آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Friday 3 April 2020

Taleem Se Betawajjahi ka Nateeja - Hali - NCERT Solutions Class 9 Urdu

Taleem Se Betawajjahi ka Nateeja by Khwaja Altaf Hussain Hali  Chapter 16 NCERT Solutions Urdu
(اس صفحہ پر ابھی کام جاری ہے)
تعلیم سے بے توجہی کا نتیجہ
خواجہ الطاف حسین حالی

جنھوں نے کہ تعلیم کی قدر و قیمت
 نہ جانی مسلط ہوئی ان پر ظلمت
 ملوک اور سلاطیں نے کھوئی حکومت
 گھرانوں پر چھائی امیروں کے نکبت
رہے خاندانی نہ عزت کے قابل
ہوئے سارے دعوے شرافت کے باطل

 نہ چلتے ہیں و آں کام کاریگروں کے
 نہ برکت ہے پیشہ میں پیشہ وروں کے
 بگڑنے لگے کھیل سوداگروں کے
 ہوئے بند دروازے اکثر گھروں کے
کماتے تھے دولت جو دن رات بیٹھے
وہ اب ہیں دھرے ہاتھ پر ہاتھ بیٹھے

 ہنر اور فن واں ہیں سب گھٹتے جاتے 
ہنر مند ہیں روز وشب گھٹتے جاتے
 ادیبوں کے فضل وادب گھٹتے جاتے
 طبیب اور ان کے مطب گھٹتے جاتے
ہوئے پست سب فلسفی اور مناظر
نہ ناظم ہیں سرسبز اُن کے نہ ناثر

 اگر اک پہنے کو ٹوپی بنائیں
 تو کپڑا وہ اک اور دنیا سے لائیں
 جو سینے کو وہ ایک سوئی منگائیں
 تو مشرق سے مغرب میں لینے کو جائیں
ہر ایک شے میں غیروں کے محتاج ہیں وہ
 میکینکس  کی رو میں تاراج ہیں وہ

جو مغرب سے آئے نہ مال تجارت
 تو مر جائیں جو کے وہاں اہل حرفت
 ہو تجار پر بند راہ معیشت
 دکانوں میں ڈھونڈیں نہ پائیں بضاعت
پرائے سہارے ہیں بیوپار واں سب
طفیلی ہیں سیٹھ اور تجار واں سب

 یہ ہیں ترک تعلیم کی سب سزائیں
 وہ کاش اب بھی غفلت سے باز اپنی آئیں
 مبادا رہ عافیت پھر نہ پائیں 
کہ ہیں بے پناہ آنے والی بلائیں
 ہوا بڑھتی جاتی سر رہ گذر ہے
چراغوں کو فانوس بن اب خطر ہے

 لیے فرد بخشیٔ ووراں کھڑا ہے
 ہر اک فوج کا جائزہ لے رہا ہے 
جنھیں ماہر اور کرتبی دیکھتا ہے 
انہیں بخشتا تیغ و طبل و نوا ہے
یہ ہیں بے ہنر یک قلم چھٹتے جاتے
 رسالوں سے نام ان کے ہیں کٹتے جاتے



نظم
نظم کے معنی’ انتظام ترتیب یا آرائش کے ہیں۔ عام اور وسیع مفہوم میں یہ لفظ نثر کے مد مقابل کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور اس سے مراد پوری شاعری ہوتی ہے۔ اس میں وہ تمام اصناف اور اسالیب شامل ہوتے ہیں جو ہیت کے اعتبار سے نثر نہیں ہیں ۔ اصطلاحی معنوں میں غزل کے علاوہ تمام شاعری کو نظم کہتے ہیں۔
عام طور پنظم کا ایک مرکزی خیال ہوتا ہے جس کے گرد پوری نظم کا تانا بانانا جاتا ہے۔ خیال کا تدریجی ارتقا بی نظم کی ایک اہم خصوصیت بتایا گیا ہے۔ طویل نظموں میں بہارتقا واضح ہوتا ہے ختم نظموں میں یا انتقا م نہیں ہوتا اور کشور بیشتر ایک تار کی شکل میں بھرتا ہے۔
نظم کے لیے نہ و ہیئت کی کوئی قید ہے اور نہ موضوعات کی ۔ چنانچہ اردو میں غزل اور مثنوی کی ہیئت میں نظمیں اور آزاد و عراق میں بھی لکھی گئی ہیں ۔ اس طرح کوئی بھی موضوع نظم کا موضوع ہو سلتاہے۔
بیت کے اعتبار سے ختم کی چار میں ہوسکتی ہیں: .. پاین نظم
اسی نظم جس میں بھر کے استعمال اور قافیوں کی ترتیب میں مقررہ اصولوں کی پابندی کی گئی ہو، پایان نظم کہلاتی ہے۔ نئے انداز کی ایسی نظمیں بھی، جن کے بندوں کی ساخت مروجیوں سے مختلف ہو یا جن کے مصرعوں میں قافیوں کی ترتیب مروجہ اصولوں کے مطابق نہ ہو لیکن ان کے تمام مصرعے برابر کے ہوں اور ان میں قافیے کا کوئی نہ کوئی التزام ضرور پایا جائے ، پانظمیں
کہلاتی ہیں۔
ایسی نظم جس کے تمام مصر کے برابر کے ہوں مگر ان میں تھانے کی پابندی نہ ہو تم معر کہلاتی ہے۔ کچھ لوگوں نے اسے ظلم کاری بھی کہا ہے۔
ایسی نظم جس میں نہ تو قافیے کی پابندی کی گئی ہو اور یہ تمام مصرعوں کے ارکان برابر ہوں لینی جس کے مصرعے چھوٹے بڑے ہوں، آز انظم کہلاتی ہے۔
نثری نظم چھوٹی بوی نژری سطروں پرمشتمل ہوتی ہے۔ اس میں ردیف ، قافیے اور وزن کی پابندی نہیں ہوتی ۔ آج کل نثری نظم کا رواج دنیا کی تمام زبانوں میں عام ہے۔

خواجہ الطاف حسین حالی
(1837ء - 1914ء)
الطاف حسین حالی پانی پت میں پیدا ہوئے ۔ ان کی ابتدائی تعلیم وطن میں اور کچھ تعلیم دہلی میں ہوئی ۔ وہ اردو کے ادبی نظریہ ساز ناقد ، سوانح نگار اور صاحب طرز انشا پرداز ہیں ۔ شاعر کی حیثیت
سے بھی ان کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ ان کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اردو شاعری کوئی راہوں پر ڈالا ۔ غزل اورقصیدے کی خامیوں کو وارخ کیا۔ ان کی غزلیں اور میں لطف واش کے اعتبارسے اعلی درجے کی ہیں ۔ ان کے کلام میں سادگی ، ورومندی اور جذبات کی پاکیزگی پائی جاتی ہے۔ ان کی چار اہم کتا میں حیات سعدی، مقد مہ شعر و شاعری، یادگار غالب اور سرسید کی سوانح حیات جاوید ہیں۔
مولانا حالی شعروادب کوض مسرت حاصل کرنے کا ذریہ نہیں سمجھتے تھے۔ وہ شاعری کی مقصدیت کے قائل تھے۔ ان کا خیال تھا کہ شاعری زندگی کو بہتر بنانے میں مددگار ہوسکتی ہے اور دنیا میں اس سے بڑے بڑے کام لیے جاسکتے ہیں۔ وہ شاعری کے لیے خیلی مطالعہ کائنات اور مناسب الفاظ کی بہو کو ضروری سمجھتے تھے۔ حالی کو غالب ، شیشت اور سرسید کی صحبت حاصل تھی جس سے ان کے تنقیدی شعور کو جلائی۔
حالی نے ایک طویل نظم مد و جزر اسلام مسدس کی شکل میں لکھی جس کے بارے میں سرسید نے کہا کہ قیامت کے دن جب خدا پوچھے گا کہ تو کیا لایا ہے تو میں کہوں گا کہ حالی سے مسدس لکھوا کر لایا ہوں ۔“

