آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Monday, 6 April 2020

Khuda Hafiz By Shaukat Thanvi - NCERT Solutions Class IX Urdu

Khuda Hafiz a drama by Shaukat Thanvi   Chapter 9 NCERT Solutions Urdu
(اس صفحہ پر ابھی کام جاری ہے)

خداحافظ
شوکت تھانوی

(میر صاحب اپنے مصاحب اور تمام احباب میں بیٹھے ہوئے سفر کے متعلق تبادلہ خیالات کررہے ہیں)
میر صاحب : اماں تم ہی بتاؤ مرزا صاحب کہ اس ریل کے سفر میں نصیب دشمناں جان جو کھم تو نہیں ہے۔
مرزا صاحب : آپ کی بھئی واللہ کیا باتیں ہیں ۔ یعنی میں کہہ تو رہا ہوں کہ اس ریل کے سفر میں سر کے بال سفید کر لیے ہیں ۔ پھر آپ کا یہ سفر تو قدم کبیر کا ہے۔
میر صاحب : انشاء اللہ! مگر بھی بات یہ ہے کہ یہ پہلا اتفاق ہے، اسی سے بھی گھبراتا ہے۔ اماں تم بھی چلو نا ساتھ تم کو ذرا اس سفر کا تجربہ ہے اور میں بالکل نیا آدمی تمہارے سر عزیز کی تم کیا انھوں نچتا ہے۔
مرزا صاحب : اگر آپ کہتے ہیں تو مجھے کیا عذر ہوسکتا ہے مگر آپ نے تو والد کمال کر دیا۔ اس زمانے میں آپ ایسے بہت ملیں گے جور یں کے سفر سے ناواقف ہوں۔
میر صاحب : بھئی یقین جانو میں خاندانی وضع کے خلاف یہ بات کر رہا ہوں ۔ اللہ جنت نصیب کرے۔ ابا جان مرحوم تو بھی اس محلے سے باہر نہ نکلے تھے اور خدا بخشے دادا جان مرحوم کے متعلق مشہور ہے کہ وہ بھی اپنے گھر سے باہر نہیں نکلے۔ ایک میں ہوں کہ میں چھوڑ کر پردیس کی ٹھانی ہے۔
(دروازہ کھولنے اور احباب کی آواز)
مرزا صاحب : لیجیے لیجیے شیخ صاحب بھی تشریف لے آئے۔
شیخ صاحب : (آگے آ کر ) آداب بجالاتا ہوں حضور والا۔
میر صاحب : تسلیمات عرض ہے بھائی صاحب !خوب تشریف لے آئے۔
شیخ صاحب : جی ہاں! ابھی سنا تھا کہ سواری نہیں سیر و سیاحت کو جارہی ہے۔
میر صاحب : لو اور سنو، یہ سیر و سیاحت ہے کہ آدی دلیس چھوڑ کر پولیس کا ہو جائے ۔ مگر کیاکروں مجبور ہوں ۔ جائداد کا مقدمہ ہے۔ نہیں جانتا ہوں تو خاندانی جانداوجاتی ہے ورنہ بھائی تم جانتے ہو کہ ہمارے خاندان کو سفر سے کیا علاقہ ؟
شیخ صاحب : بجا فرماتے ہیں آپ، بے شک تشریف لے جانا نہایت ضروری ہے۔
مرزا صاحب : بھائی صاحب ہمارے میر صاحب ریلی کے سفر سے سخت پریشان ہیں ۔آپ ہی کچھ سمجھایئے۔
میر صاحب : میں پریشان ہوں البتہ پہلا اتفاق ہے اور سواری بھی وہ ایک جس کی نہ لگام جس پر چا بک کا اثر اور نا ہے پھر بھی وہ ہوا سے باتیں کرتی ہے۔
شیخ صاحب : اے جناب اس میں ذرا بھی تشویش کی بات نہیں ۔ میں خود برابر سفر کرتا رہتاہوں ۔ نہایت آرام کی سواری ہے۔
مرزا صاحب : میں نے پہلے عرض کیا تھالیکن آپ کو اطمینان نہیں ہوتا اور جو بھی ساتھ لیے جاتے ہیں۔
میر صاحب : تو کیا شیخ صاحب قبلہ کو میں چھوڑ دوں گا؟
شیخ صاحب : نہیں حضرت میں تو معافی چاہوں گا آج کل گھر میں ذراعلیل ہیں اور خود مجھےکو بھی منی سے چھینکیں آرہی ہیں۔
میر صاحب : یہ تو واللہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم پر دائیں کو سدھاریں اور ہمارے احباب دلیس میں رہیں ۔ آپ کو تو میں چھوڑ ہی نہیں سکتا۔
مرزا صاحب : بھائی صاحب آپ نے بھی میر صاحب قبل کی کسی بات میں کوئی عذر نہیں کیا۔
شیخ صاحب : میں اور عذرکروں استغفراللہ - میں تو صرف اجازت چاہتا ہوں ۔ وہ بھی اگرمنظور نہیں ہے تو جو کم ہو، بنده حاضر ہے۔
میر صاحب : بس تو صاحب آپ فورا گھر تشریف لے جا کر الٹے پیروں واپس آجایئے۔اس لیے کہ اب وقت کم ہے۔
شیخ صاحب : گاڑی چار بجے جاتی ہے اور ابھی ایک ہی تو بجا ہے۔
میر صاحب : یہ درست ہے مگر کیا اعتبار اس بے لگام گھوڑے کی گاڑی کا اور جو پہلے چل دے۔
مرزا صاحب : جی نہیں ایسا نہیں ہوسکتا مگر احتیاط اچھی چیز ہے۔ اگر گھنٹہ دو گھنٹے پہلے اسٹیشن پہنچ جائیں تو اچھا ہے۔
شیخ صاحب : تو میں اجازت چاہتا ہوں ۔ ابھی ذرا حاضر ہوا۔
میر صاحب : بسم اللہ مگر چشم براہ ہوں۔
شیخ صاحب : میں ابھی حاضر ہوا۔ بس گیا اور کیا (جاتا ہے)
(پیروں کی چاپ ، دروازے کی آواز ، دولت آتا ہے۔)
میر صاحب : کیوں دولت کیا ہے؟
دولت : سرکار بستر میں تھے، تکنیاں ، تو شک، چادر، شال - پنگ پوش رکھ دیا ہے اورکچھ تو نہ رکھا جائے گا؟
میر صاحب : اورلحاف۔
مرزا صاحب : ایں یعنی اس گرمی میں لحاف بھی لے جائے گا۔
میر صاحب : بھائی پر ریل کا معاملہ ہے۔ معلوم نہیں وہاں کا موسم کیسا ہو۔
مرزا صاحب : چار قدم پر وہ جگہ جہاں آپ تشریف لے جارہے ہیں ۔ وہاں کا موسم وہی ہے جو یہاں کا۔
میر صاحب : پھر بھی اگر لحاف رکھ لیا جائے تو کیا مضائقہ ہے اور ہاں مچھر دانی بھی بستر میں رکھ دینا۔
دولت : سرکار مچھر دانی کے بانس بھی۔
میر صاحب : بانس ہیں تو ضروری نگر کیوں بھئی مرزاصاحب! بانسوں میں ذرا طوالت ہے۔
مرزا صاحب : اجی بانس وانس نہیں جو دیکھے گا ہنسے گا۔
میر صاحب : اچھا بانس نہ رکھ کر دیکھو ایک آدھہ قالین اور ایک آدھ گاؤ تکیہ تھے ہیں علاحده ضرور باندھ لینا۔
مرزا صاحب : یہ سب کیا ہو گا؟
میر صاحب : لیکن کیا وہاں بیٹھنے وچھنے کی ضرورت نہ ہوگی؟
مرزا صاحب : دن بھر کا قیام ہے اور ایک رات گزار کر واپسی کا ارادہ ہے ۔ اس کے لیے یہ سب جھگڑا۔
میر صاحب : تو آخر بے سروسامانی کے سفر سے کیا حاصل؟
مرزا صاحب : بہتر ہے اگر آپ کی یہی مرضی ہے تو مناسب ہے۔
دولت : سرکار کوئی اور چیز؟
میر صاحب : کپڑوں کے دونوں بکس،لوٹے طشت، بٹن دانی ، صابن دانی منجن دانی ، تولیے، چائے کے لیے پتیلی ، گلاس، تھالیاں، انگیٹھی، کوئلوں کا تھیلا، چائے کے سب برتن وغیرہ رکھ لیے ہیں۔
مرزا صاحب : خدا کی پناہ! آخراتنا سامان۔
میر صاحب : بھائی پردیس کا معاملہ ہے کیا گھر سے یونہی چل دیا جائے۔
(دروازہ کھلتا ہے، رونق ملازمہ آتی ہے۔)
میر صاحب : کیا ہے رونق؟
رونق : الله سلامتی رکھے۔
میر صاحب : اری نیک بخت، کشتی میں کیا لائی ہے؟
رونق : قربان جاؤں سرکار کی بڑی بیگم کے یہاں سے گلوریاں، پھول اور امام ضامن بھیجے ہیں۔
میر صاحب : اچھا اچھا رکھو اور بڑی بیگم کو سلام کہلا دو۔
رونق : سرکار ابھی تو اور کشتیاں بھی ہیں۔
میر صاحب : یعنی اور ہیں ابھی؟
رونق : جی ہاں سرکار۔ اللہ رکھے سردار دلہن، بہو بیگم شمشاد بیگم نورمحل، قمر دلہن سب ہی نے تو امام ضامن بھیجے ہیں۔
میر صاحب : خوب خوب لاؤ بھئی ، وہ کشتیاں بھی لے آؤ۔
رونق : اور اللہ سلامتی رکھے، بہو بیگم اور قمر بہن نے ناشتہ بھی بھیجا ہے۔
میر صاحب : اس تکلف کی آخر کیا ضرورت تھی خیر ناشتہ و دولت کو دے دے اور کشتیاںیہاں لے آ۔
رونق : اور سرکار بیگم صاحب نے کہا ہے کہ زری محل میں بھی تشریف لے آئیں۔
میر صاحب : اچھاتو چل میں آتا ہوں۔
(روق چلی جاتی ہے۔)
میر صاحب : کیوں بھئی مرزا تو میں ہو آوں ذرا محل میں؟
مرزا صاحب : بسم اللہ ضرور تشریف لے جائیں اور میرا آداب بھی عرض کر یں بیگم صاحبسے۔ میں جب تک ذرا گھر سے ہوآ وں ۔
میر صاحب : نہیں بھائی صاحب نہیں ہوسکتا گاڑی کا وقت قریب ہے۔
مرزا صاحب : حضرت میں ابھی حاضر ہوا۔ غریب خانہ کون سا دور ہے۔
میر صاحب مگر بھئی جلدی آنا۔
مرزا صاحب : میں ابھی الٹے پیروں واپس آیا۔
(مرزاصاحب جاتے ہیں پیروں کی چاپ اور دروازے کی آواز سنائی دیتی ہے۔)
میر صاحب : اچھامیں ذرا ہوہی آؤں گل میں۔
( دروازہ کھلتا ہے بیگم آتی ہیں۔)
بیگم : اے میں کہتی ہوں سدھارنے کا وقت آ گیا اور باہر سے آنے کول ہی نہیں چاہتا۔
میر صاحب : نہیں تو بیگم میں تو بس آہی رہا تھا۔ فرامرز اصاحب اور شیخ صاحب کو ساتھ لے جانے کے لیے تیارکر رہا تھا۔
بیگم : تووہ تیار ہو گئے۔ چلو اچھا ہوا، دل بھی پہلے گا اورا کیے بھی نور ہوگئے۔
میر صاحب : ہاں صاحب ! اب اطمینان ہو گیا۔ پولیس کا معاملہ ہے ایک سے دو بھلے۔
بیگنم : مگر میرایی لگا رہے گا ، جاتے ہی خط ڈال دینا۔
میر صاحب : بھلا بھی کوئی کہنے کی بات ہے۔
بیگم : اچھا جیسے آج میں سے گئے تو کب پہنچو گے؟
میر صاحب : آج ہی بس چھے ہے۔
بیگم : چلو ہٹو، چلے ہیں مجھ سے مذاق کرنے ۔ چالیس کوس کا سفر ہے اور آج ہی بن جائیں گے بے چارے۔
میر صاحب : تمھارے سر عزیز کی قسم ۔ بس دو گھنے بلکہ اس سے بھی کم میں جائیں گے۔
بیگم : آخراتنا تیز جانے کی کیا ضرورت ہے کہ ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو کر دی جائے ۔
میر صاحب : بھئی تو اس کو میں کیا کروں، کہتے ہیں کہ میں اتنی ہی تیز چلتی ہے بیگم  !
بیگم : اے ہے مجھے تو ہول ہوجائے گی۔
(دروازے پر دستک)
شیخ صاحب (باہر سے ) جناب میر قبلہ صاحب، اب ذرا جلدی ہے۔ وقت قریب ہے۔
میر صاحب : بہت بہتر ، میں تو آپ کا ہی منتظر تھا۔ ابھی آیا۔
بیگم صاحب : اے تو لاو میں امام ضامن باندھ دوں اور ذرا سا دہی چکھ لو ۔ اللہ اصل خیر سے واپس لائے۔
رونس : سرکاردہی مچھلی۔
بیگم : رونق ذرا کشتیاں اٹھا میں امام ضامن باندھ دوں۔
میر صاحب : ہاں ! تو ذرا جلدی کرو بیگم وقت کم ہے۔
بیگنم : اے ایک بھی کیا جلدی کہ اتھ پاؤں پھول جائیں تمہی تو اب تک بیٹھے ہے۔
رونق : لیجیے سر کار یہ بڑی بیگم کے یہاں کی کشتی ہے۔
میر صاحب : ارے صاحب جلدی جلدی۔ رونق پہلے ہار ٹھاؤ۔
رونق : لیجیے۔
بیگم : بسم الشد ( پہناتی ہے )لا و امام مضامین بھی باندھ دوں۔
رونق : لیجیے سرکار۔ ( باندھ کر ) امام ضامن کی ضامنی۔
میر صاحب : اور بھی سب جلدی جلدی سے باندھ دودیر ہورہی ہے۔
بیگم : پھر تم نے ہاتھ پیر چلائے ، لا رونق اور کشتیاں جلدی جلدی اٹھا۔
بیگم : بسم اللہ ۔ اے ہے کہ یہ بیگم کا کار چوب و الامام ضامن کیسا پیارا ہے۔
رونق : سرکار یه شمشاد بہن کے ہاں کا بار دیکھیے گوٹے کا ہے اور امام ضامن بھی اچھا ہے۔
بیگم:او
بیگم : سردار بہن کو تو دیکھو۔ میرا کیا سلک کا امام ضامن بھیجا ہے اور یہ اس میں پہیہ بندھا ہے۔
رونق : نہیں سرکار اشرفی ہے یا شاید ھی ہو۔
بیگم : ہاں یہ ہے امام ضامن - سردار ہی دیکھیں تو دیکھتی رہ جائیں کیا کہتا ہے قمر دین کا۔
میر صاحب : بس صاحب ہوگئے سب امام ضامن۔
بیگم : اے میرا امام ضامن تو بندھوا لو۔
میر صاحب : ہاں صاحب وہ بھی زیادہ ضروری ہے اور ہاں بیگم ایک ایک امام ضامن مرزا صاحب اور شیخ صاحب کو بھی بھجوا دو۔
بیگنم : آب چلے یہ چونچلے لے کر میں اب کہاں سے لاؤں امام ضامن۔
میر صاحب : ارے صاحب سی کپڑے میں ایک ایک روپیہ باندھ دو بس۔
بیگم : اچھا میں ابھی بھیجتی ہوں۔
میر صاحب : اچھا خداحافظ۔
بیگم : الله کی امان امام ضامن کی ضامنی دہی مچھلی۔
رونق : میاں دہی مچھلی۔
میر صاحب : اب تم لوگ ذرا ہٹ جاؤ۔
شیخ صاحب : باہر سے )امی حضرت تشریف لائے۔
میر صاحب : (بھائی اندر آ جاؤ میں تیار ہوں۔
