آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Sunday, 17 May 2020

Dastaan e Gul

آئینہ نے جب پھولوں کے بارے میں اردو میں تفصیلی معلومات فراہم کرنے کا ارادہ کیا تو اُس کے پاس انگریزی سے استفادہ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ خواہش تھی کہ اردو کے طلبہ کو پھولوں سے متعلق وہ تمام معلومات فراہم کی جائیں جو ان کے لیے مفید بھی ہوں اور کار آمد بھی۔ اس سلسلہ میں مطالعہ کے دوران ”آرایش محفل“ مصنف حیدر بخش حیدری دہلوی کا تحریر کردہ ایک باب پھولوں سے متعلق نظر سے گزرا۔ یہ مضمون نہ صرف اپنے زبان و بیان میں انوکھا ہے بلکہ ہندوستان میں پائے جانے والے پھولوں کا مجموعی خاکہ بھی پیش کرتا ہے۔ ہندوستان صدیوں سے طرح طرح کے پھولوں کا گلدستہ رہا ہے۔  آئیے!آپ بھی اس مضمون کی خوشبو سے اپنا دل و دماغ معطر کیجیے۔

چند سطریں پھولوں کی تعریف میں
پھول بھی یہاں سارے دیکھنے اور سونگھنے کے اپنی اپنی بہار میں بے مثال ہوتے ہیں۔ رنگ ڈھنگ میں بھی کچھ ایران توران وغیرہ کے پھولوں سے کم نہیں چُنانچہ عَبّاسی کئی رنگ کی بہت دَھدَھی اور گُلِ مہندی بھانت بھانت کی نپٹ چہچہی۔ گلاب و یاسَمن و سَوسَن کا وفُور۔ نرگس و نسرین و نسترن سے چمن کے چمن مَعمور۔ زنبق و بنفشہ جِدھر تِدھر۔ صَد بَرگ و تاجِ خُروس چَپّے چَپّے پر۔ چَمَن کے چَمَن رَیحان و اَرغَوان کے۔ تَختے کے تَختے لالہ و نافرمان کے۔ رعنا و زیبا جہاں تہاں۔ داؤدی و صد برگ کی ہزاروں کیاریاں۔ اور وے پھول جو خُصُوصیَت اس سرزمین سے رکھتے ہیں ہزاروں میں ہیں۔ اگر اُن سب کے فقط نام لکھوں تو یہ فصل برابر گلستان کے ہوجائے۔اور تھوڑے سے فایدے کے لیے کلام میں طول بہت سا لازم آئے لیکن مشہور معروف خلق میں بیشتر اتنے ہیں۔ سیوتی- سُکھ درسن، سورج مکھی، چنپا، چنبیلی، چاندنی،جائی جُوہی، جعفری، موگرا، موتیا، مدن بان، مولسری، کرنا، کَپُور، بیل، کنوَل، کیوڑا،کیتکی، گُڑھل، ہارسنگار،نِواڑی بیلا، کٹھ بیلا،رتن منجری، رائی بیل، رتن مالا، دُپَہریا۔ابیات۔
ہے اس مملکت کی عجب گل زمیں
کہیں پھول یاں کے سے ہوتے نہیں
دل بستہ دیکھ اُن کو ہر باغ باغ ###### جو سونگھے تو بھر جائے بو سے دماغ
گُندھے بِن گُندھے گر وہ محفل میں آئیں
تو مجلِس کا عالم چَمَن کا بنائیں
جو پہنے انہیں حسن اُن کا پھلے###### کہ عاشق کا دل اُن پہ دُونا چلے
جو لکھنے کے قابل ہو مو کا قلم######  نزاکت ہو کچھ سیوتی کی رقم
سفیدہ سحر کا جو حل ہو کے آئے
صباحت ذرا اُس کی تب لکّھی جائے
کروں وصف کیا مونگرے کا بیاں######  کہ ایک ایک کلی اُس کی ہے عطر داں
مُعطر ہے شدّت سے بیلے کی باس######  یہ آتی نہیں حیف عاشق کو راس
جو سوتے میں آجائے اُس کی لَپَٹ
پھڑک جائے دل نیند جاوے اُچَٹ
ہے کرنے کی اس مرتبہ مست بو
جو سُونگھے اُسے ٹُک سیہ مست ہو
مدن بان کی ادھ کھلی ہر کلی ######  بڑھاتی ہے عشاق کی بے کلی
خوشایند ہے نگہت راے بیل######  رہے بزم میں اُس کی نت ریل پیل
چاندنی کی بو ہے نزاکت بھری######  سچَکتی ہوئی سونگھے اس کو پری
یہ ہیں خُشنُما جائی جوہی کے پھول
کہ دیکھ ان کو سَرت جاتی ہے بھول
صفائی کا عالم کہوں اُن کی کیا######  کہ پائے نظر یاں پھسل ہی پڑا
بہت موتیا کی پیاری ہے بو######  ہرایک گل سے اس کی نرالی ہے بو
انوٹھی نہو کیونکہ اُس کی کلی######  نہائیت اُس کی ہے بو میں بھری
نواری کی از بسکہ میٹھی ہے بو######  دلوں کے وہ مقبول کیونکر نہو
جدا سب سے دو پہریا کا ہے روپ
کہاں اُس کی رنگت کو لگتی ہے دھوپ
گلوں سے نرالا ہے گل چاندنی ###### چَمَن کا اجالا ہے گل چاندنی
یہ چنپا کہ پھولوں میں ہَیگی مہک
لپٹ ان کی جاتی ہے گردوں تلک
میں رنگت میں تشبیہ دوں اُسے کیا
کہ بن باس جوہر ہے پُکھراج کا
ہر ایک گل کا ہے رَنگ و عالم جُدا
نہیں لُطف سے کوئی خالی ذرا
جسے دیکھیے ہر طرح خوب ہے######  طَبیعت کا ہر ایک کی مرغوب ہے
یہ گو ہر طرف سستے بکتے پھریں
یہ خوباں جہاں دیکھیں سر پر دھریں
ہوئے سستے یوں تاکہ پہنیں منگا ######  زنِ بے نَوَا و زنِ بادشا
جو عالم دکھاتے ہیں دمڑی کے پھول
وہ ہرگز نہو موتیوں سے حصول
پہنّے کا اُن کو نہو کیونکہ چاؤ######  کہ ہوتا ہے یاں کوڑیوں میں بناؤ
کسی خوب کی دل میں کھبتی نہ آن
نہ ہوتے جہاں میں اگرپھول پان
القِصّہ کوئی پھول چمنِ دہر میں رنگ و بو سے خالی نہیں۔ مصرعہ۔
ہر گُلے را رنگ و بُوئے دیگر است
لیکن موتیا چنبیلی بعضے بعضے وَصفوں میں سب سے زیادہ ہیں۔ تیل عطر انھیں کا نکلتا ہے۔اور ہر ایک صاحب طبع اُس چاہ کر مَلتا ہے۔ خصُوصاً وے عورتیں کہ جن کے مزاج میں سُتھرائی سُگھرائی بیشتر ہے۔ہمیشہ بدن کو لگائے اور بالوں کو اُس میں بسائے ہی رکھتے ہیں۔نا چاہنے والی کی خواہش زیادہ بڑھے۔ اور چاہ کی آنکھ اکثر  پڑے۔بیت
اگر تیل اور عطر ہوتے نہ یاں تو رونق پکڑتا نہ حسن ِ بتاں
بڑھائی انھوں نے ہَیں یہ اُن کی قدر
عجب چیز ہینگی غرض تیل و عطر
اور کیتکی کیوڑے کی بو باس صورت شکل کسی پھول سے نہیں ملتی۔اُن کا عالم ہی جُدا ہے۔ اگر ہزار پھول خوشبو دھرے ہوں اور کیوڑے کا ایک پھول بھی آئے۔ تو اُن کی مَہَک اُس کی لپٹ میں چھِپ جائے۔ گلاب و بید مشک اُس کے عرق سے خجالت کھینچےعطر کو اُس کے کوئی عطر لگ نہ سکے۔ بیت۔
جو ایک پھول ہو کیوڑے کا دھرا######  تو روشن نہ کیجیے کہیں لخلخا