Taleem Se Betawajjahi ka Nateeja by Khwaja Altaf Hussain Hali  Chapter 16 NCERT Solutions Urdu
لفظ و معنی
بے تو جہی : دھیان نہ دیا، تعلق نہ رکھنا
مسلط : چھایا ہوا، حاوی
نکبت : مفلسی ، بدحالی خواری
ظلمت : اندھیرا، تاریکی
باطل : جھوٹ
پیشہ : وہ کام جوروزی کمانے کے لیے کیا جائے
فضل : بزرگی مہربانی
طبیب : علاج کرنے والا حکیم
مطب : دواخانہ
ناشر : پھیلانے والا یعنی کتابیں چھاپنے والا
ناظم : انتظام کرنے والا سیکریٹری کے معنی میں بھی مستعمل
تاراج : بر باد
اہل حرفت : کاریگر
تجار : تاجر کی جامع تجارت کرنے والے
معیشت : کاروبار روزی ، سبب زندگی
بضاعت : پونجی، سامان
طفلی : بن بلایا مہمان
مبادا : کہیں ایسا نہ ہو، خدانخواسته
رہ عافیت : بچاؤ کا راستہ،خیر یت کا راستہ
طبل : نظاره
نوا : آواز
رسالوں : رسالہ کی جمع فوجی دستہ
ا
 غور کرنے کی بات
*  کسی بھی فرد، جماعت ، قوم اور ملک کی ترقی کے لیے تعلیم بہت ضروری ہے ۔ دنیا کےوہی مالک اور میں خوشحال اور ترقی پذیر ہیں جہاں کے شہریوں میں ہر طرح کی تعلیم  اورعلم و ہنر موجود ہے۔
*   اس نظم میں ہندوستانی قوم کی تعلیم سے دوری کو موضوع بنایا گیا ہے او تعلیم کے نہ ہونے کی  وجہ سے جو نقصانات ہوتے ہیں ان پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ * يہ نظم مسدس کے فارم (بیت) میں لکھی گئی ہے۔ مسدس اس نظم کوکہتے ہیں جس کے ایک بندمیں چھ مصر عے ہوتے ہیں۔ اس نظم میں سادہ اور سلیس زبان کا استعمال ہوا ہے۔

 سوالوں کے جواب لکھیے
1. تعلیم کی قدرو قیمت کیا ہے؟
2.  حکومت اورقوموں پر زوال کیسے آتا ہے؟
3.  شرافت اور عزت کا معیار کیا ہے؟
4.  ترک تعلیم کے کیا کیا نقصانات ہیں؟
5. کسی ملک اور وہاں کے عوام کی ترقی کن چیزوں سے ہوسکتی ہے؟

عملی کام
* اس نظم کو بلند آواز سے پڑھیے۔
* نظم کے بند نمبر ایک سے چار تک خوش خط لکھیے۔
* نظم کے پہلے بند کا مطلب لکھیے۔

* درج ذیل الفاظ میں سے واحد کی جمع اور جمع کی واحد بنا کر لکھیے:
ملک : ممالک
سلطان : سلاطین
امیروں : امیر
پیشہ وروں : پیشہ ور
سوداگروں : سوداگر
طبیب : اطباء
منظر : مناظر
تجار : تاجر
رسالوں : رسالہ
فوج : افواج

*تعلیم کے فوائد پر ایک مضمون لکھیے۔

کلک برائے دیگر اسباق

Thursday 2 April 2020

Muflisi Sab Bahar Khoti Hai - Wali - NCERT Solutions Class IX

Muflisi sab bahar khoti hai by Wali Muhammad Wali  Chapter 10 NCERT Solutions Urdu
(اس صفحہ پر ابھی کام جاری ہے)
غزل 
ولی محمد ولی