(دروازے سے شیخ صاحب اور مرزاصاحب آتے ہیں ۔ چاپ)
شیخ صاحب : خیر خدا خدا کر کے آپ تیار تو ہوئے۔
مرزا صاحب : اور ذراشان تو دیکھیے معلوم ہوتا ہے دولھا میاں چلے آرہے ہیں۔
شیخ صاحب : خیر دولھا نہ سہی ، حاگی صاحب تو ضرور معلوم ہوتے ہیں ۔ ان ہاروں اورامام ضامنوں میں۔
میر صاحب : بھئی کیا بتاوں عورتیں جو چاہیں بنادیں۔
شیخ صاحب : اچھا تو اب بھی منگوائے نا ایک گھنٹہ باقی رہ گیا ہے۔
میر صاحب : دولت! ارے دولت!
دولت آتا ہے)
دولت : سرکار۔
میر صاحب : دولت۔ سب سامان تیار ہے؟
دولت : جی ہاں! تیار ہے کل تیس عد د ہیں ۔
میر صاحب : تاش کی گڈی، چوسر شطرنج، یہ سب رکھ لیا ہے۔
دولت : جی ہاں سرکار یہ سب چیزیں ہیں مگر
میر صاحب : مگر کیا؟ کچھ بھول گئے تمھارے دماغ میں بھوسا بھرا ہے۔
دولت : میں نے کہا سر کار، بٹیریں حضور کو یاد کریں گی۔
میر صاحب : بٹیریں! خوب یا دولا یا بھائی ان کے کا ایک ساتھ لے لو، ورنہ واقعی ہڑک جائیں گی۔
دولت : بہت اچھا سرکار، لواب بیس عدد ہیں۔
میر صاحب : کوئی پروا نہیں تم اب دو بگھیاں فورأ لے آؤ۔
شیخ صاحب : بہت اچھا سرکار۔(جاتا ہے)
(دروازہ کھلتا ہے، رونق آتی ہے۔)
رونق : سرکار بیگم صاحب نے مرزا صاحب اور شخ صاحب کے لیے امام ضامن بھیجے ہیں اور یہ بہار ، اور کہا ہے کہ جب سے مو بیٹے کو آپ کے سدھارنے کی خبر ہوئی ہے برابر ٹیں ٹیں کر رہا ہے
میر صاحب : ارے بھئی یہ تو بڑی مصیبت ہے۔ واقعی ھو جائے تو سخت پریشان کریں گے سب کو۔
رونق : اے سرکار وہ تو اگر ذرا دیر بھی سرکار کون دیکھے تو آفت مچادیتا ہے۔
میر صاحب : کیا رائے ہے مرزاصاحب ۔ جہاں اتنا سامان ہوا وہاں ایک پنجرہ اور سہی۔
مرزا صاحب : جو رائے عالی ہومگر اتنے سامان کا تو محصول پڑ جائے گا۔
میر صاحب : تو بھی تم ہی بتا کون سی چیز ضرورت سے زیادہ ہے۔ بغیر پان دان کے کام نہیں چل سکتا ۔ بغیر نا شتے دان کے کیسے چل سکتا ہے اور اسی طرح سب چیز میں ضروری ہیں۔
شیخ صاحب : والله معلوم یہ ہوتا ہے کہ ولایت کا سفر ہے۔
مرزا صاحب : اور کیا جتنے آدی والا بیت جاتے ہیں وہ سب طوطے کا پنجرہ اور بٹیر کا کا یک لے جاتے ہیں۔
میر صاحب : تو بھی میں ان بے زبانوں کی جان تو لوں گا نہیں، چاہے کچھ بھی ہو۔
شیخ صاحب : نہیں صاحب۔ ہرگز نہیں ۔ بہر حال اب سامان نکلوانا چاہیے۔ بگھیاں آتی ہی ہوں گی۔
میر صاحب : آپ کو تکلیف کرنے کی کیا ضرورت ہے دولت آنتاہی ہوگا۔
مرزا صاحب : اپنا کام کرنے میں بھی کوئی تکلیف ہوتی ہے۔ یہ آپ نے ایک ہی ہیں ۔واللہ ہے کہ میں سامان نکالتا ہوں۔
میر صاحب : اماں تمھیں میری قسم جو سامان اٹھاؤ۔ بھی کوئی بات ہے۔
(دروازہ کھلتا ہے)
دولت : سرکارنگیاں حاضر ہیں ۔ ایک ایک روپے میں آئی ہیں ۔
میر صاحب : اچھا تو بھی مرز امیں ایک مرتبہ ذرا گھر میں ہواؤں۔
شیخ صاحب : بس تو پھر گاڑی مل چکی۔
میر صاحب : أماں ابھی آیا میں ۔ بس سامان رکھا گیا کہ میں آگیا۔
مرزا صاحب : ہاں ہاں آپ ضرور ہوئیں مگر ذرا جلدی کیجیے۔
میر صاحب : بس میں ابھی آیاتم سامان رکھو اور۔(جاتے ہیں)
مرزا صاحب : دیکھو دولت کوئی چیز نہ رہ جائے۔
دولت : کیا مجال ہے سرکار مگر ایک بگھی میں تو سامان بھی آئے گا۔
مرزا صاحب : بس تو ایک میں ہم سب آجائیں گے۔
شیخ صاحب : مگر یا رطوطے کا پنجرہ اور بٹیروں کے کا بیک میر صاحب کے پاس ہی رکھنا۔
مرزا صاحب : ہاں یہ بھی اچھی دل لگی رہے گی۔
(دروازہ کھلتا ہے)
میر صاحب : ليجیے جناب میں آ گیا۔
مرزا صاحب : بس تو بسم اللہ کیجیے(دولت کو چھینک آتی ہے۔)
میر صاحب : یہ کون تھا؟ دولت نا! لاحول ولاقوة أو بھی مرزاذ را بیٹھ جاو شگون خراب ہوگیا۔ ایک ایک پان کھالو پر چلیں گے۔ اس بدتمیز دولت کو دیکھو کہ اس وقت بدشگونی سوجھی تھی۔
شیخ صاحب : اچھا خیر ایک ایک پان کھا لیے۔
دولت : سرکار پان حاضر ہے۔
میر صاحب : لو بھئی پان کھالو (سب پان کھاتے ہیں) اب اٹھو۔
شیخ صاحب : بسم الد۔
مرزا صاحب : الا اللہ۔
میر صاحب : چل دولت باہر سے سب کو ہٹا دے۔
دولت : حضور باہر کوئی نہیں تشریف لے چلیں۔
: (سب چلتے ہیں ۔ بلّی کی آواز آتی ہے سب رک جاتے ہیں۔)
میر صاحب : ہا کمبخت راستہ کاٹ گیا۔
مرزا صاحب : یہ تو بہت برا ہوا کہ راستہ کاٹ گئی۔
میر صاحب : بس تاردیا جائے ، کہ گاڑی چھوٹ گئی۔
شیخ صاحب : قبلہ عالم کی بھی خبر ہے کہ جہاں آپ کو جاتا ہے وہاں دن بھر میں خدا جھوٹ نہ بلائے تو ہر گھنٹے پرگاڑی چھوتی ہے۔
میر صاحب : أماں تو کچھ اور سوچو۔
شیخ صاحب : تو آخر اس میں کیا مضائقہ ہے کہ آپ اب دوسری گاڑی سے چلیں۔
میر صاحب : بھائی اب بیگم ہرگز نہ جانے دیں گی۔
شیخ صاحب : تو یہ سمجھ لیجیے جائداد کا معاملہ ہے ہیں خدانخواستہ کھٹائی میں نہ پڑ جائے۔
میر صاحب : کیا عرض کروں کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔(رونق آتی ہے)
رونق : سرکار بیگم صاحب کہتی ہیں کہ اب کچھ بھی ہوجائے میں ہرگز نہ جانے دوں گی۔
میر صاحب : ارے صاحب تو میں کہاں جارہا ہوں۔
مرزا صاحب : تواب فرمایئے کس مضمون کا تاردیا جائے۔
میر صاحب : میرے خیال میں تو یہی تاردو کے مجبوراً سفر ملتوی کردیا۔
شیخ صاحب : جناب والا اس کا اثر مقدمے پر کیا پڑے گا؟
مرزا صاحب : مگر بھئی مجبوری کی وجہ سے سفر ملتوی کیا ہے نا۔
شیخ صاحب : کیا مجبوری ہے ہیں تا کہ چند ہم گھیرے ہوئے ہیں۔
میر صاحب : لوٹ آو بھائی صاحب، پیشگون نہایت محسوس ہوتا ہے۔
(دروازہ کھلتا ہے رونق آتی ہے۔)
رونق : سرکار بیگم صاحبہ کہہ رہی ہیں کہ بتی راستہ کاٹ گئی ہے۔ اب میں ہرگز نہجانے دوں گی۔
میر صاحب  : ہے تو واقعی یہ بہت برا مگر مقدمے کا کیا ہوگا؟
رونق : سرکار جائداد آپ پر سے صدقے کی مگر جب مئی راستہ کاٹ جائے تو جانا نہیں چاہیے۔
میر صاحب : واقتعی اب تو میرے قدم بھی نہیں اٹھتے۔
شیخ صاحب : حضرت یہ سب وہم ہیں۔
میر صاحب : ایں بھی یہ کیا کہہ رہے ہو ۔ آماں یہ کیا کہہ رہے ہو، مینی بلی راستہ کاٹ جائے اورتم اس کو معمولی بات سمجھو۔
مرزا صاحب : نہیں صاحب کی کوئی بات نہیں ہے۔ ایسی حالت میں سفر ہرگز نہیں ہوسکتا۔
میر صاحب : بھائی شیخ صاحب میں تم سے سچ کہتا ہوں تمھارے سر عزیز کی فتم ابا جان مرحوم کے ایک دوست گھوڑے پر سوار تھے اور جنگل کا راستہ تھا کہ کئی راستہ کاٹ گئی بس پھر نہ پوچھو گھوڑے کا ایک قدم آگے بڑھنا ہی تھا کہ اس نے ٹھوکر لی اور سوار سر کے بال گرا۔
مرزا صاحب : اے ہے بڑی چوٹ آئی ہوگی ۔ جناب۔
میر صاحب : أماں چوٹ یقین جانو کہ تمام پیشانی لہولہان ہوگئی ۔
شیخ صاحب : اتفاقاً ہوگیا ایسا، یہ کیا ضروری ہے کہ ہر مرتبہ ایسا ہی ہو۔
رونق : اے واہ میاں اللہ نہ کرے ایسا ہومیر اتو سن کر کلیجہ ہی دھڑک رہا ہے۔
میر صاحب : بھئی شیخ صاحب بعض وقت تو تم نہایت تا سمجھی کی باتیں کرتے ہو، گویا یہ شگون اور بدشگونی کوئی چیز ہی نہیں۔
شیخ صاحب : صاحب میں تو ان باتوں کو مل سمجھتا ہوں ۔
مرزا صاحب : بھائی صاحب بیتونہ کہے۔ البیت یہ کہے کہ آپ بھی روشنی کے آدمی ہو کر رہ گئے ہیںأ
میر صاحب : اماں تمھیں میری تم۔ ذرا دیکھوتو شیخ صاحب کی ڈھٹائی کہ بلّی راستہ کاٹ جائے اور یہ شیرڈ ٹا رہے۔
مرزا صاحب : خیر سفر تو میری ناچیز رائے میں مناسب نہیں ہے البتہ خیال ہے تو صرف یہ کہ مقدمے کا کیا ہوگا۔
رونق : اے میاں چولھے میں گیا مقدمہ، اللہ جان سلامتی رکھے تو ایسے ایسے سیکٹروں مقدے ہوں گے ۔
میر صاحب : بھئی واللہ یہ بھی ایک ہی رہی ۔ ماں سنتے ہو مرزا کی رونق کی دعا کہ ایسے ایسے سیکڑوں مقدمے میرے لیے مانگ رہی ہیں۔
رونق : اے توبہ قربان جاؤں مجھے کیا معلوم۔
میر صاحب : تو بھئی مرزااب تم ہی بتاو اس مقدمے کا کیا کیا جائے۔
مرزا صاحب : حضرت میری عقل خود حیران ہے۔
(درواز کھلتا ہے، دولت آتا ہے)
دولت : سرکا ر تو کیا سامان اتار لیا جائے۔
میر صاحب : سامان تو خیر ضرور اترے گا خواہ مقدمہ ر ہے یا جائے ۔
دولت : توسرکار بگھی والوں کو تو کرابی دینا ہی پ ڑے گا۔
میر صاحب : ہاں ہاں تو کس نے کہا ہے کہ نہ دو۔
مرزا صاحب : میری ناقص رائے میں تو حاکم کوتار دے دیا جائے۔
میر صاحب : آخر کیا تاردیا جائے؟
شیخ صاحب : یہی کہ بلّی راستہ کاٹ گئی اور ملازم کو چھینک آگئی۔
میر صاحب : بھئی شیخ صاحب يتم والہ ہے کہ ان باتوں کو پھر ہم کہ رہے ہو یعنی بھی راستہ کاٹ جائے اور وہم۔۔
مرزا صاحب : نہیں صاحب نہیں یہ وہم نہیں بلکہ وقتی احتیاط شرط ہے۔ آخر ہمارے بزرگ کیا کرتے تھے
میر صاحب : میں آپ سے عرض کروں کہ ہمارے بزرگ تو ان ہی خیالات کی وجہ سے سفر کو مناسب نہیں سمجھتے تھے۔
(درواز دکھاتا ہے دولت آتا ہے)
دولت : سرکار سرکار غضب ہوگیا۔ ایک بھی کا گھوڑا بھاگا بھاگا پھر رہا ہے مع تمام سامان کے اور بٹیروں کا کا کیک بھی ایسی بھی پر ہے۔
(مرز اصاحب اور شیخ صاحب دروازہ کی طرف لپکتے ہیں۔)
میر صاحب : الٰہی خیر ! خدا میری بٹیروں کو حفظ و امان میں رکھے ۔ ذرا جلدی دیکھو بھئی ۔آماں ذرا جلدی جاؤ تو۔
رونق : وہ تو مواشگون ہی خراب ہو گیا تھا۔ اس موئے گئے دولت کو بھی اسی وقت چھینک آنا تھا۔
دولت : ذرا بات سنبھالے ہوئے نکٹا میں کیوں ہوتا جو کہے وہ خود اس کی سات پشت
رونق : دیکھیے سرکار یہ موا منھ بھر بھر کر میری پشتوں کو کہہ رہا ہے
میر صاحب : یہ لڑائی کا وقت نہیں ہے خدا کو یاد کرو
رونق : سرکار
دولت : سرکار۔
میر صاحب : چپ رہوسب چپ رہو۔
رونق : سرکار دیکھیے نا یہ موا۔
میر صاحب : خدا کو یاد کرو میری بٹیر میں اس وقت سخت مصیبت میں ہیں۔
(دروازہ کھلتا ہے۔ صاحب اور مرزاصاحب داخل ہوتے ہیں۔)
مرزا صاحب : لیجیے حضرت اپنی بٹیر ہیں، میں نے جاتے ہی گھوڑے کو پکڑ لیا۔
میر صاحب : بھئی واہ کمال کیا ۔ اماں ذرا دیکھو تو پیروں کے دل کیسے دھڑک رہے ہیںمگر اللہ ہے کہ خدا نے ہم لوگوں کو کیسے بچایا شکر ہے ہم بھی پر سوار نہ تھے۔
:
شیخ صاحب : صرف آپ کی صراحی گر پڑی ہے باقی سب خیریت ہے۔
میر صاحب : خیر بھی صرائی گئی تو ، جائے۔ سب کی جانوں کا صدقہ اترا۔
مرزا صاحب : ہاں صاحب، رسیده بود بلا ئے ولے بھی گزشت۔
شیخ صاحب : لاحول ولاقوة کیا ہنگامہ ہوا ہے بیٹھے بٹھائے۔
میر صاحب : ایسا ویسا ہنگامہ ، ذرا میرا کیر تو دیکھو کہ اب تک بے قابو ہے۔ دولت د را شربت انار تیار کر اور بھی مرزا میں ذرائل میں ہو آؤں تا کہ بیگم کو اطمینان ہو۔
مرزا صاحب : تو ہم لوگ اجازت چاہتے ہیں۔
میر صاحب : اچھا بھی خداحافظ ۔
شیخ صاحب : آداب بجالاتا ہوں ۔
مرزا صاحب : تسلیمات عرض کرتا ہوں۔
میر صاحب : خداحافظ - خداحافظ ۔
پیروں کی چاپ دور جاتی سنائی دیتی ہے۔)
شوکت تھانوی
مرزاصاحب میر صاحب شیخ صاحب مرزاصاحب میر صاحب

