آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Monday 6 April 2020

Information Technology - NCERT Solutions Class IX Urdu

Information Technology  Chapter 8 NCERT Solutions Urdu
(اس صفحہ پر ابھی کام جاری ہے)
انفارمیشن ٹیکنالوجی
(INFORMATION TECHNOLOGY)

انفارمیشن کا مطلب ہے اطلاعات ۔ ایک وقت تھا جب کہا جاتا تھا کہ جو جس قدر کم جانتا ہے اتنا ہی مزے میں ہے لیکن آج معاملہ اس کے برعکس ہے یعنی جو جس قدر کم جانتا ہے اتنا ہی گھاٹے میں ہے۔ یہ اکیسویں صدی ہے جسے”انفارمیشن ٹیکنالوجی‘‘ کی صدی کہا جاتا ہے۔ یہاں زیادہ سے زیادہ جانے والا ہی فائدے میں ہے۔ اس کی وجہ انسانی نفسیات ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان میں تجسّس کا مادہ ہے وہ ہر آن کچھ ’کرنا‘ اور’ ہونا‘ چاہتا ہے۔ اسی تجسّس نے ایسی ایسی ایجادات کرائیں کہ سائنس اورٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی ان پر غور کریں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ہم ایک باخبر اور ترقی یافتہ معاشرے میں سانس لے رہے ہیں۔ ہر پل ہر لمحہ کوئی نہ کوئی خبر یا اطلا ع ہمیں ملتی رہتی ہے۔
ذرا غور کیجیے کہ ابتدائی انسان نے بے خبری یا لاعلمی کی زندگی کس طرح گزاری ہوگی۔ دیوانوں کی طرح ادھر سے ادھر دوڑتا پھرتا ہوگا۔ اس کیفیت میں ذرا سی آہٹ ، انسانی یا حیوانی چیخ اور دھماکے سے اس کے پورے بدن میں سنسنی دوڑ جاتی ہوگی ۔ اس کی آنکھیں جن چیزوں کے دیکھنے کی عادی ہوگئی ہوں گی ، اس کے کان جن آوازوں سے مانوس ہو چکے ہون گے، ان سے ہٹ کر جو کچھ نظر آیا ہوگا اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا ہو گا ۔ جب پہلی مرتبہ ایک ڈھلان سے لڑھکتا ہوا گول پتھر اس کے سامنے آیا تو اس کی حرکت اور رفتار نے اسے کچھ کرنے پر اکسایا۔ پتھر کے اس لڑ ھکنے، چلنے اور گھومنے کے عمل نے اسے سوچنے پر مجبور کیا اور پھر اسی واقعہ سے پہیے کی ایجاد ہوئی اور انسان بے خبری کی دنیا سے باہر آیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے انسان پتھر کے عہد سےدست کاری اور پھر مشینی عہد میں پہنچ گیا۔ طرح طرح کی ایجادات نے باخبر اور مہذب معاشرہ میں رہنے کی تحریک دی۔ چنانچہ ہاتھ سے چلائی جانے والی مختلف کاموں کی مشینیں وجود میں آئیں ۔ کاغذ اور چھپائی کی مشین ( پرنٹنگ پریس) کی ایجاد نے انسان کو پوری دنیا سے باخبر رہنے اور اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کا وسیلہ فراہم کیا۔ کتابیں ، جرائد اور اخبارات نے خبروں کی فراہمی اور خبر رسانی کے مشکل عمل کو رفتہ رفتہ آسان سے آسان تر بنادیا۔
انسان ہمیشہ سے خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہا ہے۔ اسی تلاش اورجستجو سے ٹیلی گراف، ٹیلی فون، وائرلیس، ریڈیو ٹرانسسٹر سیٹالائٹ ، ٹیلکس، فیکس، کمپیوٹر، پیجر، کیبل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ جیسی ایجادات سامنے آئیں۔ اب اطلاعات خبروں کی فراہمی اورخبر رسانی کا دنیا بھر میں ایک جال بچھ گیا ہے۔
 1830 ء میں ٹیلی گراف اور 1876ء میں ٹیلی فون کی ایجاد کے وقت موجدوں نے یہ تو ضرور سوچا ہوگا کہ ہماری ایجادات آئندہ زمانے میں اضافے اور تبدیلیوں کے ساتھ دنیا کی گراں قدر خدمت انجام دیں گی لیکن انھیں یہ خیال نہیں آیا ہوگا کہ سو ڈیڑھ سو برس بعد خبر یا پیغام رسانی کا ایک ایسا مضبوط اور مربوط نظام وجود میں آئے گا جو اس وسیع وعریض دنیا کو سمیٹ کر رکھ دے گا اور جسے انفارمیشن ٹیکنا لو جی کا نام دیا جائے گا۔
آج گھر کے ایک گوشے میں میز پر رکھا ہوا ٹیلی ویژن یا کمپیوٹر ہمیں دنیا بھر کے معاملات سے ہر پل، باخبر کرتا رہتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت 24 گھنٹے سات سمندر پار کی بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی خبریں، اطلاعات اور پیغامات پلک جھپکتے ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر پہنچ جاتی ہیں ۔ فوری ترسیل کے اس عمل کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس اطلاعاتی تکنیک کو ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر نے فروغ دیا۔ یعنی خبر جو پہلے کان کے پردے سے دماغ تک پہنچتی تھی اب اسکرین پر نظر آنے لگی ۔ انسانی ذہن نے اسی پر اکتفانہیں کیا بلکہ ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر کے اسکرین کو ایسے پر عطا کیے کہ دنوں کا فاصلہ لمحوں میں طے ہونے لگا ۔ تیز رفتاری اور بروقت عملِ ترسیل نے دنیا کو ایک عالمی گاؤں (Global Village) بنا دیا ہے۔
(1) ٹیلی ویژن(Television)
دنیا میں چند ہی لوگ ایسے ہوں گے جو ٹیلی ویژن سے واقف نہ ہوں ۔ دن بھر میں ان گنت بار یہ نام زبان پر آتا ہے۔ ٹیلی اور ویژن دو الگ الگ زبانوں کے لفظ ہیں۔ ٹیلی (Tele) یونانی لفظ ہےجس کے معنی ہیں فاصلے سے یا دور سے ۔ ’ویژن‘ لا طینی زبان سے لیا گیا ہے اس کے معنی ہیں دیکھنا یا نظر آنا ۔ اس طرح ٹیلی ویژن کے مجموعی معنی ہوئے دور یا فا صلے سے دیکھنا یا نظر آ نا۔ عام آدمی کے لیے سنیما بڑا پرده (Big Screen) ہے اور ٹیلی ویژن چھوٹا پردہ (Small Screen) ہے لیکن ٹیلی ویژن کا یہ چھوٹا پردہ سنیما کے مقابلے میں زیادہ مؤثر اور مفید ہے۔ سنیما کی دنیا محدود ہے اور ٹیلی ویژن کی لامحدود سنیما ہال میں مقررہ وقت میں ایک ہی فلم دن کے مختلف حصوں میں دیکھ سکتے ہیں جبکہ ٹیلی ویژن کے ان گنت چینلوں میں ریموٹ کا بٹن دباتے ہی چینل بدل جاتا ہے۔ اسی طرح چینل بدل بدل کرتفریحی سیریز مختلف موضوعات پر ترتیب دیئے گئے پروگرام یا خبریں 24 گھنٹے دیکھ سکتے ہیں ۔ تکنیک کے اعتبار سے ٹیلی ویژن ، ریڈ یوکی ایسی ترقی یافتہ شکل ہے جسے ہم سنتے ہی نہیں دیکھ بھی سکتے ہیں ۔ ٹیلی ویژن آج کل زندگی کی ضرورت بن گیا ہے۔ اس کے متعدد چینلس خبروں اور معلومات سے بھر پور پروگرام پیش کرتے ہیں لیکن ایسے چینلس جوصرف سیریلس اور تفریحی پروگرام پیش کرتے ہیں اس کے افادی پہلو پر غالب آ گئے ہیں۔

(ii) کمپیوٹر (Computer)
اگلے وقتوں کی کہانیوں میں ایک کہانی الہ دین اور جادوئی چراغ ہے۔ الہ دین جب جب اس چراغ کو رگڑتاتو ایک جن برآمد ہوتا اور کہتا کیا حکم ہے میرے آقا.... .بیسویں صدی کی ایجاد کمپیوٹر بھی ایک جن کی طرح ہے جو ہر وقت انسانی احکام کا تابع نظر آتا ہے۔ کمپیوٹر ایسا مشینی آلہ ہے جو عقل سے عاری ہے مگرعمل میں ہزاروں جنوں پر بھاری ہے ۔ کمپیوٹرالیکٹرانکس کی دین ہے جس نے ہماری زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے۔ کمپیوٹر کا بنیادی مقصد ہرطرح کی معلومات کویکجا کرنا اور انھیں ترتیب دینا ہے۔
لاطینی زبان کا ایک لفظ کمپیوٹیئز ہے جس کے معنی ہیں اعداد و شمار (Data) کا حساب کتاب کرنا۔ یہی لا طینی لفظ اب کمپیوٹر کی شکل میں اس الیکٹرونک ایجاد کا نام ہے۔

(ii) انٹرنیٹ (Internet)
انٹرنیٹ کمپیوٹر کے کسی ایک عمل یا طریقہ کار کا نام ہے۔ انٹرنیٹ کا تعلق ایک سے زائد کمپیوٹروں سے ہے۔ جب ایک کمپیوٹر کو کسی دوسرے کمپیوٹر سے جوڑا جاتا ہے تو دونوں ایک دوسرے کی معلومات، اعداد وشمار اور پروگرام کی فائلیں ایک سے دوسرے میں منتقل کر سکتے ہیں ۔ اسی طرح دو سے تین اور تین سے چار اور ان گنت کمپیوٹروں سے رابطے کا عمل نیٹ ورک کہلاتا ہے۔ نیٹ ورک چھوٹے پیمانے پرایک دفتر یا ایک ادارے میں ہوسکتا ہے اسے لوکل ایریا نیٹ ورک کہتے ہیں۔ لیکن جب اسی نیٹ ورک کو وسیع پیمانے پر اس طرح استعمال کیا جا تا ہے کہ پوری دنیا کے کمپیوٹر باہم مربوط ہوجائیں تو یہ طریقہ کار ”وائڈ ایریا نیٹ ورک‘‘ کہلاتا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ انٹرنیٹ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے نیٹ ورکس (Networks) کا نیٹ ورک (Network) ہے جس کے ذریعے پوری دنیا میں کمپیوٹر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ۔ اس عالمی انٹرنیٹ کو انفارمیشن سپر ہائی وے یعنی معلومات کی شاہراہ کا نام دیا گیا ہے۔
انٹرنیٹ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ گھر بیٹھے دنیا بھر کی معلومات کم وقت اور کم خرچ میں حاصل ہوسکتی ہیں ۔ اپنے کمپیوٹر نیٹ ورک کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلے ہوۓ عزیز و اقارب سے بات چیت کر سکتے ہیں۔ تعلیم ، کاروبار، صحت اور بیماری سے متعلق مشورے دستیاب ہو سکتے ہیں۔ سفر اورطریقه سفر کے لیے انٹرنیٹ ایک رہبر کا کام انجام دیتا ہے۔ انٹرنیٹ کے وسیلے سے آپ دنیابھر سے نجی یا تجارتی اشیا کا آرڈر دے کر انھیں گھر بیٹھے حاصل کر سکتے ہیں ۔ دنیا بھر کے اخبارات اور رسالوں کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔
درحقیقت انٹرنیٹ نے دنیا کے مختلف حصوں میں رہنے والے افراد کو ایک چھوٹی عالمی برادری میں بدل دیا ہے۔ اب ایک جیسی دلچسپی رکھنے والے انٹرنیٹ کے توسط سے بآسانی یکساں دلچسپی رکھنے والوں سے رابطہ قائم کر سکتے ہیں۔

