آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Sunday 19 August 2018

Aks e Dil --- عکسِ دل


متفرق اشعار

الف
نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے
اقبالؒ
کانٹے تو خیر کانٹے ہیں ان سے گلہ ہے کیا
پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا
ساغر صدیقی
ہم فقیروں سے بے ادائی کیا
آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا
میر تقی میر
سخت کافر تھا جس نے پہلے میر
مذہبِِ عشق اختیار کیا
میر تقی میر
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار ِیار ہو گا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا
اقبالؒ
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہونگے کوئی ہم سا ہو گا
(ناصرکاظمی)
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
 میر تقی میر
تدبیر میرے عشق کی کیا فائدہ طبیب
اب جان ہی کے ساتھ یہ آزار جائے گا
میر تقی میر
ٹوٹا کعبہ کون سی جائے غم ہے شیخ
کچھ قصر دل نہیں کہ بنایا نہ جائے گا
قائم چاند پوری
ساغر وہ کہہ رہے تھے کی پی لیجئے حضور
ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا!
ساغر صدیقی
ہشیار یار جانی، یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یہاں ٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
نظیر اکبر آبادی
زاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں
کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایمان بہہ گیا
ذوق
آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں
ساغر صدیقی
نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے
اقبالؒ
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار ِیار ہو گا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا
اقبالؒ
ابھی بہت دل میں ہیں امیدیں تڑپ کے حسرت سے مر نہ جائے
ملو اگر شاد سے عزیزو! توذکر کرنا نہ آرزو کا!
شاد
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
اکبر الہ آبادیؒ
آئے بھی لوگ، بیٹھے بھی، اٹھ بھی کھڑے ہوئے
میں جا ہی ڈھونڈھتا تیری محفل میں رہ گیا
آتش
دی مؤذن نے شب وصل اذاں پچھلی رات
ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا
داغ دہلوی
یہ مے چھلک کے بھی اُس حُسن کو پہنچ نہ سکی
یہ پھول کھِل کے بھی تیرا شباب ہو نہ سکا
اختر شیرانی
تمہیں چاہوں، تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں
مرا دل پھیر دو، مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا
مضطر خیر آبادی
دیکھ کر ہر درو دیوار کو حیراں ہونا
وہ میرا پہلے پہل داخل زنداں ہونا
عزیز لکھنوی
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا
غالب
اذاں دی کعبے میں، ناقوس دیر میں پھونکا
کہاں کہاں ترا عاشق تجھے پکار آیا
محمد رضا برق
اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن
بھولتا ہی نہیں عالم تیری انگڑائ کا
عزیز لکھنوی
الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
مومن خان مومن
مرے لہو میں رواداریوں کی خوشبو ہے
میں ترک اپنی شرافت کبھی نہیں کرتا
رحمت رسول رحمتؔ لکھنؤی
اقبال بڑا اپدیشک ہے ، من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا
اقبالؒ
ت
ہم نہ کہتے تھے کہ حالی چپ رہو
راست گوئی میں ہے رسوائی بہت
حالی
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
(علامہ اقبال)
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
(اقبال)
د
قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
مولانا محمد علی جوہر
میرے سنگ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے، یا استاد
میر تقی میر

ر
اسی لئے تو قتل عاشقاں سے منع کرتے ہیں
اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کاررواں ہو کر
خواجہ وزیر

دیارِعشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
علامہ اقبالؒ
وہ جلد آئیں گے یا دیر میں خدا جانے
میں گل بچھاؤں کہ کلیاں بچھاؤں بستر پر
جاوید لکھنوی
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
علامہ اقبال
اگرچہ ہم جا رہے ہیں محفل سے نالہ ء دل فگار بن کر
مگر یقیں ہے کہ لوٹ آئیں گے نغمہ ء نو بہار بن کر
ساغر صدیقی
یہ کیا قیامت ہے باغبانوں کے جن کی خاطر بہار آئی
وہی شگوفے کھٹک رہے ہیں تمھاری آنکھوں میں خار بن کر
ساغر صدیقی
پھول کی پتیّ سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک ہ بے اثر
اقبال


س
بہت کچھ ہے کرو میر بس
کہ اللہ بس اور باقی ہوس

( میر تقی میر)
ل
آ عندلیب مل کر کریں آہ وزاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلاوں ہائے دل
اقبال


ں
نہ آئے نزع میں اب کیوں لحد پہ روتے ہیں
یہ کیسی چھیڑ نکالی ہے کہہ دو سوتے ہیں
شاد عظیم آبادی
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
غالب
داور حشر میرا نامہ ء اعمال نہ دیکھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
محمد دین تاثیر
مے پئیں کیا کہ کچھ فضا ہی نہیں
ساقیا باغ میں گھٹا ہی نہیں
امیر مینائی
اب یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی
یاروں نے کتنی دور بسائ ہیں بستیاں
فراق گورکھپوری
داور حشر میرا نامہ ء اعمال نہ دیکھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
محمد دین تاثیر
اب یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی
یاروں نے کتنی دور بسائ ہیں بستیاں
فراق گورکھپوری
خلاف شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں
مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں
اکبر الہ آبادی
سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں
داغ دہلوی
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانےکس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
ساغر صدیقی
سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں
رحمت رسول رحمتؔ لکھنؤی
آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں
ساغر صدیقی
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں
مرزا غالب
دام و در اپنے پاس کہاں
چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں
غالب
گرہ سے کچھ نہیں جاتا، پی بھی لے زاہد
ملے جو مفت تو قاضی کو بھی حرام نہیں
امیر مینائی
دنیا میں ہوں، دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں، خریدار نہیں ہوں
اکبر الہ آبادی
ک
 آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک
مرزاغالب

و
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
کلیم عاجز
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
کلیم عاجز
حیات لے کے چلو، کائینات لے کے چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو
مخدوم محی الدین
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
میاں داد خان سیاح
رندِخراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
ابراہیم ذوق
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
میاں داد خان سیاح
لگا رہا ہوں مضامین نو کے انبار
خبر کرو میرے خرمن کے خوشہ چینوں کو
میر انیس

ہ
خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ
خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ
حضرت علامہ اقبالؒ

محشر کا خیر کچھ بھی نتیجہ ہو اے عدم
کچھ گفتگو تو کھل کے کرینگے خدا کے ساتھ
عبدالحمید عدم

دینا وہ اُس کا ساغرِ مئے یاد ہے نظام
منہ پھیر کر اُدھر کو اِدھر کو بڑھا کے ہاتھ
نظام رام پوری
چل پرے ہٹ مجھے نہ دکھلا مُنہ
اے شبِ ہجر تیرا کالا مُنہ

بات پوری بھی مُنہ سے نکلی نہیں
آپ نے گالیوں پہ کھولا مُنہ
مومن خان مومن
ی
ہزار شیخ نے داڑھی بڑھائی سن کی سی
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
اکبر الہ آبادی
کعبے کس منہ سے جا وگے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
مرزا غالب
لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
علامہ اقبال

ابھی بے تاج مت ہمکو سمجھنا
ابھی اُردو وراثت ہے ہماری
مستؔ حفیظ رحمانی
بھانپ ہی لیں گے اشارہ سر محفل جو کیا
تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہی
دن کٹا، جس طرح کٹا لیکن
رات کٹتی نظر نہیں آتی
سید محمد اثر
نئی تہذیب سے ساقی نے ایسی گرمجوشی کی
کہ آخر مسلموں میں روح پھونکی بادہ نوشی کی
اکبر الہ آبادی
راہ میں ان سے ملاقات ہوئی
جس سے ڈرتے تھے، وہی بات ہوئی
مصطفی ندیم
گو واں نہیں ، پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں
کعبے سے ان بتوں کو نسبت ہے دور کی
غالب

جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
غالب
گو واں نہیں ، پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں
کعبے سے ان بتوں کو نسبت ہے دور کی
غالب

جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
غالب
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئ
اب تو آجا اب تو خلوت ہو گئ
عزیز الحسن مجذوب
یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
اقبال
وہ آئے بزم میں اتنا تو برق نے دیکھا
پھر اسکے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
مہاراج بہادر برق
اک ادا مستانہ سر سے پاؤں تک چھائی ہوئی
اُف تری کافر جوانی جوش پر آئی ہوئی
داغ
صد سالہ دور چرخ تھا ساغر کا ایک دور
نکلے جو مے کدے سے تو دنیا بدل گئی
گستاخ رام پوری