Khuda Hafiz a drama by Shaukat Thanvi   Chapter 9 NCERT Solutions Urdu
ڈراما
ڈراما یونانی زبان کا لفظ ہے۔ اس سے مراد ہے کر کے دکھاتا ۔ اس میں کرداروں ، مکالموں اور مناظر کے ذریعے سی کہانی کو پیش کیا جاتا ہے۔ قدیم ہندوستان میں بھی اس کی روایت موجود ہے اور اس کو نادیہ کہا جاتا ہے۔
ارسطو نے ڈراما کو زندگی کی نمائندگی (Mimosis) کہا ہے۔ داستان، ناول اور افسانے کے مقابلے میں ڈراما اس لحاظ سے حقیقت سے قریب تر ہوتا ہے کہ اس میں الفاظ کے ساتھ ساتھ کردار، ان کی بول چال اور زندگی کے مناظر بھی دیکھنے والوں کے سامنے آتے ہیں ۔ کرداروں کی ذہنی اور جذباتی کشمکش کو مکا لے اور آواز کے اتار چڑھاؤ کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے۔ ڈراما بنیادی طور پر اسنے کی چیز ہے لیکن ایسے بھی ڈرامے لکھے گئے ہیں اور لکھے جاتے ہیں جو صرف شنانے اور پڑھنے کے لیے ہوتے ہیں ۔ ریڈیو کی وجہ سے ڈراموں کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور ٹیلی ویژن پر جس طرح کے پروگرام سب سے زیادہ پیش کیے جاتے ہیں، ان کا تعلق بھی کسی نہ کسی طرح ڈرانے ہی کی صنف سے ہے۔
ارسطو نے ڈرامے کے اجزائے ترکی میں ہتھے چیزوں کو ضروری قرار دیا ہے۔ قصہ ، کردار، مکالمہ ، مرکزی خیال ، سجاوٹ اورمنگیت ۔ لیکن ضروری نہیں کہ ہر ڈرانے میں سنگیت یا موسیقی کا عنصر ہو۔ پلاٹ ، کردار، مکالموں اور مرکزی خیال کا ہونا البته ضروری ہے۔ ڈرامے کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اس میں واقعات کی کڑیاں اس طرح ملائی جائیں کہ بتدرتی نقطۂ عروج تکنی لیں اور ناظرین کی توجہ ایک نکتے یا خیال پر مرکوز ہوجائے ۔ اس کے بعد ڈراما انجام کی طرف بڑھتا ہے۔ واقعات سے جو نتیجہ برآمد ہوتا ہے، وہ انجام کے ذریعے پیش کردیا جاتا ہے۔ حق و باطل اور خیر وشر کی کشمش، بنیادی انسانی اقدار اور ساجی قومی اور سیاسی مسائل کوڈراموں میں پیش کیا جاتا ہے۔
شوکت تھانوی
(194ء - 1963ء)
شوکت تھانوی کا اصل نام محمد عمر تھا، وہ اردو کے مشہور مزاح نگار تھے۔ مزاحیہ تحریروں اور ناولوں کے علاوہ انھوں نے ریڈیو کے لیے ڈرامے بھی لکھے ہیں۔ ان کے قلم میں بلا کی روانی تھی۔ روز مر د کی باتوں اور آئے دن پیش آنے والے واقعات کو اس مزے سے بیان کرتے اور ان میں ایسے ایسے دلچسپ نکتے پیدا کر دیتے تھے کہ پڑھنے والا بے اختیار ہنس پڑتا ۔ وہ الفاظ کے استعمال اور جملوں سے بھی بھی پیدا کرتے تھے۔ ووشوی اور ظرافت کے ساتھ اس کا بھی خیال رکھتے تھےکہ تحریر میں تہذیب سے گری ہوئی بات یافتقرہ نہ آنے پائے۔ ان کی جودت ذہین معمولی باتوں کو بھی دلچسپ بنادی تھی ۔
سودیشی ریلی موچ تبسم، طوفان تبسم شیش محل، جوتوز، کارٹون اور قاضی جی وغیرہ ان کی مشہور کتابیں ہیں ۔شوکت تھانوی نے شاعری بھی کی ہے لیکن وہ مزاحیہ شاعری نہیں بلکہ سنجیدہ غزل کیشاعری ہے۔

لفظ و معنی
عذر : بہانہ، کسی کام کو کرنے یا نہ کرنے کی جو وجہ بیان کی جائے (جو جھوئی بھی ہوسکتی ہے اسے غذر کہتے ہیں۔
تبادلۂ خیال : کسی موضوع پر دو یا زیادہ اشخاص کی باہمی گفتگو
خاندانی وضع : خاندانی طورطریقے
سیاحت : ملکوں کی سیر
چشم براه : بہت شد بد انتظار کرنے والا
مضائقہ : حرج ، قباحت
طوالت : لمبائی ، ( محاورتا مشکل)
غریب خانہ : انکسار کے ساتھ اپنے گھر کے لیے کہا جا تا ہے۔
امام ضامن :    وہ روپیہ یا سکہ جو مسافر کے بازو پر حفاظت سے پہنچنے کے خیال سے امام ضامن (امام موسی رضا)کے نام پر باندھا جاتا ہے اور سفر ختم ہونے پر اسے خیرات کر دیا جاتا ہے۔
محصول : ٹیکس، لگان
ملتوی کرنا : کسی کام کو جس وقت ہونا ہے اس وقت اسے نہ کرنے کا فیصلہ کرنا
لہولہان :  خون میں لتھڑا ہوا
مہمل : بے معنی
ناقص : کھوٹا ، عیب دار
رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گذشت : (فارسی) ایک مصیبت آتی تھی لیکن خیر یت کے ساتھ ٹل گئی

غور کرنے کی بات
* شوکت تھانوی روز مرہ کی باتوں کو بڑی خوبی سے بیان کرتے ہیں اور اس میں ایسے دلچسپ نکتے پیدا کرتے ہیں کہ قاری بغیر ہنستے ہیں رہ سکتا۔ خدا حافظ ڈراما اس کی بہترین مثال ہے ۔ اس میں زوال آمادہ تہذیب اور نوابین کی معاشرتی زندگی کی ایک جھلک پیش کی گئی ہے۔ . اس ڈرامے میں کچھ تو ہمات کا ذکر کیا گیا ہے جس کا شکار عام انسان آج بھی ہے جیسے سفر میں جانے سے پہلے اگر چھینک آجائے یا بلی راستہ کاٹ جائے تو اسے براشگون سمجھا جاتا ہے - لکھنوی تہذیب کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ سفر پر جانے سے پہلے امام ضامن باندھتے ہیں جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آپ کو خدا کی حفاظت میں دیا۔ اسی طرح سفر پر جانے سے پہلے دہی چکھنا بھی اچھی علامت سمجھا جا تا ہے ۔ اس کے علاوہ صرانی با کسی برتن کے ٹوٹ جانے کو بھی اچھا سمجھا جاتا ہے اور یہ خیال کیا جا تا ہے کہکوئی بائل گئی۔

سوالوں کے جواب لکھیے 
1. میر صاحب سفر سے پہلے کیوں گھبرارہے تھے؟
جواب: میر صاحب اپنی زندگی میں پہلی بار ریل کا سفر کر رہے تھے اور انہیں ریل کے سفر کا کوئی تجربہ نہیں تھا  اس لئے وہ ریل کے سفر سے پہلے گھبرا رہے تھے۔

2. وہ اپنے ساتھ سفر میں کیا کیا سامان لے جارہے تھے؟
جواب: میر صاحب بستر، تکیے، توشک، چادر، پلنگ پوش، لحاف، مچّھر دانی، قالین، کپڑوں کے دو بکس ،لوٹے، طشت، بٹن دانی، صابن دانی، منجن دانی، تولیے، چائے کے لیے پتیلی،  گلاس، تھالیاں، انگیٹھی، کوئلے کا تھیلا، چائے کے سب برتن، کُشتی، ناشتہ، بیٹریں کا کابُک، طو طے کا پنجرا، میر صاحب اپنے سفر میں یہ سارا سامان لیکر جا رہے تھے۔

3. میر صاحب نے اپنا سفر کیوں ملتوی کر دیا؟


4. میر صاحب کا کردار آپ کو کیساگا مختصر بیان کیجیے۔


عملی کام
اپنے ساتھیوں کی مدد سے ڈرامے کے مکالموں کو ڈرامائی انداز میں پڑھے۔ جو کردار آپ کو پسند آیا ہو اس سے متعلق چند مکالمے خوشخالیے۔

نیچے لکھے ہوئے محاوروں کو جملوں میں استعمال کیجیے:
* سر کے بال سفید کرنا، کلیجہ ہاتھوں اچھلنا، ہوا سے باتیں کرنا، ڈٹے رہنا، ہاتھ پیر چھولناء الٹے پیروں واپس آنا، ہوا کے گھوڑے پر سوار ہونا، کھٹائی میں پڑتا
نے لکھے ہوئے الفاظ کو موقعوں پر استعمال ہوتے ہیں: ۔ الا اللہ، بسم الله نصیب دشمناں اس ڈرامے میں کچھ تابع مہمل الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ تابع مہمل وہ بے معنی لفظ ہوتے ہیں جو بامعنی الفاظ کے ساتھ بطور تا کید یا رابط بولے جائیں۔ جیسے بانس کے ساتھ وانس یہاں دو اس مہمل ہے آپ اس طرح کے کچھ الفاظ سوچ کر لکھیے۔

شوکت تھانوی نے مزاحیہ انداز میں " چچا چھکن کی طرح میر صاحب کی بدحواسیاں پیش کی ہیں ۔ ڈرامہ خاصا پرانا ہے۔ اس وقت کا ہے جب ریل کا سفر بھی گھبراہٹ کا سبب تصور کیا جاتا تھا۔ میر صاحب کو مقد مے  کے سلسلے میں ریل کے ذریعہ کسی دوسرے شہر میں جانا ہے۔ اسی سلسلے میں  ان پر گھبراہٹ اور بدحواسی طاری ہے۔ وہ اپنے ساتھ اپنے دوستوں کو بھی لے جانا چاہتے ہیں ۔ چنانچہ مرز اصاحب اور شیخ صاحب کو اس کے لئے راضی کر لیتے ہیں ۔ امام ضامن آتے ہیں بڑے زور شور سے سفر کی تیاریاں ہوتی ہیں دنیا جہان کا سامان لے جا رہے ہیں لحاف، گدے، تکے، چادر تو شک وغیرہ وغیرہ اس کے علا وہ ابٹن دانی، صابن دانی منجن دالی تو لیے پتیلی گلاس تھالیاں ، انگیٹھی کویلوں کا تھیلاوغیرہ رکھنے کا بھی حکم دیتے ہیں ۔ اور یوں ہی میر صاحب کی بد حواسیاں چلتی رہتی ہیں بیگم سے رخصت ہونے گھر میں جاتے ہیں جہاں ڈھیر سارے امام ضامن ان کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں ۔ امام جامن بندھواتے ہیں دہی چکھتے ہیں ۔ ادھردوست جلدی کرنے کو کہ ر ہے ہیں ۔ اور زنانے میں رسمیں جاری ہیں ۔ اس کے بعد اندر سے فرمائش آتی ہے کہ طوطے سے بھی ملتے جائیں ۔ جدائی میں ٹیں ٹیں کر رہا ہے۔ ادھر دولت کو چھینک آ جاتی ہے ۔ شگون خراب ہو جاتا ہے۔ جاتے جاتے رک جاتے ہیں ۔ بیٹھ کر پان کھانے کو کہتے ہیں ۔ پھر چل نے لگتے ہیں کہ بلی راستہ کاٹ جاتی ہے۔ بس پھر کہاں کا سفر کیامقدمہ۔ ادھر میر صاحب کا ارادہ  ڈانواڈول ادھربیگم  کافرمان کا اس بد شگونی کے بعد سفر ہر گز نہ کرنے دوں کی مقد مہ جائے بھاڑ میں اور ان بد حواسیوں میں میر صاحب کا سفر ٹل جا تا ہے۔

کہا تمہیں اس سے کہیں زیادہ ثواب ہو گیا۔ اس کا جج   کا  نام حج اکبر ہے
کلک برائے دیگر اسباق