(iv) ای - میل (Electronic Mail)
ای۔ میل الیکٹرانک میل کا مختصر نام ہے۔ اس سے مراد ہے برقی تاروں کے ذریعے پیغام رسانی ۔ آپ دنیا کے کسی بھی حصے میں پیغام یا اطلاع بھیجنے کے لیے ڈاک، تار یا ٹیلی فون کا استعمال کرتے ہیں ۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے اس پیغام رسانی کے کام کو آسان اور تیزرفتار بنادیا ہے۔ آپ کے پاس کوئی بھی کمپیوٹر ہو اور وہ نیٹ ورک سے جڑا ہو تو آپ اپنا پیغام، اطلاع یا خبر کمپوز کریں۔ جب آپ کمپیوٹر کے ذریعے ای میل بھیجتے ہیں تو یہ براہ راست نہیں پہنچتا بلکہ آپ کا پیغام پہنچنے کے لیے متعلقہ شخص اور اس کے ای میل کا پتہ کمپوز کیا جا تا ہے۔ آپ نے کسی ای میل میں اس طرح دیکھا ہوگا۔ جیسے abc@ gel . net . in یہاںabc اس شخص یا ادارے کا نام ہے جسے ای میل بھیجا گیا ہے یا علامت ہے ای میل کی "gel وہ ادارہ ہے جوای میل انٹرنیٹ سروس فراہم کر رہا ہے۔ اس کے بعد اس ملک کا مختصر نام جہاں پیغام بھیجا جارہا ہے۔ مثلا انڈیا کے لیے in ۔ای میل نہ تو ڈاک ہے نہ ہی ٹیلی فون کال ۔ یہ ایک نیا مواصلاتی نظام ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ڈاک کے خطوں کے مقابلے میں انتہائی تیز رفتار اور سستا ہے۔ اس کے لیے پوسٹ مین کی آم دیا ٹیلی فون کی گھنٹی بجانے کا انتظارنہیں کرنا ہوتا ۔ خط کھول کر کسی دوسرے شخص کے پڑھنے یا ڈاک کی گڑ بڑ یا دوسرے شخص کا فون سننے کا خدشہ بھی نہیں ہوتا ۔ آپ جسے ای میل بھیج رہے ہیں وہ اپنے کمپیوٹر پر کسی بھی وقت ای - میل کھول کر پڑھ سکتا ہے اور اسی طرح اگلے لمحے جواب دے سکتا ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی بنیادی طور پر کپیوٹر کی دین ہے۔ کمپیوٹر، جس کے متعلق کسی نے کہا تھا کہ اکیسویں صدی میں کمپیوٹر سے جولوگ دور رہیں گے ان کا شمار جاہلوں میں ہوگا ۔
خلاصہ:
اس مضمون  کی ابتدا میں انسان کے ارتقا کی کہانی بیان کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ انسان نے کس طرح ترقی کے منازل   طے کیے۔مضمون میں قدیم  دور کے انسان کی زندگی پر روشنی ڈالی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ کس قدرکم باتیں جانتا تھا۔ اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ جس قدر کم باتیں جانتا ہے وہ اتنا ہی مزے میں ہے۔پھر ایجادات کا سلسلہ شروع ہوا اور پہیے کی ایجاد نے ایک انقلاب برپا کیا۔ پہیے کی بدولت مشینیں ایجاد ہوئیں ۔ پھر بجلی سامنے آئی تو مشینیں ہاتھ کے بجائے بجلی سے چلنے لگیں۔ اخبار رسالے اور کتابیں شائع ہونے لگیں اور اس طرح ایک خطے کا انسان زمین کے دوسرے خطے پر رہنے والے افراد سے واقف ہونے لگا۔ ان ایجادات نے انسان کو مزید غور وفکر اور خوب سے خوب ترکی تلاش پر آمادہ کیا۔یہ ایجادات موجودہ مواصلاتی نظام کی پہلی سیڑھی ہیں ۔
19 ویں صدی میں صنعتی انقلاب کے بعد سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعہ سائنس دانوں نے ایسے آلات ایجاد کئےجوکم وقت میں زیادہ سے زیادہ کام انجام دینے لگے۔ مثلاً تیز رفتار ریل گاڑیاں کار یں ، جہاز، راکٹ خلائی مہمات میں کام آنے والے جہاز اطلاعات فراہم کرنے والے ٹیلی گراف اور ٹیلی فون وغیرہ۔
20 ویں صدی میں ر یڈیو ٹیلی ویژن اور اورکمپیوٹر نے کائنات سے متعلق انسانی معلومات میں اضافہ کیا۔ ٹیلی ویژن تفریح کا نیا ذریعہ بن گیا۔خاص طور پر کمپیوٹر نے سوچنے کا ڈھنگ بدل دیا۔ کمپیوٹر کی ایجاد نے انسانی زندگی میں ایک انقلاب پیدا کردیا۔اورانٹرنیٹ نے اس دنیا  کوایک گلوبل گاوٰں میں تبدیل کردیا ہے۔لوگ ایک دوسرے سے قریب آگئے ہیں  ۔یہ صحیح ہے کہ کمپیوٹر انسان کی طرح سوچنے اور غور کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا لیکن انسان سے کہیں تیز رفتاری سے اپنا کام انجام دیتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک درمیانے سائز کا کمپیوٹر ایک سیکنڈ میں تقریباً ایک ملین احکامات پرعمل کرسکتا ہے۔ جبکہ اسی کام کو کرنے میں انسان کو پورا ایک سال چاہیے اور وہ بھی  تب جب وہ دن رات اسی کام میں مصروف رہے ۔کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور ای میل کے سہارے آج ہمارا کام اور بھی زیادہ آسان ہو گیا ہے۔کہا جاسکتا ہے کہ انفارمیشن ٹکنالوجی نے ہماری زندگی کو تیزرفتار،دلچسپ، کارآمد اور آسان بنا دیا ہے۔
Information Technology  Chapter 8 NCERT Solutions Urdu
مشق
لفظ ومعنی:
تجسس : کھوج، جاننے کی خواہش
سانحہ : صدمہ پہنچانے والا واقعہ، حادثہ
لاعلمی : بے خبری کسی بات کا نہ جاننا
وسیلہ : ذریعہ ، واسطہ، سبب
فراہم کرنا : اکٹھا کرنا
موجد : ایجاد کرنے والا
گراں قدر : انتہائی قیمتی
مربوط : باہم تعلق رکھنے والا ( تحریر، خیال، بیان، چیزیں، جن میں آپسی تعلق ہو)
نظام : انتظام، بندوبست
مواصلات : ایک جگہ سے دوسری جگہ خبریں یا اطلاعات پہنچانا یا لے جانے کے ذرائع
اشتراک : ساجھا، حصہ داری
احكام : حکم کی جمع
طابع : ماتحت، فرماں بردار مطيع
عاری : خالی ، یعنی کسی چیز کے نہ ہونے کی حالت
سازگار : موافق ، مناسب، موزوں
نکات : نکتہ کی جمع، باریک باتیں
نجی : ذاتی
غور کرنے کی بات
* اس مضمون کی ابتدا میں قدیم دور کے انسان کی زندگی پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ آج کے انسان کے مقابلے میں وہ کس قدر کم باتیں جانتا تھا۔ پہیے کی ایجاد نے ایک انقلاب برپا کیا۔ پہیے کی بدولت مشینیں ایجاد ہوئیں ۔ پھر بجلی سامنے آئی تو مشینیں ہاتھ کے بجائے بجلی سے چلنے گئیں۔ اخبار، رسالے اور کتابیں شائع ہونے لگیں اور اس طرح ایک خطہ کا انسان زمین
کے دوسرے خطے پر رہنے والے افراد سے واقف ہونے لگا۔ ان ایجادات نے انسان کو مزید غور وفکر اور خوب سے خوب تر کی تلاش پر آمادہ کیا ۔ یہ ایجادات موجودہ مواصلاتی نظام کی پہلی سیڑھی ہیں۔ . انیسویں صدی میں صنعتی انقلاب کے بعد سائنس اور ٹکنالوجی کے ذریعے سائنس دانوں نے ایسے آلات ایجاد کیے جو کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کام انجام دینے لگے ۔ مثلا تیز رفتار ریل گاڑیاں، کاریں، جہاز، راکٹ، خلائی مہمات میں کام آنے والے جہاز ، اطلاعات فراہم کرنے والے ٹیلی گراف ٹیلی فون وغیرہ۔ بیسویں صدی میں ریڈیو، ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر نے کائنات سے متعلق انسانی معلومات میں اضافہ کیا ۔ خاص طور پر کپیوٹر نے سوچنے کا ڈھنگ بدل دیا۔ یہ صحیح ہے کہ کمپیوٹر انسان کی طرح سوچنے اور غور کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا لیکن انسان سے کہیں زیادہ تیز رفتاری سے اپنا کام انجام دیتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک درمیانے سائز کا کمپیوٹر ایک سیکنڈ میں تقریباًایک ملین احکامات پر عمل کر سکتا ہے جبکہ اسی کام کو کرنے میں ایک انسان کو پورا ایک سال چاہیے۔ اور وہ بھی دن رات اسی کام میں مصروف رہے تب۔

سوالوں کے جواب لکھیے:
1. ابتدائی دور کے انسان کی زندگی کیسی تھی؟

2. آج کے عہد کو انفارمیشن ٹیکنا لو جی کی صدی کیوں کہا گیا ہے؟

3. ہماری زندگی میں ٹیلی ویژن کی کیا اہمیت ہے؟

4 کمپیوٹر نے ہماری زندگی کے ہر شعبہ کس طرح متاثر کیا ہے۔ تفصیل سے لکھیے۔

5. انٹرنیٹ کے کیا فائدے ہیں؟

6. ای - میل سے کیا مراد ہے؟

عملی کام
*  انٹرنیٹ کی مدد سے اردو شاعروں اورادیبوں کے بارے میں معلومات حاصل کیجیے۔
*  انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کے بارے میں مختصر نوٹ لکھیے۔

کلک برائے دیگر اسباق

Jeene Ka Saleeqa - NCERT Solutions Class 9 Urdu

Jeene ka saleeqa by Khwaja Ghulam Saiyidain  Chapter 7 NCERT Solutions Urdu
جینے کا سلیقہ
خواجہ غلام السیدین

میں ایسے مشاہیر کی صحبت میں بیٹھا ہوں جن کی گفتگو میں وولوچ ، دل آویزی اور سلیقہ ہوتا تھا کہ وہاں سے اٹھنے کو دل نہ چاہے مثلا سرتیج بہادر سپرو، سروجنی نائیڈو مولانا آزاد، سید راس مسعودی ڈاکٹر اقبال، ڈاکٹر ذاکر حسین ، یعنی یہ کیفیت کہ: وہ ہیں اور نا کرے کوئی اس کشش کی و جت یہ تھی کہ وہ زبان پر قدرت رکھتے تھے یا رکھتے ہیں بلکہ ان کا دماغ روشن اور مرتب تھا۔ انھیں دراصل کچھ ہوا ہوتا تھا۔ ان کی سیرت ان کے تجربوں سے مالامال تھی۔ وہ اپنے گنے والوں میں بھی رکھتے تھے۔ میں اپنی زندگی اور تجربوں میں شریک کرنا چاہتے
تھے۔ اور جمہوریت کے اس زمانے میں جب زبان سے ترغیب اور تبادلہ خیال کا زیادہ سے زیادہ کام لیا جاتا ہے، اپنی گفتگو نہ صرف ایک سا ہی بہتر ہے بلکہ ایک سیاسی ہتھیار بھی ہے، جس کا میچ استعمال سیکھنا ضروری ہے۔
اچھے لوگوں اور اچھی کتابوں کی صحبت کے علاوہ تیسری چیز جو اپنی زندگی کی بنیاد ہے، وہ کام ہے ۔ اس سے متعلق ہمارے صدرت مذاکرحسین نے اپنے ایک خطبے میں لکھا ہے کہ ”کام ہے مقصد نہیں ہوتا۔ کام کچھ کر کے وقت کاٹ دینے کا نام نہیں، کام خالی دل گئی ہیں، کا کھیل نہیں، کام کام ہے۔ بامقصد محنت ہے۔ کام دشمن کی طرح آپ اپنا محاسبہ کرتا ہے اور اس میں جو پورا تر تا ہے تو وہ خوشی دیتا ہے جو اور کہیں نہیں ملتی ۔ کام ریاضت ہے، کام عبادت ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان کی شخصیت اس وقت تک کسی حسین سانچے میں نہیں ڈال سکتی، جب تک اس کے دل  میں اس انداز سے کام کرنے کی لگن پیدا نہ ہو حقیر سے فقیر کام میں معنی اور لطف پیدا ہوسکتا ہے۔ بشرطیکہ کام کرنے والا اس کا رشتہ بڑے مقصد کے ساتھ قائم کرے۔ دومزدور ایک پہاڑ پر تھر توڑ رہے تھے۔ ایک راہ گیر نے پہلے سے پوچھا تم کیا کر رہے ہو؟ اس نے جل کر جواب دیا۔
دیکھتے ہیں ہو، اپنی قسمت کے لکھے پھر چھوڑ رہا ہوں ۔ ذرا اور آگے بڑھ کر اس نے دوسرے مزدور سے بھی یہی سوال کیا تو اس نے بہت فخر اور خوشی کے ساتھ جواب دیا۔ میں ایک گرجا کی تعمیر کر رہا ہوں ۔ دیکھا آپ نے ؟ پتھر وہی تھے لیکن ایک مزدوران سے اپنی قسمت پھوڑ رہا تھا، اور دوسرا ایک عبادت گاہ بنانے کا خواب دیکھ رہا تھا۔ ہمارے
ملک میں نہ صرف طالبہ بلکہ سب لوگوں کو کام کرنے کے آداب سکھانے کی ضرورت ہے۔ کسی کام کو سرسری انداز میں کرنا گویاسرسے ایک ناگوار بو جھ اتارتا ہے، نہ اس میں خوشی تلاش کرنا، نہ پانا، نہ اس حسین تشکیل میں فخر محسوس کرنا، نہ اس کے ذریعے اپنی دنیا کو جھنا اور اپنے ہم جنسوں کے دکھ سکھ میں شریک ہونا ۔ بیسب نہ تو ذہنی دیانت کا تقاضا ہے، نہ اخلاق کا۔ زندگی خدا کا ایک انمول عطیہ ہے اور وہ تمام صلاحیتیں اور ہنر مند ہیں اور جوہر، جو اس کے ساتھ قدرت ہمارے کیسے میں ڈالتی ہے ان کی قیمت انسان صرف کام کے ذریعے اور کام کے لئے میں ادا کرسکتا ہے۔ جو شخص اس قیمت کو خوش دلی اور ایمانداری کے ساتھ ادا نہیں کرتا، اس کی حیثیت میرے نزدیک ایک چور کی ہے وہ خود کا چور ہے، سماج کا چور اور خدا کا چور ہے۔
لیکن جانے کا سلیقہ صرف بڑے بڑے اصولوں کی پابندی پرہی شخص نہیں ۔ اس میں بہت کی چھوٹی چیز میں بھی ہیں ۔ ایک معمولی انسان کی زندگی کا ہر یہ اسی پر بس نہیں ہوتا جہاں ہر قدم پر منصور کی طرح بات کہنے کی ضرورت ہے۔ اس میں اس سے بھی زیادہ اہمیت ہے۔ ایسی بظاہر معمولی صفات کی جو انسانی رشتوں میں خوشگواری پیدا کرتی ہیں ۔ یہ کون سی صفات ہیں؟ آپس کے میل جول میں دوستی اور مہربانی، معاملات میں انصاف ، سچائی اور بھروسا مل جل کر کام کرنا، دوسروں کے حقوق کی پاسداری اور ان کی رائے کا احترام ، خوش مزاجی اور ظرافت اور خواہ واہ کی دل شکنی اور بدگوئی سے پر ہیز ۔ میرا خیال ہے کہ ہماری آئے دن کی زندگی میں بہت سے نفسیاتی دکھ اور محرومیاں اس وجہ سے پیدا ہوتی ہیں کہ ہم اپنے دوستوں، عزیزوں اور ہم جنسوں سے مهربانی ، فیاضی اور ہمدردی کا سلوک نہیں کرتے ۔ ان کے بارے میں دوسرے لوگوں کے سامنے غیر ذمے داری کے ساتھ ایسی بات چیت کرتے ہیں جس سے ان کی نیک نامی پر برا اثر پڑتا ہے۔ بخش تفرین اور گرمی محفل کی خاطر این گفتگو میں شامل ہو جاتے ہیں ۔ دوسروں کی برائی کو بغیر جانچ پڑتال کے آسانی سے مان لیتے ہیں، ان کو شہ کا فائدہ بھی نہیں دیتے بلکہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ بے قصور ہیں، ہم جرات سے کام لے کر ان کے حق میں کلمہ خیر نہیں کہتے لیکن دراصل لوگوں کے بارے میں حسن ظن رکھنا اور ان کی اچھی باتوں کی تلاش اور قدر کرنا اس سے کہیں بہتر ہے کہ ہم ان کی طرف سے بدن پر ہیں اور ان کی عیب جوئی کرتے رہیں ۔ یا ہے ۔ بعض دفعہ انسان ہرکسی کو شریف اور قابل اعتماد جھ کر نقصان اٹھاتا ہے لیکن اخلاقی اور سابی اعتبار سے نقصان بہت کم ہے اور اس کے مقابلے میں دلتنگی ، بد بینی اور شے کی ذہنیت سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ جو اس تم کی طبیعت اور دل و دماغ رکھتا ہے، وہ عمر بھر کے لیے ایک روگ خرید لیتا ہے، نہ خودخوش رہ سکتا ہے، نہ دوسروں کو خوش رکھتا ہے۔ برخلاف اس کے خوش مزاجی روز مرہ کی زندگی اور رشتوں میں لطف اور شہر میں پیدا کرتی ہے اوری ختم کی ظرافت بہت ہی ناگواریوں کا علاج ہے۔ وہ ظرافت
جس کا مقصد دل کھانا نہ ہو، جو دل سوزی اور ہمدردی کے ساتھ حماقتوں پر نہ کرے لیکن کسی کی ذاتی تحقیر نہ کرے، جو دوسروں سے زیادہ خود اپنی حماقتوں کا خاکہ اڑائے اور اپنے بارے میں دوسروں کی ظرافت کو جھیل سکے۔ جو شخص خود کو بہت اہم سمجھتا ہے، اپنی شان میں گستاخی نہیں کرسکتا، اپنے کو تنقید سے بلند اور دوسروں کو اپنے سے کمتر جانتا ہے، جس کی طبیعت میں ضبط ہیں، جس کا مزاج آسانی سے بھڑ ک اٹھتا ہے، جو اپنی دولت یا خاندان یا منصب کو نہ بھول سکے ، خودبھی ان سے مرعوب رہے اور دوسروں پر بھی ان کا رعب ڈالنا چاہے، وہ جینے کے سلیقے سے بالکل نا آشنا ہے۔ اگر ہماری تعلیم خود پسندی اور خود پرستی کے ان بتوں کو نہ توڑنے اور لوگوں کو خود پرستی کے ساتھ احتساب کرنا اور دوسروں کے ساتھ مجھے داری اور نرمی کے ساتھ پیش آنا نہ کھائے تو وہ زندگی کے لیے تیار نہیں کرسکتی۔ یہ انکسار اور خود شناسی کی صفت بھی زندگی کے گونا گوں نقشے میں ایک لطیف رنگ بھرتی ہے۔ بات صرف اتنی ہی نہیں کہ اخلاقی اعتبار سے ایک کھلا دل ، ایک فیاض طبیعت ، تنگ دلی سے بہتر ہے، بلکہ دوسرے لوگ جو سلوک ہم سے کرتے ہیں، وہ بھی بڑی حد تک اس سلوک پر مختصر ہے جو ہم ان کے ساتھ کرتے ہیں۔ اگر ہم ان کے ساتھ دوستی، نیک نیتی اور بھروسے کے ساتھ پیش آئیں تو توقع ہوسکتی ہے کہ ان کا رویہ بھی ہمارے ساتھ دوستانہ ہو لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شخص جو میرے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے، وہ دوسروں کے ساتھ بدسلوکی کرے ۔ اگر وہ اس کے ساتھ شرافت سے پیش نہ آئیں ۔ لیکن لوگ صرف سفید و سیاہ رنگ میں رائے نہیں ہوتے کہ سب کے ساتھ اچھے ثابت ہوں گے یا برے۔ دراصل دوسروں کی فطرت کی خوبیوں کو اجاگر کرنا ایک حد تک خود ہمارے اختیار میں ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی یادر ہے کہ یک طرفہ نیکی کرنے میں بڑی برکت ہے خواہ لوگ اس بات کوما میں بانه ما نیں ، نیکی میں بی صلاحیت ہے کہ وہ اکثر بدی کے ہتھیار رکھوا لیتی ہے۔ اگر ہم میں اتنی اخلاقی جرات ہے کہ جس بات کو نیک اور پچ سمجھتے ہیں، وہی کر یں اور اس کی زیاد فکر نہ کریں کہ دوسرے کیا کرتے ہیں، تو ہم وایر ے والیبرے اپنے مخالفوں کے دل کو جیت سکتے ہیں۔ نیکی بھی بدی کی طرح متعدی ہے، اس کا اثر دور دور تک پھیلتا ہے۔ اگر ہم روز مر د کے چھوٹے چھوٹے کاموں میں چھوٹی چھوٹی باتوں میں نیکی اور پائی
سے کام لیں تو وہ آہستہ آہستہ ہماری ساری زندگی کے کاروبار میں راہ پا جاتی ہے اور جب بھی کوئی ایسی نازک صورت حال پیش آتی ہے جہاں میں خیر و شر کی ازلی جنگ میں حصہ لینا پڑتا ہے اور اپنی تقدس کو بنانے یا بگاڑنے والے فیصلے کرنے ہوں تو عمر بھر کی یہ عادتیں اور رجحان ہمارے کام آتے ہیں ۔ اس طرح زندگی کے چھوٹے اور بڑے کاموں میں ایک نفسیاتی رشتہ قائم ہو جا تا ہے اور بقول پیغمبر اسلام کے ساری دنیا ایک مسجد بن جاتی ہے، جہاں انسان ہر کام اس انداز سے کرتا
ہے گویا وہ اپنے بنانے والے کے سامنے کھڑا عبادت کر رہا ہے۔ بہت مشکل ہے ایسی کیفیت پیدا کرنا اپنے دل و دماغ میں ، لیکن یہ سب نہ ہوں کی مشترک تعلیم ہے اور بہت سے مردان خدانے بلکہ بہت سے نیک اور گمنام لوگوں نے بھی اس شان کے ساتھ زندگی گزاری ہے۔ اور پھر کیسی قوت پیدا ہو جاتی ہے ایسے لوگوں میں کہ موت بھی نھیں زی نہیں کرسکتی۔ ایک نظر سے دیکھے تو انسان کی زندگی ایک ٹمٹماتے چراغ کی طرح ہے، جو چندیوں کے لیے روشن ہوتا ہے اور پھر موت
کی ایک ہلکی سی پھونک سے بجھا دیتی ہے لیکن جب کوئی انسان اپنی زندگی کو بڑے مقاصد کے ساتھ وابستہ کر لیتا ہے اور ان کی قدروں کا حامل بن جاتا ہے اور انھیں روز مرہ کی زندگی میں برتا ہے، تو کوئی آندھی اس چراغ کونہیں بجھا سکتی ۔ موت اس کے جسم کو فنا کر دیتی ہے لیکن اس کے دماغ کی جولانی، اس کے دل کا گداز، اس کی روح کی بلندی، اس کے مقصد کی تابانی قائم رہتی ہے اور تھکے ماندے، راستے سے بھٹکے مسافروں کی ہمت بڑھاتی ہے۔ اس قسم کے چراغ جلانا ہر انسان کا فرض ہے اور چراغ کا کمال یہ ہے کہ خواہ کتنا ہی چھوٹا ہو ساری دنیا کا اند میرا بھی اسے نہیں بجھا سکتا۔ لیکن انسان کی شخصیت کو صرف فکر کی روشنی اور کام کی تپسیانی تا جمیل نہیں بناتی۔ اس کو جذبات کی دولت بھی ملی ہے جن کی میں تربیت کے بغیر اس کی تکمیل ممکن نہیں ہے۔ اس مقصد کے لیے اس کی حسن شناسی اور سن آفرینی کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا اور اس میں ذوق جمال کی شمع جلانا ضروری ہے۔ خوبصورتی سے لطف اٹھانے کی صلاحیت قدرت کی ایک انمول دین ہے، جو زندگی میں مسرت کا رنگ بھرتی ہے اور اس کو طرح طرح سے مالا مال کرتی ہے، خواہ وہ خوبصورتی عالم فطرت میں پائی جائے یا انسانوں کے خدوخال میں، اعلم اورحق کی تلاش میں یا آرٹ اور دستکاری کی تخلیق میں۔
خلاصہ:
”جینے کا سلیقہ“ میں مضمون نگار نے ابتداء میں ان مشاہیر کا ذکر کیا ہے جن کی صحبت میں وہ بیٹھے۔ ان شخصیتوں میں سرتیج بہادر سپرو ، سروجنی نائیڈرو۔ مولانا آزاد، راس مسعود، ڈاکٹر اقبال اور ذاکر حسین ہیں ، مذکورہ لوگوں کی گفتگو میں وہ لوچ دل آویزی اور سلیقہ تھا جن سے زندگی بنتی ہے۔ ان کی گفتگو کو انہوں نے نہ صرف سماجی گردانا ہے بلکہ ایک کامیاب سیاسی ہتھیاری مانتے ہیں لہذااسے سیکھنے پر زور دیتے ہیں ۔ اس کے بعد وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ اچھی کتابوں کے علاوہ بھی اچھی زندگی کی بنیاد ہے اور وہ شئے وہ کام ۔ کام سے متعلق انہوں نے ڈاکٹر ذاکر حسین کا ایک قول نقل کیا ہے۔ جس میں بہت کچھ کے علاوہ یہ بھی کہا گیا ہے "کام ریاضت ہے۔ کام عبادت ہے۔ اور واقعہ بھی یہی ہے کہ انسان کی شخصیت اس وقت تک کسی سانچے میں نہیں ڈھل سکتی، جب تک اس کے دل میں اس انداز سے کام کرنے کی لگن پیدا نہ ہو۔ چھوٹے اور معمولی کام میں بھی اور لطف پیدا ہوسکتا ہے ۔ بشرطیکہ کام کرنے والا اس کا رشتہ بڑے مقصد کے ساتھ قائم کرے ۔ خواجہ صاحب نے مضمون میں تعلیم کا مقصد بتاتے ہوئے کہا ہے کہ اسے خود پرستی کے ساتھ احساس کرنا اور دوسروں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرنا سکھانا چاہئے ۔ پھر حق و باطل کی ازلی اور ابدی کشاکش کا ذکر ہے اور دوسروں کے دل پر حکمرانی کی بات کہی ہے۔ اچھی قدروں کی پیروی اور صحیح تربیت کو زندگی کا لازمی جز قرار دیا ہے۔ زندگی میں حسن اور خوبصورتی کی بات کہتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ خوبصورتی سے لطف اٹھانے کی صلاحیت قدرت کی ایک انمول دین ہے۔ جو زندگی میں خوشی کا رنگ بھرتی ہے اور اس کو اس طرح سے مالا مال کرتی ہے، خواہ وہ خوبصورتی عالم فطرت میں ہو یا انسانوں کے خدوخال میں ۔ یا علم اور حق کی تلاش میں یا آرٹ اور دستکاری کی تخلیق میں ۔

