گل لالہ یا نرگس دنیا میں پائے جانے والے سب سے خوبصورت اور مقبول پھولوں میں سے ایک ہے۔انگریزی میں اسے Tulip کہتے ہیں۔ جنگلی ٹیولپ کی تقریباً 75 قسمیں ہیں۔ اور مختلف چنندہ اختلاط سے اس کی تقریباً تین ہزار قسمیں تیار کی جاتی ہیں۔اس پھول کا تعلق وسطی ایشیا سے ہے۔ اسے 16 ویں صدی میں یوروپ لے جایا گیا۔ یہ 16 ویں صدی کے وسط میں عثمانی سلطان سلیمان محتشم کے قسطنطنیہ کے محل سے نیدر لینڈ کے سفیر کے ذریعہ نیدر لینڈ پہنچا اورپھر اس کا ساری دنیا میں رواج ہوگیا۔ آج گل لالہ دنیا بھر میں پایا جاتا ہے۔یہ موسم بہار کے سرد حصہ میں ہوتا ہے۔یعنی یہ ٹھنڈے موسم میں پروان چڑھتا ہے۔کم درجہ حرارت میں مناسب موسم اس کے بیج کی نشو و نما کے لیے مناسب ہوتا ہے۔
گل لالہ کا رنگ اس کی قسم پر منحصر ہوتا ہے۔ اس کے پھول پیلے، نارنگی، گلابی، لال اور جامنی کے مختلف شیڈوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ کچھ پھول مختلف رنگوں کے ملاپ سے پیدا کیے جاتے ہیں۔
لالہ کے پھول کٹورا نما ہوتے ہیں۔ اس میں تین پنکھڑیاں اور تین سیپلیں ہوتی ہیںچونکہ پنکھڑیاں اور مسند گل ایک ہی شکل کی ہوتی ہیں اس لیے اس کانام ٹیپَلس رکھا گیا۔ ٹیپل پھول کے بیرونی گھیرے کا ایک حصے کو کہتے ہیںجس میں سنبلہ ار پتیاں ایک ساتھ ہوتی ہیں۔
ٹیولپ کا نام ترکی زبان سے لیا گیا۔ ترکی میں اسے قومی پھول کا درجہ حاصل ہے۔ترکی زبان میں ٹیولپ کے معنی مخروطی شکل کے ہیں کیونکہ دیکھنے میں یہ ترکی ٹوپی کے بالکل مشابہ لگتا ہے۔
عام طور سےگل لالہ میں دو سے چھ پتیاں ہوتی ہیں۔لیکن اس کی بعض قسموں میں 12 پتیاں تک ہوتی ہیں۔
گل لالہ کی جڑ پیاز کی مانند ہوتی ہےاور یہ زمین میں 4 سے 6 انچ تک دھنسی ہوتی ہے۔ اس کی مٹی نم رکھی جاتی ہے۔ گل لالہ زیادہ مدت تک باقی نہیں رہتا لیکن یہ پھول زمین سے الگ کیے جانے کے بعد بھی پیدا ہوتا رہتا ہے۔
گملے میں ایک انچ تک کی لمبائی والا ٹیولپ پیدا کیا جاسکتا ہے۔
یہ فنگل،بیکٹیریا اور وبائی بیماریں سے متاثر ہوتا ہے۔خرگوش ،چوہے اور گلہریاں ٹیولپ کھانا پسند کرتے ہیں۔جبکہ گھوڑے، بلیوں اور کتوں کے لیے ٹیولپ کھانا خطرناک ہو سکتا ہے۔ اس سے ایسے کیمیاوی اجزا خارج ہوتے ہیں جس سے الرجی ہوسکتی ہے۔
گل لالہ کی عمر بہت زیادہ نہیں ہوتی اور عام طور سے یہ تین سے سات دنوں تک زندہ رہتا ہے۔
کشمیر کے سری نگر میں نرگس کے پھولوں کے باغ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایشیا کا سب سے بڑا باغ ہے۔سری نگر میں نرگس کے پھولوں کے باغ موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی مختلف رنگوں میں نہا جاتے ہیں۔
کشمیر میں گل لالہ یا نرگس کے پھولوں کی کاشت تجارتی مقصد سے کی جاتی ہے اور یہ دورے ملکوں کو برآمد بھی کیا جاتا ہے۔سر نگر کے ٹیولپ گارڈن کے بارے میں کہا جاتا ہےکہ یہ ایشیا میں گل لالہ کا سب سے بڑا باغ ہے۔ نرگس کے ان باغوں کو دیکھ کر لگتا ہے جیسے پھولوں کی قالین بچھی ہے۔بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ منظر اس قدر دلکش اور پرسکون ہوتا ہے کہ کوئی ذی روح اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
گل لالہ کو اردو شاعری میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اور اسے مختلف علامتوں کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔اقبال کا یہ محبوب پھول ہے۔ کہتے ہیں
Ek Khat by Pandit Jawaharlal Nehru Apni Zaban Chapter 2 Class 6 NCERT Solutions Urdu
ایک خط
پنڈت جواھر لعل نہرو کا خط، اپنی بیٹی اندرا کے نام
Courtesy NCERT
نینی سینٹرل جیل، الہ آباد
26 اکتوبر 1930ء
پیاری بیٹی!
تمھیں اپنی سالگرہ کے موقع پرتحفے اور نیک خواہشات ملتی ہی رہی ہیں۔
نیک خواہشات کی تو اب بھی کوئی کمی نہیں لیکن میں نینی جیل سے تمھارے
لیے کیا تحفہ بھیج سکتا ہوں؟ نیک خواہشات کا تعلق تو دل سے ہے،
جیسے کوئی پری تمھیں یہ سب کچھ دے رہی ہو۔ یہ وہ چیزیں ہیں جنھیں جیل
کی اونچی دیواریں بھی نہیں روک سکتیں۔
تم خوب جانتی ہو کہ مجھے نصیحت کرنے سے کتنی نفرت ہے۔ جب کبھی میرا
جی چاہنے لگتا ہے کہ نصیحت کروں تو ہمیشہ اس ’’عقل مند“ کی کہانی یاد
آجاتی ہے جو میں نے کبھی پڑھی تھی۔ شاید ایک دن تم بھی وہ کتاب پڑھو
جس میں یہ کہانی بیان کی گئی ہے۔
کوئی تیرہ سو برس گزرے کہ ملک چین سے ایک سیّاح علم و دانش کی تلاش
میں ہندوستان آیا ۔ اس کا نام ہیون سانگ تھا۔ وہ شمال کے پہاڑ اور
ریگستان طے کرتا ہوا یہاں پہنچا۔ اسے علم کا اتنا شوق تھا کہ راستے
میں اس نے سیکڑوں مصیبتیں اٹھائیں اور ہزاروں خطروں کا مقابلہ کیا۔
وہ ہندوستان میں بہت دن رہا۔ خود سیکھتا تھا اور دوسروں کو سکھاتا
تھا۔ اس کا زیادہ تر وقت نالندہ ودّیا پیٹھ میں گزرا جوشہر پاٹلی پُتر
کے قریب واقع تھی۔ اس شہرکواب پٹنہ کہتے ہیں۔
ہیون سانگ پڑھ لکھ کر بہت قابل ہو گیا حتٰی کہ اس کو فاضلِ قانون
(بُدھ مت) کا خطاب دیا گیا۔ پھر اس نے سارے ہندوستان کا سفر کیا۔ اس
