آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Sunday, 22 November 2020

Chori Aur Uska Kaffara by Syed Abid Hussain NCERT Class 10 Nawa e Urdu

چوری اور اس کا کفاره
مترجم : سید عابد حسین 
ہائی اسکول میں جن لڑکوں سے مجھ سے مختلف اوقات میں دوستی رہی ان میں سے دوقلبی دوست کہے جا سکتے ہیں ۔ ایک سے میری دوستی زیادہ دن نہیں رہی۔ میں نے اسے نہیں چھوڑا بلکہ اس نے مجھے چھوڑ دیا، اس قصور پر کہ میں نے دوسرے سے میل جول پیدا کیا۔ اس دوسری دوستی کو میں اپنی زندگی کا ایک الم ناک واقعہ سمجھتا ہوں ۔ یہ بہت دن قائم رہی۔ میں نے اسے اصلاح کے جوش میں شروع کیا تھا۔
میرا یہ رفیق اصل میں میرے منجھلے بھائی کا دوست تھا۔ یہ دونوں ہم سبق تھے۔ میں اس کی کمزوریوں سے واقف تھا، مگر اسے وفادار دوست سمجھتا تھا۔ میری ماں نے، میرے بڑے بھائی نے ، میری بیوی نے مجھے متنبہ کیا کہ تمھاری صحت خراب ہے۔ بیوی کی بات تو میں شوہر ی کے غرور میں کب سنتا تھا، لیکن ماں اور بڑے بھائی کی رائے کے خلاف عمل کرنے کی مجھ میں ہمت نہ تھی۔ پھر بھی میں نے ان سے عذر معذرت کی اور کہا میں جانتا ہوں کہ اس میں وہ کمزوریاں ہیں جو آپ نے بتائیں مگر آپ کو اس کی اچھائیوں کی خبر نہیں ۔ وہ مجھے گمراہ نہیں کرسکتا کیوں کہ میں اس سے اس نیت سے ملتا ہوں کہ اس کی اصلاح کروں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر وہ اپنے اطوار درست کرے تو بڑا اچھا آدمی ہو جائے گا۔ میری التجا ہے کہ آپ میری طرف سے تردد نہ کریں‘‘
اس سے ان کا اطمینان تو نہیں ہوا مگر انھوں نے میری توجیہہ مان لی اور مجھے میری راہ چلنے دیا۔ آگے چل کر مجھے معلوم ہوا کہ میرا اندازہ غلط تھا۔ جو شخص کسی کی اصلاح کرنا چاہتا ہے وہ اس کے ساتھ شیر وشکر ہو کر نہیں رہ سکتا۔ سچی دوستی روحانی اتحاد کا نام ہے جو اس دنیا میں بہت کم ہوتا ہے۔ صرف ان ہی لوگوں میں جن کی طبیعت ایک سی ہو، دوستی پوری طرح مکمل اور پائدار ہوسکتی ہے۔ دوستوں میں ہر ایک کا اثر دوسروں پر پڑتا ہے، اسی لیے دوستی میں اصلاح کی گنجائش بہت کم ہے۔ میری رائے میں کسی ایک شخص سے ایک جان دو قالب ہو جانے سے پرہیز کرنا چاہیے، کیوں کہ انسان پر بہ نسبت نیکی کے بدی کا اثر جلد پڑتا ہے اور جو شخص خدا کا دوست ہونا چاہتا ہے اسے لازم ہے کہ یا تو اکیلا رہے یا ساری دنیا سے دوستی کرے ممکن ہے کہ میری رائے غلط ہو مگر مجھے تو قلبی دوستی پیدا کرنے میں ناکامی ہوئی۔
جن دنوں میں میری ملاقات اس دوست سے ہوئی، راج کوٹ میں’ریفارم‘‘ کا بڑا زور تھا، اس نے مجھے بتایا کہ ہمارے بہت سے استاد چھپ کر شراب اور گوشت کا استعمال کرتے ہیں ۔ اس نے راج کوٹ کے بہت مشہور آدمیوں کے نام بھی لیے جو اس جماعت میں شریک تھے۔ اس نے کہا کہ اس زمرے میں ہائی اسکول کے بعض لڑکے بھی ہیں۔
مجھے یہ سن کر تعجب اور رنج ہوا۔ میں نے اپنے دوست سے اس کا سبب پوچھا تو اس نے کہا ” ہماری قوم گوشت نہیں کھاتی اس لیے کمزور ہے۔ انگریز لوگ گوشت کھاتے ہیں، اسی لیے وہ ہم پرحکومت کرنے کے قابل ہیں ۔ تم جانتے ہو میں کیسا مضبوط ہوں اور کتنا تیز دوڑتا ہوں ۔ اس کا سبب یہی ہے کہ میری غذا گوشت ہے۔ گوشت کھانے والوں کے پھوڑے پھنسی نہیں نکلتے اور بھی نکل بھی آئیں تو جلد اچھے ہو جاتے ہیں ۔ ہمارے استاد اور ہمارے دوسرے بڑے آدمی جو گوشت کھاتے ہیں، احمق نہیں ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اس میں کیا خوبیاں ہیں تمھیں بھی اس کی تقلید کرنا چاہیے۔ آخر آزمائش کرنے میں کیا حرج ہے ۔تم آزما کر دیکھو کہ گوشت کھانے سے کیسی طاقت آتی ہے۔
گوشت کھانے کی تائید میں یہ ساری دلیلیں ایک ہی نشست میں پیش نہیں کی گئیں۔ یہ اس طول طویل استدلال کا خلاصہ ہے جس سے میرا دوست مجھ پر وقتاً فوقتاً اثر ڈالتا رہا۔ میرے منجھلے بھائی پہلے ہی مغلوب ہو چکے تھے۔ اس لیے وہ میرے دوست کی دلیلوں کی تائید کرتے تھے۔ میں واقعی اپنے بھائی اور اس دوست کے مقابلے میں بالکل مریل معلوم ہوتا تھا۔ وہ مجھ سے زیادہ قوی اور جفاکش بھی تھے اور جری بھی۔ اس دوست کے کارناموں نے مجھ پر جادو سا کر دیا۔ وہ بہت دور تک اور بڑی تیزی سے دوڑ سکتا تھا، کود پھاند میں مشتاق اور سخت سے سخت جسمانی سزا برداشت کر لیتا تھا۔ وہ مجھے اکثر اپنے کارنامے دکھایا کرتا تھا اور یہ قاعدے کی بات ہے کہ انسان دوسروں میں وہ صفتیں دیکھ کر جو اس میں نہ ہوں، دنگ رہ جاتا ہے۔ اس کے بعد میرے دل میں ولولہ اٹھا کہ اس کے جیسا بنوں ۔ میں نہ کود سکتا تھا، نہ دوڑ سکتا تھا۔ میں نے سوچا کہ میں بھی اس کی طرح مضبوط کیوں نہ ہو جاؤں؟
پھر میں بزدل بھی تھا۔ مجھے ہر وقت چوروں، بھوتوں اور سانپوں کا کھٹکا رہتا تھا۔ رات کو گھر سے باہر قدم رکھنے کی ہمت نہ پڑتی تھی۔ اندھیرے سے میری روح فنا ہوتی تھی۔ میرے لیے اندھیرے میں سونا تقر یب ناممکن تھا، کیوں کہ مجھے وہم ہوتا تھا کہ ایک
طرف سے بھوت چلے آرہے ہیں، دوسری طرف سے چور ، تیسری طرف سے سانپ، بغیر کمرے میں روشنی رکھے مجھے سوتے نہ بنتا تھا۔ میں اپنے خوف کو اپنی کمسن بیوی پر کیوں کر ظاہر کرتا؟ میں جانتا تھا کہ ان میں مجھ سے زیادہ ہمت ہے اور مجھے اپنے اوپر شرم آتی تھی۔ انھیں سانپوں اور بھوتوں کا کوئی ڈر نہ تھا۔ وہ اندھیرے میں ہر جگہ چلی جاتی تھیں۔ میرے دوست کو میری ان کمزوریوں کا حال معلوم تھا۔ وہ کہتا تھا کہ میں زندہ سانپ ہاتھ پر رکھ سکتا ہوں ۔ چوروں کا مقابلہ کرسکتا ہوں اور بھوتوں کا قائل ہی نہیں ہوں ۔ یہ گوشت کھانے کی برکت ہے۔
ان سب باتوں کا مجھ پر کافی اثر پڑا۔ میں نے ہتھیار ڈال دیئے۔ مجھے رفتہ رفتہ یقین ہونے لگا کہ گوشت کھانا اچھا ہے اس سے مجھ میں قوت اور جرات پیدا ہو جائے گی اور اگر سارا ملک گوشت کھانے لگے تو انگریز مغلوب ہو جائیں گے۔
اب تجر بہ شروع کرنے کے لیے ایک دن مقرر ہوا۔ اسے پوشیدہ رکھنا بہت ضروری تھا۔ سارا گاندھی خاندان ویشنو تھا اور میرے والدین تو بڑے پکے ویشنو تھے ۔ وہ پابندی سے "حویلی‘‘ جایا کرتے تھے، بلکہ خود ہمارے خاندان کے جداگانہ مندر بھی تھے۔ جین مت کا گجرات میں بہت زور تھا اس کا اثر ہر وقت ہر جگہ نظر آتا تھا۔ گجرات کے جین اور ویشنو لوگوں کو گوشت کھانے سے جتنی سخت نفرت تھی اس کی مثال نہ ہندوستان میں ملتی ہے اور نہ کسی اور ملک میں میری ولادت اور پرورش اس ماحول میں ہوئی تھی اور مجھے اپنے والدین سے بڑی محبت تھی ۔ میں جانتا تھا کہ جس دم وہ میرے گوشت کھانے کی خبر سن پائیں گے، صدے کے مارے مر جائیں گے۔ سچائی کی محبت نے مجھے اور بھی زیادہ احتیاط پرمجبور کر دیا۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے اس وقت اس کا احساس نہ تھا کہ اگر میں نے گوشت کھانا شروع کر دیا تو والدین کو دھوکا دینا پڑے گا لیکن میں نے دل میں ٹھان لی کہ" ریفارم“ ضرور کروں گا۔ اس میں زبان کی چاٹ کو دخل نہ تھا۔ میں نے گوشت کے مزے کی کوئی خاص تعریف نہیں سنی تھی، مگر میں چاہتا تھا کہ میں قوی اور بہادر ہو جاؤں اور میرے دیس کے لوگ بھی ایسے ہی ہو جائیں تاکہ ہم انگریزوں کو شکست دیں اور ہندوستان کو آزاد کرالیں۔’ سوراج‘‘ کا لفظ میں نے اب تک نہیں سنا تھا، مگر آزادی کے معنی جانتا تھا۔ ریفارم‘‘ کے جوش نے مجھے اندھا کر دیا۔ میں نے اس بات کو مخفی رکھنے کا بندوبست کیا، اور اپنے دل کو سمجھا لیا کہ محض اس فعل کو والدین سے چھپانا حق سے انحراف نہیں ہے۔
آخر وہ دن آ گیا۔ اس وقت میرا جو حال تھا اسے پوری طرح بیان کرنا مشکل ہے۔ ایک طرف تو ’’ ریفارم‘‘ کا جوش اور زندگی میں ایک اہم تبدیلی کی جدت کا لطف تھا اور دوسری طرف اسی کام کو چوروں کی طرح چھپ کر کرنے کی شرم تھی ۔ میں نہیں کہہ سکتا دونوں میں سے کون سی چیز مجھ پر غالب تھی ۔ ہم نے دریا کے کنارے جا کر ایک گوشہء تنہائی ڈھونڈا اور میں نے اپنی عمر میں پہلی بار گوشت دیکھا۔ اس کے ساتھ تنوری روٹی بھی تھی۔ مجھے دونوں چیزوں میں سے کوئی چیز پسند نہ آئی ۔ بکری کا گوشت چھڑے کی طرح سخت تھا مجھ سے کسی طرح نہیں کھایا جاتا تھا۔ مجھے قے ہوگئی اور کھانا چھوڑ کر اٹھنا پڑا۔
اس کے بعد کی رات بڑی بری طرح گزری۔ مجھے بڑا ہولناک خواب نظر آیا۔ جب آنکھ لگتی تھی تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ زندہ بکری میرے پیٹ کے اندر ممیارہی ہے اور میں گھبرا کر اچھل پڑتا تھا۔ مگر میں اپنے دل کو سمجھاتا تھا کہ گوشت کا کھانا فرض ہے اور اس سے مجھے کچھ تسکین ہو جاتی تھی۔
میرا دوست آسانی سے ہار ماننے والا نہ تھا۔ اب عمدہ مسالے ڈال کر گوشت کے مزیدار کھانے پکانے لگا۔ کھانا کھانے کے لیے ہمیں ایک دریا کے کنارے سونی جگہ ڈھونڈنے کی ضرورت نہ تھی بلکہ ایک ریاست کے مکان میں کھاتے تھے جس میں کھانے کا علاحدہ کمرہ میز کرسی سے سجا ہوا تھا۔ میرے دوست نے وہاں کے بڑے باور چی سے ساز باز کر کے یہ انتظام کیا تھا۔
میں اس لالچ میں آ گیا۔ مجھے بوٹی سے کراہت تھی وہ دور ہوگئی ۔ بکری پر ترس آتا تھا وہ جاتا رہا اور اب گوشت کی بوٹی میں تو نہیں مگر سالن میں مزا آنے لگا۔ یہ سلسلہ قریب قریب ایک سال تک چلتا رہا، لیکن اس عرصہ میں گوشت کی دعوتیں سب مل کر چھے سے زیادہ نہیں ہوئیں، کیوں کہ ریاست کا مکان روز روز نہیں ملتا تھا اور پھر یہ دقت بھی تھی کہ مزیدار کھانوں میں اکثر صرفہ بہت ہوتا تھا۔ میرے پاس اس ریفارم کی قیمت ادا کرنے کے لیے دام نہ تھے اس لیے ہر مرتبہ خرچ کا انتظام میرے دوست ہی کو کرنا پڑتا تھا۔ مجھے کچھ خبر نہ تھی کہ وہ کہاں سے اتنا رو پیہ لاتا ہے مگر کسی نہ کسی طرح وہ لے ہی آتا تھا، کیوں کہ وہ اس پر تلا ہوا تھا کہ مجھے گوشت کھانے کا عادی کر دے۔ مگر آخر اس کی آمدنی بھی محدود ہی ہوگی، اس لیے بہت کم دعوتیں ہوسکیں اور وہ بھی طویل وقفوں کے بعد۔ جب کبھی میں یہ چوری کی دعوتیں اڑاتا تھا تو ظاہر ہے کہ گھر آ کر کھانا نہیں کھا سکتا تھا۔ میری والدہ قدرتی طور پر کھانے کے لیے اصرار کرتی تھیں اور خواہش نہ ہونے کا سبب پوچھتی تھیں۔ میں ان سے کہ دیتا تھا۔ "آج مجھے بھوک نہیں ہے۔ میرے ہاضمے میں کچھ خرابی ہے۔" یہ بہانے کرنے پر میرا دل مجھے ملامت کرتا تھا۔ میں جانتا تھا کہ جھوٹ بول رہا ہوں اور وہ بھی اپنی والدہ سے۔ مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ اگر میرے باپ کو میرے گوشت کھانے کی خبر ہوگئی تو انھیں بہت سخت صدمہ ہوگا۔ یہ خیال میرے لیے سوہان روح تھا۔
اس لیے میں نے اپنے دل میں کہا۔ اگر چہ گوشت کھانا بہت ضروری چیز ہے اور یہ بھی بہت ضروری ہے کہ ملک میں غذا کی اصلاح کی جائے ، لیکن اپنے ماں باپ کو دھوکا دینا اور ان سے جھوٹ بولنا گوشت نہ کھانے سے بھی بدتر ہے۔ جب تک وہ زندہ ہیں گوشت کھانا ممکن نہیں جب وہ نہ رہیں گے اور میں آزاد ہو جاؤں گا تو کھلم کھلا گوشت کھاؤں گا لیکن میں اس وقت تک اس سے پرہیز کروں گا۔ اس پر خلوص خواہش کی وجہ سے کہ اپنے والدین سے جھوٹ نہ بولوں میں نے گوشت چھوڑ دیا مگر اپنے دوست کی صحبت نہ چھوڑی ۔ اس کی اصلاح کرنے کے جوش نے مجھے برباد کردیا تھا مگر مجھے اس کا بالکل احساس نہ تھا۔
مجھے ابھی اپنی چند اور لغزشوں کا ذکر کرنا ہے جو گوشت کھانے کے زمانے میں اور اس سے پہلے مجھ سے سرزد ہوئیں۔ ان کا سلسلہ میری شادی کے وقت سے یا اس کے تھوڑے ہی دن بعد شروع ہوتا ہے۔
میرے ایک عزیز کو اور مجھے سگریٹ پینے کا چسکا لگ گیا۔ یہ بات نہ تھی کہ ہم اس عادت کو اچھا سمجھتے ہوں یا سگریٹ کی خو شبو پر ریجھے ہوں ۔ ہمیں تو صرف منھ سے دھواں نکالنے میں ایک خیالی لطف آتا تھا۔ میرے چچا اس کے عادی تھے اور جب ہم انھیں سگریٹ پیتے دیکھتے تھے تو ہمارا جی چاہتا تھا کہ ان کی طرح ہم بھی پئیں مگر ہمارے پاس دام تو تھے ہیں اس لیے ہم نے ابتدا اس طرح کی کہ ہم سگریٹ کے ٹکڑے جو ہمارے چچا پی کر پھینک دیتے تھے چرا لاتے تھے۔
مگر یہ ٹکڑے ہر وقت نہیں مل سکتے تھے اور ان سے دھواں بھی زیادہ نہیں نکلتا تھا۔ اس لیے ہم نے نوکروں کے جیب خرچ میں سے پیسے چرانا شروع کیے کہ ہندوستانی سگریٹ خریدیں مگر مصیبت یہ تھی کہ انھیں رکھیں کہاں، کیوں کہ ظاہر ہے کہ ہم بڑوں کے سامنے تو سگریٹ پی نہیں سکتے تھے۔ چند ہفتے تک تو ہم کسی نہ کسی طرح ان چرائے ہوئے پیسوں سے کام چلاتے رہے۔ اس عرصے میں ہم نے سنا کہ ایک درخت کی ڈال میں مسامات ہوتے ہیں اور اس کے ٹکڑے سگریٹ کی طرح پیے جاسکتے ہیں۔ ہم انھیں لے آئے اور پینا شروع کر دیا۔
لیکن ان چیزوں سے ہماری تسلی نہ ہوتی تھی۔ آزادی نہ ہونا ہمیں کھلنے لگا۔ ہم سے یہ برداشت نہ ہوتا تھا کہ ہم بغیر بڑوں کی اجازت کے کچھ نہ کر سکیں۔ آخر زندگی سے متنفر ہو کر ہم نے خودکشی کی ٹھان لی۔
مگر اب یہ سوال تھا کہ خودکشی کیسے کی جائے؟ زہر کھائیں تو زہر کہاں سے لائیں؟ ہم سے کسی نے کہا کہ دھتورے کے بیج زہر قاتل ہیں ۔ ہم دوڑے ہوئے جنگل میں گئے اور بیج لے آئے ۔ ہم نے شام کے وقت کو اس کام کے لیے مبارک سمجھا۔ ہم ”کیدار جی مندر" میں گئے۔ وہاں کے چراغ میں گھی ڈالا ۔’’ درشن‘‘ لیے اور کوئی سونی جگہ ڈھونڈنے لگے۔ مگر ہماری ہمت نے جواب دے دیا۔ فرض کرو کہ ہم فوراً نہ مرے! اور آخر مرنے سے فائدہ ہی کیا؟ آزادی نہیں ہے تو نہ سہی، اسی حالت کو کیوں نہ برداشت کریں؟ پھر بھی ہم دوتین بیج نگل ہی گئے ۔ ہم دونوں موت سے ڈر گئے اور ہم نے طے کیا کہ "رام جی مندر" جا کر حواس درست کریں اور خودکشی کا خیال چھوڑ دیں۔
مجھے معلوم ہو گیا کہ خودکشی کرنا اتنا سہل نہیں جتنا اس کا ارادہ کرنا اور اس دن سے جب کبھی میں سنتا ہوں کہ فلاں شخص خودشی کی دھمکی دے رہا ہے تو مجھ پر بہت کم اثر ہوتا ہے۔
خودکشی کے خیال کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم دونوں نے سگریٹ کے ٹکڑے پینا اور سگریٹ کے لیے نوکروں کے پیسے چرانا چھوڑ دیا۔ جب سے میں بالغ ہوا ہوں مجھے کبھی تمباکو پینے کی خواہش نہیں ہوئی، اور میں اس عادت کو تہذیب کے خلاف ، صفائی کے خلاف اور مضر سمجھتا ہوں ۔ یہ بات میری سمجھ میں کبھی نہ آئی کہ ساری دنیا میں لوگ تمباکو پینے پر کیوں جان دیتے ہیں ۔ مجھ سے تو ریل کے ڈبے میں جہاں تمباکو پینے والے بھرے ہوں نہیں بیٹھا جاتا۔ میرا دم گھٹنے لگتا ہے۔
لیکن اس سے کہیں بڑی چوری کا میں کچھ دن بعد مرتکب ہوا جب میں نے پیسے چرائے تو میری عمر بارہ تیرہ سال کی بلکہ اس سے بھی کم تھی۔ دوسری چوری کے وقت میں پندرہ برس کا تھا۔ اس بار میں نے اپنے گوشت کھانے والے بھائی کے بازوبند سے ایک سونے کا تکڑا چرایا۔ یہ بھائی پچیس روپے کے مقروض تھے۔ وہ بازو پر خالص سونے کا باز و بند باندھا کرتے تھے۔ اس میں سے ایک ٹکڑا کاٹ لینا کوئی مشکل بات نہ تھی۔
چنانچہ ایسا کیا گیا اور قرض ادا ہوگیا لیکن اتنا سنگین جرم تھا کہ مجھ سے کسی طرح برداشت نہیں ہوسکتا تھا۔ میں نے عہد کرلیا کہ پھر کبھی چوری نہ کروں گا۔ میرا یہ بھی ارادہ ہوا کہ اپنے والد کے سامنے جرم کا اعتراف کرلوں مگر ہمت نہ پڑتی تھی۔ یہ بات نہ تھی کہ مجھے والد کے ہاتھ سے مار کھانے کا ڈر ہو۔ جہاں تک مجھے یاد ہے انھوں نے ہم لوگوں کو کبھی نہیں مارا۔ خوف تھا تو یہ کہ انھیں بہت دکھ ہوگا۔
آخر میں یہ فیصلہ کیا کہ میں اعتراف نامہ لکھ کر اپنے والد کو دوں اور ان سے معافی کی درخواست کروں ۔ میں نے سارا واقعہ ایک کاغذ پر لکھا اور خود لے جا کر انھیں دیا۔ اس رقعے میں میں نے نہ صرف اپنے جرم کا اعتراف کیا بلکہ یہ خواہش بھی کی کہ مجھے اس کی کافی سزا دی جائے اور آخر میں ان سے درخواست کی کہ میرے قصور کے بدلے وہ اپنا دل نہ کڑھائیں۔ میں نے اس بات کا عہد کیا کہ پھر کبھی چوری نہ کروں گا۔
میں نے اعتراف نامہ انھیں دیا تو میں کانپ رہا تھا۔ وہ ان دنوں ناسور میں مبتلا تھے اور صاحب فراش تھے۔ ایک کھرے تخت پر لیٹے رہتے تھے۔ میں نے رقعہ انہیں دے دیا اور چوکی کے سامنے بیٹھ گیا۔
انھوں نے اسے اول سے آخر تک پڑھا اور موتیوں کے قطرے ٹپ ٹپ ان کے رخساروں پر اور کاغذ پر گرنے لگے۔ دم بھر وہ آنکھیں بند کر کے سوچتے رہے اس کے بعد انہوں نے رقعہ پچھاڑ کر پھینک دیا۔ وہ اسے پڑھنے کے لیے پہلے بیٹھ گئے تھے اب وہ پھر لیٹ گئے۔ میں بھی رونے لگا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ انھیں کیسا دکھ ہے۔ اگر میں نقاش ہوتا تو آج اتنے دن کے بعد بھی پورے منظر کی تصویر کھینچ دیتا۔ اس واقعہ کی یاد میرے دل میں اب تک تازہ ہے۔
ان محبت کے موتیوں نے میرے دل کو پاک کر دیا اور میرے گناہ کو دھوڈالا۔ اس محبت کو وہی خوب جانتا ہے جس نے اس کا لطف اٹھایا ہے۔
یہ میرے لیے' اہمسا' کاعملی سبق تھا۔ اس وقت تو مجھے اس میں سوائے باپ کی محبت کے کچھ نظر نہ آتا تھا، مگر آج میں جانتا ہوں کہ یہ خالص 'اہمسا' تھا۔ جب یہ 'اہمسا' ہمہ گیر ہو جا تا ہے تو جس چیز کو چھوتا ہے اس کی کایا پلٹ دیتا ہے۔ اس کی قوت کی کوئی انتہا نہیں ۔
اس طرح کا شاندار عفو میرے والد کی طبیعت سے بعید تھا ۔ میرا خیال تھا کہ وہ خفا ہو جائیں گے ، سر پیٹ لیں گے ۔ مجھے سخت سست کہیں گے لیکن ان کا سکون دیکھ کر حیرت ہوتی تھی اور یقیناً اس کی وجہ یہی تھی کہ میں نے صاف صاف اپنے گناہ کا اعتراف کرلیا ۔ گناہ کا پورا اعترف اور آئندہ اس سے باز رہنے کا عہد ، ایسے شخص کے سامنے جو انھیں قبول کرنے کا اہل ہے ، تو بہ کی خالص ترین صورت ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ میرے اس اعتراف سے والد کو میری طرف سے پورا اطمینان ہو گیا اور انھیں مجھ سے جو محبت تھی وہ بے انتہا بڑھ گئی۔
سید عابد حسین
(1896 - 1978)
ڈاکٹر سید عابد حسین کا وطن داعی پور ضلع فرخ آباد ( اتر پردیش) تھا۔ عابد حسین کی پیدائش بھوپال (مدھیہ پردیش) میں ہوئی، جہاں ان کے دادا اور والد ملازمت کرتے تھے۔ سید عابد حسین کی والدہ کا تعلق لکھنؤ کے ایک تعلقہ دار گھرانے سے تھا۔ ان کا بچپن داعی پور اور لکھنؤ میں گزرا۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے اسکول میں اور ثانوی تعلیم بھوپال میں حاصل کی ۔ الہ آباد یونیورسٹی سے بی۔ اے پاس کیا اور پھر اعلی تعلیم آکسفورڈ یونیورسٹی، برطانیہ اور برن یونیورسٹی ، جرمنی میں حاصل کی ۔ سید عابد حسین نے فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔ جرمنی سے واپس آ کر ڈاکٹر ذاکر حسین اور پروفیسر محمد مجیب کے ساتھ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں کام کرنے لگے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر عابد حسین تصنیف و تالیف کا کام بھی کرتے رہے۔ انھوں نے سب سے پہلے 1926 میں ایک ڈراما ” پرده غفلت‘ لکھا۔ جرمن زبان کی کئی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا۔ جن میں گوئٹے کی ’’ فاؤسٹ‘‘ سب سے اہم ہے۔ ڈاکٹر عابدحسین نے مہاتما گاندھی کی خودنوشت کا ترجمہ تلاش "حق‘‘ کے نام سے اور پنڈت جواہرلعل نہرو کی ڈسکوری آف انڈیا کا ترجمہ "تلاش ہند" کے نام سے اردو میں کیا۔ اردو کے علاوہ انگریزی میں بھی کئی کتابیں لکھیں جن میں "قومی تہذیب کا مسئلہ" اور" ہندوستانی مسلمان آئینۂ ایام میں " اردو انگریزی دونوں زبانوں میں شائع ہوئیں۔ انھوں نے اردو کے علمی سرمایے میں قابل قدر اضافہ کیے۔ وہ دومشہور جرائد "اسلام اور عصر جدید " اور " اسلام اینڈ دی موڈرن ایج " کے بانی مدیر بھی رہے۔
'چوری اور اس کا کفارہ' گاندھی جی کی آپ بیتی کے اردو ترجمے سے ماخوذ ہے۔ 
  
