع کیں تو اوروں کے ساتھ نور خاں صاحب بھی تخفیف میں آگئے ۔ چنانچہ ملازمت ختم ہونے کے بعد دولت آباد میں ان کی کچھ زمین تھی، اس میں باغ اگانا شروع کر دیا۔ اسی زمانے میں ڈاکٹر سید سراج الحسن صاحب اورنگ آباد کے صدر مہتمم  تعلیمات ہو کر آئے تھے وہ بلا کے مردم شناس تھے، انہوں نے نواب پر زور سے سفارش کر کےخاں صاحب کو باغ کا نگراں مقرر کر دیا۔ نواب برز ور جنگ کے پاس ایک گھوڑا تھا جسے وہ بیچنا چاہتے تھے، ڈاکٹر سراج الحسن  نے اسے خریدنا چاہا لیکن خاں صاحب کو گھوڑا دکھانے پر پتہ چلا کہ اس گھوڑے میں عیب ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے گھوڑا خریدنے سے انکار کر دیا۔ نواب بزرور جنگ نے طیش میں آ کر خاں صاحب کی ملازمت ختم کر دی۔
مولوی عبدالحق لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر سید سراج الحسن ترقی پاکر حیدرآباد چلے گئے، کچھ دنوں بعد ڈاکٹر صاحب نے مولوی صاحب کوصدر ۔مہتمم تعلیمات اورنگ آباد بنا دیا۔ اور نور محمد خاں سے انہیں عارضی طور پر دولت آباد ہی میں مدرس کر دیا تھا۔ مولوی صاحب نے انہیں عارضی طور پر اپنے دفتر میں محرر کر دیا۔ مگر خان صاحب کی دلچسپی کے سامان یہاں نہیں تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے مولوی صاحب کو باغ کی نگرانی سپرد کی تو نور خاں باغ کے عملے میں شامل ہو گئے اور جب تک دم میں دم رہا اپنے کام کو بڑی محنت اور دیانت داری سے کرتے رہے۔ یوں محنت سے تو اور بھی کام کرتے تھے لیکن خاں صاحب میں بعض ایسی خوبیاں تھیں جو بڑے بڑے لوگوں میں بھی نہیں ہوتیں۔ وہ سچ کہنے سے کبھی نہیں چوکتے تھے۔ خواہ اس میں انہیں نقصان بھی اٹھانا پڑے مگروہ سچائی کی خاطر سب کچھ گوارا کر لیتے تھے۔ بڑے وضعدار تھے،کم آمدنی میں فراخدلی سے مہمان نوازی
کرتے، کسی سے کچھ مدد قبول نہ کرتے۔ میٹھا کھانے کے بہت شوقین تھے ، نور خاں بہت زندہ دل تھے غم اور فکر کو پاس نہ آنے دیتے خود خوش رہتے دوسروں کو بھی خوش رکھتے۔
نور خاں صاحب بات کے اور دل کے کھرے تھے۔ ان کے بڑھاپے پر جوانوں کو رشک آتا تھا۔ اور ان کی مستعدی دیکھ کر امنگ پیدا ہوتی تھی۔ ان کی زندگی بے لوث تھی اور ان کی زندگی کا ہر لمحہ کسی نہ کسی کام میں صرف ہوتا تھا۔ قو میں ایسے ہی لوگوں سے بنتی ہیں۔ کاش ہم میں بہت سے نورخاں ہوتے!

  سوالوں کے جواب لکھے :

   1۔ مصنف نے نورخاں کو گدڑی کا لال کیوں کہا ہے؟

   2۔ نور خاں نے کمانڈرنگ آفیسر کی رپورٹ کیوں کی اور اس کا کیا اثر ہوا؟

   3. نورخاں کی فرض شناسی کے کسی ایک واقعے کو اپنے الفاظ میں بیان کیجیے۔

   4. ”قومیں ایسے ہی لوگوں سے بنتی ہیں“ اس جملے کی وضاحت کیجیے۔

 

خوش خبری