Information Technology - NCERT Solutions Class IX Urdu

Information Technology  Chapter 8 NCERT Solutions Urdu
(اس صفحہ پر ابھی کام جاری ہے)
انفارمیشن ٹیکنالوجی
(INFORMATION TECHNOLOGY)

انفارمیشن کا مطلب ہے اطلاعات ۔ ایک وقت تھا جب کہا جاتا تھا کہ جو جس قدر کم جانتا ہے اتنا ہی مزے میں ہے لیکن آج معاملہ اس کے برعکس ہے یعنی جو جس قدر کم جانتا ہے اتنا ہی گھاٹے میں ہے۔ یہ اکیسویں صدی ہے جسے”انفارمیشن ٹیکنالوجی‘‘ کی صدی کہا جاتا ہے۔ یہاں زیادہ سے زیادہ جانے والا ہی فائدے میں ہے۔ اس کی وجہ انسانی نفسیات ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان میں تجسّس کا مادہ ہے وہ ہر آن کچھ ’کرنا‘ اور’ ہونا‘ چاہتا ہے۔ اسی تجسّس نے ایسی ایسی ایجادات کرائیں کہ سائنس اورٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی ان پر غور کریں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ہم ایک باخبر اور ترقی یافتہ معاشرے میں سانس لے رہے ہیں۔ ہر پل ہر لمحہ کوئی نہ کوئی خبر یا اطلا ع ہمیں ملتی رہتی ہے۔
ذرا غور کیجیے کہ ابتدائی انسان نے بے خبری یا لاعلمی کی زندگی کس طرح گزاری ہوگی۔ دیوانوں کی طرح ادھر سے ادھر دوڑتا پھرتا ہوگا۔ اس کیفیت میں ذرا سی آہٹ ، انسانی یا حیوانی چیخ اور دھماکے سے اس کے پورے بدن میں سنسنی دوڑ جاتی ہوگی ۔ اس کی آنکھیں جن چیزوں کے دیکھنے کی عادی ہوگئی ہوں گی ، اس کے کان جن آوازوں سے مانوس ہو چکے ہون گے، ان سے ہٹ کر جو کچھ نظر آیا ہوگا اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا ہو گا ۔ جب پہلی مرتبہ ایک ڈھلان سے لڑھکتا ہوا گول پتھر اس کے سامنے آیا تو اس کی حرکت اور رفتار نے اسے کچھ کرنے پر اکسایا۔ پتھر کے اس لڑ ھکنے، چلنے اور گھومنے کے عمل نے اسے سوچنے پر مجبور کیا اور پھر اسی واقعہ سے پہیے کی ایجاد ہوئی اور انسان بے خبری کی دنیا سے باہر آیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے انسان پتھر کے عہد سےدست کاری اور پھر مشینی عہد میں پہنچ گیا۔ طرح طرح کی ایجادات نے باخبر اور مہذب معاشرہ میں رہنے کی تحریک دی۔ چنانچہ ہاتھ سے چلائی جانے والی مختلف کاموں کی مشینیں وجود میں آئیں ۔ کاغذ اور چھپائی کی مشین ( پرنٹنگ پریس) کی ایجاد نے انسان کو پوری دنیا سے باخبر رہنے اور اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کا وسیلہ فراہم کیا۔ کتابیں ، جرائد اور اخبارات نے خبروں کی فراہمی اور خبر رسانی کے مشکل عمل کو رفتہ رفتہ آسان سے آسان تر بنادیا۔
انسان ہمیشہ سے خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہا ہے۔ اسی تلاش اورجستجو سے ٹیلی گراف، ٹیلی فون، وائرلیس، ریڈیو ٹرانسسٹر سیٹالائٹ ، ٹیلکس، فیکس، کمپیوٹر، پیجر، کیبل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ جیسی ایجادات سامنے آئیں۔ اب اطلاعات خبروں کی فراہمی اورخبر رسانی کا دنیا بھر میں ایک جال بچھ گیا ہے۔
 1830 ء میں ٹیلی گراف اور 1876ء میں ٹیلی فون کی ایجاد کے وقت موجدوں نے یہ تو ضرور سوچا ہوگا کہ ہماری ایجادات آئندہ زمانے میں اضافے اور تبدیلیوں کے ساتھ دنیا کی گراں قدر خدمت انجام دیں گی لیکن انھیں یہ خیال نہیں آیا ہوگا کہ سو ڈیڑھ سو برس بعد خبر یا پیغام رسانی کا ایک ایسا مضبوط اور مربوط نظام وجود میں آئے گا جو اس وسیع وعریض دنیا کو سمیٹ کر رکھ دے گا اور جسے انفارمیشن ٹیکنا لو جی کا نام دیا جائے گا۔
آج گھر کے ایک گوشے میں میز پر رکھا ہوا ٹیلی ویژن یا کمپیوٹر ہمیں دنیا بھر کے معاملات سے ہر پل، باخبر کرتا رہتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت 24 گھنٹے سات سمندر پار کی بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی خبریں، اطلاعات اور پیغامات پلک جھپکتے ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر پہنچ جاتی ہیں ۔ فوری ترسیل کے اس عمل کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس اطلاعاتی تکنیک کو ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر نے فروغ دیا۔ یعنی خبر جو پہلے کان کے پردے سے دماغ تک پہنچتی تھی اب اسکرین پر نظر آنے لگی ۔ انسانی ذہن نے اسی پر اکتفانہیں کیا بلکہ ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر کے اسکرین کو ایسے پر عطا کیے کہ دنوں کا فاصلہ لمحوں میں طے ہونے لگا ۔ تیز رفتاری اور بروقت عملِ ترسیل نے دنیا کو ایک عالمی گاؤں (Global Village) بنا دیا ہے۔
(1) ٹیلی ویژن(Television)
دنیا میں چند ہی لوگ ایسے ہوں گے جو ٹیلی ویژن سے واقف نہ ہوں ۔ دن بھر میں ان گنت بار یہ نام زبان پر آتا ہے۔ ٹیلی اور ویژن دو الگ الگ زبانوں کے لفظ ہیں۔ ٹیلی (Tele) یونانی لفظ ہےجس کے معنی ہیں فاصلے سے یا دور سے ۔ ’ویژن‘ لا طینی زبان سے لیا گیا ہے اس کے معنی ہیں دیکھنا یا نظر آنا ۔ اس طرح ٹیلی ویژن کے مجموعی معنی ہوئے دور یا فا صلے سے دیکھنا یا نظر آ نا۔ عام آدمی کے لیے سنیما بڑا پرده (Big Screen) ہے اور ٹیلی ویژن چھوٹا پردہ (Small Screen) ہے لیکن ٹیلی ویژن کا یہ چھوٹا پردہ سنیما کے مقابلے میں زیادہ مؤثر اور مفید ہے۔ سنیما کی دنیا محدود ہے اور ٹیلی ویژن کی لامحدود سنیما ہال میں مقررہ وقت میں ایک ہی فلم دن کے مختلف حصوں میں دیکھ سکتے ہیں جبکہ ٹیلی ویژن کے ان گنت چینلوں میں ریموٹ کا بٹن دباتے ہی چینل بدل جاتا ہے۔ اسی طرح چینل بدل بدل کرتفریحی سیریز مختلف موضوعات پر ترتیب دیئے گئے پروگرام یا خبریں 24 گھنٹے دیکھ سکتے ہیں ۔ تکنیک کے اعتبار سے ٹیلی ویژن ، ریڈ یوکی ایسی ترقی یافتہ شکل ہے جسے ہم سنتے ہی نہیں دیکھ بھی سکتے ہیں ۔ ٹیلی ویژن آج کل زندگی کی ضرورت بن گیا ہے۔ اس کے متعدد چینلس خبروں اور معلومات سے بھر پور پروگرام پیش کرتے ہیں لیکن ایسے چینلس جوصرف سیریلس اور تفریحی پروگرام پیش کرتے ہیں اس کے افادی پہلو پر غالب آ گئے ہیں۔

(ii) کمپیوٹر (Computer)
اگلے وقتوں کی کہانیوں میں ایک کہانی الہ دین اور جادوئی چراغ ہے۔ الہ دین جب جب اس چراغ کو رگڑتاتو ایک جن برآمد ہوتا اور کہتا کیا حکم ہے میرے آقا.... .بیسویں صدی کی ایجاد کمپیوٹر بھی ایک جن کی طرح ہے جو ہر وقت انسانی احکام کا تابع نظر آتا ہے۔ کمپیوٹر ایسا مشینی آلہ ہے جو عقل سے عاری ہے مگرعمل میں ہزاروں جنوں پر بھاری ہے ۔ کمپیوٹرالیکٹرانکس کی دین ہے جس نے ہماری زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے۔ کمپیوٹر کا بنیادی مقصد ہرطرح کی معلومات کویکجا کرنا اور انھیں ترتیب دینا ہے۔
لاطینی زبان کا ایک لفظ کمپیوٹیئز ہے جس کے معنی ہیں اعداد و شمار (Data) کا حساب کتاب کرنا۔ یہی لا طینی لفظ اب کمپیوٹر کی شکل میں اس الیکٹرونک ایجاد کا نام ہے۔

(ii) انٹرنیٹ (Internet)
انٹرنیٹ کمپیوٹر کے کسی ایک عمل یا طریقہ کار کا نام ہے۔ انٹرنیٹ کا تعلق ایک سے زائد کمپیوٹروں سے ہے۔ جب ایک کمپیوٹر کو کسی دوسرے کمپیوٹر سے جوڑا جاتا ہے تو دونوں ایک دوسرے کی معلومات، اعداد وشمار اور پروگرام کی فائلیں ایک سے دوسرے میں منتقل کر سکتے ہیں ۔ اسی طرح دو سے تین اور تین سے چار اور ان گنت کمپیوٹروں سے رابطے کا عمل نیٹ ورک کہلاتا ہے۔ نیٹ ورک چھوٹے پیمانے پرایک دفتر یا ایک ادارے میں ہوسکتا ہے اسے لوکل ایریا نیٹ ورک کہتے ہیں۔ لیکن جب اسی نیٹ ورک کو وسیع پیمانے پر اس طرح استعمال کیا جا تا ہے کہ پوری دنیا کے کمپیوٹر باہم مربوط ہوجائیں تو یہ طریقہ کار ”وائڈ ایریا نیٹ ورک‘‘ کہلاتا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ انٹرنیٹ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے نیٹ ورکس (Networks) کا نیٹ ورک (Network) ہے جس کے ذریعے پوری دنیا میں کمپیوٹر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ۔ اس عالمی انٹرنیٹ کو انفارمیشن سپر ہائی وے یعنی معلومات کی شاہراہ کا نام دیا گیا ہے۔
انٹرنیٹ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ گھر بیٹھے دنیا بھر کی معلومات کم وقت اور کم خرچ میں حاصل ہوسکتی ہیں ۔ اپنے کمپیوٹر نیٹ ورک کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلے ہوۓ عزیز و اقارب سے بات چیت کر سکتے ہیں۔ تعلیم ، کاروبار، صحت اور بیماری سے متعلق مشورے دستیاب ہو سکتے ہیں۔ سفر اورطریقه سفر کے لیے انٹرنیٹ ایک رہبر کا کام انجام دیتا ہے۔ انٹرنیٹ کے وسیلے سے آپ دنیابھر سے نجی یا تجارتی اشیا کا آرڈر دے کر انھیں گھر بیٹھے حاصل کر سکتے ہیں ۔ دنیا بھر کے اخبارات اور رسالوں کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔
درحقیقت انٹرنیٹ نے دنیا کے مختلف حصوں میں رہنے والے افراد کو ایک چھوٹی عالمی برادری میں بدل دیا ہے۔ اب ایک جیسی دلچسپی رکھنے والے انٹرنیٹ کے توسط سے بآسانی یکساں دلچسپی رکھنے والوں سے رابطہ قائم کر سکتے ہیں۔