خلاصہ:
خلاصه:- چوری اور اس کا کفاره گاندھی جی کی آپ بیتی ' تلاش حق ' سے ماخوذ ہے۔ مہاتما گاندھی ۔ کی کتاب انگریزی میں My Experiment with Truth کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ ڈاکٹر عابد حسین نے کیا تھا۔یہ مہاتما گاندھی کی آپ بیتی ہے اور اس آپ بیتی میں سب سے بڑی
خوبی یہ ہے کہ مہاتما گاندھی نے اپنی خوبیوں ، خرابیوں اور کمزوریوں کو بلا جھجھک بیان کیا ہے۔ اس سے اس کتاب کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔
گاندھی جی راج کوٹ میں تھے اور وہاں ریفارم کا بڑا زور تھا۔ وہیں ان کی ملاقات اپنے منجھلے بھائی کے ایسے دوست سے ہوئی جو گوشت کھاتا تھا اور یہ کہتا تھا کہ گوشت کھانے سے آدمی طاقتور رہتا ہے اور جو لوگ
گوشت نہیں کھاتے وہ ہماری قوم کی طرح کمزور ہوتے ہیں۔ مجھلے بھائی کا یہ دوست گاندھی جی کا بھی رفق بن گیا اور اس نے مہاتما گاندھی کو گوشت کھانے پر آمادہ کر لیا۔ گاندھی جی بچپن میں چوروں، بھوتوں اور سانپوں سے ڈرتے تھے۔ اور انہیں ان سے خوف محسوس ہوتا تھا۔ گاندھی جی کے رفیق نے انہیں بتایا کہ اگر گوشت کھانا شروع کردیا تو پھر وہ چوروں اور زندہ سانپ سے مقابلہ کر سکتے ہیں ۔ چنانچہ گاندھی جی نے گوشت کھانے کا فیصلہ کیا تا کہ وہ طاقتور بن جائیں اور ریفارم کر کے انگریزوں سے ہندوستان کو آزاد کرائیں۔
ایک دن دریا کے کنارے جا کر ایک مکان میں گاندھی جی نے گوشت کھایا۔ پہلی مرتبہ گوشت کھا نے کے بعد گاندھی جی کو رات میں خواب میں ایک بکری نظر آئی اور بڑے بھیانک خواب نظر آئے۔ اس کے بعد بھی گاندھی جی نے چار پائج مرتبہ مختلف اوقات میں گوشت کھایا۔ حالانکہ ان کے والد اور پورا خاندان ویشنو تھا اور سبھی سخت مذہبی تھے۔ گاندھی جی کو لگا کہ اس طرح ریفارم کے چکر میں انہوں نے اپنے خاندان والوں کو دھوکہ دیا۔ گوشت کھانے کے بعد ان کے ایک دوست نے سگریٹ پلایا، اور گاندھی جی کو سگریٹ پینے کیلئے چوری بھی کرنی پڑی۔ ان سب واقعات نے گاندھی جی کو ذہنی طور پر پریشان کیا اور ان کا ضمیر کچوکے لگاتا رہا۔ انہوں نے اعتراف گناہ اور خطا کی معافی کیلئے اپنے والد صاحب کے نام ایک خط لکھا۔ اور اس میں سب کچھ صاف صاف بتا دیا۔ گاندھی جی نے دیکھا کہ خط پڑھ کر ان کے والد صاحب کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ گاندھی جی کا خیال تھا کہ ان کے والد صاحب ان سے ناراض ہو جائیں گے اور سخت سست کہیں گے۔ چونکہ گاندھی جی نے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا تھا، اور ان کا خط پڑھ کر والد صاحب کو اطمینان ہو گیا تھا کہ گاندھی جی آئندہ ایسی غلطی نہیں کریں گے۔ اسلئے وہ گاندھی جی سے اور محبت کرنے لگے۔ گاندھی جی کہتے ہیں کے والد صاحب کا یہ عمل میرے لئے اہنسا کے عمل کا پہلا سبق تھا۔

غور کرنے کی بات:
یہ مضمون مہاتما گاندھی کی آپ بیتی My Experiments with Truth کے اردو تر جمے’’ تلاش حق‘‘ سے لیا گیا ہے۔ مضمون پڑھتے وقت آپ کو کسی بھی سطر پر ہی شبہہ نہیں ہوگا کہ یہ ترجمہ ہے۔ اچھے اور کامیاب ترجمے کی یہی خوبی ہے کہ اس پر اصل کا گمان ہو۔
مہاتما گاندھی نے اپنی سوانح لکھتے وقت اپنی شخصی کمزوریوں کو چھپایا نہیں ان پر کسی طرح کا پردہ نہیں ڈالا اور کھلے دل سے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا اعتراف کیا اور خود ہی اپنی اصلاح کی ۔ ایک اچھی آپ بیتی کی پہلی خوبی یہی ہے کہ اس میں کسی طرح کا تصنع نہ ہو۔ اس طرح کی آپ بیتیاں پڑھنے والے کے لیے لطف کے ساتھ ساتھ عبرت اور اصلاح کے مواقع بھی فراہم کرتی ہیں۔
سوالوں کے جواب لکھیے:
1 ۔ "انسان پر بہ نسبت نیکی کے بدی کا اثر جلد پڑتا ہے"، ایسا کیوں؟ واضح کیجیے۔
2۔ مہاتما گاندھی نے اپنی غلطیوں کے کفارے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا؟
3۔ گاندھی جی کا اعتراف نامہ پڑھ کر ان کے والد پر کیا اثر ہوا؟
عملی کام:
ایک مضمون لکھیے۔ "چوری ایک بری عادت ہے۔“
گاندھی جی کی زندگی سے متعلق کتابیں حاصل کر کے ان کا مطالعہ کیجیے۔