Jeene ka saleeqa by Khwaja Ghulam Saiyidain  Chapter 7 NCERT Solutions Urdu
خواجہ غلام السیدین
(1904ء -1971 ء)
خواجہ غلام السیدین ہریانہ کے تاریخی قصے پانی پت میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد خواجہ غلام ثقلین علی گڑھ کا بچے کے نامور طالب علم تھے اور والدہ مشتاق فاطمہ حالی کی پوتی تھیں ۔ غلام السید ین کی ابتدائی اور ثانوی تعلیم پانی پت میں ہوئی ۔ کالج کی تعلیم کے لیے دو علی گڑھ گئے جہاں انھوں نے نبی ۔اے اور بی ۔ ایڈ کیا اور پھر اعلی تعلیم کے لیے انگلستان گئے۔ وہاں سے آ کر علی گڑھ میچرز ٹرینینگ کالج میں لیکچرر ہوئے اور پھر پیپل ہوگئے۔
خواجہ غلام السیدین ماہر تعلیم تھے ۔ انھوں نے آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد ہندوستان میں تعلیمی امور کے سلسلے میں کئی مقامات پرمختلف حیثیتوں سے کام کیا۔ انھوں نے گاندھی جی کی عملی تعلیم سے متعلق ڈاکٹر ذاکر حسین کے ساتھ خاکہ تیار کیا۔ غلام السیدین کو اردو زبان اور ادب سے بھی بہت محبت تھی۔ انھوں نے اردو میں تعلیم اور ادب سے تعلق کئی کتابیں لکھی ہیں۔ ان کی مشہور کتاب آندھی میں چراغ ہے جس پر انھیں ساہتیہ اکادمی کا نام بھی ملا۔ حکومت ہند نے ان کی علمی خدمات پر انھیں پدم بھوشن کے خطاب سے نوازا۔ انہیں دنیا کے سات ماہرین تعلیم میں شمار کیا جاتا تھا۔
خواجہ غلام السیدین کی نشر نہایت سادہ لیکن پر زور اور موثر ہوتی ہے۔ وہ اپنی بات کو بیان کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے الفاظ سے وہ کام لیتے ہیں جو بہت سے لوگ بڑے بڑے الفاظ سے بھی نہیں لے سکتے۔

لفظ ومعنی
مشاہیر : مشہور کی جمع، یعنی مشہور لوگ
دل آویزی : ول کو کھینچنے کی صفت
محاسبہ کرنا : حساب کرنا، جائزہ لینا
ریاضت : محنت، جدوجہد
کیسہ : تھیلی
حقیر : بے وقعت
تکمیل : مکمل کر نا مکمل ہونا
عطیہ : بخشش، انعام
منصور : ایک مشہور صوفی تھے ان کے خیالات کی وجہ سے سزائے موت دی گئی تھی (عربی) میں مطلق حق ہوں لیکن میں خدا ہوں
اناالحق : میں مطلق حق ہوں یعنی میں خدا ہوں
بدگوئی : برا کہنا
کلمہ : اچھی بات
حسن ظن : نیک خیال، اچھا خیال
اعتماد : یقین
تحقیر : کسیکو حقارت کی نظر سے دیکھنا، کم تر ٹھہرانا
منصب : عہدہ
گونا گوں : قسم قسم کے
اجاگر کرنا : روشن کرنا ، ظاہر کرنا
متعدی : کوئی چیز، مثلاً بیماری جو چھوت سے لگتی ہو
ازل : ہمیشگی

غور کرنے کی بات
جینے کا سلیقہ خواجہ غلام السیدین کا بہت اچھا مضمون ہے۔ اس میں مصنف نے یح معنوں میں زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھایا ہے۔ ان کے نزدیک زندگی گزارنے کے لیے جہاں ان لوگوں کی صحبت کی ضرورت ہوتی ہے وہاں کام کرنا بھی اچھی زندگی کے لیے بہت ضروری ہے۔ دنیا میں جتنے بھی بڑے لوگ گزرے ہیں اگر آپ ان کی زندگی کے حالات پڑھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہر بڑے انسان کے پیچھے اس کے اچھے کام ہیں جنھوں نے اس کے نام کو زندہ رکھا ہے لیکن بڑا آدمی بنانے کے لیے انسان کو بہت سی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔

سوالوں کے جواب لکھیے
1. ڈاکٹر ذاکر حسین نے کام کی کیا اہمیت بتائی ہے؟
جواب: ذاکر حسین کہتے ہیں کام کھیل نہیں ، کام کام ہے، بامقصد محنت ہے۔ کام دشمن کی طرح اپنا محاسبہ کرتا ہے اور اس میں جو پورا اترتا ہے وہ خوشی دیتا ہے جو اور کہیں نہیں ملتی۔ کام ریاضت ہے، کام عبادت ہے۔

2. تنگ دلی ، بد نیتی اور شبہے کی ذہنیت کس طرح گھاٹے کا سودا ہے؟
جواب: جو شخص تنگ دل ہوتا ہے اس کی نیت میں بھی فتور ہوتا ہے۔ وہ دوسروں کو بھی شبہ کی نظر سے دیکھتا ایسا شخص دوسروں کی نظروں میں گر جاتا ہے اور لوگ اسے اچھا نہیں سمجھتے ۔ یہی بات گھاٹے یعنی نقصان کا سودا ہے۔ جوشخص دوسروں کو اچھا کہتا ہے ان کی خوبیوں کو بیان کرتا ہے، اس شخص سے لوگ خوش ہوتے ہیں اسے اچھا کہتے ہیں، اس سے تعلقات قائم کرتے ہیں یہ فائدے کا سودا ہے-

3. مصنف کی نظر میں کیسے لوگ جینے کے سلیقے سے نا آشنا ہیں؟
جواب:جو لوگ خود کو بہت بہتر کہتے ہیں اور دوسروں کو کمتر اور حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اپنی دولت اور خاندانی منصب سے دوسروں پر رعب ڈالنا چاہتے ہیں وہی جینے کے سلیقے سے ناآشنا ہیں۔

4. اپنی گفتگو کے ذریعے ہم کس طرح کامیابی حاصل کر سکتے ہیں؟
جواب: اچھی گفتگو کرکے ہم دوسروں کہ دل کو جیت سکتے ہیں۔

5. مصنف نے اس مضمون میں کیا سمجھانے کی کوشش کی ہے بتلائیے ۔
جواب

عملی کام
”چراغ کا کمال یہ ہے کہ خواہ کتنا ہی چھوٹا ہو ساری دنیا کا اندھیرا اسے نہیں بجھا سکتا۔ اسی طرح کے چند جملے جو آپ کو اچھے لگے ہوں انھیں اپنی کاپی میں لکھے اور زبانی یاد کیجیے۔ اس مضمون میں ایک جگہ دو لفظ آئے ہیں بامقصد اور بے مقصد ان الفاظ میں صرف بنے اور باہ کے استعمال سے لفظ کے معنی ہی بدل گئے ہیں یعنی با مقصد جس کا کوئی مقصد ہو اور
بے مقصد جس کا کوئی مقصد نہ ہو۔ آپ بھی ایسے چند الفاظ تھے جن میں ہے اور یا کا استعمال کیا گیا ہو۔
مصنف اپنی بات میں زور اور اثر پیدا کرنے کے لیے بھی بھی تاریخی واقعات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس مضمون میں بھی مصنف نے ایک صوفی حضرت منصور حلاج کی طرف اشارہ کیا ہے۔ انھوں نے ایک خاص کیفیت میں ان امت میں خدا ہوں) کہہ دیا تھا۔ لوگوں نے یہ سمجھا کہ وہ خدائی کا دعوی کررہے ہیں، جس کی وجہ سے بادشاہ وقت نے انھیں سزائے موت دی تھی۔ اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ مندرجہ ذیل تاریخی اشارات کے بارے میں اپنے استاد سےون کا خزانہ نمرود کی خدائی حسن يوسف
نیچے لکھے ہوئے الفاظ کو جملوں میں استعمال کیجیے:
لفظ : معنی : جملہ
تکمیل : مکمل کرنا : کام کی تکمیل تک آپ کہں نہیں جا سکتے۔
عطیہ : بخشش،انعام : اسکول کو ایک بڑے عطیہ کا انتظار تھا۔
منصب : عہدہ : ایک اونچے منصب پر پہنچنا سلیم کا خواب تھا۔
اعتماد : بھروسہ، یقین : سلیم کو اپنے فوجیوں پر اعتماد تھا۔

کلک برائے دیگر اسباق

Nazeer Ahmad Ki Kahani - NCERT Solutions Class 9 Urdu

Nazeer Ahmad ki kahani by Mirza Farhatullah Baig  Chapter 6 NCERT Solutions Urdu
(اس صفحہ پر ابھی کام جاری ہے)
نذیر احمد کی کہانی کچھ میری اور کچھ ان کی زبانی
مرزا فرحت اللہ بیگ