مفلسی سب بہار کھوتی ہے
 مرد کا اعتبار کھوتی ہے

کیوں کہ حاصل ہومج کوں جمعیت
 زلف تیری قرار کھوتی ہے

ہر سحرشوخ کی نگہ کی شراب
 مج انکھاں کا خمار کھوتی ہے

کیوں کے ملنا صنم کا ترک کروں
 دلبری اختیار کھوتی ہے

اے ولی آب اس پری رو کی
مج سنے کا غبار کھوتی ہے
غزل  کے معنی
عربی کا لفظ ہے ۔ اس کے اصل معنی ہیں محبوب سے باتیں کرتا ،عورتوں سے باتیں کرنا۔ وہ شاعری جسے غزل کہتے ہیں اس میں بنیادی طور پر عشقیہ باتیں بیان کی جاتی ہیں لیکن آہستہ آہستہ غزل میں دوسرے مضامین بھی داخل ہوتے گئے ہیں اور آج یہ کہا جاسکتا ہے کہ غزل میں تقریبا ہر طرح کی باتیں کی جاسکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غزل اردو کی سب سے مقبول صنف سخن ہے۔ غزل کا ہر شعر عام طور پر اپنے مفہوم کے اعتبار سے  مکمل ہوتا ہے۔
جس طرح غزل میں مضامین کی قید نہیں ہے اسی طرح اشعار کی تعداد بھی مقرر نہیں۔ یوں تو غزل میں عموماً پانچ یا سات شعر ہوتے ہیں ، لیکن بعض غزلوں میں زیادہ اشعار بھی ملتے ہیں ۔ کبھی کبھی ایک ہی بحر، قافیے اور ردیف میں شاعر ایک سے زیادہ غر لیں کہہ دیتا ہے۔ اس کو دو غزلہ، سہ غزلہ ' چہار غزلہ کہا جا تا ہے۔
کسی غزل کے اگر تمام شعر موضوع کے لحاظ سے آپس میں یکساں ہوں تو اسے غزل مسلسل کہتے ہیں اور اگر شاعر غزل کے اندر کسی ایک مضمون یا تجربے کو ایک سے زیادہ اشعار میں بیان کرے تو اسے قطعہ اور ایسے اشعار کو قطعہ بند کہتے ہیں۔
غزل کا پہلا شعر جس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں مطلع کہلاتا ہے۔ مطلع کے بعد والا شعرزیب مطلع یا حسن مطلع کہلاتا ہے۔ غزل میں ایک سے زیاده مطلع بھی ہو سکتے ہیں۔ انھیں مطلع ثانی ( دوسرا )مطلع ثالث (تیسرا) کہا جاتا ہے۔ غزل کا وہ آخری شعر جس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرتا ہے مقطع کہلاتا ہے۔ غزل کا سب سے اچھا شعر بیت الغزل یا شاه بیت کہلاتا ہے۔ جس غزل میں ردیف نہ ہو اور صرف قافیے ہوں ، اس کو غیر مردف غزل کہتے ہیں۔
ولی محمد ولی
(1667ء - 1707ء)
ولی کے نام تاریخ پیدائش اور جائے پیدائش ، سب کے بارے میں اختلاف ہے۔ لیکن بیشترلوگ اس بات پر متفق ہیں کہ ان کا نام ولی محمد اورخص ولی تھا۔ وہ اورنگ آباد میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی ۔ بعد میں احمد آباد کر انھوں نے شاہ وجیہہ الدین کی خانقاہ کے مدرسے میں تعلیم مکمل کی اور یہیں شاہ نور الدین سہروردی کے مرید ہوئے۔ ولی نے فارسی الفاظ اور انداز بیان
کی آمیزش سے ایک نیا رنگ پیدا کیا ۔ ولی کے کلام کا یہ نیا رنگ نہ صرف ان کی مقبولیت کا باعث بنا بلکہ اس زمانے کے دہلی کے شعرا نے بھی اس کا اثر قبول کیا اور وہ بھی اسی انداز میں شاعری کرنے
لگے۔ ولی کے اثر سے دہلی میں اردو شاعری کا چلن عام ہوا جو آگے چل کر روز به روز ترقی کرتا گیا۔ وی کا انتقال احمدآباد میں ہوا۔
ولی اپنے زمانے کے سب سے بڑے شاعر تھے۔ انھوں نے اردو شاعری کی تقریبا تمام اصناف میں صلاحیت کے جوہر دکھائے ہیں۔ دلی سے پہلے قصیدہ اور مثنوی کا رواج زیادہ تھا۔ ولی نے غزل کو اولیت دے
کر اردو شاعری کو ایک نیا موڑ دیا۔ ان کی غزلوں میں خیال کی ندرت اور بیان کی لطافت پائی جاتی ہے۔ انھوں نے اپنی غزلوں میں حسن وشق کے مضامین کے ساتھ ساتھ تصوف ومعرفت کو بھی جگہ دی ۔ عشقیہ واردات و کیفیات کے بیان میں سرور وستی کا انداز پایا جاتا ہے۔ ولی محبوب کے حسن کے داخلی اثرات کے ساتھ ساتھ اس کے خارجی اوصاف کا بیان بڑے پرلطف اور دلکش انداز میں کرتے ہیں ۔ ولی کی زبان میں ایک خاص مٹھاس ہے، جو ہندی ، د مینی اور فارسی کے الفاظ کوتوازن کے ساتھ استعمال کرنے سے پیدا ہوئی ہے۔

Muflisi sab bahar khoti hai by Wali Muhammad Wali  Chapter 10 NCERT Solutions Urdu
مشق
لفظ ومعنی
مفلسی : غریبی
کھونا : لے جانا ختم کر دینا گم کرنا
جمعیت : ٹھہراو، سکون
انکھاں : آنکھیں
خمار : پیاس لینی شراب کی طلب لیکن اسے بہت سے لوگ نشہ کے معنی میں بھی استعمال کرتے ہیں ۔ یہاں دونوں معنی صحیح ہو سکتے ہیں۔
صنم : محبوب (اصل معنی بت)
کیوںکے : کیوں کر
آب : چمک، پانی۔ یہاں چک کے معنی میں ہے۔
دلبری : محبوبیت
مچ : میرے، میرا
پری رو : پری چہرہ خوبصورت چہرے والا)
سینے : سینہ
غبار : رنجیدگی ناخوشی

 غور کرنے کی بات:
*  غزل میں بہت سے الفاظ ایسے آئے ہیں جواب نہیں بولے جاتے ۔ جیسے جج کوں (مجھ کو )،اکھاں (آنکھیں)، سنے ( سینہ ) کوں (کو)ج، مجھے معنی میرا ، میرے . اس غزل کے آخری شعر میں ایک لفظ آب آیا ہے۔ یہاں اس کے معنی چیک کے ہیں
لیکن اب پانی کو بھی کہتے ہیں۔

سوالوں کے جواب لکھیے:
 1. مرد کا اعتبار کھونے سے شاعر کی کیا مراد ہے؟
جواب: مفلسی یعنی غریبی ایک بری چیز ہے۔ ایک غریب آ دمی پر کوئی بھروسہ نہیں کرتا۔ اس کی باتوں پر کوئی بھی اعتبار نہیں کرتا۔
 2. کون سی چیز شاعر کے سینے کا غبار کھورہی ہے؟
جواب: اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میرے محبوب کا چہرہ اتنا خوبصورت ہے کہ اسے دیکھ کر میرے سینۓ میں جو بھی رنجیدگی ہے وہ دور ہو جاتی ہے یعنی اپنی محبوبہ کو دیکھ کر اس کی ساری شکایت اور رنج دور ہو جاتا ہے۔
3. شاعرصنم سے ملنا کیوں نہیں ترک کر پاتا ہے؟
جواب: شاعر اپنے محبوب سے ملنا اس لیے ثرک نہیں کر پاتا کہ وہ اس سے بے پناہ محبت کرتا ہے اور وہ اپنے دل پر قابو نہیں رکھ پاتا اور بے اختیار صنم سے ملنے پہنچ جاتا ہے۔
عملی کام
* اس غزل کو بلند آواز سے پڑھے اور زبانی یاد کیجیے۔

نیچے دیے گئے الفاظ کو جملوں میں استعمال کیجیے:
لفظ : معنی : جملہ
مفلسی : ں : ں
بہار : ں : ں
اعتبار : ں : ں
سحر ں : ں
اختیار : ں : ں
غبار : ں

* کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں جو لکھنے میں ایک جیسے نہیں ہوتے اور ان کو پڑھنے میں معمولی سا فرق ہوتا ہے۔ جیسے ڈرنظر ، نذر نظیر ، اشرار إصرار، الم علم عقل ۔ قل ۔ آپ اپنے استاد سے ان الفاظ کا فرق معلوم کر کے لکھیے۔

* غزل کے دوسرے شعر میں ایک لفظ حاصل آیا ہے اگر ہم اس کے شروع میں ل+ (ا) لگا دیں تو اس کے معنی ہی بدل جائیں گے اور یہ لفظ بن جائے گا لا حاصل یعنی جس سے کچھ حاصل نہ ہو۔ آپ اسی طرح لگا کر پانچ الفاظ لکھیے۔


کلک برائے دیگر اسباق

Ashk Aankhon Mein Kab Nahin Aata - Mir Taqi Mir - NCERT Solutions Class 9 Urdu

Ashk Aankhon mein kab nahin aata by Mir Taqi Mir  Chapter 11 NCERT Solutions Urdu
(اس صفحہ پر ابھی کام جاری ہے)
غزل
میرتقی میر

اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
 لوہو آتا ہے، جب نہیں آتا

 ہوش جاتا نہیں رہا لیکن
 جب وہ آتا ہے، تب نہیں آتا

صبر تھا ایک مونس ہجراں
 سو وہ مدّت سے اب نہیں آتا

 دل سے رخصت ہوئی کوئی خواہش
 گر یہ کچھ بے سبب نہیں آتا

 جی میں کیا کیا ہے اپنے اے ہمدم
 پر سخن تا بہ لب نہیں آتا

دور بیٹھا غبار میر اس سے
 عشق بن یہ ادب نہیں آتا


میر تقی میر
(1722ء - 1810ء)
میرتقی میر آگرے میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد درویش صفت انسان تھے۔ میر کی نوعمری میں ان کے والد کا انتقال ہو گیا پھر میں دہلی آگئے اور یہاں طویل عرصے تک رہے۔ یہاں خان آرزو کی محبتوں نے ان کے ذوق شعراورعلم کو ترقی دی اور بہت جلد وہ دہلی کے نمایاں شعر میں گئے جانے لگے۔ دلی میں انھوں نے اچھے اور برے دونوں طرح کے دن گزارے، اپنے مربیوں کے ساتھ کچھ وقت راجپوتانے میں گزارا اور بالآخر 1782ء کے قریب وہ لکھنؤ آگئے ۔ نواب آصف الدولہ نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس میں ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کے زمانے سے لے کر آج تک تمام شعرا اور ناقدین نے ان کی شاعران عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ انھیں خدائے تین کہا جاتا ہے اور عام طور پر لوگ انھیں اردو کا سب سے بڑا شاعر قرار دیتے ہیں۔

میر کی بڑائی اس میں ہے کہ انھوں نے زندگی کے دوسرے پہلوؤں کو بھی اپنی شاعری میں اتنی ہی خوبی سے جگہ دی ہے جس خوبی سے وہ رنج وغم کی بات کرتے ہیں۔ ان کی شاعری بظاہر سادہ ہے لیکن اس میں فکر کی گہرائی ہے۔ ان کے شعروں کو چھوتے ہیں ۔ میر اپنی شاعری میں لفظوں کو نے نئے رنگ سے استعمال کرتے ہیں اور اپنے کلام میں نئے نئے معنی پیدا کرتے ہیں ۔ میر نے بر می گن میں طبع آزمائی کی ہے لیکن ان کا اصل میدان غزل او مثنوی ہے۔ اردو میں ان کا خینم گلیات شائع ہو چکا ہے۔ انھوں نے ذکر میز کے نام سے فارسی زبان میں آپ بیتی لکھی اور نکات الشعرا کے نام سے اردو شاعروں کا ذکر چلکھا جسے اردو شعرا کا پہلا تذکرہ تسلیم کیا جاتا ہے۔


Ashk Aankhon mein kab nahin aata by Mir Taqi Mir  Chapter 11 NCERT Solutions Urdu
مشق
لفظ ومعنی
اشک : آنسو
وہ : یہاں بمعنی محبوب
لوہو : (لہو ) خون
مونس : دوست ، دل کو تسلی دینے والا
ہجراں : جدائی
گریہ : آنسو
ہمدم : ساتھی
سخن : بات
غبارمیر : میر کی خاک (یعنی مرکر خاک ہو جانے کے بعد میر کا جسم غبار بن کر ہوا میںاڑ رہا ہے)

تشریح
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
 لوہو آتا ہے، جب نہیں آتا
تشریح : میر کہتے ہیں کہ میں ہجر یار میں ہر دم روتا رہتا ہوں ۔ ایسا کون سا وقت ہونا ہے جب میری آنکھوں میں آنسو نہیں اور جب میری آنکھوں سے آنسو نہیں گرتے تو خون ٹپکنے لگتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ روتے روتے میری آنکھوں سےآنسوؤں کے بجائے خون نکلنے لگا ہے
 ہوش جاتا نہیں رہا لیکن
 جب وہ آتا ہے، تب نہیں آتا
تشریع : میرے ہوش حواس رخصت نہیں ہوئے ہیں ۔ میں پوری طرح ہوش میں ہوں ۔ لوگ مجھے بے کا دیوانہ سمجھتے ہیں حقیقت تو یہ ہے کہ جب محبوب آجاتا ہے تو میں ضرور ہوش وخرد سے بے گانہ نہ ہو جاتا ہوں ۔
صبر تھا ایک مونس ہجراں
 سو وہ مدّت سے اب نہیں آتا
تشریح : ہجر کی صعوبت میں اگر کوئی مونس و ہمدرد تھا تو وہ تھا صبر اسی کے سہارے شب ہجراں گزر رجاتی تھی مگراب تو  اس نے بھی ایک مدت ہوئی ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ اب تو ہمیں کسی طرح قرارنہیں آتا۔
 دل سے رخصت ہوئی کوئی خواہش
 گر یہ کچھ بے سبب نہیں آتا
تشریح:  ہمارے دل سے کوئی خواہش ضرور رخصت ہوئی اسی لئے تو میں رونا آرہا ہے ۔ یہ خواہش و صال یارکی
خواہش بھی ہوسکتی ہے۔
جی میں کیا کیا ہے اپنے اے ہمدم
 پر سخن تا بہ لب نہیں آتا
تشریح : اے میرے ہمدم میرے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن کیا کروں جو کچھ میں کہنا چاہتا ہوں وہ باتیں لبوں تک نہیں آ پا تیں۔محجوب کے آتے ہی تمام باتیں بھول جاتا ہوں ۔ غالب نے بھی اس طرح کہا ہے۔
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پو جھو کہ مدیا کیا ہے۔
دور بیٹھا غبار میر اس سے
 عشق بن یہ ادب نہیں آتا
تشریح : میر ے والد نے مرتے وقت میر کو ایک ہی وصیت کی تھی کہ بیٹا عشق کر عشق آداب زندگی سکھاتا ہے۔ میرکے جسم کی خاک مرنے کے بعد بھی پاس ادب کی خاطر محبوب تک نہیں پہنچ پارہی ہے۔ یہ سلیقے یہ اد ب عشق ہی کی بدولت ہیں عشق کے بغیر یہ ادب حاصل نہیں ہوتا۔




غور کرنے کی بات
 * میر کی شاعری فکر ، اسلوب اور فن کے لحاظ سے منفرد درجہ رکھتی ہے۔
 * میر اپنے اشعار میں سہل اور سادہ زبان استعمال کرتے ہیں لیکن کبھی کبھی ایسے الفاظ ان کیشاعری میں آجاتے ہیں جو اب متروک ہیں۔(یعنی استعمال نہیں ہوتے ہیں)
*  میر کے کلام میں بیان کی سادگی کے باوجودسوز و گداز اور اثر آفرینی ہے۔
*  یہ غزل چھوٹی بحر میں ہے اور میر کی سادگیٔ بیان کا بہترین نمونہ ہے۔ یہ سہل ممتنع ہے اورسہل ممتنع اس کلام کو کہتے ہیں جو بظاہر بہت آسان معلوم ہولیکن جب اس کا جواب (یعنی اس کی طرح کا کلام) للکھنے بیٹھیں تو جواب ممکن نہ ہو سکے۔
K
سوالوں کے جواب لکھیے
1. پہلے شعر میں شاعر کیا کہنا چاہتا ہے؟
جواب: اس شعر میں شاعر غم کی شدت بیان کر رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ غم جب زیادہ شدید ہوتا ہے تو آ نکھوں میں آ نسو نہیں آ تا بلکہ آنکھوںسے۔خون ٹپکتا ہے۔

