Tuesday 5 July 2022
Allah Ke Khalil: Hazrat Ibrahim Alaihissalam ke Halat e Zindagi (Day-5)
Monday 4 July 2022
Allah Ke Khalil: Hazrat Ibrahim Alaihissalam ke Halat e Zindagi (Day-4)
Sunday 3 July 2022
Allah Ke Khalil: Hazrat Ibrahim Alaihissalam ke Halat e Zindagi (Day-3)
Saturday 2 July 2022
Allah Ke Khalil: Hazrat Ibrahim Alaihissalam ke Halat e Zindagi (Day-2)
سیّد حضرت ابراہیمؑ کے حالات جو قدیم صحیفوں میں مزکور ہیں ، اختصار کے ساتھ یہاں درج کرتے ہیں، اس کے بعد تفصیلی حالات یعنی آپ کی دعوت اور ترکِ وطن وغیرہ کا ذکر ہوگا۔
آپ نے ستّر برس کی عمر میں، اپنے رب کے حکم سے، اپنے آبائی وطن کو چھوڑ کر، کنعان بن عام کے علاقے میں قیام کیا، آپ کے ہمراہ آپ کی بیوی سارہؓ اور بھتیجے لوطؑ تھے ۔ اس موقعہ پر اللہ نے آپ سے وعدہ کیا کہ یہی ملک تمہاری اولاد کو عطا ہوگا۔
یہاں سے آپ مصر گئے، سیّدہ سارہؓ کو شاہِ فرعون نے حسین سمجھ کر لے لیا، لیکن فرعون پر خدا کا قہر نازل ہوا، جس سے ڈر کر اس نے سیّدہ کو واپس کردیا۔
اس کے بعد آپ پھر کنعان کی طرف لوٹ آئے لیکن آپ کے بھتیجے لوطؑ آپ کی اجازت سے علاحدہ ہو کر یرون کی ترائی کی طرف چلے گئے اور شہر صدُوم میں آباد ہوئے، کچھ دنوں بعد کدرلا عمر شاہ عیلان نے، اپنے تین اتحادی حکمرانوں کے ساتھ شاه صدُوم اور اس کے چار اتحادی بادشاہوں سے جنگ کی اور فتح یاب ہوا تو حضرت لوطؑ کو بھی مع ان کے مال و اسباب کے اسیر کرکے لے گیا۔
واپسی پر شاہ صدُوم اور سالم کا بادشاہ صدق جو خدا کا کاہن تھا، حضرت ابراہیمؑ کو ملے، آپ نے غنیمت کا دسواں ان کو دیا، آنِیر، اِسگال اور ہَمری کے فوجیوں کو جو ہمراہ تھے، ان کا حصّہ دیا۔ باقی تمام سامانِ غنیمت شاه صدوم کو دے دیا، خود کچھ نہ لیا۔
حضرت ابراہیمؑ کی عمر چھیاسی برس کی ہوئی تو حضرت اسماعیلؑ پیدا ہوئے۔ حضرت ابراہیمؑ کی عمر ننانوے برس کی ہوئی تو خواب میں حکم دیا گیا کہ جب بچّہ آٹھ دن کا ہو تو ختنہ کیا کرو اور یہ تمہاری نسل میں عہد خداوندی کا ابدی نشان ہوگا، اس حکم کے وقت حضرت اسماعیلؑ کی عمر تیرہ سال تھی، جب کہ آپ کا ختنہ ہوا۔
کنعان سے پھر حضرت ابراہیمؑ نے سفر کیا، پہلے قادس پہنچے، وہاں سے سور، ان دونوں آبادیوں میں چندے قیام کے بعد جرّار تشریف لے گئے، جرّار کے بادشاہ ابی ملک نے حضرت سارہؓ کو اپنے قبضے میں لے لیا، لیکن خدا کی تنبیہ کے بعد واپس کر دیا اور حضرت ابراہیمؑ کی بڑی عزّت و تکریم کی۔
حضرت ابراہیمؑ کی عمر سو برس کی ہوئی تو حضرت اسحاقؑ پیدا ہوئے۔ ابی ملک شاہ جرّار نے ، حضرت ابراہیمؑ سے اتحادِ باہمی کا معاہدہ کر لیا اور کافی مدت تک آپ کا قیام فلسطین میں رہا، یہیں حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے اسحاق کی شادی رِبُقَہ سے کی، جو آپ کے بھائی نُحور کی پوتی تھیں۔