                   

Tuesday, 17 November 2020

Makhlut Zaban By Maulavi Abdul Haq NCERT Class 10 Nawa e Urdu

 مخلوط زبان

مولوی عبدالحق
ردو پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہ مخلوط زبان ہے ۔ اس سے تو کسی کو انکار نہیں ہوسکتا کہ یہ ٹھیٹ ہندوستانی زبان ہے۔ اب رہی یہ بات کہ یہ مخلوط ہے تو مخلوط ہونا کوئی عیب نہیں بلکہ ایک اعتبار سے خوبی ہے۔

یوں تو دنیا میں کوئی زبان خالص نہیں ہر زبان نے کسی نہ کسی زمانے میں دوسری زبانوں سے کچھ نہ کچھ لفظ لیے ہیں یہاں تک کہ جو زبانیں مقدس کہلاتی ہیں وہ بھی اچھوتی نہیں ........... مخلوط زبان میں ہوتا یہ ہے کہ غیر زبان جو کسی قوم کو سیکھنی پڑتی ہے مخلوط نہیں ہوتی بلکہ اس کی اپنی زبان غیرزبان کے میل سے مخلوط ہو جاتی ہے۔ بعینہ یہی حال مسلمانوں کے آنے کے بعد ہوا، فارسی مخلوط نہیں ہوئی بلکہ مقامی زبان فارسی سے مخلوط ہوکر ایک نئی زبان بن گئی ہے۔

یہ بھی ایک مسلم ثبوت ہے کہ غیر زبان کے لفظ جو کسی زبان میں داخل ہوجاتے ہیں یا کسی زبان کو مخلوط کرتے ہیں تو اصلی زبان کے صرف و نحو کو ہاتھ نہیں لگاتے ۔ یہی صورت اس مخلوط زبان اردو میں پیش آئی کہ فارسی کا اثر اسماء وصفات تک رہا البته بعض حروف عطف مثلاً اگر، مگر، اگر چہ ، لیکن وغیرہ آگئے اصل صرف و نحو بالکل دیسی زبان کی رہی اور جب ضرورت پڑی فارسی ، عربی، لفظوں کو ہندی قالب میں ڈھال کر اپنا لیا۔ مثلاً عربی الفاظ بدل، کفن، دفن، قبول سے بدلنا، کفنانا، دفنانا، قبولنا، مصدر بنا لیے۔ اسی طرح فارسی سے بخشنا، فرمانا، نواز نا، داغنا وغیرہ بنا لیے گئے یہ سب اردو ہو گئے فارسی ، عربی نہیں رہے۔ . بدیسی لفظوں سے زبان خراب نہیں ہوتی بلکہ برخلاف اس کے اس میں وسعت، قوت اور شان پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ سچ ہے

کہ بہت سے غیر ضروری الفاظ بھی باہر سے آ کر داخل ہوجاتے ہیں ۔ غیرضروری سے میری مراد ان لفظوں سے ہے جن کے ہم معنی لفظ پہلے سے زبان میں موجود ہیں ۔ لیکن مترادف الفاظ سے کوئی نقصان نہیں بلکہ زبان میں اضافہ ہوجاتا ہے اور زبان کی فطرت کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ ایک مدت کے استعمال کے بعد مترادف الفاظ کے مفہوم میں خود بخود ایسے نازک فرق پیدا ہو جاتے ہیں جس سے زبان کی لطافت بڑھ جاتی ہے اور جو لفظ پہلے غیر ضروری سمجھے جاتے تھے ضروری ہوجاتے ہیں۔

یہ خیال بھی صحیح نہیں کہ بد یسی الفاظ سے زبان بوجھل اور بھدی ہو جاتی ہے۔ وہ لفظ جو غیر زبان سے آ کر داخل ہو جاتے ہیں وہ اس نوعیت کے ہوتے ہیں کہ زبان میں پوری طرح کھپ جاتے ہیں اور ان کی اجنبیت بالکل جاتی رہتی ہے۔ اس لیے وہ زبان پر بارنہیں ہوتے ۔ بلکہ ان میں اور دیسی لفظوں میں آسانی اور وسعت پیدا کرتے ہیں۔

انسانی خیال کی کوئی تھاہ نہیں اور نہ اس کے تنوع اور وسعت کی کوئی حد ہے۔ زبان کیسی ہی وسیع اور بھر پور ہو، خیال کی گہرائیوں اور باریکیوں اور نازک حرفوں کو صحت کے ساتھ ادا کرنے میں قاصر رہتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے ادا کرنے کے لیے طرح طرح کے جتن کیے جاتے ہیں۔ مترادف الفاظ ایسے موقعوں پر بہت کام آتے ہیں ۔ مترادف الفاظ سب ہم معنی نہیں ہوتے۔ ان کے مفہوم اور استعمال میں کچھ نہ کچھ ضرور فرق ہوتا ہے۔ اس لیے اداۓ مطالب میں ان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے خاص کر شاعری کے اغراض کے لیے مترادف الفاظ کا کثرت سے ہونا بہت کام آتا ہے۔ شاعر ان کے ذریعہ سے لطیف سے لطیف خیال اور نازک سے نازک جذبات کو ادا کر سکتا ہے، پھر اس سے ردیف و قافیے کے لیے بہت سہولت ہو جاتی ہے۔

ادیب اور شاعر کے لیے لفظ کا انتخاب بڑی اہمیت اور قدر و قیمت رکھتا ہے۔ ایک برمحل صحیح لفظ کا انتخاب کلام میں جان ڈال دیتا ہے۔ مخلوط زبان میں انتخاب کی بہت گنجائش ہوتی ہے۔ ذوق کا شعر ہے

مزے جو موت کے عاشق بیاں کبھو کرتے
مسیح  و خضر  بھی مرنے کی آرزو کرتے

خاصا شعر ہے مگر کوئی خاص بات نہیں ۔ میرتقی میر اسی مضمون کو یوں ادا کرتے ہیں ۔

لذت سے نہیں خالی جانوں کا کھپا جانا
کب خضر و مسیحا نے مرنے کا مزا  جانا

یہاں ' کھپا جانا‘‘ کے لفظ نے کیا کام کیا ہے! کوئی دوسرا لفظ رکھ کر دیکھیے یہ بات نہیں آئے گی ۔ اس شعر میں لذت او رمزه دومترادف لفظ ہیں ۔ اگر ایک ہی لفظ دونوں جگہ استعمال ہوتا تو شعرسست اور بے مزہ ہو جاتا ہے۔

محبت ہے یا کوئی جی کا ہے روگ
 سدا  میں  تو رہتا  ہوں بیمار  سا

ہماری زبان میں مرض، بیماری ، روگ، عارضہ مترادف ہیں لیکن ایک سچا شاعر یا ادیب خوب سمجھتا ہے کہ کون لفظ کہاں استعمال کرنا چاہیے۔ اس شعر میں جی کے ساتھ" روگ‘‘ کی جگہ "مرض" یا بیمار لطف نہ دے گا۔

غرض فارسی کے میل سے ہماری لغت میں بے بہا اضافہ ہوا ہے۔ الفاظ کے ساتھ ساتھ خیالات بھی آجاتے ہیں ۔

 لفظوں کا ذخیرہ کوئی چیز نہیں ۔ بڑی چیز ان کا استعمال ہے جو خیال کے صحیح طور پر ادا کرنے مترادفات کے نازک فرق ، خیالات میں صفائی اور صحت بیان پیدا کرنے میں بڑی مدد دیتے ہیں ۔ اور یہ نہ بھی ہو تو ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ بار بار ایک لفظ کے اعادے سے جو بیان میں بھدا پن آجاتا ہے وہ رفع ہو جا تا ہے اور کالام میں حسن پیدا ہو جاتا ہے۔

اگر زبان کی قدر و منزلت ان مقاصد کے پورا کرنے میں ہے جن کے لیے زبان بنی ہے تو ہمیں اس امر کو ماننا پڑے گا کہ غیر زبان کے الفاظ داخل ہونے سے ہماری زبان کو بے انتہا فائدہ پہنچتا ہے ۔ عوام کی زبان یعنی کھڑی بولی جس پر اردو کی بنیاد ہے اس قدر محدود تھی کہ اگر اس میں فارسی عنصر شریک نہ ہوتا تو وہ کبھی علم وادب کے کوچے سے آشنا نہ ہوتی اور اس وقت جو اردو میں اظہار خیال کے نئے ڈھنگ پیدا ہو گئے ہیں وہ ان سے محروم رہتی۔

اردو میں ہندی اور فارسی لفظ مل جل کر شیر وشکر ہوگئے ہیں اور عام بول چال محاوروں اور کہاوتوں میں بے تکلف آگئے ہیں، مثلاً تم کس باغ کی مولی ہو، اشرفیاں لٹیں اور کولوں پر مہر، ایک آنکھ میں شہد ایک آنکھ میں زہر، لاکھ کا گھر خاک ہو گیا ، اللہ کا دیا سرپر، خدا کی لاٹھی میں آواز نہیں ، بد اچھا بدنام برا، بدن پر نہیں لتا پان کھائیں البتہ وغیرہ وغیرہ سیکڑوں کہاوتیں ہیں۔ یہی حال محاوروں کا ہے۔ مثلا آنکھوں میں خارلگنا، خدالگتی کہنا، آنکھوں پر پردہ پڑ جانا،  لہولگا کے شہیدوں میں ملنا، اللہ میاں کی گائے ہونا۔

مخلوط زبان میں ایک آسانی مرکب الفاظ کے بنانے میں بھی ہوتی ہے ۔ دیکھیے ہندی فارسی کے میل سے کیسے اچھے اچھے مرکب لفظ بن گئے ہیں، مثلاً دل لگی ، نیک چلن ، جگت استاد بھتیج داماد، گھر داماد، سمجھدار گنڈے دار، اگالدان، عجائب گھر ، کفن چوری جیب گھڑ ی، امام باڑہ، منہ زور وغیرہ ہزاروں مرکبات ہیں۔

مخلوط زبانوں کے بننے کے دوران میں ایک اور بات بھی عمل میں آتی ہے جو قابل غور ہے۔ یعنی  ان میں سے ہر زبان کو اس خیال سے جانیں کہ ایک دوسرے کی بات آسانی سے اور جلد سمجھ میں آجائے۔ اپنی بعض خصوصیات ترک کرنی پڑتی ہیں اور صرف ایسی صورت باقی رکھنی پڑتی ہے جو یا تو مشترک ہوتی ہیں یا جن کا اختیار کرنا دونوں کے لیے سہل ہوتا ہے اور اس طرح دونوں میں توازن سا پیدا ہو جاتا ہے ۔ جو فریقین کے لیے سہولت کا باعث ہوتا ہے۔ اردو کے بننے میں بھی یہی ہوا۔ فریقین یعنی ہندو مسلمان دونوں نے اپنی اپنی زبانوں میں کتر بیونت کی ۔ اپنی مخصوص خصوصیات ترک کیں اور اس قربانی کے بعد جو زبان بنی اسے اختیار کرلیا، جو اب بھی ہماری ملکی اور قومی زبان ہے اور ہندوستان کی مشترک اور عام زبان ہونے کا درجہ حاصل کر چکی ہے، ہم نے اسے قربانی دے کر حاصل کیا ہے، اور کسی کا منہ نہیں ہوسکتا کہ ہم سے چھڑا لے۔

ایک حکیم کا قول ہے کہ غیر اقوام کے لوگوں کو اپنی قوم میں اس طرح جذب کر لینا کہ اپنے اور غیر میں امتیاز نہ رہے، بلاشبہ

مشکل کام ہے لیکن غیر زبان کے الفاظ کو اپنی زبان میں اس طرح جذب کر لینا کہ معلوم تک نہ ہو کہ یہ غیر ہیں اس سے بھی زیادہ مشکل کام ہے۔ یہ استعداد اردو میں بہ درجہ کمال موجود ہے اس میں سیکڑوں ہزاروں لفظ غیر زبانوں کے اس طرح گھل مل گئے ہیں کہ بولنے اور پڑھنے والوں کو خبر تک نہیں ہوتی کہ دیسی ہیں یا بد یسی ، اپنے ہیں یا پرائے۔۔

غرض ہماری زبان ایک خوش رنگ اور ہرا بھرا گلدستہ ہے جس میں رنگ برنگ کے خوبصورت پھول اور نازک پتیاں ہیں ۔ کیا ہم اس وہم سے کہ اس میں گلاب بدیسی ہے اور کچھ پتیاں باہر کے پودوں کی ہیں انہیں نوچ کر پھینک دیں گے؟ اگر کوئی ایسا کرے تو سراسر نادانی ہے۔

مجھے سر تیج بہادر سپرو کے اس قول سے حرف بہ حرف اتفاق ہے کہ" یہی زبان جسے ہم اردو کہتے ہیں ، تنہا وسیلہ ہے جس سے ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کی تہذیب کو مجھ سکتے ہیں یہی وہ ذریعہ ہے جس سے ہندو مسلمان میں اتحاد پیدا کیا جاسکتا ہے۔ میرے خیال میں اس سے بڑھ کر کوئی غلطی نہیں ہو سکتی کہ اس زبان کو مٹانے اور اس رشتے کوتوڑنے کی کوشش کی جائے۔“ (تلخیص)
___ مولوی عبدالق

مولوی عبدالحق

(1870 - 1961)

بابائے اردو مولوی عبدالق اردو زبان کے ان شیدائیوں میں سے تھے جنھوں نے اپنی ساری زندگی اس زبان کی خدمت میں صرف کر دی۔ وہ قصبہ ہاپوڑ میں پیدا ہوئے ۔ بچپن ہی سے پڑھنے کا بے حد شوق تھا۔ 1894 میں ایم ۔ اے ۔ او۔ کالج علی گڑھ سے بی۔ اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد پنجاب اور حیدرآباد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے ۔ عثمانیہ کالج اورنگ آباد میں بطور پرنسپل کام کیا۔ عثمانیہ یونیورسٹی میں شعبۂ اردو کے صدر اور پروفیسر رہے۔ انجمن ترقی اردو کے سکریٹری مقرر ہوئے اور زندگی بھر اس ادارے کی ترقی اور کامیابی کے لیے جی جان سے کوشش کرتے رہے۔ انجمن کی جانب سے مولوی عبدالحق کی ادارت میں ایک سہ ماہی ادبی رسالہ" اردو" جاری ہوا، جس نے تحقیقی, علمی اور ادبی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کی ۔ حیدر آباد یونیورسٹی نے ایل۔ ایل ۔ ڈی اور علی گڑھ یونیورسٹی نے ڈی لٹ کی اعزازی ڈگریاں دے کر مولوی عبد الحق کی مجموعی خدمات کا اعتراف کیا۔ آزادی کے بعد وہ پاکستان چلے گئے اور کراچی میں ان کا انتقال ہوا۔

مولوی عبدالق ایک محقق ، سوانح نگار ، زبان داں ،لغت نویس، ماہر قواعد اور صاحب طرز انشا پرداز تھے ۔ ان کی تحریروں پر حالی کا سب سے زیادہ اثر ہے ۔ بول چال کی سادہ زبان میں پر خلوص جذبات کا بے لاگ اظہار کرتے ہیں۔ ہر بات خوب سوچ سمجھ کر لکھتے ہیں ۔ عبارت میں الجھاو نہیں مشکل زبان لکھنے والوں کو وہ اردو کا دشمن کہتے تھے اور آسان زبان لکھنے پر زور دیتے تھے۔ اردو ادب میں قدیم کتابوں کی تدوین، ترتیب اور اشاعت ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ ان کتابوں پر ان کے مقدمات اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ انگریزی اردو لغت اور اردو زبان کی قواعد کا بنیادی کام بھی مولوی عبدالحق کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔


غور کرنے کی بات:
مولوی عبد الحق کے اس مضمون سے اردو زبان کی بنیادی خصوصیات پر روشنی پڑتی ہے۔
اردو زبان کی سب سے بڑی خوبی اس کی وسعت ہے۔ اس میں غیر زبانوں کے بہت سے الفاظ اس طرح گھل مل گئے ہیں کہ بولنے اور پڑھنے والوں کو احساس تک نہیں ہوتا ۔ یہ اندازہ لگانا ہمارے لیے مشکل ہو جاتا ہے کہ کون سے الفاظ دیسی ہیں اور کون سے الفاظ بد یسی۔
سوالوں کے جواب لکھیے :
1. مخلوط زبان سے کیا مراد ہے؟ وضاحت کیجیے۔
جواب:
2۔ زبان میں بدیسی الفاظ داخل ہونے کے کیا فائدے بیان کیے گئے ہیں؟
جواب:
3۔ اس مضمون میں اردو زبان کی کن خصوصیات پر روشنی ڈالی گئی ہے؟
جواب:
عملی کام :
ذیل میں دیئے گئے الفاظ اپنے جملوں میں استعمال کیجیے۔
مخلوط۔    مترادف     قدر و منزلت     بے بہا
سبق میں جومحاورے اور کہاوتیں بیان کی گئی ہیں ان کی فہرست بنائیے۔
اس مضمون میں سر تیج بہادر سپرو نے اردو زبان کے بارے میں جو کہا ہے اسے اپنے لفظوں میں بیان کیجیے۔

Naya Qanoon by Saadat Hasan Manto NCERT Class 10 Nawa e Urdu

نیا قانون
  سعادت حسن منٹو
منگو کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند سمجھا جاتا تھا گو اس کی تعلیمی حیثیت صفر کے برابرتھی اور اس نے کبھی اسکول کا منھ بھی نہیں دیکھا تھا لیکن اس کے باوجود اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔ اڈے کے وہ تمام کوچوان جن کو یہ جاننے کی خواہش ہوتی تھی کہ دنیا کے اندر کیا ہورہا ہے استاد منگو کی وسیع معلومات سے اچھی طرح واقف تھے۔
پچھلے دنوں جب استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی افواہ سنی تھی تو اس نے گاما چودھری کے چوڑے کاندھے پر تھپکی دے کر مدبرانہ انداز میں پیشین گوئی کی تھی ۔” دیکھ لینا چودھری تھوڑے ہی دنوں میں اسپین میں جنگ چھڑ جائے گی۔"
اور جب گاما چودھری نے اس سے یہ پوچھا کہ اسپین کہاں واقع ہے تو استاد منگو نے بڑی متانت سے جواب دیا تھا۔ ”ولایت میں اور کہاں ؟‘‘ اسپین میں جنگ چھڑی اور جب ہر شخص کو اس کا پتہ چل گیا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کو چوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے ، دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے اور استاد منگو اس وقت مال روڈ کی چمکیلی سطح پر تانگہ چلاتے ہوئے اپنی سواری سے تازہ ہندو مسلم فساد پر تبادلہ خیال کر رہا تھا۔
استاد منگو کو انگریزوں سے بڑی نفرت تھی اور اس کا سبب تو وہ یہ بتلایا کرتا تھا کہ وہ اس کے ہندوستان پر اپنا سکہ چلاتے ہیں اور طرح طرح کے ظلم ڈھاتے ہیں مگر اس کے تنفر کی سب سے بڑی وجہ تھی کہ چھاؤنی کے گورے اسے بہت ستایا کرتے تھے۔ وہ اس کے ساتھ ایسا سلوک کرتے تھے گویا وہ ایک ذلیل کتا ہے۔ اس کے علاوہ اسے ان کا رنگ بھی بالکل پسند نہ تھا۔ جب کبھی وہ
گورے کے سرخ و سپید چہرے کو دیکھتا تو اسے متلی سی آجاتی۔ نہ معلوم کیوں وہ کہا کرتا تھا کہ ان کے لال جھریوں بھرے چہرے کو دیکھ کر مجھے وہ لاش یاد آجاتی ہے جس کے جسم پر سے اوپر کی جھلی گل گل کر جھڑ رہی ہو۔
جب کسی شرابی گورے سے اس کا جھگڑا ہو جاتا تو سارا دن اس کی طبیعت مکد رہتی اور وہ شام کو اڈے میں آ کر ہل مار کہ سگریٹ پیتا یا حقے کے کش لگاتے ہوئے اس گورے کو جی بھر کر سنایا کرتا۔
یہ موئی گالی دینے کے بعد وہ اپنے سر کو ڈھیلی پگڑی سمیت جھٹکا دے کر کہتا تھا۔" آگ لینے آئے تھے اب گھر کے مالک ہی بن گئے ہیں ۔ ناک میں دم کر رکھا ہے ان بندروں کی اولاد نے ۔ یوں رعب گانٹھتے ہیں گویا ہم ان کے باوا کے نوکر ہیں ۔ اس پر بھی اس کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوتا تھا۔ جب تک اس کا کوئی ساتھی اس کے پاس بیٹھا رہتا وہ اپنے سینے کی آگ اگلتا رہتا۔
’’ شکل دیکھتے ہو نا تم اس کی جیسے کوڑھ ہورہا ہے۔ بالکل مردار ، ایک دھپے کی مار اور گٹ پٹ گٹ پٹ یوں بک رہا تھا جیسے مار ہی ڈالے گا۔ تیری جان کی قسم، پہلے پہل جی میں آئی کہ ملاعون کی کھوپڑی کے پرزے اڑادوں لیکن اس خیال سے ٹل گیا کہ اس مردود کو مارنا اپنی ہتک ہے۔“ یہ کہتے کہتے تھوڑی دیر کے لیے وہ خاموش ہو جاتا اور ناک کو خا کی قمیص کی آستین سے صاف کرنے کے بعد پھر بڑ بڑانے لگ جاتا۔
"قسم ہے بھگوان کی ، ان لاٹ صاحبوں کے ناز اٹھاتے اٹھاتے تنگ آگیا ہوں ۔ جب کبھی ان کا منحوس چہرہ دیکھتا ہوں رگوں میں خون کھولنے لگ جاتا ہے۔ کوئی نیا قانون وانون بنے تو ان لوگوں سے نجات ملے ۔ تیری قسم جان میں جان آجائے ۔"
اور جب ایک روز استاد منگو نے کچہری سے اپنے تانگے پر دو سواریاں لا دیں اور ان کی گفتگو سے اس کو پتہ چلا کہ ہندوستان میں جدید آئین نافذ ہونے والا ہے تو اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔
وہ مارواڑی جو کچہری میں اپنے دیوانی مقدمے کے سلسلے میں آئے تھے گھر جاتے ہوئے جدید آئیں یعنی انڈیا ایکٹ کے بارے میں آپس میں بات چیت کر رہے تھے۔ "سنا ہے پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔ کیا ہر چیز بدل جائے گی ؟" "ہر چیز تو نہیں بدلے گی مگر کہتے ہیں کہ بہت کچھ بدل جائے گا۔ اور ہندوستانیوں کو آزادی مل جائے گی ۔"
” کیا بیاج کے متعلق بھی کوئی نیا قانون پاس ہوگا ؟"
ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابل بیان خوشی پیدا کر رہی تھی۔ وہ اپنے گھوڑے کو ہمیشہ گالیاں دیتا تھا اور چا بک سے بہت بری طرح پیٹا کرتا تھا مگر اس روز وہ بار بار پیچھے مڑ کر مارواڑیوں کی طرف دیکھتا اور اپنی بڑھی ہوئی مونچھوں
کے بال ایک انگلی سے بڑی صفائی کے ساتھ او نیچے کر کے گھوڑے کی پیٹھ پر باگیں ڈھیلی کر تے ہوئے بڑے پیار سے کہتا۔ ”چل بیٹا، ذرا ہوا سے باتیں کر کے دکھا دے۔“
مارواڑیوں کو ان کے ٹھکانے پہنچا کر اس نے انارکلی میں دینو حلوائی کی دکان پر آدھ سیر دہی کی لسی پی کر ایک بڑی ڈکار لی اور مونچھوں کو منہ میں دبا کر ان کو چوستے ہوئے ایسے ہی بلند آواز میں کہا۔ "ہت تیری ایسی کی تیسی ۔‘‘
شام کو جب وہ اڈے کو لوٹا تو خلاف معمول اسے وہاں اپنی جان پہچان کا کوئی آدمی نہ مل سکا۔ یہ دیکھ کر اس کے سینے میں ایک عجیب وغریب طوفان برپا ہوگیا ، آج وہ ایک بڑی خبر اپنے دوستوں کو سنانے والا تھا۔ بہت بڑی خبر اور اس خبر کو اپنے اندر سے باہر نکالنے کے لیے وہ سخت بے چین تھا۔ لیکن وہاں کوئی تھا ہی نہیں۔
آدھ گھنٹے تک وہ چا بک بغل میں دبائے اسٹیشن کے اڈے کی آہنی چھت کے نیچے بے دلی کی حالت میں ٹہلتا رہا۔ اس کے دماغ میں بڑے اچھے اچھے خیالات آرہے تھے۔ نئے قانون کے نفاذ کی خبر نے اس کو ایک نئی دنیا میں لا کھڑا کر دیا تھا۔ وہ اس نئے قانون کے متعلق جو پہلی اپریل کو ہندوستان میں نافذ ہونے والا تھا، اپنے دماغ کی تمام بتیاں روشن کر کے غور وفکر کر رہا تھا۔ اس کے کانوں میں مارواڑی کا یہ اندیشہ" کیا بیاج کے متعلق بھی کوئی نیا قانون پاس ہوگا ؟‘‘ بار بار گونج رہا تھا اور اس کے تمام جسم میں مسرت کی ایک لہر دوڑا رہا تھا۔
    وہ بے حد مسرور تھا۔ خاص کر اس وقت اس کے دل کو بہت ٹھنڈک پہنچی جب وہ خیال کرتا کہ گوروں ، سفید چوہوں (وہ ان کو اسی نام سے یاد کرتا تھا) کی تھوتھنیاں نئے قانون کے آتے ہی بلوں میں ہمیشہ کے لیے غائب ہو جائیں گی۔
جب نتھو گنجا پگڑی بغل میں دبائے اڈے میں داخل ہوا تو استاد منگو بڑھ کر اس سے ملا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بلند آواز سے کہنے لگا۔ "لاہاتھ ادھر ........ ایسی خبر سناؤں کہ جی خوش ہو جائے ۔ تیری اس گنجی کھوپڑی پر بال اگ آئیں۔"
اور یہ کہہ کر منگو نے بڑے مزے لے لے کر نئے قانون کے متعلق اپنے دوست سے باتیں شروع کر دیں ۔ دوران گفتگو میں اس نے کئی مرتبہ نتھو گنجے کے ہاتھ پر زور سے اپناہاتھ مار کر کہا "تو دیکھتارہ کیا بنتا ہے، یہ روس والا بادشاہ کچھ نہ کچھ ضرور کر کے رہے گا۔"
استاد منگو موجودہ سوویت نظام کی اشتراکی سرگرمیوں کے متعلق بہت کچھ سن چکا تھا اور اسے وہاں کے نئے قانون اور دوسری نئی چیز یں بہت پسند تھیں ، اسی لیے اس نے ’’روس والے بادشاہ" کو انڈیا ایکٹ“ یعنی جدید آئین کے ساتھ ملا دیا اور پہلی اپریل کو پرانے نظام میں جونئی تبدیلیاں پیدا ہونے والی تھیں وہ انھیں’’روس والے بادشاہ " کے اثر کا نتیجہ سمجھتا تھا۔
کچھ عرصے سے پشاور اور دیگر شہروں میں سرخ پوشوں کی تحریک جاری تھی ۔ استاد منگو نے اس تحریک کو اپنے دماغ میں ”روس والے بادشاہ اور پھر نئے قانون کے ساتھ خلط ملط کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ جب کبھی کسی سے سنتا کہ فلاں شہر میں اتنے بم ساز پکڑے گئے ہیں یا فلاں جگہ اتنے آدمیوں پر بغاوت کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا ہے تو ان تمام واقعات کو نئے قانون کا پیش خیمہ سمجھتا اور دل ہی دل میں بہت خوش ہوتا تھا۔
ایک روز اس کے تانگے میں دو بیرسٹر بیٹھے نئے آئین پر بڑے زور سے تنقید کر رہے تھے اور وہ خاموشی سے ان کی باتیں سن رہا تھا۔ ان میں سے ایک دوسرے سے کہہ رہا تھا۔
جدید آئین کا دوسرا حصہ فیڈ ریشن ہے جو میری سمجھ میں ابھی تک نہیں آیا۔ اسی فیڈریشن دنیا کی تاریخ میں آج تک نہ سنی نہ دیکھی گئی ہے۔ سیاسی نظریے کے اعتبار سے بھی یہ فیڈ ریشن بالکل غلط ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ کوئی فیڈریشن ہے ہی نہیں‘‘
آن بیرسٹروں کے درمیان جو گفتگو ہوئی چوں کہ اس میں بیشتر الفاظ انگریزی کے تھے۔ اس سے استاد منگو صرف اوپر کے جملے ہی کو کسی قدر سمجھا اور اس نے خیال کیا یہ لوگ ہندوستان میں نئے قانون کی آمد کو برا سمجھتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ ان کا وطن آزاد ہو۔ چناں چہ اس خیال کے زیر اثر اس نے کئی مرتبہ ان دو بیرسٹروں کو حقارت کی نگاہوں سے دیکھ کر دل ہی دل میں کہا ’ ٹوڈی چے! "
جب کبھی وہ کسی کو دبی زبان میں "ٹوڈی بچہ" کہتا تو دل میں یہ محسوس کر کے بڑا خوش ہوتا تھا کہ اس نے اس نام کو صحیح جگہ استعمال کیا ہے۔ اور یہ کہ وہ شریف آدمی اور’’ ٹوڈی بچے‘‘ میں تمیز کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
اس واقعے کے تیسرے روز گورنمنٹ کالج  کے تین طلبا کو اپنے تانگے میں بٹھا کر مزنگ جارہا تھا کہ اس نے ان تین لڑکوں کو آپس میں یہ باتیں کرتے سنا۔
نئے آئین نے میری امیدیں اور بڑھادی ہیں ۔ اگر.................. صاحب اسمبلی کے ممبر ہو گئے تو کسی سرکاری دفتر میں ملازمت ضرور مل جائے گی ۔
ویسے بھی بہت سی جگہیں نکلیں گی ۔ شاید اسی گڑ بڑ میں ہمارے ہاتھ بھی کچھ آجائے۔"
‘‘ ہاں ہاں کیوں نہیں ۔"
"وہ بے کار گریجویٹ جو مارے مارے پھر رہے ہیں ان میں کچھ تو کی ہوگی ؟“
اس گفتگو نے استاد منگو کے دل میں جدید آئین کی اہمیت اور بھی بڑھا دی اور وہ اس کو ایسی "چیز‘‘ سمجھنے لگا جو بہت چمکتی ہو" نیا قانون ۔!‘‘ اور وہ دن میں کئی بار سوچتا۔" یعنی کوئی نئی چیز ! " اور ہر بار اس کی نظروں کے سامنے اپنے گھوڑے کا وہ نیا ساز آجاتا جو اس نے دو برس ہوئے چودھری خدا بخش سے بڑی اچھی طرح ٹھونک بجا کر خریدا تھا۔ اس ساز پر جب وہ نیا تھا جگہ جگہ لوہے کی نکل چڑھی ہوئی کیلیں چمکتی تھیں اور جہاں جہاں پتیل کا کام تھا وہ تو سونے کی طرح دمکتا تھا۔ اس لحاظ سے بھی " نئے قانون‘‘ کا درخشاں و تاباں ہونا ضروری تھا۔
پہلی بار اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا مگر اس کے متعلق جو تصور وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اس کو یقین تھا کہ اس کی آمد پر جو چیزیں نظر آئیں گی ان سے اس کی آنکھوں کو ضرور ٹھنڈک پہنچے گی۔
آخرکار مارچ کے اکتیس دن ختم ہوگئے اور اپریل کے شروع ہونے میں رات کے چند خاموش گھنٹے باقی رہ گئے ۔ موسم خلاف معمول سرد تھا اور ہوا میں تازگی تھی ۔ پہلی اپریل کو صبح سویرے استاد منگو اٹھا اور اصطبل میں جا کر تانگے میں گھوڑے کو جوتا اور باہر نکل گیا۔ اس کی طبیعت آج غیر معمولی طور پر مسرور تھی ۔ وہ نئے قانون کو دیکھنے والا تھا۔
اس نے صبح کے سرد دھند لکے میں کئی تنگ اور کھلے بازاروں کا چکر لگایا مگر اسے ہر چیز پرانی نظر آئی ۔ آسمان کی طرح پرانی۔ اس کی نگاہیں آج خاص طور پر نیا رنگ دیکھنا چاہتی تھیں مگر سوائے اس کلغی کے جو رنگ برنگ کے پروں سے بنی تھی اور اس کے گھوڑے کے سر پر جمی ہوئی تھی اور سب چیزیں پرانی نظر آتی تھیں ۔ یہ نئی کلغی اس نے نئے قانون کی خوشی میں 31 /مارچ کو چودھری خدا بخش سے ساڑھے چودہ آنے میں خریدی تھی۔
گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز کالی سڑک اور اس کے آس پاس تھوڑا تھوڑا فاصلہ چھوڑ کر لگائے ہوئے بجلی کے کھمبے ، دکان کے بورڈ ، اس کے گھوڑے کے گلے میں پڑے ہوئے گھنگرو کی جھنجھناہٹ ، بازار میں چلتے پھرتے آدی ......... ان میں سے کون سی چیز نئی تھی ،ظاہر ہے کہ کوئی بھی نہیں لیکن استاد منگو مایوس نہیں تھا۔
"ابھی بہت سویرا ہے۔ دکانیں بھی تو سب کی سب بند ہیں" ۔ اس خیال سے اسے تسکین تھی۔ اس کے علاوہ وہ یہ بھی سوچتا تھا۔ ” ہائی کورٹ میں نو بجے کے بعد ہی کام شروع ہوتا ہے۔ اب اس سے پہلے نئے قانون کا کیا نظر آئے گا ؟"
جب اس کا تانگہ گورنمنٹ کالج کے دروازے پر پہنچا تو کالج کے گھڑیال نے بڑی رعونت سے نو بجائے ۔ جو طلبا کالج کے بڑے دروازے سے باہر نکل رہے تھے خوش پوش تھے۔ مگر استاد منگو کو نہ جانے ان کے کپڑے میلے میلے سے کیوں نظر آئے ۔ شاید اس کی وجہ تھی کہ اس کی نگاہیں آج کسی خیرہ کن جلوے کا نظارہ کرنے والی تھیں۔
تانگے کو دائیں ہاتھ موڑ کر وہ تھوڑی دیر کے بعد پھر انارکلی میں تھا۔ بازار کی آدھی دکا نیں کھل چکی تھیں اور اب لوگوں کی آمدورفت بھی بڑھ گئی تھی ۔ حلوائی کی دکانوں پر گاہکوں کی خوب بھیڑ تھی ۔ منہاری والوں کی نمائشی چیز یں شیشے کی الماریوں میں لوگوں کو دعوت نظارہ دے رہی تھیں اور بجلی کے تاروں پر کئی کبوتر آپس میں لڑ جھگڑ رہے تھے مگر استاد منگو کے لیے ان تمام چیزوں میں کوئی دل چسپی نہ تھی۔ وہ نئے قانون کو دیکھنا چاہتا تھا۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح وہ اپنے گھوڑے کو دیکھ رہا تھا۔
استاد منگو طبعاً بہت جلد باز واقع ہوا تھا۔ وہ ہر سبب کی عملی تشکیل دیکھنے کا نہ صرف خواہش مند تھا بلکہ متجسس تھا۔ اس کی بیوی گنگاوتی اس کی اس قسم کی بے قراریوں کو دیکھ کر عام طور پر یہ کہا کرتی۔
" ابھی کنواں کھودا نہیں گیا اور پیاس سے بے حال ہورہے ہو۔“
کچھ بھی ہو مگر استاد منگو نئے قانون کے انتظار میں اتنا بے قرار نہیں تھا جتنا کہ اسے اپنی طبیعت کے لحاظ سے ہونا چاہیے تھا۔ وہ آج نئے قانون کو دیکھنے کے لیے گھر سے نکلا تھا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے گاندھی یا جواہر لال کے جلوس کا نظارہ کرنے کے لیے نکلتا تھا۔
لیڈروں کی عظمت کا اندازہ استاد منگو ہمیشہ ان کے جلوس کے ہنگاموں اور ان کے گلے میں ڈالے ہوئے پھولوں کے ہاروں سے کیا کرتا تھا۔ اگر کوئی لیڈر گیندے کے پھولوں سے لدا ہو تو استاد منگو کے نزدیک وہ بڑا آدمی ہے اور اگر کسی لیڈر کے جلوس میں بھیٹر کے باعث دو تین فساد ہوتے ہوتے رہ جائیں تو اس کی نگاہوں میں وہ اور بھی بڑا تھا۔ اب نئے قانون کو وہ اپنے ذہن کے اسی ترازو میں تولنا چاہتا تھا۔
انارکلی سے نکل کر وہ مال روڈ کی چمکیلی سطح پر اپنے تانگے کو آہستہ آہستہ چلا رہا تھا کہ موٹروں کی دکان کے پاس اسے چھاونی کی ایک سواری مل گئی ۔ کرایہ طے کرنے کے بعد اس نے اپنے گھوڑے کو چا بک دکھایا اور دل میں یہ خیال کیا۔
” چلو یہ بھی اچھا ہوا۔ شاید چھاؤنی ہی سے نئے قانون کا کچھ پتہ چل جائے ۔"
چھاؤنی پہنچ کر استاد منگو نے سواری کو اس کی منزل مقصود پر اتار دیا اور جیب سے سگریٹ نکال کر بائیں ہاتھ کی آخری دو انگلیوں میں دبا کر سلگایا اور اگلی نشست کے گدے پر بیٹھ گیا۔ جب استاد منگو کو کسی سواری کی تلاش نہیں ہوتی تھی یا اسے کسی بیتے ہوئے واقعے پر غور کرنا ہوتا تھا تو وہ عام طور پر اگلی نشست چھوڑ کر پچھیلی نشست پر بڑے اطمینان سے بیٹھ کر اپنے گھوڑے کی باگیں دائیں ہاتھ کے گرد لپیٹ لیا کرتا تھا۔ ایسے موقعوں پر اس کا گھوڑا تھوڑا سا ہنہنانے کے بعد بڑی دھمیی چال چلنا شروع کردیتا تھا۔ گویا اسے کچھ دیر کے لیے بھاگ دوڑ سے چھٹی مل گئی ہے گھوڑے کی چال اور استاد منگو کے دماغ میں خیالات کی آمد بہت سست تھی، جس طرح گھوڑا آہستہ قدم اٹھا رہا تھا اسی طرح استاد کے ذہن میں نئے قانون کے متعلق نئے قیاسات داخل ہورہے تھے۔
وہ نئے قانون کی موجودگی میں میونسپل کمیٹی سے تانگوں کے نمبر ملنے کے طریقے پر غور کر رہا تھا۔ اور اس قابل غور بات کو آئین جدید کی روشنی میں دیکھنے کی سعی کر رہا تھا۔ وہ اس سوچ بچار میں غرق تھا۔ اسے یوں معلوم ہوا جیسے کسی سواری نے اسے بلایا ہے۔ پیچھے پلٹ کر دیکھنے سے اسے سڑک کے اس طرف دور بجلی کے کھمبے کے پاس ایک ’’ گورا‘‘ کھڑا نظر آیا جو اسے ہاتھ سے بلا رہا تھا۔
جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے استاد منگو کو گوروں سے بے حد نفرت تھی۔ جب اس نے اپنے تازہ گا ہک کو گورے کی شکل میں دیکھا تو اس کے دل میں نفرت کے جذبات بیدار ہو گئے ۔
پہلے اس کے جی میں آئی کہ بالکل توجہ نہ دے اور اس کو چھوڑ کر چلا جائے مگر بعد میں اس کو خیال آیا ان کے پیسے چھوڑنا بھی بے وقوفی ہے۔ کلغی پر جو مفت میں ساڑھے چودہ آنے خرچ کر دیے ہیں ان کی جیب ہی سے وصول کرنے چاہئیں ۔ چلو چلتے ہیں ۔"
خالی سڑک پر بڑی صفائی سے تانگہ موڑ کر اس نے گھوڑے کو چا بک دکھا یا اور آنکھ جھپکنے میں وہ بجلی کے کھمبے کے پاس تھا ۔ گھوڑے کی باگیں کھینچ کر اس نے تانگہ ٹھہرایا۔ اور پچھلی نشست پر بیٹھے بیٹھے گورے سے پوچھا۔
"صاحب بہادر کہاں جانا مانگتا ہے؟‘‘
اس سوال میں بلا کا طنز یہ انداز تھا۔ صاحب بہادر کہتے وقت اس کا اوپر کا مونچھوں بھرا ہونٹ نیچے کی طرف کھینچ گیا اور پاس ہی گال کے اس طرف جو مدھم سی لکیر ناک کے نتھنے سے ٹھوڑی کے بالائی حصے تک چلی آرہی تھی ، ایک لرزش کے ساتھ گہری ہوگئی۔ گویا کسی نے نوکیلے چاقو سے شیشم کی سانولی لکڑی میں دھاری ڈال دی۔ اس کا چہرہ ہنس رہا تھا اور اپنے اندر اس نے اس" گورے" کو سینے کی آگ میں جلا کر بھسم کر ڈالا تھا۔
جب "گورے‘‘ نے جو بجلی کے کھمبے کی اوٹ میں ہوا کا رخ بچا کر سگریٹ سلگا رہا تھا ، مڑ کر تانگے کے پائیدان کی طرف قدم بڑھایا تو اچانک استاد منگو اور اس کی نگاہیں چار ہوئیں ۔ اور ایسا معلوم ہوا کہ ایک وقت آمنے سامنے کی بندوقوں سے گولیاں خارج ہوئیں اور آپس میں ٹکرا کر ایک آتشیں بگولا بن کر اوپر کو اڑ گئیں۔
استاد منگو جو اپنے دائیں ہاتھ سے باگ کے بل کھول کر تانگے پر سے نیچے اترنے والا تھا اپنے سامنے کھڑے گورے کو یوں دیکھ رہا تھا گویا وہ اس کے وجود کے ذرے ذرے کو اپنی نگاہوں سے چبا رہا ہے اور گورا کچھ اس طرح اپنی نیلی پتلون پر سے غیر مرئی چیز یں جھاڑ رہا ہے گویا وہ استاد منگو کے اس جملے سے اپنے وجود کے کچھ حصے کو محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
گورے نے سگریٹ کا دھواں نگلتے ہوئے کہا۔” جانا مانگٹا یا پھر گڑ بڑ کرے گا۔
"وہی ہے ۔ " یہ الفاظ استاد منگو کے ذہن میں پیدا ہوئے ۔ اور اس کی چوڑی چھاتی کے اندر ناچنے لگے۔
"وہی ہے۔ " اس نے یہ الفاظ اپنے منہ کے اندر ہی اندر دہرائے اور ساتھ ہی اسے پورا یقین ہوگیا کہ وہ گورا جو اس کے سامنے کھڑا تھا وہی ہے جس سے پچھلے برس اس کی جھڑپ ہوئی تھی اور خواہ مخواہ کے جھگڑے میں جس کا با عث گورے کے دماغ میں چڑھی ہوئی شراب تھی۔ اسے طوعاً و کر ہا بہت سی باتیں سہنا پڑی تھیں ۔ استاد منگو نے گورے کا دماغ درست کر دیا ہوتا بلکہ اس کے پرزے اڑا دیے ہوتے مگر وہ کسی خاص مصلحت کی بنا پر خاموش ہو گیا تھا۔ اس کو معلوم تھا کہ اس قسم کے جھگڑوں میں عدالت کا نزلہ عام طور پر کوچوانوں ہی پر گرتا ہے۔
استاد منگو نے پچھلے برس کی لڑائی اور پہلی اپریل کے نئے قانون پر غور کرتے ہوئے گورے سے کہا۔ کہاں جانا مانگٹا ہے؟
استاد منگو کے لہجے میں چابک ایسی تیزی تھی۔
گورے نے جواب دیا۔ ”ہیرا منڈی ‘‘
"کرایہ پانچ روپیہ ہوگا۔ " استاد منگو کی مونچھیں تھرتھرائیں۔
یہ سن کر گورا حیران ہوگیا۔ وہ چلایا۔ "پانچ روپے؟ کیا تم ........"
"پانچ روپے ‘‘ یہ کہتے ہوئے استاد منگو کا داہنا بالوں بھرا ہاتھ بھنچ کر ایک وزنی گھونسے کی شکل اختیار کر گیا۔ کیوں جاتے ہو۔ یا بے کا ر با تیں بناؤ گے؟
استاد منگو کا لہجہ زیادہ سخت ہو گیا۔
گورا پچھلے برس کے واقعے کو پیش نظر رکھ کر استاد منگو کے سینے کی چوڑائی کو نظر انداز کر چکا تھا۔ وہ خیال کر رہا تھا کہ اس کی کھوپڑی پھر کھجلا رہی ہے۔ اس حوصلہ افزا خیال کے زیراثر وہ تانگے کی طرف اکڑ کر بڑھا اور اپنی چھڑی سے استاد منگو کو تانگے پر سے نیچے اترنے کا اشارہ کیا۔ بید کی یہ پالش کی ہوئی پتلی چھڑی استاد منگو کی موٹی ران کے ساتھ دو تین مرتبہ چھوئی ۔ اس نے کھڑے کھڑے اوپر سے پستہ قد گورے کو دیکھا۔ گویا وہ اپنی نگاہوں کے وزن ہی سے اسے پیس ڈالنا چاہتا ہے۔ پھر اس کا گھونسہ کمان میں سے تیر کی طرح سے اوپر کو اٹھا اور چشم زدن میں گورے کی ٹھڈی کے نچے جم گیا۔ دھکا دے کر اس نے گورے کو پرے ہٹایا اور نیچے گرا کر اسے دھڑا دھڑ پیٹنا شروع کر دیا۔
ششدر و متحیر گورے نے ادھر ادھر سمٹ کر استاد منگو کے وزنی گھونسوں سے بچنے کی کوشش کی اور جب دیکھا کہ اس کے مخالف پر دیوانگی کی سی حالت طاری ہے اور اس کی آنکھوں میں شرارے برس رہے ہیں تو اس نے زور زور سے چلانا شروع کیا۔ اس چیخ و پکار نے استاد منگو کی بانہوں کا کام اور بھی تیز کر دیا جو گورے کو جی بھر کے پیٹ رہا تھا اور ساتھ ساتھ یہ کہتا جاتا تھا۔
"پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑفوں ....... پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑ فوں ۔ اب ہمارا راج ہے بچہ!"
لوگ جمع ہو گئے اور پولیس کے دو سپاہیوں نے بڑی مشکل سے گورے کو استاد منگو کی گرفت سے چھڑایا۔ استاد منگو ان دو سپاہیوں کے درمیان کھڑا تھا۔ اس کی چوڑی چھاتی پھولی ہوئی سانس کی وجہ سے اوپر نیچے ہورہی تھی ۔ منہ سے جھاگ بہہ رہا تھا اور اپنی مسکراتی ہوئی آنکھوں سے حیرت زدہ مجمع کی طرف دیکھ کر وہ ہا نیتی ہوئی آواز میں کہہ رہا تھا۔
وہ دن گزر گئے جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ اب نیا قانون ہے میاں ۔ نیا قانون !
اور بے چارہ گورا اپنے بگڑے ہوئے چہرے کے ساتھ بے وقوفوں کی مانند کبھی استاد منگو کی طرف دیکھتا تھا اور کبھی ہجوم کی طرف۔
استاد منگو کو پولیس کے سپاہی تھانے میں لے گئے ۔ راستے میں اور تھانے کے اندر کمرے میں وہ " نیا قانون ، نیا قانون چلاتا رہا مگر کسی نے ایک نہ سنی۔
”نیا قانون" ، نیا قانون ۔ کیا بک رہے ہو۔ قانون وہی ہے پرانا !"
اور اس کو حوالات میں بند کر دیا گیا۔