عظیم الشان ملک کے باشندوں کو دیکھا بھالا اور ان کے بارے میں پوری
معلومات حاصل کیں ۔ اس کے بعد اس نے اپنا سفر نامہ لکھا۔ اس کتاب میں
وہ کہانی بھی شامل ہے جو اس وقت مجھے یاد آئی :
یہ ایک شخص کا قصہ ہے جو جنوبی ہند سے شہر ”کرنا سونا“ میں آیا۔ یہ
صوبہ بہار بھاگل پور کے آس پاس کہیں تھا ہیون سانگ نے سفر نامے میں
لکھا ہے کہ ایک شخص اپنے پیٹ کے چاروں طرف تانبے کی تختیاں باندھے
رہتا تھا۔ سر پر ایک جلتی ہوئی مشعل رکھتا تھا۔ ہاتھ میں ڈنڈا لیے
ہوئے اکڑ اکڑ کر چلتا تھا اور اس عجیب و غریب انداز میں بڑی شان سے
ادھر ادھر گھومتا پھرتا تھا۔ جب کوئی اس سے پوچھتا کہ آخر آپ نے یہ
کیا صورت بنارکھی ہے؟ تو وہ جواب دیتا کہ”میرے اندر بے حساب علم بھرا
ہوا ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں میرا پیٹ نہ پھٹ جائے ۔ اس لیے میں
نے اپنے پیٹ پر تانبے کی تختیاں باندھ رکھی ہیں۔ اور چوں
کہ تم سب لوگ جہالت کے اندھیرے میں رہتے ہو، مجھے تم پر ترس آتا ہے،
اس لیے میں ہر وقت اپنے سر پر مشعل لیے پھرتا ہوں ۔“
ہاں تو مجھے ایسا کوئی خطرہ نہیں ہے کہ بہت زیادہ علم وحکمت سے پھٹ
جاؤں، اس لیے مجھے اپنے پیٹ پر تانبے کی تختیاں باندھنے کی ضرورت
نہیں ہے۔ اور یہ بھی جانتا ہوں کہ میری عقل میرے پیٹ میں نہیں
ہے، بلکہ جہاں کہیں بھی ہو، اس میں اتنی گنجائش ہے کہ بہت کچھ اور
سما سکے ۔ اور جب میری عقل محدود ہے تو میں کیسے ایک عقل مند آدمی بن
کر دوسروں کو مشورہ دوں ۔ اس لیے یہ جاننے کی کوشش کرتا ہوں کہ کیا
صحیح ہے اور کیا غلط، کیا کرنا چاہیے اور کیا نہ کرنا چاہیے اور اس
بحث مباحثےسے کبھی کبھی کوئی سچائی نکل آتی ہے۔
اس لیے میں نصیحت نہیں کروں گا۔ پھر کیا کروں ۔ خط باتوں کی جگہ نہیں
لے سکتا، کیونکہ یہ یک طرفہ ہوتا ہے۔ اس لیے میں اگر کوئی بات کہوں
اور وہ تم کو نصیحت لگے تو اسے کڑوی گولی سمجھ کر مت نگلو۔ بس
یہ سمجھو کہ میں تم کومشورہ دے رہا ہوں ، اور گویا ہم تم آمنے سامنے
بیٹھے باتیں کررہے ہیں۔
میں نے تم کولمبا سا خط لکھ ڈالا ،ابھی بہت سی باتیں باقی ہیں،
اتنی باتیں اس خط میں کیسے آسکتی ہیں!
تم بڑی خوش قسمت ہو کہ اپنے ملک کی آزادی کی جدو جہد کو دیکھ رہی ہو
تم اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہو کہ ایک بہادر عورت تمہاری ماں ہے۔
اگرتم کو کبھی کسی بات میں شبہ ہو اور یا تم کسی پریشانی میں
ہوتو تم کو ماں سے بہتر ساتھی نہیں مل سکتا ۔
خداحافظ بیٹی!- میری دعا ہے کہ تم ایک دن بہادر سپاہی بنواور
ہندوستان کی خدمت کرو۔
محبت اور نیک خواہشات کے ساتھ ۔
جواہر لعل نہرو
معنی یاد کیجیے
نینی جیل
:
الہ آباد کی ایک جیل
سیّاح
:
جگہ جگہ سیر کرنے والا،ملکوں ملکوں گھومنے والا
علم
:
واقفیت،معلومات
دانش
:
عقل،سمجھ
نالندہ ودیا پیٹھ
:
پرانے زمانے کی ایک یونیورسٹی جو پاٹلی پُتر، پٹنہ کے قریب تھی
پاٹلی پُتر
:
موجودہ نام پٹنہ
فاضلِ قانون
:
قانون کو جاننے والا،ماہرِ قانون
بدھ مت
:
بدھ مذہب
عظیم الشان
:
بڑی شان والا، اعلیٰ
سفر نامہ
:
وہ تحریر جس میں سفر کے حالات بیان کیے گئے ہوں
شبہ
:
شک
اندیشہ
:
خطرہ، ڈر
جہالت
:
نہ جاننا،علم کا نہ ہونا، ناواقفیت
ترس
:
رحم
مشعل
:
وہ ڈنڈا جس کے ایک سرے پر کپڑا لپیٹ کر جلایا جاتا ہے اور اس سے
روشنی کی جاتی ہے، چراغ
علم و حکمت
:
عقل مندی، دانش مندی
گنجائش
:
سمائی، جگہ
محدود
:
حد کے اندر، تنگ
بحث و مباحثہ
:
بحث و تکرار
جِدّو جہد
:
سخت کوشش
سوچیے اور بتائیے
1۔ پنڈت جواہر لال نہرو کون تھے؟
جواب: پنڈت جواہر لال نہرو مجاہد آزادی تھے۔
2۔ پنڈت نہرو نے یہ خط کس کے نام اور کہاں سے لکھا؟
جواب:پنڈت نہرو نے یہ خط اپنی بیٹی اندرا کے نام نینی سینٹرل جیل،آلہ آباد سے
لکھا۔
3۔ چینی سیّاح کا کیا نام تھا؟
جواب: چینی سیّاح کا نام ہیون سانگ تھا۔
4۔ جواہر لال نہرو نے نصیحت کرنے کا کیا طریقہ اختیار کیا؟
جواب:جواہر لال نہرو نے اپنی بیٹی کو نصیحت کرنے کے لیے مکتوب کا سہارا لیا ۔ اپنے
خط میں انہوں نے لکھا کہ انھیں نصیحت کرنے سے نفرت ہے،لہٰذا اس خط سے بس
یہ سمجھو کے میں تمہیں مشورہ دے رہا ہوں اور گویا ہم تم آمنے سامنے بیٹھے باتیں
کررہے ہیں۔
5۔ چینی سیّاح ہندوستان کیوں آیا؟
جواب:چینی سیّاح علم و دانش کی تلاش میں ہندوستان آیا۔
6۔ چینی سیّاح کو علم حاصل کرنے کے لیے کن حالات سے گزرنا پڑا؟
جواب:
چینی سیّاح شمال کے پہاڑ اور ریگستان طے کرتا ہوا ہندوستان پہنچا،اُسے علم
حاصل کرنے کا اتنا شوق تھا کہ راستے میں اُس نے سیکڑوں مصیبتیں اٹھائیں اور
ہزاروں خطروں کا مقابلہ کیا۔
7۔ ہندوستان میں چینی سیّاح کا زیادہ وقت کہاں گزرا؟
جواب:
ہندوستان میں چینی سیّاح کا زیادہ وقت نالندہ ودّیا پیٹھ میں گزرا جو شہر
پاٹلی پُترکے قریب واقع تھی۔
8۔ ہیون سانگ نے اپنے سفر نامے میں ایک شخص کو عجیب و غریب کیوں کہا ہے؟
جواب:
ہیون سانگ نے اپنے سفر نامے میں ایک شخص کو عجیب و غریب اس لیے کہا ہے کیونکہ
وہ اپنے پیٹ کے چاروں طرف تانبے کی تختیاں باندھے رہتا تھا اور سر پر ایک جلتی