اس موضوع پر مزید دیکھیں

Saturday, 16 May 2020

Aakhri Qadam - NCERT Solutions Class VI Urdu

آخری قدم
ڈاکٹر ذاکر حسین
آؤ، آج تمھیں ایک بہت اچھے آدمی کا حال سنائیں جسے اس کے جیتے جی بہتیرے لوگ برا برا کہتے تھے اور مرنے کے بعد بھی اس کی نیکی کا حال بس وہی جانتے ہیں جن کے ساتھ اس نے بھلائی کی تھی۔ اور شاید بعضے تو ان میں سے بھی بھول گئے ہوں گے۔
اس نیک آدمی کے پاس بڑی دولت تھی مگر یہ ان لوگوں میں تھا جو اپنے دھن دولت کو اپنا نہیں سمجھتے بلکہ اللہ میاں کی امانت جانتے ہیں، جو بس اس لیے ان کے سپرد کی جاتی ہے کہ اسے اس کے بندوں پر صرف کریں۔ خود ان کی اُجرت یہ ہے کہ اس میں سے بھی بس موٹا جھوٹا پہن لیں اور دال دلیا کھا کر گزرکرلیں۔
ہاں، تو یہ نیک آدمی بھی اپنی دولت سے خود بہت کم فائدہ اٹھاتا تھا۔ ایک صاف سے مگر بہت چھوٹے مکان میں رہتا تھا۔ گذی گاڑھے کے بہت معمولی کپڑے پہنتا تھا۔ اور کھانے کا کیا بتاؤں، کبھی چنے چاب لیے، کبھی مکا کی کھیلیں کھالیں ۔ ایک وقت ہنڈیا چڑھی تو تین وقت کے کھانے کا انتظام ہو گیا ۔ دوست احباب جنہیں اس کے حال کی خبرتھی طرح طرح سے اسے کھیل تماشوں میں ، رنگ رلیوں میں گھسیٹنا چاہتے تھے۔ مگر یہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ بہانا کر کے ٹال دیتا تھا۔ آخر کوسب سے بڑا کنجوس مشہور ہو گیا ۔ اس کے دوست اسے ”میاں مکّھی چوس“ کہا کرتے تھے ۔ بعض دوست اس کی دولت کی وجہ سے جلتے تھے۔ وہ اسے اور بھی چھیڑتے اور بدنام کرتے تھے۔ مگر یہ دھن کا پکّا تھا۔ برابرچُھپ چُھپ کر چُپ چُپاتے اپنی دولت سے کسی نہ کسی مستحق کی مدد کرتا ہی رہتا تھا، اور اس طرح کہ سیدھے ہاتھ سے دیتا تو الٹے ہاتھ کو خبر نہ ہوتی اور زبان پر ذکر آنے کا تو ذکر ہی کیا۔
نہ جانے کتنی بیوائیں اس کے روپے سے پلتی تھیں ! کتنے یتیم اس کی مدد سے پڑھ پڑھ کر اچھے اچھے کاموں سے لگ گئے تھے ۔ کتنے مدرسے اس کی سخاوت سے چل رہے تھے۔ کتنے قومی کام کرنے والوں کو اس نے روٹی کپڑے سے بے فکر کر دیا تھا اور وہ یکسوئی سے اپنی اپنی دھن میں لگے ہوئے تھے ۔ کئی شفاخانوں میں دوا کا سارا خرچ اس نے اپنے سر لے لیا تھا اور ہزاروں دکھی بیماروں کو بے جانے اس کے روپے سے روز آرام پہنچتا تھا ۔ لیکن مشہور تھا وہی”کنجوس مکّھی چوس، دنیا کا کتا، نہ اپنے کام آئے نہ کسی اور کے ۔‘‘ کوئی اس پر ہنستا تھا، کوئی خفا ہوتا تھا سب اسے برا سمجھتے تھے!۔
آدی کتنا ہی نیک ہو، دوسروں کے ہردم برا کہنے سےجی دُکھتا ہی ہے۔ اس کے دل کو بھی کبھی کبھی بڑی ٹھیس لگتی تھی، جھنجھلاتا تھا، آنکھوں میں آنسو بھر بھر آ تے تھے مگر پھر صبر کر لیتا تھا۔
Courtesy NCERT

اس کے پاس ایک خوب صورت سی کتاب تھی، چکنا چکنا موٹا کاغد، نیلے کپڑے کی سبک سی جلد، پشت پرسنہرے حرفوں میں لکھا ہوا ”حسابِ امانت‘‘۔ اس کتاب میں یہ اپنا پیسے پیسے کا حساب لکھا کرتا تھا۔ جس کو بھی کچھ دیا تھاسب اس میں درج تھا۔ کہیں کہیں کیفیت کے خانے میں بڑی دلچسپ باتیں لکھی گئی تھیں ۔ کسی یتیم کو پڑھنے کے لیے وظیفہ دیا ہے۔ 15 سال بعد تاریخ دے کر کیفیت کے خانے میں درج ہے ”اب احمد آباد میں ڈاکٹر ہیں اور وہاں کے یتیم خانے کے ناظم ‘‘ کتابوں کے ایک کاروباری کوسخت پریشانی کے زمانے میں دو ہزار روپے دیے ہیں ۔ کئی سال بعد کیفیت کے خانے میں لکھا ہے۔” آج خط آیا ہے کہ انھوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک نہایت صاف اور سادہ زبان میں لکھوا کر ایک لاکھ نسخے طلبہ میں مفت تقسیم کیے ہیں ۔ خدا جزائے خیر دے ۔“ دلّی کے ایک مدرسے کو ایسے وقت کہ اس کا کوئی مددگار نہ تھا دس ہزار روپے دیئے تھے۔ اندراج رقم کے سامنے کیفیت میں لکھا تھا۔”سالانہ رپورٹ پڑھی۔ ہر صوبے میں اس کی ایک ایک شاخ قائم ہوگئی ہے۔ اس صوبے میں تو گاؤں میں تعلیمی مرکز قائم کر دیے ہیں ۔ یہ کام نہ ہوتا تو اس ملک میں مسلمانوں کی تمدّنی ہستی کبھی کی ختم ہو چکی تھی ۔“ اسی قسم کے بے شماراندراجات تھے۔
اس کتاب کو یہ اکثر اٹھا کر پڑھنے لگتا تھا۔ خصوصاً جب کسی نادان دوست کی زبان سے دل دکھتا تو ضرور اس کتاب کی ورق گردانی کی جاتی تھی۔ اسے دیکھ کر کبھی کبھی مسکراتا بھی تھا۔ اس کا ارادہ تھا کہ مرتے وقت یہ کتاب ان لوگوں کے لیے چھوڑ جاؤں گا جو عمر بھر مجھے پہچانے بغیر میرا دل دکھاتے رہے۔ اس ارادے سے اسے بڑی تسکین ہوتی تھی ۔ سو سُنار کی ایک لوہار کی ۔ انھوں نے ہزار دفعہ میرا جی خون کیا ہے۔ میں ایک دفعہ اُنھیں ایسا شرماؤں گا کہ بس سرنہ اٹھے گا۔ یہ سوچتا تھا اور خوش ہوتا تھا۔ ہوتے ہوتے بڑھاپا آن پہنچا۔ بدن جواب دینے لگا۔ روز کوئی نہ کوئی بیماری کھڑی ہے۔ ایک دفعہ دسمبر کا مہینہ تھا۔ سخت بیمار ہوا۔ بخار اور کھانسی ۔ ایک دن ، دودن ، تیسرے دن سینے میں سخت درد شروع ہوا۔ کوئی دو پہر غفلت رہی ۔ ہوش آیا تو سانس لینے میں بھی تکلیف ہوتی تھی ۔ نمونیا کا حملہ تھا اور سخت حملہ۔ شام سے حالت غیر ہونے لگی۔ بار بارغفلت ہو جاتی تھوڑی دیر کو ہوش آتا، پھرغفلت ۔ کوئی چار بجے کے قریب ہوش آیا تو اس کی سمجھ میں آ گیا کہ اب وہ وقت آن پہنچا ہے جو سب کے لیے آتا ہے اور جس سے کوئی بھاگ کر بچ نہیں سکتا۔
Courtesy NCERT

چارپائی کے پاس ہی میز پر وہ نیلی خوب صورت کتاب ”حسابِ امانت“ رکھی تھی جسے ابھی بیماری میں بھی دو دن پہلے اٹھا کر پڑھا تھا۔ چند لمحے اس کی طرف غور سے دیکھا۔ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔ ایسے کہ تھمتے ہی نہ تھے۔ کتاب کی طرف ہاتھ بڑھا کر اسے اٹھانا چاہا کئی مرتبہ کی کوشش میں اسے مشکل سے اٹھا پایا۔ پھر کچھ سوچ میں پڑا گیا۔یہ عظیم الشان گھڑی اور یہ چھوٹا خیال.......................... ان کو شرما کر تجھے کیا ملے گا................................ تو اپنا کام کرچلا...................اپنے کام سے کام.................منزل آ پہنچی..................... آخری قدم کیوں ڈگمگائے؟ ........................ دونوں ہاتھوں میں کتاب تھامے ہاتھ تھر تھرارہے تھے جیسے کوئی بہت بڑا بوجھ اٹھایا ہو ۔ بڑی مشکل سے تکیے پر سے سر بھی کچھ اٹھایا اور ناتواں جسم کی ساری آخری قوت صَرف کر کے کتاب کو اس پاس والی بڑی انگیٹھی میں پھینک دیا جس میں کوئی ڈھائی بجے نوکر نے بہت سے کو ئلے ڈالے تھے اور میاں کو سوتا جان کر دوسرے کمرے میں جا کر سو گیا تھا۔
کتاب جلنے لگی۔ اس کی نظر اس پر جمی تھی۔ جلد کے جلنے میں دیر لگی۔ پھر اندر کے کاغذوں میں آگ لگی تو ایک شعلہ اُٹھا۔ اس کی روشنی میں اس کے ہونٹوں پر ایک خفیف سی مسکراہٹ دکھائی دی اور چہرے پرعجیب اطمینان ۔ ادھر موذّن نے اشہد انَّ مُحمّد الرَّسُول الله کہا۔ اور نیکیوں کے اس کا رواں سالار کی رسالت کے اعلان کے ساتھ ہی اس کی امت کے اس نیک راہ رو نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔

معنی یاد کیجیے
بُہتیرے : بہت سارے
سپرد کرنا : حوالے کرنا
اُجرت : بدلہ ، معاوضہ
موٹا جھونٹا : بہت معمولی ، جو سستا ہو
دال دلیا : معمولی کھانا
گزرکرنا : معمولی طریقے سے زندگی گذارنا
گذی گاڑھے : ایک قسم کا معمولی موٹا کپڑا 
کھیلیں :  کھیل کی جمع بھنا ہواناج جوچٹخ کرپھول گیا ہو
احباب : ساتھی ، دوست
رنگ رلیاں :عیش وعشرت
دھن کا پکا ہونا (محاورہ) : ارادے کا پکا ہونا
مکّھی چوس : بہت ہی کنجوس
چپ چپاتے : خاموشی کے ساتھ، چھپ کر کسی کو بتائے بغیر
مستحق : ضرورت مند، حقدار
سخاوت : دوسروں پر زیادہ خرچ کرنا، در یا دلی
قومی کام : قوم کی بھلائی کے کام
یک سوئی سے : بہت توجہ کے ساتھ ، اطمینان
سَر لینا : ذمّے لینا
خفا : ناراض
ٹھیس لگنا : دُکھ پہنچنا
سُبک : نازک، ہلکی
سوچیے اور بتائیے
1. نیک آدمی میں کیا خوبیاں تھیں؟
جواب: نیک آدمی اپنی دولت غریبوں اور مستحق لوگوں پر خرچ کرتا تھا۔ نہ جانے کتنی بیوائیں اس کے روپے سے گزر بسر کرتی تھیں ۔وہ کتنے ہی یتیم بچوں کی کفالت کرتا اور ان کے تعلیمی خرچ اٹھاتا تھا۔

2. لوگ اس نیک آدمی کو برا کیوں کہتے تھے؟
جواب: لوگ نیک آدمی کو اس لیے برا بھلا کہتے تھے کہ وہ اپنی سخاوت کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دیتا اور اتنی دولت ہونے کے بعد بھی بہت سادہ زندگی گزارتا،معمولی کپڑے پہنتا، معمولی کھانا کھاتا۔ یہاں تک کہ وہ بہت کنجوس مشہور ہوگیا تھا۔

3. بعض لوگ اس کی دولت سے کیوں جلتے تھے
جواب: بعض لوگ اس کی دولت سے اس لیے جلتے تھے کہ وہ اسے رنگ رلیوں اور کھیل تماشے میں گھسیٹنا چاہتے تھے لیکن وہ اپنی ہی دھن میں لگا ر ہتا تھا۔

4. وہ نیک آدمی اپنی دولت کن کاموں پر خرچ کرنا چاہتا تھا؟
جواب: وہ نیک آدمی اپنی دولت بیواؤں کی مدد کرنے، یتیموں کی کفالت کرنے، مدرسے چلانے، بیماروں کے لیے شفاخانے کھلوانے اور دین کے فروغ  پر خرچ کرتا تھا۔

5. وہ سیدھے ہاتھ سے دیتا تو الٹے ہاتھ کو خبر نہ ہوتی اس جملے کیا مطلب ہے؟
جواب: اس جملے کا مطلب ہے کہ وہ لوگوں کی انتہائی خاموشی سے دوسروں سے چھپاکر مدد کرتا تھا۔

6. نیک آدمی''حسابِ امانت" میں کیا درج تھا؟
جواب: نیک آدمی ''حسابِ امانت'' میں اپنا پیسے پیسے کا حساب لکھا کرتا۔ اس نے جس کو کبھی بھی کچھ دیا تھا وہ اس کتاب میں درج تھا۔ کہیں کہیں کیفیت کے خانے میں بڑی دلچسپ باتیں درج تھیں۔ کسی یتیم کو تعلیم کے لیے وظیفہ دیا تھا تو پندرہ سال بعد کی تاریخ میں درج تھا کہ اب وہ احمد آباد میں ڈاکٹر ہیں اور وہاں کے یتیم خانے میں ناظم ہیں۔ کتابوں کے کاروباری کو ایک بار سخت پریشانی کے عالم میں دو ہزار روپے دیے تھے تو کئی سال بعد اس کی کیفیت میں لکھا کہ آج خط آیا ہے کہ اس شخص نے سیرت پاک کے ایک لاکھ نسخے طبع کرکے طلبہ میں مفت تقسیم کیے۔ غرض اس کتاب میں اس کی نیکی اور سخاوت کے تمام واقعات درج تھے۔

7. لوگوں کی باتوں سے تنگ آکر نیک آدمی کیا کرتا تھا؟
جواب: لوگوں کی باتیں سن کر اس نیک آدمی کو سخت رنج پہنچتا اور اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے۔ وہ تنہائی میں اپنی ڈائری حساب امانت کو پڑھتا جس سے اس کو قلبی سکون ملتا تھا۔

8. نیک آدمی کا ارادہ کیا تھا؟
جواب: نیک آدمی کا ارادہ تھا کا وہ اپنی کتاب حساب امانت لوگوں کہ لیے چھوڑ جائے گا تاکہ اس کے جانے کے بعد دنیا والوں کو اس کی نیکیوں کا علم ہو۔

9. نیک آدمی نے آخری وقت میں اپنے ارادے پر عمل کیوں نہیں کیا؟
جواب: آخری وقت میں اس آدی کو خیال آیا کہ کسی اور کو شرمندہ کرکے اسے کیا ملے گا۔ بلکہ اس کی زندگی بھر کی نیکی اس کے اس عمل سے ضائع ہوجائے گی۔ اس نے ارادہ کیا کہ اس کا آخری قدم کیوں ڈگمگائے۔ اس نے کتاب کو ضائع کرنے کا فیصلہ کرلیا اور اپنی کتاب کو آگ کی انگیٹھی میں ڈال دیا۔

اس سبق میں لفظ امانت دار آیا ہے۔ جس کے معنی ہیں امانت رکھنے والا۔ نیچے دیے ہوئے لفظوں کے آگے دار لگاکر لفظ بنائیے
دم : دم دار
سمجھ : سمجھ دار
شان : شان دار
عزت : عزت دار
خبر : خبردار
طرح : طرح دار
وفا : وفادار
ہوا : ہوا دار
جان : جان دار
خار : خار دار

نیچے دیے ہوئے محاوروں کو جملوں میں استعمال کیجیے
دُھن کا پکّا ہونا : وہ اپنی دھن کا پکا تھا۔
ٹھیس لگنا : امتحان کا نتیجہ دیکھ  کر فرزانہ کے دل پر ٹھیس لگی۔
جی خون ہونا : اپنے گناہوں کو یاد کر  اسلم کا جی خون ہو گیا۔
سر نہ اٹھنا : شرم کے مارے اسلم کا سر نہ اٹھ سکا۔
ٰحالت غیر ہونا :  بھوک سے اس کی حالت غیر ہو گئی۔

لکھیے
نیک آدمی کی کہانی اینے لفظوں میں لکھیے
 اس کہانی کا کوئی نیا عنوان لکھیے

غور کرنے کی بات :
*  ”اس نیک آدمی کے پاس بڑی دولت تھی۔ مگر یہ ان لوگوں میں تھا جو اپنے دھن دولت کو اپنا نہیں سمجھتے بلکہ اللہ میاں کی امانت جانتے ہیں ۔ جو بس اس لیے ان کے سپرد کی جاتی ہے کہ اسے اس کے بندوں پر صَرف کریں۔ خود ان کی اجرت یہ ہے کہ اس میں یہ بھی بس موٹا جھوٹا پہن لیں اور دال دلیا کھا کر گزرکرلیں۔“
 اس عبارت میں مصنف نے نیک لوگوں کی کتنی اچھی تعریف کی ہے کہ وہ نیک لوگ جنھیں اللہ نے دولت دی ہے مغرور اور گھمنڈی نہیں ہوتے بلکہ اپنی دولت کو ضرورت مندوں پر خرچ کرنے کے لیے اللہ کی امانت سمجھتے ہیں اور خود سادہ زندگی گزارتے ہیں۔
*  ’’آؤ آج تمھیں ایک بہت اچھے آدمی کا حال سنائیں جسے اس کے جیتے جی بہترے لوگ برا برا کہتے تھے ۔“
یہ آپ کے سبق کا پہلا جملہ ہے۔ اس جملے میں لفظ ”برا“ دو بار ایک ساتھ آیا ہے۔ لفظ کے دو بار ایک ساتھ آنے کو تکرار کہتے ہیں جیسے ساتھ ساتھ بیٹھنا، بار بار کہنا، مزے مزے کی با تیں وغیرہ۔

