آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Saturday 8 February 2014

فوٹو گیلری



آئینہ پیش کرتا ہے آپ کے لئے تصویروں کی ایک نئی گیلری

کسی بھی تصویر کو بڑی شکل میں دیکھنے لئے ماؤس کو تصویر پر لائیں

اپنی تصایر ہمیں بھیجیں اسے شائع کرنے میں ہمیں خوشی ہوگی۔

کے پتے پر ای میل کریں۔ merinazar2013@gmail.com تصاویر

  • Aaina The Mirror
    آئینہ کے مدیر حسنین مبشر عثمانی مدینہ منورہ میں روضہ پر حاضری کے بعد۔

  • Aaina The Mirror
    جھارکھنڈ کے جنگلوں کے درمیاں۔

  • Aaina The Mirror
    تاڑ کے یہ دو پیڑ کبھی ہمارے چھوٹے سے گاؤں سملہ کی شان ہوا کرتے تھے اور دور سے ہی اس گاؤں کی پہچان بنے ہوئے تھے۔لیکن آج کچھ لوگوں کی عاقبت نا اندیشی سے تاڑ کے یہ درخت کاٹ دیے گئے ہیں۔ اب یہ خوبصورت منظر صرف تصویر اور ہماری یادوں کا حصہ بن گئی ہیں۔

  • Aaina The Mirror
    جھارکھنڈ کے جنگلوں کے درمیاں سڑک سے نشیب کا ایک منظر۔

  • Aaina The Mirror
    رانچی کا برسا منڈا ہوائی اڈہ جس کے بورڈ پر حرف اے کی لائٹ خراب ہوگئی ہے لیکن انتظامیہ اس سے بے خبر ہے۔

  • Aaina The Mirror
    'وکاس' کے بورڈ تلے اپنی زندگی کے بوجھ کو ڈھوتا جھارکھنڈ کا ایک شہری۔

  • Aaina The Mirror
    دھنباد رانچی شاہراہ پر سڑک کنارے گھاٹ کا ایک خوبصورت منظر۔

ایک نئی فوٹو گیلری کے لئے یہاں کلک کریں


Thursday 6 February 2014

بچوں کے لئے نظمیں

عادل اسیر دہلوی کی چند نظمیں

ابو نے بتلایا

ابو نے بتلایا ہے
محنت سے ہے عزت
چھوٹے بڑے کی چاہت
ماں اور باپ کی شفقت
دنیا بھر کی دولت
ابو نے بتلایا ہے

امی نے فرمایا

امی نے فرمایا ہے
صبح سویرے اٹھو
نام خدا کا پڑھ لو
ناشتہ کرکے بچو
پھر مکتب کو جاؤ
  امی نے فرمایا ہے

Tuesday 4 February 2014

ذرا مسکرائیے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اقصیٰ عثمانی

ایک شخص کے پاس فون آیا۔
ہیلو مسٹر قادری ہیں۔
نہیں رانگ نمبر
رانگ نمبر ہے تو فون کاٹ دو۔
اس شخص  نے چھری اٹھائی اور فون کو درمیان سے کاٹ دیا۔