حضرت ابراہیمؑ کی وفات ایک سو پچھتّر سال کی عمر میں ہوئی۔
آپ کی کنیت ابو محمد بھی ہے اور ابوالانبیا بھی، کیوں کہ آپ کے بعد آپ ہی کی نسل سے انبیا پیدا ہوتے رہے، کسی اور کی نسل سے نہیں، خدا کا ارشاد ہے:-
دعوت کا آغاز، ابراہیمؑ نے سب سے پہلے اپنے باپ اور خاندان سے کیا فرمایا:-
”تم جو قدیم روش پر قائم ہو، وہ غلط ہے اور میں جس چیز کی طرف بلاتا ہوں،وہ حق ہے۔“
باپ پر اس نصیحت کا کوئی اثر نہ ہوا بلکہ الٹا بیٹے کو دھمکایا کہ ”اگر تو نے بتوں کی برائی کرنا نہ چھوڑی تو میں پتھر مار مار کر تجھے ہلاک کردوں گا۔“حضرت ابراہیمؑ نے دیکھا کہ معاملے نے بڑی نازک شکل اختیار کرلی ہے، ایک طرف باپ کا احترام ہے، اور دوسری طرف ادائے فرض۔ آخر اس مشکل سے عہده برآ ہونے کے لیے آپ نے ایک ایسی صورت نکال لی، جو ایک نبی کے شایانِ شان ہوسکتی ہے۔ آپ نے باپ کی سختی کا جواب، سختی سے نہیں دیا نہ باپ کی تحقیر و تذلیل کی کوشش کی بلکہ نہایت نرمی اور خوش خلقی کے ساتھ یہ جواب دیا کہ اگر آپ اپنے رویّے پر قائم رہیں گے تو پھر آج سے آپ کو میرا سلام، میں آپ سے الگ ہوں، کیوں کہ نہ تو میں حق اور پیغام حق کو ترک کر سکتا ہوں اور نہ بتوں کی پرستش کر سکتا ہوں جنھیں آپ اپنا معبود سمجھتے ہیں، ہاں اس علاحدگی کے باوجود، بارگاہِ الٰہی میں دست بہ دعار ہوں گا کہ آپ کو ہدایت نصیب ہو جاۓ اور آپ عذابِ الٰہی سے بچ جائیں، اس پورے واقعے کو سورهٔ مریم میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔
جب آزر نے کسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی دعوت کو قبول نہ کیا، تو آپ نے آزر سے علاحدگی اختیار کرلی اور اپنی قوم کے سامنے دعوت حق کو پیش کیا لیکن قوم بھی آزر کی طرح اپنے آبائی مشرکانہ رسوم و روایات کو ترک کرنے پر آمادہ نہ ہوئی عقل رکھنے کے باوجود، وہ عقل و خرد سے کام لینے کے لیے تیار نہ ہوئی، تو حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے بہت اصرار کے ساتھ دریافت فرمایا کہ ”تم جن کی پرستش میں لگے ہوئے ہو، وہ تم کو کسی طرح کا نفع نقصان پہنچاتے ہیں؟ تم جو کچھ کہتے ہو، وہ سنتے اور جواب دیتے ہیں؟“قوم نے جواب دیا”ہم اس نفع و نقصان اور کہنے سننے کے جھگڑے میں پڑنا نہیں چاہتے، ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا یہی کرتے تھے،وہی ہم بھی کرتے ہیں۔“
اب حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے لیے، اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہ گیا تھا، کہ قوم کے اس باطل عقیدے کے تار و پود بکھیردیں، فرمایا:-