ہوئی مشعل رکھتا تھا۔
9۔ اس واقعہ کا ذکر کرکے پنڈت نہرو اپنی بیٹی کو کیا سبق دینا چاہتے
تھے؟
جواب:
نہرو اس واقعہ کا ذکر کر کے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہمیں اپنے علم و دانش پر
بہت گھمنڈ اور دکھاوا نہیں کرنا چاہیے۔ کیوں کہ ایسی چیزیں اسے دوسروں کے
سامنے رسوا کرتی ہیں اس لیے چینی سیاح نے اُس کا ذکر مزاق کے طور پر کیا۔ وہ
اس کی ظاہری شکل و صورت دیکھ کر اس شخص سے ذرا بھی مرعوب نہ ہوا اور اس سب کو
ڈھونگ تصور کیا۔ نہرو یہاں اپنی بیٹی کو اپنے علم و دانش پر فخر کرنے کے بجائے اُسے سادگی کی تلقین کر رہے ہیں۔
خالی جگہ کو صحیح لفظ سے بھریے
1.نیک خواہشات کا تعلق تو دل سے ہے۔
2.چین کا ایک سیّاح علم و دانش کی
تلاش میں ہندوستان آیا۔
3.ہیون سانگ پڑھ لکھ کر بہت قابل ہو
گیا۔
4.اس کو فاضلِ قانون (بدھ مَت) کا
خطاب دیا گیا۔
5.اس کے بعد اس نے اپنا
سفرنامہ لکھا۔
6.یہ شخص اپنے پیٹ کے چاروں طرف
تانبے کی تختیاں باندھے رہتا تھا۔
7.میں ہر وقت اپنے سر پر مشعل لیے
پھرتا ہوں۔
8.اپنے ملک کی آزادی کی
جِدّو جہد کو دیکھ رہی ہو۔
نیچے دیے ہوئے جملوں کو صحیح ترتیب سے لکھیے
1.میرے اندر بے حساب علم بھرا ہوا ہے۔
2.میں نینی جیل سے تمہارے لیے کیا تحفہ بھیجوں۔
3.اور جب میری عقل محدود ہے تو میں کیسے ایک عقلمند آدمی بن کر دوسروں کو مشورہ
دوں۔
4.ملک چین سے ایک سیاح علم و دانش کی تلاش میں ہندوستان آیا۔
5.تم ایک دن بہادر سپاہی بنو اور ہندوستان کی خدمت کرو۔
6.اس کا زیادہ وقت نالندہ ودیا پیٹھ میں گزرا جو شہر پاٹلی پتر کے قریب واقع
تھی۔
7.اس کے بعد اس نے اپنا سفرنامہ لکھا۔
8.ہیون سانگ پڑھ لکھ کر بہت قابل ہوگیا۔
جواب:
1.میں نینی جیل سے تمہارے لیے کیا تحفہ بھیجوں۔
2.ملک چین سے ایک سیاح علم و دانش کی تلاش میں ہندوستان آیا۔
3.اس کا زیادہ وقت نالندہ ودیا پیٹھ میں گزرا جو شہر پاٹلی پتر کے قریب واقع
تھی۔
4.ہیون سانگ پڑھ لکھ کر بہت قابل ہوگیا۔
5.اس کے بعد اس نے اپنا سفرنامہ لکھا۔
6.میرے اندر بے حساب علم بھرا ہوا ہے۔
7.اور جب میری عقل محدود ہے تو میں کیسے ایک عقلمند آدمی بن کر دوسروں کو مشورہ
دوں۔
8.تم ایک دن بہادر سپاہی بنو اور ہندوستان کی خدمت کرو۔
نیچے لکھے ہوئے لفظوں کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے
سیّاح
:
ہیون سانگ ایک چینی سیاح تھا۔
عظیم الشان
:
ہندوستان ایک عظیم الشان ملک ہے۔
علم و حکمت
:
علم و حکمت خدا کی ایک نعمت ہے۔
بحث و مباحثہ
:
تم ہی بے وجہ بحث و مباحثہ کرنے لگتے ہو۔
مشعل
:
رات کی تاریکی دور کرنے کے لیے رحیم نے مشعل جلائی۔
لکھیے
اپنے دوست کو ایک خط لکھیے جس میں اس خط کی کہانی کا ذکر ہو۔
یاد رکھیے
پاٹلی پتر کا نیا نام ”پٹنہ“ ہے۔ یہ شہر بہار کی راجدھانی ہے۔
غور کرنے کی بات
خط کو مکتوب بھی کہتے ہیں۔ اس کا تعلق دو لوگوں سے ہوتا ہے۔ایک خط لکھنے والا جسے
مکتوب نگار کہتے ہیں اور جسے خط لکھا جائے وہ مکتوب الیہ کہلاتا ہے۔اس خط میں
مکتوب نگار پنڈت جواہر لعل نہرو اور مکتوب الیہ ان کی بیٹی اندرا ہیں۔
پرانے زمانے میں بھارت میں ایک راجا راج کرتا تھا۔ یہ را جا بہت رحم دل
تھا۔ اس کے راج میں سب خوش تھے ۔ را جا اپنی پر جا کی حالت دیکھنے کے لیے
کبھی کبھی محل سے باہر نکلا کرتا۔ سب لوگ راجا کی عزت کرتےتھے۔ ایک دن راجا
گھومنے گیا ۔ راستے میں اسے ایک کسان دکھائی دیا۔ کسان اپنے کھیت پر کام کر
رہا تھا۔ راجا اس کے کھیت پرگیا ۔ اس کھیت میں کسان نے گیہوں بو رکھے تھے۔ کھیت بہت ہرا بھرا تھا۔ راجا کھیت دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اس نے کسان سے
جا کر پوچھا ”تم اس کھیت سے کتنا کما لیتے ہو؟“
کسان نے جواب دیا ”حضور بس یہ سمجھ لیجیے ایک روپیہ روز کے حساب سے پڑ جاتا
ہے۔“ ”اچھا ایک روپیہ روز تو پھر تم اس ایک روپیہ کا کیا کرتے ہو؟‘‘ راجا نے
پوچھا۔
”جی اس ایک روپیہ میں چار آنے تو روز کھا لیتا ہوں۔ چار آنے کا قرض اتارتا
ہوں اور چار آنے قرض دیتا ہوں۔ اب باقی بچے چارآنے تو انھیں کنویں میں
پھینک دیتا ہوں۔“
راجا کسان کی بات سن کر حیران ہوا، اس سے پوچھا ”میں تمھاری بات کا مطلب
نہیں سمجھا۔ مجھے اس کا مطلب بتاؤ۔“ کسان نے ہاتھ جوڑ کر کہا ”حضور اس کا
مطلب یہ ہے کہ چارآنے جو کھاتا ہوں وہ تو میرے اوپر اور میری بیوی پر خرچ
ہوتے ہیں، چار آنے کا جو میں قرض اتارتا ہوں اس کا مطلب ہے کہ چار آنے میں
اپنے ماں اور باپ پر خرچ کرتا ہوں۔ انھوں نے مجھے پالنے پوسنے پر جو خرچ
کیا تھا وہ مجھ پر قرض ہے۔ چار آنے جو قرض دیتا ہوں وہ میں اپنے
بچوں پر خرچ کرتا ہوں تا کہ جب بوڑھا ہو جاؤں تو وہ میری خدمت کر سکیں۔
چار آنے جو کنویں میں پھینکتا ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ میں اتنا خیرات کرتا
ہوں۔ “راجا یہ جواب سن کر بہت خوش ہوا۔ اس نے کسان کو انعام دیا اور کہا ” دیکھو جب تک تم میرا منھ سو بار نہ دیکھ لو اس بات کو کسی کو نہ بتانا۔‘‘
کسان نے وعدہ کر لیا۔ راجا اپنے محل واپس چلا آیا۔