جو دھا اکبر: تاریخی سیریل یا بازاری تماشہ

ایک جانب جہاں تاریخی ناولوں کے پڑھنے کا رجحان کم ہو رہا ہے وہیں دوسری جانب مسلم حکمرانوں سے متعلق نئی نسل کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جا رہی  ہے۔ مسلم حکمرانوں کے وقار سے کھلواڑ کیا جارہا ہے۔اس سلسلہ میں سبھی ٹی وی چینلز پیش پیش ہیں۔۔
زی ٹی وی پر ان دنوں ایک سیریل جودھا اکبر دکھایا جا رہا ہے۔اس سیریل کے خلاف راجپوتوں نے زور دار احتجاج کیا لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اس سیریل میں شہنشاہ اکبر کو جس مضحکہ خیز انداز میں پیش کیا گیا وہ تاریخ دانوں کے لئے قابل اعتراض ہونا چاہئے تھا۔ہندوستان کے تاریخی ورثہ کی حفاظت کرنے والوں کا فرض ہے کہ وہ اس ملک کے سابق حکمرانوں کی اصل تاریخ کی بھی حفاظت کریں۔ اگر اس طرح ہندوستان کے شاندار ماضی سے کھلواڑ کیا جاتا رہا تواس ملک کے تابناک ماضی کی یہ مضحکہ خیز پیش کش ہمارے لئے شرمناک ہو جائے گی۔
سیریل بنانے والوں کو چاہئے کہ وہ اگر کسی تاریخی موضوع پر کام کر رہے ہیں تو وہ اس کے وقار کو بھی باقی رکھیں۔ صرف آغاز میں اس بات کا اعتراف کرلینے سے اپنی ذمہ داریوں سے دامن نہیں جھازا جا سکتا کہ اس سیریل کا تاریخی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔سوال کسی طبقے کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا نہیں بلکہ تاریخی  حقائق سے متعلق حقیقت بیانی سے گریز کرنے اور ملک کے سابق حکمرانوں کے وقار سے کھلواڑ کرنے کا ہے۔
سیریل جودھا اکبر میں جہاں بہت ساری کمیاں ہیں وہیں اس کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے  کہ اس کی زبان انتہائی ناقص ہے۔جن لوگوں نے فلم مغل اعظم دیکھی ہے ان کے سامنے تو یہ سیریل جہالت اور کٹھ پتلی کے ایک  تماشے سے زیادہ کچھ نہیں۔  

Monday 3 February 2014

رانگ سائیڈ

جی ہاں میں ہوں ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان مہندر سنگھ دھونی کے شہر میں۔ جھار کھنڈ کی راجدھانی رانچی۔لیکن یہاں بھی سب کچھ ہندوستانی کرکٹ ٹیم کی طرح الٹا ہی الٹا چل رہا ہے۔بیرون ملک ہندوستانی کرکٹ ٹیم کی مسلسل شکست نے شایددھونی کے چاہنے والوں کی بھی عقل سلب کرلی ہے۔یہاں سامنے سے آتے ہوئے اس آٹو کو دیکھئے۔اس نے شاید اس دو طرفہ سڑک کو بھی کرکٹ کا پچ سمجھ لیا ہے جہاں دونوں سروں سے ایک ہی پچ پر گیندیں ڈالی جاتی ہیں ہاں مگر کم از کم ٹریفک تو ون وے ہوتا ہے۔ یک ایسا ملک جہاں حادثوں کی تعداد پچھلے سبھی ریکارڈوں کو توڑتی نظر آتی ہے وہاں اس آٹو والے کو رانگ سائیڈ چلنے میں کوئی پریشانی نہیں۔ جی ہاں یہ بہار اور جھارکنڈ کی شاہراہوں کا ہی نہیں بلکہ ملک بھر کی دیگر شاہراہوں کا بھی عام نظارہ ہے۔ ا یہ آٹو والا جس نے خود کو تو خطرے میں ڈالا ہی ہے ساتھ ہی یہ کسی اور بڑے حادثے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
ملک بھر میں ٹریفک اصولوں کے تئیں بیداری پیدا کرنے کےساتھ ساتھ ایسے عناصر کی خلاف سختی کی سخت ضرورت ہے۔
(مدیر) 
  • Aaina The Mirror
    رانگ سائیڈ میں گاڑی چلاتا ایک شخص ۔ تصویر آئینہ

Sunday 2 February 2014

Al-Mujeeb - Urdu Zaban O Adab Mein Khanquah Mojibia Ki Khidmaat Number

المجیب
 (اردو زبان و ادب میں خانقاہ مجیبیہ کی خدمات نمبر)

 دینی اور علمی مجلہ المجیب اپنی سہ ماہی اشاعت مکمل کرچکا ہے۔اس موقع پر ادارہ نے ایک ضخیم نمبر شائع کیا ہے جس میں رسالہ المجیب کے تابناک سفر پر روشنی ڈالی گئی ہے اور انتہائی جامع اور مفید مضامین کو شامل کیا گیا ہے۔اس نمبر میں تاثرات کا ایک کالم بھی شامل اشاعت کیا گیا ہے۔ یہاں پیش ہے خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ،سملہ ضلع اورنگ آباد کے سجادہ نشیں شاہ محمد تسنیم عثمانی فردوسی سملوی کے تاثرات:(ادارہ)