”میں تمھارے تمام بتوں کو اپنا دشمن سمجھتا ہوں اور میرا ان سے کوئی تعلق نہیں، اگر وہ مجھے کسی قسم کا نقصان پہنچا سکتے ہیں تو پہنچا کے دیکھ لیں، میں تو صرف اس ہستی کا غلام ہوں جو تمام جہانوں کی خالق، ہر قسم کے نفع و نقصان کے مالک اور مارنے جلانے کا اختیار رکھتی ہے۔“
قرآن مجید نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے اس پُر اثر خطاب کو سورۂ شعرا میں تفصیل کے ساتھ پیش کیا ہے، بہرحال اس خطاب کا کوئی اثر قوم پر نہ ہوا اور وہ بدستور باطل پرستی پر جمی رہی۔
Allah Ke Khalil: Hazrat Ibrahim Alaihissalam ke Halat e Zindagi
آئینہ پیش کرتا ہے آج سے 10ذوالحجہ تک روزانہ اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام(از خلیل احمد جامعی) کی مختصر حالاتِ زندگی۔
اپنے بچّوں اور اہل خانہ کو بلند آواز میں پڑھ کر سنائیں یا اُن سے سنیں تاکہ آپ کو اس بات کا علم ہو کہ کس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے گھر والوں،اپنی حکومت اور اپنی قوم کی دشمنی کے باعث کن مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا اور کس طرح آپ ان سے عہدہ بر آہوئے اور کس انہماک اور لگن کے ساتھ آپ نے اپنے فرائض کو انجام دیا، یہ ایک بڑی دلچسپ اور سبق آموز داستان ہے،عام مسلمانوں اور طلبہ کو اس سے عبرت و نصیحت حاصل ہوگی ۔
|
(Day-1) اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام
Friday 1 July 2022
Allah Ke Khalil: Hazrat Ibrahim Alaihissalam ke Halat e Zindagi (Day-1)
آئینہ پیش کرتا ہے آج سے 10ذوالحجہ تک روزانہ اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام (از خلیل احمد جامعی)کی مختصر حالاتِ زندگی۔
اپنے بچّوں اور اہل خانہ کو بلند آواز میں پڑھ کر سنائیں یا اُن سے سنیں تاکہ آپ کو اس بات کا علم ہو کہ کس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے گھر والوں،اپنی حکومت اور اپنی قوم کی دشمنی کے باعث کن مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا اور کس طرح آپ ان سے عہدہ بر آہوئے اور کس انہماک اور لگن کے ساتھ آپ نے اپنے فرائض کو انجام دیا، یہ ایک بڑی دلچسپ اور سبق آموز داستان ہے،عام مسلمانوں اور طلبہ کو اس سے عبرت و نصیحت حاصل ہوگی ۔
|
ا۔ میں نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو دیکھا ، میں آپ کی اولاد میں آپ سے سب سے زیادہ مشابہ ہوں۔(حدیث)
۲- میں اولاد ابراہیمؑ میں، اُن (ابراہیمؑ) سے بہت زیادہ مشابہ ہوں۔ (حدیث)
۳۔ ابراہیم علیہ السّلام کو دیکھنا ہو تو مجھے دیکھ لو۔ (حدیث)
بعض علماء نے کہا ہے کہ