ے
پھرتے تھے دشت دشت دوانے کدھر گئے
وہ عاشقی کے ہائے زمانے کدھر گئے؟؟
شاد

میں تو اس سادگیٔ حسن پہ صدقے اس کے
نہ جفا آتی ہے جس کو نہ وفا آتی ہے
جگر مراد آبادی

ان کے بھولے پن کے صدقے جائیے
کہتے ہیں'مجھ سے تمہیں کیا کام ہے'

نامعلوم

بظاہر سادگی سے مسکرا کر دیکھنے والو
کوئی کمبخت نا واقف اگر دیوانہ ہو جائے
حفیظ جالندھری

اُس فتنۂ شباب کا عالم نہ پوچھیے
اک حشر اٹھ رہا ہے تماشہ لئے ہوئے
حفیظ جالندھری

شباب میکش، خیال میکش، جمال میکش، نگاہ میکش
خبر وہ رکھیں گے کیا کسی کی انہیں خود اپنی خبر نہیں ہے
جگر مراد آبادی


کہہ تو دیا، اُلفت میں ہم جان کے دھوکا کھائیں گے
حضرتِ ناصح!خیر تو ہے، آپ مجھے سمجھائیں گے؟
ماہر القادری
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
میرتقی میر
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
امیر مینائی

چل ساتھ کہ حسرت دلِ محروم سے نکلے
عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
فدوی عظیم آبادی

مداعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
آتش

فصل بہار آئی، پیو صوفیو شراب
بس ہو چکی نماز، مصلّا اٹھائیے
آتش

مری نمازجنازہ پڑھی ہے غیروں نے
مرے تھےجن کے لئے، وہ رہے وضو کرتے
آتش

امید وصل نے دھوکے دئیے ہیں اس قدر حسرت
کہ اس کافر کی ‘ہاں’ بھی اب ‘نہیں’ معلوم ہوتی ہے
چراغ حسن حسرت

چتونوں سے ملتا ہے کچھ سراغ باطن کا
چال سے تو کافر پہ سادگی برستی ہے
یگانہ چنگیزی

یہی فرماتے رہے تیغ سے پھیلا اسلام
یہ نہ ارشاد ہوا توپ سے کیا پھیلا ہے
اکبر الہ آبادیؒ

توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جائیے
بندہ پرور جائیے، اچھا ، خفا ہو جائیے
حسرت موہانی

دیکھ آءو مریض فرقت کو
رسم دنیا بھی ہے، ثواب بھی ہے
حسن بریلوی


حضرتِ ڈارون حقیقت سے نہایت دور تھے
ہم نہ مانیں گے کہ آباء آپ کے لنگور تھے
اکبر الہ آبادی

دیکھا کئے وہ مست نگاہوں سے بار بار
جب تک شراب آئے کئی دور ہو گئے
شاد عظیم آبادی

فسانے اپنی محبت کے سچ ہیں، پر کچھ کچھ
بڑھا بھی دیتے ہیں ہم زیب داستاں کے لئے
شیفتہ

زرا سی بات تھی اندیشہِ عجم نے جسے
بڑھا دیا ہے فقط زیبِ داستاں کے لیے
علامہ اقبالؒ

وہ شیفتہ کہ دھوم ہے حضرت کے زہد کی
میں کیا کہوں کہ رات مجھے کس کے گھر ملے
شیفتہ
ہر چند سیر کی ہے بہت تم نے شیفتہ
پر مے کدے میں بھی کبھی تشریف لائیے
شیفتہ

شب ہجر میں کیا ہجوم بلا ہے
زباں تھک گئ مرحبا کہتے کہتے
مومن خان مومن
کوچہ ٔ عشق کی راہیں کوئی ہم سے پوچھے
خضر کیا جانیں غریب، اگلے زمانے والے
وزیر علی صبا

غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے
غالب
فکر معاش، عشق بتاں، یاد رفتگاں
اس زندگی میں اب کوئی کیا کیا کیا کرے
سودا
بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو
جو تیرے آستاں سے اٹھتا ہے
میر تقی میر

نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے
اقبالؒ
فکر معاش، عشق بتاں، یاد رفتگاں
اس زندگی میں اب کوئی کیا کیا کیا کرے
سودا
یہ بزم مئے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں وہ جام اسی کا ہے
(شاد عظیم آبادی)

اگر بخشے زہے قسمت نہ بخشے تو شکایت کیا
سر تسلیمِ خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے
میرتقی میر

شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہئیے
 میر تقی میر
نیرنگئ سیاست دوراں تو دیکھئے
منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
 محسن بھوپالی
فضا کیسی بھی ہو وہ رنگ اپنا گھول لیتا ہے
سلیقے سے زمانے میں جو اردو بول لیتا ہے
سلیمؔ صدیقی
کسی کسی کو خدا یہ کمال دیتا ہے
جو اپنے غم کو ہوا میں اچھال دیتا ہے
سلیم اخترؔ
ہمارے منہ پہ وہ کہتے ہیں بے وقوف ہمیں
جنہیں شعور کی خیرات بانٹ دی ہم نے
عمرؔ فاروقی
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانےکس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
ساغر صدیقی
اُن کے آتے ہی میں نے دل کا قصہ چھیڑ دیا
اُلفت کے آداب مجھے آتے آتے آئیں گے
ماہر القادری
پڑے بھنکتے ہیں لاکھوں دانا، کروڑوں پنڈت، ہزاروں سیانے
جو خوب دیکھا تو یار آخر، خدا کی باتیں خدا ہی جانے
نظیر اکبر آبادی
شباب میکش، خیال میکش، جمال میکش، نگاہ میکش
خبر وہ رکھیں گے کیا کسی کی انہیں خود اپنی خبر نہیں ہے
جگر مراد آبادی
عجیب لوگ ہیں کیا خوب منصفی کی ہے
ہمارے قتل کو کہتے ہیں، خودکشی کی ہے
حفیظ میرٹھی
اُن کے آتے ہی میں نے دل کا قصہ چھیڑ دیا
اُلفت کے آداب مجھے آتے آتے آئیں گے
ماہر القادری
فضا کیسی بھی ہو وہ رنگ اپنا گھول لیتا ہے
سلیقے سے زمانے میں جو اردو بول لیتا ہے
سلیمؔ صدیقی
کسی کسی کو خدا یہ کمال دیتا ہے
جو اپنے غم کو ہوا میں اچھال دیتا ہے
سلیم اخترؔ
ہمارے منہ پہ وہ کہتے ہیں بے وقوف ہمیں
جنہیں شعور کی خیرات بانٹ دی ہم نے
عمرؔ فاروقی
مجھے رحم آتا ہے دیکھ کر ترا حال اکبرِ نوحہ گر
تجھے وہ بھی چاہے خدا کرے کہ تو جس کا عاشق زار ہے
اکبر الہ آبادی
کہوں کس سے قصۂ درد و غم، کوئی ہمنشیں ہے نہ یار ہے
جو انیس ہے تری یاد ہے، جو شفیق ہے دلِ زار ہے
اکبر الہ آبادی