Thursday, 14 May 2020

wafat se qabl Hazrat Ali ki Wasiyat

 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی وصیت
آخر وقت میں آپ نے اپنی اولاد امجاد خصوصاً حضرات حسنین علی جدہما و علیہما الصلوة والسلام اور حضرت محمد بن حنفیہ رضی الله عنہ کو بلا کر جو وصیتیں فرمائیں ان میں سے کچھ بطور اختصار لکھی جاتی ہیں۔
خدا کو حاضر و ناظر جان کر اس سے ڈرتے رہنا۔ خوشی و ناخوشی میں حق بات کو نہ جانے دینا۔ تم دنیا کی محبت میں مبتلا نہ ہو جانا۔ اگرچہ وہ تم کو مبتلا کرنا چاہے۔ دنیا کے جانے پرغمگین نہ ہونا۔ یتیم پر رحم کرنا۔ بے کس و لاچار کی مدد کرنا۔ اس کی مدد اور دستگیری کو اپنے اوپرلازم کرنا۔ ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار رہنا۔ کتاب الله پر عمل کرنا۔ احکام الٰہی کے بجالانے میں کسی کی ملامت سے نہ ڈرنا۔
ان تینوں بزرگوں کو آپس میں میل ملاپ محبت و الفت سے رہنے اور ایک کو دوسرے کی مدد واعانت کی بہ تاکید ہدایت فرمائی اور فرمایا :
اسلام سے بڑھ کر شرافت کسی میں نہیں۔ تقوے سے بڑھ کر کرامت، ورع سے زیادہ حفاظت کسی چیز میں نہیں۔ توبہ  سے بڑھ کرشفاعت کرنے والا اور گناہوں کو مٹانے والا دوسرا نہیں ۔ بدترین توشہ آخرت بندگانِ خدا پرظلم وتعدی روارکھناہے۔ بشارت ہے اس شخص کو جس کے اعمال خالصتاًللہ ہوں۔ اس کا علم وعمل، بغض وحسد و محبت، کسی سے ملنا، کسی کو چھوڑ نا، بولنایا چپ رہناقول وفعل سب اللہ کے واسطے ہوں۔ حضرت سیدنا امام حسن مجتبیٰ علی جدہ وعلیہ الصلوۃ والسلام کی طرف خاص خطاب کر کے فرمایا :
اے بیٹے! تجھ کوخوفِ خدا کی وصیت کرتا ہوں ۔ نماز وقت پر ادا کرنا۔ زکوٰة اس کے موقع پر دیتے رہنا۔ وضو آداب وسنن کی رعایت کے ساتھ کرنا کیونکہ نماز بغیر طہارت کامل کے نہیں ہوتی ہے۔ لوگوں کی خطائیں معاف کرنا۔ غصہ کو ضبط کرنا قرابت مندوں کاحق ادا کرنا اور کرتے جاہل کے ساتھ حلم سے پیش آنا۔ اس کی جہالت کی پروا نہ کرنا۔ دین کے معاملات میں خوب غوروفکر کرنا ۔ اپنے ہر کام میں استقلال کا لحاظ رکھنا۔ قرآن شریف پر نظر رکھنا۔ اس کی تلاوت کرتے رہنا۔ ہمسایہ کے ساتھ نیکی کرنا اور نیک کاموں کی ترغیب دینا۔ بری باتوں سے روکتے رہنا اور خود بھی برے کاموں سے پرہیز کرنے کو اپنی عادت بنانا۔
(ماخوذ از مولائے کائنات، تالیف مبارکہ حضرت فیاض المسلمین بدر الکاملین مولانا سید شاہ محمد بدرالدین نورعالم قادری پھلواروی قدس سرہ)

Wednesday, 13 May 2020

Makdi Ki Kahani

مکڑی کی کہانی 

 کسی زمانے میں  ایک لڑکی تھی جو نہایت نفاست اور صفائی کے ساتھ کپڑا بناتی تھی اس کے کام کی خوبی اور صناعی کو دیکھ کر لوگ یہ کہا کرتے تھے  کہ ہو نہ ہو اس لڑکی کو اس بوڑھی جادوگرنی سے شاگردی  کی نسبت ہے جو دستکاری  کے فن میں استاد ہے۔ شہرت اور ناموری نے اس لڑکی کو اتنا بددماغ بنا دیا کہ کبھی کبھی وہ یہ دعویٰ کرنے لگتی کہ اس کی اُستانی بھی اس کی کاریگری کو نہیں پہنچ سکتی۔اس کی یہ شیخی اس جادوگرنی کے کانوں تک پہنچی اور اس نے چاہا کہ اس مغرور لڑکی کے بے جا غرور کی کڑی سزا دے۔ پس وہ ایک بڑھیا کے بھیس میں لڑکی کے پاس آئی۔ اس کا کام دیکھا اور کہا ”بیٹی کام تو تمہارا بے شک قابل تعریف ہےمگر میری ایک بات یاد رکھو وہ یہ ہے کہ کبھی بھولے سے بھی اپنے اساتذہ سے برابری کا دعویٰ نہ کرنا کیونکہ ایسا کرنا شوخی اور گستاخی ہے جس کا نتیجہ بُرا ہوگا۔“
مغرور لڑکی بُڑھیا کی اس نصیحت کو سُن کر ہنس پڑی اور کہا ”بڑی بی تم تو سٹھیا گئی ہو۔ مجھے کسی کا ڈر نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ کہ اگر میری وہ بوڑھی استانی بھی میرے سامنے آئے تو مجھ سے مقابلہ کرنے میں گھبرائے۔اس کی ہستی ہی کیا ہے  وہ اگر ابھی بھی میرے سامنے آجائے تو میں اس کے ساتھ مقابلہ کرنے اور اپنا کمال دکھانے کے لیے تیار ہوں۔“ یہ سنتے ہی اس جادو گرنی نے اپنا لمبا چوغہ اتار دیا۔ صناعت و کاریگری کی ماہر وہ جادوگرنی اپنی تمام شان و شوکت کے ساتھ سامنے کھڑی ہو گئی اور کہا ” بے وقوف لے میں موجود ہوں اور مجھ سے مقابلے کے لیے تیار ہوجا۔“ نادان لڑکی کو اپنے کمال کا بڑا گھمنڈ تھا وہ خیال کرتی تھی کہ اس کے کمال کے آگے اس کی استانی کا کمال بالکل ہیچ ثابت ہوگا اور وہ بازی لے جائے گی۔دونوں نے کام شروع  کیا اگرچہ کہ لڑکی نے بڑی ہی کاریگری سے نقش و نگار بنائے مگر کہاں یہ بے چاری اور کہاں وہ جادوگرنی۔ زبردست و کمزور کا مقابلہ کیا۔ آخر وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ لڑکی ہار گئی اس ہار نے اُس کو بہت بددل کردیا۔ یہاں تک وہ اپنی زندگی سے بیزار ہو گئی۔ مگر اس جادوگرنی نے کہا” نہیں تیرا اس طرح فنا ہو جانا مناسب نہیں تجھے زندہ رہنا اور ہمیشہ چرخہ کاتنا چاہیے۔“ لڑکی نے بہت منت سماجت کی مگر وہ جادوگرنی نہ مانی۔ جادو گرنی نے کچھ منتر پڑھ کر لڑکی پر پھونکا۔ لڑکی قدو قامت میں گھٹنے لگی۔ گھٹتے گھٹتے اناج کے دانے کے برابر ہوگئی اور اُس کی شکل مکڑی کی ہوگئی۔ پیارے بچّو اور بچّیوں یہ وہی شیخی خور لڑکی ہے جو آج تمہارے مکانوں میں مکڑی کی شکل میں جالا بناتی رہتی ہے۔ اس لیے دیکھو تم کبھی غرور نہ کرنا اور ہمیشہ اپنے اُستاد کی عزت کرنا۔
(بصیر النسا بیگم کی کہانی سے ماخوذ)