”مقام ابراہیمؑ پر، حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے جو نشاناتِ قدم ہیں، وہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و اصحابہٖ وسلّم کے قدموں سے ملتے جلتے ہیں۔ “
فضائل ابراہیمؑ
قرآن مجید میں جگہ جگہ ، اللہ تعالی نے حضرت ابراہیمؑ کا ذکر کیا ہے اور ہر ذکر سے ، آپ کی عظمت، بزرگی، دیانت، صداقت، پاکبازی و قربانی وغیرہ جیسے اوصاف کا اظہار ہوتا ہے ، یہاں صرف ان قرآنی آیتوں کے مفہوم کے درج کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
(۱)کتاب اللہ میں ابراہیمؑ کے ذکر کو پڑھو ، وہ سچے نبی تھے۔
(۲)ہم نے ابراہیمؑ کو پہلے ہی سے سیدھی راہ دکھا دی اور ہم اُسے (ابراہیمؑ کو) جانتے تھے۔
(۳)ابراہیمؑ بردبار، یاد الہٰی کے لیے بے چین رہنے والے اور ہر طرف سے منہ موڑ کر صرف ایک اللہ کی طرف متوجہ ہونے والے تھے۔
(۴) بلحاظ مذہب، اس سے اچھا کون؟ جو اللہ کا مطیع و فرماں بردار بن گیا اور نیکوکاری اس کا شیوہ ہو گیا، اسی کے ساتھ ساتھ ملّت ابراہیمیؑ کا خلوص قلب کے ساتھ پیرو بن گیا ، کیونکہ ابراہیمؑ کو اللہ تعالیٰ نے اپنا دوست بنالیا ہے۔
(۵)ابراہیم اخلاص کے ساتھ اللہ کے مطیع تھے۔ انھوں نے کبھی بھی خدا کی یکتائی اور بڑائی میں کسی کو شریک نہیں بنایا بلکہ وہ ہمیشہ اللہ کے شکر گزار رہے، اللہ نے انھیں نبوّت و رسالت کے لیے چُن لیا اور انھیں سیدھی راہ دکھادی، وہ دنیا میں نیک رہے اور آخرت میں بھی،وہ اللہ کے نیک بندوں میں سے ہیں۔
(۶) اللہ نے چند بار ابراہیمؑ کے ایمان کا امتحان لیا اور وہ ہر امتحان میں پورے اُترے، تو اللہ نے فرمایا، ”میں تجھے (ابراہیمؑ کو) لوگوں کا امام و پیشوا بناؤں گا، ابراہیمؑ نے (اللہ کی جناب میں) عرض کیا ”اور میری اولاد کو بھی “جواب ملا کہ "میرا عہد ظالموں کو نہیں ملے گا۔ “
(۷) یاد کرو! جب ہم نے گھر (کعبہ) کو لوگوں کے لیے رجوع ہونے اور امن کی جگہ بنایا۔ مقامِ ابراہیمؑ (کعبہ کے متّصل ایک جگہ) کو جاے نماز بناؤ!
(۸) ہم نے ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ سے اس بات کا عہد لیا کہ میرے گھر (کعبہ) کو طواف کرنے والوں ، عبادت گزاروں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک صاف کرو!
(۹) ابراہیمؑ اللہ کے اطاعت گزاروں میں ہے، وہ اپنے پروردگار کے حضور قلب سلیم لے کر آیا۔
(۱۰) ہم نے کہا ، اے آگ! ٹھنڈی ہوجا ابراہیم کے لیے اور سلامتی بن جا۔
مزکورہ بالا آیات کے ملخّص و مفہوم سے، جہاں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی پوری زندگی سامنے آجاتی ہے وہاں یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیّدنا حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو کیسی کیسی فضیلتیں اور بزرگیاں عنایت کی تھیں اور یہاں سے تو صرف چند آیات کا خلاصہ دیا گیا ہے ۔ اگر ان تمام آیتوں کو جن کا تعلق حضرت ابراہیمؑ کے ذکر سے ہے ، ایک جگہ جمع کر دیا جائے تو حضرت کی بے شمار فضیلتیں اور بزرگیاں سامنے آجاتی ہیں اور آپ کی بڑائی اور غیر معمولی شخصیت ہونے کا اقرار کرنا پڑتا ہے۔