(iv) ای - میل (Electronic Mail)
ای۔ میل الیکٹرانک میل کا مختصر نام ہے۔ اس سے مراد ہے برقی تاروں کے ذریعے پیغام رسانی ۔ آپ دنیا کے کسی بھی حصے میں پیغام یا اطلاع بھیجنے کے لیے ڈاک، تار یا ٹیلی فون کا استعمال کرتے ہیں ۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے اس پیغام رسانی کے کام کو آسان اور تیزرفتار بنادیا ہے۔ آپ کے پاس کوئی بھی کمپیوٹر ہو اور وہ نیٹ ورک سے جڑا ہو تو آپ اپنا پیغام، اطلاع یا خبر کمپوز کریں۔ جب آپ کمپیوٹر کے ذریعے ای میل بھیجتے ہیں تو یہ براہ راست نہیں پہنچتا بلکہ آپ کا پیغام پہنچنے کے لیے متعلقہ شخص اور اس کے ای میل کا پتہ کمپوز کیا جا تا ہے۔ آپ نے کسی ای میل میں اس طرح دیکھا ہوگا۔ جیسے abc@ gel . net . in یہاںabc اس شخص یا ادارے کا نام ہے جسے ای میل بھیجا گیا ہے یا علامت ہے ای میل کی "gel وہ ادارہ ہے جوای میل انٹرنیٹ سروس فراہم کر رہا ہے۔ اس کے بعد اس ملک کا مختصر نام جہاں پیغام بھیجا جارہا ہے۔ مثلا انڈیا کے لیے in ۔ای میل نہ تو ڈاک ہے نہ ہی ٹیلی فون کال ۔ یہ ایک نیا مواصلاتی نظام ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ڈاک کے خطوں کے مقابلے میں انتہائی تیز رفتار اور سستا ہے۔ اس کے لیے پوسٹ مین کی آم دیا ٹیلی فون کی گھنٹی بجانے کا انتظارنہیں کرنا ہوتا ۔ خط کھول کر کسی دوسرے شخص کے پڑھنے یا ڈاک کی گڑ بڑ یا دوسرے شخص کا فون سننے کا خدشہ بھی نہیں ہوتا ۔ آپ جسے ای میل بھیج رہے ہیں وہ اپنے کمپیوٹر پر کسی بھی وقت ای - میل کھول کر پڑھ سکتا ہے اور اسی طرح اگلے لمحے جواب دے سکتا ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی بنیادی طور پر کپیوٹر کی دین ہے۔ کمپیوٹر، جس کے متعلق کسی نے کہا تھا کہ اکیسویں صدی میں کمپیوٹر سے جولوگ دور رہیں گے ان کا شمار جاہلوں میں ہوگا ۔
خلاصہ:
اس مضمون  کی ابتدا میں انسان کے ارتقا کی کہانی بیان کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ انسان نے کس طرح ترقی کے منازل   طے کیے۔مضمون میں قدیم  دور کے انسان کی زندگی پر روشنی ڈالی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ کس قدرکم باتیں جانتا تھا۔ اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ جس قدر کم باتیں جانتا ہے وہ اتنا ہی مزے میں ہے۔پھر ایجادات کا سلسلہ شروع ہوا اور پہیے کی ایجاد نے ایک انقلاب برپا کیا۔ پہیے کی بدولت مشینیں ایجاد ہوئیں ۔ پھر بجلی سامنے آئی تو مشینیں ہاتھ کے بجائے بجلی سے چلنے لگیں۔ اخبار رسالے اور کتابیں شائع ہونے لگیں اور اس طرح ایک خطے کا انسان زمین کے دوسرے خطے پر رہنے والے افراد سے واقف ہونے لگا۔ ان ایجادات نے انسان کو مزید غور وفکر اور خوب سے خوب ترکی تلاش پر آمادہ کیا۔یہ ایجادات موجودہ مواصلاتی نظام کی پہلی سیڑھی ہیں ۔
19 ویں صدی میں صنعتی انقلاب کے بعد سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعہ سائنس دانوں نے ایسے آلات ایجاد کئےجوکم وقت میں زیادہ سے زیادہ کام انجام دینے لگے۔ مثلاً تیز رفتار ریل گاڑیاں کار یں ، جہاز، راکٹ خلائی مہمات میں کام آنے والے جہاز اطلاعات فراہم کرنے والے ٹیلی گراف اور ٹیلی فون وغیرہ۔
20 ویں صدی میں ر یڈیو ٹیلی ویژن اور اورکمپیوٹر نے کائنات سے متعلق انسانی معلومات میں اضافہ کیا۔ ٹیلی ویژن تفریح کا نیا ذریعہ بن گیا۔خاص طور پر کمپیوٹر نے سوچنے کا ڈھنگ بدل دیا۔ کمپیوٹر کی ایجاد نے انسانی زندگی میں ایک انقلاب پیدا کردیا۔اورانٹرنیٹ نے اس دنیا  کوایک گلوبل گاوٰں میں تبدیل کردیا ہے۔لوگ ایک دوسرے سے قریب آگئے ہیں  ۔یہ صحیح ہے کہ کمپیوٹر انسان کی طرح سوچنے اور غور کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا لیکن انسان سے کہیں تیز رفتاری سے اپنا کام انجام دیتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک درمیانے سائز کا کمپیوٹر ایک سیکنڈ میں تقریباً ایک ملین احکامات پرعمل کرسکتا ہے۔ جبکہ اسی کام کو کرنے میں انسان کو پورا ایک سال چاہیے اور وہ بھی  تب جب وہ دن رات اسی کام میں مصروف رہے ۔کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور ای میل کے سہارے آج ہمارا کام اور بھی زیادہ آسان ہو گیا ہے۔کہا جاسکتا ہے کہ انفارمیشن ٹکنالوجی نے ہماری زندگی کو تیزرفتار،دلچسپ، کارآمد اور آسان بنا دیا ہے۔
Information Technology  Chapter 8 NCERT Solutions Urdu
مشق
لفظ ومعنی:
تجسس : کھوج، جاننے کی خواہش
سانحہ : صدمہ پہنچانے والا واقعہ، حادثہ
لاعلمی : بے خبری کسی بات کا نہ جاننا
وسیلہ : ذریعہ ، واسطہ، سبب
فراہم کرنا : اکٹھا کرنا
موجد : ایجاد کرنے والا
گراں قدر : انتہائی قیمتی
مربوط : باہم تعلق رکھنے والا ( تحریر، خیال، بیان، چیزیں، جن میں آپسی تعلق ہو)
نظام : انتظام، بندوبست
مواصلات : ایک جگہ سے دوسری جگہ خبریں یا اطلاعات پہنچانا یا لے جانے کے ذرائع
اشتراک : ساجھا، حصہ داری
احكام : حکم کی جمع
طابع : ماتحت، فرماں بردار مطيع
عاری : خالی ، یعنی کسی چیز کے نہ ہونے کی حالت
سازگار : موافق ، مناسب، موزوں
نکات : نکتہ کی جمع، باریک باتیں
نجی : ذاتی
غور کرنے کی بات
* اس مضمون کی ابتدا میں قدیم دور کے انسان کی زندگی پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ آج کے انسان کے مقابلے میں وہ کس قدر کم باتیں جانتا تھا۔ پہیے کی ایجاد نے ایک انقلاب برپا کیا۔ پہیے کی بدولت مشینیں ایجاد ہوئیں ۔ پھر بجلی سامنے آئی تو مشینیں ہاتھ کے بجائے بجلی سے چلنے گئیں۔ اخبار، رسالے اور کتابیں شائع ہونے لگیں اور اس طرح ایک خطہ کا انسان زمین
کے دوسرے خطے پر رہنے والے افراد سے واقف ہونے لگا۔ ان ایجادات نے انسان کو مزید غور وفکر اور خوب سے خوب تر کی تلاش پر آمادہ کیا ۔ یہ ایجادات موجودہ مواصلاتی نظام کی پہلی سیڑھی ہیں۔ . انیسویں صدی میں صنعتی انقلاب کے بعد سائنس اور ٹکنالوجی کے ذریعے سائنس دانوں نے ایسے آلات ایجاد کیے جو کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کام انجام دینے لگے ۔ مثلا تیز رفتار ریل گاڑیاں، کاریں، جہاز، راکٹ، خلائی مہمات میں کام آنے والے جہاز ، اطلاعات فراہم کرنے والے ٹیلی گراف ٹیلی فون وغیرہ۔ بیسویں صدی میں ریڈیو، ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر نے کائنات سے متعلق انسانی معلومات میں اضافہ کیا ۔ خاص طور پر کپیوٹر نے سوچنے کا ڈھنگ بدل دیا۔ یہ صحیح ہے کہ کمپیوٹر انسان کی طرح سوچنے اور غور کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا لیکن انسان سے کہیں زیادہ تیز رفتاری سے اپنا کام انجام دیتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک درمیانے سائز کا کمپیوٹر ایک سیکنڈ میں تقریباًایک ملین احکامات پر عمل کر سکتا ہے جبکہ اسی کام کو کرنے میں ایک انسان کو پورا ایک سال چاہیے۔ اور وہ بھی دن رات اسی کام میں مصروف رہے تب۔

سوالوں کے جواب لکھیے:
1. ابتدائی دور کے انسان کی زندگی کیسی تھی؟

2. آج کے عہد کو انفارمیشن ٹیکنا لو جی کی صدی کیوں کہا گیا ہے؟

3. ہماری زندگی میں ٹیلی ویژن کی کیا اہمیت ہے؟

4 کمپیوٹر نے ہماری زندگی کے ہر شعبہ کس طرح متاثر کیا ہے۔ تفصیل سے لکھیے۔

5. انٹرنیٹ کے کیا فائدے ہیں؟

6. ای - میل سے کیا مراد ہے؟

عملی کام
*  انٹرنیٹ کی مدد سے اردو شاعروں اورادیبوں کے بارے میں معلومات حاصل کیجیے۔
*  انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کے بارے میں مختصر نوٹ لکھیے۔

کلک برائے دیگر اسباق

Jeene Ka Saleeqa - NCERT Solutions Class 9 Urdu

Jeene ka saleeqa by Khwaja Ghulam Saiyidain  Chapter 7 NCERT Solutions Urdu
جینے کا سلیقہ
خواجہ غلام السیدین