سعادت حسن منٹو
(1912–1955)
منٹوضلع لدھیانہ، پنجاب میں پیدا ہوئے۔ ان کے خاندان کا تعلق کشمیر سے تھا۔ منٹو کی ابتدائی تعلیم امرتسر میں ہوئی ۔ اعلی تعلیم کے لیے علی گڑھ آئے۔ اسی دوران تعلیم منقطع کر کے ملازمت کر لی ۔ منٹو ابتدا میں روسی ادب سے متاثر ہوئے اور کئی روسی کہانیوں کا اردو میں ترجمہ بھی کیا۔ ترقی پسند تحریک کے آغاز میں وہ اس تحریک سے متاثر ہوئے لیکن آگے چل کر وہ اس سے کنارہ کش ہو گئے ۔ ابتدا میں اخبار "مساوات‘‘(امرتسر) سے وابستہ رہے پھر ہفت روزہ مصور“ (بمبئی) میں مدیر کی حیثیت سے کام کیا ۔ آل انڈیا ریڈیو سے بھی منسلک رہے۔ کچھ عرصہ علمی دنیا سے بھی وابستہ رہے۔ کئی فلموں کے لیے کہانیوں کے ساتھ مکالے اور اسکرین پلے بھی لکھے۔ ملک کی آزادی کے بعد 1948 میں وہ مستقل طور پر لاہور چلے گئے۔
’’ تماشا‘‘ منٹو کا پہلا افسانہ تھا جو انھوں نے جلیاں والا باغ کے سانحے سے متاثر ہو کر لکھا۔ منٹو نے افسانہ نگاری میں موضوع اور ہیت کے کئی ایسے تجربے کیے جو ان سے پہلے افسانہ نگاروں کے یہاں نظر نہیں آتے ۔ منٹو کے افسانوں کی سب سے بڑی خوبی حقیقت نگاری ہے۔ ”نیا قانون، ٹوبہ ٹیک سنگھ کے علاوہ "سیاہ حاشیے‘‘ کے مختصر افسانے اس بات کا ثبوت ہیں کہ منٹو نے سیاسی مسائل اور موضوعات پر بھی قلم اٹھایا۔ افسانوں کے علاوہ منٹو نے ڈرامے،خاکے، ادبی اور فکاہیہ مضامین تحریر کیے اور ایک ناول "بلا عنوان" بھی شائع ہوا۔
’’ چغد‘‘ ’’سیاہ حاشیے‘‘ ’’ شکاری عورتیں،" پھندے‘‘ ’’ "سرکنڈوں کے پیچھے‘‘ ’’ یزید‘ ’’ ٹھنڈا گوشت‘‘ ’’سڑک کے کنارے‘‘ ’’ دھواں‘‘ ’’ لذت سنگ‘‘ ’’ خالی بوتلیں خالی ڈبے‘‘ ’’ نمرود کی خدائی‘‘ وغیرہ ان کے افسانوں کے قابل ذکر مجموعے ہیں ۔