اگلے دن اس نے یہ بات درباریوں کو بتائی اور اس نے سب سے اس کا مطلب پوچھا
مگر کوئی بھی اس کا مطلب نہ بتا سکا۔ وزیر بہت ہوشیار تھا۔ اس نے راجا سے
کہا ”سرکار کل میں اس کا مطلب آپ کو بتا دوں گا ۔“
وزیر اسی دن اس کسان کے پاس گیا اور اس سے اس کی بات کا مطلب پوچھا۔ کسان
نے کہا”راجا نے مجھے منع کیا ہے۔ میں جب تک سو بار اس کا منہ نہ دیکھ لوں
تمھیں اس کا مطلب نہیں بتا سکتا۔“
وزیر نے کہا ”کوئی ترکیب بتاؤ، میں راجا سے وعدہ کر چکا ہوں کہ کل اسے اس کا
مطلب ضرور بتاؤں گا۔“
کسان کچھ دیر تک تو سوچتا رہا اور پھر اس نے کہا ”ایک ترکیب ہے، تم مجھے سو
اشرفیاں دو، میں تمھیں یہ بات بتا دوں گا۔“ وزیر اس کے لیے تیار ہو گیا۔ اس
نے کسان کو اسی وقت سو اشرفیاں دے دیں۔
کسان بہت خوش ہوا اور اس نے وزیر کو سب کچھ بتا دیا۔ اگلے دن دربار میں
راجا نے وزیر سے کسان کی بات کا مطلب پوچھا تو وزیر نے کسان کی بات کا ٹھیک ٹھیک مطلب بتا دیا۔ راجا کو کسان پر بہت غصہ آیا۔
اس نے فوراً سپاہی بھیج کر کسان کو دربار میں بُلا بھیجا ۔ کسان دربار میں
آیا تو راجا نے کہا ”تم نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ کسی کو اپنی بات کا مطلب
نہیں بتاؤ گے لیکن تم نے وزیر کو سب کچھ بتا دیا۔ تم نے وعدہ خلافی کیوں کی؟“ کسان نے کہا ”سرکار آپ سے وعدہ کیا تھا کہ جب تک میں آپ کا منھ سو مرتبہ نہ
دیکھ لوں اس راز کوکسی سے نہ بتاؤں۔ “
”ہاں ٹھیک ہے مگر تم نے ایک مرتبہ بھی میرا منھ نہیں دیکھا۔“ ”نہیں سرکار
میرے پاس سو اشرفیاں ہیں ۔ ان پر آپ کی تصویر بنی ہے۔ میں نے سواشرفیوں کو
دیکھ کر ہی یہ بات بتائی ہے ۔‘‘
راجا کسان کی عقل مندی پر بہت خوش ہوا اور اس نے اسے سو اشرفیاں اور انعام
میں دیں۔ کسان خوش خوش راجا کو دعائیں دیتا ہوا اپنے گھر چلا گیا۔
(لوک کہانی)
معنی یاد کیجیے
راج
:
حکومت
پرجا
:
عوام
خیرات
:
ثواب کی نیت سے کچھ دینا
قرض
:
اُدھار
راز
:
بھید
وعدہ خلافی
:
وعدے سے پِھر جانا
دربار
:
شاہی عدالت
درباری
:
دربار میں حاضری دینے والے
اشرفی
:
سونے کا سِکّہ
سوچیے اور بتائیے
سوال1: راجا محل سے باہر کیوں نکلتا تھا؟
جواب:
راجا اپنی پرجا کی حالت دیکھنے کے لیے کبھی کبھی محل سے باہر جاتا
تھا۔
سوال2: راجا نے کسان سے کیا سوال کیا؟
جواب:
راجا نے کسان سے پوچھا کہ وہ اس کھیت سے کتنا کما لیتا ہے اور وہ ان روپیوں کا کیا کرتا ہے۔
سوال3: کسان ایک روپیہ کس طرح خرچ کرتا تھا؟
جواب:
کسان ایک روپیہ میں سےچار آنے روز کھا لیتا تھا،چار آنے کا قرض اتارتا تھا،اور چار آنے کا قرض دیتا تھا،باقی بچے چار آنے تو انھیں کنویں میں پھینک
دیتا تھا۔
سوال4: کسان نے ایک روپیے کے خرچ کا کیا مطلب بتایا؟
جواب:
کسان نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ چار آنے جو وہ کھاتا ہے وہ تو اس کے اوپر اور اس کی بیوی پر خرچ ہوتے ہیں، کسان چار آنے کا جو قرض ادا کرتا ہے اس کا
مطلب یہ ہے کہ چار آنے وہ اپنے ماں اور باپ پر خرچ کرتا ہے، چار آنے جو
قرض دیتا ہے وہ کسان اپنے بچّوں پر خرچ کرتا ہے تاکہ جب وہ بوڑھا ہوجائے تو وہ اس کی خدمت کر سکیں۔چار آنے جو کنویں میں پھینکتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسے خیرات کرتا ہے۔
سوال5: راجا کو کسان پر کیوں غصّہ آیا؟
جواب:راجا کو کسان پر اس لیے غصّہ آیا کیونکہ کسان نے راجا سے کیا وعدہ توڑ دیا
اور وزیر کو سب کچھ بتا دیا۔
سوال6: کسان نے راجا سے کیا وعدہ کیا تھا؟
جواب:
کسان نے راجا سے وعدہ کیا تھا کہ جب تک وہ راجا کا منھ سو بار نا دیکھ لے
اس بات کو کسی کو نہیں بتائےگا۔
سوال7: کسان نے اپنا وعدہ کس طرح نبھایا؟
جواب:
کسان نے وزیر سے سو اشرفیاں لیں،جن پر راجا کی تصویر بنی تھی،کسان نے سو
اشرفیوں کو دیکھ کر ہی وزیر کو یہ بات بتائی،اس طرح کسان نے اپنا وعدہ
نبھایا۔
خالی جگہ کو صحیح لفظ سے بھریے
1. پرانے زمانے میں بھارت میں ایک راجا راج کرتا تھا۔
2. کسان اپنے کھیت پر کام کر رہا
تھا۔
3. ایک روپیہ روز کے حساب سے
پڑجاتا ہے۔
4. وزیر اسی دن کسان کے پاس گیا۔
5. مجھے سو اشرفیاں دو میں تمہیں
یہ بات بتا دوں گا۔
6. کسان خوش خوش راجا کو
دعائیں دیتا ہوا اپنے گھر چلا
گیا۔
صحیح جملے پر صحیح اور غلط پر غلط کا نشان لگائیے
1. راجا بہت رحم دل تھا۔(صحیح)
2. کسان نے کھیت میں چاول بو رکھے تھے۔(غلط)
3. کسان روزانہ پانچ روپے کماتا تھا۔(غلط)
4. وزیر نے کہا سرکار کل میں اس کا مطلب آپ کو بتادوں گا۔(صحیح)
5. وزیر نے کسان کو ہزار اشرفیاں دیں۔(غلط)
نیچے دیے ہوئے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے
ہرا بھرا
:
میں نے گاؤں میں ہرا بھرا کھیت دیکھا۔
قرض
:
میں نے کبھی کسی سے قرض نہیں لیا۔
خرچ
:
ہمیں اپنا مال و دولت الله کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے۔
خدمت
:
ہمیں اپنے والدین کی خدمت کرنی چاہیے۔
ترکیب
:
یہ ترکیب مجھے انور ہی نے بتائی۔
غصّہ
:
غصّہ انسان کو نقصان پہنچاتا ہے۔
وعدہ خلافی
:
شائستہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتی۔
ان لفظوں کے متضاد لکھیے
رحم دل
:
بےرحم
بوڑھا
:
جوان
عزت
:
بے عزت
ہوشیار
:
غافل
خوش
:
اداس
غور کرنے کی بات
راجا کسان کی بات سن کر حیران ہوا۔
راجا کو کسان پر بہت غصہ آیا۔
ان دو جملوں میں ”کی“ اور ”کو“ استعمال ہوا ہے۔ یہ ایسے لفظ ہیں جن کے الگ معنی نہیں، لیکن یہ دو لفظوں کے درمیان ایسا تعلق قائم کرتے ہیں کہ یہ اگر نہ ہو تو سارا جملہ بے ربط ہو جاتا ہے۔ قوائد میں انہیں حروفِ ربط کہتے ہیں۔
حضور،سرکار، مہاراج وغیرہ کلمے عزت اور احترام کے لیے بولے جاتے ہیں۔
کسان اپنی کمائی کا ایک حصہ ماں باپ پر ضرور خرچ کرتا تھا۔
آپ نے دیکھا کہ راجا،کسان اور وزیر کی بات چیت کے شروع اور آخر میں دو چھوٹے چھوٹے سیدھے الٹے واؤ ”و“ بنے ہوئے ہیں انھیں واوین کہتے ہیں ۔ مثلاً ”تم اس کھیت سے کتنا کما لیتے ہو۔“
ماں کو اپنے بیٹے اور زمیندار کو اپنے لہلہاتے ہوئے سر سبز و شاداب کھیت دیکھ کر جو خوشی ہوتی ہے وہی خوشی بابا بھارتی کو اپنا گھوڑا دیکھ کر ہوتی تھی ۔ یہ گھوڑا بڑا خوبصورت تھا۔ اس کے مقابلے کا گھوڑا سارے علاقے میں نہ تھا۔ بابا بھارتی اسے سلطان کہہ کر بلاتے تھے۔ اپنے ہاتھ سے کھر یرا کرتے ، اپنے ہاتھ سے دانہ کھلاتے اور دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے ۔ سلطان سے جدائی کا خیال بھی اُن کے لیے نا قابل برداشت تھا۔ ان کو وہم ہوگیا تھا کہ ”میں اس کے بغیر زندہ نہ رہ سکوں گا‘‘۔ وہ اس کی چال پر فریفتہ تھے۔ کہتے : ” اس طرح چلتا ہے جیسے طاؤس او دی او دی گھٹاؤں کو دیکھ کر ناچ رہا ہو ۔ گاؤں کے لوگ اس محبت پر حیران تھے ۔ بعض وقت کنکھیوں سے اشارے بھی کرتے تھے مگر بابا بھارتی کو اس کی پروا نہ تھی۔ جب تک شام کو وہ سلطان پر سوار ہوکر آٹھ دس میل کا چکّر نہ لگاتے انھیں چین نہ آتا۔
کلہن اس علاقے کا مشہور ڈاکو تھا۔ لوگ اس کا نام سُن کر تھرّاتے تھے۔ ہوتے ہوتے سلطان کی شہرت اُس
کے بھی کانوں تک پی ۔ شوق نے دل میں چٹکی لی۔ ایک دن دوپہر کے وقت بابا بھارتی کے پاس پہنچا اور نمسکارا کر کے کھڑا ہو گیا۔
بابا بھارتی نے پوچھا: ” کابین ! کیا حال ہے؟
کلہن نے سر جھکا کر جواب دیا ” آپ کی مہربانی ہے۔
کہو، ادھر کیسے آگئے ؟
سلطان کی شہرت کی کھینچ لائ ہے۔
عجیب جانور ہے خوش ہو جاؤ گے ۔“ ”
میں نے بڑی تعریف سنی ہے۔“
اس کی چال تمہارا دل موہ لے گی ۔
کہتے ہیں شکل بھی بڑی خوبصورت ہے۔“
کیا کہنے جو اسے ایک دفعہ دیکھ لیتا ہے، اس کے دل پر اس کی صورت نقش ہو جاتی ہے۔
مدت سے ترس رہا تھا، آج حاضر ہوا ہوں۔“
بابا اور کلہن دونوں اصطبل میں پہنچے۔ بابا نے بڑے غرور سے گھوڑا دکھایا ۔ کلہن نے حیرت سے گھوڑے کو دیکھا۔ اس نے ہزاروں گھوڑے دیکھے تھے ، لیکن ایسابانکا گھوڑا اس کی نگاہ سے آج تک نہ گزرا تھا۔ سوچنے لگا قسمت کی بات ہے۔ ایسا گھوڑا میرے پاس ہونا چاہیے تھا۔ اس فقیر کو ایسی چیزوں سے کیا نسبت۔ اس کی چال دیکھ کر کلہن کے سینے پر سانپ لوٹ گیا۔ وہ ڈاکو تھا۔ اس کے پاس طاقت تھی۔
اس نے کہا: ”باباصاحب! اس گھوڑے کو تو میرے پاس ہونا چاہیے تھا۔ یہ کہ کر وہ چلا گیا۔
با با خوف زدہ ہو گئے ۔ اب انھیں رات کو نیند نہ آتی تھی ۔ ساری ساری رات اصطبل کی خبر گیری میں کٹنے لگی۔ ہر وقت کلہن کا خطرہ لگا رہتا تھا، مگر کئی مہینے گزر گئے اور وہ نہ آیا۔ یہاں تک کہ بایا بھارتی کسی حد تک بے پروا ہو گئے۔
شام کا وقت تھا۔ بابا بھارتی سلطان کی پیٹھ پر سوار ہو کر سیر کو جارہے تھے۔ یکا یک ایک طرف سے آواز آئی : او با با !ذرا اک محتاج کی بات سنتے جاؤ۔ٌ
آواز میں رقّت تھی۔ بابا نے گھوڑا روک لیا۔ دیکھا تو ایک اپاہج درخت کے سائے تلے پڑا کراہ رہا تھا۔ بابا بھارتی کادل پسیج گیا، پولے: کیوں تمھیں کیا تکلیف ہے؟
اپاہج نے ہاتھ باندھ کر کہا: بابا! میں دکھی ہوں، مجھ پر مہربانی کرو۔ راما والا یہاں سے تین میل کے فاصلے پر ہے۔ مجھے وہاں جانا ہے۔ گھوڑے پر چڑھالو۔ پر ماتماتمھارا بھلا کرے گا۔
وہاں تمھارا کون ہے؟ بابا نے پوچھا۔
درگادت حکیم کا نام آپ نے سنا ہوگا، میں ان کا سوتیلا بھائی ہوں۔“
بابا بھارتی نے گھوڑے سے اتر کر اپاہج کو گھوڑے پر سوار کیا اور خود اس کی لگام پڑ کر آہستہ آہستہ چلنے لگے۔ اچانک انھیں ایک جھٹکا سا محسوس ہوا اور لگام ہاتھ سے چھوٹ گئی ۔ جب انھوں نے دیکھا کہ ایک ایاہج گھوڑے کی پیٹھ پرتن کر بیٹھا اسے دوڑائے لیے جارہا ہے تو ان کی حیرت کا ٹھکانہ نہیں رہا۔ ان کے منہ سے چیخ نکل گئی ۔ یہ اپاہج کلہن ڈاکو تھا۔
بابا بھارتی کچھ دیر خاموش رہے۔ اس کے بعد پوری قوت سے چلا کر کہا :” ذ راٹهر و!“
کلہن نے یہ آواز سن کر گھوڑا روک لیا اور اس کی گردن پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا: بابا صاحب! یہ گھوڑا اب نہ دوں گا۔
بابا بھارتی نے قریب آکر کہا” یہ گھوڑا تمھیں مبارک ہو۔ میں تمھیں اس کی واپسی کے لیے نہیں کہتا مگر کلہن تم سے صرف ایک درخواست کرتا ہوں، اسے ردّنہ کرنا ور نہ میرے دل کو سخت صدمہ پہنچے گا۔ بابا حکم دیجیے !