میں ایسے مشاہیر کی صحبت میں بیٹھا ہوں جن کی گفتگو میں وولوچ ، دل آویزی اور سلیقہ ہوتا تھا کہ وہاں سے اٹھنے کو دل نہ چاہے مثلا سرتیج بہادر سپرو، سروجنی نائیڈو مولانا آزاد، سید راس مسعودی ڈاکٹر اقبال، ڈاکٹر ذاکر حسین ، یعنی یہ کیفیت کہ: وہ ہیں اور نا کرے کوئی اس کشش کی و جت یہ تھی کہ وہ زبان پر قدرت رکھتے تھے یا رکھتے ہیں بلکہ ان کا دماغ روشن اور مرتب تھا۔ انھیں دراصل کچھ ہوا ہوتا تھا۔ ان کی سیرت ان کے تجربوں سے مالامال تھی۔ وہ اپنے گنے والوں میں بھی رکھتے تھے۔ میں اپنی زندگی اور تجربوں میں شریک کرنا چاہتے
تھے۔ اور جمہوریت کے اس زمانے میں جب زبان سے ترغیب اور تبادلہ خیال کا زیادہ سے زیادہ کام لیا جاتا ہے، اپنی گفتگو نہ صرف ایک سا ہی بہتر ہے بلکہ ایک سیاسی ہتھیار بھی ہے، جس کا میچ استعمال سیکھنا ضروری ہے۔
اچھے لوگوں اور اچھی کتابوں کی صحبت کے علاوہ تیسری چیز جو اپنی زندگی کی بنیاد ہے، وہ کام ہے ۔ اس سے متعلق ہمارے صدرت مذاکرحسین نے اپنے ایک خطبے میں لکھا ہے کہ ”کام ہے مقصد نہیں ہوتا۔ کام کچھ کر کے وقت کاٹ دینے کا نام نہیں، کام خالی دل گئی ہیں، کا کھیل نہیں، کام کام ہے۔ بامقصد محنت ہے۔ کام دشمن کی طرح آپ اپنا محاسبہ کرتا ہے اور اس میں جو پورا تر تا ہے تو وہ خوشی دیتا ہے جو اور کہیں نہیں ملتی ۔ کام ریاضت ہے، کام عبادت ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان کی شخصیت اس وقت تک کسی حسین سانچے میں نہیں ڈال سکتی، جب تک اس کے دل  میں اس انداز سے کام کرنے کی لگن پیدا نہ ہو حقیر سے فقیر کام میں معنی اور لطف پیدا ہوسکتا ہے۔ بشرطیکہ کام کرنے والا اس کا رشتہ بڑے مقصد کے ساتھ قائم کرے۔ دومزدور ایک پہاڑ پر تھر توڑ رہے تھے۔ ایک راہ گیر نے پہلے سے پوچھا تم کیا کر رہے ہو؟ اس نے جل کر جواب دیا۔
دیکھتے ہیں ہو، اپنی قسمت کے لکھے پھر چھوڑ رہا ہوں ۔ ذرا اور آگے بڑھ کر اس نے دوسرے مزدور سے بھی یہی سوال کیا تو اس نے بہت فخر اور خوشی کے ساتھ جواب دیا۔ میں ایک گرجا کی تعمیر کر رہا ہوں ۔ دیکھا آپ نے ؟ پتھر وہی تھے لیکن ایک مزدوران سے اپنی قسمت پھوڑ رہا تھا، اور دوسرا ایک عبادت گاہ بنانے کا خواب دیکھ رہا تھا۔ ہمارے
ملک میں نہ صرف طالبہ بلکہ سب لوگوں کو کام کرنے کے آداب سکھانے کی ضرورت ہے۔ کسی کام کو سرسری انداز میں کرنا گویاسرسے ایک ناگوار بو جھ اتارتا ہے، نہ اس میں خوشی تلاش کرنا، نہ پانا، نہ اس حسین تشکیل میں فخر محسوس کرنا، نہ اس کے ذریعے اپنی دنیا کو جھنا اور اپنے ہم جنسوں کے دکھ سکھ میں شریک ہونا ۔ بیسب نہ تو ذہنی دیانت کا تقاضا ہے، نہ اخلاق کا۔ زندگی خدا کا ایک انمول عطیہ ہے اور وہ تمام صلاحیتیں اور ہنر مند ہیں اور جوہر، جو اس کے ساتھ قدرت ہمارے کیسے میں ڈالتی ہے ان کی قیمت انسان صرف کام کے ذریعے اور کام کے لئے میں ادا کرسکتا ہے۔ جو شخص اس قیمت کو خوش دلی اور ایمانداری کے ساتھ ادا نہیں کرتا، اس کی حیثیت میرے نزدیک ایک چور کی ہے وہ خود کا چور ہے، سماج کا چور اور خدا کا چور ہے۔
لیکن جانے کا سلیقہ صرف بڑے بڑے اصولوں کی پابندی پرہی شخص نہیں ۔ اس میں بہت کی چھوٹی چیز میں بھی ہیں ۔ ایک معمولی انسان کی زندگی کا ہر یہ اسی پر بس نہیں ہوتا جہاں ہر قدم پر منصور کی طرح بات کہنے کی ضرورت ہے۔ اس میں اس سے بھی زیادہ اہمیت ہے۔ ایسی بظاہر معمولی صفات کی جو انسانی رشتوں میں خوشگواری پیدا کرتی ہیں ۔ یہ کون سی صفات ہیں؟ آپس کے میل جول میں دوستی اور مہربانی، معاملات میں انصاف ، سچائی اور بھروسا مل جل کر کام کرنا، دوسروں کے حقوق کی پاسداری اور ان کی رائے کا احترام ، خوش مزاجی اور ظرافت اور خواہ واہ کی دل شکنی اور بدگوئی سے پر ہیز ۔ میرا خیال ہے کہ ہماری آئے دن کی زندگی میں بہت سے نفسیاتی دکھ اور محرومیاں اس وجہ سے پیدا ہوتی ہیں کہ ہم اپنے دوستوں، عزیزوں اور ہم جنسوں سے مهربانی ، فیاضی اور ہمدردی کا سلوک نہیں کرتے ۔ ان کے بارے میں دوسرے لوگوں کے سامنے غیر ذمے داری کے ساتھ ایسی بات چیت کرتے ہیں جس سے ان کی نیک نامی پر برا اثر پڑتا ہے۔ بخش تفرین اور گرمی محفل کی خاطر این گفتگو میں شامل ہو جاتے ہیں ۔ دوسروں کی برائی کو بغیر جانچ پڑتال کے آسانی سے مان لیتے ہیں، ان کو شہ کا فائدہ بھی نہیں دیتے بلکہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ بے قصور ہیں، ہم جرات سے کام لے کر ان کے حق میں کلمہ خیر نہیں کہتے لیکن دراصل لوگوں کے بارے میں حسن ظن رکھنا اور ان کی اچھی باتوں کی تلاش اور قدر کرنا اس سے کہیں بہتر ہے کہ ہم ان کی طرف سے بدن پر ہیں اور ان کی عیب جوئی کرتے رہیں ۔ یا ہے ۔ بعض دفعہ انسان ہرکسی کو شریف اور قابل اعتماد جھ کر نقصان اٹھاتا ہے لیکن اخلاقی اور سابی اعتبار سے نقصان بہت کم ہے اور اس کے مقابلے میں دلتنگی ، بد بینی اور شے کی ذہنیت سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ جو اس تم کی طبیعت اور دل و دماغ رکھتا ہے، وہ عمر بھر کے لیے ایک روگ خرید لیتا ہے، نہ خودخوش رہ سکتا ہے، نہ دوسروں کو خوش رکھتا ہے۔ برخلاف اس کے خوش مزاجی روز مرہ کی زندگی اور رشتوں میں لطف اور شہر میں پیدا کرتی ہے اوری ختم کی ظرافت بہت ہی ناگواریوں کا علاج ہے۔ وہ ظرافت
جس کا مقصد دل کھانا نہ ہو، جو دل سوزی اور ہمدردی کے ساتھ حماقتوں پر نہ کرے لیکن کسی کی ذاتی تحقیر نہ کرے، جو دوسروں سے زیادہ خود اپنی حماقتوں کا خاکہ اڑائے اور اپنے بارے میں دوسروں کی ظرافت کو جھیل سکے۔ جو شخص خود کو بہت اہم سمجھتا ہے، اپنی شان میں گستاخی نہیں کرسکتا، اپنے کو تنقید سے بلند اور دوسروں کو اپنے سے کمتر جانتا ہے، جس کی طبیعت میں ضبط ہیں، جس کا مزاج آسانی سے بھڑ ک اٹھتا ہے، جو اپنی دولت یا خاندان یا منصب کو نہ بھول سکے ، خودبھی ان سے مرعوب رہے اور دوسروں پر بھی ان کا رعب ڈالنا چاہے، وہ جینے کے سلیقے سے بالکل نا آشنا ہے۔ اگر ہماری تعلیم خود پسندی اور خود پرستی کے ان بتوں کو نہ توڑنے اور لوگوں کو خود پرستی کے ساتھ احتساب کرنا اور دوسروں کے ساتھ مجھے داری اور نرمی کے ساتھ پیش آنا نہ کھائے تو وہ زندگی کے لیے تیار نہیں کرسکتی۔ یہ انکسار اور خود شناسی کی صفت بھی زندگی کے گونا گوں نقشے میں ایک لطیف رنگ بھرتی ہے۔ بات صرف اتنی ہی نہیں کہ اخلاقی اعتبار سے ایک کھلا دل ، ایک فیاض طبیعت ، تنگ دلی سے بہتر ہے، بلکہ دوسرے لوگ جو سلوک ہم سے کرتے ہیں، وہ بھی بڑی حد تک اس سلوک پر مختصر ہے جو ہم ان کے ساتھ کرتے ہیں۔ اگر ہم ان کے ساتھ دوستی، نیک نیتی اور بھروسے کے ساتھ پیش آئیں تو توقع ہوسکتی ہے کہ ان کا رویہ بھی ہمارے ساتھ دوستانہ ہو لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شخص جو میرے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے، وہ دوسروں کے ساتھ بدسلوکی کرے ۔ اگر وہ اس کے ساتھ شرافت سے پیش نہ آئیں ۔ لیکن لوگ صرف سفید و سیاہ رنگ میں رائے نہیں ہوتے کہ سب کے ساتھ اچھے ثابت ہوں گے یا برے۔ دراصل دوسروں کی فطرت کی خوبیوں کو اجاگر کرنا ایک حد تک خود ہمارے اختیار میں ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی یادر ہے کہ یک طرفہ نیکی کرنے میں بڑی برکت ہے خواہ لوگ اس بات کوما میں بانه ما نیں ، نیکی میں بی صلاحیت ہے کہ وہ اکثر بدی کے ہتھیار رکھوا لیتی ہے۔ اگر ہم میں اتنی اخلاقی جرات ہے کہ جس بات کو نیک اور پچ سمجھتے ہیں، وہی کر یں اور اس کی زیاد فکر نہ کریں کہ دوسرے کیا کرتے ہیں، تو ہم وایر ے والیبرے اپنے مخالفوں کے دل کو جیت سکتے ہیں۔ نیکی بھی بدی کی طرح متعدی ہے، اس کا اثر دور دور تک پھیلتا ہے۔ اگر ہم روز مر د کے چھوٹے چھوٹے کاموں میں چھوٹی چھوٹی باتوں میں نیکی اور پائی
سے کام لیں تو وہ آہستہ آہستہ ہماری ساری زندگی کے کاروبار میں راہ پا جاتی ہے اور جب بھی کوئی ایسی نازک صورت حال پیش آتی ہے جہاں میں خیر و شر کی ازلی جنگ میں حصہ لینا پڑتا ہے اور اپنی تقدس کو بنانے یا بگاڑنے والے فیصلے کرنے ہوں تو عمر بھر کی یہ عادتیں اور رجحان ہمارے کام آتے ہیں ۔ اس طرح زندگی کے چھوٹے اور بڑے کاموں میں ایک نفسیاتی رشتہ قائم ہو جا تا ہے اور بقول پیغمبر اسلام کے ساری دنیا ایک مسجد بن جاتی ہے، جہاں انسان ہر کام اس انداز سے کرتا
ہے گویا وہ اپنے بنانے والے کے سامنے کھڑا عبادت کر رہا ہے۔ بہت مشکل ہے ایسی کیفیت پیدا کرنا اپنے دل و دماغ میں ، لیکن یہ سب نہ ہوں کی مشترک تعلیم ہے اور بہت سے مردان خدانے بلکہ بہت سے نیک اور گمنام لوگوں نے بھی اس شان کے ساتھ زندگی گزاری ہے۔ اور پھر کیسی قوت پیدا ہو جاتی ہے ایسے لوگوں میں کہ موت بھی نھیں زی نہیں کرسکتی۔ ایک نظر سے دیکھے تو انسان کی زندگی ایک ٹمٹماتے چراغ کی طرح ہے، جو چندیوں کے لیے روشن ہوتا ہے اور پھر موت
کی ایک ہلکی سی پھونک سے بجھا دیتی ہے لیکن جب کوئی انسان اپنی زندگی کو بڑے مقاصد کے ساتھ وابستہ کر لیتا ہے اور ان کی قدروں کا حامل بن جاتا ہے اور انھیں روز مرہ کی زندگی میں برتا ہے، تو کوئی آندھی اس چراغ کونہیں بجھا سکتی ۔ موت اس کے جسم کو فنا کر دیتی ہے لیکن اس کے دماغ کی جولانی، اس کے دل کا گداز، اس کی روح کی بلندی، اس کے مقصد کی تابانی قائم رہتی ہے اور تھکے ماندے، راستے سے بھٹکے مسافروں کی ہمت بڑھاتی ہے۔ اس قسم کے چراغ جلانا ہر انسان کا فرض ہے اور چراغ کا کمال یہ ہے کہ خواہ کتنا ہی چھوٹا ہو ساری دنیا کا اند میرا بھی اسے نہیں بجھا سکتا۔ لیکن انسان کی شخصیت کو صرف فکر کی روشنی اور کام کی تپسیانی تا جمیل نہیں بناتی۔ اس کو جذبات کی دولت بھی ملی ہے جن کی میں تربیت کے بغیر اس کی تکمیل ممکن نہیں ہے۔ اس مقصد کے لیے اس کی حسن شناسی اور سن آفرینی کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا اور اس میں ذوق جمال کی شمع جلانا ضروری ہے۔ خوبصورتی سے لطف اٹھانے کی صلاحیت قدرت کی ایک انمول دین ہے، جو زندگی میں مسرت کا رنگ بھرتی ہے اور اس کو طرح طرح سے مالا مال کرتی ہے، خواہ وہ خوبصورتی عالم فطرت میں پائی جائے یا انسانوں کے خدوخال میں، اعلم اورحق کی تلاش میں یا آرٹ اور دستکاری کی تخلیق میں۔
خلاصہ:
”جینے کا سلیقہ“ میں مضمون نگار نے ابتداء میں ان مشاہیر کا ذکر کیا ہے جن کی صحبت میں وہ بیٹھے۔ ان شخصیتوں میں سرتیج بہادر سپرو ، سروجنی نائیڈرو۔ مولانا آزاد، راس مسعود، ڈاکٹر اقبال اور ذاکر حسین ہیں ، مذکورہ لوگوں کی گفتگو میں وہ لوچ دل آویزی اور سلیقہ تھا جن سے زندگی بنتی ہے۔ ان کی گفتگو کو انہوں نے نہ صرف سماجی گردانا ہے بلکہ ایک کامیاب سیاسی ہتھیاری مانتے ہیں لہذااسے سیکھنے پر زور دیتے ہیں ۔ اس کے بعد وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ اچھی کتابوں کے علاوہ بھی اچھی زندگی کی بنیاد ہے اور وہ شئے وہ کام ۔ کام سے متعلق انہوں نے ڈاکٹر ذاکر حسین کا ایک قول نقل کیا ہے۔ جس میں بہت کچھ کے علاوہ یہ بھی کہا گیا ہے "کام ریاضت ہے۔ کام عبادت ہے۔ اور واقعہ بھی یہی ہے کہ انسان کی شخصیت اس وقت تک کسی سانچے میں نہیں ڈھل سکتی، جب تک اس کے دل میں اس انداز سے کام کرنے کی لگن پیدا نہ ہو۔ چھوٹے اور معمولی کام میں بھی اور لطف پیدا ہوسکتا ہے ۔ بشرطیکہ کام کرنے والا اس کا رشتہ بڑے مقصد کے ساتھ قائم کرے ۔ خواجہ صاحب نے مضمون میں تعلیم کا مقصد بتاتے ہوئے کہا ہے کہ اسے خود پرستی کے ساتھ احساس کرنا اور دوسروں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرنا سکھانا چاہئے ۔ پھر حق و باطل کی ازلی اور ابدی کشاکش کا ذکر ہے اور دوسروں کے دل پر حکمرانی کی بات کہی ہے۔ اچھی قدروں کی پیروی اور صحیح تربیت کو زندگی کا لازمی جز قرار دیا ہے۔ زندگی میں حسن اور خوبصورتی کی بات کہتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ خوبصورتی سے لطف اٹھانے کی صلاحیت قدرت کی ایک انمول دین ہے۔ جو زندگی میں خوشی کا رنگ بھرتی ہے اور اس کو اس طرح سے مالا مال کرتی ہے، خواہ وہ خوبصورتی عالم فطرت میں ہو یا انسانوں کے خدوخال میں ۔ یا علم اور حق کی تلاش میں یا آرٹ اور دستکاری کی تخلیق میں ۔

Jeene ka saleeqa by Khwaja Ghulam Saiyidain  Chapter 7 NCERT Solutions Urdu
خواجہ غلام السیدین
(1904ء -1971 ء)
خواجہ غلام السیدین ہریانہ کے تاریخی قصے پانی پت میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد خواجہ غلام ثقلین علی گڑھ کا بچے کے نامور طالب علم تھے اور والدہ مشتاق فاطمہ حالی کی پوتی تھیں ۔ غلام السید ین کی ابتدائی اور ثانوی تعلیم پانی پت میں ہوئی ۔ کالج کی تعلیم کے لیے دو علی گڑھ گئے جہاں انھوں نے نبی ۔اے اور بی ۔ ایڈ کیا اور پھر اعلی تعلیم کے لیے انگلستان گئے۔ وہاں سے آ کر علی گڑھ میچرز ٹرینینگ کالج میں لیکچرر ہوئے اور پھر پیپل ہوگئے۔
خواجہ غلام السیدین ماہر تعلیم تھے ۔ انھوں نے آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد ہندوستان میں تعلیمی امور کے سلسلے میں کئی مقامات پرمختلف حیثیتوں سے کام کیا۔ انھوں نے گاندھی جی کی عملی تعلیم سے متعلق ڈاکٹر ذاکر حسین کے ساتھ خاکہ تیار کیا۔ غلام السیدین کو اردو زبان اور ادب سے بھی بہت محبت تھی۔ انھوں نے اردو میں تعلیم اور ادب سے تعلق کئی کتابیں لکھی ہیں۔ ان کی مشہور کتاب آندھی میں چراغ ہے جس پر انھیں ساہتیہ اکادمی کا نام بھی ملا۔ حکومت ہند نے ان کی علمی خدمات پر انھیں پدم بھوشن کے خطاب سے نوازا۔ انہیں دنیا کے سات ماہرین تعلیم میں شمار کیا جاتا تھا۔
خواجہ غلام السیدین کی نشر نہایت سادہ لیکن پر زور اور موثر ہوتی ہے۔ وہ اپنی بات کو بیان کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے الفاظ سے وہ کام لیتے ہیں جو بہت سے لوگ بڑے بڑے الفاظ سے بھی نہیں لے سکتے۔

لفظ ومعنی
مشاہیر : مشہور کی جمع، یعنی مشہور لوگ
دل آویزی : ول کو کھینچنے کی صفت
محاسبہ کرنا : حساب کرنا، جائزہ لینا
ریاضت : محنت، جدوجہد
کیسہ : تھیلی
حقیر : بے وقعت
تکمیل : مکمل کر نا مکمل ہونا
عطیہ : بخشش، انعام
منصور : ایک مشہور صوفی تھے ان کے خیالات کی وجہ سے سزائے موت دی گئی تھی (عربی) میں مطلق حق ہوں لیکن میں خدا ہوں
اناالحق : میں مطلق حق ہوں یعنی میں خدا ہوں
بدگوئی : برا کہنا
کلمہ : اچھی بات
حسن ظن : نیک خیال، اچھا خیال
اعتماد : یقین
تحقیر : کسیکو حقارت کی نظر سے دیکھنا، کم تر ٹھہرانا
منصب : عہدہ
گونا گوں : قسم قسم کے
اجاگر کرنا : روشن کرنا ، ظاہر کرنا
متعدی : کوئی چیز، مثلاً بیماری جو چھوت سے لگتی ہو
ازل : ہمیشگی

غور کرنے کی بات
جینے کا سلیقہ خواجہ غلام السیدین کا بہت اچھا مضمون ہے۔ اس میں مصنف نے یح معنوں میں زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھایا ہے۔ ان کے نزدیک زندگی گزارنے کے لیے جہاں ان لوگوں کی صحبت کی ضرورت ہوتی ہے وہاں کام کرنا بھی اچھی زندگی کے لیے بہت ضروری ہے۔ دنیا میں جتنے بھی بڑے لوگ گزرے ہیں اگر آپ ان کی زندگی کے حالات پڑھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہر بڑے انسان کے پیچھے اس کے اچھے کام ہیں جنھوں نے اس کے نام کو زندہ رکھا ہے لیکن بڑا آدمی بنانے کے لیے انسان کو بہت سی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔

سوالوں کے جواب لکھیے
1. ڈاکٹر ذاکر حسین نے کام کی کیا اہمیت بتائی ہے؟
جواب: ذاکر حسین کہتے ہیں کام کھیل نہیں ، کام کام ہے، بامقصد محنت ہے۔ کام دشمن کی طرح اپنا محاسبہ کرتا ہے اور اس میں جو پورا اترتا ہے وہ خوشی دیتا ہے جو اور کہیں نہیں ملتی۔ کام ریاضت ہے، کام عبادت ہے۔

2. تنگ دلی ، بد نیتی اور شبہے کی ذہنیت کس طرح گھاٹے کا سودا ہے؟
جواب: جو شخص تنگ دل ہوتا ہے اس کی نیت میں بھی فتور ہوتا ہے۔ وہ دوسروں کو بھی شبہ کی نظر سے دیکھتا ایسا شخص دوسروں کی نظروں میں گر جاتا ہے اور لوگ اسے اچھا نہیں سمجھتے ۔ یہی بات گھاٹے یعنی نقصان کا سودا ہے۔ جوشخص دوسروں کو اچھا کہتا ہے ان کی خوبیوں کو بیان کرتا ہے، اس شخص سے لوگ خوش ہوتے ہیں اسے اچھا کہتے ہیں، اس سے تعلقات قائم کرتے ہیں یہ فائدے کا سودا ہے-