نسب نامہ
اللہ کے خلیل کا سلسلۂ نسب اس طرح بیان کیا جاتا ہے۔
ابراہیم ابن آزر ابن تاجور ابن سروج ابن رعو ابن فالح ابن عامر ابن شالح ابن ارفکشاذ ابن سام ابن نوح۔
آزر کے علاوہ حضرت ابراہیمؑ کے باپ کے دو اور نام تاریخوں میں آتے ہیں ۔ ایک تارخ دوسرا تارح ، یہ تینوں نام ایک ہی شخصیت کے ہیں۔آزر، آوار کا مُعرّب ہے ، کالدی زبان میں بڑے پجاری کو آوار کہتے تھے۔ عربی میں وہی آوار، آزر کہلایا کیونکہ تارخ بت تراش بھی تھا اور سب سے بڑا پجاری بھی، اسی لیے لقب نے اتنی شہرت پائی کہ وہ اصلی نام سمجھا جانے لگا ۔ اسی لیے قرآن نے بھی اس کو اسی نام سے پکارا۔
حضرت ابراہیم علیہ السّلام چونکہ بڑے مہمان نواز بھی تھے،اسی لیے آپ کو اَبُوالضيفان بھی کہتے تھے۔
وطن
کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام غُوطَۂ دمشق کے کسی گاؤں میں پیدا ہوئے ، جو قَاسِیون پہاڑ پر آباد تھا۔ لیکن یہ صحیح نہیں،بَرُزَہ جس کا نام بطور جاے پیدایش لیا جاتا ہے ، کسی مغالطہ کا نتیجہ ہے ۔ ہاں آپ بَرُزہ تشریف ضرور لے گئے، کیونکہ وہ آپ کے بھتیجے لوطؑ مسکن تھا۔
آپ کی پیدایش کے سلسلے میں تورات کا بیان ہے کہ ابرامیم عراق کے قصبہ اُور کے باشندے تھے۔ کھیتی باڑی پیشہ تھا، اور جس قوم کے آپ ایک فرد تھے وہ بت پرست تھی۔ انجیل بَرنَابا کی تصریح کے مطابق آپ کے والد کا پیشہ نجّاری تھا اور اپنی قوم کے مختلف قبیلوں کے بت لکڑی کے بناتے اور فروخت کرتے تھے لیکن حضرت ابراہیمؑ،اللہ کی عطا کی ہوئی بصیرت کی موجودگی میں ، ابتداۓ شعور ہی سے اس بات کا یقین رکھتے تھے کہ بت سننے دیکھنے اور کسی کو نقصان پہنچانے اور کسی قسم کی طاقت اپنے اندر نہیں رکھتے، اس لیے اعلانِ نبوّت کے بعد، آپ نے سب سے پہلے اسی کی طرف توجہ فرمائی۔ ملاحظہ ہو، سورۂ انبیا کی آیت ۵۱ تا ۵۶ ارشاد ہوا:-
”اور بلا شبہہ ہم نے پہلے ہی سے، ابراہیمؑ کو رشد و ہدایت عطا کردی تھی اور ہمیں اس بات کا علم ہے، جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا ، یہ مجسّمے کیا ہیں، جن کو لیے بیٹھے ہو ... تو انھوں نے جواب دیا .... ہم نے اپنے باپ دادا کو انھیں کی پرستش کرتے پایا ہے.... ابراہیمؑ نے کہا.... یقیناً تم اور تمھارے باپ دادا کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہیں.... تو انھوں نے کہا کیا تو ہمارے لیے کوئی امر حق لایا ہے یا یہ محض مزاق ہے.... ابراہیمؑ نے کہا (یہ بُت تمھارے معبود نہیں ہیں) بلکہ تمھارا پالن ہار آسمانوں اور زمینوں کا پالن ہار ہے، جس نے اِن سب کو پیدا کیا ہے اور میں اُسی کا قائل ہوں۔ “