Aqalmand Kisaan - NCERT Solutions Class VI Urdu -

  Aqalmand Kisaan Chapter 3 Apni Zaban Class 6 NCERT Urdu Solutions

عقل مند کسان
Courtesy NCERT
Courtesy NCERT

پرانے زمانے میں بھارت میں ایک راجا راج کرتا تھا۔ یہ را جا بہت رحم دل تھا۔ اس کے راج میں سب خوش تھے ۔ را جا اپنی پر جا کی حالت دیکھنے کے لیے کبھی کبھی محل سے باہر نکلا کرتا۔ سب لوگ راجا کی عزت کرتےتھے۔ ایک دن راجا گھومنے گیا ۔ راستے میں اسے ایک کسان دکھائی دیا۔ کسان اپنے کھیت پر کام کر رہا تھا۔ راجا اس کے کھیت پرگیا ۔ اس کھیت میں کسان نے گیہوں بو رکھے تھے۔ کھیت بہت ہرا بھرا تھا۔ راجا کھیت دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اس نے کسان سے جا کر پوچھا ”تم اس کھیت سے کتنا کما لیتے ہو؟“
کسان نے جواب دیا ”حضور بس یہ سمجھ لیجیے ایک روپیہ روز کے حساب سے پڑ جاتا ہے۔“ ”اچھا ایک روپیہ روز تو پھر تم اس ایک روپیہ کا کیا کرتے ہو؟‘‘ راجا نے پوچھا۔
”جی اس ایک روپیہ میں چار آنے تو روز کھا لیتا ہوں۔ چار آنے کا قرض اتارتا ہوں اور چار آنے قرض دیتا ہوں۔ اب باقی بچے چارآنے تو انھیں کنویں میں پھینک دیتا ہوں۔“
راجا کسان کی بات سن کر حیران ہوا، اس سے پوچھا ”میں تمھاری بات کا مطلب نہیں سمجھا۔ مجھے اس کا مطلب بتاؤ۔“ کسان نے ہاتھ جوڑ کر کہا ”حضور اس کا مطلب یہ ہے کہ چارآنے جو کھاتا ہوں وہ تو میرے اوپر اور میری بیوی پر خرچ ہوتے ہیں، چار آنے کا جو میں قرض اتارتا ہوں اس کا مطلب ہے کہ چار آنے میں اپنے ماں اور باپ پر خرچ کرتا ہوں۔ انھوں نے مجھے پالنے پوسنے پر جو خرچ کیا تھا وہ مجھ پر قرض ہے۔ چار آنے  جو قرض دیتا ہوں وہ میں اپنے بچوں پر خرچ کرتا ہوں تا کہ جب بوڑھا ہو جاؤں تو وہ میری خدمت کر سکیں۔ چار آنے جو کنویں میں پھینکتا ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ میں اتنا خیرات کرتا ہوں۔ “راجا یہ جواب سن کر بہت خوش ہوا۔ اس نے کسان کو انعام دیا اور کہا ” دیکھو جب تک تم میرا منھ سو بار نہ دیکھ لو اس بات کو کسی کو نہ بتانا۔‘‘ کسان نے وعدہ کر لیا۔ راجا اپنے محل واپس چلا آیا۔
اگلے دن اس نے یہ بات درباریوں کو بتائی اور اس نے سب سے اس کا مطلب پوچھا مگر کوئی بھی اس کا مطلب نہ بتا سکا۔ وزیر بہت ہوشیار تھا۔ اس نے راجا سے کہا ”سرکار کل میں اس کا مطلب آپ کو بتا دوں گا ۔“
وزیر اسی دن اس کسان کے پاس گیا اور اس سے اس کی بات کا مطلب پوچھا۔ کسان نے کہا”راجا نے مجھے منع کیا ہے۔ میں جب تک سو بار اس کا منہ نہ دیکھ لوں تمھیں اس کا مطلب نہیں بتا سکتا۔“
وزیر نے کہا ”کوئی ترکیب بتاؤ، میں راجا سے وعدہ کر چکا ہوں کہ کل اسے اس کا مطلب ضرور بتاؤں گا۔“
کسان کچھ دیر تک تو سوچتا رہا اور پھر اس نے کہا ”ایک ترکیب ہے، تم مجھے سو اشرفیاں دو، میں تمھیں یہ بات بتا دوں گا۔“ وزیر اس کے لیے تیار ہو گیا۔ اس نے کسان کو اسی وقت سو اشرفیاں دے دیں۔
کسان بہت خوش ہوا اور اس نے وزیر کو سب کچھ بتا دیا۔ اگلے دن دربار میں راجا نے وزیر سے کسان کی بات کا مطلب پوچھا تو وزیر نے کسان کی بات کا ٹھیک ٹھیک مطلب بتا دیا۔ راجا کو کسان پر بہت غصہ آیا۔ اس نے فوراً سپاہی بھیج کر کسان کو دربار میں بُلا بھیجا ۔ کسان دربار میں آیا تو راجا نے کہا ”تم نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ کسی کو اپنی بات کا مطلب نہیں بتاؤ گے لیکن تم نے وزیر کو سب کچھ بتا دیا۔ تم نے وعدہ خلافی کیوں کی؟“ کسان نے کہا ”سرکار آپ سے وعدہ کیا تھا کہ جب تک میں آپ کا منھ سو مرتبہ نہ دیکھ لوں اس راز کوکسی سے نہ بتاؤں۔ “
”ہاں ٹھیک ہے مگر تم نے ایک مرتبہ بھی میرا منھ نہیں دیکھا۔“ ”نہیں سرکار میرے پاس سو اشرفیاں ہیں ۔ ان پر آپ کی تصویر بنی ہے۔ میں نے سواشرفیوں کو دیکھ کر ہی یہ بات بتائی ہے ۔‘‘
راجا کسان کی عقل مندی پر بہت خوش ہوا اور اس نے اسے سو اشرفیاں اور انعام میں دیں۔ کسان خوش خوش راجا کو دعائیں دیتا ہوا اپنے گھر چلا گیا۔
(لوک کہانی)
معنی یاد کیجیے
 راج :  حکومت
 پرجا  :  عوام
 خیرات  :  ثواب کی نیت سے کچھ دینا
 قرض  اُدھار
 راز  بھید
 وعدہ خلافی  وعدے سے  پِھر جانا
 دربار  شاہی عدالت
 درباری  دربار میں حاضری دینے والے
 اشرفی  سونے کا سِکّہ








سوچیے اور بتائیے
سوال1: راجا محل سے باہر کیوں نکلتا تھا؟
جواب: راجا اپنی پرجا کی حالت دیکھنے کے لیے کبھی کبھی محل سے باہر جاتا تھا۔

سوال2: راجا نے کسان سے کیا سوال کیا؟
جواب: راجا نے کسان سے پوچھا کہ وہ اس کھیت سے کتنا کما لیتا ہے اور وہ ان روپیوں کا کیا کرتا ہے۔

سوال3: کسان ایک روپیہ کس طرح خرچ کرتا تھا؟
جواب: کسان ایک روپیہ میں سےچار آنے روز کھا لیتا تھا،چار آنے کا قرض اتارتا تھا،اور چار آنے کا قرض دیتا تھا،باقی بچے چار آنے تو انھیں کنویں میں پھینک دیتا تھا۔

سوال4: کسان نے ایک روپیے کے خرچ کا کیا مطلب بتایا؟
جواب: کسان نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ  چار آنے جو وہ  کھاتا ہے وہ تو اس کے اوپر اور اس کی بیوی پر خرچ ہوتے ہیں، کسان چار آنے کا جو قرض ادا کرتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ چار آنے وہ اپنے ماں اور باپ پر خرچ کرتا ہے، چار آنے جو قرض دیتا ہے وہ کسان اپنے بچّوں پر خرچ کرتا ہے تاکہ جب وہ بوڑھا ہوجائے تو وہ اس کی خدمت کر سکیں۔چار آنے جو کنویں میں پھینکتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسے خیرات کرتا ہے۔

سوال5: راجا کو کسان پر کیوں غصّہ آیا؟
جواب:راجا کو کسان پر اس لیے غصّہ آیا کیونکہ کسان نے راجا سے کیا وعدہ توڑ دیا اور وزیر کو سب کچھ بتا دیا۔

سوال6: کسان نے راجا سے کیا وعدہ کیا تھا؟
جواب: کسان نے راجا سے وعدہ کیا تھا کہ جب تک وہ راجا کا منھ سو بار نا دیکھ لے اس بات کو کسی کو نہیں بتائےگا۔

سوال7: کسان نے اپنا وعدہ کس طرح نبھایا؟
جواب: کسان نے وزیر سے سو اشرفیاں لیں،جن پر راجا کی تصویر بنی تھی،کسان نے سو اشرفیوں کو دیکھ کر ہی وزیر کو یہ بات بتائی،اس طرح کسان نے اپنا وعدہ نبھایا۔

خالی جگہ کو صحیح لفظ سے بھریے
1. پرانے زمانے میں بھارت میں ایک راجا راج کرتا تھا۔ 
2. کسان اپنے کھیت پر کام کر رہا تھا۔
3. ایک روپیہ روز کے حساب سے پڑجاتا ہے۔
4. وزیر اسی دن کسان کے پاس گیا۔
5. مجھے سو اشرفیاں دو میں تمہیں یہ بات بتا دوں گا۔
6. کسان خوش خوش راجا کو دعائیں دیتا ہوا اپنے گھر چلا گیا۔