دینی ، علمی و ادبی مجلہ ’’المجیب‘‘ اپنی سہ ماہی اشاعت کی ایک دہائی مکمل کررہا ہے ۔اردو رسائل کے لئے ایک مشکل دور میں تسلسل سے کسی ایسے مجلے کا شائع ہونا جس میں دنیا کی رنگارنگی سے درکنار اخروی نجات اور سنجیدہ علمی و دینی مضامین پر زیادہ زور ہویقیناً عزم محکم اور سعی پیہم کی زندہ مثال ہے۔ حضرت مولانا سید شاہ محمد آیت اللہ قادری مدظلہ العالی،زیب سجادہ مجیبی ،خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف کی زیر نگرانی اس علمی و ادبی مجلہ کی یہ باوقار اشاعت ان کے لئے جو اس دور پر فتن میں سنجیدہ علمی ،دینی ،معلوماتی اور ادبی تحریروں کے پڑھنے کے خواہاں ہیں ایک بیش قیمت تحفہ ہے۔
جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے ’’المجیب ‘ ‘ کو اسی آب و تاب سے شائع ہوتا دیکھ رہا ہوں۔والد محترم حضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسی سملوی ؒ ،زیب سجادہ خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ، سملہ ،ضلع اورنگ آبادکو اس رسالہ سے ذہنی، قلبی و روحانی لگاؤ تھا۔ان کے ذاتی کتب خانے میں ’’المعارف ‘‘کے شمارے بھی موجود تھے۔وہ بڑی بے صبری سے’’ المجیب‘‘ کے ہر شمارے کا انتظار کرتے اور جیسے ہی یہ رسالہ ان کے ہاتھوں میں آتا ایک ہی نشست میں اس کو مکمل پڑھنے کی سعی کرتے۔خانقاہ مجیبیہ کے بزرگوں اور اہل قلم حضرات سے ان کا قلبی تعلق ’’المجیب ‘‘سے ان کے عشق کا ایک بنیادی عنصر تھا۔ ۷۰ کی دہائی میں اس رسالے کا عروج قابل دید تھا۔خانقاہ مجیبیہ اور ملک کے نامور علما و مشائخ کی تحریریں اس مجلے کی زینت بن رہی تھیں۔ایک وقت ایسا بھی آیا جب ۱۹۸۰ میں ماہنامہ’’ المجیب ‘‘کی اشاعت کو وقتی طور پر روکنا پڑا۔ظاہر ہے یہ وقفہ نہ صرف خانقاہ کے اکابرین کے لئے بلکہ ادب کہ ان تشنہ لبوں کے لئے بھی انتہائی سخت تھا جواس رسالہ سے اپنی دینی ،فکری، ادبی و ذہنی پیاس بجھاتے تھے۔ اللہ کا شکر ہے آج سے دس سال قبل اس رسالہ کا ایک بار پھر اسی شان سے اجرا ہوا اور الحمد اللہ آج ’’المجیب ‘‘ اپنی از سر نو اشاعت کے خوبصورت دس سال مکمل کررہا ہے۔اپنی اشاعت کے دوسرے زرّیں دور میں المجیب کو سہ ماہی کرنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن وقت کی رفتار اتنی تیزہے کہ اس رسالہ کے ماہانہ سے سہ ماہی ہونے کا احساس بہت زیادہ نہیں رہا۔اس مجلے میں شامل ہونے والے علمی و تحقیقی مضامین اتنے ٹھوس اور معیاری ہیں کہ دوسرے رسائل کی طرح ایک ماہ میں اس کی مشمولات کو ہضم کر پانا آسان نہیں۔انتہائی جانفشانی سے تحریر کردہ یہ مضامین دیرپا اثرات کے حامل ہوتے ہیں۔ظاہر ہے اتنے محدود وسائل میں اس معیار کے رسالے کی ماہانہ اشاعت ایک مشکل امر ہے خاص کر ایسی صورت میں جب سنجیدہ اور ایک مخصوص مزاج کی تحریروں کے لکھنے اور پڑھنے والے کم ہوں۔المجیب کی خوش نصیبی ہے کہ اسے مضامین و مقالات کے لئے دوسروں کا منہ تکنے کی ضرورت نہیں۔ خود اس کے خزینے میں ایسے ایسے گوہر آبدار موجود ہیں جو دنیائے علم و تحقیق کی پیاس بجھانے اور ان کی راہ نمائی و قیادت کی صلاحیت رکھتے ہیں۔