Monday 20 June 2022
Ibtedai Urdu Class 1 NCERT Solutions Chapter 1
:تدریسی اشارے
آپ جانتے ہیں کہ ا (الف ) تحریری علامت ہے۔ اس کی اپنی کوئی آواز
نہیں ہے جب تک اس پر اعراب نہ لگایا جائے۔ اس سبق میں طالبِ علم کو صرف
اس حرف کا نام الف بتایا جاۓ اور تصویروں کے ذریعے حرف کی پہچان کرائی
جاۓ ۔ طالب علموں کو بتا یا جاۓ کہ اس نشان کو مد کہتے ہیں ۔اس کا
استعمال صرف الف پر ہوتا ہے اور آ کی آواز دیتا ہے۔ ہر سبق میں متعارف
کیے جانے والے حروف کو بار بار پڑھوا یا جاۓ اور لکھنے کی مشق کرائی جاۓ
دکھاتے ہیں۔
|
Saturday 11 June 2022
Ibtedai Urdu Class 1 NCERT Urdu Solutions
1. | ا۔۔۔آ |
2. | ب۔۔پ ۔۔ت ۔۔ٹ۔۔ث |
3. | ن---ی---ے |
4. | ج---چ---ح---خ |
5. | د---ڈ---ذ---و |
6. | ر---ڑ---ز---ژ |
7. | زبر---زیر---پیش |
8. | س---ش |
9. | جزم |
10. | ص---ض |
11. | ط---ظ |
12. | ع---غ |
13. | ف---ق |
14. | تشدید |
15. | ک---گ |
16. | ل---م |
17. | ہ |
18. | بھ---پھ---تھ---ٹھ |
19. | جھ---چھ |
20. | دھ---ڈھ---ڑھ |
21. | کھ---گھ |
22. | نون غنّہ |
23. | ہمزہ |
24. | حروفِ تہجّی |
25. | حمد |
26. | یہ میرا گھر ہے میرا گھر |
27. | گِنتی |
Monday 3 January 2022
Hazrat Shah Helal Ahmed Quadri Aur Khanwada Deora Simla Ke Rawabit-Al Mujeeb
Thursday 9 December 2021
Interview Ek Sahafi Se
انٹرویو ایک صحافی سے
2018
تحسین عثمانی رسالہ اسپین کے مدیر ہیں۔یہ رسالہ امریکی سفارت خانے سے شائع ہوتا ہے ۔آپ نے دہلی میں روزنامہ عوام سے اپنی صحافتی ز ندگی کا آغا زکیا اور دہلی کے کئی دیگر بڑے اخبارات میں بھی صحافتی خدمات انجام دیں۔آپ نے روز نامہ عوام،ہندوستان ایکسپریس اور خبررساں ایجنسی یو۔این۔آئی میں کام کیا۔ آپ نے صحافتی امور کے لئے بیرونی ممالک کے دورے بھی کئے۔وہ ہفت روزہ ویوزٹائمز کے پبلیشراور مدیر بھی رہے۔پیش ہیں ان سے لئے گئے ایک انٹرویو کے اقتباسات۔
سوال۔آپ کو صحافت کا شوق کیسے ہوا؟
جواب۔صحافت کا شوق مجھے بچپن سے تھا۔اسکول سے ہی مجھے مضامین لکھنے کا شوق رہا اور جب میں آٹھویں کلاس میں تھا تب میں نے مضمون نویسی کے ایک مقابلہ میں حصہ لیا جس میں ضلع بھر کے تمام اسکولوں کے طلبہ نے شرکت کی۔مقابلہ کا موضوع تھا"اقبال کی وطنی شاعری"اس میں مجھے اول انعام حاصل ہوا۔جب میں دلی آیا تو یہاں رہنے کے لئے کچھ کام کرنا ضروری تھا۔دہلی میں گزر بسر آسان نہیں تھی اور مجھے رہنے کے لئے نوکری کی ضرورت تھی لکھنے پڑھنے کا شوق شروع ہی سے تھا اس لیےاعلیٰ تعلیم جاری رکھنے کے لیےمیں نے یہاں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ایم۔اے میں ایڈمیشن لیا اور پڑھائی کے ساتھ ساتھ نوکری کا سلسلہ بھی جاری رکھا یہ میرا شوق بھی تھا اور میری ضرورت بھی۔