Tuesday, 12 May 2020

Phool Shah by Ibn e Tahir

پھول شاہ
رمضان المبارک اپنے آخری عشرے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اب سے چار دہائی قبل کا  پاکیزگی اور عظمتوں سے بھرپور رمضان۔ گھر کے سبھی افراد روزہ ہیں۔ افطار کی تیاریاں شروع ہو چکی ہیں۔ امّی باورچی خانے میں افطار بنانے میں مصروف ہیں ۔ ابّا جان کی نگاہیں چھت کی منڈیر سے نیچے سڑک پر ٹکی ہیں کہ افطار میں شریک ہونے کے لیے کسے آواز دیں۔ عصر کے بعد سے ہی باہر کا دروازہ کھول دیا جاتا تھا  تاکہ افطار کے وقت کسی مہمان کو کنڈی کھٹکھٹانے کی ضرورت نہ پڑے۔ عام دنوں میں گھر کا دروازہ بند رہتا تھا۔ رمضان کے اس آخری عشرے میں ہم سب بھائیوں کے کان ایک مخصوص،سریلی، میٹھی اور مانوس  آواز کا انتظار کرنے لگتے۔   اچانک عصر اور مغرب اور کبھی کبھی ظہر اور عصر کے درمیان وہ سُریلی آواز ہمارے کانوں میں گونجنے لگتی:
چمپا، چنبیلی ، مونگے، جوہی، پھولے ہزارے
سچّا ہے جو مسلماں روزے کے پھول چُن لے
جاگیے! اللہ اللہ کیجیے!
ہم سب بھائی اور چھوٹی بہن باہر دروازے کی طرف دوڑ پڑتے۔” پھول شاہ آگئے“، ”پھول شاہ آگئے“ اپنی اتنی عزت و توقیر اور اس والہانہ استقبال سے پھول شاہ بھی پھولے نہ سماتے۔ اس زمانے میں کوئی ریکارڈر نہ تھا لیکن آج بھی وہ آواز اسی طرح ذہن میں موجود ہے۔ شاید گیت کے الفاظ کچھ بدل گئے ہوں لیکن روزے کی پھولوں سے تشبیہ ہو بہو یہی ہے۔ دراز قد، دبلا پتلا جسم، لمبا کرتا، کندھے میں ٹنگا ہوا تھیلا، سفید لمبی داڑھی اور ہاتھوں میں چھڑی اور ایک کشکول۔ یہ تھا پھول شاہ کا حلیہ۔ اباجان رمضان سے قبل ہی پھول شاہ کے لیے اپنا ایک کرتا پاجامہ اور ایک نئی لنگی ان کے نام پر الگ رکھ دیتے تھے۔ لیکن یہ سب انھیں اسی وقت دیا جاتا جب وہ ہم سب کو اپنی سُریلی آواز میں پھولوں کی خوشبوؤں سے معطر اپنا گیت سُنا  دیتے۔ ہم سب اسے سننے کی بار بار ضد کرتے اور آخر وہ دوسرے دن آنے کا وعدہ کر ہی اپنی جان چھڑا پاتے۔ ہم سب ان سے بڑی ہی عزت سے پیش آتے اور پورے عزت و احترام سے اُن کا تحفہ اُن کے حوالے کردیا جاتا اور وہ خوشی سے ہمیں دعائیں دیتے روانہ ہوجاتے ۔مجھے یاد نہیں کہ وہ ہمارے گھر سے نکلنے کے بعد آس پڑوس کے کسی اور گھر میں جاتے ہوں۔ ایک خدا ترس فقیر کی جو توقیر  ہم نے اپنے  گھر میں دیکھی وہ مجھے اور کہیں نظر نہیں آئی۔ اب نہ ویسے سحری کے وقت مخلص جگانے والے اور خوددار سائل رہے اور نہ ان فقیروں اور درویشوں کی عزت و احترام کرنے والے۔ معلوم نہیں ہم آج اپنے بچّوں کی ویسی تربیت کر پا رہے ہیں یا نہیں لیکن ہمارے بڑوں نے جو ہمیں سکھایا ہم آج بھی اس سے فیضیاب ہو رہے ہیں۔ آج 18 رمضان ہے کانوں میں وہی آواز گنگنا رہی ہے
چمپا، چنبیلی ، مونگے، جوہی، پھولے ہزارے
سچّا ہے جو مسلماں روزے کے پھول چُن لے
جاگیے! اللہ اللہ کیجیے!
پھول شاہ کا سراپا سامنے ہے۔ کون تھے کہاں کے رہنے والے تھے یہ معلوم کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی بس رمضان کے آخری عشروں میں چند لمحوں کا ساتھ تھا جس نے ان کے سراپے اور ان کی سُریلی آواز کو آج بھی زندہ رکھا ہے۔ اس سے قبل کہ ایسی شخصیتیں ہماری یادوں سے بھی گُم ہوجائیں اپنے بچّوں کو اُس تہذیب سے روشناس کرادینا ضروری سمجھتا ہوں۔ 

دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Monday, 11 May 2020

Urdu mein yaksaan huroof ka mukhtalif istemaal

اردوسےدلچسپی رکھنےوالوں کے لئےپتےکی بات

"ھ" اور "ہ" میں کیا فرق ہے؟

"ھاں" اور "ہاں" کیا دونوں ٹھیک ہیں؟ اسی طرح "ہم" اور "ھم" اگر فرق ہے تو کیا ہے؟

👈اردو میں دو چشمی ھ کا استعمال کمپاؤنڈ حروف تہجی بنانے کے لئے ہوتا ہے۔ مثلاً:
بھ، پھ، تھ، ٹھ، جھ، چھ، دھ، ڈھ، گھ، اور لھ وغیرہ۔

بعض جگہوں پر خوب صورتی یا کسی اور وجہ سے لوگ ابتدا میں ھ کا استعمال کرتے ہیں مثلاً "ھم"، "ھماری" اور "ھاں" وغیرہ .

لیکن یہ استعمال درست نہیں ہے۔ اول تو یہ کہ اردو میں ھ ابتداء لفظ میں کبھی آ ہی نہیں سکتا۔

کیوں کہ دوچشمی ‘‘ھ’’ کی اکیلی مستقل آواز نہیں ہے بلکہ اسے کسی دوسرے حرف کے ساتھ ملا کر لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ اور یہ صرف چند حروف کے ساتھ ہی آسکتی ہے، اردو کے تمام حروف تہجی کے ساتھ نہیں آسکتی مثلاً:
بھ، پھ، تھ، ٹھ، جھ، چھ، دھ، ڈھ، کھ، گھ، لھ، نھ۔
اس کے علاوہ باقی حروف کے ساتھ دوچشمی ھ نہیں آتی، جبکہ ‘‘ ہ ’’ کی الگ مستقل آواز ہوتی ہے۔
ذیل میں دوچشمی ھ اور ہ کے چند جملے لکھے جارہے ہیں، انہیں پڑھ کر آپ کو خود ہی اندازہ ہوجائے گا کہ ان دونوں کے پڑھنے میں کیا فرق ہے اور اُردو زبان میں یہ دو مختلف ھ/ہ الگ الگ کیوں رائج ہیں:

"ھ" 👈 بھ: ننھے منے بچے سب کے من کو بھاتے ہیں۔
"ہ"👈 بہ: لاپرواہ لوگ پانی زیادہ بہاتے ہیں۔

"ھ"👈 پھ: بچے نے کاپی کا صفحہ پھاڑ دیا۔
"ہ"👈 پہ : پہاڑ پر چڑھنا ایک دشوار کام ہے۔

"ھ"👈 تھ : میرا ایک دوست تھائی لینڈ میں رہتا ہے۔
"ہ"👈 تہ: ابھی تک صرف ایک تِہائی کام ہوا ہے۔

"ھ"👈 ٹھ : ان دونوں کی آپس میں ٹھنی ہوئی ہے۔
"ہ"👈 ٹہ: درخت کی ٹہنی پر چڑیا چہچہا رہی ہے۔

"ھ"👈 جھ: آج فضا بوجھل سی ہے۔
"ہ"👈 جہ : ابوجہل اسلام کا سخت دشمن تھا۔

"ھ"👈 چھ: ڈاکٹر نے مریض کے جسم سے گولی کا چَھرّا نکال دیا ، یا چُھری تیز کروا لو۔۔
"ہ"👈 چہ: اس کا چہرہ خوشی سے کِھلا پڑ رہا تھا۔

"ھ"👈 دھ: یار میرا دھندہ خراب مت کرو۔
"ہ"👈 دہ: وہ اس کا نجات دہندہ بن کر آیا۔

نوٹ:- ڈ کے ساتھ ‘‘ہ’’ اور ر کے ساتھ "ھ" کا جملہ نہیں آتا۔

"ھ"👈 ڑھ: میرے گھر کے آگے ڈم ڈم کی باڑھ لگی ہوئی ہے۔
"ہ"👈 ڑہ: میرے گھر کے پاس بھینسوں کا باڑہ ہے۔

"ھ"👈 کھ: میرا قلم کھو گیا ہے۔
"ہ"👈 کہ: ہاں اب کہو! کیا کہنا چاہ رہے تھے۔

"ھ"👈 گھ: جنگلات میں گھنے درخت ہوتے ہیں۔
"ہ"👈 گہ: اس نے اپنی شادی پر گہنے اور دیگر زیورات پہنے ہوئے تھے۔

یہ جملے صرف دوچشمی "ھ" اور "ہ" کے آپس میں فرق واضح کرنے کے لیے بطور مثال لکھے ہیں، اُمّید ہے اس سے آپ مستفید ہوں گے.
 (فیس بُک وال سے، نامعلوم مصنف کے شکریہ کے ساتھ)