المجیب کی مسلسل کامیاب اشاعت کا راز اسی میں پنہاں ہے۔مالی دشواریاں المجیب کے لئے سد راہ بنیں لیکن اس کے سرپرستوں نے اپنی مخلصانہ کاوشوں اورجہد مسلسل سے اس پر قابو پایا۔آج اردو کی خدمت کا دعویٰ کرنے والے بڑے بڑے ادارے موجود ہیں لیکن خانقاہ مجیبیہ ،پھلواری شریف نے اردو زبان کی جو خاموش خدمت کی ہے وہ آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔دینی ،علمی و ادبی رسالوں میں المعارف سے المجیب تک کا سفر نہ صرف تشنگان علم بلکہ اردو زبان و ادب کی ایسی خاموش خدمت ہے جس کا اعتراف نہ کرنا نا انصافی اور نا شکری ہوگی۔
آج ہم صرف اس علمی و دینی مجلہ کے دس سال مکمل کرلینے کا جشن نہیں منا رہے بلکہ آج یہ امر بھی قابل تعریف ہے کہ خانقاہ مجیبیہ نے اپنے محدود وسائل کے باوجود اردو زبان وادب کی جو خدمت کی ہے وہ بے مثال ہے۔ یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ اردو شعر و ادب کی ترویج و اشاعت میں خانقاہوں کا عظیم حصّہ رہا ہے۔ ان خانقاہوں نے اردو کو اس کی اس بنیادی تہذیبی شکل میں زندہ رکھا جو فارسی سے قریب ترتھی۔ آج بھی خانقاہ مجیبیہ میں ایسے اہل علم موجود ہیں جو نہ صرف فارسی پر بھرپور دسترس رکھتے ہیں بلکہ اس زبان میں شاعری کرنے پر بھی قادر ہیں۔زیب سجادہ حضرت مولانا سید شاہ محمدآیت اللہ قادری ،مولانا الحاج سیدشاہ ہلال احمد قادری، مولانا شاہ بدر احمد مجیبی،مدیر المجیب ڈاکٹر شاہ فتح اللہ قادری اپنے اسلاف کے نقش قدم پر تشنگان علم اور اردو زبان و ادب کی خدمت میں مصروف ہیں۔ خانقاہ مجیبیہ میں اردو زبان و ادب کی یہ خدمات صرف ان رسائل تک محدود نہیں بلکہ یہاں تحقیقی ، علمی، دینی و ادبی کاموں کا ایک ذخیرہ موجود ہے۔ فیاض المسلمین امیرالشریعۃ مولانا سید شاہ محمد بدر الدین قادری پھلواروی قدس سرہ کی تالیف مبارکہ’’ احوال مولائے کائنات‘‘مع تحشیہ و تخریج ازسید شاہ آیت اللہ قادری ،اس دور میں شائع ہونے والی ایک ایسی علمی و ادبی کتاب ہے جس میں اس موضوع پر انتہائی عرق ریزی سے کام کیا گیا ہے اور اس کا بھرپور حق ادا کیا گیا ہے۔ اردو زبان و ادب کے لحاظ سے بھی یہ ایک بلند پایہ تصنیف ہے۔زبان کی سلاست اور تحریر کی روانی قابل دید ہے۔مولانا سید شاہ ہلال احمد قادری کی تالیف ’’سیرت پیر مجیب قدس سرہ‘‘ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔دارالاشاعت خانقاہ مجیبیہ ، پھلواری شریف ان نادر و نایاب تحریروں کو شائع کرکے امت مسلمہ اور اردو زبان و ادب کی ایک بیش بہا خدمت انجام دے رہا ہے۔مختصر تاثرات میں ان کا احاطہ ممکن نہیں ۔ خانقاہ مجیبیہ میں اردو زبان و ادب کی خدمات کا یہ ذکر سورج کو چراغ دکھانے کہ مترادف ہے۔ خانقاہ مجیبیہ کی علمی و ادبی خدمات کو کسی سند کی ضرورت نہیں ؂ مشک آں است کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید۔یہ ان بزرگوں کا فیض خاص ہے کہ ان کے آستانے سے آج بھی یہ خوشبو چمن میں پھیل رہی ہے اور انشاء اللہ تاقیامت پھیلتی رہے گی اور تشنگان علم دین اور شیدایان زبان و بیان اسی طرح فیضیاب ہوتے رہیں گے۔