سوال۔اگر آپ صحافی نہ ہوتے تو کیا ہوتے؟
جواب۔صحافت میرا شوق تھا اور اس شوق نےمجھے کسی اور جانب جانے نہیں دیا۔ورنہ اگر میں صحافی نہیں ہوتا تو آج میں کسی کالج میں لیکچرر اور پروفیسر ہوتا لیکن صحافت کا شوق اس درجہ غالب تھا کہ میں نے مدرسی کا پیشہ چھوڑ کر صحافت کےمیدان میں جانے کو ترجیح دی۔صحافت ایک ایسا پیشہ ہے جس میں آپ ہمیشہ مظلوموں اور کمزوروں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور اردو صحافت نے ہمیشہ ہی ناانصافی کے خلاف آواز بلند کی۔حق کے لئے آواز اٹھانے کا جو جذبہ تھا اس نے مجھے ہمیشہ اس بات کے لئے مجبور کیا کہ میں اپنے قلم سے ان تمام لوگوں کی آواز بنوں جو کہ اپنے حق سے محروم ہیں۔
سوال۔آپ کی نظر میں ایک اچھا صحافی بننے کے لئے کن باتو ں کا ہونا ضروری ہے؟
جواب۔ایک اچھا صحافی وہی ہوسکتا ہے جس کے دل میں کمزوروں کی محبت ہو وہ کمزوروں کے حق کے لئے آواز اٹھانے کا جذبہ اپنے دل میں رکھتا ہو۔وہ سماج میں کچھ بہتر ہوتا دیکھنا چاہتا ہو۔وہ صرف حکومت کی مخالفت نہ کرے بلکہ اس کی غلطیوں کی نشان دہی بھی ضرور ی سمجھے ۔اس لئے ایک اچھے صحافی کو حکومت کی کمزوریوں پر اپنی نظر رکھنی چاہئے اور اس کی نشان دہی کے ساتھ اس کے حل کی طرف بھی اشارہ کرنا چاہئے۔ سماج کے لئے جو بہتر ہو اسے اپنی تحریر میں لانا چاہئے۔ ایک صحافی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ جس زبان میں صحافت کرتا ہے اس زبان پر اسےعبورحاصل ہو۔ آج کل دیکھا یہ جا رہا ہے کہ جو صحافی ہیں وہ اپنے سبجیکٹ میں کمزور ہیں اس لئے جو اخبارات ہیں اس میں ایسی غلطیاں نظرآتی ہیں جو افسوسناک ہیں۔
سوال۔آپ اپنے کچھ نمایا ںکام بتائے؟
جواب۔بچپن سے مجھے آن لائن یعنی انٹرنیٹ پہ کام کرنے کا شوق رہا اس لئے میں اپنے شروعاتی دور میں جب کہ انٹرنیٹ کا آغاز تھااور اردو اخبارات اس سے آشنا نہیں تھےمیں نے انٹرنیٹ پر ویب سائٹ بنانے کا کام کیا۔جو ہندوستان میں اردو اخبارات کے لیے ایک مشعل راہ بنی تھی۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر مکمل طور سے دسترس رکھنے والے صحافیوں کی جو کھیپ تھی ان میں شاید میں پہلا صحافی تھا جو دوسروں کی بہ نسبت اس میدان میں کہیں زیادہ ممتاز تھا۔اور یہی سبب ہے کہ میں آج اس مقام پر ہوں۔
سوال: اردو ادب میں آپ کی پسندیدہ شخصیت کون سی ہے؟