 2. شاعر نے گر یہ آنے کا کیا سبب بتایا ہے؟
جواب: شاعر نے گریہ آ نے کا سبب اپنی سب خواہشوں کا مر جانا بتایا ہے۔

 3. اس غزل کے مقطعے کا مطلب اپنے الفاظ میں بیان کیجیے۔
جواب: مقطع میں میر کا کہنا ہے کہ تو اگر سچی محبت کرتا ہے تو اپنے محبوب سے دور بیٹھ اور یہ تبھی ممکن ہے جب تو اس سے عشق کرتا ہے۔اس لییے کہ یہ ادب عشق کے بغیر ممکن نہیں۔

عملی کام
*  استاد کی مدد سے غزل کو  صحیح تلفظ اور مناسب ادائیگی سے پڑھیے۔
*  اس غزل کو خوشخط لکھیے۔
*  اس غزل میں کون کون سے قافیے استعمال ہوئے ہیں لکھیے ۔


کلک برائے دیگر اسباق

Dard Mannat Kashe Dawa Na Hua - Mirza Ghalib - NCERT Solutions Class IX Urdu


(اس صفحہ پر ابھی کام جاری ہے)
غزل
میرتقی میر

اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
 لوہو آتا ہے، جب نہیں آتا

 ہوش جاتا نہیں رہا لیکن
 جب وہ آتا ہے، تب نہیں آتا

صبر تھا ایک مونس ہجراں
 سو وہ مدّت سے اب نہیں آتا

 دل سے رخصت ہوئی کوئی خواہش
 گر یہ کچھ بے سبب نہیں آتا

 جی میں کیا کیا ہے اپنے اے ہمدم
 پر سخن تا بہ لب نہیں آتا

دور بیٹھا غبار میر اس سے
 عشق بن یہ ادب نہیں آتا


میر تقی میر
(1722ء - 1810ء)
میرتقی میر آگرے میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد درویش صفت انسان تھے۔ میر کی نوعمری میں ان کے والد کا انتقال ہو گیا پھر میں دہلی آگئے اور یہاں طویل عرصے تک رہے۔ یہاں خان آرزو کی محبتوں نے ان کے ذوق شعراورعلم کو ترقی دی اور بہت جلد وہ دہلی کے نمایاں شعر میں گئے جانے لگے۔ دلی میں انھوں نے اچھے اور برے دونوں طرح کے دن گزارے، اپنے مربیوں کے ساتھ کچھ وقت راجپوتانے میں گزارا اور بالآخر 1782ء کے قریب وہ لکھنؤ آگئے ۔ نواب آصف الدولہ نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس میں ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کے زمانے سے لے کر آج تک تمام شعرا اور ناقدین نے ان کی شاعران عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ انھیں خدائے تین کہا جاتا ہے اور عام طور پر لوگ انھیں اردو کا سب سے بڑا شاعر قرار دیتے ہیں۔

میر کی بڑائی اس میں ہے کہ انھوں نے زندگی کے دوسرے پہلوؤں کو بھی اپنی شاعری میں اتنی ہی خوبی سے جگہ دی ہے جس خوبی سے وہ رنج وغم کی بات کرتے ہیں۔ ان کی شاعری بظاہر سادہ ہے لیکن اس میں فکر کی گہرائی ہے۔ ان کے شعروں کو چھوتے ہیں ۔ میر اپنی شاعری میں لفظوں کو نے نئے رنگ سے استعمال کرتے ہیں اور اپنے کلام میں نئے نئے معنی پیدا کرتے ہیں ۔ میر نے بر می گن میں طبع آزمائی کی ہے لیکن ان کا اصل میدان غزل او مثنوی ہے۔ اردو میں ان کا خینم گلیات شائع ہو چکا ہے۔ انھوں نے ذکر میز کے نام سے فارسی زبان میں آپ بیتی لکھی اور نکات الشعرا کے نام سے اردو شاعروں کا ذکر چلکھا جسے اردو شعرا کا پہلا تذکرہ تسلیم کیا جاتا ہے۔

لفظ ومعنی
اشک : آنسو
وہ : یہاں بمعنی محبوب
لوہو : (لہو ) خون
مونس : دوست ، دل کو تسلی دینے والا
ہجراں : جدائی
گریہ : آنسو
ہمدم : ساتھی
سخن : بات
غبارمیر : میر کی خاک (یعنی مرکر خاک ہو جانے کے بعد میر کا جسم غبار بن کر ہوا میںاڑ رہا ہے)

غور کرنے کی بات
 * میر کی شاعری فکر ، اسلوب اور فن کے لحاظ سے منفرد درجہ رکھتی ہے۔
 * میر اپنے اشعار میں سہل اور سادہ زبان استعمال کرتے ہیں لیکن کبھی کبھی ایسے الفاظ ان کیشاعری میں آجاتے ہیں جو اب متروک ہیں۔(یعنی استعمال نہیں ہوتے ہیں)
*  میر کے کلام میں بیان کی سادگی کے باوجودسوز و گداز اور اثر آفرینی ہے۔
*  یہ غزل چھوٹی بحر میں ہے اور میر کی سادگیٔ بیان کا بہترین نمونہ ہے۔ یہ سہل ممتنع ہے اورسہل ممتنع اس کلام کو کہتے ہیں جو بظاہر بہت آسان معلوم ہولیکن جب اس کا جواب (یعنی اس کی طرح کا کلام) للکھنے بیٹھیں تو جواب ممکن نہ ہو سکے۔

سوالوں کے جواب لکھیے
1. پہلے شعر میں شاعر کیا کہنا چاہتا ہے؟
جواب:

 2. شاعر نے گر یہ آنے کا کیا سبب بتایا ہے؟
جواب:

 3. اس غزل کے مقطعے کا مطلب اپنے الفاظ میں بیان کیجیے۔


عملی کام
*  استاد کی مدد سے غزل کو  صحیح تلفظ اور مناسب ادائیگی سے پڑھیے۔
*  اس غزل کو خوشخط لکھیے۔
*  اس غزل میں کون کون سے قافیے استعمال ہوئے ہیں لکھیے ۔


کلک برائے دیگر اسباق

Roshan Jamaal e Yaar Se Hai Anjuman Tamam - Hasrat Mohani - NCERT Solutions Class IX


Roshan Jamal e Yaar Se Hai Anjuman Tamam by Hasrat Mohani  Chapter 13 NCERT Solutions Urdu
(اس صفحہ پر ابھی کام جاری ہے)
غزل
حسرت موہانی

روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام
 دہکا ہوا ہے آتش گل سے چمن تمام

 حیرت غرورحسن سے شوخی سے اضطراب
 دل نے بھی تیرے سیکھ لیے ہیں چلن تمام

 دیکھو تو چشم یار کی جادو نگا ہیاں
 بے ہوش اک نظر میں ہوئی انجمن تمام

 نشو و نمائے سبزہ وگل سے بہار میں
 شادابیوں نے گھیر لیا ہے چمن تمام

 اچھا ہے اہل جور کیے جائیں سختیاں
 پھیلے گی یونہی شورش حُبّ وطن تمام

سمجھے ہیں اہل شرق کو شاید قریب مرگ 
مغرب کے کیوں ہیں جمع یہ زاغ وزغن تمام

شیرینی نسیم ہے سوز و گداز میر 
حسرت ترے سخن پہ ہے لطفِ سخن تمام

حسرت موہانی
(1881ء -1951ء)
سید فضل حسن حسرت ،قصبہ موہان ضلع اتاک (یوپی) میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے عربی ، فارسی گھر پر پڑھی اور انگریزی تعلیم اسکول میں حاصل کی۔ علی گڑھ سے بی۔ اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد انھوں نے ایک ادبی ماہنامہ اردوئے معلی‘ جاری کیا جو عرصہ دراز تک اردو زبان وادب کی خدمت کرتا رہا۔ حسرت مذہبی انسان تھے۔ ان کا ذبان ہم کے تعصبات سے پاک تھا۔ ان میں کمال کی اخلاقی جرات کی۔ جو بات دل میں ہوتی وہی زبان پر لاتے ۔ منافقت او تصنع سے انھیں دور کا واسطہ نہ تھا۔ خودداری، بے باکی ، اصول پسندی سادگی اور خلوس ان کے نمایاں اوصاف تھے۔

حسرت کو طالب علمی کے زمانے سے شعروشاعری کا شوق تھا لیکن وہ تحریک آزادی میں بھی عملی طور پر شریک رہے ۔ قوم کے بڑے رہنماؤں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ ان کے رسالے اردوئے معلی کی ضمانت ضبط کر لی گئی۔ انھوں نے کئی بار قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن آزادی کامل کے سلسلے میں کسی سمجھوتے کے قائل نہ تھے۔ عمل آزادی کا نعرہ سب سے پہلے انھوں نے ہی بلند کیا تھا۔

اردو غزل کو از سر نو مقبول بنانے میں حسرت موہانی کا بڑا ہاتھ ہے۔ انھوں نے غزل کو تہذیب عاشقی کی شائستہ زبان سے آشنا کیا اور در دو اثر کے ساتھ شیر ینی ، دل کشی اور طرز ادا میں شانتی و لطافت پیدا کیا ۔ حسرت موہانی نے اپنی غزل میں عشقیہ مضامین کے علاوہ قومی سیاست اور قومی یک جہتی پر مبنی مضامین بھی داخل کیے۔ انھوں نے پرانے شعرا کا ایک بہت عمدہحسرت موہانی روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام . انتخاب انتخاب جن کے نام سے چودہ جلدوں میں شائع کیا اور اس انتخاب کے ذریعے کئی ایسے شعرا کا کلام محفوظ ہو گیا اور دور دور تک پہنچا جو پردہ گم نامی میں تھے۔
حسرت موہانی نے نواب اصغرعلی خان تھیم کے شاگردنشی امیر الله تایم کی شاگردی اختیار کی۔
Roshan Jamal e Yaar Se Hai Anjuman Tamam by Hasrat Mohani  Chapter 13 NCERT Solutions Urdu
لفظ و معنی
انجمن  : محفل
چلن : طریقه، ڈھنگ
اضطراب : بے چینی
 نشوونما : پھلنا پھولنا، فروغ پانا
ابل جور : ظلم کرنے والے
شورش : ہنگامہ، شور
زاغ : کوا
زغن  : چیل

غور کرنے کی بات
* حسرت کے کلام کی سب سے بڑی خصوصیت سادگی ہے۔ ان کی زندگی جتنی سخت کوشی میں گزری ان کی شاعری اس قدر نشاط انگیز ہے۔
* مقطعے میں تم سے مراد نواب اصغر علی خاں نسیم دہلوی ہیں جوکہ حسرت موہانی کے استادمنشی امیر اللہ تسلیم کے استاد تھے۔ وہ جس طرح نسیم کی شیرینی  کے قائل تھے اسی طرح میر کے سوز وگداز کے بھی معترف تھے۔ شیرینی سے مراد زبان کی صفائی اور اس کا بامحاورہ اور سلیسہونا ہے۔

 سوالوں کے جواب لکھیے:
 1. دہکا ہوا ہے آتش گل سے چمن تمام اس مصرعے میں آتش گل سے کیا مراد ہے؟
جواب:

2. اہل جور سے شاعر کا کیا مطلب ہے؟
جواب:

 3. غزل کے کس شعر میں تعلقی کا اظہار کیا گیا ہے؟
جواب:

4. شاعر کے خیال میں وطن سے محبت کا شورکن وجوہ سے پھیل رہا ہے؟
جواب:

عملی کام
* غزل کی بلندخوانی کیجیے۔
* پسندیدہ اشعار یاد کیجیے۔
* غزل کے اشعار کوخوش خط تھے۔
* اس غزل کے قافیوں کی نشاندہی کیجیے اور ان سے ملتے جلتے تین اور قافیے لکھیے ۔
* اشعار میں مختلف جگہوں پراضافت کا استعمال ہوا ہے، ایسے الفاظ تلاش کر کے لکھے ۔
* جن اشعار میں حرف عطف کا استعمال ہوا ہے ان شعروں کی نشاندہی کیجیے۔
* مقطع میں جن تین شعراس لص آئے ہیں ان کے پورے نام لکھیے۔