صحیح جملے پر صحیح اور غلط پر غلط کا نشان لگائیے
1. راجا بہت رحم دل تھا۔(صحیح)
2. کسان نے کھیت میں چاول بو رکھے تھے۔(غلط)
3. کسان روزانہ پانچ روپے کماتا تھا۔(غلط)
4. وزیر نے کہا سرکار کل میں اس کا مطلب آپ کو بتادوں گا۔(صحیح)
5. وزیر نے کسان کو ہزار اشرفیاں دیں۔(غلط)
 
نیچے دیے ہوئے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے
ہرا بھرا : میں نے گاؤں میں ہرا بھرا کھیت دیکھا۔
قرض : میں نے کبھی کسی سے قرض نہیں لیا۔
خرچ : ہمیں اپنا مال و دولت الله کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے۔
خدمت : ہمیں اپنے والدین کی خدمت کرنی چاہیے۔
ترکیب : یہ ترکیب مجھے انور ہی نے بتائی۔
غصّہ :غصّہ انسان کو نقصان پہنچاتا ہے۔
وعدہ خلافی : شائستہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتی۔

ان لفظوں کے متضاد لکھیے
رحم دل : بےرحم
بوڑھا : جوان
عزت : بے عزت
ہوشیار : غافل
خوش : اداس

غور کرنے کی بات
راجا کسان کی بات سن کر حیران ہوا۔
راجا کو کسان پر بہت غصہ آیا۔
ان دو جملوں میں ”کی“ اور ”کو“ استعمال ہوا ہے۔ یہ ایسے لفظ ہیں جن کے الگ معنی نہیں، لیکن یہ دو لفظوں کے درمیان ایسا تعلق قائم کرتے ہیں کہ یہ اگر نہ ہو تو سارا جملہ بے ربط ہو جاتا ہے۔ قوائد میں انہیں حروفِ ربط کہتے ہیں۔
حضور،سرکار، مہاراج وغیرہ کلمے عزت اور احترام کے لیے بولے جاتے ہیں۔ 
کسان اپنی کمائی کا ایک حصہ ماں باپ پر ضرور خرچ کرتا تھا۔
 آپ نے دیکھا کہ راجا،کسان اور وزیر کی بات چیت کے شروع اور آخر میں دو چھوٹے چھوٹے سیدھے الٹے واؤ ”و“ بنے ہوئے ہیں انھیں واوین کہتے ہیں ۔ مثلاً ”تم اس کھیت سے کتنا کما لیتے ہو۔“
دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Aitbaar - NCERT Solutions Class VII Urdu

اعتبار
سدرشن
Courtesy NCERT
Courtesy NCERT

ماں کو اپنے بیٹے اور زمیندار کو اپنے لہلہاتے ہوئے سر سبز و شاداب کھیت دیکھ کر جو خوشی ہوتی ہے وہی خوشی بابا  بھارتی کو اپنا گھوڑا دیکھ کر ہوتی تھی ۔ یہ گھوڑا بڑا خوبصورت تھا۔ اس کے مقابلے کا گھوڑا سارے علاقے میں نہ تھا۔ بابا بھارتی اسے سلطان کہہ کر بلاتے تھے۔ اپنے ہاتھ سے کھر یرا کرتے ، اپنے ہاتھ سے دانہ کھلاتے اور دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے ۔ سلطان سے جدائی کا خیال بھی اُن کے لیے نا قابل برداشت تھا۔ ان کو وہم ہوگیا تھا کہ ”میں اس کے بغیر زندہ نہ رہ سکوں گا‘‘۔ وہ اس کی چال پر فریفتہ تھے۔ کہتے : ” اس طرح چلتا ہے جیسے طاؤس او دی او دی گھٹاؤں کو دیکھ کر ناچ رہا ہو ۔ گاؤں کے لوگ اس محبت پر حیران تھے ۔ بعض وقت کنکھیوں سے اشارے بھی کرتے تھے مگر بابا بھارتی کو اس کی پروا  نہ تھی۔ جب تک شام کو وہ سلطان پر سوار ہوکر آٹھ دس میل کا چکّر نہ لگاتے انھیں چین نہ آتا۔
کلہن اس علاقے کا مشہور ڈاکو تھا۔ لوگ اس کا نام سُن کر تھرّاتے تھے۔ ہوتے ہوتے سلطان کی شہرت اُس
کے بھی کانوں تک پی ۔ شوق نے دل میں چٹکی لی۔ ایک دن دوپہر کے وقت بابا بھارتی کے پاس پہنچا اور نمسکارا کر کے کھڑا ہو گیا۔
بابا بھارتی نے پوچھا: ” کابین ! کیا حال ہے؟ 
کلہن نے سر جھکا کر جواب دیا ” آپ کی مہربانی ہے۔
کہو، ادھر کیسے آگئے ؟ 
سلطان کی شہرت کی   کھینچ لائ ہے۔
عجیب جانور ہے خوش ہو جاؤ گے ۔“ ”
 میں نے بڑی تعریف سنی ہے۔“
 اس کی چال تمہارا دل موہ لے گی ۔
 کہتے ہیں شکل بھی بڑی خوبصورت ہے۔“
 کیا کہنے جو اسے ایک دفعہ دیکھ لیتا ہے، اس کے دل پر اس کی صورت نقش ہو جاتی ہے۔ 
مدت سے ترس رہا تھا، آج حاضر ہوا ہوں۔“
بابا اور کلہن دونوں اصطبل میں پہنچے۔ بابا نے بڑے غرور سے گھوڑا دکھایا ۔ کلہن نے حیرت سے گھوڑے کو دیکھا۔ اس نے ہزاروں گھوڑے دیکھے تھے ، لیکن ایسابانکا گھوڑا اس کی نگاہ سے آج تک نہ گزرا تھا۔ سوچنے لگا قسمت کی بات ہے۔ ایسا گھوڑا میرے پاس ہونا چاہیے تھا۔ اس فقیر کو ایسی چیزوں سے کیا نسبت۔ اس کی چال دیکھ کر کلہن کے سینے پر سانپ لوٹ گیا۔ وہ ڈاکو تھا۔ اس کے پاس طاقت تھی۔
اس نے کہا: ”باباصاحب! اس گھوڑے کو تو میرے پاس ہونا چاہیے تھا۔ یہ کہ کر وہ چلا گیا۔
با با خوف زدہ ہو گئے ۔ اب انھیں رات کو نیند نہ آتی تھی ۔ ساری ساری رات اصطبل کی خبر گیری میں کٹنے لگی۔ ہر وقت کلہن کا خطرہ لگا رہتا تھا، مگر کئی مہینے گزر گئے اور وہ نہ آیا۔ یہاں تک کہ بایا بھارتی کسی حد تک بے پروا ہو گئے۔
شام کا وقت تھا۔ بابا بھارتی سلطان کی پیٹھ پر سوار ہو کر سیر کو جارہے تھے۔ یکا یک ایک طرف سے آواز آئی : او با با !ذرا اک محتاج کی بات سنتے جاؤ۔ٌ
آواز میں رقّت تھی۔ بابا نے گھوڑا روک لیا۔ دیکھا تو ایک اپاہج درخت کے سائے تلے پڑا کراہ رہا تھا۔ بابا بھارتی کادل پسیج گیا، پولے: کیوں تمھیں کیا تکلیف ہے؟
اپاہج نے ہاتھ باندھ کر کہا: بابا! میں دکھی ہوں، مجھ پر مہربانی کرو۔ راما والا یہاں سے تین میل کے فاصلے پر ہے۔ مجھے وہاں جانا ہے۔ گھوڑے پر چڑھالو۔ پر ماتماتمھارا بھلا کرے گا۔
وہاں تمھارا کون ہے؟ بابا نے پوچھا۔ 
درگادت حکیم کا نام آپ نے سنا ہوگا، میں ان کا سوتیلا بھائی ہوں۔“
بابا بھارتی نے گھوڑے سے اتر کر اپاہج کو گھوڑے پر سوار کیا اور خود اس کی لگام پڑ کر آہستہ آہستہ چلنے لگے۔ اچانک انھیں ایک جھٹکا سا محسوس ہوا اور لگام ہاتھ سے چھوٹ گئی ۔ جب انھوں نے دیکھا کہ ایک ایاہج گھوڑے کی پیٹھ پرتن کر بیٹھا اسے دوڑائے لیے جارہا ہے تو ان کی حیرت کا ٹھکانہ نہیں رہا۔ ان کے منہ سے چیخ نکل گئی ۔ یہ اپاہج کلہن ڈاکو تھا۔
بابا بھارتی کچھ دیر خاموش رہے۔ اس کے بعد پوری قوت سے چلا کر کہا :” ذ راٹهر و!“
کلہن نے یہ آواز سن کر گھوڑا روک لیا اور اس کی گردن پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا: بابا صاحب! یہ گھوڑا اب نہ دوں گا۔
بابا بھارتی نے قریب آکر کہا” یہ گھوڑا تمھیں مبارک ہو۔ میں تمھیں اس کی واپسی کے لیے نہیں کہتا مگر کلہن تم سے صرف ایک درخواست کرتا ہوں، اسے ردّنہ کرنا  ور نہ میرے دل کو سخت صدمہ پہنچے گا۔ بابا حکم دیجیے !
 میں آپ کا غلام ہوں ، صرف یہ گھوڑا نہ دوں گا۔“ اب گھوڑے کا نام نہ لو۔ میں تمھیں اس کے بارے میں کچھ نہ کہوں گا۔ میری درخواست صرف یہ ہے کہ اس واقعے کا ذکر نہ ہونے پائے۔
کلہن کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا۔ اسے خیال تھا کہ بابا بھارتی اس چوری کی اطلاع پلس میں دے کر مجھے گرفتار کرا دیں گے۔ وہ سوچ رہا تھا کہ مجھے اس گھوڑے کو لے کر روپوش ہو جانا چاہیے۔ اس نے بابا بھارتی کے چہرے پر اپنی آنکھیں گاڑیں اور پوچھا: ”بابا صاحب! اس میں آپ کو کیا خطرہ ہے؟
بابا بھارتی نے جواب دیا: ” لوگوں کو اگر اس واقعے کا علم ہو گیا تو وہ کسی غریب پر اعتبار نہ کریں گے۔
اور یہ کہتے کہتے انھوں نے سلطان کی طرف سے اس طرح منہ موڑ لیا جیسے ان کا اس سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ با یا بھارتی تو چلے گئے مگر ان کا فقر کلہن کے کانوں میں اب تک گونج رہا تھا۔ سوچتا تھا بابابھارتی کا خیال کتنا اونچا
ہے۔ اگر چہ بابا صاحب کو اس گھوڑے سے عشق تھا، مگر آج ان کے چہرے پر ذرا بھی ملال نہ تھا۔ انھیں صرف یہ
خیال ستارہ تھا کہ کہیں لوگ غریبوں پر اعتبار کرنا نہ چھوڑ دیں۔ انھوں نے اپنے ذاتی نقصان کو انسانیت کے نقصان پر قربان کر دیا۔ ایسا آدمی آدمی نہیں فرشتہ ہے۔
رات کی تاریکی میں کلہن بابا بھارتی کے گھر پہنچا۔ چاروں طرف سناٹا تھا۔ آسمان پر تارے ٹمٹمارہے تھے۔ کلہن سلطان کی لگام پکڑے آہستہ آہستہ اسطبل کے دروازے پر پہنچا۔ دروازہ کھلا تھا۔ کبھی وہاں بابا بھارتی لاٹھی
لے کر پہرہ دیتے تھے۔ کلہن نے آگے بڑھ کر سلطان کو اس کی جگہ پر باندھ دیا اور باہر نکل کر دروازہ احتیاط سے بند کر دیا۔ اس وقت اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔
صبح ہوتے ہی بایا بھارتی نے اپنے کمرے سے نکل کر سرد پانی سے غسل کیا۔ اس کے بعد ان کے پاؤں اسطبل کی طرف اس طرح بڑ ھے جیسے کوئی خواب میں چل رہا ہو مگر دروازے پر پہنچتے ہی وہ چونک پڑے۔ انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اب گھوڑا وہاں کہاں تھا۔
گھوڑے نے اپنے مالک کے قدموں کی چاپ کو پہچان لیا اور زور سے ہنہنایا۔ بابا بھارتی دوڑتے ہوئے اصطبل کے اندر چلے گئے اور اپنے گھوڑے کے گلے سے لپٹ کر اس طرح رونے لگے جیسے بچھڑا ہوا  باپ مدت کے بعد بیٹے سے مل کر روتا ہے۔ بار بار اس کی گردن پر ہاتھ پھیرتے اور کہتے تھے اب کوئی غریبوں کی مدد کرنے سے انکار نہ کرے گا۔
سدرشن
سوچیے اور بتائیے
1.  بابا بھارتی اپنا گھوڑا دیکھ کر کیوں خوش ہوتے تھے ؟
جواب: بابا بھارتی اپنا گھوڑا دیکھ کر اس لیے خوش ہوتے تھے کیونکہ ان کا گھوڑا بہت ہی خوب صورت تھا۔ اس کے مقابلہ کا گھوڑا پورے علاقے میں نہ تھا۔