جواب: میری پسند ایک ایسی شخصیت ہے جسے ادب والوں نے ادب کا حصہ قبول کرنے میں کنجوسی سے کام لیا۔ میں جاسوسی ادب کا دلدادہ ہوں اور میں نے ابن صفی کو اپنے بچپن سے ہی خوب پڑھا۔ اور آج جو زبان ہم بولتے ہیں یا لکھتے ہیں اس میں کم از کم میرے فن کی تخلیق میں اس کا بہت بڑا حصہ ہے۔ ایک اچھے طالب علم کو چاہیے کہ وہ خوب مطالعہ کرے۔ اس لیے کہ آپ کامطالعہ جتنا وسیع ہوگا آپ کا قلم اتناہی تیز رفتار ہوگا۔آپ کے پاس الفاظ کا ایک خزانہ ہوگا جن کو آپ الگ الگ مواقع پر استعمال کر سکیں گے۔
سوال: آپ کی نظر میں ایک اچھے طالب علم کو کیا کرنا چاہیے؟
جواب: ایک طالب علم کو چاہیے کہ وہ بہترین ادب پڑھے، اصلاحی ادب پڑھے۔خاص طور سے لڑکیوں کو مطالعہ میں اصلاحی کتابوں پر زیادہ زور دینا چاہیے۔دینی کتابیں ،اسلامی حکایات، اسلامی قصے، اسلامی طرز زندگی ،اسلامی طرز رہائش اور ساتھ ہی ساتھ انہیں چاہیے کہ ان پرانی لکھنے والی خواتین کے ناولوں کا مطالعہ کریں جو اپنے عہد کی سماجی زندگی کی بہترین عکاسی کرتی ہیں۔
سوال: آپ نے اپنی زندگی کا بہترین حصہ کن کاموں میں صرف کیا؟
جواب: میری زندگی کا ایک بڑاحصہ پڑھنے لکھنے میں گزرا۔ میں نے سیکڑوںمضامین لکھے۔ اخبارات میں کام کرتے ہوئے دن کیا ہوتا ہے اور رات کیا یہ پتہ ہی نہیں چلا۔ اکثر ایسا ہوتا کہ میں ڈھائی تین بجے رات میں اخبار مکمل کرکے جب کوئی سواری نہیں ملتی تو حضرت نظام الدین سے اوکھلا پیدل گھر آتا۔میرے ساتھ میری ہی طرح کے کچھ اور دیوانے ہوتے جو اسی اوکھلا کے علاقے میں رہتے ہیں۔وہ سب لوگ وہ تھے جن کو تنحواہ کی فکر نہیں تھی۔ آج کے نظریے سے دیکھا جائے تو سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ اتنی کم تنخواہ میں اتنازیادہ وقت ہم کس طرح دیا کرتے تھے۔آج لوگ ۸ گھنٹے کی ڈیوٹی کرکے اس سے فاضل کام کرنا نہیں چاہتے لیکن ہم بغیر کسی اوور ٹائم کےصرف اور صرف اپنے شوق کی خاطر بہترین سے بہترین اخبار نکالنے کی کوشش کرتے۔
سوال: آپ نے اپنے اہم فیصلوں میں کس کس سے صلاح مشورہ کیا؟
جواب: زندگی کے ہر فیصلے میں میری سب سے بڑی صلاح کار اور مددگارمیری امی تھیں۔ انہوں نے آگے بڑھنے میں میری ہر طرح سے مدد کی اور میری کامیابی میں جو سب سے بڑا حصہ ہے وہ میرے والد کی دعاؤں کا ہے۔اگر آج ان کی دعا ئیں شامل حال نہیں ہوتی تو میں اس مقام پر نہیں ہوتا۔عملی طور میری امی نے نہ صرف اپنے مفیدمشوروں سے نوازا بلکہ مالی طور پر میرا ہر طرح سے ساتھ دیا۔جب دلی میں رہنا دشوار تھا تو ان کے بھیجے ہوئے روپے ہی میرا سہارا تھے۔اور اگر یہاں میں اپنے بھائیوں کا ذکر نہ کروں تو یہ نا انصافی ہوگی۔ میری بیگم بھی میرے مشوروں میں شامل رہیں اور آہستہ آہستہ اللہ کے فضل وکرم اور اپنی بیٹیوں کی قسمت سے ہم آج اس مقام پر ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نام بھی دیا،عزت بھی دی اور شہرت بھی۔
صحبہ عثمانی