مولوی صاحب کا حلیہ سنیے :
رنگ سانولا مگر روکھا، قد خاصا اونچا۔ مگر چوڑان نے لمبان کو دبا دیا تھا دوہرا بدن گدرا ہی نہیں بلکہ موٹاپے کی طرف کسی قدر مائل ۔ فرماتے تھے کہ بچپن میں کسی قدر ورزش کا شوق تھا۔ ورزش چھوڑ دینے سے بدن جس طرح مرمروں کا تھیلا ہو جاتا ہے بس یہی کیفیت تھی۔ بھاری بدن کی وجہ سے چونکہ قد ٹھگنا معلوم ہونے لگا تھا اس لیے اس کا تکمله اونچی تر کی ٹوپی سے کر دیا جاتا تھا۔ کمر کا پھیر ضرورت سے زیادہ۔ توند اس قدر بڑھ گئی تھی کہ کمر میں ازار بند باندھنے کی ضرورت ہی نہیں بلکہ تکلیف دہ سمجھا جاتا تھا اورمحض ایک گرہ کو کافی خیال کیا جاتا تھا۔ گرمیوں میں تہمد (تہ بند) باندھتے تھے۔ اس کے پلو اڑسنے کے بجائے ادھر ادھر ڈال لیتے تھے مگر اٹھتے وقت بہت احتیاط کرتے تھے۔ اول تو قطب بنے بیٹھے رہتے تھے۔ اگر اٹھنا ہوا تو پہلے اندازہ کرتے تھے کہ فی الحال اٹھنے کو ملتوی کیا جاسکتا ہے کہ نہیں ۔ ضرورت نے بہت ہی مجبور کیا تو ازار بند کی گرہ یا تہمد کے کونوں کے اڑ سنے کا دباؤ توند پر ڈالتے تھے۔ سر بہت بڑا تھا مگر بڑی حد تک اس کی صفائی کا انتظام قدرت نے اپنے اختیار میں رکھا تھا۔ جوتھوڑے رہے سہے بال تھے وہ اکثر نہایت احتیاط سے صاف کرادیے جاتے تھے ورنہ بالوں کی یہ کگر سفید مقیش کی صورت میں ٹوپی کے کناروں پر جھالر کا نمونہ ہو جاتی تھیں۔ آنکھیں چھوٹی چھوٹی ذرا اندر کو دھنسی ہوتی تھی۔ بھویں گھنی اور آنکھوں کے اوپرسایہ فگن تھیں۔ آنکھوں میں غضب کی چمک تھی وہ چمک نہیں جو غصہ کے وقت نمودار ہوتی ہے بلکہ یہ وہ چمک تھی جس میں شوخی اور ذہانت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ اگر میں ان کو’ مسکراتی ہوئی آنکھیں‘  کہوں تو بےجا نہ ہوگا کہ کلّہ جبڑا بڑا زبردست پایا تھا چونکہ دہانہ بھی بڑا تھا اور پیٹ کے محیط نے سانس کے لیے گنجائش بڑھادی تھی۔ اس لیے نہایت اونچی آواز میں بغیر کھینچے بہت کچھ کہہ جاتے تھے۔ آواز میں گرج تھی مگر لوچ کے ساتھ کوئی دور سے سنے تو یہ سمجھے کہ مولوی صاحب کسی کو ڈانٹ رہے ہیں لیکن پاس بیٹھنے والا ہنسی کے مارے لوٹ رہا ہو۔ جوش میں آ کر جب آواز بلند کرتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ ترم بج رہا ہے اس لیے بڑے بڑے جلسوں پر چھا جاتے تھے ناک کسی قدر چھوٹی تھی اور نتھنے بھاری ، اسی ناک کو گنواروں کی اصطلاح میں گاجر اور دلی والوں کی بول چال میں پھلکی کہا جاتا ہے۔ گو متانت چھو کر نہیں گئی تھی لیکن جسم کے بوجھ نے رفتار میں خود بہ خود متانت پیدا کر دی تھی ۔ داڑھی بہت چھدری تھی ایک ایک بال بآسانی گنا جا سکتا تھا داڑھی کی وضع قدرت نے خودفرنچ فیشن بنادی تھی۔
انھوں نے اپنے بارے میں بتایا لو بھئی ہم بہت غریب لوگ تھے نہ کھانے کو روٹی نہ پہننے کو کپڑا تعلیم کا شوق تھا اس لیے پھرتا پھراتا پنجابیوں کے کڑے کی مسجد میں آ کر ٹھہر گیا یہاں کے مولوی صاحب بڑے عالم تھے ان سے پڑھتا اور توکل پر گزارہ کرتا ۔ مولوی صاحب کے دو چار شاگرد اور بھی تھے انہیں بھی پڑھاتے اور مجھے بھی پڑھاتے دن رات پڑھنے کے سوا کچھ کام نہ تھا تھوڑے سے دنوں میں، میں نے کلام مجید پڑھ کر ادب پڑھنا شروع کیا چار برس میں معلقات پڑھنے لگا گو میری عمر بارہ سال کی تھی مگر قد چھوٹا ہونے کی وجہ سے نو دس برس کا معلوم ہوتا تھا۔ پڑھنے کے علاوہ میرا کام روٹیاں سمیٹنا تھا۔ صبح ہوئی اور میں چھڑی ہاتھ میں لے گھر گھر روٹیاں جمع کرنے نکلا کسی نے رات کی بچی ہوئی دال ہی دے دی کسی نے قیمہ کی لگدی ہی رکھ دی کسی نے دو تین سوکھی روٹیوں ہی پر ٹرخایا۔ غرض رنگ برنگ کا کھانا جمع ہو جاتا۔ مسجد کے پاس ہی عبدالخالق صاحب کا مکان تھا اچھے کھاتے پیتے آدمی تھے انھیں کے بیٹے ڈ پٹی عبدالحامد ہیں جو سامنے والے مکان میں رہتے ہیں ان کے ہاں میرا قدم رکھنا مشکل تھا ادھر میں نے دروازے میں قدم رکھا ادھر ان کی لڑکی نے ٹانگ لی جب تک سیر دو سیر مصالحہ مجھ سے نہ پسوالیتی نہ گھر سے نکلنے دیتی نہ روٹی کا ٹکڑا دیتی ۔ خدا جانے کہاں سے محلّہ بھر کا مصالحہ اٹھالا تی تھی پیستے پیستے ہاتھوں میں گٹّے پڑ گئے تھے جہاں میں نے ہاتھ روکا اور اس نے بٹّہ انگلیوں پر مارا بخداجان سی نکل جاتی تھی۔ میں نے مولوی صاحب سے کئی دفعہ شکایت بھی کی مگر انھوں نے ٹال دیا، خبر نہیں مجھ سے کیا دشمنی تھی تاکید کر دیا کرتے تھے کہ عبد الخالق صاحب کے مکان میں ضرور جانا بہرحال اس مارا دھاڑی سے روزانہ وہاں جانا پڑتا تھا اور روز یہی مصیبت جھیلنی پڑتی تھی۔ تم سمجھے بھی پہ لڑکی کون تھی میاں یہ لڑکی وہ تھی جو بعد میں ہماری بیگم صاحبہ ہوئیں۔ جب سوچتا ہوں تو پچھلا نقشه آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے اور بے اختیار ہنسی آجاتی ہے۔ اکثر ہم دونوں پہلی باتوں کو یاد کرتے اور خوب ہنستے تھے۔ خدا غریق رحمت کرے  جیسیبچپن  میں شریر تھیں ویسی ہی جوانی میں غریب ہوگئیں۔
ایک روز جو کشمیری دروازے کی طرف گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ دہلی کا لج میں بڑا ہجوم ہے کالج وہاں تھا جہاں اب گورنمنٹ اسکول ہے۔ میں بھی بھیٹر میں گھس گیا معلوم ہوا کہ لڑکوں کا امتحان لینے مفتی صدر الدین صاحب آئے ہیں ۔ ہم نے کہا چلو ہم بھی چلیں، برآمدے میں پہنچا قد چھوٹا تھا لوگوں کی ٹانگوں میں سے ہوتا ہوا گھس گھسا کر کمرے کے دروازہ تک پہنچ ہی گیا۔ دیکھا کہ کمرے کے بیچ میں میز بچھی ہے۔ اس کے سامنے کرسی پرمفتی صاحب بیٹھے ہیں، ایک لڑکا آتا ہے اس سے سوال کرتے ہیں اور سامنے کاغذ پر کچھ لکھتے جاتے ہیں میز کے دوسرے پہلو کی کرسی پرایک انگریز بیٹھا ہے یہ مدرسے کے پرنسپل صاحب تھے ہم تماشہ میں محوتھے کہ صاحب کسی کام کے لیے اٹھے چپراسیوں نے راستہ صاف کرنا شروع کیا جو لوگ دروازہ روکے کھڑے تھے وہ کسی طرح پیچھے ہٹتے ہی نہیں تھے چپراسی زبردستی دھکیل رہے تھے غرض اس دھکا پیل میں میرا قلیہ ہو گیا ، دروازہ کے سامنے سنگ مرمر کا فرش تھا اس پر سے میرا پاؤں رپٹا اور میں دھم سے گرا ، اتنی دیر میں پرنسپل صاحب بھی دروازے تنگ آگئے تھے۔ انھوں نے جو مجھے گرتے دیکھا تو دوڑ کر میری طرف  بڑھے، مجھے اٹھایا پوچھتے رہے کہیں چوٹ تو نہیں آئی۔ ان کی شفقت آمیز باتیں اب تک میرے دل پرکال نقش في الحجر ہیں ۔ باتوں ہی باتوں میں پوچھا۔” میاں صاحب زادے کیا پڑھتے ہیں؟ میں نے کہا کہ ” معلقات‘‘۔ ان کو بڑا تعجب ہوا پھر پوچھا۔ میں نے پھر وہی جواب دیا۔ میری عمرپوچھی، میں نے کہا: ”مجھے کیا معلوم ؟“ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر بجائے اپنے کام کو جانے کے سیدھامجھ کو مفتی صاحب کے پاس لے گئے اور کہنے لگے” مفتی صاحب یہ لڑکا کہتا ہے میں معلقات پڑھتا ہوں ۔ ذرا دیکھیے تو سہی سچ کہتا ہے یا یونہی باتیں بناتا ہے۔“ مفتی صاحب نے کہا ۔ ”بولوتو کیا پڑھتا ہے؟“ میں نے کہا ”معلقات“ کہنے لگے ”کہاں پڑھتا ہے؟“ میں نے کہا” پنجابیوں کے کڑے کی مسجد میں ۔“ پھر کہا ” معلقات دوں، پڑھے گا“ میں نے کہا ” لائے“ انھوں نے میز پرسے کتاب اٹھائی اور میرے ہاتھ میں دے دی۔ اور کہا ”یہاں سے پڑھ “ جس شعر پر انھوں نے انگلی رکھی تھی وہ معلقات سے عمرو بن کلثوم کا شعر تھا۔ اسے میں نے پڑھا اور معنی بیان کیے۔ انھوں نے تر کیب پوچھی وہ بیان کی مفتی صاحب بہت چکرائے ۔ پوچھنے لگے تم کو کون پڑھاتا ہے؟ میں نے کہا مسجد کے مولوی صاحب کہا ” مدرسے میں پڑھے گا ؟“ میں نے جواب دیا ”ضرور پڑھوں گا۔“ مفتی صاحب نے کاغذ اٹھا کر چند سطریں لکھیں اور پرنسپل صاحب کو دے کر کہا اس کو پریسیڈنٹ صاحب کے پاس پیش کر دینا۔ ہم وہاں سے نکل کر اپنے گھر آئے مولوی صاحب سے کچھ نہ کہا۔ کوئی سات آٹھ روز کے بعد کالج کا چپراسی مولوی صاحب کے پاس ایک کاغذ دے گیا اس میں لکھا تھا کہ نذیر احمد کو کالج میں داخل کرنے کی اجازت ہوگئی ہے۔ کل سے آپ اسے کالج میں آنے کی ہدایت کر دیجیے۔ اس کا وظیفہ بھی ہو گیا ہے۔ چپراسی تو یہ حکم دے چلتا بنا۔ مولوی صاحب نے مجھے بلایا خط دکھایا اور پوچھا یہ معاملہ کیا ہے میں نے کچھ جواب نہ دیا جب ذراسختی کی تو تمام واقعہ بیان کیا وہ بہت خوش ہوئے اور دوسرے روز لے جا کر میرا ہاتھ پرنسپل صاحب کے ہاتھ میں دے دیا۔ اس زمانے میں سید احمد خان فارسی کی جماعت میں تھے ۔ منشی ذکا ءاللہ حساب کی جماعت میں اور پیارے لال انگریزی کی جماعت میں پڑھتے تھے ، میں عربی کی جماعت میں شریک ہوا۔
میں نے کہا مولوی صاحب آپ کی جماعت کہاں بیٹھتی تھی کہنے لگے پرنسپل صاحب کے کمرے کے بازو میں جو چھوٹا کمرہ ہے اس میں ہماری جماعت تھی ۔ دوسرے پہلو میں جو کمرہ ہے اس میں فارسی کی جماعت دانی نے کہا ”مولوی صاحب آپ کے اختیاری مضامین کیا تھے؟ “مولوی صاحب ہنسے اور کہا میاں دانی‘‘ ہم پڑھتے تھے آج کل کے طالب علموں کی طرح گھاس نہیں کاٹتے تھے۔ مولوی صاحب اس فقرے کا بہت استعمال کرتے تھے۔ ارے بھئی ایک ہی مضمون کی تکمیل کرنا دشوار ہے۔ آج کل پڑھاتے نہیں لادتے ہیں۔ آج پڑھا کل بھولے۔ تمھاری تعلیم ایسی دیوار ہے جس میں گارے کا بھی ردا ہے۔ ٹھیکریاں بھی گھسیڑ دی ہیں مٹی بھی ہے پتھر بھی کہیں چونا اور اینٹ بھی ہے ایک دھکا دیا اور اڑا اڑادهم گرگئی ۔ ہم کو اس زمانے میں ایک مضمون پڑھاتے تھے مگر اس میں کامل کر دیتے تھے۔ پڑھانے والے بھی ایرے غیرے پچکیاں نہیں ہوتے تھے۔ ایسے ایسے کو چھانٹا جاتا تھا جن کے سامنے آج کل کے عالم محض کاٹھ کےالّو ہیں۔
مولوی صاحب کو اپنے ترجمے پر بڑا ناز تھا اور اکثر اس کا ذکر فخریہ لہجے میں کیا کرتے تھے۔ اردو ادب میں ان کی جن تصنیفات نے دھوم مچارکھی ہے ان کے نزدیک وہ بہت معمولی تھیں ۔ وہ کہا کرتے تھے کہ میری تمام عمر کا صلہ کلام مجید کا ترجمہ ہے۔ اس میں مجھے اتنی محنت اٹھانی پڑی  ہے اس کا اندازہ کچھ میں ہی کرسکتا ہوں ۔ ایک ایک لفظ کے تر جمے میں میرا سارا سارا دن صرف ہو گیا۔ میاں سچ کہنا کیسا محاورہ کی جگہ محاورہ بٹھایا ہے۔ ہم نے کہا ۔ مولوی صاحب بٹھایا نہیں ٹھونسا ہے۔ جہاں یہ فقرہ کہا مولوی صاحب اچھل پڑے۔ بڑے خفا ہوتے اور کہتے کل کے لونڈو ! میرے محاوروں کو غلط بتاتے ہو۔ میاں میری اردو کا سکہ تمام ہندوستان پر بیٹھا ہوا ہے خود لکھو گے تو چیں بول جاؤ گے “
 مولوی صاحب نے کئی مرتبہ اس عاجز پر بھی رقمی حملے کئے لیکن یہ ذرا ٹیڑھا مقابلہ تھا۔ ایک چھوڑ کئی کتا بیں مولوی صاحب سے اینٹھیں کبھی ایک پیسہ نہ دیا۔ یہ نہیں کہ خدانخواستہ وعدہ کرتا اور رقم نہ دیتا تھا۔ یہ کہ اس وقت تک کتاب لیتاہی نہ تھا۔ جب تک مولوی صاحب خود نہ فرمادیتےکہ ”اچھا بھئی تو یوں ہی لے جا مگر میرا پیچھا چھوڑ دے۔‘‘ میری ترکیب یہ تھی کہ پہلے کتاب پر قبضہ کرتا ، مولوی صاحب کتاب کی قیمت مانگنے میں حجت کرتے ، وہ جواب دیتے ۔ میں اس کا جواب دیتا ریویو کے لیے جو کتا ہیں آتی تھیں وہ تو ہمارے باپ دادا کا مال تھیں کتابیں تو کتابیں میں نے مولوی صاحب کی ایل ای ڈی کی گون پر بھی قبضہ کرنے کا فکر کیا تھا۔
حیدر آباد آنے کے تھوڑے ہی دنوں بعد معلوم ہوا کہ اس چہکتے ہوئے بلبل نے اس گلشن دنیا سے کوچ کیا۔ جب کبھی دہلی جاتا ہوں تو مولوی صاحب کے مکان پر ضرور جاتا ہوں اندر قدم نہیں رکھتا مگر باہر بڑی دیر تک دیوار سے لگ کر دروازے کو دیکھتا ہوں اور رہ رہ کر ذوق کا یہ شعر زبان پر آتا ہے۔
یہ چمن یونہی رہے گا اور سارے جانور اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گے۔ اللہ بس باقی ہوس