Friday, 8 May 2020

Hazrat Saleh A.S. - By Allama Rashid ul Khairi

حضرت صالح علیہ السلام

جب شداد اور اس کی قوم کے آدمی تباه تاراج ہو چکے تو پھر لوگوں نے سر کشی اختیار کی۔ عاد کے بعد ثمود کی قوم پیدا ہوئی، یہ لوگ بھی اپنی تجارت وغیرہ میں اچھی طرح کامیاب ہوکر دولت مند ہو گئے۔ اونچے اونچے مکان اور باغات کے مالک بنے۔ اور رات دن بُرے بُرے کاموں میں مصروف رہتے تھے۔ مال کے نشہ نے ان کو اندھا کردیا اور وہ ہرقسم کے گناہوں میں گرفتار ہو گئے۔ جس طرح خدا کا دستور رہا ہے اسی طرح ان میں سے بھی خدا نے ایک شخص کو اپنا بنا لیا۔وہ حضرت صالح علیہ السلام تھے۔ جو ان لوگوں کو ان کے اعمال پر تنبیہ کرتے ۔ ان کو خدا کا راستہ بتاتے ۔ لیکن صالح علیہ السلام کی کوششیں بے کار ثابت ہوئیں ۔ یہ لوگ بھی اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے۔ اور خدا کو خدا نہ سمجھا ۔ یہ قوم دن دونی اور رات چوگنی بے غیرتی اور بے حمیتی میں ترقی کرتی گئی۔
ایک موقع پر جب حضرت صالح علیہ السلام قوم کو خدا کی باتیں بتا رہے تھے۔ لوگوں نے ان کی ہنسی اڑائی - اور کہا”تو دیوانہ ہوگیا ہے ۔ اور۔ چاہتا ہے کہ ہم بھی تیری طرح سِڑی اور پاگل برہوجائں۔ اگر تیرا خدا کوئی ہے تو ہم کو دکھا اور اگر اس کو نہیں دکھاتا اور تو سچّا ہے تو تیرا خدا بھی سچّا ہے تو اس کا کوئی معجزہ دکھانا کہ ہم اس پر ایمان لائیں۔ ورنہ نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم سب مل کر یا تو تجھے مار ڈالیں گے ، یا اپنی بستی سے نکال دیں گے کہ تیراجھگڑا پاک ہو اور ہم اس عذاب سے نجات پائیں۔“
حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا” تو تم مجھ کو بتاؤ کہ کیا دیکھنا چاہتے ہو جو معجزہ تم کہو میں اپنے خدا سے دعا کروں اور وہی معجزه تم کو دکھا دوں۔“
سب نے سوچ کر اور آپس میں مشورہ کر کے کہا ”اگر تو سچّاہے تو اسی وقت اس پتھرسے جو سامنے ہے ایک اونٹنی پیدا ہو اور ہمارے سامنے آکر بچّہ دے اور وہ دودھ دے تو ہم تم کو سچّا پیغمبر یقین کریں ۔“ حضرت صالح علیہ السلام نے کہا : ”اچھا میں خدا سے دعا کرتا ہوں ۔ مگرشرط یہ ہے کہ تم ا ونٹنی کو کسی قسم کی تکلیف نہ دینا۔وعدہ کر لیا تو حضرت صا لح علیہ السلام نے خدا سے دعا کی۔ یہ دعا فورا ً قبول ہوئی اور حضرت صالح نے اپنی قوم سے کہا تم اب میری سچائی کا ثبوت دیکھو۔ مگر اپنی شرط ہمیشہ یاد رکھنا ۔ کہ اونٹنی کو تکلیف نہ ہو۔ اور یہ بھی یاد رکھو کہ تم پر سوا اس کے دودھ کے اورکوئی چیز حلال نہیں ۔
دفعتاً ایک آواز سخت اس پتھرسے نکلی اور تھوڑی دیر بعد ایک خوبصورت اونٹنی برآمد ہوئی ۔ جس نے سب کے سامنے بچّہ دیا۔ اس کے ساتھ تھوڑی سی سبز گھاس بھی تھی ، جو اس نے کھائی ۔ اس کے پاس ہی ایک چشمہ بھی دکھائی دیا اور ایک چراگا ہ جہاں رہ کرگھاس چرتی اور پانی پیتی رہی ۔لوگ اسی اونٹنی کا دودھ خود پیتے تھے اوربھر بھر کر اپنے گھر لے جاتے تھے ۔ حضرت صالح نے لوگوں سے کہا کہ اس کنویں کا پانی خدا کے حکم سے ایک روز کے واسطے تمہارا ہے اور ایک روز اونٹنی کا ۔ تم لوگ باری باری پانی لو مگر جس دن دودھ نہ دوہو اس روز اس او نٹنی کو پانی پینے دو،تم اس روز پانی کا ایک قطره بھی نہ لو۔ دیکھو یہ اللہ کی نشانی ہے۔ اگر
تمھارے ہاتھوں اس کو کوئی تکلیف پہنچی توخدا کا عذاب تم پر نازل ہو گا۔ میں پھر تم کو سمجھاتا ہوں کہ تم اپنے مولا سے ڈرو اور اس کے عذاب سے محفوظ رہو۔
ایک عرصہ تک اس پر عمل ہوتا رہا اور خلق اللہ اس اونٹنی سے فائدہ اٹھاتی رہی ۔ ایک روز کا ذکر ہے کہ چند آدمی جن کی تعداد دس تھی۔ حضرت صالح علیہ السلام کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا کہ عنقریب ایک لڑکا پیدا ہونے والا ہے ، جس کی وجہ سے یہ قوم تباہ ہوجائے گی ؟ چنانچہ جب یہ لڑکا پیدا ہوا جس کا نام قُدار تھا۔ تو لوگوں نے اس کو نگاہ میں رکھا ۔ یہ بڑا ہوا تو اس نے اپنے ساتھ ہر قبیلہ کے ایک ایک آدمی کو بلا یا ۔ اور شراب پی کر طے کیا کہ اونٹنی کو مار ڈالیں ۔ جس وقت اونٹنی پانی پی رہی تھی ان لوگوں نے حملہ کیا اور اونٹنی کو مار ڈالا۔ اور حضرت صالح علیہ السلام سے کہا کہ اگر تو سچّا ہے تو اب ہم کو کوئی عذاب دکھا ۔ ہم نے تیری اونٹنی کو سزا دی ۔ اگر کوئی عذاب نہ آیا تو یاد رکھ تیری بھی تکاّ بوٹی کر دیں گے۔
حضرت صالح علیہ السلام کچھ دیر خاموش رہے اور اپنی اونٹنی پر بہت رنجیدہ ہوئے۔ اس کے بعد انھوں نے اونٹنی کی طرف دیکھا ۔ ہاتھ اٹھا کر دعا کی اور کہا:
”اے قوم ثمود ،میں نے اپنی طرف سے تم کو سمجھانے اور خدا کی طرف بلانے میں کسر باقی نہ چھوڑی ۔لیکن میری بدقسمتی نے تم کو سیدھے راستے پر نہ آنے دیا۔ تونے میری ہنسی اڑائی، برا بھلاکہا اور میری ایک بات نہ سنی ۔ اب میں تم کو خبردار کرتا ہوں کہ تمہارے کہنے کے موافق میں نے خدا سے عذاب کی دعا کی ہے ۔ میں جانتا ہوں کہ میرا خدا میری دعا قبول کرے گا۔ تم پر اس کا عذاب نازل ہو گا۔ توبہ کا دروازہ اب بھی کھلا ہوا ہے ۔ اگر اس وقت بھی تم اپنے کئے پرپچھتاؤ گے اور سچے دل سے توبہ کرتے ہوئے اس کی طرف صاف بڑھوگے تو اُس کے عذاب سے بچے رہوگے۔ آگے تم کو اختیارہے۔“
اس کے جواب میں قوم ِثمود نے قہقہہ لگایا اور کہا صا لح علیہ السلام کیسا عذاب کس کا عذاب ،ان باتوں میں ہم آنے والے نہیں ہیں۔ اس لغویت کو اپنے پاس رکھو اور عذاب کا خوف کسی اور قوم کوسُناہم تیری باتوں میں آنے والے نہیں ہیں۔
حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا ”تم پر ایک چنگھاڑ کا عذاب نازل ہو گا ۔یعنی آتشی چنگھاڑ کہ کان کے پردے پھٹ جا ئیں گے اور تم مر جاؤ گے۔“
یہ سن کر ان بے وقوفوں نے نے اپنے کانوںمیں روئیاں ٹھونسیں اور روز خبریں رکھیں کہ کسی طرح چنگھاڑ سے محفوظ رہیں مگرجب خدا کا حکم قریب پہنچا توبھونچال یعنی زلزلہ شروع ہوا۔ اور بہت زور زور کی آوازیں نکلیں اور اس قیامت کی کہ سوائے ان لوگوں کے، جو حضرت کے ساتھ تھے باقی جس قدرتھے تباه و تاراج ہوگئے۔اس طرح قوم ِ ثمود اپنی نا فرمانی کی وجہ سے عذابِ الٰہی میں گرفتار ہوئی ۔
حضرت صالح اس قوم کی یہ کیفیت دیکھ کرشام کی طرف روانہ ہوئے اور وہیں رہنے سہنے لگے۔
(علامہ راشد الخیری)