3. مصنف کی نظر میں کیسے لوگ جینے کے سلیقے سے نا آشنا ہیں؟
جواب:جو لوگ خود کو بہت بہتر کہتے ہیں اور دوسروں کو کمتر اور حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اپنی دولت اور خاندانی منصب سے دوسروں پر رعب ڈالنا چاہتے ہیں وہی جینے کے سلیقے سے ناآشنا ہیں۔

4. اپنی گفتگو کے ذریعے ہم کس طرح کامیابی حاصل کر سکتے ہیں؟
جواب: اچھی گفتگو کرکے ہم دوسروں کہ دل کو جیت سکتے ہیں۔

5. مصنف نے اس مضمون میں کیا سمجھانے کی کوشش کی ہے بتلائیے ۔
جواب

عملی کام
”چراغ کا کمال یہ ہے کہ خواہ کتنا ہی چھوٹا ہو ساری دنیا کا اندھیرا اسے نہیں بجھا سکتا۔ اسی طرح کے چند جملے جو آپ کو اچھے لگے ہوں انھیں اپنی کاپی میں لکھے اور زبانی یاد کیجیے۔ اس مضمون میں ایک جگہ دو لفظ آئے ہیں بامقصد اور بے مقصد ان الفاظ میں صرف بنے اور باہ کے استعمال سے لفظ کے معنی ہی بدل گئے ہیں یعنی با مقصد جس کا کوئی مقصد ہو اور
بے مقصد جس کا کوئی مقصد نہ ہو۔ آپ بھی ایسے چند الفاظ تھے جن میں ہے اور یا کا استعمال کیا گیا ہو۔
مصنف اپنی بات میں زور اور اثر پیدا کرنے کے لیے بھی بھی تاریخی واقعات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس مضمون میں بھی مصنف نے ایک صوفی حضرت منصور حلاج کی طرف اشارہ کیا ہے۔ انھوں نے ایک خاص کیفیت میں ان امت میں خدا ہوں) کہہ دیا تھا۔ لوگوں نے یہ سمجھا کہ وہ خدائی کا دعوی کررہے ہیں، جس کی وجہ سے بادشاہ وقت نے انھیں سزائے موت دی تھی۔ اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ مندرجہ ذیل تاریخی اشارات کے بارے میں اپنے استاد سےون کا خزانہ نمرود کی خدائی حسن يوسف
نیچے لکھے ہوئے الفاظ کو جملوں میں استعمال کیجیے:
لفظ : معنی : جملہ
تکمیل : مکمل کرنا : کام کی تکمیل تک آپ کہں نہیں جا سکتے۔
عطیہ : بخشش،انعام : اسکول کو ایک بڑے عطیہ کا انتظار تھا۔
منصب : عہدہ : ایک اونچے منصب پر پہنچنا سلیم کا خواب تھا۔
اعتماد : بھروسہ، یقین : سلیم کو اپنے فوجیوں پر اعتماد تھا۔

کلک برائے دیگر اسباق

Nazeer Ahmad Ki Kahani - NCERT Solutions Class 9 Urdu

Nazeer Ahmad ki kahani by Mirza Farhatullah Baig  Chapter 6 NCERT Solutions Urdu
(اس صفحہ پر ابھی کام جاری ہے)
نذیر احمد کی کہانی کچھ میری اور کچھ ان کی زبانی
مرزا فرحت اللہ بیگ

مولوی صاحب کا حلیہ سنیے :
رنگ سانولا مگر روکھا، قد خاصا اونچا۔ مگر چوڑان نے لمبان کو دبا دیا تھا دوہرا بدن گدرا ہی نہیں بلکہ موٹاپے کی طرف کسی قدر مائل ۔ فرماتے تھے کہ بچپن میں کسی قدر ورزش کا شوق تھا۔ ورزش چھوڑ دینے سے بدن جس طرح مرمروں کا تھیلا ہو جاتا ہے بس یہی کیفیت تھی۔ بھاری بدن کی وجہ سے چونکہ قد ٹھگنا معلوم ہونے لگا تھا اس لیے اس کا تکمله اونچی تر کی ٹوپی سے کر دیا جاتا تھا۔ کمر کا پھیر ضرورت سے زیادہ۔ توند اس قدر بڑھ گئی تھی کہ کمر میں ازار بند باندھنے کی ضرورت ہی نہیں بلکہ تکلیف دہ سمجھا جاتا تھا اورمحض ایک گرہ کو کافی خیال کیا جاتا تھا۔ گرمیوں میں تہمد (تہ بند) باندھتے تھے۔ اس کے پلو اڑسنے کے بجائے ادھر ادھر ڈال لیتے تھے مگر اٹھتے وقت بہت احتیاط کرتے تھے۔ اول تو قطب بنے بیٹھے رہتے تھے۔ اگر اٹھنا ہوا تو پہلے اندازہ کرتے تھے کہ فی الحال اٹھنے کو ملتوی کیا جاسکتا ہے کہ نہیں ۔ ضرورت نے بہت ہی مجبور کیا تو ازار بند کی گرہ یا تہمد کے کونوں کے اڑ سنے کا دباؤ توند پر ڈالتے تھے۔ سر بہت بڑا تھا مگر بڑی حد تک اس کی صفائی کا انتظام قدرت نے اپنے اختیار میں رکھا تھا۔ جوتھوڑے رہے سہے بال تھے وہ اکثر نہایت احتیاط سے صاف کرادیے جاتے تھے ورنہ بالوں کی یہ کگر سفید مقیش کی صورت میں ٹوپی کے کناروں پر جھالر کا نمونہ ہو جاتی تھیں۔ آنکھیں چھوٹی چھوٹی ذرا اندر کو دھنسی ہوتی تھی۔ بھویں گھنی اور آنکھوں کے اوپرسایہ فگن تھیں۔ آنکھوں میں غضب کی چمک تھی وہ چمک نہیں جو غصہ کے وقت نمودار ہوتی ہے بلکہ یہ وہ چمک تھی جس میں شوخی اور ذہانت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ اگر میں ان کو’ مسکراتی ہوئی آنکھیں‘  کہوں تو بےجا نہ ہوگا کہ کلّہ جبڑا بڑا زبردست پایا تھا چونکہ دہانہ بھی بڑا تھا اور پیٹ کے محیط نے سانس کے لیے گنجائش بڑھادی تھی۔ اس لیے نہایت اونچی آواز میں بغیر کھینچے بہت کچھ کہہ جاتے تھے۔ آواز میں گرج تھی مگر لوچ کے ساتھ کوئی دور سے سنے تو یہ سمجھے کہ مولوی صاحب کسی کو ڈانٹ رہے ہیں لیکن پاس بیٹھنے والا ہنسی کے مارے لوٹ رہا ہو۔ جوش میں آ کر جب آواز بلند کرتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ ترم بج رہا ہے اس لیے بڑے بڑے جلسوں پر چھا جاتے تھے ناک کسی قدر چھوٹی تھی اور نتھنے بھاری ، اسی ناک کو گنواروں کی اصطلاح میں گاجر اور دلی والوں کی بول چال میں پھلکی کہا جاتا ہے۔ گو متانت چھو کر نہیں گئی تھی لیکن جسم کے بوجھ نے رفتار میں خود بہ خود متانت پیدا کر دی تھی ۔ داڑھی بہت چھدری تھی ایک ایک بال بآسانی گنا جا سکتا تھا داڑھی کی وضع قدرت نے خودفرنچ فیشن بنادی تھی۔
انھوں نے اپنے بارے میں بتایا لو بھئی ہم بہت غریب لوگ تھے نہ کھانے کو روٹی نہ پہننے کو کپڑا تعلیم کا شوق تھا اس لیے پھرتا پھراتا پنجابیوں کے کڑے کی مسجد میں آ کر ٹھہر گیا یہاں کے مولوی صاحب بڑے عالم تھے ان سے پڑھتا اور توکل پر گزارہ کرتا ۔ مولوی صاحب کے دو چار شاگرد اور بھی تھے انہیں بھی پڑھاتے اور مجھے بھی پڑھاتے دن رات پڑھنے کے سوا کچھ کام نہ تھا تھوڑے سے دنوں میں، میں نے کلام مجید پڑھ کر ادب پڑھنا شروع کیا چار برس میں معلقات پڑھنے لگا گو میری عمر بارہ سال کی تھی مگر قد چھوٹا ہونے کی وجہ سے نو دس برس کا معلوم ہوتا تھا۔ پڑھنے کے علاوہ میرا کام روٹیاں سمیٹنا تھا۔ صبح ہوئی اور میں چھڑی ہاتھ میں لے گھر گھر روٹیاں جمع کرنے نکلا کسی نے رات کی بچی ہوئی دال ہی دے دی کسی نے قیمہ کی لگدی ہی رکھ دی کسی نے دو تین سوکھی روٹیوں ہی پر ٹرخایا۔ غرض رنگ برنگ کا کھانا جمع ہو جاتا۔ مسجد کے پاس ہی عبدالخالق صاحب کا مکان تھا اچھے کھاتے پیتے آدمی تھے انھیں کے بیٹے ڈ پٹی عبدالحامد ہیں جو سامنے والے مکان میں رہتے ہیں ان کے ہاں میرا قدم رکھنا مشکل تھا ادھر میں نے دروازے میں قدم رکھا ادھر ان کی لڑکی نے ٹانگ لی جب تک سیر دو سیر مصالحہ مجھ سے نہ پسوالیتی نہ گھر سے نکلنے دیتی نہ روٹی کا ٹکڑا دیتی ۔ خدا جانے کہاں سے محلّہ بھر کا مصالحہ اٹھالا تی تھی پیستے پیستے ہاتھوں میں گٹّے پڑ گئے تھے جہاں میں نے ہاتھ روکا اور اس نے بٹّہ انگلیوں پر مارا بخداجان سی نکل جاتی تھی۔ میں نے مولوی صاحب سے کئی دفعہ شکایت بھی کی مگر انھوں نے ٹال دیا، خبر نہیں مجھ سے کیا دشمنی تھی تاکید کر دیا کرتے تھے کہ عبد الخالق صاحب کے مکان میں ضرور جانا بہرحال اس مارا دھاڑی سے روزانہ وہاں جانا پڑتا تھا اور روز یہی مصیبت جھیلنی پڑتی تھی۔ تم سمجھے بھی پہ لڑکی کون تھی میاں یہ لڑکی وہ تھی جو بعد میں ہماری بیگم صاحبہ ہوئیں۔ جب سوچتا ہوں تو پچھلا نقشه آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے اور بے اختیار ہنسی آجاتی ہے۔ اکثر ہم دونوں پہلی باتوں کو یاد کرتے اور خوب ہنستے تھے۔ خدا غریق رحمت کرے  جیسیبچپن  میں شریر تھیں ویسی ہی جوانی میں غریب ہوگئیں۔
ایک روز جو کشمیری دروازے کی طرف گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ دہلی کا لج میں بڑا ہجوم ہے کالج وہاں تھا جہاں اب گورنمنٹ اسکول ہے۔ میں بھی بھیٹر میں گھس گیا معلوم ہوا کہ لڑکوں کا امتحان لینے مفتی صدر الدین صاحب آئے ہیں ۔ ہم نے کہا چلو ہم بھی چلیں، برآمدے میں پہنچا قد چھوٹا تھا لوگوں کی ٹانگوں میں سے ہوتا ہوا گھس گھسا کر کمرے کے دروازہ تک پہنچ ہی گیا۔ دیکھا کہ کمرے کے بیچ میں میز بچھی ہے۔ اس کے سامنے کرسی پرمفتی صاحب بیٹھے ہیں، ایک لڑکا آتا ہے اس سے سوال کرتے ہیں اور سامنے کاغذ پر کچھ لکھتے جاتے ہیں میز کے دوسرے پہلو کی کرسی پرایک انگریز بیٹھا ہے یہ مدرسے کے پرنسپل صاحب تھے ہم تماشہ میں محوتھے کہ صاحب کسی کام کے لیے اٹھے چپراسیوں نے راستہ صاف کرنا شروع کیا جو لوگ دروازہ روکے کھڑے تھے وہ کسی طرح پیچھے ہٹتے ہی نہیں تھے چپراسی زبردستی دھکیل رہے تھے غرض اس دھکا پیل میں میرا قلیہ ہو گیا ، دروازہ کے سامنے سنگ مرمر کا فرش تھا اس پر سے میرا پاؤں رپٹا اور میں دھم سے گرا ، اتنی دیر میں پرنسپل صاحب بھی دروازے تنگ آگئے تھے۔ انھوں نے جو مجھے گرتے دیکھا تو دوڑ کر میری طرف  بڑھے، مجھے اٹھایا پوچھتے رہے کہیں چوٹ تو نہیں آئی۔ ان کی شفقت آمیز باتیں اب تک میرے دل پرکال نقش في الحجر ہیں ۔ باتوں ہی باتوں میں پوچھا۔” میاں صاحب زادے کیا پڑھتے ہیں؟ میں نے کہا کہ ” معلقات‘‘۔ ان کو بڑا تعجب ہوا پھر پوچھا۔ میں نے پھر وہی جواب دیا۔ میری عمرپوچھی، میں نے کہا: ”مجھے کیا معلوم ؟“ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر بجائے اپنے کام کو جانے کے سیدھامجھ کو مفتی صاحب کے پاس لے گئے اور کہنے لگے” مفتی صاحب یہ لڑکا کہتا ہے میں معلقات پڑھتا ہوں ۔ ذرا دیکھیے تو سہی سچ کہتا ہے یا یونہی باتیں بناتا ہے۔“ مفتی صاحب نے کہا ۔ ”بولوتو کیا پڑھتا ہے؟“ میں نے کہا ”معلقات“ کہنے لگے ”کہاں پڑھتا ہے؟“ میں نے کہا” پنجابیوں کے کڑے کی مسجد میں ۔“ پھر کہا ” معلقات دوں، پڑھے گا“ میں نے کہا ” لائے“ انھوں نے میز پرسے کتاب اٹھائی اور میرے ہاتھ میں دے دی۔ اور کہا ”یہاں سے پڑھ “ جس شعر پر انھوں نے انگلی رکھی تھی وہ معلقات سے عمرو بن کلثوم کا شعر تھا۔ اسے میں نے پڑھا اور معنی بیان کیے۔ انھوں نے تر کیب پوچھی وہ بیان کی مفتی صاحب بہت چکرائے ۔ پوچھنے لگے تم کو کون پڑھاتا ہے؟ میں نے کہا مسجد کے مولوی صاحب کہا ” مدرسے میں پڑھے گا ؟“ میں نے جواب دیا ”ضرور پڑھوں گا۔“ مفتی صاحب نے کاغذ اٹھا کر چند سطریں لکھیں اور پرنسپل صاحب کو دے کر کہا اس کو پریسیڈنٹ صاحب کے پاس پیش کر دینا۔ ہم وہاں سے نکل کر اپنے گھر آئے مولوی صاحب سے کچھ نہ کہا۔ کوئی سات آٹھ روز کے بعد کالج کا چپراسی مولوی صاحب کے پاس ایک کاغذ دے گیا اس میں لکھا تھا کہ نذیر احمد کو کالج میں داخل کرنے کی اجازت ہوگئی ہے۔ کل سے آپ اسے کالج میں آنے کی ہدایت کر دیجیے۔ اس کا وظیفہ بھی ہو گیا ہے۔ چپراسی تو یہ حکم دے چلتا بنا۔ مولوی صاحب نے مجھے بلایا خط دکھایا اور پوچھا یہ معاملہ کیا ہے میں نے کچھ جواب نہ دیا جب ذراسختی کی تو تمام واقعہ بیان کیا وہ بہت خوش ہوئے اور دوسرے روز لے جا کر میرا ہاتھ پرنسپل صاحب کے ہاتھ میں دے دیا۔ اس زمانے میں سید احمد خان فارسی کی جماعت میں تھے ۔ منشی ذکا ءاللہ حساب کی جماعت میں اور پیارے لال انگریزی کی جماعت میں پڑھتے تھے ، میں عربی کی جماعت میں شریک ہوا۔
میں نے کہا مولوی صاحب آپ کی جماعت کہاں بیٹھتی تھی کہنے لگے پرنسپل صاحب کے کمرے کے بازو میں جو چھوٹا کمرہ ہے اس میں ہماری جماعت تھی ۔ دوسرے پہلو میں جو کمرہ ہے اس میں فارسی کی جماعت دانی نے کہا ”مولوی صاحب آپ کے اختیاری مضامین کیا تھے؟ “مولوی صاحب ہنسے اور کہا میاں دانی‘‘ ہم پڑھتے تھے آج کل کے طالب علموں کی طرح گھاس نہیں کاٹتے تھے۔ مولوی صاحب اس فقرے کا بہت استعمال کرتے تھے۔ ارے بھئی ایک ہی مضمون کی تکمیل کرنا دشوار ہے۔ آج کل پڑھاتے نہیں لادتے ہیں۔ آج پڑھا کل بھولے۔ تمھاری تعلیم ایسی دیوار ہے جس میں گارے کا بھی ردا ہے۔ ٹھیکریاں بھی گھسیڑ دی ہیں مٹی بھی ہے پتھر بھی کہیں چونا اور اینٹ بھی ہے ایک دھکا دیا اور اڑا اڑادهم گرگئی ۔ ہم کو اس زمانے میں ایک مضمون پڑھاتے تھے مگر اس میں کامل کر دیتے تھے۔ پڑھانے والے بھی ایرے غیرے پچکیاں نہیں ہوتے تھے۔ ایسے ایسے کو چھانٹا جاتا تھا جن کے سامنے آج کل کے عالم محض کاٹھ کےالّو ہیں۔
مولوی صاحب کو اپنے ترجمے پر بڑا ناز تھا اور اکثر اس کا ذکر فخریہ لہجے میں کیا کرتے تھے۔ اردو ادب میں ان کی جن تصنیفات نے دھوم مچارکھی ہے ان کے نزدیک وہ بہت معمولی تھیں ۔ وہ کہا کرتے تھے کہ میری تمام عمر کا صلہ کلام مجید کا ترجمہ ہے۔ اس میں مجھے اتنی محنت اٹھانی پڑی  ہے اس کا اندازہ کچھ میں ہی کرسکتا ہوں ۔ ایک ایک لفظ کے تر جمے میں میرا سارا سارا دن صرف ہو گیا۔ میاں سچ کہنا کیسا محاورہ کی جگہ محاورہ بٹھایا ہے۔ ہم نے کہا ۔ مولوی صاحب بٹھایا نہیں ٹھونسا ہے۔ جہاں یہ فقرہ کہا مولوی صاحب اچھل پڑے۔ بڑے خفا ہوتے اور کہتے کل کے لونڈو ! میرے محاوروں کو غلط بتاتے ہو۔ میاں میری اردو کا سکہ تمام ہندوستان پر بیٹھا ہوا ہے خود لکھو گے تو چیں بول جاؤ گے “
 مولوی صاحب نے کئی مرتبہ اس عاجز پر بھی رقمی حملے کئے لیکن یہ ذرا ٹیڑھا مقابلہ تھا۔ ایک چھوڑ کئی کتا بیں مولوی صاحب سے اینٹھیں کبھی ایک پیسہ نہ دیا۔ یہ نہیں کہ خدانخواستہ وعدہ کرتا اور رقم نہ دیتا تھا۔ یہ کہ اس وقت تک کتاب لیتاہی نہ تھا۔ جب تک مولوی صاحب خود نہ فرمادیتےکہ ”اچھا بھئی تو یوں ہی لے جا مگر میرا پیچھا چھوڑ دے۔‘‘ میری ترکیب یہ تھی کہ پہلے کتاب پر قبضہ کرتا ، مولوی صاحب کتاب کی قیمت مانگنے میں حجت کرتے ، وہ جواب دیتے ۔ میں اس کا جواب دیتا ریویو کے لیے جو کتا ہیں آتی تھیں وہ تو ہمارے باپ دادا کا مال تھیں کتابیں تو کتابیں میں نے مولوی صاحب کی ایل ای ڈی کی گون پر بھی قبضہ کرنے کا فکر کیا تھا۔
حیدر آباد آنے کے تھوڑے ہی دنوں بعد معلوم ہوا کہ اس چہکتے ہوئے بلبل نے اس گلشن دنیا سے کوچ کیا۔ جب کبھی دہلی جاتا ہوں تو مولوی صاحب کے مکان پر ضرور جاتا ہوں اندر قدم نہیں رکھتا مگر باہر بڑی دیر تک دیوار سے لگ کر دروازے کو دیکھتا ہوں اور رہ رہ کر ذوق کا یہ شعر زبان پر آتا ہے۔
یہ چمن یونہی رہے گا اور سارے جانور اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گے۔ اللہ بس باقی ہوس