کلک برائے دیگر اسباق

Charpai - Rasheed Ahmad Siddiqui - NCERT Solutions Class IX Urdu

Charpai by Rasheed Ahmad Siddiqui  Chapter 2 NCERT Solutions Urdu
چارپائی
رشید احمد صدیقی
چارپائی اور مذہب ہم ہندوستانیوں کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ ہم اس پر پیدا ہوتے ہیں اور یہیں سے مدرسے، آفس، جیل خانے، کونسل، یا آخرت کا راستہ لیتے ہیں۔ چارپائی ہماری گھٹّی میں پڑی ہوئی ہے۔ ہم اس پر دوا کھاتے ہیں، دعا و بھیک بھی مانگتے ہیں ۔ کبھی فکرسخن کرتے ہیں اور کبھی فکر قوم ۔ اکثر فاقہ کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ ہم کو چارپائی پر اتنا ہی اعتماد ہے جتنا برطانیہ کو آئی۔ سی ۔ ایس پر، شاعر کو قافیہ پر یا طالب علم کو غل غپاڑے پر۔
چارپائی کی مثال ریاست کے ملازم سے دے سکتے ہیں ۔ یہ ہر کام کے لیے ناموزوں ہوتا ہے، اس لیے ہر کام پر لگادیا جاتا ہے۔ ایک ریاست میں کوئی صاحب ولایت پاس ہو کر آئے۔ ریاست میں کوئی آسامی نہ تھی جو ان کو دی جاسکتی ۔ آدمی سوجھ بوجھ کے تھے، راجا صاحب کے کانوں تک یہ بات پہنچا دی کہ کوئی جگہ نہ ملی تو وہ لاٹ صاحب سے طے کر آئے ہیں، راجا صاحب ہی کی جگہ پر اکتفا کریں گے۔ ریاست میں ہلچل مچ گئی ۔ اتفاق سے ریاست کے سول سرجن رخصت پر گئے ہوئے تھے، یہ ان کی جگہ پرتعینات کر دیے گئے۔ کچھ دنوں بعد سول سرجن صاحب واپس آئے تو انجینئر صاحب پرفالج  گرا۔ ان کی جگہ ان کو دے دی گئی۔ آخری بار یہ خبر سنی گئی کہ وہ ریاست کے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہو گئے تھے اور اپنے ولی عہد کو ریاست کے ولی عہد کا مصاحب بنوا دینے کی فکر میں تھے۔
یہی حالت چار پائی کی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان ملازم صاحب سے کہیں زیادہ کارآمد ہوتی ہے۔ فرض کیجیے آپ بیمار ہیں ، سفر آخرت کا سامان میسر ہو یا نہ ہو، اگر چار پائی آپ کے پاس ہے تو دنیا میں آپ کو کسی اور چیز کی حاجت نہیں ۔ دوا کی پڑیا تکیے کے نیچے ، جوشاندے کی دیگچی سرہانے رکھی ہوئی ، چار پائی سے ملا ہوا بول و براز کا برتن ، چارپائی کے نیچے میلے کپڑے، بچوں کے کھلونے ، جھاڑو، آش جو، روئی کے پھائے، کاغذ کے ٹکڑے، مچھر، بھنگے، گھر یا محلے کے دو ایک بچّے ، جن میں ایک آدھ زکام خسرے میں مبتلا۔ ا چھے ہو گئے تو بیوی نے چار پائی کھڑی کر کے غسل کرادیا۔ ورنہ آپ کے دشمن اسی چارپائی پرلب گورلائے گئے۔
ہندوستانی گھرانوں میں چار پائی کو ڈرائنگ روم، سونے کا کمرہ ،غسل خانہ، قلعہ، خانقاه ، خیمہ، دواخانہ، صندوق، کتاب گھر، شفاخانہ ، سب کی حیثیت کبھی کبھی بہ یک وقت ورنہ وقت وقت پر حاصل رہتی ہے۔ کوئی مہمان آیا، چار پائی نکالی گئی ۔ اس پر ایک نئی دری بچھا دی گئی، جس کے تہہ کے نشان ایسے معلوم ہوں گے جیسے کسی چھوٹی سی اراضی کو مینڈوں اور نالیوں سے بہت سے مالکوں میں بانٹ دیا گیا ہے اور مہمان صاحب مع اچکن ، ٹوپی، بیگ ، بغچی کے بیٹھ گئے۔ اورتھوڑی دیر کے لیے یہ معلوم کرنا دشوار ہوگیا کہ مہمان بے وقوف ہے یا میز بان بد نصیب ! چار پائی ہی پران کا منہ ہاتھ دھلوایا اور کھانا کھلایا جائے گا اور اسی چارپائی پر یہ سورہیں گے۔ سوجانے کے بعد ان پر سے مچھر مکھی  اسی طرح اڑائی جائے گی جیسے کوئی پھیری والا اپنے خوانچے پر سے جھاڑو نما مور چھل سے مکھیاں اڑارہا ہو۔
چارپائی پر سوکھنے کے لیے اناج پھیلایا جائے گا، جس پر تمام دن چڑیاں حملے کرتی ، دانے چگتی اور گالیاں سنتی رہیں گی۔ کوئی تقریب ہوئی تو بڑے پیمانے پر چار پائی پر آلو چھیلے جائیں گے ۔ ملازمت میں پنشن کے قریب ہوتے ہیں تو جو کچھ رخصت جمع ہوتی رہتی ہے، اس کو لے کر ملازمت سے سبک دوش ہوجاتے ہیں ۔ اس طرح چار پائی پنشن کے قریب پہنچتی ہے تو اس کو اسیکال کوٹھری میں داخل کر دیتے ہیں اور اس پر سال بھر کا پیاز کا ذخیرہ جمع کر دیا جا تا ہے۔ ایک دفعہ دیہات کے ایک میزبان نے پیاز ہٹا کر اس خاکسار کو ایسی ہی ایک پنشن یافتہ چار پائی پر اسی کال کوٹھری میں بچھا دیا تھا اور پیاز کو چارپائی کے نیچے اکٹھا کردیا گیا تھا۔ اس رات کو مجھ پر آسمان کے اتنے ہی طبق روشن ہو گئے تھے جتنی ساری پیازوں میں چھلکے تھے اور وہ یقیناً چودہ سے زیادہ تھے۔
چار پائی ایک اچھے بکس کا بھی کام دیتی ہے، تکیے کے نیچے ہر قسم کی گولیاں ، جن کے استعمال سے آپ کے سوا کوئی واقف نہیں ہوتا، ایک آدھ روپیہ، چند دھیلے پیسے، اسٹیشنری ، کتابیں ، رسالے، جاڑے کے کپڑے، تھوڑا بہت ناشتہ، نقش سلیمانی ، فہرست دواخانہ،سمن، جعلی دستاویز کے کچھ مسوّدے، یہ سب چار پائی میں آباد ملیں گے۔ میں ایک ایسے صاحب سے واقف ہوں جو چارپائی پر لیٹے لیٹے ان میں سے ہر ایک کو ، اجالا ہو یا اندھیرا ، اس صحت کے ساتھ آنکھ بند کر کے نکال لیتے اور پھر رکھ دیتے، جیسے حکیم نابینا صاحب مرحوم اپنے لمبے چوڑے بکس میں سے ہر مرض کی دوائیں نکال لیتے اور پھر رکھ دیتے تھے۔
حکومت بھی چار پائی ہی پر سے ہوتی ہے۔ خاندان کے کرتا دھرتا چار پائی ہی پر براجمان ہوتے ہیں ۔ وہیں سے ہر طرح کے احکام جاری ہوتے رہتے ہیں اور گناہ گار کو سزا بھی وہیں سے دی جاتی ہے۔ آلات سزامیں ہاتھ ، پاؤں ، زبان کے علاوہ ڈنڈا، جوتا، تاملوٹ بھی ہیں جن میں اکثر پھینک کر مارتے ہیں۔ یہ اس لیے کہ توقف کرنے میں غصّے  کا تاؤ  مدھم نہ پڑ جائے اور ان آلات کو مجرم پر استعمال کرنے کے بجائے اپنے اوپر استعمال کرنے کی ضرورت محسوس ہونے لگے۔
چار پائی ہی کھانے کا کمرہ بھی ہوتی ہے ۔ باورچی خانے سے کھا نا چلا اور اس کے ساتھ پانسات چھوٹے بڑے بچے ، اتنی ہی مرغیاں، دو ایک کتے، بلی، اور بے شمار مکھیاں آ پہنچیں۔ سب اپنے قرینے سے بیٹھ گئے ۔ صاحب خانہ صدر دستر خوان ہیں ۔ ایک بچہ زیادہ کھانے پر مار کھاتا ہے، دوسرا بدتمیزی سے کھانے پر، تیسرا کم کھانے پر، چوتھا زیادہ کھانے پر اور بقیہ اس پر کہ ان کو مکھیاں کھائے جاتی ہیں ۔ دوسری طرف بیوی مکھی اڑاتی جاتی ہے اور شوہر کی بد زبانی سنتی اور بدتمیزی سہتی جاتی ہے۔ کھانا ختم ہوا۔ شوہر شاعر ہوئے تو ہاتھ دھوکر فکرسخن میں چار پائی ہی پر لیٹ گئے کہیں دفتر میں ملازم ہوئے تو اس طرح جان لے کر بھاگے جیسے گھر میں آگ لگی ہے۔ اور کوئی مذہبی آدمی ہوئے تو اللہ کی یاد میں قیلولہ کرنے لگے، بیوی بچے بدن دبانے لگے۔
چارپائی ہندوستان کی آب و ہوا، تمدن و معاشرت ،ضرورت اور ایجاد کا سب سے بھر پور نمونہ ہے۔ ہندوستان اور ہندوستانیوں کے مانند ڈھیلی ڈھالی ، شکستہ حال، بے سروسامان لیکن ہندوستانیوں کی طرح غالب اور حکمراں کے لیے ہر قسم کا سامان راحت فراہم کرنے کے لیے آمادہ، کوچ اور سوفے کے دلدادہ اور ڈرائنگ روم کے اسیر اس راحت و عافیت کا کیا اندازہ لگا سکتے ہیں جو چار پائی پر میسر آتی ہے شعرا نے انسان کی خوشی اور خوش حالی کے لیے کچھ باتیں منتخب کر لی ہیں ، مثلا سچے دوست ، شرافت ، فراغت، اور گوشہ چمن۔ ہندوستان جیسے ملک کے لیے عیش وفراغت کی فہرست اس سے مختصر ہونی چاہیے۔ میرے نزدیک تو صرف ایک چار پائی ان تمام لوازم کو پورا کرسکتی ہے۔