2.  بابا بھارتی کے گھوڑے کی چال کیسی تھی؟
جواب: بابا بھارتی کے گھوڑے کی چال ایسی تھی جیسے طاؤس اودی اودی گھٹاوں میں ناچ رہا ہو۔

3.  کلہن کون تھا؟ بابا اس سے خوفزدہ کیوں رہتے تھے؟
جواب: کلہن اس علاقہ کا مشہور ڈاکو تھا بابا اس سے خوفزدہ اس لیے تھا کیوں کہ اس کی نظر بابا بھارتی کے گھوڑے پر تھی اور وہ اسے حاصل کرنا چاہتا تھا۔

سوال: بابا بھارتی کا گھوڑا دیکھ کر کلہن کے سینے پر سانپ کیوں لوٹ گئے؟
جواب: چوںکہ بابا بھارتی کا گھوڑابہت ہی خوب صورت تھا اس کے مقابلہ کا گھوڑا پورے علاقے میں نہ تھا اس لیے کلہن کو اسے پانے کی چاہ ہوئی۔

سوال: اپاہج بن کر بابا بھارتی سے کس نے مدد مانگی؟
جواب: اپاہج بن کر بابا بھارتی سے کلہن نے مدد مانگی۔

سوال: بابا بھارتی نےکلہن سے کیا درخواست کی؟
جواب: بابا بھارتی نےکلہن سےدرخواست کی کہ کسی سے اس واقعہ کا ذکر نہ کرنا ۔

سوال: بابا بھارتی نے کلہن سے کیوں کہا کہ واقعہ کا ذکر کسی سے نہ کرنا؟
جواب: بابا نے ایسا اس لیے کہا کہ اگر لوگوں کو اس واقعے کا پتہ چلے گا تو وہ غریبوں اور معذوروں کی مدد کرنا چھوڑ دیں گے ۔

سوال: کلہن نے بابا بھارتی کہ بارے میں کیا سوچ کر گھوڑا ان کے اصطبل میں باندھ دیا؟
جواب: کلہن نے سوچا انہیں صرف یہ خیال ستا رہا ہے کہ کہیں لوگ غریبوں پر اعتبار کرنا چھوڑ نہ دیں۔ انہوں نے اپنے ذاتی نقصان کو انسانیت کے نقصان پر قربان کر دیا ۔ کلہن بابا بھارتی کے اچھے کردار سے متاثر ہوگیا اور یہ سوچ کر اس نے گھوڑا بابا بھارتی کہ اصطبل میں باندھ دیا ۔

سوال: اپنے گھوڑے کو واپس پا کر بابا بھارتی نے کیا کہا ؟
جواب: گھوڑے کو واپس پا کر بابا بھارتی نے کہا اب کوئی غریبوں کی مدد کرنے سےانکار نہیں کرے گا۔