میں آپ کا غلام ہوں ، صرف یہ گھوڑا نہ دوں گا۔“ اب گھوڑے کا نام نہ لو۔ میں تمھیں اس کے بارے میں کچھ نہ کہوں گا۔ میری درخواست صرف یہ ہے کہ اس واقعے کا ذکر نہ ہونے پائے۔
کلہن کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا۔ اسے خیال تھا کہ بابا بھارتی اس چوری کی اطلاع پلس میں دے کر مجھے گرفتار کرا دیں گے۔ وہ سوچ رہا تھا کہ مجھے اس گھوڑے کو لے کر روپوش ہو جانا چاہیے۔ اس نے بابا بھارتی کے چہرے پر اپنی آنکھیں گاڑیں اور پوچھا: ”بابا صاحب! اس میں آپ کو کیا خطرہ ہے؟
بابا بھارتی نے جواب دیا: ” لوگوں کو اگر اس واقعے کا علم ہو گیا تو وہ کسی غریب پر اعتبار نہ کریں گے۔
اور یہ کہتے کہتے انھوں نے سلطان کی طرف سے اس طرح منہ موڑ لیا جیسے ان کا اس سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ با یا بھارتی تو چلے گئے مگر ان کا فقر کلہن کے کانوں میں اب تک گونج رہا تھا۔ سوچتا تھا بابابھارتی کا خیال کتنا اونچا
ہے۔ اگر چہ بابا صاحب کو اس گھوڑے سے عشق تھا، مگر آج ان کے چہرے پر ذرا بھی ملال نہ تھا۔ انھیں صرف یہ
خیال ستارہ تھا کہ کہیں لوگ غریبوں پر اعتبار کرنا نہ چھوڑ دیں۔ انھوں نے اپنے ذاتی نقصان کو انسانیت کے نقصان پر قربان کر دیا۔ ایسا آدمی آدمی نہیں فرشتہ ہے۔
رات کی تاریکی میں کلہن بابا بھارتی کے گھر پہنچا۔ چاروں طرف سناٹا تھا۔ آسمان پر تارے ٹمٹمارہے تھے۔ کلہن سلطان کی لگام پکڑے آہستہ آہستہ اسطبل کے دروازے پر پہنچا۔ دروازہ کھلا تھا۔ کبھی وہاں بابا بھارتی لاٹھی
لے کر پہرہ دیتے تھے۔ کلہن نے آگے بڑھ کر سلطان کو اس کی جگہ پر باندھ دیا اور باہر نکل کر دروازہ احتیاط سے بند کر دیا۔ اس وقت اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔
صبح ہوتے ہی بایا بھارتی نے اپنے کمرے سے نکل کر سرد پانی سے غسل کیا۔ اس کے بعد ان کے پاؤں اسطبل کی طرف اس طرح بڑ ھے جیسے کوئی خواب میں چل رہا ہو مگر دروازے پر پہنچتے ہی وہ چونک پڑے۔ انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اب گھوڑا وہاں کہاں تھا۔
گھوڑے نے اپنے مالک کے قدموں کی چاپ کو پہچان لیا اور زور سے ہنہنایا۔ بابا بھارتی دوڑتے ہوئے اصطبل کے اندر چلے گئے اور اپنے گھوڑے کے گلے سے لپٹ کر اس طرح رونے لگے جیسے بچھڑا ہوا باپ مدت کے بعد بیٹے سے مل کر روتا ہے۔ بار بار اس کی گردن پر ہاتھ پھیرتے اور کہتے تھے اب کوئی غریبوں کی مدد کرنے سے انکار نہ کرے گا۔
سدرشن
سوچیے اور بتائیے
1. بابا بھارتی اپنا گھوڑا دیکھ کر کیوں خوش ہوتے تھے ؟
جواب: بابا بھارتی اپنا گھوڑا دیکھ کر اس لیے خوش ہوتے تھے کیونکہ ان کا گھوڑا بہت ہی خوب صورت تھا۔ اس کے مقابلہ کا گھوڑا پورے علاقے میں نہ تھا۔
2. بابا بھارتی کے گھوڑے کی چال کیسی تھی؟
جواب: بابا بھارتی کے گھوڑے کی چال ایسی تھی جیسے طاؤس اودی اودی گھٹاوں میں ناچ رہا ہو۔
3. کلہن کون تھا؟ بابا اس سے خوفزدہ کیوں رہتے تھے؟
جواب: کلہن اس علاقہ کا مشہور ڈاکو تھا بابا اس سے خوفزدہ اس لیے تھا کیوں کہ اس کی نظر بابا بھارتی کے گھوڑے پر تھی اور وہ اسے حاصل کرنا چاہتا تھا۔
سوال: بابا بھارتی کا گھوڑا دیکھ کر کلہن کے سینے پر سانپ کیوں لوٹ گئے؟
جواب: چوںکہ بابا بھارتی کا گھوڑابہت ہی خوب صورت تھا اس کے مقابلہ کا گھوڑا پورے علاقے میں نہ تھا اس لیے کلہن کو اسے پانے کی چاہ ہوئی۔
سوال: اپاہج بن کر بابا بھارتی سے کس نے مدد مانگی؟
جواب: اپاہج بن کر بابا بھارتی سے کلہن نے مدد مانگی۔
سوال: بابا بھارتی نےکلہن سے کیا درخواست کی؟
جواب: بابا بھارتی نےکلہن سےدرخواست کی کہ کسی سے اس واقعہ کا ذکر نہ کرنا ۔
سوال: بابا بھارتی نے کلہن سے کیوں کہا کہ واقعہ کا ذکر کسی سے نہ کرنا؟
جواب: بابا نے ایسا اس لیے کہا کہ اگر لوگوں کو اس واقعے کا پتہ چلے گا تو وہ غریبوں اور معذوروں کی مدد کرنا چھوڑ دیں گے ۔
سوال: کلہن نے بابا بھارتی کہ بارے میں کیا سوچ کر گھوڑا ان کے اصطبل میں باندھ دیا؟
جواب: کلہن نے سوچا انہیں صرف یہ خیال ستا رہا ہے کہ کہیں لوگ غریبوں پر اعتبار کرنا چھوڑ نہ دیں۔ انہوں نے اپنے ذاتی نقصان کو انسانیت کے نقصان پر قربان کر دیا ۔ کلہن بابا بھارتی کے اچھے کردار سے متاثر ہوگیا اور یہ سوچ کر اس نے گھوڑا بابا بھارتی کہ اصطبل میں باندھ دیا ۔
سوال: اپنے گھوڑے کو واپس پا کر بابا بھارتی نے کیا کہا ؟
جواب: گھوڑے کو واپس پا کر بابا بھارتی نے کہا اب کوئی غریبوں کی مدد کرنے سےانکار نہیں کرے گا۔
نیچے لکھے ہوئی لفظوں کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے۔
لہلہانا
:
باغ میں پھول لہلہا رہے تھے۔
فریفتہ
:
وہ اپنے استاد پر فریفتہ تھا۔
خوف
:
خوف ِخدا سے اس کے ہاتھ کانپنے لگے۔
مہربانی
:
ہمیں سب سے مہربانی سے پیش آنا چاہیے۔
قسمت
:
قسمت کے بھروسے بیٹھے رہنا ٹھیک نہیں۔
مدد
:
ہمیں دوسروں کی مدد کرنی چاہیے۔
بے پروا
:
صبا اپنے کام سے بے پروا ہے۔
درخواست
:
نسیم نے احمد سے مدد کی درخواست کی۔
قوت
:
مکے باز نے پوری قوت سے گھونسہ مارا۔
احتیاط
:
مچھلی کھانے میں احتیاط برتنی چاہیے۔
عملی کام
خوف زدہ ، خبر گیری ، بے پروا اور روپوش مرکب الفاظ ہیں ۔ مرکب سے مراد ایسا لفظ ہے جس میں ایک سے زیاده لفظ اس طرح مل گئے ہوں یا ملا دیے گئے ہوں کہ ان سے ایک ہی معنی لیے جاتے ہوں ۔ اس طرح آپ بھی پانچ نئے لفظ بنائیے۔
غور کیجیے اور لکھیے۔
بابا بھارتی#######دہلی#########گنگا
لڑکا###########گھوڑا#######دریا
روشنی####### خوشی #######غصّہ
* پہلی قسم کے نام خاص ہیں یا کسی خاص آدمی یا کسی شہر یا کسی خاص دریا کے لیے استعمال ہوئے ہیں انہیں اسم خاص یا اسم معرفہ کہتے ہیں۔
* دوسری قسم کے نام عام ہیں کہ کوئی بھی لڑکا یا کوئی بھی گھوڑا کوئی بھی دریا ہوسکتا ہے انھیں اسم عام یا اسم نکرہ کہتے ہیں۔
* تیسری قسم کے نام کسی خاص حالت با کیفیت کو ظاہر کرتے ہیں ۔ انھیں اسم کیفیت کہتے ہیں۔
آپ بھی ان تینوں قسموں کے اسم تین تین سوچ کر لکھیے۔ شاہجہاں#######آگرہ#######جمنا لڑکی#######بکری#######ندی اندھیرا #######برائی#######دوستی
غور کرنے کی بات
* پنڈت سدرشن اردو کے مشہور افسانہ نگار تھے۔ انھوں نے کئی دلچسپ اور سبق آموز کہانیاں لکھی ہیں ۔
* کاہن ڈاکو بابا بھارتی کے گھوڑے کو دھوکے سے حاصل تو کر لیتا ہے لیکن وہ بابا بھارتی کے حسن اخلاق سے متاثر ہوکر گھوڑے کولوٹا دیتا ہے۔
* ہمیں یہ غور کرنا چاہیے کہ اچھے کردار کے اثر سے برے لوگ بھی متاثر ہوجاتے ہیں اور وہ اچھا عمل کرنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔
گیندا ایک بہت ہی خوبصورت اور خوش رنگ پھول ہے۔ انگریزی میں اسے میری گولڈ کہتے ہیں۔
گیندے کا بیج موسم گرما کے آغاز میں اپنی پھلواری میں لگایا جاسکتا ہے۔گرمی کے موسم میں اس کا پودہ تیزی سے بڑھتا ہے اور تقریباً 8 ہفتوں میں یہ اپنے جوبن پر ہوتا ہے۔
گیندے کا شمار سورج مکھی کے خاندان میں ہوتا ہے اور اس کی نر و مادہ دونوں قسمیں ہوتی ہیں۔
گیندے کا پھول عام طور سے پیلا، زعفرانی، لال اور میرون ہوتا ہے۔
اس کی ڈالی بالکل سیدھی ہوتی ہے اور یہ اونچائی میں 8 سے 48 انچ تک ہوتی ہے۔
گیندے کی کچھ قسمیں ایسی ہیں جس کی پتیاں آرے کے دانتوں کی طرح نوکیلے کناروں والی ہوتی ہیں۔
گینے کے ہر پھول میں بہت ساری پنکھڑیاں ہوتی ہیں جو ایک دوسرے پر چڑھی ہوتی ہیں۔ سب سے بڑی پنکھڑی سب سے باہر ہوتی ہے اور یہ ایک دائرے کی شکل میں چھوٹی ہوتی چلی جاتی ہے۔سب سے چھوٹی پنکھڑی پھول کے مرکز میں ہوتی ہے۔
گیندے کے پھول سازگار موسم میں سالوں بھر کھلتے ہیں۔ گیندے کی بعض قسمیں دو سال تک رہتی ہیں جبکہ عام طور سے یہ سالانہ کھلنے والا پھول ہے۔
گیندے کے پھول کے بہت سارے طبّی فوائد بھی ہیں۔ میکسیکو کے ایک قبیلے ایزٹیکس کا ماننا ہے کہ یہ آسمانی بجلی کی زد میں آکر جلنے والوں کے علاج کے لیےبہت مفید ہے۔
طبّی مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ گیندے کا پھول اینٹی وائرل، اینٹی بیکٹیریل، اینٹی فنگل اور مانع سوزش خصوصیات کا حامل ہوتا ہے۔
گیندے کا پھول کھایا بھی جا سکتا ہے۔ اس کا استعمال سلاد میں بھی کیا جاتا ہے۔
گیندے کا پھول فنگل کی خرابیوں کے لیے حساس ہے۔ یہ پودے کی جڑ اور اس کی سطح پرظاہر ہوتا ہے۔ گیندے کو مکڑیاں اور جھینگے یا ٹڈیاں نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
وہ چڑیا، وہ طوطا، وہ مینا، وہ مور ###وہ کوئل، وہ بلبل،وہ قُمری چکور
وہ جھیلوں کی لہریں، وہ دریا کا زور###وہ جھرنوں کا گرنا، وہ پانی کا شور
وہ سرسبز اس کے پہاڑ اور بَن
یہ میرا وطن ہے، یہ میرا وطن
وہ غلے، وہ میوے وہ ترکاریاں ###وہ خوش رنگ پھولوں کی گُل کاریاں
وہ سرسبز باغوں کی پھلواریاں ###وہ سیراب اور خوش نما کیاریاں
زمینیں وہ زرخیز دلکش چمن
یہ میرا وطن ہے، یہ میرا وطن
پہاڑوں کا منظر بنوں کا سماں###ہیں ان میں ہزاروں ہی چشمے رواں
کہاں تک بیاں اس کی ہوں خوبیاں### ہے فردوس کا اس چمن پر گماں
یہ باغِ ارم ہے یہ باغِ عدن
یہ میرا وطن ہے، یہ میرا وطن
پیارے بچّو! شاعر نے اس نظم میں کچھ پرندوں کا ذکر کیا ہے۔ کیا تم نے ان پرندوں کو کبھی دیکھا ہے یا ان کی آواز سنی ہے۔ آؤ میں تمہیں ان کی تصویریں دکھاتا ہوں اور ان کا مختصر تعارف کراتا ہوں۔
کوئل
کوئل کی آواز محققین کی نظر میں نغمگی سے بھرپور مانی جاتی ہے۔ یہ سیاہ رنگ کا ایک پرندہ ہے جس کی چونچ زردی مائل سبز ہوتی ہے اور آنکھیں لال ہوتی ہیں۔ نر کوئل موسم بہار میں صبح کی اولین ساعتوں سے ہی اپنی آواز کا جادو جگانے لگتا ہے۔ یہ دراصل مادہ کوئل تک اپنا پیغام پہنچانے کی ایک کوشش ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کوئل کی آواز عاشقوں کے دلوں کو گرما دیتی ہے۔