Nazeer Ahmad ki kahani by Mirza Farhatullah Baig  Chapter 6 NCERT Solutions Urdu
خلاصہ:
فرحت اللہ بیگ نذیر احمد کا حلیہ یوں بیان کرتے ہیں ۔ رنگ سانولا اونچاقد مگر چوڑان نے لمبان کو دبا دیا تھا۔ دوہرا بدن گدرا ہی نہیں بلکہ موٹاپے کی طرف کس قدر مائل ۔ سر پر ترکی ٹوپی ۔ بڑھی ہوئی تو نده گرمیوں میں ہتہ بند باندھتے تھے۔ سر پرگنتی کے بالوں کی جھالر چھوٹی چھوٹی آنکھیں اندر دھنسی ہوئی تھیں جس میں شوخی اور ظرافت کوٹ کوٹ کر بھری تھی ۔ دہا نہ چوڑا اور چہرا بڑا۔ آواز اونچی اور پاٹ دار۔ کے چھدری داڑھی ۔ قدرتی طور پر فرنچ کٹ ۔ پھر بیگ نے نذیر احمد کی تعلیمی دور کا ذکر کیا ہے کہ وہ کس طرح مسجد میں پڑھتے تھے اور گھر گھر جا کر روٹیاں اکٹھی کرتے تھے۔ دہلی کالج تک پہنچنا اور پھر کس طرح تعلیم حاصل کی ، ان کی بیوی جوان سے ڈھیروں مسالہ پسواتی تھی اس کا بھی ذکر کیا ہے۔ فرحت اللہ بیگ نے اپنے اور نذیراحمد سے ہونے والے نوک جھونک کا ذکر بڑے پر لطف انداز میں تحریر کیا ہے اور کس طرح کتا بیں جھپٹا کرتے تھے اور مولوی صاحب کی طرح ان پر رقمی حملے کرتے تھے مگر کامیاب نہ ہوتے تھے اسے بھی دل چسپ انداز میں بیان کیا ہے۔ استاد اور شاگرد کے درمیان مشفقانہ رشتے کو بھی خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ خاکہ کے آخر میں خاکہ نگار نے یہ بھی لکھا ہے کہ جب وہ دہلی آتے ہیں تو استاد کے دولت کدے پر ضرور حاضری دیتے ہیں ۔ باہر بڑی دیر تک دیوار سے لگ کر دروازے کو دیکھتے ہوئے رہ رہ کر ذوق کا یہ شعر ان کی زبان پر آ جاتا ہے۔ 
یہ چمن یوں ہی رہے گا اور سارے جانور
 اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گے
مرزا فرحت اللہ بیگ
(1884ء تا 1947ء)
مرزا فرحت الله بیگ دہلی میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم مکتب میں حاصل کرنے کے بعد ہندو کالج سے 1905 ء میں بی ۔اے پاس کیا۔ 1907ء میں وہ حیدرآباد گئے اورمختلف ملازمتوں پر مامور رہے اور ترقی کرتے کرتے اسسٹنٹ ہوم سکریٹری کے عہدے تک پہنچے۔ 1919ء میں انھوں نے اپنا سب سے پہلا مضمون رسالہ' افادہ‘‘ آگرہ میں لکھا۔ اور 1923 ء سے وہ باقاعدہ مضامین لکھنے لگے۔ انھوں نے تنقید ، افسانہ، سوانح حیات ، معاشرت اور اخلاق ہر موضوع پر کچھ نہ کچھا لکھا اور اچھا لکھالیکن ان کے مزاحیہ مضامین سب سے زیادہ کامیاب ہوئے۔
مرزا فرحت اللہ بیگ کے مضامین سات جلدوں میں’ مضامین فرحت‘ کے نام سے شائع ہو چکے ہیں نظم کا مجموعہ’ میری شاعری‘ کے نام سے چھپ چکا ہے۔ اس میں بھی مزاحیہ رنگ نمایاں ہے۔
ہنسنے اور ہنسانے کا کوئی اصول مقرر نہیں ہوسکتا۔ تمام مزاح نگار اپنا انداز جدا رکھتے ہیں۔ مرزا فرحت اللہ بیگ کا بھی ایک مخصوص رنگ ہے، جسے عظمت اللہ بیگ نے خوش مذاقی کہا ہے۔ خوش مذاقی میں قہقہے کے مواقع کم اور تبسم کے زیادہ ملتے ہیں۔ ان کے یہاں ایسا انبساط ملتا ہے جسے دیر پا کہا جاسکتا ہے۔
مرزا فرحت اللہ بیگ کے یہاں دلچسپی کے کئی سامان ہیں۔ ان کی مزاح نگاری میں دلّی کے روز مرہ اور محاورات کا لطف پایا جاتا ہے ۔ وہ اکثر ایسے محاورات اور الفاظ اپنی تحریر میں لاتے ہیں جو دلّی کے لوگ گفتگو میں استعمال کرتے ہیں۔ زیر نظر مضمون ان کی انھیں خصوصیات  کا آئینہ دار ہے۔ اس کی مزید خوبی یہ ہے کہ اس سے ہمیں اردو کے ایک بہت بڑے ادیب اور انیسویں صدی کے ہندوستان کے ایک بڑے شخص مولوی نذیر احمد کے بارے میں بہت سی باتیں معلوم ہوتی ہیں جو اور کسی طرح نہ معلوم  ہوسکیں۔

مشق
لفظ ومعنی
حلیہ : شکل صورت
تکملہ : تکمیل
قطب بنے بیٹھے رہتے : اولیاء اللہ میں کچھ لوگ قطب کے درجے پر ہوئے ہیں ۔ ان کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ وہ اپنی جگہ یعنی اپنے گھر سے کہیں باہر نہیں جاتے ۔ اسی لیے فارسی میں کہاوت ہےقطب از جانسنجیدگی ، وقار، بھاری پنمی جنبد (قطب اپنی جگہ سے نہیں ہلتا)
مُرمُرا : بھنے ہوئے چاول
مقیش : سونے چاندی کے تار
سایہ فگن : سایہ ڈالنے والا
نمودار : ظاہر، نمایاں
شوخی : چُلبلاپن
ذہانت : دماغ کی تیزی ، ذہین
محیط : پھیلاؤ
اصطلاح : کسی علمی یا فنی شعبے کا کوئی لفظ جسے عام معنوں کےعلا وہ خاص معنوں میں استعمال کیا گیا ہو۔
متانت : سنجیدگی ، وقار، بھاری پن
وضع : ڈھنگ
توکل : خدا پر بھروسہ کرنا
معلّقات : معلق کی جمع ، کہا جاتا ہے کہ قدیم عرب میں طریقہ تھا کہ ہر سال کی شاعری کے سب سے اچھے نمونوں کو خانہ کعبہ کے دروازےپرآویزاں کر دیا جاتا تھا۔ ان نظموں کو جو قصیدے کی ہیئت میں ہوتی تھیں معلقات (لٹکائی ہوئی) کہا جاتا ہے۔ ان کیتعداد سات بتائی گئی ہے
عمرو بن كلثوم :
عربی کا مشہور شاعر عمرو میں عین پر زبر اور میم پر جزم ہے اور
و نہیں پڑھا جاتا ۔ لیکن عمر کو Amr پڑھیے
کالنقشفی الحجر : پتھر پر بنائے ہوئے نقش کی طرح
پچکلیاں : مختلف رنگوں سے رنگا ہوا(وہ جانور جس کے چاروں پیر اورماتھا سفید ہو)
حُجّت : دلیل، بحث
ریویو(انگریزی) : تبصرہ

غور کرنے کی بات
 * اس مضمون میں نذیر احمد کی شکل و صورت، وضع قطع اور حلیہ کو بڑے دلچسپ انداز میں پیش کیاگیا ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ نذیر احمد نے تعلیم کس قدر مشقت سے حاصل کی۔
*  مضمون میں نذیراحمد کے زمانے کی معیاری اور مفید تعلیم کے مختلف پہلوؤں کو بھی پیش کیاگیا ہے۔

سوالوں کے جواب لکھیے :

 1. نذیراحمدکی شخصیت کے دلچسپ پہلوؤں کو اپنے الفاظ میں لکھیے۔
جواب:

2. نذیر احمد نے اپنے بچپن کے کن واقعات کواطف لے کر بیان کیا ہے؟ بتایئے۔
جواب:

 3.  نذیر احمد کے ساتھ پڑھنے والوں میں کون کون سے ادیب شامل تھے؟
جواب:

 4.  نذیر احمد نے آج کل کی تعلیم کی کون کون سی خامیاں بتائی ہیں؟
جواب:

عملی کام 
*  اس سبق کا بغور مطالعہ کیجیے اور بتایئے کہ آپ کونذیراحمد کی کون سی باتیں سب سے اچھی لگی ہیں۔
*  سبق میں جہاں مزاحیہ انداز اختیار کیا گیا ہے۔ اس کی نشاندہی کیجیے۔
*  سبق  کاخلاصہ تحریر کیجیے۔
سبق کا خلاصہ اوپر بیان کیا گیا ہے۔
*  اس سبق میں جو محاورے استعمال ہوئے ہیں انہیں تلاش کر کے لکھیے۔


کلک برائے دیگر اسباق

خوش خبری