*قُدار بن سالف بن جندع قبیلہ ثمود کا وہ شخص تھا جس نے حضرت صالح کی اونٹنی کو ہلاک کیا۔

Thursday, 7 May 2020

Malika Bilqees

ملکہ بلقیس
ایک دن حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے دربار میں رونق افروز تھے، انسان اورجنّات سب قسم کے حیوانات حاضرخدمت تھے ۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے پرندوں کی طرف نگاہ مبارک اٹھا کر دیکھا اور فرمایا۔ ہم میں آج ہُد ہُد  نظر نہیں آتا کیا وجہ ہے؟ وه آج کیوں غیر حاضر  ہےاورکیا و جہ اس کی حاضری میں مانع ہوئی، ہم کو اس بات کی سخت تشویش ہے اگر اس کی غیر حاضری گستاخی پرمبنی ہے تو آج ہم اس کو ضرور ہلاک کردیں گے۔
ابھی یہ بات حضرت سلیمان علیہ السلام کے دہن مبارک سے نکلی ہی تھی کہ ہُدہُد پھدکتا  ہوا دربار میں داخل ہوا اور عرض کیا اے جہاں پناه آج میں نے ایک نہایت عجیب واقعہ دیکھا ہے اجازت ہوتوعرض کروں۔ یہی واقعہ میری عدم موجودگی کا باعث ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام  کے اجازت دینے پر ہُدہُد نے بیان کیا کہ آج میں سویرے اِدھر اُدھر پھرتا پھراتا ایک ملک میں سے گزرا اس ملک کا نام ”سباح“ ہے اور اس میں بجائے مرد کے ایک عورت حکمرانی کرتی ہے۔ اس کا نام ملکہ بلقیس ہے۔ ملک نہایت سرسبز ہے، رعیت کے لئے بہت اچھا انتظام ہے۔ خداوند عالم نے وہاں کسی قسم کی کمی نہیں چھوڑی۔ ہر طرح سے لوگ خوش ہیں۔ لیکن بجائے اس کے کہ وہ لوگ مالک حقیقی کے آگے سرنیاز خم کریں وہ سورج کی پرستش کرتے ہیں۔ جہاں پناہ مجھے یہ دیکھ کر بہت رنج ہوا ۔ اس قدر ہے ادبی اتنی گستاخی نہ معلوم خدا وند عالم کی کون سی مصلحت پوشیدہ ہے۔ کہ باوجود اس گناہ کے وہاں کے لوگ  نہایت آرام سے رہتے ہیں۔ حضرت علیہ السلام نے فرمایا  اے ہُد ہُد کیا تو سچ کہتا ہے؟ ہمیں اب تک اس جگہ کا پتہ نہ تھا۔ ہم ابھی دریافت کرتے ہیں۔ہمارا یہ فرمان     لے کر تم خود ملکہ کے دربار میں جاؤ۔ فرمان چُپکے سے ملکہ کے آگے ڈال کر خود ایک طرف ہٹ جاؤ ۔ پھر دیکھو کیا واقعہ ظہور میں آتا ہے۔
ہُد ہُد فرمان لے کر روانہ ہوا۔ منزل بہ منزل طے کرتا ہوا۔ ملک سباح میں پہونچا۔ فرمان ملکہ کے قریب ڈال کر خود ایک طرف ہوگیا۔ ملکہ نے فرمان دیکھ کر حکم دیا کہ اس کو پڑھا جائے۔چنانچہ فرمان پڑھا گیا اور ملکہ نے کہا اے میرے وزیر اورمشیر مجھے صلاح دو کہ میں کیا کروں؟ وزیروں مشیروں نے عرض کیا ملکہ عالم ہمارے پاس بہت سی فوج ہے اور آپ بخوبی جانتی ہیں کہ ہم بہت بہادر ہیں۔ اگر آپ حکم دیں تو ابھی کوچ کردیں اور ان کے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں۔ ملکہ نے کچھ دیر توقف کیا پھر سوچ کر کہا میں لڑائی کرنا پسند نہیں کرتی اس لیے کہ اس میں بہت نقصان ہوتا ہے، بہت سے بے گناہ قتل ہوتے ہیں نسلیں خراب ہوجاتی ہیں، قحط پڑجاتا ہے، میری رائے ہے کچھ تحفے حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں روانہ کیے جائیں۔ چنانچہ ایلچی بہت بیش بہا تحفے لے کر حضرت سلیمان کی خدمت میں حاضر ہوا لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام نے ان کے لینے سے انکار کیا اور فرمایا نہیں ہمیں ان چیزوں کی ضرورت نہیں ہمارا مقصد یہ ہے کہ تمہارا ملک معبود حقیقی کی پرستش کرے۔بعد ازاں فرمایا اس وقت ملکہ بلقیس کو میرے پاس حاضر کر سکتا ہے۔ جنّات میں سے ایک نے عرض کیا حضور میں دربار کے برخاست ہونے سے پہلے ملکہ کا تخت حاضر کردوں گا۔ حضرت سلیمان یہ سن کر خاموش رہے۔ معلوم ہوتا تھا کہ ان کو اتنی دیر میں ملکہ کا آنا منظور نہیں۔ آپ کے وزیر اعظم آصف نے آپ کے بشرے کو دیکھ کر کہا”بادشاہ عالم! میں ملکہ کو اسی لمحے حاضر کرتا ہوں۔“کہتے ہیں کہ وزیر آصف نے اسم اعظم کے اثر سے ملکہ کو اس کے بیش بہا تخت سمیت ایک آنِ واحد میں حاضر کردیا۔تب حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ بلقیس سے زبانی بات چیت کی۔ملکہ بلقیس کو پہلے ہی حضرت سلیمان کا حال معلوم ہوچکا تھا چنانچہ وہ فوراً ایمان لے آئیں کیونکہ وہ خود سچّے مذہب کی متلاشی تھیں۔
حضرت سلیمان علیہ السلام ملکہ بلقیس کو اپنے محل خاص میں لے کر گئے اس کا تمام فرش عبور کا تھا۔بچاری ملکہ کو خبر نہ تھی اس نے سمجھا کہ پانی ہے وہ اپنے پانچے اٹھا اٹھا کر چلنے لگی۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے اصل حقیقت بتائی تو ملکہ بہت شرمندہ ہوئی کہ اس نےہر قسم کا سامان اور چیزیں اپنے ملک میں دیکھی تھیں لیکن اس سے ناواقف تھی۔
(نصرت جہاں۔ بہ شکریہ بنات)

Wednesday, 6 May 2020

Zaif ul Eteqaadi - Pandit Ratan Nath Sarshar

ضعیف الاعتقادی
 پنڈت رتن ناتھ سرشار

(یہ مضمون  پنڈت رتن ناتھ سرشار کی کتاب ”فسانۂ آزاد“ سے لیا گیا ہے، یہ کتاب  دراصل ایک مسلسل افسانہ ہے جو اخبار اودھ میں قسط وار شائع ہوا تھا جس کو بعد میں کتاب کی صورت میں شائخ کیا۔ اس کی کئی جلدیں ہیں۔ اس مضمون میں سرشار نے ثوہم پرستی اور کمزور اعتقادی کی تردید کی ہے۔ یہ مضمون اس زمانے کی لکھنؤ کی ٹکسالی زبان میں لکھا گیا ہے جس میں محاوروں،تلمیحات و تشبیہات و استعارات کی بھرمارہے۔)