غور کرنے کی بات:
افسانہ نیا قانون‘ کا مرکزی کردار منگو کوچوان ہے۔ منگو کوچوان کے ذریعے منٹو نے ایک سیدھے سادے ان پڑھ تانگے والے کی سمجھ کو خوبی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ وہ یہ افسانہ اس دور میں لکھا گیا جب ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت تھی۔ انگریزوں کی یہ حکومت منگو کوچوان کو بہت کھلتی تھی۔ وہ
انگریزوں سے نفرت کرتا تھا اور اپنے ملک کو آزاد دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ اس افسانے سے معلوم ہوتا ہے کہ آزادی سے پہلے ہندوستانی عوام میں انگریزوں کے خلاف غم وغصہ تھا۔ انگریزوں نے نہ صرف
حکومت کی بلکہ ہندوستانی عوام پر بہت ظلم بھی ڈھائے اور انھیں بے عزت بھی کیا۔
سوالوں کے جواب :
1- استاد منگو کون تھا اور اسے دنیا کے حالات کی خبر یں کس طرح ملا کرتی تھیں؟
2۔ منگو کوچوان انگریزوں سے کیوں نفرت کرتا تھا؟
3۔ ”نیا قانون کے آنے کی خبر سے منگو کوچوان کیوں خوش تھا؟

Aurton ke Huqooq by Sir Syed Ahmad Khan NCERT Class 10 Nawa e Urdu

عورتوں کے حقوق
سرسید احمد خاں
تربیت یافتہ ملک اس بات پر بہت غل مچاتے ہیں کہ عورت اور مرد دونوں باعتبار آفرینش کے مساوی ہیں اور دونوں برابر حق رکھتے ہیں ۔ کوئی وجہ نہیں کہ عورتوں کو مردوں سے کم اور حقیر سمجھا جاوے۔
با ایں ہمہ، ہم دیکھتے ہیں کہ جس قدر ، قدر و منزلت عورتوں کی مذہب اسلام میں کی گئی ہے اور ان کے حقوق اور ان کے اختیارات کو مردوں کے برابر کیا گیا ہے، اس قدر آج تک کسی تربیت یافتہ ملک میں نہیں ہے ۔ مسلمان قانون میں عورتوں کے مردوں کے برابر حقوق اور اختیارات تسلیم کیے گئے ہیں۔
حالت نابالغی میں جس طرح مرد، اسی طرح عورت، بے اختیار اور ناقابل معاہدہ متصور ہے؛ إلا بعد بلوغ وہ بالکل مثل مرد کے مختار ہے اور ہر ایک معاہدہ کے لائق ہے۔
جس طرح مرد، اسی طرح عورت، اپنی شادی کرنے میں مختار ہے۔ جس طرح کہ مرد کا ہے رضا نکاح نہیں ہوسکتا، اسی طرح عورت کی بلا رضا مندی نکاح نہیں ہوسکتا۔
وہ اپنی تمام جائیداد کی خود مالک اور مختار ہے اور ہر طرح اس میں تصرف کرنے کا اس کو اختیار حاصل ہے۔
وہ مثل مرد کے ہر قسم کے معاہدے کی صلاحیت رکھتی ہے، اور اس کی ذات ، اور اس کی جائداد ، أن معاہدوں اور دستاویزوں کی بابت جواب دہ ہے، جو اس نے تحریر کی ہوں۔
جو جائیداد قبل شادی اور بعد شادی اس کی ملکیت میں آئی ہو؛ وہ خود اس کی مالک ہے، اور خود اس کے محاصل کی لینے والی ہے۔
وہ مثل مرد کے دعوی بھی کرسکتی ہے، اور اس پر بھی دعویٰ ہوسکتا ہے۔
وہ اپنے مال سے ہر ایک جائداد خرید سکتی ہے، اور جو چاہے اس کو بیع کرسکتی ہے۔ وہ مثل مرد کے ہرقسم کی جائداد کو ہبہ ، اور وصیت اور وقف کرسکتی ہے، وہ رشتہ داروں اور شوہر کی جائداد میں سے بہ ترتیب وراثت ورثہ پاسکتی ہے۔
وہ تمام مذ ہی نیکیوں کو جو مرد حاصل کرسکتا ہے حاصل کرسکتی ہے۔
وہ تمام گناہوں اور ثواب کے عوض دنیا اور آخرت میں وہی سزاو جزا پاسکتی ہے، جو مرد پاسکتا ہے ۔
اس مقام پر جو ہم کو بحث ہے، وہ صرف مردوں کے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک، اورحسن معاشرت اور تواضع اور خاطر داری اور محبت اور پاس خاطر اور ان کی آسائش اور آرام اور خوشی اور فرحت کی طرف متوجہ ہونا اور ان کو ہر طرح پرخوش رکھنا، اور بعض اس کے کہ عورتوں کو اپنا خدمت گذار تصور کریں، ان کو اپنا انیس اور جلیس، اور رنج و راحت کا شریک اور اپنے کو ان کی اور ان کو اپنی باعث مسرت اور تقویت کے سمجھنے پر، بحث ہے بلاشبہ جہاں تک کہ ہم کو معلوم ہے، تربیت یافتہ ملکوں میں عورتوں کے ساتھ یہ تمام مراتب بخوبی برتے جاتے ہیں اور مسلمان ملکوں میں ویسے نہیں برتے جاتے ، نعود بالله منها !
مہذب قوموں نے، باوجود یہ کہ ان کے یہاں کا قانون نسبت عورتوں کے نہایت ہی ناقص اور خراب تھا، اپنی عورتوں کی حالت کو نہایت اعلی درجے کی ترقی پر پہنچایا ہے، اور مسلمانوں نے، باوجود یہ کہ ان کا مزہبی قانون نسبت عورتوں کے، اور ان کی حالت بہتری کے تمام دنیا کے قوانین سے بہتر اور عمدہ تھا مگر انھوں نے اپنے نامہذب ہونے سے ایسا خراب برتاؤ عورتوں کے ساتھ اختیار کیا ہے، جس کے سبب تمام قومیں ان کی حالت پرہنستی ہیں اور ہماری ذاتی برائیوں کے سبب، اس وجہ سے کہ قوم کی قوم ایک حالت پر ہے الا ماشاء اللہ اس قوم کے مذہب پر عیب لگاتی ہیں۔
پس اب یہ زمانہ نہیں ہے کہ ہم ان باتوں کی غیرت نہ کریں اور اپنے چال چلن کو درست نہ کریں اور جیسا کہ مذہب اسلام روشن ہے، خود اپنے چال چلن سے اس کی روشنی کا ثبوت لوگوں کو نہ دکھائیں۔ (تلخیص)

سرسید احمد خاں
(1817 - 1898)
سید احمد خاں دہلی کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ سید احمد نے اپنے زمانے کے اہل کمال سے فیض حاصل کیا۔ 1839 میں انھوں نے انگریزی سرکار کی ملازمت اختیار کی اور اس سلسلے میں مختلف شہروں میں ان کی تقرری ہوئی ۔ 1862 میں جب وہ غازی پور میں تھے، انھوں نے سائنٹفک سوسائٹی کے نام سے ایک انجمن بنائی۔ اس انجمن کا مقصد ہندوستانیوں میں مختلف علوم، خاص کر سائنسی علوم کے مطالعے کو فروغ دینا تھا۔ 1869 میں سید احمد خاں ایک سال کے لیے انگلستان گئے ۔ واپس آکر انہوں نے انگریزی کے علمی اور سما جی رسالوں کی طرز پر اپنا ایک رسالہ ،تہذیب الاخلاق، جاری کیا۔ اس سے اردو میں مضمون نگاری کو بہت ترقی ملی۔
سید احمد خاں نے علی گڑھ میں 1857 میں ایک اسکول قائم کیا۔ یہ اسکول 1878 میں محمڈن اینگلو اورنیٹل کالج اور پھر 1920 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل میں ہندوستان کا ایک نمایاں تعلیمی ادارہ بن گیا۔ 1878 میں سید احمد خاں کو 'سر' کا خطاب ملا۔ اس لیے لوگ انھیں 'سرسید' کے نام سے جانتے ہیں ۔ سرسید آخر عمر تک قومی سرگرمیوں، کالج کی دیکھ بھال اور تصنیف و تالیف میں مشغول رہے۔ ان کی متعدد تصانیف میں 'آثارالصنادید' ، 'اسباب بغاوت ہند' اور 'سرکشی ضلع بجنور ' خاص طور پر اہمیت رکھتی ہیں۔ ان کے مضامین کئی جلدوں میں شائع ہوئے جن میں سائنس، فلسفہ، مذہب اور تاریخ سے متعلق مضامین ہیں۔
سر سید نے لمبی لمبی تحریروں کے بجائے چند صفحات میں کام کی بات کہنے کا طریقہ رائج کیا۔ اردو ایسے (Essay) اور انشائیہ نگاری کی روایت کو فروغ دینے میں سرسید اور ان کے رفیقوں نے نمایاں رول ادا کیا ہے۔ سرسید اپنے زمانے کے بڑے مصلحین میں شمار کیے جاتے ہیں ۔ انھوں نے زندگی کے ہر شعبے میں اصلاح کا بیڑہ اٹھایا۔ اپنی قوم کو جدید تعلیم کی طرف مائل کرنے میں وہ ہمیشہ سرگرم رہے۔ 'عورتوں کے حقوق' پر ان کا یہ مضمون بھی ان کی اصلاحی خدمات کی ترجمانی کرتا ہے۔
خلاصہ:
 عورتوں کے حقوق سرسید احمد خاں کے ایک طویل مضمون کی تلخیص ہے۔ اس مضمون میں سرسید نے عورتوں کے حقوق پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ کہتے ہیں تربیت یافتہ ملک (مغربی ممالک) یہ شور مچاتے ہیں کہ اپنی پیدائش کے اعتبار سے عورت اور مرد برابر ہیں، اسلئے عورتوں کو حقیر سمجھنے کے بجائے مردوں کے برابر سمجھاجائے۔
سرسید کہتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں کے حقوق اور ان کے اختیارات کو مردوں کے برابر کیا ہے۔ مسلمانی قانون میں عورتوں کے مردوں کے برابر اور اختیارات دئے گئے ہیں جبکہ تربیت یافتہ ممالک میں ایسا نہیں ہے۔ اس کے بعد سرسید مثالیں دے کر بتاتے ہیں کہ حالت نابالغی سے لے کر بالغ ہونے تک جو حقوق مردوں کے ہیں وہی عورتوں کے بھی ہیں۔ بالغ ہونے کے بعد ایک عورت اپنی شادی کرنے کی مختار ہے جو جائداد اس کی ملکیت میں ہے اسے فروخت کرسکتی ہے۔ جائداد خرید سکتی ہے، اور وراثت کی ترتیب کے اعتبار سے رشتہ داروں اور شوہر کی جائداد میں حصہ پاسکتی ہے۔ وہ تمام اچھے اور برے کاموں میں مرد کے برابر ہی سزا اور جزا پاسکتی ہے۔
اس کے بعد سر سید کہتے ہیں کہ فرق یہ ہے کہ بعض مقامات پر مرد عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے اور ان کے ساتھ خادماوں جیسا سلوک کرتے ہیں۔ مہذب قوموں نے جن کے یہاں عورتوں کے تعلق سے قانون ناقص تھا اور خراب تھا، اپنی عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور اعلی درجہ کی ترقی پر پہنچایا جبکہ ہم نے ایسا نہیں کیا اسی لئے مہذب قو میں ہم پر ہنستی ہیں ہمیں چاہئے کہ عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں اور اسلام نے عورتوں کو جو حقوق دئے ہیں اس کا خیال رکھیں۔ اپنے ذاتی چال چلن سے اسلام کو رسوا نہ کریں۔
غور کرنے کی بات: 
اس مضمون میں سرسید نے عورتوں کے حقوق پر روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ مذہب اسلام میں عورت اور مرد کو برابرکا درجہ دیا گیا ہے۔

سوالوں کے جواب:
1۔اسلام میں عورتوں کو کیا حقوق اور اختیارات دیے گئے ہیں؟
جواب:اسلام نے مردوں کے برابر حقوق اور اختیارات دئے ہیں ۔ حالات نابالغی سے لے کر بالغ ہونے تک جو اختیارات مردوں کے ہیں، وہی عورتوں کے بھی ہیں۔ کوئی مرد کسی عورت سے زبردستی شادی نہیں کرسکتا۔ عورت اپنی شادی خود کرنے کی مختار ہے۔ عورت کو شادی سے قبل اور شادی کے بعد جو جائداد ملے وہ اس کی خود مالک ہے، اور جس طرح چاہے اس کا استعمال کرسکتی ہے۔ وہ اپنے مال سے جائیداد خرید سکتی ہے اور بیچ بھی سکتی ہے۔ جس طرح تمام گناہوں اور ثواب کے عوض عورت دنیا اور آخرت میں جزاوسزا پاسکتی ہے جومرد پاسکتا ہے۔
2- تربیت یافتہ ملکوں میں عورتوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے؟
جواب:تربیت یافتہ ملکوں میں عورتوں کے تعلق سے قانون نہایت ناقص اور خراب تھا لیکن مردوں نے
اپنے اچھے رویے اور حسن سلوک سے عورتوں کو نہایت اعلی درجے کی ترقی پر پہنچایا۔
3۔مردوں کو عورتوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرنا چاہیے؟
جواب:مردوں کو عورتوں کے ساتھ ہمیشہ اچھا سلوک کرنا چاہیے، ان کی آسائش، آرام اور خوشی کا خیال رکھیں، انہیں اپنا خدمت گزار سمجھنے کے بجائے اپنا ہمدم ، دوست اور رنج وراحت کا شریک سمجھیں۔
عملی کام :
  ہمارے ملک میں عورتوں کی حالت پر ایک مختصر مضمون لکھیے۔
  مختلف شعبوں میں شہرت حاصل کرنے والی پانچ ہندوستانی عورتوں کے نام لکھیے۔

Sunday, 15 November 2020

Bhola By Rajinder Singh Bedi NCERT Class 10 Nawa e Urdu

بھولا

راجندر سنگھ بیدی

میں نے مایا کو پتھر کے ایک کوزے میں مکھن رکھتے دیکھا۔ چھاچھ کی کھٹاس کو دور کرنے کے لیے مایا نے کوزے میں پڑے ہوئے مکھن کو کنوئیں کے صاف پانی سے کئی بار دھویا۔ اس طرح مکھن کے جمع کرنے کی کوئی خاص وجہ تھی۔ ایسی بات عموماً مایا کے کسی عزیز کی آمد کا پتہ دیتی تھی۔ ہاں! اب مجھے یاد آیا دو دن کے بعد مایا کا بھائی اپنی بیوہ بہن سے راکھی بندھوانے کے لیے آنے والا تھا۔ یوں تو اکثر بہنیں بھائیوں کے یہاں جا کر انھیں راکھی باندھتی ہیں مگر مایا کا بھائی اپنی بہن اور بھانجے سے ملنے کے لیے خود ہی آجایا کرتا تھا اور راکھی بندھوا لیا کرتا تھا۔ راکھی بندھوا کر وہ اپنی بیوہ بہن کو یقین دلاتا تھا کہ اگر چہ اس کا سہاگ لٹ گیا ہے مگر جب تک اس کا بھائی زندہ ہے ، اس کی رکھشا، اس کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لیتا ہے۔ ننھے بھولے نے میرے اس خیال کی تصدیق کردی ۔ گنا چوستے ہوئے اس نے کہا "بابا ! پرسوں ماموں جی آئیں گے نا۔۔۔۔؟