نیچے لکھے ہوئی لفظوں کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے۔
لہلہانا : باغ میں پھول لہلہا رہے تھے۔
فریفتہ : وہ اپنے استاد پر فریفتہ تھا۔
خوف : خوف ِخدا سے اس کے ہاتھ کانپنے لگے۔
مہربانی : ہمیں سب سے مہربانی سے پیش آنا چاہیے۔
قسمت :  قسمت کے بھروسے بیٹھے رہنا ٹھیک نہیں۔
مدد : ہمیں دوسروں کی مدد کرنی چاہیے۔
بے پروا : صبا اپنے کام سے بے پروا ہے۔
درخواست : نسیم نے احمد سے مدد کی درخواست کی۔
قوت : مکے باز نے پوری قوت سے گھونسہ مارا۔
احتیاط : مچھلی کھانے میں احتیاط برتنی چاہیے۔

عملی کام
خوف زدہ ، خبر گیری ، بے پروا اور روپوش مرکب الفاظ ہیں ۔ مرکب سے مراد ایسا لفظ ہے جس میں ایک سے زیاده لفظ اس طرح مل گئے ہوں یا ملا دیے گئے ہوں کہ ان سے ایک ہی معنی لیے جاتے ہوں ۔ اس طرح آپ بھی پانچ نئے لفظ بنائیے۔

غور کیجیے اور لکھیے۔
بابا بھارتی#######دہلی#########گنگا
لڑکا###########گھوڑا#######دریا
روشنی####### خوشی #######غصّہ

* پہلی قسم کے نام خاص ہیں یا کسی خاص آدمی یا کسی شہر یا کسی خاص دریا کے لیے استعمال ہوئے ہیں انہیں اسم خاص یا اسم معرفہ کہتے ہیں۔ 
* دوسری قسم کے نام عام ہیں کہ کوئی بھی لڑکا یا کوئی بھی گھوڑا کوئی بھی دریا ہوسکتا ہے انھیں اسم عام یا اسم نکرہ کہتے ہیں۔
 * تیسری قسم کے نام کسی خاص حالت با کیفیت کو ظاہر کرتے ہیں ۔ انھیں اسم کیفیت کہتے ہیں۔ 
آپ بھی ان تینوں قسموں کے اسم تین تین سوچ کر لکھیے۔
شاہجہاں####### آگرہ ####### جمنا
لڑکی ####### بکری#######  ندی
اندھیرا ####### برائی#######  دوستی

غور کرنے کی بات 
*  پنڈت سدرشن اردو کے مشہور افسانہ نگار تھے۔ انھوں نے کئی دلچسپ اور سبق آموز کہانیاں لکھی ہیں ۔ 
*  کاہن ڈاکو بابا بھارتی کے گھوڑے کو دھوکے سے حاصل تو کر لیتا ہے لیکن وہ بابا بھارتی کے حسن اخلاق سے متاثر ہوکر گھوڑے کولوٹا دیتا ہے۔
* ہمیں یہ غور کرنا چاہیے کہ اچھے کردار کے اثر سے برے لوگ بھی متاثر ہوجاتے ہیں اور وہ اچھا عمل کرنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔

Saturday 18 August 2018

MariGold - Gende ke phool

گیندے کا پھول
 گل ِ صد بَرگ، دونا، گل مریم، ہزارا

گیندا ایک بہت ہی خوبصورت اور خوش رنگ پھول ہے۔ انگریزی میں اسے میری گولڈ کہتے ہیں۔

گیندے کا بیج موسم گرما کے آغاز میں اپنی پھلواری میں لگایا جاسکتا ہے۔گرمی کے موسم میں اس کا پودہ تیزی سے بڑھتا ہے اور تقریباً 8 ہفتوں میں یہ اپنے جوبن پر ہوتا ہے۔

گیندے کا شمار سورج مکھی کے خاندان میں ہوتا ہے اور اس کی نر و مادہ دونوں قسمیں ہوتی ہیں۔

گیندے کا پھول عام طور سے پیلا، زعفرانی، لال اور میرون ہوتا ہے۔

اس کی ڈالی بالکل سیدھی ہوتی ہے اور یہ اونچائی میں 8 سے 48 انچ تک ہوتی ہے۔

گیندے کی کچھ قسمیں ایسی ہیں جس کی پتیاں آرے کے دانتوں کی طرح نوکیلے کناروں والی ہوتی ہیں۔

گینے کے ہر پھول میں بہت ساری پنکھڑیاں ہوتی ہیں جو ایک دوسرے پر چڑھی ہوتی ہیں۔ سب سے بڑی پنکھڑی سب سے باہر ہوتی ہے اور یہ ایک دائرے کی شکل میں چھوٹی ہوتی چلی جاتی ہے۔سب سے چھوٹی پنکھڑی پھول کے مرکز میں ہوتی ہے۔

گیندے کے پھول سازگار موسم میں سالوں بھر کھلتے ہیں۔ گیندے کی بعض قسمیں دو سال تک رہتی ہیں جبکہ عام طور سے  یہ سالانہ کھلنے والا پھول ہے۔

گیندے کے پھول کے بہت سارے طبّی فوائد بھی ہیں۔ میکسیکو کے ایک قبیلے ایزٹیکس کا ماننا ہے کہ یہ آسمانی بجلی کی زد میں آکر جلنے والوں کے علاج کے لیےبہت مفید ہے۔

طبّی مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ گیندے کا پھول اینٹی وائرل، اینٹی بیکٹیریل، اینٹی فنگل اور مانع سوزش خصوصیات کا حامل ہوتا ہے۔

گیندے کا پھول کھایا بھی جا سکتا ہے۔ اس کا استعمال سلاد میں بھی کیا جاتا ہے۔

گیندے کا پھول فنگل کی خرابیوں کے لیے حساس ہے۔ یہ پودے کی جڑ اور اس کی سطح پرظاہر ہوتا ہے۔ گیندے کو مکڑیاں اور جھینگے یا ٹڈیاں نقصان پہنچا  سکتے ہیں۔





Friday 17 August 2018

Mera Watan - NCERT Solutions Class VII Urdu

میرا وطن
شفیع الدین نیّر
Courtesy NCERT
یہ میرا وطن ہے، یہ میرا وطن
وہ چڑیا، وہ طوطا، وہ مینا، وہ مور ###وہ کوئل، وہ بلبل،وہ قُمری چکور
وہ جھیلوں کی لہریں، وہ دریا کا زور###وہ جھرنوں کا گرنا، وہ پانی کا شور
وہ سرسبز اس کے پہاڑ اور بَن
 یہ میرا وطن ہے، یہ میرا وطن
وہ غلے، وہ میوے وہ ترکاریاں ###وہ خوش رنگ پھولوں کی گُل کاریاں
 وہ سرسبز باغوں کی پھلواریاں ###وہ سیراب اور خوش نما کیاریاں
زمینیں وہ زرخیز دلکش چمن
یہ میرا وطن ہے، یہ میرا وطن
پہاڑوں کا منظر بنوں کا سماں###ہیں ان میں ہزاروں ہی چشمے رواں
کہاں تک بیاں اس کی ہوں خوبیاں### ہے فردوس کا اس چمن پر گماں
یہ باغِ ارم ہے یہ باغِ عدن 
یہ میرا وطن ہے، یہ میرا وطن