Nazeer Ahmad ki kahani by Mirza Farhatullah Baig  Chapter 6 NCERT Solutions Urdu
خلاصہ:
فرحت اللہ بیگ نذیر احمد کا حلیہ یوں بیان کرتے ہیں ۔ رنگ سانولا اونچاقد مگر چوڑان نے لمبان کو دبا دیا تھا۔ دوہرا بدن گدرا ہی نہیں بلکہ موٹاپے کی طرف کس قدر مائل ۔ سر پر ترکی ٹوپی ۔ بڑھی ہوئی تو نده گرمیوں میں ہتہ بند باندھتے تھے۔ سر پرگنتی کے بالوں کی جھالر چھوٹی چھوٹی آنکھیں اندر دھنسی ہوئی تھیں جس میں شوخی اور ظرافت کوٹ کوٹ کر بھری تھی ۔ دہا نہ چوڑا اور چہرا بڑا۔ آواز اونچی اور پاٹ دار۔ کے چھدری داڑھی ۔ قدرتی طور پر فرنچ کٹ ۔ پھر بیگ نے نذیر احمد کی تعلیمی دور کا ذکر کیا ہے کہ وہ کس طرح مسجد میں پڑھتے تھے اور گھر گھر جا کر روٹیاں اکٹھی کرتے تھے۔ دہلی کالج تک پہنچنا اور پھر کس طرح تعلیم حاصل کی ، ان کی بیوی جوان سے ڈھیروں مسالہ پسواتی تھی اس کا بھی ذکر کیا ہے۔ فرحت اللہ بیگ نے اپنے اور نذیراحمد سے ہونے والے نوک جھونک کا ذکر بڑے پر لطف انداز میں تحریر کیا ہے اور کس طرح کتا بیں جھپٹا کرتے تھے اور مولوی صاحب کی طرح ان پر رقمی حملے کرتے تھے مگر کامیاب نہ ہوتے تھے اسے بھی دل چسپ انداز میں بیان کیا ہے۔ استاد اور شاگرد کے درمیان مشفقانہ رشتے کو بھی خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ خاکہ کے آخر میں خاکہ نگار نے یہ بھی لکھا ہے کہ جب وہ دہلی آتے ہیں تو استاد کے دولت کدے پر ضرور حاضری دیتے ہیں ۔ باہر بڑی دیر تک دیوار سے لگ کر دروازے کو دیکھتے ہوئے رہ رہ کر ذوق کا یہ شعر ان کی زبان پر آ جاتا ہے۔ 
یہ چمن یوں ہی رہے گا اور سارے جانور
 اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گے
مرزا فرحت اللہ بیگ
(1884ء تا 1947ء)
مرزا فرحت الله بیگ دہلی میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم مکتب میں حاصل کرنے کے بعد ہندو کالج سے 1905 ء میں بی ۔اے پاس کیا۔ 1907ء میں وہ حیدرآباد گئے اورمختلف ملازمتوں پر مامور رہے اور ترقی کرتے کرتے اسسٹنٹ ہوم سکریٹری کے عہدے تک پہنچے۔ 1919ء میں انھوں نے اپنا سب سے پہلا مضمون رسالہ' افادہ‘‘ آگرہ میں لکھا۔ اور 1923 ء سے وہ باقاعدہ مضامین لکھنے لگے۔ انھوں نے تنقید ، افسانہ، سوانح حیات ، معاشرت اور اخلاق ہر موضوع پر کچھ نہ کچھا لکھا اور اچھا لکھالیکن ان کے مزاحیہ مضامین سب سے زیادہ کامیاب ہوئے۔
مرزا فرحت اللہ بیگ کے مضامین سات جلدوں میں’ مضامین فرحت‘ کے نام سے شائع ہو چکے ہیں نظم کا مجموعہ’ میری شاعری‘ کے نام سے چھپ چکا ہے۔ اس میں بھی مزاحیہ رنگ نمایاں ہے۔
ہنسنے اور ہنسانے کا کوئی اصول مقرر نہیں ہوسکتا۔ تمام مزاح نگار اپنا انداز جدا رکھتے ہیں۔ مرزا فرحت اللہ بیگ کا بھی ایک مخصوص رنگ ہے، جسے عظمت اللہ بیگ نے خوش مذاقی کہا ہے۔ خوش مذاقی میں قہقہے کے مواقع کم اور تبسم کے زیادہ ملتے ہیں۔ ان کے یہاں ایسا انبساط ملتا ہے جسے دیر پا کہا جاسکتا ہے۔
مرزا فرحت اللہ بیگ کے یہاں دلچسپی کے کئی سامان ہیں۔ ان کی مزاح نگاری میں دلّی کے روز مرہ اور محاورات کا لطف پایا جاتا ہے ۔ وہ اکثر ایسے محاورات اور الفاظ اپنی تحریر میں لاتے ہیں جو دلّی کے لوگ گفتگو میں استعمال کرتے ہیں۔ زیر نظر مضمون ان کی انھیں خصوصیات  کا آئینہ دار ہے۔ اس کی مزید خوبی یہ ہے کہ اس سے ہمیں اردو کے ایک بہت بڑے ادیب اور انیسویں صدی کے ہندوستان کے ایک بڑے شخص مولوی نذیر احمد کے بارے میں بہت سی باتیں معلوم ہوتی ہیں جو اور کسی طرح نہ معلوم  ہوسکیں۔

مشق
لفظ ومعنی
حلیہ : شکل صورت
تکملہ : تکمیل
قطب بنے بیٹھے رہتے : اولیاء اللہ میں کچھ لوگ قطب کے درجے پر ہوئے ہیں ۔ ان کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ وہ اپنی جگہ یعنی اپنے گھر سے کہیں باہر نہیں جاتے ۔ اسی لیے فارسی میں کہاوت ہےقطب از جانسنجیدگی ، وقار، بھاری پنمی جنبد (قطب اپنی جگہ سے نہیں ہلتا)
مُرمُرا : بھنے ہوئے چاول
مقیش : سونے چاندی کے تار
سایہ فگن : سایہ ڈالنے والا
نمودار : ظاہر، نمایاں
شوخی : چُلبلاپن
ذہانت : دماغ کی تیزی ، ذہین
محیط : پھیلاؤ
اصطلاح : کسی علمی یا فنی شعبے کا کوئی لفظ جسے عام معنوں کےعلا وہ خاص معنوں میں استعمال کیا گیا ہو۔
متانت : سنجیدگی ، وقار، بھاری پن
وضع : ڈھنگ
توکل : خدا پر بھروسہ کرنا
معلّقات : معلق کی جمع ، کہا جاتا ہے کہ قدیم عرب میں طریقہ تھا کہ ہر سال کی شاعری کے سب سے اچھے نمونوں کو خانہ کعبہ کے دروازےپرآویزاں کر دیا جاتا تھا۔ ان نظموں کو جو قصیدے کی ہیئت میں ہوتی تھیں معلقات (لٹکائی ہوئی) کہا جاتا ہے۔ ان کیتعداد سات بتائی گئی ہے
عمرو بن كلثوم :
عربی کا مشہور شاعر عمرو میں عین پر زبر اور میم پر جزم ہے اور
و نہیں پڑھا جاتا ۔ لیکن عمر کو Amr پڑھیے
کالنقشفی الحجر : پتھر پر بنائے ہوئے نقش کی طرح
پچکلیاں : مختلف رنگوں سے رنگا ہوا(وہ جانور جس کے چاروں پیر اورماتھا سفید ہو)
حُجّت : دلیل، بحث
ریویو(انگریزی) : تبصرہ

غور کرنے کی بات
 * اس مضمون میں نذیر احمد کی شکل و صورت، وضع قطع اور حلیہ کو بڑے دلچسپ انداز میں پیش کیاگیا ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ نذیر احمد نے تعلیم کس قدر مشقت سے حاصل کی۔
*  مضمون میں نذیراحمد کے زمانے کی معیاری اور مفید تعلیم کے مختلف پہلوؤں کو بھی پیش کیاگیا ہے۔

سوالوں کے جواب لکھیے :

 1. نذیراحمدکی شخصیت کے دلچسپ پہلوؤں کو اپنے الفاظ میں لکھیے۔
جواب:

2. نذیر احمد نے اپنے بچپن کے کن واقعات کواطف لے کر بیان کیا ہے؟ بتایئے۔
جواب:

 3.  نذیر احمد کے ساتھ پڑھنے والوں میں کون کون سے ادیب شامل تھے؟
جواب:

 4.  نذیر احمد نے آج کل کی تعلیم کی کون کون سی خامیاں بتائی ہیں؟
جواب:

عملی کام 
*  اس سبق کا بغور مطالعہ کیجیے اور بتایئے کہ آپ کونذیراحمد کی کون سی باتیں سب سے اچھی لگی ہیں۔
*  سبق میں جہاں مزاحیہ انداز اختیار کیا گیا ہے۔ اس کی نشاندہی کیجیے۔
*  سبق  کاخلاصہ تحریر کیجیے۔
سبق کا خلاصہ اوپر بیان کیا گیا ہے۔
*  اس سبق میں جو محاورے استعمال ہوئے ہیں انہیں تلاش کر کے لکھیے۔