میں نے اپنے پوتے کو پیار سے گود میں اٹھا لیا۔ بھولے کا جسم بہت نرم و نازک تھا اور اس کی آواز بہت سریلی تھی جیسے کنول کی نزاکت اور سپیدی ، گلاب کی سرخی اور بلبل کی الحانی کو اکٹھا کر دیا ہو۔ اگر چہ بھولا میری لمبی اور گھنی داڑھی سے گھبرا کر مجھے اپنا منہ چومنے کی اجازت نہ دیتا تھا۔ تاہم میں نے زبردستی اس کے سرخ گالوں پر پیار کی مہر ثبت کردی ۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا

بھولے- تیرے ماموں جی۔۔۔۔۔  تیری ماتا جی کے کیا ہوتے ہیں؟

بھولے نے کچھ تامل کے بعد جواب دیا۔”ماموں جی"۔

مایا نے استوتر پڑھنا چھوڑ دیا اور کھلکھلا کر ہنسنے لگی۔ میں اپنی بہو کے اس طرح کھل کر ہنسنے پر دل ہی دل میں بہت خوش ہوا۔ مایا بیوہ تھی اور سماج اسے اچھے کپڑے پہننے اور خوشی کی بات میں حصہ لینے سے بھی روکتا تھا۔ میں نے بار ہا مایا کو اچھے کپڑے پہنے ہنسنے کھیلنے کی تلقین کرتے ہوئے سماج کی پروا نہ کرنے کے لیے کہا تھا ۔ مگر مایا نے از خود اپنے آپ کو سماج کے روح فرسا احکام کے تابع کرلیا تھا۔ اس نے اپنے تمام اچھے کپڑے اور زیورات کی پٹاری ایک صندوق میں مقفل کر کے چابی ایک جوہڑ میں پھینک دی تھی۔

مایا نے ہنستے ہوئے اپنا پاٹھ جاری رکھا۔

 

             ہری ہری ہری ہر، ہری ہر، ہری

             میری بار کیوں دیر اتنی کری

پھر اس نے اپنے لال کو پیار سے بلاتے ہوئے کہا۔

’’ بھولے تم ننھی کے کیا ہوتے ہو؟“

  ’’بھائی !‘‘ بھولے نے جواب دیا۔

"اسی طرح تیرے ماموں جی میرے بھائی ہیں ۔"

بھولا یہ بات نہ سمجھ سکا کہ ایک شخص کس طرح ایک ہی وقت میں کسی کا بھائی اور کسی کا ماموں ہوسکتا ہے۔ وہ تو اب تک یہی سمجھتا آیا تھا کہ اس کے ماموں جان اس کے با با جی کے بھی ماموں جی ہیں ۔ بھولے نے اس مخمصے میں پڑنے کی کوشش نہ کی اور اچک کر ماں کی گود میں جا بیٹھا اور اپنی ماں سے گیتا سننے کے لیے اصرار کرنے لگا۔ وہ گیتا محض اس وجہ سے سنتا تھا کہ وہ کہانیوں کا شوقین تھا اور گیتا کے ادھیائے کے آخر میں مہاتم سن کر وہ بہت خوش ہوتا اور پھر جو ہڑ کے کنارے اگی ہوئی دوب کی مخملی تلواروں میں بیٹھ کر گھنٹوں ان مہاتموں پر غور کیا کرتا۔

مجھے دو پہر کو اپنے گھر سے چھ میل دور اپنے مزرعوں میں پہنچنا ہوتا تھا۔ بوڑھا جسم، اس پر مصیبتوں کا مارا ہوا جوانی کے عالم میں تین تین من بوجھ اٹھا کر دوڑا کیا مگر اب بیس سیر بوجھ کے نیچے گردن پچکنے لگتی ہے۔ بیٹے کی موت نے امید کو یاس میں تبدیل کر کے کمرتوڑ دی تھی۔ اب میں بھولے کے سہارے ہی جیتا تھا ورنہ دراصل تو مر چکا تھا۔

رات کو میں تکان کی وجہ سے بستر پر لیٹتے ہی اونگھنے لگا۔ ذرا توقف کے بعد مایا نے مجھے دودھ پینے کے لیے آواز دی۔ میں اپنی بہو کی سعادت مندی پر دل ہی دل میں بہت خوش ہوا اور اسے سیکڑوں دعائیں دیتے ہوئے میں نے کہا۔

"مجھے بوڑھے کی اتنی پروا نہ کیا کرو بٹیا‘‘ -

۔۔۔۔۔بھولا ابھی تک نہ سویا تھا۔ اس نے ایک چھلانگ لگائی اور میرے پیٹ پر چڑھ گیا ، بولا۔ باباجی ! آپ آج کہانی نہیں سنائیں گے کیا؟

نہیں بیٹا میں نے آسمان پر نکلے ہوئے ستاروں کو دیکھتے ہوئے کہا۔ میں آج بہت تھک گیا ہوں ۔ کل دوپہر کو سناؤں گا۔"

بھولے نے روٹھتے ہوئے جواب دیا۔ "میں تمھارا بھولا نہیں بابا ۔ میں ماتا جی کا بھولا ہوں۔“

بھولا بھی جانتا تھا کہ میں نے اس کی ایسی بات کبھی برداشت نہیں کی ۔ میں ہمیشہ اس سے یہی سننے کا عادی تھا کہ ” بھولا بابا جی کا ہے ماتا جی کا نہیں۔ مگر اس دن ہلوں کو کندھے پر اٹھا کر چھ میل تک لے جانے اور پیدل ہی واپس آنے کی وجہ سے میں بہت تھک گیا تھا۔ شاید میں اتنا نہ تھکتا اگر میرا نیا جوتا ایڑی کو نہ دباتا اور اس وجہ سے میرے پاؤں میں ٹیسیں نہ اٹھتیں ۔ اس غیر معمولی تھکن کے باعث میں نے بھولے کی وہ بات بھی برداشت کی ۔ میں آسمان میں ستاروں کو دیکھنے لگا ۔ آسمان کے جنوبی گوشے میں ایک ستارہ مشعل کی طرح روشن تھا غور سے دیکھنے پر وہ مدھم ہونے لگا۔ میں اونگھتے اونگھتے سوگیا۔

صبح ہوتے ہی میرے دل میں خیال آیا کہ بھولا سوچتا ہوگا کہ کل رات بابا نے میری بات کس طرح برداشت کی ؟ میں اس خیال سے لرز گیا کہ بھولے کے دل میں کہیں یہ خیال نہ آیا ہو کہ اب بابا میری پروا نہیں کرتے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ صبح کے وقت اس نے میری گود میں آنے سے انکار کر دیا اور بولا ۔

"میں نہیں آؤں گا۔ تیرے پاس بابا‘‘

" کیوں بھولے؟"

"بھولا بابا جی کا نہیں۔۔۔۔۔۔ بھولا ما تا جی کا ہے۔"

میں نے بھولے کو مٹھائی کے لالچ سے منا لیا، اور چند ہی لمحات میں بھولا باباجی کا بن گیا اور اپنی ننھی ٹانگوں کے گرد میرے جسم سے لپٹے ہوئے کمبل کو لپیٹنے لگا۔ مایا ہری ہر استوتر پڑھ رہی تھی۔ پھر اس نے پاؤ بھر مکھن نکالا اور اسے کوزے میں ڈال کر کنویں کے صاف پانی سے چھاچھ کی کھٹاس کو دھوڈالا ۔ اب مایا نے اپنے بھائی کے لیے سیر کے قریب مکھن تیار کر لیا تھا۔ میں بہن بھائی کے اس پیار کے جذبے پر دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا۔ اتنا خوش کہ میری آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔ میں نے دل میں کہا عورت کا دل محبت کا ایک سمندر ہوتا ہے۔ ماں ، باپ، بہن ، بھائی ، خاوند ، بچے سب سے وہ بہت ہی پیار کرتی ہے اور اتنا کرنے پربھی دوختم نہیں ہوتا۔ ایک دل کے ہوتے ہوئے بھی وہ سب کو اپنا دل دے دیتی ہے۔ بھولے نے دونوں ہاتھ میرے گالوں کی جھریوں پر رکھے مایا کی طرف سے چہرے کو ہٹا کر اپنی طرف کر لیا اور بولا۔

بابا تمھیں اپنا وعدہ یاد ہے نا۔۔۔۔۔۔؟"

" کس بات کا بیٹا؟‘‘

تمھیں آج دوپہر کو مجھے کہانی سنانی ہے۔“

"ہاں بیٹا۔" میں نے اس کا منہ چومتے ہوئے کہا۔

یہ تو بھولا ہی جانتا ہو گا کہ اس نے دوپہر کے آنے کا کتنا انتظار کیا ۔ بھولے کو اس بات کا علم تھا کہ بابا جی کے کہانی سنانے کا وقت وہی ہوتا ہے جب وہ کھانا کھا کر اس پلنگ پر جا لیٹتے ہیں جس پر وہ بابا جی یا ماتا جی کی مدد کے بغیر نہیں چڑھ سکتا تھا۔ چنانچہ وقت سے آدھ گھنٹے پیشتر ہی اس نے کھانا نکلوانے پر اصرار شروع کر دیا۔ میرے کھانے کے لیے نہیں بلکہ اپنی کہانی سنے کے چاؤ سے۔

میں نے معمول سے آدھ گھنٹہ پہلے کھانا کھایا۔ ابھی آخری نوالہ میں نے توڑا ہی تھا کہ پٹواری نے دروازے پر دستک دی۔ اس کے ہاتھ میں ہلکی سی ایک جریب تھی۔ اس نے کہا کہ خانقاہ والے کنویں پر آپ کی زمین کو ناپنے کے لیے مجھے آج ہی فرصت مل سکتی ہے ، پھر نہیں۔

دالان کی طرف نظر دوڑائی تو میں نے دیکھا، بھولا چارپائی کے چاروں طرف گھوم کر بستر بچھا رہا تھا۔ بستر بچھانے کے بعد اس نے ایک بڑا سا تکیہ بھی ایک طرف رکھ دیا اور پائینتی پر پاؤں اڑا کر چار پائی پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ اگر چہ بھولے کا اصرار مجھے جلد روٹی کھلانا اور بستر بچھا کر میری تواضع کرنا اپنی خود غرضی پر مبنی تھا تاہم میرے خیال میں آیا۔

’’ آخر مایا کا بیٹا ہی ہے نا ایشور اس کی عمر دراز کرے۔"

میں نے پٹواری سے کہا تم خانقاہ والے کنویں کو چلو اور میں تمھارے پیچھے پیچھے آجاؤ نگا۔ جب بھولے نے دیکھا کہ میں باہر جانے کے لیے تیار ہوں تو اس کا چہرہ اس طرح مدھم پڑگیا جس طرح گزشتہ شب آسمان کے ایک کونے میں مشتعل کی مانند روشن ستاره مسلسل دیکھتے رہنے کی وجہ سے ماند پڑ گیا تھا۔ مایا نے کہا۔

”بابا جی اتنی بھی کیا جلدی ہے؟ خانقاہ والا کنواں کہیں بھاگا تو نہیں جاتا۔ آپ کم سے کم آرام تو کر لیں ۔

’’اوں ہوں‘‘ میں نے زیرلب کہا۔ " پٹواری چلا گیا تو یہ کام ایک ماہ سے ادھر نہ ہو سکے گا۔“

مایا خاموش ہوگئی ۔ بھولا منہ بسورنے لگا۔ اس کی آنکھیں نمناک ہوگئیں۔ اس نے کہا۔ ” بابا میری کہانی، میری کہانی “

"بھولے میرے بچے۔" میں نے بھولے کو ٹالتے ہوئے کہا۔ دن کو کہانی سنانے سے مسافر راستہ بھول جاتے ہیں ۔ راستہ بھول جاتے ہیں ؟‘‘ بھولے نے سوچتے ہوئے کہا۔ بابا تم جھوٹ بولتے ہو میں بابا جی کا بھولا نہیں بنتا‘‘

اب جب کہ میں تھکا ہوا بھی نہیں تھا اور پندرہ بیس منٹ استراحت کے لیے نکال سکتا تھا بھلا بھولے کی اس بات کو آسانی سے کس طرح برداشت کر لیتا۔ میں نے اپنے شانے سے چادر اتار کر چار پائی کی پائینتی پر رکھی اور اپنی دبتی ہوئی ایڑی کو جوتی کی قید سے نجات دلاتے ہوئے پلنگ پر لیٹ گیا ۔ بھولا پھر اپنے بابا کا بن گیا۔ لیٹتے ہوئے میں نے بھولے سے کہا۔

اب کوئی مسافر راستہ کھو بیٹھے تو اس کے تم ذمہ دار ہو۔"

اور میں نے بھولے کو دوپہر کے وقت سات شہزادوں اور سات شہزادیوں کی ایک لمبی کہانی سنائی ۔ کہانی میں ان کی باہمی شادی کو میں نے معمول سے زیادہ دلکش انداز میں بیان کیا ۔ بھولا ہمیشہ اس کہانی کو پسند کرتا تھا جس کے آخر میں شہزادہ اور شہزادی کی شادی ہو جائے مگر میں نے اس روز بھولے کے منہ پر خوشی کی کوئی علامت نہ دیکھی بلکہ وہ افسردہ سا منہ بنائے خفیف طور پر کانپتا رہا۔

اس خیال سے کہ پٹواری خانقاہ والے کنویں پر انتظار کرتے کرتے تھک کر اپنی ہلکی ہلکی جھنکار پیدا کرنے والی جر یب جیب میں ڈال کر کہیں اپنے گاؤں کا رخ نہ کرلے میں جلدی جلدی مگر اپنے نئے جوتے میں دبتی ہوئی ایڑی کی وجہ سے لنگڑاتا ہوا بھاگا ۔ گو مایا نے جوتی کو سرسوں کا تیل لگا دیا تھا تاہم وہ نرم مطلق نہ ہوئی تھی۔

شام کو جب میں واپس آیا تو میں نے بھولے کو خوشی سے دالان سے صحن میں اورصحن سے دالان میں کودتے پھاندتے دیکھا۔ وہ لکڑی کے ایک ڈنڈے

کو گھوڑا بنا کر اسے بھگا رہا تھا اور کہہ رہا تھا۔

 

"چل ماموں جی کے دیس ۔۔۔۔۔۔۔ رے گھوڑے ، ماموں جی کے دیس۔

ماموں جی کے دیس ، ہاں ، ہاں !ماموں جی کے دلیس ۔ گھوڑے۔۔۔۔۔

  جوں ہی میں نے دہلیز میں قدم رکھا۔ بھولے نے اپنا گانا ختم کر دیا اور بولا۔

بابا۔۔۔۔ آج ماموں جان آئیں گے نا؟‘‘

پھر کیا ہو گا بھولے ؟ میں نے پوچھا۔

"ماموں جان اگن بوٹ لائیں گے۔ ماموں جی کلو(کتا) لائیں گے۔ ماموں جی کے سر پر مکی کے بھٹوں کا ڈھیر ہوگا نا بابا ہمارے یہاں تو مکی ہوتی ہی نہیں بابا اور تو اور ... ایسی مٹھائی لائیں گے جو آپ نے خواب میں بھی نہ دیکھی ہوگی ۔"

میں حیران تھا اور سوچ رہا تھا کہ کس خوبی سے "خواب میں بھی نہ دیکھی ہوگی‘‘ کے الفاظ سات شہزادوں اور سات شہزادیوں والی کہانی کے بیان میں سے اس نے یاد رکھے تھے۔ "جیتا رہے" میں نے دعا دیتے ہوئے کہا۔ بہت ذہین لڑکا ہوگا اور ہمارے نام کو روشن کرے گا۔

شام ہوتے ہی بھولا دروازے میں جا بیٹھا تا کہ ماموں جی کی شکل دیکھتے ہی اندر کی طرف دوڑے اور پہلے پہل اپنی ماتا جی کو اور پھر مجھے اپنے ماموں جی کے آنے کی خبر سنائے۔

دیوں کو دیا سلائی دکھائی گئی ۔ جوں جوں رات کا اندھیرا گہرا ہوتا جاتا۔ دیوں کی روشنی زیادہ ہوتی جاتی ۔ متفکر انہ لہجے میں مایا نے کہا۔

"بابا جی...... ابھی تک نہیں آئے “

"کسی کام کی وجہ سےٹھہر گئے ہوں گے "۔

"ممکن ہے کوئی ضروری کام آپڑا ہو۔ راکھی کے رویئے ڈاک میں بھیج دیں گے ۔" مگر راکھی؟"

باں راکھی کی کہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انھیں اب تک تو آجانا چاہیے تھا۔"

میں نے بھولے کو زبردستی دروازے کی دہلیز پر سے اٹھایا۔ بھولے نے اپنی ماتا جی سے بھی زیادہ متفکرانہ لہجے میں کہا "ماتا جی ۔۔۔۔۔ ماموں جی کیوں نہیں آئے؟"

مایا نے بھولے کو گود میں اٹھاتے ہوئے اور پیار کرتے ہوئے کہا۔ شاید صبح کو آجائیں تیرے ماموں جی -

میرے بھولے !"