پیارے بچّو! شاعر نے اس نظم میں کچھ پرندوں کا ذکر کیا ہے۔ کیا تم نے ان پرندوں کو کبھی دیکھا ہے یا ان کی آواز سنی ہے۔ آؤ میں تمہیں ان کی تصویریں دکھاتا ہوں اور ان کا مختصر تعارف کراتا ہوں۔
کوئل کوئل کی آواز محققین کی نظر میں نغمگی سے بھرپور مانی جاتی ہے۔ یہ سیاہ رنگ کا ایک پرندہ ہے جس کی چونچ زردی مائل سبز ہوتی ہے اور آنکھیں لال ہوتی ہیں۔ نر کوئل موسم بہار میں صبح کی اولین ساعتوں سے ہی اپنی آواز کا جادو جگانے لگتا ہے۔ یہ دراصل مادہ کوئل تک اپنا پیغام پہنچانے کی ایک کوشش ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کوئل کی آواز عاشقوں کے دلوں کو گرما دیتی ہے۔
بلبل
گوریا کے برابر ایک خوش آواز و خوش رنگ پرندہ جس کے سر کی خوصورت چوٹی اور سر سیاہ ہوتا ہے۔ اس کی پیٹھ خاکستری اور دم کے نیچے سرخی ہوتی ہے ۔یہ پرندہ  پھول کا عاشق ہوتا ہے۔ اسے بھی خوش الحان پرندوں کے گروہ میں رکھا گیا ہے۔ یہ عموماً ایران میں پایا جاتا ہے۔ شاعروں نے اپنے اشعار میں مستی پیدا کرنے کے لیے اس کے نام کا استعمال کیا ہے۔ 
قُمری قُمری خانوادۂ کبوتر سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ فاختہ سے مشابہ مگر اُس سے زیدہ خوش رنگ ہوتا ہے۔ یہ تند پرواز یعنی تیز اڑتا ہے۔ س کی دم نسبتاً بلند اور گردن تنی ہوئی مگر کوتاہ  ہوتی ہے۔ یہ زمین میں دانے چُگتا اور درخت پر زندگی گزارتا ہے۔ نر و مادہ ہمشکل ہوتے ہیں۔ یہ ایران میں پایا جاتا ہے۔
چکور چکور ایک پرندہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسے چاند سے عشق ہے۔ چاند اور چکور کی اصطلاح  ضرب المثل بن چکی ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ پرندہ چاند سے لپٹ جانا چاہتا ہے۔ وہ اُسے حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن ہمیشہ ناکام رہتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ چاند کو حاصل کرنے کے لیے اتنی بلندی تک پرواز کر جاتا ہے کہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔

معنی یاد کیجیے۔
قُمری : فاختہ کی قسم کا ایک پرندہ (اس کی آواز نہایت گونج دار ہوتی ہے)
چکور : تیتر کی قسم کا ایک پرندہ، اسے چاند کا عاشق بھی کہتے ہیں۔
بَن : جنگل
سرسبز : ہرا بھرا، تر و تازه
غلّے : اناج
میوے : خشک پھل، بادام، اخروٹ اور کشمش وغیرہ
ترکاریاں : سبزیاں
گل کاریاں : نقاشی کر نا، گل بوٹے بنانا، پھول تراشنا
سیراب : پانی سے بھرا ہوا، تر و تازه
زرخیز : جس زمین میں پیداوار زیادہ ہوتی ہے، اُپجاؤ
چشمہ : زمین سے ابلتا ہوا پانی یا سوتا
رَواں :  بہتا ہوا
فردوس : جنت ، بہشت
گماں :  شک، شبه، وہم
دلکش : دل پسند، دل کو لبھانے والا
باغِ ارم : جنت کا باغ
باغِ عدن : جنت کا وہ باغ جس میں حضرت آدم کو رکھا گیا تھا۔

سوچیے اور بتائیے۔
1. شاعر نے نظم میں کن کن پرندوں کا ذکر کیا ہے؟
جواب:  شاعر نے نظم میں چڑیا،طوطا، مینا ،مور ،کوئل، بلبل، قمری  اور چکور کا ذکر کیا ہے۔

2.  دلکش چمن کس کو کہا گیا ہے؟
جواب: دلکش چمن ہمارے وطن ہندوستان کو کہا گیا ہے۔

3.  ”ہے فردوس کا اس چمن پر گماں“ اس مصرعے سے کیا مراد ہے؟
جواب: اس مصرعے سے مراد یہ ہے کہ شاعر کو اپنا وطن ہندوستان جنت کی طرح خوبصورت معلوم ہوتا ہے۔

4. اس نظم میں ہمارے وطن کی کون کون سی خوبیاں بیان کی گئی ہیں؟
جواب:  اس نظم میں پہاڑوں کا منظر، بنوں یعنی جنگلوں کا سماں اور پہاڑوں سے گرنے والے چشمہ کا ذکر کیا گیا ہے اور شاعر نے اسے باغِ ارم اور باغِ عدن کہا ہے۔

5.  اس نظم کے شاعر کا نام لکھیے؟
جواب: اس  نظم کے شاعر کا نام شفیع الدین نیّر ہے۔

6.  شاعر اس نظم میں کیا پیغام دینا چاہتا ہے؟
جواب: شاعر اس نظم میں یہ پیغام دینا چاہتے ہے کہ اس کا وطن بہت ہی خوبصورت اور جنت کی مانند ہے۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے۔
دریا : دریا میں بڑے بڑے جہاز چلتے ہیں۔
پہاڑ : میرے گاؤں کے قریب ایک اونچا پہاڑ ہے۔
وطن : ہندوستان میرا وطن ہے۔
منظر : اس وادی کا منظر بہت حسین ہے۔
صبح کا منظر بہت حسین ہے۔
چمن : چمن میں پھول کھلے ہیں۔
سماں : صبح کا سماں دلکش ہے۔

املا درست کیجیے۔
ترقاریاں :  ترکاریاں
باگوں : باغوں
منضر : منظر
صرسبز : سرسبز
وتن  :   وطن

مصرعے مکمّل کیجیے۔
(i) وہ چڑیا، وہ طوطا وہ مینا، وہ مور
(ii) وہ کوئل، وہ بلبل، وہ قُمری چکور
(iii) وہ سر سبز اس کے پہاڑ اور بَن
(iv) یہ میرا وطن ہے، یہ میرا وطن

واحد سے جمع اور جمع سے واحد بنائیے۔
چڑیا : چڑیاں
بلبل : بلبلیں
جھیل : جھیلیں
دریا : دریاؤں
جھرنوں : جھرنا
پہاڑ : پہاڑوں
میوے : میوہ
ترکاریاں : ترکاری
باغ : باغوں، باغات
پھلواری : پھلواریاں
کیاری : کیاریاں
منظر : مناظر
چشمہ : چشمے
خوبیاں : خوبی

مصرعوں کو صحیح ترتیب سے لکھ کر شعر مکمّل کیجیے۔
وہ غلّے، وہ میوے وہ ترکاریاں(1)
کہاں تک بیاں اس کی ہوں خوبیاں(2)
وہ سرسبز باغوں کی پھلواریاں (3)
وہ جھیلوں کی لہریں، وہ دریا کا زور(4)
وہ سیراب اور خوش نما کیاریاں(3)
وہ جھرنوں کا گرنا، وہ پانی کا شور(4)
ہےفردوس کا اس چمن پر گماں(2)
وہ خوش رنگ پھولوں کی گُل کاریاں(1)
 ###
عملی کام
*اس نظم کو زبانی یاد کیجیے۔

غور کرنے کی بات
* اس نظم میں ’میرا وطن‘ کے عنوان سےوطن کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔
* اس نظم میں ہمارے ملک کی خوبیاں مختصر طور پر بیان کی گئی ہیں۔
* ہمارے وطن کی محبت اور وطن دوستی کے جذبے کو نظم میں ابھارا گیا ہے۔

دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Wednesday 15 August 2018

Mitti Ka Diya - NCERT Solutions Class VI Urdu

 Mitti ka Diya by Altaf Hussain Hali  Apni Zaban Chapter 1 Class 6 NCERT Solutions Urdu

مٹّی کا دِیا
الطاف حسین حالی
Courtesy NCERT

جُھٹ پُٹے کے وقت گھر سے ایک مٹّی کا دِیا
 ایک بُڑھیا نے سرِ رہ لا کے روشن کر دیا

 تا کہ رہ گیر اور پردیسی کہیں ٹھو کر نہ کھائیں 
راہ سے آساں گزر جائے ہر اک چھوٹا بڑا

 یہ دِیا بہتر ہے اُن جھاڑوں سے اور فانوس سے 
روشنی محلوں کے اندر ہی رہی جن کی سدا

گر نکل کر اِک ذرا محلوں سے باہر دیکھیے
ہے اندھیرا گُھپ در و دیوار پر چھایا ہوا 

سُرخ روٗ آفاق میں وہ رہ نما مینار ہیں
روشنی سے جن کی ملّاحوں کے بیڑے پار ہیں

خلاصہ:
اس نظم میں خواجہ الطاف حسین حالی نے دوسروں کے ساتھ بھلائی اور نیکی کی ترغیب دی ہے۔ انہوں نے ”مٹی کا دیا“ لوگوں کے کتنے کام آتا ہے یہ بتایا ہے۔ حالی نے اس نظم میں ایک بڑھیا کی کہانی بیان کی ہے جو شام کے وقت اپنے دروازے کے باہر ایک مٹی کا دیا جلاکر رکھ دیتی ہے تاکہ رات میں جو مسافر گزریں انہیں کوئی پریشانی نہ ہو اور وہ راستے میں ٹھوکر نہ کھائیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ دِیا اس جھاڑ و فانوس سے بہتر ہے جو محلوں کے اندر جگمگاتا ہے۔ لیکن اس کی روشنی محلوں کے اندر ہی رہ جاتی ہے۔ اگر ان محلوں سے باہر نکل کر دیکھا جاتا ہے تو وہاں گہرا اندھیرا چھایا ہوتا ہے۔ حالی پھر ان رہنما میناروں کی تعریف کرتے ہیں جو سمندر میں ملّاحوں کو راستہ دکھاتے ہیں۔