کلک برائے دیگر اسباق

Dehaat ki zindagi - NCERT Solutions Class IX Urdu

(اس صفحہ پر کام جاری ہے)
Dehaat ki zindagi by Abdul Haleem Sharar  Chapter 5 NCERT Solutions Urdu
دیہات کی زندگی
عبدالحلیم شرر
اے شہر کے عالی شان محلوں میں رہنے والو !تمھیں نہیں معلوم کہ دیہات کے رہنے والے دنیا کا کیا لطف اٹھاتے ہیں۔ تم ایک منزل عشرت میں ہو۔ عالم کی نیرنگیاں تمھاری نظر سے بہت کم گزرتی ہیں۔ جس مقام پرتم ہو وہاں صبح و شام کی مختلف کیفیتیں بھی اپنا پورا پور ااثر نہیں دکھاسکتیں۔ تمھیں خبربھی نہیں ہوتی کہ آفتاب کب نکلا اور کب غروب ہوا۔ ہواکس طرف کی چلی اور کیا بہار دکھا گئی۔ مگر غریب دیہات والے جنہیں تم اکثر حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو وہ ان امور کا ہروقت اندازہ کرتے رہتے ہیں ۔ ہرصبح انہیں ایک نیا لطف دیتی ہے اور ہر شام سے انہیں ایک نئی راحت نصیب ہوتی ہے۔
گاؤں کے جفاکش رہنے والے صبح کے تارے ہنوز جھلملانے بھی نہیں پاتے کہ وہ اپنی رات کی راحت سے اکتا چکتے ہیں، ایسے وقت میں نسیم کے خوشگوار اور نازک جھونکے آتے ہیں اور بڑے ادب کے ساتھ انہیں جگانے لگتے ہیں۔ اس وقت ان کے ناز اور بادسحر   کے نیاز دیکھنے کے قابل ہوتے ہیں ۔ صبح کی ہوا نہایت شگفتگی کے ساتھ جگاتی ہے اور وہ نہیں جاگتے ۔ صرف کروٹیں بدل بدل کر رہ جاتے ہیں۔بادِ سحر یوں ہی اصرار کرتی ہوتی ہے کہ صبح کے نقیب مرغان سحر اٹھتے ہیں اور انھیں اٹھاتے ہیں ۔ غریب محنت پسند لوگ تازہ دم اٹھ بیٹھتے ہیں ۔ وقت کی کیفیتوں کو نہایت غور سے بڑے لطف کے ساتھ دیکھتے ہیں ۔ ان کا پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ جھونپڑیوں سے باہر نکلیں ، آسمان کو دیکھا جس میں تارے جھلملا رہے تھے۔ افق مشرق پر نظر ڈالی جو رات بھر کے چمکے ہوئے تاروں پر غالب آئی جاتی تھی۔ کچھ کچھ نمودار ہونے والے درختوں کو دیکھا جن پر چڑیاں  چہچہارہی تھیں ۔ یہ سماں انھیں اپنی خوبیاں دکھا کر بے خود کرنے کو تھا کہ انھوں نے اپنے دن کے کام کو یاد کیا۔ آگے بڑھے اور رات کی دبی ہوئی آگ پر گری ہوئی پیتاں جمع کر کے آگ جلائی۔ تاپ تاپ کے افسردہ ہاتھ پاؤں کو گرمایا اس کے بعد پاس کے شکستہ جھونپڑے میں جا کے بیل کھولے اور عین اس وقت جب کہ آفتاب کی کھڑی کھڑی کر نیں مشرقی کناره آسمان سے اوپر کو چڑھتی نظر آتی ہیں ۔ یہ لوگ لمبے لمبے پھلوں کو کاندھے پر رکھ کر کھیت کی طرف روانہ ہوئے ۔ کھیتوں کی مینڈوں پر جارہے ہیں ۔ اور زمین کی فیاضیوں کو کس مسرت اور خوشی کی نظر سے دیکھتے جاتے ہیں۔ ہرے ہرے کھیت ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے چلنے سے لہرارہے ہیں ۔ نظر اس خوشگوار سبزی پر عجب لطف کے ساتھ کھیلتی ہوئی دور تک چلی جاتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے پودے جو خدا کے پاس سے دنیا والوں کی روزی لیے آتے ہیں کس قدر شگفتہ اور بشاش نظر آتے ہیں۔ رات کا برقعہ اڑھا کر آسمان نے انھیں اور زیادہ خوبصورت بنا دیا ہے۔ کیونکہ تاروں کی چھاؤں میں اس وقت ان کی نازک اور چھوٹی پتیوں پر شبنم کے موتی جھلک رہے ہیں ایک عالمِ جواہر ہے جس پر جھلملاتے ہوئے تاروں کی شعاعیں خدا جانے کیا کیفیتیں دکھا رہی ہیں ۔ ان جفا کشوں نے اس وسیع میدان کو نہایت شوق سے دیکھا جو اس وقت تو صرف ان کی نظر ہی کو خوش کرتا ہے مگر اصل میں قدرت کے ہدیے اور نیچرکے تحفے ہر جاندار کو اس کی فیاضیوں سے ملتے ہیں ۔ یہ لوگ کھیتوں میں پہنچ کر اپنی غفلت پر نادم ہوگئے کیونکہ اور لوگ ان سے پیشتر پہنچ چکے تھے۔ یہ لوگ تر و تازہ کھیتوں میں منتشر ہوگئے ۔ آفتاب کی کرنوں نے جو امیر غریب سب کو ایک نظر سے دیکھتی ہے کھیتوں کی مینڈوں اور کنووں کے کناروں پر ان کا خیر مقدم کیا۔
اب یہ لوگ اپنے کام میں مصروف ہیں کہ نیچر کے جذبات بھی ان پر اپنا اثر نہیں ڈال سکتے اور قدرت کی بہار بھی ان کی دل فریبی کرنے سے عاجز ہے۔ وہ ہرا ہرا سبزہ زار، وہ سہانا سماں، وہ صبح  کی بہار۔ و ہ تر و تازہ ہوا وہ  اجلی کرنیں، ایسی چیز یں ہیں جن کا شوق اکثر بے چین طبیعت والوں کو شہروں سے باہر کھینچ کر لے جایا کرتا ہے۔ بار بار ہم پر ایسی وحشت سوار ہوتی ہے کہ گھر سے دو تین کوس تک نکل گئے ہیں مگر یہ لوگ اپنے روزانہ کے کاموں میں ایسے مصروف ہیں کہ انکیفیتوں کو آنکھ اٹھاکر نہیں دیکھتے،  زمین کی اس استعداد کے بڑھانے میں دل و جان سے سائی ہیں جو صرف ان کے لیے نہیں تمام دنیا کے لیے مفید ہے۔ جان توڑ کر محنت کر رہے ہیں ۔غریب کم قوت بیل جوشاید رزق رسانی عالم کی فکر میں دبلے ہو گئے ہیں ان کے ہاتھوں کی مار کھاتے ہیں اور زمین کو پیداوار کے قابل بناتے چلے جاتے ہیں۔ اپنی محنت آسان کرنے کے لیے یہ لوگ نہایت دردناک آواز میں کچھ گاتے جاتے ہیں اور ان کی آواز کھلے میدان میں گونج گونج کر ایک نئی کیفیت پیدا کرتی جاتی ہے، کنوؤں کے کنارے والے پانی نکال نکال کر زمین کو سیراب اور چھوٹے چھوٹے درختوں کو زندہ کر رہے ہیں ۔ دیکھو وہ کس شوق سے اس بات کے منتظر ہیں کہ ڈول او پر آئے اور انڈیلیں اور جس وقت ڈول ان کے ہاتھ میں آ جاتا ہے کس جوش کے عالم میں چلا اٹھتے ہیں۔ پانی ان کی بڑی دولت ہے جس کی امید میں و و آرزومند بن کر کبھی آسمان کی طرف دیکھتے ہیں اورکبھی کنووں کی طرف رخ کرتے ہیں۔
آفتاب پوری بلندی  پرپہنچ کر نیچے کی طرف مائل ہوتا ہے اور جھکتے جھکتے افق مغرب کے قریب پہنچتے وقت باغ عالم کی دلچسپیوں سے رخصت ہونے کے خیال میں زرد پڑ جاتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ آفتاب کی حالت اور وضع میں اختلاف ہوجاتے ہیں مگر یہ نہ تھکنے والے اور دھن کے پکے دہقان ایک ہی وضع اور ایک ہی صورت سے اپنا کام کیے جاتے ہیں۔ نہ محنت ا نھیں تھکا تی ہے نہ مشقت انھیں ماند ہ کرتی ہے ۔ نہ دھوپ سے پریشان ہوتے ہیں نہ کام کرنے سے  اکتا تے ہیں ۔ الغرض آفتاب غروب ہوتا ہے، دن ان سے رخصت ہوتا ہے اور یہ شام کی دلفریب کیفیتوں کا لطف بخوبی دیکھ کر یہ امید لگا کر کہ کل کھیتوں کو آج سے زیادہ تر وتازہ پائیں گے اپنے کھیتوں سے رخصت ہوتے ہیں ۔ خوش خوش اس کچے اور کم حیثیت گھر میں آتے ہیں جسے ہم نہایت ذلت کی نگاہ سے دیکھا کرتے ہیں۔ بی بی ،غریبی کا کھانا اور فصل کے مناسب ، غذ اان کے سامنے لا کر رکھ دیتی ہے اوتہ ِدل سے خدا کا شکر ادا کر کے کھاتے ہیں اور دوسرے دن کی محنت کا خیال کر کے اپنے تئیں سویرے ہی سلا دیتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جس وقت شہروں کے پہر، دن چڑھے تک سونے والے سیہ کار اپنی شرمناک زندگی کے برے نمونے دکھانے کے لیے جاگتے ہیں ۔ زاہد نماز عشا پڑھ کے سو چکا ہے۔ بے فکرے گپیں اڑارہے ہیں ۔ شعرا مضمون آفرینی کی فکر میں ہیں ۔ امراء کے محلوں میں کھانے کا اہتمام ہوتا ہے۔ بچے کہانیاں سن رہے ہیں ۔ طلبا ء کتاب پر جھکے ہوئے ہیں ، میکش وہ پیاس بجھارہے ہیں جو کمبخت نہیں بجھتی ہے۔ سیہ کار بدکاری کی دھن میں شہر کی سڑکیں اور گلیاں چھان رہا ہے اور جفاکش عجب میٹھی نیند میں غافل ہو گئے ہیں تا کہ تڑکے آنکھ کھلے ۔ یہ پچھلا اطمینان اور یہ سچی آسائش بے شک حسد کے قابل ہیں۔
گاؤں عموما ًقدرت کا سچی جلوہ گاہ ہوتا ہے۔ وہاں کے سین اپنی سادگی اور دل فریب کیفیتوں کے ساتھ انتہا سے زیادہ دلچسپ ہوتے ہیں ۔ اے شہر کے نازک خیال اور چابکدست کاریگر و ! وہاں تمھاری صنّا عیوں کی بالکل قدر نہیں ۔ وہاں صرف قدرت کی کاریگری عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے اور خدا کی فیاضیاں بڑی کامیابی اور نہایت شوق کے ساتھ پسند کی جاتی ہیں۔ ان کی خوشی کا پیمانہ بہت چھوٹا اور تنگ ہے۔ وہ بہت تھوڑے عرصہ میں خوش ہو جاتے ہیں اور ادنیٰ مسرّت ان کی دل فریبی کے لیے کافی ہوتی ہے۔ وہ لہلہاتے ہوئے سبزہ زارجنہیں وہ روزصبح وشام آتے جاتے وقت دیکھا کرتے ہیں ۔ ان کے مسرور کر دینے کے لیے بہت کافی ہیں ۔ وہ تروتازہ کھیت جن سے زیادہ پیداوار کی امید ہے ان کی خوشی کو اعتدال سے زیادہ بڑھا دیا کرتے ہیں۔ دیہات کا چودھری اگرچہ اس کی حکومت چند کچے اورٹوٹے پھوٹے مکانوں اور ایک وسیع میدان پر محد ود ہے مگر اپنے حلقہ کا پورا بادشاہ ہے۔ اس کے آگے وہاں کی مختصر آبادی میں ہر ایک کا سر جھک جاتا ہے۔ اس کے راج کو ہرشخص بلاعذر تسلیم کر لیتا ہے ۔ اس کے فیصلوں کی کہیں اپیل بھی نہیں ہوتی مگر باوجود اس حکومت کے دیکھو وہ کس بے تکلفی سے اپنے مکان کے دروازے پر بیٹھا ہے۔ دنیاوی پرتکلف فرش کی ضرورت نہیں ۔ میز کرسی کو وہ نا پسند کرتا ہے۔ قدرت کے سادے فرش اور خدا کی زمین پر اس کا دربار لگا ہوا ہے۔ وہ اپنے ماتحتوں کو اپنے رتبہ کے قریب ہی سمجھتا ہے۔ اسی لیے نہ وہ کسی مقام پر بیٹھتا ہے اور نہ گاوں والے کی ذلت کی جگہ پر بیٹھتے ہیں ۔ بس یہ حالت ہے کہ اگر عزت ہے تو سب کی ۔ اس کے گھر میں بھی وہی سامان اور فرنیچر ہے جو اس کے ماتحتوں کے گھر میں ہے۔ پیال اس کا نرم اور آرام دہ بچھونا ہے۔ کچی مگر صاف اور لپی ہوئی کو کوٹھریاں اس کی خواب گاہ ہیں ۔ جفاکش اور گھر گرہست بہو بیٹیوں کے ہاتھ پاؤں اس کے خادم ہیں کوٹھیوں میں بھرا ہوا غلہ اس کی دولت ہے۔ چند دبلے اور لاغرمویشی اس کا قیمتی سرمایہ ایک کم حیثیت مکان اس کی کوٹھی ہے اور اِردگِرد کے کھیت اور آس پاس کا سبزہ زار اس کا جانفزا باغ ہے۔
گاؤں والوں کی یہ بات کس قدر قابل ذکر ہے کہ وہ ایک سادی اور بسیط حالت پر ہیں۔ ان کی کفایت شعاری کی زندگی کس صفائی اور اطمینان سے گزرتی ہے۔ ان کی فکر یں ہمارے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ وہ ہمارے روپیہ پیسہ کے بھی محتاج نہیں ۔ ہمار اسکہ بھی ان میں بہت کم مروج ہے ۔ کیونکہ ان کی نظر ہر وقت رزاق مطلق کی طرف لگی رہتی ہے اس لیے وہ خدا کی بے واسطہ ضیافتوں ہی سے سونے کا کام بھی نکال لیتے ہیں ۔ غلہ اور اناج ان کا سکہ ہے۔ دنیا کی ہر چیز جوان کی ضرورتیں رفع کرسکتی ہے، غلہ کے عوض میں ان کو باآسانی اور بہ کفایت مل سکتی ہے۔
غریب دیہاتیوں کی یہ بات اس قابل ہے کہ ہم ان سے ایک کارآمد سبق لیں۔ اتفاق ان کی قوت ہے اور باہمی ہمدردی ان کا ہتھیار ہے۔ افلاس اور آفاتِ سماوی  بھی  کبھی ان کی دشمن ہوجاتی ہے۔ مگر وہ اس ہتھیارکو لے کر اٹھتے ہیں اور کامیاب ہوتے ہیں ۔ کھیتوں میں پانی پہنچاتے وقت وہ با ہم ایک دوسرے کی مدد کرتے رہتے ہیں۔ کھیتوں میں بیج  ڈالتے وقت وہ ایک دوسرے کو غلّہ قرض دیتے رہتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ایک عالم کی فکر اپنے سر لیتے ہیں اور دنیا بھر کے لیے خود مصیبت میں پھنستے ہیں ۔ ہم بے فکر ہیں اور اپنی اغراض اور بقائے زندگی کے اسباب بھولے ہوئے ہیں مگر ہماری طرف سے اس کام کو  وہ پورا کرتے ہیں۔ اس جفاکشی کے انعام میں خدا کی طرف سے انھیں جو کچھ ملتا ہے اس میں سے خود بہت کم لیتے ہیں اور سب ہمارے حوالے کر دیتے ہیں ۔
ایک کسان کی زندگی پر غور کرو اور اس کی سالا نہ محنت و مشقت کا اندازہ کرو کہ کس طرح جان توڑ توڑ کر اور اپنے تئیں مٹامٹا کر جفا کشی پرتلا رہتا ہے اور اس کے بعد یہ غور کرو کہ وہ کس لیے اس مصیبت میں پڑتا ہے تو معلوم ہوگا کہ وہ دنیا کا کتنا بڑا ہمدرد ہے اور حبِّ ملک اس کے مزاج میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ بے شک وہ ساری دنیا کے لیے یہ محنت کرتا ہے اور اس سے زیادہ نوع انسان کا دوست دنیا بھر میں نہ ملے گا۔
اے ہمدردی قوم کا لفظ بار بار زبان پر لانے والو! اگر اپنی کوششوں کا کچھ نتیجہ دیکھنا چاہتے ہو تو ان غریب، جفاکش دہقانوں کی پیروی کرو ۔ قوم کی کھیتی روز بروز کملاتی جاتی ہے اور چند روز میں بالکل سوکھ جائے گی تمھارا فرض ہے کہ جلدی اٹھو اور جس طرح ہو سکے اپنی راحت بیچ بیچ کران کھیتوں میں پانی پہنچاؤ ۔ قومی کھیت کے پودے یعنی موجود ہ نسل بھی نہ سنبھلی تو کہیں کے نہ رہو گے۔

مضمون نگاری
اردو میں مختصر مضمون نگاری کا آغاز سرسید سے ہوتا ہے۔ انھوں نے اس صنف کو سماجی اصلاح کے ایک وسیلے کے طور پر استعمال کیا ۔ اس کے بعد مضمون نگاری بھی ایک صنف کی حیثیت سے رائج ہوگئی ۔ سماجی موضوعات کے علاوہ علمی، ادبی، فلسفیانہ اور دیگر موضوعات پر بھی مضامین لکھے جا سکتے ہیں ۔ حالی ،شبلی، محمد حسین آزاد ،نذیر احمد، میر ناصر علی ، نیا ز فتح پوری ، رشید احمد صدیقی ، مرزا فرحت اللہ بیگ، محفوظ علی بدایونی، ابوالکلام آزاد، خواجہ غلام السید ین وغیرہ اردو کے اہم مضمون نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔
مختصر مضمون کی ایک شکل انشائیہ کہلاتی ہے۔ انشائیہ اور مضمون میں کوئی خاص فرق نہیں ۔ لیکن عام طور پر انشائیہ میں مزاح اور طنز یا خوش مزاجی کا رنگ ہوتا ہے اور انشائیہ نگاراکثر باتیں اپنے حوالے سے ، یا اکثر اپنے ہی بارے میں ،بیان کرتا ہے۔
عبدالحلیم شرر
(1860ء – 1926ء)
عبدالحلیم نام اور شرر تخلص تھا۔ وہ لکھنؤ میں پیدا ہوئے اور ان کی ابتدائی تعلیم لکھنؤ میں ہوئی ۔ بعد میں ان کے والدحکیم تفضل حسین نے ان کو کلکتہ  مٹیا بر ج بلا لیا۔ یہاں حکیم صاحب ، واجد علی شاہ کی ملازمت میں تھے۔ اہل علم کا بھی اچھا مجمع تھا، شررکی علمی  نشو ونما یہیں ہوئی ۔ انھوں نے اردو، فارسی، انگریزی اور عربی میں مہارت حاصل کر لی۔ 1870ء میں شر رکو  پھر لکھنؤ واپس آناپڑا۔
لکھنؤ آ کر شرر نے اپناعلمی مشغلہ برابر جاری رکھا ،مختلف اہل کمال سے فیض حاصل کرتے رہے۔ 1879ء میں وہ  مزیدتعلیم کے لیے دہلی گئے ۔ دہلی پہنچ کرشر رنے نہ صرف تعلیم حاصل کی بلکہ تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔
دہلی سے لکھنؤ واپس آنے کے بعد 1881 ء میں انھوں نے اودھ اخبار کی ملازمت کر لی جس میں برابر مضامین لکھتے رہے۔ 1887ء میں شرر نے اپنا رسالہ ’دل گداز‘ جاری کیا۔ کچھ دنوں کے بعد اس رسالے میں ان کے ناول’ ملک العزيز ورجنا‘ ، ’حسن انجلينا‘ ، ’منصور موہنا‘قسط وار شائع ہونے لگے۔ کچھ مدت بعد مالی تنگیوں کی وجہ سے ان کو حیدر آباد جانا پڑا۔ یہاں رہ کر انھوں نے تاریخ سندهھ لکھنی شروع کی۔ نواب وقار الا مرا نے ان کی قدردانی کی اور اپنے بیٹےکے ساتھ 1893ء میں انگلستان بھیج دیا جہاں تین سال تک قیام رہا اور انھوں نے فرانسیسی زبان بھی سیکھ لی ۔ واپس آکر حیدرآباد سے’ دل گداز ‘جاری کیا۔ 1909ء میں وہ لکھنؤ واپس آ گئے اور انھوں نے یہیں وفات پائی۔
عبد الحلیم شرر نےاردو میں تاریخی ناول کی ابتدا کی ۔اس کے علاوہ  انہوں نے ڈرامے بھی لکھےجن میں ایک منظوم ڈرامہ بھی تھا۔”گذشتہ لکھنؤ“ نامی کتاب میں انہوں نے نوابی لکھنؤ کے آخری زمانے کی تہذیب کا بہت دلچسپ اور معلومات افروز مرقع پیش کیا ہے۔
Dehaat ki zindagi by Abdul Haleem Sharar  Chapter 5 NCERT Solutions Urdu
مشق
لفظ ومعنی 
عشرت : عیش
نیرنگی : حیرت پیدا کرنے کی قوت، وہ صفت جس سے لوگ تعجب با فکر میں پڑ جائیں
حقارت : عزت کی نگاہ سے نہ دیکھنا
امور : امر کی جمع یعنی کا م ، باتیں
ہدیہ : تحفہ
جفاکش : محنتی
ہنوز : اب تک
بادِ سحر : صبح کی ہوا
نقیب : اعلان کرنے والا
نمودار : ظاہر ،نمایاں
سماں : منظر
افسردہ : اداس
فیاضی : دریا دلی ، سخاوت
بشاش : خوش
شعائیں : کرنیں
منتشر : پھیلا ہوا بکھرا ہوا
وحشت : گھبراہٹ ، دیوانگی
استعداد : اہلبیت ، لیاقت
رزق رسانی : روزی پہنچانا
افق : وہ جگہ جہاں زمین و آسمان ملتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں
وضع : شکل، بناوٹ
ماندہ : تھکا ہوا
میکش : شرابی
چابکدست : مشاق، ہنر مند
صناعی : کاریگری
بسیط : پھیلا ہوا
مروج : رائج، جس کا چلن ہو
آفات سماوی : آسانی بلائیں
بقا : باقی رہنا
رزاق مطلق : خدا، جسے رزق دینے کا پورا اختیار ہے۔
ضیافت : دعوت