بلبل
گوریا کے برابر ایک خوش آواز و خوش رنگ پرندہ جس کے سر کی خوصورت چوٹی اور سر سیاہ ہوتا ہے۔ اس کی پیٹھ خاکستری اور دم کے نیچے سرخی ہوتی ہے ۔یہ پرندہ پھول کا عاشق ہوتا ہے۔ اسے بھی خوش الحان پرندوں کے گروہ میں رکھا گیا ہے۔ یہ عموماً ایران میں پایا جاتا ہے۔ شاعروں نے اپنے اشعار میں مستی پیدا کرنے کے لیے اس کے نام کا استعمال کیا ہے۔
قُمری
قُمری خانوادۂ کبوتر سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ فاختہ سے مشابہ مگر اُس سے زیدہ خوش رنگ ہوتا ہے۔ یہ تند پرواز یعنی تیز اڑتا ہے۔ س کی دم نسبتاً بلند اور گردن تنی ہوئی مگر کوتاہ ہوتی ہے۔ یہ زمین میں دانے چُگتا اور درخت پر زندگی گزارتا ہے۔ نر و مادہ ہمشکل ہوتے ہیں۔ یہ ایران میں پایا جاتا ہے۔
چکور
چکور ایک پرندہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسے چاند سے عشق ہے۔ چاند اور چکور کی اصطلاح ضرب المثل بن چکی ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ پرندہ چاند سے لپٹ جانا چاہتا ہے۔ وہ اُسے حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن ہمیشہ ناکام رہتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ چاند کو حاصل کرنے کے لیے اتنی بلندی تک پرواز کر جاتا ہے کہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
معنی یاد کیجیے۔
قُمری
:
فاختہ کی قسم کا ایک پرندہ (اس کی آواز نہایت گونج دار ہوتی ہے)
چکور
:
تیتر کی قسم کا ایک پرندہ، اسے چاند کا عاشق بھی کہتے ہیں۔
بَن
:
جنگل
سرسبز
:
ہرا بھرا، تر و تازه
غلّے
:
اناج
میوے
:
خشک پھل، بادام، اخروٹ اور کشمش وغیرہ
ترکاریاں
:
سبزیاں
گل کاریاں
:
نقاشی کر نا، گل بوٹے بنانا، پھول تراشنا
سیراب
:
پانی سے بھرا ہوا، تر و تازه
زرخیز
:
جس زمین میں پیداوار زیادہ ہوتی ہے، اُپجاؤ
چشمہ
:
زمین سے ابلتا ہوا پانی یا سوتا
رَواں
:
بہتا ہوا
فردوس
:
جنت ، بہشت
گماں
:
شک، شبه، وہم
دلکش
:
دل پسند، دل کو لبھانے والا
باغِ ارم
:
جنت کا باغ
باغِ عدن
:
جنت کا وہ باغ جس میں حضرت آدم کو رکھا گیا تھا۔
سوچیے اور بتائیے۔
1. شاعر نے نظم میں کن کن پرندوں کا ذکر کیا ہے؟
جواب: شاعر نے نظم میں چڑیا،طوطا، مینا ،مور ،کوئل، بلبل، قمری اور چکور کا ذکر کیا ہے۔
2. دلکش چمن کس کو کہا گیا ہے؟
جواب: دلکش چمن ہمارے وطن ہندوستان کو کہا گیا ہے۔
3. ”ہے فردوس کا اس چمن پر گماں“ اس مصرعے سے کیا مراد ہے؟
جواب: اس مصرعے سے مراد یہ ہے کہ شاعر کو اپنا وطن ہندوستان جنت کی طرح خوبصورت معلوم ہوتا ہے۔
4. اس نظم میں ہمارے وطن کی کون کون سی خوبیاں بیان کی گئی ہیں؟
جواب: اس نظم میں پہاڑوں کا منظر، بنوں یعنی جنگلوں کا سماں اور پہاڑوں سے گرنے والے چشمہ کا ذکر کیا گیا ہے اور شاعر نے اسے باغِ ارم اور باغِ عدن کہا ہے۔
5. اس نظم کے شاعر کا نام لکھیے؟
جواب: اس نظم کے شاعر کا نام شفیع الدین نیّر ہے۔
6. شاعر اس نظم میں کیا پیغام دینا چاہتا ہے؟
جواب: شاعر اس نظم میں یہ پیغام دینا چاہتے ہے کہ اس کا وطن بہت ہی خوبصورت اور جنت کی مانند ہے۔
نیچے لکھے ہوئے لفظوں کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے۔
دریا
:
دریا میں بڑے بڑے جہاز چلتے ہیں۔
پہاڑ
:
میرے گاؤں کے قریب ایک اونچا پہاڑ ہے۔
وطن
:
ہندوستان میرا وطن ہے۔
منظر
:
اس وادی کا منظر بہت حسین ہے۔ صبح کا منظر بہت حسین ہے۔
چمن
:
چمن میں پھول کھلے ہیں۔
سماں
:
صبح کا سماں دلکش ہے۔
املا درست کیجیے۔
ترقاریاں
:
ترکاریاں
باگوں
:
باغوں
منضر
:
منظر
صرسبز
:
سرسبز
وتن
:
وطن
مصرعے مکمّل کیجیے۔
(i) وہ چڑیا، وہ طوطا وہ مینا، وہ مور
(ii) وہ کوئل، وہ بلبل، وہ قُمری چکور
(iii) وہ سر سبز اس کے پہاڑ اور بَن
(iv) یہ میرا وطن ہے، یہ میرا وطن
واحد سے جمع اور جمع سے واحد بنائیے۔
چڑیا
:
چڑیاں
بلبل
:
بلبلیں
جھیل
:
جھیلیں
دریا
:
دریاؤں
جھرنوں
:
جھرنا
پہاڑ
:
پہاڑوں
میوے
:
میوہ
ترکاریاں
:
ترکاری
باغ
:
باغوں، باغات
پھلواری
:
پھلواریاں
کیاری
:
کیاریاں
منظر
:
مناظر
چشمہ
:
چشمے
خوبیاں
:
خوبی
مصرعوں کو صحیح ترتیب سے لکھ کر شعر مکمّل کیجیے۔
وہ غلّے، وہ میوے وہ ترکاریاں(1)
کہاں تک بیاں اس کی ہوں خوبیاں(2)
وہ سرسبز باغوں کی پھلواریاں (3)
وہ جھیلوں کی لہریں، وہ دریا کا زور(4)
وہ سیراب اور خوش نما کیاریاں(3)
وہ جھرنوں کا گرنا، وہ پانی کا شور(4)
ہےفردوس کا اس چمن پر گماں(2)
وہ خوش رنگ پھولوں کی گُل کاریاں(1)
###
عملی کام
*اس نظم کو زبانی یاد کیجیے۔
غور کرنے کی بات
* اس نظم میں ’میرا وطن‘ کے عنوان سےوطن کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔
* اس نظم میں ہمارے ملک کی خوبیاں مختصر طور پر بیان کی گئی ہیں۔
* ہمارے وطن کی محبت اور وطن دوستی کے جذبے کو نظم میں ابھارا گیا ہے۔