پھر بھولے نے اپنے نرم و نازک بازوؤں کو اپنی ماں کے گلے میں ڈالتے ہوئے کہا۔ ” میرے ماموں بھی تمھارے کیا ہوتے ہیں؟

جوتم ننھی کے ہو۔“

"بھائی ؟"

"تم جانو".......

"اوربنسی ( بھولے کا دوست ) کے کیا ہوتے ہیں ۔"

کچھ بھی نہیں..."

" بھائی بھی نہیں؟"

"نہیں۔۔۔۔۔"

.......اور بھولا اس عجیب بات کو سوچتا ہوا سو گیا ۔ جب میں اپنے بستر پر لیٹا تو پھر وہ مشعل کی مانند چمکتا ہوا ستاره آسمان کے ایک کونے میں میرے گھورنے کی وجہ سے ماند ہوتا ہوا دکھائی دیا۔ مجھے پھر بھولے کا چہرہ یاد آگیا جو میرے خانقاہ والے کنویں کو جانے پر تیار ہونے کی وجہ سے یوں ہی ماند پڑ گیا تھا۔ کتنا شوق ہے بھولے کو کہانی سننے کا۔ وہ اپنی ماں کو استوتر بھی پڑھنے نہیں دیتا۔ اتنا چھوٹا بچہ بھلا گیتا کو کیا سمجھے۔ مگر صرف اس وجہ سے کہ اس کے ادھیائے کا مہاتم ایک دلچسپ کہانی ہوتی ہے وہ نہایت صبر سے ادھیائے کے ختم اور مہاتم کے شروع ہونے کا انتظار کیا کرتا ہے۔

"مایا کا بھائی ابھی تک نہیں آیا۔ شاید نہ آئے ۔" میں نے دل میں کہا۔” اسے اپنی بہن کا پیار سے جمع کیا ہوا مکھن کھانے کے لیے تو آجانا چاہیے تھا۔ میں ستاروں کی طرف دیکھتے دیکھتے اونگھنے لگا۔ یکا یک مایا کی آواز سے میری آنکھ کھلی ۔ وہ دودھ کا کٹورا لیے کھڑی تھی۔

” میں نے کئی بار کہا ہے۔ تم میرے لیے اتنی تکلیف نہ کیا کرو۔۔ " میں نے کہا،

دودھ پینے کے بعد فرط شفقت سے میرے آنسو نکل آئے۔ حد سے زیادہ خوش ہو کر میں مایا کو یہی دعا دے سکتا تھا نا کہ وہ سہاگ وتی رہے۔ کچھ ایسا ہی میں نے کہنا چاہا مگر اس خیال کے آنے سے کہ اس کا سہاگ تو برس ہوئے لٹ گیا تھا میں نے کچھ نہ کچھ کہنے کی غرض سے اپنی رقت کو دباتے ہوئے کہا،

"بیٹی... تمھیں اس سیوا کا پھل ملے بغیر نہ رہے گا۔"

پھر میرے پہلو میں بچھی ہوئی چار پائی پر سے بھولا ننھی کو جو کہ اس کے ساتھ ہی سورہی تھی ، پرے دھکیلتے ہوئے اور آنکھیں ملتے ہوئے اٹھا ۔ اٹھتے ہی اس نے کہا،

"بابا ۔۔۔۔۔۔۔ ماموں جی ابھی تک کیوں نہیں آئے؟"

آجائیں گے بیٹا سو جاؤ ۔ وہ صبح سویرے آجائیں گے۔

اپنے بیٹے کو اپنے ماموں کے لیے اس قدر بیتاب دیکھ کر مایا بھی کچھ بیتاب ہوگئی ۔ عین اس طرح جس طرح ایک شمع سے دوسری شمع روشن ہوجاتی ہے۔ کچھ دیر کے بعد وہ بھولے کولٹا کر تھپکنے لگی۔

مایا کی آنکھوں میں بھی نیند آنے لگی ، یوں بھی جوانی میں نیند کا غلبہ ہوتا ہے اور پھر دن بھر کام کاج کر کے تھک جانے کی وجہ سے مایا گہری نیند سوتی تھی۔ میری نیند تو عام بوڑھوں کی سی نیند تھی۔ کبھی ایک آدھ گھنٹے تک سولیتا پھر دو گھنٹے جاگتا رہتا۔ پھر کچھ دیر اونگھنے لگ جاتا اور باقی رات اختر شماری کرتے گزار دیتا۔ میں نے مایا کوسو جانے کے لیے کہا اور بھولے کو اپنے پاس لٹا لیا۔

بتی جلتی رہنے دو ، صرف دھیمی کردو ۔۔ ۔۔ میلے کی وجہ سے بہت سے چور چکار ادھر ادھر گھوم رہے ہیں- ‘‘ میں نے سوئی ہوئی مایا سے کہا۔

سب سے بڑی بات یہ تھی کہ اس دفعہ میلے پر جو لوگ آئے تھے ان میں ایسے آدمی بھی تھے جو کہ ننھے ننھے بچوں کو اغوا کر کے لے جاتے تھے۔ پڑوس کے ایک گاؤں میں دو ایک ایسی وارداتیں ہوئی تھیں اور اسی لیے میں نے بھولے کو اپنے پاس لٹا لیا۔ میں نے دیکھا بھولا جاگ رہا تھا۔ اس کے بعد میری آنکھ لگ گئی۔

تھوڑی دیر کے بعد جب میری آنکھ کھلی تو میں نے بتی کو دیوار پر نہ دیکھا۔ گھبرا کر ہاتھ پسارا تو میں نے دیکھا کہ بھولا بھی بستر پر نہ تھا۔ میں نے اندھوں کی طرح در و دیوار سے ٹکراتے اور ٹھوکریں کھاتے ہوئے تمام چار پائیوں پر دیکھا ، مایا کو جگایا گھر کا کونہ کونہ چھانا بھولا کہیں نہ تھا ۔۔۔ !

"مایا ہم لٹ گئے۔" میں نے اپنا سر پیٹتے ہوئے کہا۔

مایا ماں تھی۔ اس کا کلیجہ جس طرح شق ہوا یہ کوئی اسی سے پوچھے۔ اپنا سہاگ لٹنے پر اس نے اتنے بال نہ نوچے تھے جتنے کہ اس وقت نوچے۔ اس کا دل بیٹھا جا رہا تھا اور وہ دیوانوں کی طرح چیخنیں مار رہی تھی۔ پاس پڑوس کی عورتیں شور سن کر جمع ہو گئیں اور بھولے کی گمشدگی کی خبر سن کر رونے پیئے لگیں۔

        میں عورتوں سے زیادہ پیٹ رہا تھا۔ آج میں نے ایک بازی گر کو اپنے گھر کے اندر گھورتے بھی دیکھا تھا مگر میں نے پروا نہیں کی تھی ۔ آہ ! وہ وقت کہاں سے ہاتھ آئے میں نے دعائیں کیں کہ کسی وقت کا دیا کام آجائے منتیں مانیں کہ بھولا مل جائے ۔ وہی اندھیرے گھر کا اجالا تھا۔ اس کے دم سے میں اور مایا جیتے تھے ۔ اسی کے آس سے ہم آڑے پھرتے تھے ۔ وہی ہماری آنکھوں کی بینائی ، وہی ہمارے جسم کی توانائی تھا۔ اس کے بغیر ہم کچھ نہ تھے۔

میں نے گھوم کر دیکھا۔ مایا بے ہوش ہوگئی تھی ۔ اس کے ہاتھ اندر کی طرف مڑ گئے تھے نسیں کھنچی ہوئی اور آنکھیں پتھرائی ہوئی تھیں اور عورتیں اس کی ناک بند کر کے ایک چمچے سے اس کے دانت کھولنے کی کوشش کررہی تھیں۔

میں سچ کہتا ہوں ایک لمحے کے لیے میں بھولے کو بھی بھول گیا۔ میرے پاؤں تلے کی زمین نکل گئی۔ ایک ساتھ گھر کے دو بشر جب دیکھتے دیکھتے ہاتھوں سے چلے جائیں تو اس وقت دل کی کیا کیفیت ہوتی ہے۔ میں نے لرزتے ہوئے ایشور کو برا بھلا کہا

کہ ان دکھوں کے دیکھنے سے پیشتر اس نے میری ہی جان کیوں نہ لے لی ۔ آہ ! مگر جس کی قضا آتی ہے اس کے سوا کسی اور کا بال تک بیکا نہیں ہوتا۔

قریب تھا کہ میں بھی مایا کی طرح گر پڑوں کہ مایا ہوش میں آ گئی۔ مجھے پہلے سے کچھ سہارا ملا ۔ میں نے دل میں کہا۔ ” میں ہی مایا کو سہارا دے سکتا ہوں اور اگر میں خود اس طرح حوصلہ چھوڑ دوں تو مایا کسی طرح نہیں بچ سکتی“ میں نے حواس جمع کرتے ہوئے کہا،

مایا بیٹی دیکھو ! مجھے یوں خانہ خراب مت کرو حوصلہ کرو۔ بچے اغوا ہوتے ہیں مگر آخرمل بھی جاتے ہیں ۔ بازی گر بچوں کو مارنے کے لیے نہیں لے جاتے ۔ پال کر بڑا کر کے کسی کام میں لانے کے لیے لے جاتے ہیں بھولا مل جائے گا۔"

ماں کے لیے یہ الفاظ بے معنی تھے۔ مجھے بھی اپنے اس طرح صبر کرنے پر گمان ہوا۔ گویا میں اس وجہ سے چپ ہو گیا ہوں کہ مجھے مایا کے مقابلے میں بھولے سے بہت کم پیار ہے مگر" نہیں"۔ میں نے کہا" آدمی کو ضرور کچھ حوصلہ دکھانا چاہیے۔"

اس وقت آدھی رات ادھرتی اور آدھی ادھر۔ جب ہمارا پڑوسی اس حادثے کی خبر تھانے میں پہنچانے کے لیے جو گاؤں سے دس کوس دور شہر میں تھا ، روانہ ہوا۔

باقی ہم سب ہاتھ ملتے ہوئے صبح کا انتظار کرنے لگے تا کہ دن نکلنے پر کچھ سجھائی دے۔

دفعتاً دروازہ کھلا اور ہم نے بھولے کے ماموں کو اندر آتے دیکھا۔ اس کی گود میں بھولا تھا۔ اس کے سر پر مٹھائی کی ٹوکریاں اور ایک ہاتھ میں بنتی تھی۔ ہمیں تو گویا دنیا کی تمام دولت مل گئی۔ مایا نے بھائی کو پانی پوچھا نہ خیریت اور اس کی گود سے بھولے کو چھین کر اسے چومنے لگی ۔ تمام اڑوس پڑوس نے مبارک باد دی ۔ بھولے کے ماموں نے کہا۔

مجھے کسی کام کی وجہ سے دیر ہوگئی تھی۔ دیر سے روانہ ہونے پر شب کی تاریکی میں میں اپنا راستہ گم کر بیٹھا تھا۔ یکا یک مجھے ایک جانب سے روشنی آتی دکھائی دی میں اس کی جانب بڑھا۔ اس خوفناک تاریکی میں پرس پور سے آنے والی سڑک پر بھولے کو بتی پکڑے

ہوئے کانٹوں میں الجھے ہوئے دیکھ کر میں ششدر رہ گیا۔ میں نے اس کے اس وقت وہاں ہونے کا سبب پوچھا تو اس نے جواب دیا"... کہ بابا جی نے آج دوپہر کے وقت مجھے کہانی سنائی تھی اور کہا تھا کہ دن کے وقت کہانی سنانے سے مسافر راستہ بھول جاتے ہیں تم دیر تک نہ آئے تو میں نے یہی جانا کہ تم راستہ بھول گئے ہو گے اور بابا نے کہا تھا اگر کوئی مسافر راستہ بھول گیا تو تم ذمہ دار ہو گے نا.... !!

راجندر سنگھ بیدی

(1915 - 1984)

راجندر سنگھ بیدی تحصیل ڈسکا ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد لاہور آگئے۔ 1932 میں طالب علمی کے زمانے میں انگریزی، اردو اور پنجابی میں نظمیں اور کہانیاں لکھنے لگے تھے۔ کچھ مدت بعد پوسٹ آفس لاہور میں کلرک ہو گئے ۔ 1943 میں ڈاک خانے کی ملازمت سے مستعفی ہو کر مرکزی حکومت کے پبلسٹی ڈپارٹمنٹ میں کام کیا اور اس کے بعد آل انڈیا ریڈیو میں بحیثیت اسٹاف آرٹسٹ کام کرنے لگے۔ 1948 میں جموں ریڈیو اسٹیشن کے ڈائرکٹر بنائے گئے لیکن ایک ہی سال میں استعفی دے کر بمبئی چلے گئے اور فلموں کے لیے لکھنے لگے۔ ان کے افسانوں کے چھے مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ دانہ و دام (1965)" گرہن“ (1942) آزادی سے پہلے شائع ہو چکے تھے۔ کوکھ جلی (1949)، "اپنے دکھ مجھے دے دو" (1965)، "ہاتھ ہمارے قلم ہوئے ‘‘(1974) اور مکتی بودھ" (1982) آزادی کے بعد منظر عام پر آئے۔ ڈراموں کے دو مجموعے ” بے جان چیزی‘‘ (1943) اور سات کھیل‘‘ (1946) شائع ہوئے۔ راجندر سنگھ بیدی کا ناولٹ ایک چادر میلی سی (1962) ان کی تصانیف میں سب سے زیادہ مشہور ہوا۔ راجندر سنگھ بیدی نے کچھ  فلمیںں بھی بنائیں جن میں ’’ دستک‘‘ خاصی مشہور ہوئی۔ "مرزا غالب“، ’’دیوداس "، "مدھومتی" اور "انورادھا" میں بیدی کے مکا لمے بہت مشہور ہوئے۔

بیدی کے افسانوں میں ایک ہمدرد انسان کی نرمی اور دردمندی ہے۔ وہ ہر چیز کو گہری نظر سے دیکھتے ہیں ۔ بیدی نے اپنے افسانوں میں نئی تشبیہیں، نئے استعارے اور کنایے وضع کیے ہیں

غور کرنے کی بات

اس افسانے میں بھولا کی بھولی بھالی با تئیں، اس کی ذہانت اور شرارت اور پھر اچانک اس کا غائب ہو جا نا دلچسپ اور پر اثر انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ افسانے میں بھولا کے کردار کے ذریعے ایک بچے کی نفسیات بڑی خوبی کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔

اس زمانے میں بیوہ عورت کا سماج میں کوئی مقام نہیں تھا اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ جس عورت کا شوہر مر گیا ہو اسے دنیا میں جینے کا حقدار نہیں ۔ نہ تو وہ اچھا کھانا کھا سکتی ہے نہ نگین لباس پہن سکتی ہے۔ مصنف نے اس افسانے میں بوڑھے دادا کے ذریعے سماج کے اس رویے کی مخالفت کی ہے تا کہ بیوہ عورت کو سماج میں بہتر مقام حاصل ہو سکے۔

سوالوں کے جواب :

1. بھولا گیتا شوق سے کیوں سنتا تھا۔

2۔ دوپہر میں کہانی سننے کے باوجود بھولا کے چہرے پر خوشی کیوں نہیں نظر آ رہی تھی؟

3. ’’ عورت کا دل محبت کا سمندر ہوتا ہے۔ مصنف نے یہ بات کیوں کہی ہے؟

4. بھولا کہاں چلا گیا تھا اور کیوں؟

عملی کام :

بھولا کی واپسی کے منظر کو اپنے الفاظ میں بیان کیجیے۔

  اس سبق میں کچھ محاورے آئے ہیں جیسے نام روشن کرنا، آپ بھی ایسے چند محاورے تلاش کر کے لکھیے۔ افسانے میں کچھ ہندی کے الفاظ آئے ہیں انھیں لکھیے۔ افسانے کے آغاز میں راکھی باندھنے کا ذکر آیا ہے۔ اس تہوار کا کیا نام ہے اور اسے کیسے منایا جاتا ہے، اس پر ایک مختصر نوٹ لکھیے۔

 

خوش خبری