میاں آزاد کو ایک دن  نماز پڑھنے کا شوق ہوا۔ سوچے کہ آج جمعہ ہے۔ چنانچہ مسجد کی طرف نکلے۔ راہ میں دو آدمی بھوت پریت اور جن و شیطان کے متعلق گفتگو کرتے جارہے تھے۔ ان میں ایک موٹا اور دوسرا د بلا پتلا تھا۔ موٹا بھوت پریت کا قائل نہ تھا اور دبلاجن پری پر ایمان لایا ہوا تھا۔ دونوں میں تکرار ہورہی تھی۔موٹے نے کہا : ”اگر جن پری کی کچھ حقیقت ہے تو مجھے ثابت کر دکھاؤ" چنانچہ دونوں نے ایک گاؤں کو جانا طے کیا۔ جہاں ایک عامل بھوت پریت کا عمل کرتاہے۔
میاں آزاد یہ سُن کر ان کے ساتھ ہو لئے اور نماز پڑھنا بھول گئے۔ ٹانگے میں  سوار ہو کر گاؤں میں جا پہنچے۔ عامل کے مکان پر ایک میلے کی سی بھیڑ تھی۔ اس بھیڑ میں انھوں نے اس موٹے کو ڈھونڈ نکالا۔ اوراس سے کہا کہ میں بھی بھوت پریت کا قائل نہیں۔ آج اس مکّار عامل کی قلعی کھولتا چاہئے۔ دونوں مل گئے۔ اتنے میں عامل با ہر آیا اور للکار کر کہا کہ کوئی آکرمجھ سے زور آزمانا چاہے تو آئے۔ ایک سدها ہو آدمی آگے بڑھا اور کشتی ہوئی۔ وہ شخص ایک ہی مار میں چاروں خانے چت ہوگیا اور بیہوش بنا پڑ گیا، عامل نے پھرللکارا کہ کوئی اور ہے ؟ یہ سُن کر میاں آزاد نے آؤ دیکھا نہ تاؤ جھٹ لنگو ٹ کس کر میدان  میں کوو پڑے ۔ عامل یہ  دیکھ کر ہکّا بکّا رہ گیا۔ آخر میاں آزاد نے ایک ہی مار میں اسے پچھاڑ دیا. عامل کی ساری شیخی جاتی رہی اور سارا مجمع غُل مچانے لگا۔ عامل کو اُسی روزگاؤں چھوڑنا پڑا۔
وہاں سے میاں آزاد اور موٹا  آدمی دونوں ہاتھ میں ہاتھ ملائے واپس لوٹے۔ راستہ بھر ہی عامل کی باتیں اور بھوت پریت کے قصّے ہوتے رہے۔ آزاد نے اپنا ایک اور قصّہ سنایا کہ ایک صاحب غیب دان تھے لوگ ان کے بہت معتقد تھے۔ ایک روز آزاد نے پوچھا کہ میرے ہاتھ میں کیا ہے ؟ اس نے کہازرد پھول ہے۔  آزاد نے کہا اگر نہ ہوتو؟ یہ سُن کر غیب دان کا چہرہ زرد پڑ گیا ، پھر کہا سبزپھول ہے۔ آزارنے کہا آج تک ہرے رنگ کا پھول کہیں دیکھا نہ سُنا۔ غیب دان پریشان ہوگیا، مجلس میں ایک قہقہہ پڑا اور اس کے حواس غائب ہو گئے۔
میاں آزاد سیدھے اسٹیشن پہونچے۔ یہاں ایک رئیس اپنے مصاحبوں کے ساتھ  تشریف رکھتے تھے ۔ میاں آزاد کی انگریزی وضع دیکھ کر رئیس کے  مصاحب آزاد پر  پھبتیاں کسنے لگے۔ آزاد  تو تھے ہی آزاد ترکی بہ ترکی جواب دینے لگے ۔ مصاحب عاجز آ گئے، نواب نے ان کی حاضر جوابی کو پسند کیا اور آزاد کو بھی اپنے مصاحبوں میں شامل کر لیا مصاحبوں نے ازراہِ حسد نواب سے کہاحضور کا ان کو مصاحب رکھنا مناسب نہیں معلوم نہیں یہ کون ذات شریف ہیں؟۔

Monday, 4 May 2020

Pahad Aur Gilehri - NCERT Solutions Class 10 Urdu

پہاڑ اور گلہری

علامہ اقبال
 Courtesy NCERT
کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے
تجھے ہو شرم تو پانی میں جا کے ڈوب مرے
ذرا سی چیز ہے، اس پر غرور، کیا کہنا !
یہ عقل اور یہ سمجھ، یہ شعور، کیا کہنا
خدا کی شان ہے، ناچیز، چیز بن بیٹھیں
جو بے شعور ہوں، یوں با تمیز بن بیٹھیں
تری بساط ہے کیا، میری شان کے آگے
زمیں ہے پست، مری آن بان کے آگے
جو بات مجھ میں ہے، تجھ کو وہ ہے نصیب کہاں
بھلا پہاڑ کہاں، جانور غریب کہاں
کہا یہ سن کے گلہری نے منہ سنبھال ذرا
یہ کچّی باتیں ہیں، دل سے انھیں نکال ذرا
جو میں بڑی نہیں تیری طرح تو کیا پروا
نہیں ہے تو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا
ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے
کوئی بڑا، کوئی چھوٹا، یہ اس کی حکمت ہے
بڑا جہان میں تجھ کو بنا دیا اس نے
مجھے درخت پر چڑھنا سکھا دیا اس نے
قدم اٹھانے کی طاقت نہیں ذرا تجھ میں
نِری بڑائی ہے، خوبی ہے اور کیا تجھ میں
جو تو بڑا ہے، تو مجھ سا ہنر دکھا مجھ کو
یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دکھا مجھ کو
نہیں ہے چیز نِکمّی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں

علامہ اقبال
(1877-1938)
اقبال کا شمار اردو کے بلند مرتبہ شاعروں اور مفکروں میں ہوتا ہے۔ وہ سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔ اپنے خیالات کی گیرائی اور شعری صلاحیت کی وجہ سے ان کا نام دنیا بھر میں مشہور ہے۔ انھوں نے بچوں کے لیے بھی نظمیں کہی ہیں۔ ان کی شاعری دنیا کی عظیم شاعری میں شمار کی جاتی ہے۔ اقبال اردو کے سب سے بڑے فلسفی شاعر ہیں۔ بچوں کے لیے انھوں نے جونظمیں لکھی ہیں ان میں” بچے کی دعا‘‘ ،’’قومی ترانہ“، ”پہاڑ اور گلہری“، ”جگنو“، ” ہمدردی‘‘، ’’ پرندے کی فریاد“ اور ”ماں کا خواب“ وغیرہ بہت مقبول ہوئیں۔
ان نظموں کے ذریعے اقبال نے بچوں میں بلند خیالی، ایمانداری، سچائی، محبت، بھائی چارہ، انصاف، بلند کرداری، ہمدردی، انسانی جذبہ، مل جل کر ساتھ رہنے اور ایک دوسرے کی مدد کرنے جیسی صفات پیدا کی ہیں ۔
اقبال کی کئی کتابیں اردو کے علاوہ فارسی اور انگریزی میں بھی شائع ہوچکی ہیں اور ان کی شاعری کے ترجمے دنیا کی بہت سی زبانوں میں کیے گئے ہیں۔

معنی یاد کیجیے:
شعور : عقل، سمجھ
ناچیز : معمولی ، حقیر
با تمیز : تمیزدار
بساط : حیثیت
پست : نیچی، کم درجہ
آن بان : شان ، بڑائی
حکمت : تدبیر
نِری : صرف
ہنر : کام کرنے کی صلاحیت، فن
نِکمّی : بے کار
غور کیجیے:
دنیا میں کوئی چیز اپنے قد کی وجہ سے اہم نہیں ہوتی ، اصل اہمیت کام کی ہے۔

سوچیے اور بتائیے:
سوال: پہاڑ نے گلہری سے ڈوب مرنے کو کیوں کہا؟
جواب: پہاڑ کے نظریے سے گلہری ایک ذرا سی چیز ہے پھر بھی اس کو بہت غرور ہے۔ساتھ ہی نہ اس کے پاس عقل ہے نہ شعور پھر بھی خود کو بہت بڑا سمجھتی ہے۔

سوال: گلہری نے پہاڑ کو کیا جواب دیا؟
جواب: گلہری نے پہاڑ کی باتیں سن کر پہاڑ کو منھ سبھالنے کے لیے کہا اور کہا کہ ان کچّی باتوں کو دل سے نکالے۔اس نے کہا کہ میں اگر تمہاری طرح بڑی نہیں ہوں تو کیا ہوا۔ خدا کے کارخانے میں کوئی بڑا کوئی چھوٹانہیں اس نے  سب کو الگ الگ کام کے لئے بنایا ہے۔

 سوال: پہاڑ نے اپنی بڑائی میں کیا کہا؟
جواب: پہاڑ نے اپتی بڑائی کرتے ہوئے گلہری کو نیچا دکھایا اور کہا کہ  پہاڑ کی آن بان کے آگےزمین بھی پست ہے۔تو اس کے آگے ایک گلہری  کی کیا حیثیت ہے۔

 سوال: گلہری ایسا کون سا کام کر سکتی ہے جو پہاڑ کے بس کا نہیں؟
 جواب: گلہری درخت پہ چڑھ سکتی ہے، چھالیا توڑ سکتی ہے لیکن پہاڑ یہ سب نہیں کر سکتا۔

 سوال: کن باتوں سے خدا کی قدرت کا پتہ چلتا ہے؟
جواب: دنیا کی ہر چیز سے خدا کی حکمت ظاہر ہوتی ہے، کوئی بھی چیز بیکار نہیں ، دنیا میں خدا کی بنائی ہوئی کوئی بھی چیز بری نہیں۔

عملی کا م:
* ”غرور/شعور“
* ”چیز/تمیز“
* ان لفظوں کو بلند آواز سے پڑھ کر معلوم کیجیے کہ ان کی آوازیں آخر میں کیسی ہیں۔ ایسے ہی ایک جیسی آوازوں پر ختم ہونے والے دوسرے الفاظ نظم سے تلاش کر کے اپنی کاپی میں لکھیے ۔ استاد سے پوچھیے کہ ایسے لفظوں کو کیا کہتے ہیں؟

کلک برائے دیگر اسباق

خوش خبری