معنی یاد کیجیے
جھُٹ پُٹے کے وقت : سورج ڈوبنے کے وقت، شام کے وقت
سرِرہ : راستے میں
رہ گیر : راستہ چلنے والا، راہی
پر دیسی : مسافر، دوسری جگہ کا رہنے والا 
جھاڑ : شیشے کا بنا ہوا ایک قسم کا شمع دان
فانوس : چراغ کی حفاظت کرنے والا شیشہ، چمنی
سدا : ہمیشہ
سرخ روٗ : کامیاب
آفاق  : اُفق کی جمع، دُنیا، کائنات 
رہ نما مینار : وہ روشن مینارجو سمندروں میں جہازوں اور کشتیوں کو راستہ دکھانے میں مدد کرتے ہیں۔ 
ملّاح : کشتی چلانے والا
بیڑے : جہازوں اور کشتیوں کا قافلہ
بیڑہ پار ہونا  : منزل پر پہنچنا، کامیاب ہونا 

سوچیے اور بتائیے

1۔ بڑھیانے مٹّی کا دِیا کس وقت روشن کیا؟
جواب:سورج غروب ہونے کے وقت بڑھیانےمٹّی کا دِیا روشن کیا-

2۔ راستے میں مٹّی کا دِیا روشن کرنے کا کیا مقصد تھا؟
جواب: راستے میں مٹّی کا دِیا روشن کرنے کا مقصد یہ تھا کہ رہ گیر  ٹھوکر کھانے سے بچ  جائیں اور اپنا راستہ آسانی سے پار کرلیں۔

3۔ مٹّی کا دِیا جھاڑ اور فانوس سے بہتر کیوں ہے؟
جواب:مٹّی کا دِیا جھاڑ اور فانوس سے بہتر اس لیے ہے کہ جھاڑ اور فانوس دوسروں کو فائدہ نہیں پہنچاتے بلکہ یہ صرف گھر کی زینت کے لیے ہوتے ہیں ۔ دوسروں کو فائدہ پہچانے کے لئے بہت زیادہ قیمتی چیزوں اور روپے پیسے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ مدد کرنے کے جذبے اور درد مند دل کی ضرورت ہوتی ہے۔

4۔ محلوں کے باہر اندھیرا ہونے سے شاعر کی کیا مراد ہے؟
جواب : شاعر کہنا چاہتا ہے کہ محلوں میں رہنے والے لوگوں کو باہر کے اندھیرے کا علم نہیں ہوتا کیوں کہ ان کے پاس ہمیشہ روشنی رہتی ہے۔

5۔ رات میں ملّاحوں کو راستہ دکھانے میں کون سی چیز مدد کرتی ہے؟
جواب : رات میں ملّاحوں کو راستہ دکھانے میں رہ نما مینار مدد کرتا ہے۔

6۔ دوسروں کی بھلائی کے لئے ہم کیا کیا کام کر سکتے ہیں؟
جواب : دوسروں کی بھلائی کے لئے ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں، دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے بہت زیادہ قیمتی چیزوں اور روپے پیسے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ مدد کرنے کے جذبے اور دردمند دل کی ضرورت ہوتی ہے۔جیسے کہ ہم اپنے گھر کی چھتوں پر کسی برتن میں پانی رکھ دیں تو اس سے پیاسے پرندوں کو پانی مل جاۓ گا، یہ چھوٹا سا کام بھی بھلائی کا ہے۔ 

ان لفظوں کے متضاد لکھیے
آسان : مشکل
بہتر : بدتر
روشنی : تاریکی
محل  : جھونپڑی 
اندھیرا  : روشنی 

مصرعے مکمل کیجیے
1. جھُٹ پُٹے کے وقت گھر سے ایک مٹّی کا دِیا
2. تاکہ رہ گیر اور پردیسی کہیں ٹھوکر نہ کھائیں
3. راہ سے آساں گزر جائے ہر اک  چھوٹا بڑا
4. روشنی سے جن کی ملّاحوں کے بیڑے پار ہیں

املا درست کیجیے
بُڑیا : بڑھیا
آصان : آسان
فانوص : فانوس
پردیصی : پردیسی
مہلوں  : محلوں 
بہطر  : بہتر 
صُرخ  : سُرخ 

لکھیے
1. اس نظم کا مطلب اپنے لفظوں میں لکھیے 
اس نظم کا مطلب اوپر خلاصہ میں بیان کیا گیا ہے۔

2. آپ نے بھلائی کا کوئی کام ضرور کیا ہوگا، اسے اپنے الفاظ میں لکھیے
بزرگوں نے کہا ہے کہ کسی کے ساتھ بھلائی کرو تو ایسے کہ کسی کو اس کی خبر نہ ہو۔ لیکن اس سوال کے جواب میں میں صرف اتنا بتانا چاہوں گی/گا کہ ہر سال جب میں اگلے درجہ میں جاتی/جاتا ہوں تو اپنی پچھلے کلاس کی کتابیں اس لڑکی/لڑکے کو دے دیتی/دیتا ہوں جو نئی کتابیں نہیں خرید سکتیں/سکتے۔ میں اس بات کی کسی کو خبر نہیں لگنے دیتی/دیتا کہ اس لڑکی/لڑکے کو شرمندگی نہ ہو۔
(لڑکیاں اور لڑکے اپنے حساب سے صیغہ استعمال کریں۔)

کالم’الف‘ اور کالم ’ب‘ کے مصرعوں کو ملا کر صحیح شعر لکھیے
(الف)    (ب) 
 جُھٹ پُٹے کے وقت گھر سے ایک مٹّی کا دیا    تا کہ رہ گیر اور پردیسی کہیں ٹھوکر نہ کھائیں 
راہ سے آساں گزر جائے ہر اک چھوٹا بڑا      ایک بُڑھیا نے سرِ رہ لا کے روشن کر دیا
 روشنی محلوں کے اندر ہی رہی جن کی سدا   یہ دِیا بہتر ہے اُن جھاڑوں سے اور فانوس سے
جواب:
جُھٹ پُٹے کے وقت گھر سے ایک مٹّی کا دیا
ایک بُڑھیا نے سرِ رہ لا کے روشن کر دیا
 تا کہ رہ گیر اور پردیسی کہیں ٹھوکر نہ کھائیں
 راہ سے آساں گزر جائے ہر اک چھوٹا بڑا
 یہ دِیا بہتر ہے اُن جھاڑوں سے اور فانوس سے
روشنی محلوں کے اندر ہی رہی جن کی سدا

غور کرنے کی بات
آپ نے پڑھا  کہ مٹّی کے معمولی دیے سے راہ گیروں کو کتنا فائدہ ہوا۔ وہ ٹھوکر کھانے سے بچ گئے اور دیے کی تھوڑی سی روشنی میں انھوں نے آسانی سے راستہ پار کرلیا۔ اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ لوگوں کی مدد کرنے اور دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے بہت زیادہ قیمتی چیزوں اور روپے پیسے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ مدد کرنے کے جذبے اور دردمند دل کی ضرورت ہوتی ہے۔ بڑا آدمی وہی ہے جو دوسروں کے کام آئے۔


دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Isra's Gallery

آئینہ دی مرر میں مصور ہوں کے عنوان سے بچوں کی بنائی ہوئی پینٹنگس شائع کرتا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں اسرا عثمانی کی بنائی ہوئی پینٹنگس کی ایک گیلری شائع کی جارہی ہے جو امید ہے آپ سب کو پسند آئے گی۔ آپ بھی اپنی بنائی ہوئی پینٹنگس ہمیں ارسال کریں ہمیں شائع کرکے خوشی ہوگی ۔

خوش خبری