غور کرنے کی بات
*  شہری زندگی کے مقابلے میں گاؤں کی زندگی ماحولیاتی آلودگی سے پاک ہوتی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہو کر فطری ماحول میں زندگی بسر کرتے ہیں۔
*  دیہات کے ماحول میں فطرت اپنی تمام ترخوبیوں کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہے۔
*  سادگی ، جفاکشی ، انسانی ہمدردی ، آپسی بھائی چارہ اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کا جذبہ دیہی زندگی کی اہم خصوصیات ہیں۔
*   کسان دنیا کے انسانوں کی بھلائی کے لیے سخت محنت و مشقت کرتے ہیں۔ ملک کی ترقی میں ان کا اہم کردار ہوتا ہے۔

سوالوں کے جواب لکھیے:
1. دیہات کے رہنے والے زندگی کا کیا لطف اٹھاتے ہیں؟

 2. شہر کے مقابلے میں گاؤں کی زندگی کس طرح مختلف ہوتی ہے؟

 3. دیہی زندگی کی وہ کون سی خصوصیات ہیں جن سے قوموں اور ملکوں کی ترقی وابستہ ہے؟

 4. اس سبق میں مصنف نے کسان کی زندگی کے کن پہلوؤں پر غور کرنے کا مشورہ دیا ہے؟


عملی کام
اس مضمون کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیے: آپ نے کوئی گاؤں ضرور دیکھا ہوگا ۔ اس پر ایک مضمون لکھیے ۔
 ذیل کے الفاظ میں جمع کی واحد اور واحد کی جمع بنائیے: 
منزل ، امور ، تحفہ، جذبات، شاعر، امیر ، کتاب ، خادم ، آفت، اسباق ، اسباب، اغراض غریب

درج ذیل اقتباس کا مطلب اپنے الفاظ میں لکھیے:
گاؤں والوں کی یہ بات کس قدر قابل ذکر ہے کہ وہ ایک سادی اوربسیط حالت پر ہیں ۔ ان کی کفایت شعاری کی زندگی کس صفائی اور اطمینان سے گزرتی ہے۔ ان کی فکریں ہمارے مقابلے میں بہت کم ہیں ۔ وہ ہمارے روپیہ پیسہ کے بھی محتاج نہیں ۔ ہمارا سکہ بھی ان میں بہت کم مروج ہے۔ کیونکہ ان کی نظر ہر وقت رزاق مطلق کی طرف لگی رہتی ہے۔ اس لیے وہ خدا کی ہے واسطے ضیافتوں ہی سے سونے کا کام بھی نکال لیتے ہیں ۔

خلاصہ:
عبدالحلیم شرر نے اس مضمون میں دیہات کی اور شہری زندگی پر تبصرہ کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ شہر کے مقابلے میں دیہات کی زندگی کس قدر فطری ہے اور دیہات میں فطرت اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ کس قدر حسین نظر آتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اے شہر کے عالی شان محلوں میں رہنے والو!تم نہیں جانتے کہ سورج کب طلوع ہوا اور کب غروب ہوا، ہوا کس طرف سے آئی اور اپنی بہادری دکھاتی ہوئی کدھر چلی گئی مگر دیہات کے رہنے والےجنھیں تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو وہ صبح شام اور بدلتے موسموں سے کس قدرلطف حاصل کرتے ہیں۔ گاؤں کے محنت کش کسان اس وقت بیدار ہوتے ہیں جب ابھی صبح کا سورج نہیں نکلا ہوتا اور آسمان پر کچھ ستارے نظر آتے رہتے ہیں۔ اس وقت چلنے والی ٹھنڈی ہوا انہیں سلاتی نہیں جگاتی ہے اور وہ اپنی جھونپڑیوں سے باہر آ کر کھلے آسمان کو دیکھتے ہیں، اس وقت پیڑوں پر چڑیاں چہچہارہی ہوتی ہیں ، وہ اس حسین منظر سے بے خود ہو جاتے ہیں اور پھر تازہ اپنے بیل اور ہل لے کر کھیتوں پر چلے جاتے ہیں ۔ کھیتوں میں چھوٹے چھوٹے پودوں  کے پتوں پر شبنم کے قطرے اپنی بہار دکھاتے ہیں ۔ یہ غریب کسان روزانہ ایسےصبح سے شام تک قدرت کی کاریگری کا نظارہ کرتے ہوئے یہ کسان غروب آفتاب تک اپنی اپنی جھونپڑیوں میں پہنچ جاتے ہیں اور پھر اگلی صبح اسی طرح بیدار ہوتے ہیں ۔ ان کے مقابلے میں شہر کے لوگ دن چڑھے تک سوتے رہتے ہیں۔ رات کو دیر تک جاگ کر ایسے کام کرتے ہیں جو انہیں گناہگار بناتے ہیں جبکہ گاؤں عموما قدرت کی سچی جلوہ گاہ ہوتا ہے وہاں کے مناظر اپنی سادگی اور دل فریب کیفیتوں کے ساتھ انتہائی دلچسپ ہوتے ہیں ۔ گاؤں والوں کے لیے قدرت کا عطیہ ہے۔
مضمون کے آخر میں شرر کہتے ہیں کہ غریب دیہاتوں کی زندگی سے ہم سبق حاصل کریں کہ وہ کس قدرمحنت مشقت سے غلہ اور اناج اگاتے ہیں ۔ جوغربت کی زندگی بسر کرتے ہیں کبھی کبھی کوئی آفت ناگہانی ان کی فصل خراب کر دیتی ہے۔ وہ مفلس رہ کر بھی دوسروں کی بھلائی اور زندہ رہنے کے لیے کھیتوں میں بیج ڈالتے رہتے ہیں اورفصل تیار ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔
ایک کسان دنیا کا کتنا بڑا ہمدرد ہے، وہ اپنے ملک کے رہنے والوں سے کس قدر محبت کرتا ہے وہ اناج اگاتا ہے اور ساری دنیا کے لیے محنت کرتا ہے۔ اس لیے شہر والوں کو چاہئیے کہ وہ اس کی زندگی پر ہمدردی کے ساتھ غور کریں اور جس طرح کسان محنت کرتا ہے اسی طرح انہیں بھی قوم کے لیے محنت کرنی چاہئیے

کلک برائے دیگر اسباق

Sunday 5 April 2020

Shab e Baraat - Makhdoom e Jehan Sheikh Sharafuddin Ahmad Yahya Maneri (R)




سلطان المحققین حضرت مخدوم جہاں مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیری قدس سرہ کے ملفوظات کے مجموعہ مونس المریدین سے شب برات کی فضیلت  اور معمولات سے متعلق ملفوظ خانقاہ معظم، بہار شریف کے شکریہ کے ساتھ   قارئین آئینہ کی خدمت میں   پیش ہیں۔ان ملفوظات کو حضرت صَلاح مخلص داؤد خاں نے یکجا کیا ہے اور یہ کتاب مکتبۂ شرف، بیت الشرف، خانقاہ معظم، بہار شریف سے شائع ہوئی ہے۔





Saturday 4 April 2020

Ghazal Dr. Kaleem Ajiz

غزل
 ڈاکٹر کلیم عاجز

 وہ چاہے ۔ کوئی بلا سے نہ چا ہے یا چاہے
اسی کو کہیے سُہاگن  جسے پیا چاہے

کسے مجال ہے مسند کو بوریا چاہے
وہ دینے والاہے دے جس کو جو دیا چاہے

بغیر اجازت پیرمغاں ہے وہ بھی حرام
 شراب کیا کہ اگر زھر بھی پیا چاہے

 وہ محترم نہ رہے گا کسی کی نظروں میں
 تری نظر جسے بے آبرو کیاچاہے

 یہ دور وہ ہے، کسی حال میں بھی چین نہیں
 گریباں چاک ہو، دامن اگرسیاچاہے

گذر کے مرحلۂ دارسے بھی دیکھ لیا
 یہ کام سہل ہے ہمّت اگر کیا چاہے

طبیب عشق  کا یہ نسخۂ مجرّب ہے
 مرے کسی کی محبت میں گرجیا چاہے

غزل میں عکس رخ انقلاب رکھتا ہوں
 نگاہ  لائے  جو  یہ  آئینہ  لیا  چاہے
(بہ شکریہ المجیب)

Friday 3 April 2020

Magar woh toot gayi - NCERT Solutions Class 9 Urdu

Magar woh toot gayi by Saleha Abid Hussain  Chapter 4 NCERT Solutions Urdu
مگر وہ ٹوٹ گئی
صالحہ عابد حسین
دور کسی گھنٹے نے دو بجائے ۔ اس کے وسیع بیڈ روم کے ہاتھی دانت کے لیمپ میں نیلا زیرو بلب روشن تھا جس کی ٹھنڈی روشنی میں ہر چیز بےجان سی نظر آرہی تھی ۔ سنگھار میز پربھی سیکڑوں شیشیاں، بوتلیں برش وغیرہ وغیرہ - ڈبل بیڈ کا قیمتی بستر اور نیلا نائٹ گون، چھت پر ایک چھوٹا سا بلوریں جھاڑ - ہر چیز اس کا منہ چڑارہی تھی۔
برابر کے کمرے میں نے اپنی آیا کے ساتھ آرام کر رہے تھے۔ دوسرے نوکر اپنے اپنے کواٹرز میں محو خواب ہوں گے ہاں صرف اس کی آنکھوں سے نیند غائب تھی۔ دو بج چکے ، نہ وہ آئے ، نہ نیند آئی ۔ جس طرح وہ روٹھے روٹھے ہیں اسی طرح نیند بھی روٹھ گئی ہے۔ وہ ڈبل بیڈ کے دوسرے حصّے پرلوٹ لگا کر آ گئی اور ان کے تکیے پر سر رکھ دیا آنکھوں میں آنسوؤں کا ایک سیلاب سا امنڈ آیا جو اس کے گالوں پر لڑھکتے کنپٹیوں پر سے پھیلتے نرم  تکیے  میں جذب ہوتے رہے ۔ سامنے دیوار پران دونوں کی قد آدم رنگین تصویر آویزاں تھی ۔ ان کی شادی کی تصویر ۔ اس کے چہرے پر شرمیلی اور مسرور مسکراہٹ ہے اور ان کی آنکھوں میں اشتیاق ہے شرارت ہے اورتجسس بھی؟
شادی - شادی - شادی!!
شادی یار بربادی؟ کتنی بربادیاں اس نے اپنے چاروں طرف دیکھی تھیں۔ ماں کی زندگی، بھابھی کا انجام، اس کی پیاری سہیلی منورما کی خودکشی، اس کی ٹیچر کی تنہا اداس زندگی ۔ دو چار نہیں بیسیوں ناکام شادیوں کو اس نے دیکھا تھا۔ یہ شادی بربادی کیوں بن جاتی ہے؟ عورتیں تو مردوں ہی کو الزام دیتی ہیں مگر کیا ان کا قصور کچھ نہیں ہوتا؟ کیا حقیقت نہیں کہ شادی شدہ زندگی کو کامیاب اور  مسرور بنا نا عورت کا کام ہے۔نباہنے کی ذمے داری مرد سے زیادہ عورت پر آتی ہے۔ اگر وہ چاہے تو۔ اگر وہ چاہے تو ؟ کیا یا نہیں ہوسکتا۔ اس نے اگر کبھی شادی کی تو۔ ”نہیں نہیں“ وہ لرز اٹھی ۔ جانے کیا انجام ہو۔ وہ ابھی شادی نہیں کرے گی ۔ ایم ۔ اے کرنے کے بعد۔ پھر ۔پھر سوچے گی۔ لیکن ادھر ادھر کی زندگیاں دیکھ کر وہ بہت زیادہ حساس بلکہ شکّی ہوگئی تھی ۔ کیا ہرج ہے اگر وہ شادی نہ کرے؟ اورتعلیم پائے۔ ڈگریاں لے۔ اچھی سی نوکری کرے۔ اپنا گھر بنائے۔
مگر یہ ناکام زندگیاں -یہ جدائیاں یہ طلاقیں؟ اس میں مرد سے زیادہ عورت کا قصور ہے شاید۔ وہ چاہے تو..... وہ سہارنا سیکھے ۔گھر بنانا یا بگاڑنا عورت کے ہاتھ میں ہے ۔ بھابی کا مزاج۔۔ خدا کی پناہ ! باجی کی خودداری اور آن بان ۔ شوہر سے مقا بلے.... منورما حد سے زیادہ حساس نہ ہوتی۔ اور اتنی بے زبان تو ۔تو شاید خودکشی کی نوبت نہ آتی۔
اماں اس رشتے کے خلاف تھیں۔ خاندان اور باجی کوعمر پر اعتراض تھا اور بھائی صاحب کھلم کھلا کہتے تھے کہ مزاج کا بہت تیز ہے۔ البتہ ابا میاں کہتے ۔ ”ذہین ہے۔ اعلا تعلیم یافتہ ہے۔ اتنی پوزیشن ہے۔ درجہ عہدہ، کیا نہ تھا ان کے پاس اور پھر یہ مسکان ! خوامخواہ لوگ مخالفت کرتے ہیں۔ پندرہ سترہ برس کا فرق ہے، کیا ہوا۔ مرد کی عمر میں فرق ہونا ہی چاہیے۔ لڑ کی جلدی میچور ہو جاتی ہے۔ مزاج بھی مردوں کا تیز ہوتا ہے۔ عورت اگر مزاج شناس ہو تو اماں ، باجی، بھابی منورما، شانتی۔ ان سب کی زندگیاں اس کی نظر میں ہیں۔ سب کی کمزوریاں بھی وہ جانتی ہے۔ اس کا عزم تھا کہ وہ ان کا دل جیتے گی۔ اس کے لیے ناگز یر بن جائے گی۔ اس کے مزاج کو سہارے گی۔ اسے خوش رکھے گی۔ میں نباہ کرنا جانتی ہوں نباہ کر کے دکھاؤں گی۔“ اور سب کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔ وہ ان کی بن گئی۔
ایک کے بعد دوسری بیٹی ہوئی تو اس روشن خیال اعلا تعلیم یافتہ مرد کے چہرے پر ناگواری کے بل پڑ گئے ۔ جیسے یہ اس کے اختیار کی بات تھی ۔ بچیوں نے جانا ہی نہیں کہ باپ کی محبت کس چڑیا کا نام ہے۔ خالائیں، پھوپھیاں، محلّے پڑوس والے جن بچوں کے بھولے چہروں اور پیاری باتوں پر جان دیتے ، ماموں چچا جن سے اتنی محبت کرتے وہ ڈیڈی کی صورت کو ترستی رہیں اور ماں کی محبت سے محروم!
مگراسے تو نباہ کرنا تھا۔ اس کے لیے اس نے وہ سہا، وہ سہا، جس کا اعتراف وہ خود اپنی ذات سے بھی کرنانہیں چاہتی تھی! سارا خاندان یہ سمجھتا تھا کہ شوہر اسے بے حد چاہتا ہے۔ آنکھ سے اوجھل نہیں ہونے دیتا۔ ہزاروں میں کھیلتی ہے۔ ہر ضرورت اور خواہش پوری ہوتی ہے۔ ہر عیش و آرام میسر ہے۔ ایسی خوش قسمت لڑکیاں کم ہوتی ہیں ۔ خوش قسمت !!
ہاں اس نے سب کو یہ احساس دلایا تھا۔ وہ جلتے داغ، وہ ٹپکتے زخم ، وہ مجروح خودداری اپنائیت کا وہ مجبور احساس کس نے دیکھا ؟ کون دیکھ سکتا تھا جس کو وہ پندرہ سال سے سہارہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے جلے آنسوؤں کی بارش ہورہی تھی!
اس نے– اس عالی خاندان– تعلیم یافتہ خودمختار لڑکی نے کیا کیا نہیں سہا۔ رات رات بھر ٹانگیں دبائیں دن بھر کھانے پکائے اور اپنے ہاتھ سے کھلائے!
جب شوشو پیدا ہوا تو کچھ عرصے مجازی خدا نے بیٹے کی ماں بن جانے کے بعد اس کا خیال کیا۔ وہ قدر اور عزت جو کچھ عرصے بعد پھر خاک میں مل گئی۔
چار بجے کی آواز پر وہ چونک پڑی ۔ کھڑکی میں سے چاند کی کرنیں شیشے پر دھندلاسی گئی تھیں ۔ وہ اب تک نہیں آیا۔ اور اب یہ کون سی نئی بات ہے۔ کب سے یہ آگ سینے میں بھڑک رہی ہے اور وہ ان شعلوں کو بجھانے اور دبانے کی جد و جہد میں لگی ہوئی ہے۔
”چند دن کو بھیا کے پاس چلی جاؤں؟“ ”ہاں جاؤنا – تمھیں کسی سے محبت ہی نہیں ہے؟‘‘ پہلی بار اس نے یہ جملہ سنا تو حیران رہ گئی منہ سے نکلا۔
”کیا سچ مچ چلی جاؤں؟“
”اور کیا اسٹامپ پر لکھ کر دوں؟“
”اورتم میرے بغیر .... “
 ”میں خوب رہ لوں گا تمھارے بغیر ۔ تمھاری لڑ کی اتنی بڑی ہوچکی ہے۔ اس کو محبت دو۔ دوسرے بچّوں کو سنبھالو۔میرا پیچھا چھوڑو۔“
وہ گم سم حیران اس کامنھ تکتی رہی ۔ وہ ایسا بے نیاز، بےتعلق بیٹھا رہا جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ دور کہیں سے موذّن کی آواز بلند ہوئی ۔ اس نے بیٹھ کر سرڈھک لیا۔ کھڑکی میں سے پھٹنی پوکی ہلکی دو دھیا روشنی  پراس کی نظریں جم گئیں۔اوشا!  اس کی زندگی میں اوشا کی کوئی   کرن چمکے گی کیا؟
وولڑکی اس سے زیادہ حسین نہیں ہوسکتی۔ کل اس نے ان سے صاف صاف بات کرنے کا تہیہ کرلیا تھا ۔لیکن ایک جملہ سن کر ہی انھوں نے اس کی بات کاٹ دی تھی۔
تم نے جون سنا سب ٹھیک ہے ۔مگر تم کون ہوتی ہو اعتراض کرنے والی ۔ وہ تو میری جان کے ساتھ ہے ۔ تم چاہو تو چھوڑ سکتی ہو؟“
نہیں –نہیں– نہیں ، ہسٹیرک انداز سے اس کے منہ سے چیخیں نکلنے لگی۔
نہیں - آپ مجھے نہیں چھوڑیں گے۔ ایسی آتی جاتی عورتیں میری جگہ نہیں لے سکتیں ۔ آپ کےبچے .......بیٹیاں  ہیں–  بیٹا ہے..........
تمھیں پیسے کی کمی نہ ہوگی۔ جتنا چاہوگی ملے گا۔
نہیں– نہیں– نہیں– مجھے پیسے کی نہیں آپ کی ضرورت ہے۔ بچوں کو باپ کی ضرورت ہے۔
" بکے جا ‘– اور یہ کہتے وہ باہر نکل گئے۔
اب سورج نکل آیا تھا۔آیا ئیں بچوں کو تیار کررہی تھیں ۔ نند کی آواز گونج رہی تھی ۔ اس کی ملازمہ دو بار نا شتے کا تقاضا کرنے آ چکی تھی۔ مگر وہ اسی طرح نائٹ گاؤن میں مسہری پر بیٹھی تھی اور سوچی جارہی تھی
نہیں– یہ شادی ٹوٹ نہیں سکتی۔ میں– میں سب سہاروں گی ۔ سب کچھ جھیلوں گی۔ مگر اسے چھوڑوں گی نہیں– عورت کی زندگی میں سخت وقت بھی آتے ہیں ۔ آج نہیں کل– کل نہیں پرسوں وہ پچھتائیں گے..... اور وہ لڑ کی۔ وہ خود انہیں چھوڑ دے گی........... میری جگہ کون لے سکتا..........
بیگم صاحب– آپ کے نام کا خط– ملازمہ نے ایک بڑا سا لفافہ اس کے کانپتے ہاتھوں میں دے دیا۔
’’جانے کیا ہے؟ اس کا دل لرز رہا تھا۔ بڑی دیر بعد اس نے لفافہ چاک کیا۔
آہ! تو ووٹوٹ گئی!
طلاق نامہ اس کے ہاتھ سے فرش پر گر پڑا تھا اور وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیوار کو تکے جارہی تھی اور ایک جملہ بڑ بڑاتی جاتی تھی۔
مگر وہ ٹوٹ گئی۔ ٹوٹ گئی – ٹوٹ گئی ۔