ذرا مسکرائیے

مزاح ہماری زندگی کا ایک اہم جزو ہے۔یہاں ہم ملک کے نامور کارٹونسٹوں کے شکریے کے ساتھ ان کے کارٹونوں کی مدد سے ایک  سلسلہ شروع کر رہے پیش ہے اس سلسلہ کی پہلی کڑی۔۔۔۔۔
بڑے سائز میں دیکھنے کے لئے تصویر پر کلک کریں۔


Friday 31 January 2014

مسلم علاقوں میں گندگی،ذمہ دار کون؟(قسط۱)

دوسروں کے رہائشی علاقوں کو آپ حسرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ کاش آپ جہاں رہتے ہیں وہ علاقہ بھی اتنا ہی صاف ستھرا اور خوبصورت ہوتا۔اور اس کے لئے آپ سرکاری عملے کو کوستے بھی ہیں۔لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ کے علاقے کی بدحالی کے لئے جتنا انتظامیہ ذمہ دار ہے اتنے ہی ذمہ دار آپ بھی ہیں۔۔کیا آپ نے کبھی اس بات پر غور کیا ہے کہ آپ اپنے علاقے کو صاف ستھرا اور گندگی سے پاک رکھنے میں کتنا مددگار ہیں۔۔ زیادہ دور نہیں جائیں آپ خود اپنے کردار و عمل پر نظر ڈالیں۔صبح سویرے صفائی کرنے والا چھاڑو لگاکر جاتا ہے اور آپ اپنی چھت سے کوڑے کی تھیلی سڑک پر پھینک دیتے ہیں۔چاہے وہ کسی کے سر پہ ہی کیوں نہ جا گرے۔کیا یہ آپ کی ذمہ داری نہیں ہے کہ آپ اپنے کوڑے سڑک پر نہ پھینک کر اسے اپنے گھر میں رکھیں اور جب صفائی والا یا والی آے تو یہ اس کے حوالے کریں تاکہ آپ کے آس پاس کی جگہ صاف ستھری رہے۔
لیکن یہ صرف ایک پہلو ہے۔اس مچاملہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ انتظامیہ اپنی ذمہ داریوں سے نہیں بچ سکتا۔آپ کسی بھی مسلم علاقے میں جائیں گندگی سے آپ کا سانس لینا دوبھر ہوگا۔جابجا کوڑے کے ڈھیر اوران کی بدبو آپ کو ناک پر رومال رکھنے کے لئے مجبور کردے گی۔

Tuesday 28 January 2014

عرس حضور برہان ملت ؒ


ریاست جھارکھنڈ کے ضلع دھنباد کے شہر جھریا میں خلیفہ اعلیٰ حضرت برہان ملت حضرت مفتی برہان الحق جبل پوریؒ کے عرس کے موقع پر محلہ اوپر کلہی کی نوری مسجد روشنی سے جگمگاتی ہوئی۔اس موقع پر مسجد میں بعد نمازعشاء علماء کی تقاریر ہوئیں اور حضور برہان ملت کو نذرانۂ عقیدت پیش کیا گیا۔

میں مصور ہوں

آئینہ اپنے ننھے قارئین کے لئے مصوری کا ایک خاص صفحہ لے کر آیا ہے۔آئینہ کے ننھے مصور اپنی تخلیقات ہمیں بھیجیں۔ہم ان کے نام اور پتے کے ساتھ شائع کریں گے۔

  • Aaina The Mirror
    شبریٰ عثمانی، جھریا دھنباد

  • Aaina The Mirror
    اسریٰ عثمانی خدیجةالکبریٰ گرلس پبلک اسکول، جوگا بائی،ذاکر نگر، نئی دہلی

  • Aaina The Mirror
    صائمہ پروین، خدیجةالکبریٰ گرلس پبلک اسکول، جوگا بائی،ذاکر نگر، نئی دہلی


خوش خبری