Magar woh toot gayi by Saleha Abid Hussain  Chapter 4 NCERT Solutions Urdu

صالحہ عابدحسین
(1913ء – 1988 ء)
صالحہ عابد حسین کا اصلی نام مصداق فاطمہ تھا۔ وہ خواجہ غلام الثقلین  کی صاحبزادی اور ڈاکٹر سید عابدحسین کی بیوی تھیں۔ وہ خواجہ الطاف حسین حالی کے خاندان میں پانی پت میں پیدا ہوئیں ۔ لکھنے پڑھنے کا شوق انہیں بچپن ہی سے تھا مشہور مصنف فلسفی اور ماہر تعلیم ڈاکٹر عابد حسین سے شادی کے بعد ان کے تصنیف و تالیف کے شوق میں مزید اضافہ ہوا۔ لیکن ان کی بنیادی حیثیت ناول نویس اور افسانہ نگار کی ہے۔ صالحہ عابد حسین اپنے قلم کے ذریعہ تحریک آزادی میں شریک رہیں ۔ انھوں نے اپنے ناولوں ، افسانوں اور ڈراموں کے ذریعے انسانی اور تہذیبی قدروں کو عام کیا اور عورتوں کے مسائل اور سماجی خرابیوں کی اصلاح کی طرف توجہ دلائی ۔ حکومت ہند نے ان کو پدم شری کا اعزاز عطا کیا ۔ کئی صوبائی اکادمیوں نے بھی انھیں انعام دیئے۔ ان کے ناولوں میں ’عذرا‘’ آتش خاموش‘، ’قطرے سے گہر ہونے تک‘،’ یادوں کے چراغ‘ اور ’اپنی اپنی صلیب‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ افسانوں کے چار مجموعے بھی شائع ہوئے۔

لفظ ومعنی
منجمد : جما ہوا، ٹھہرا ہوا
نالاں : بیزار
ہراساں : ڈرا ہوا
اوجھل : نظروں سے چھپاہوا
ہسٹریک انداز : چیخنا، چلانا، رونا۔ ہسٹیریا ایک بیماری ہوتی ہے جس میں انسان کا ذہنی توازن بگڑ جاتا ہے اور وہ مختلف طرح کی حرکتیں کرنے لگتا ہے
خودداری : اپنی عزت کا پاس

 غور کرنے کی بات
* اس کہانی کے دو رخ ہیں۔ اس کہانی میں جہاں لڑکیوں پر مظالم کی داستان بیان کی گئی ہے وہیں غیر ذمے دار مردوں پر طنز بھی کیا گیا ہے۔
*  یہ کہانی ہمارے معاشرے کی ان خواتین کی تصویر کشی کرتی ہے جو آئے دن ایسے حالات سے مقابلہ کرتی ہیں، جیسا کہ اس کہانی میں دکھایا گیا ہے کہ شوہر کے برےبرتاؤ کے با وجود بیوی کسی نہ کسی طرح خواہ وہ اپنے خاندان کی عزت یا اپنے بچوں کی خاطر نباہنے کی کوشش کرتی ہے۔
*  صالحہ عابد حسین کی یہ کہانی جس زمانے میں لکھی گئی اس وقت کی تعلیم یافتہ لڑکیاںظلم سہنے کے باوجود خاموش رہتی تھیں لیکن آج کی عورت بیدار ہوچکی ہے وہ شوہر کے اس گھناؤنے عمل کے بعد خاموش نہیں بیٹھتی، اس کوصدمہ تو ضرور پہنچتا ہے لیکن اس کے بعد اس کے اندر ایک نیا عزم پیدا ہوتا ہے۔

سوالوں کے جواب لکھیے:
1. مصنفہ نے بھابھی ، باجی اور منورما کی شادیوں کی ناکامی کے کیا اسباب بتائے ہیں؟
جواب: بھابھی کی بد مزاجی، باجی کا حد سے زیادہ خوددار ہونا اور منورما کا حد سے زیادہ حساس ہونا مصنفہ کی نظر میں ان کی شادی کی ناکامی کے اسباب میں شامل تھیں۔ 
2.  افسانے کی ہیروئن کو پورا خاندان خوش قسمت کیوں سمجھتا تھا؟
جواب: سارا خاندان یہ سمجھتا تھا کہ اُس کا شوہر اسے بے حد چاہتا ہے آنکھ سے اوجھل نہیں ہونے دیتا  وہ ہزاروں میں کھيلتی ہے۔ اُس کی ہر خواہش اور ضرورت پوری ہوتی ہے اس کو ہر عیش و آرام میسّر ہے اور یہی وجہ تھی کہ سب اس کو خوش قسمت سمجھتے تھے۔

3.  افسانے کی ہیروئن ہر طرح کے حالات سے نباہ کر کے کیا ثابت کرنا چاہتی تھی؟
جواب: افسانے کی ہیروئن کا ماننا تھا کہ یہ ناکام زندگیاں، یہ جُدائیاں اور یہ طلاقیں اس میں مرد سے زیادہ عورت کا قصور ہوتا ہے عورت چاہے تو وہ گھر کو سنبھال سکتی ہے گھر بگاڑنا یا بنانا عورت کے ہاتھ میں ہے وہ سمجھتی تھی کی اُس کی بھابھی کا مزاج، باجی کی خودداری اور منورما  کا حد سے زیادہ حساس ہونے  کی وجہ سے ان کی شادی ناکام ہو گئی۔ اُس نے سوچا کے وہ اپنے شوھر کو خوش رکھے گی اُس کا دل جیتے گی اسی لیے اُس نے فیصلہ کیا کے وہ نباہ کرے گی۔ اور یہ ثابت کردے گی کہ ناکام شادی کی وجہ مرد سے زیادہ عورت ہوتی ہے۔

4.  اس افسانے کا ہیرو تعلیم یافتہ ہونے کے باو جود لڑکیوں کے پیدا ہونے پر بیوی سے ناراض کیوں تھا؟
جواب: افسانے کا ہیرو تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بہت رذیل ،گھٹیا اور چھوٹی سوچ رکھتا تھا اس لیے وہ لڑکیوں کے پیدا ہونے پر بیوی سے ناراض ہو گیا۔

عملی کام:
مندرجہ میں محاوروں کو جملوں میں استعمال کیجیے:
پھٹی پھٹی آنکھوں سے تکنا : طلاق کے فیصلے پر وہ اپنے شوہر کو پھٹی پھٹی آنکھوں سے تکنے لگی۔
خاک میں ملنا : شادی کی ناکامی سے اس کی ساری امیدیں خاک میں مل گئیں۔
آنکھ سے اوجھل ہونا : دور راستے میں وہ اس کی آنکھ سے اوجھل ہوگیا۔
ہزاروں میں کھیلنا ; ایک امیر شخص سے شادی کر کے وہ ہزاروں میں کھیل رہی تھی۔

* افسانے میں ایک جگہ مزاج شناس‘‘ لفظ استعمال ہوا ہے جس میں شناس‘‘ لاحقہ ہے۔ آپ اس لا حقے کا استعمال کر کے تین الفاظ لکھیے۔
قیافہ شناس
مزاج شناس
زبان شناس
شناس کے معنی معرفت، عرفان و آگاہی، پہچان، شناخت ہیں۔

* اس افسانے میں استعمال ہونے والے پانچ انگریزی الفاظ لکھیے ۔
ہسٹیریا، نائٹ گاؤن، لیمپ، ڈگری،میچور، ڈیڈی
خلاصہ
.
مگر وہ ٹوٹ گئی میں صالحہ عابد حسین نے مسلم معاشرہ بلکہ ہندوستانی سماج کے ایک اہم مسئلہ پر قلم اٹھا یا ہے۔
 ایک زمانہ تھا جب ہندوستانی لڑکی کو ایک گائے بلکہ مظلوم گا ئے سمجھا جاتا تھا۔ اسے جس کھونٹے سے باندھ دیا جاتا تھا بندھ جایا کر تی تھی لیکن آج کی عورت بیدار ہوچکی ہے اس میں ایک نیا عزم ایک نیا حوصلہ ہے ۔
وہ اپنی ماں پر ہوئے مظالم سے آشنا ہے وہ بھابی اور باجی اور منورما کی ناکام شادیاں اور منورما کی خودکشی بھی دیکھی ہے  اس کے ذہن میں بے شمار سوال کلبلاتے ہیں ۔ شادی یا بربادی۔ یہ ناکام زندگیاں۔ یہ جدائیاں۔ یہ طلاقیں؟ اسے اس میں مردوں سے زیادہ عورتیں قصور وار نظر آتی ہیں اور وہ ایک عزم کرتی ہے کہ وہ اپنی شادی کو ناکام نہیں ہونے دے گی وہ کسی نہ کسی طرح ایڈجسٹمنٹ کر ہی لے گی۔ نباہ کر لے گی اور اس نباہ کے لئے اس نے وہ سہا جس کاعتراف وہ خود اپنی ذات سےبھی نہیں کر نا چاہتی تھی ۔وہ مجسم خدمت گزار بن گی۔ لیکن صرف بیٹے کے پیدا ہونے پر شوہرکا
چند دن کا  التفات مل پایا ور نہ  وہی بےرخی حاکمیت کا انداز اور پھر اچانک اسے محسوس ہوا جیسے اس کا شوہر اس سے کہیں دور چلاگیا۔ کوئی دوسری لڑکی اس کے شوہر کی زندگی میں آ گئی ہےاس نےلاکھ حالات کو سنبھا لنا چاہا مگر بات بنی نہیں اور ایک دن شوہر کا بھیجا ہو الفافہ اس کے ہاتھ میں تھا۔ اس نے لرزتے ہاتھوں سے کھولا ۔ آ ہ و ہ تو ٹوٹ گئی۔
طلاق نامہ اس کے ہاتھ سے فرش پر گر پڑا اور وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیوار کو تکے جارہی تھی اور ایک جملہ بڑبڑاتی جاتی تھی۔
مگرو ہ ٹوٹ گئی ۔ ٹوٹ گئی ۔ ٹوٹ گئی۔

کلک برائے دیگر اسباق

خوش خبری