Charpai by Rasheed Ahmad Siddiqui  Chapter 2 NCERT Solutions Urdu
رشید احمد صدیقی
(1977ء - 1876ء)
رشید احمد صدیقی اتر پردیش کے شہر جون پور کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم جون پور میں حاصل کی اور اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کی غرض سے علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ ایم ۔ اے کرنے کے بعد وہیں ملازم ہو گئے ۔ جب علی گڑھ یونیورسٹی میں شعبہ اردو قائم ہوا، تو رشید احمد صدیقی اس کے صدر بنائے گئے۔ انھیں علی گڑھ بہت عزیز تھا اور انھوں نے ساری زندگی وہیں گزاری۔
رشید احمدصدیقی نے طالب علمی کے زمانے ہی سے لکھنا شروع کردیا تھا۔ ان کے مضامین طنز اور ظرافت کے اعلیٰ نمونے ہیں۔ وہ عموماً اشاروں، کنایوں اور چبھتے ہوئے جملوں میں اپنی بات کہتے ہیں ۔ ملتے جلتے لفظوں اور متضاد لفظوں کو وہ ایک نئے انداز سے استعمال کرتے ہیں۔ ان کے موضوعات میں تنوّع ہے۔ معاشرتی ، سیا سی اور ادبی مسائل پر جب وہ قلم اٹھاتے ہیں تو ان کے طرزتحریر کو سمجھنے والا قاری ان کی نُکتہ رسی کی داد دئیے بغیر نہیں رہتا۔ ان کے یہاں دلچسپ فقروں، نادر تشبیہوں، معنی خیز اشاروں ، برجستہ لطیفوں اور پر لطف انداز بیان کی وجہ سے نرالی ادبی شان پیدا ہو جاتی ہے۔ رشید احمد صدیقی کو ”ادبی مزاح نگاری“ کے میدان میں سب سے پہلا اوربعض لوگوں کی نظر میں اہم ترین مصنف قرار دیا جاتا ہے ۔ ان دنوں مشتاق احمد یوسفی اس طرز کے بہتر ین نمائندے ہیں۔
رشید احمد صدیقی کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت ہند نے 1963ء میں انھیں’   پدم شری‘ کا اعزاز عطا کیا۔ ان کو ساہتیہ اکادمی کے ایوارڈ سے بھی سرفراز کیا گیا۔ ان کا انتقال علی گڑھ میں ہوا۔
’مضامین رشید‘ ( مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ) ’خنداں‘ (ریڈ بائی تقریروں کا مجموعہ )’ گنج ہائے گراں مایہ‘ اور ’ہم نفسان رفتہ‘ (خاکوں کے مجموعے )’طنزيات ومضحکات‘ اور ’جدید غزل‘ (تنقید) اور ’آشفتہ بیانی میری‘ (خودنوشت ) رشید احمد صدیقی کی اہم تصانیف ہیں۔

لفظ ومعنی 
فکر سخن کرنا : شعر کہنا، شعر کہنے کی کوشش کرنا
آئی۔سی۔ایس : انڈین سول سروس، انگریزوں کے زمانے کی انتظامی ملازمت کی سروس جسے اب آئی۔اے۔ ایس (انڈین ایڈمنسٹریٹو سرویس) کہتے ہیں
غل غپاڑے : شوروغل
اسامی : نوکری ، منصب
اکتفا کرنا : قناعت کر تا مطمئن رہنا
مصاحب : در باری
بول : پیشاب
براز : پاخانہ
پانسات : پانچ سات یافظ بول چال کے ہے یا بے تکلف تحریر میں استعمال ہوتا ہے
چودہ طبق روشن ہونا : چودہ طبق کے معنی سات زمین سات آسمان ، مراد د ماغ یا طبیعت کا خوب مل جاتا، مزاج میں پوری طرح بحالی آجانا۔
آشِ جو : جو کا جوش دیا ہوا پانی جو کمزور مریضوں کو دیا جا تا ہے
لب گور : مرنے کے قریب (لفظی معنی قبر کے کنارے)
آراضی : زمین ، کھیت
سبک دوش : فارغ
نقش سلیمانی : تعویذ یا دعا، عملیات کی مشہور کتاب
تاملوٹ : بغیر ٹونٹی کا لوٹا، ڈونگا
سمّن : عدالت میں حاضر ہونے کا تحریری حکمنامہ
قیلولہ : دوپہر کے کھانے کے بعد کی مختصر نیند



Charpai  Chapter 2 NCERT Solutions Urdu
غور کرنے کی بات 
*   رشید احمد صدیقی کا شمار اردو کے معروف انشائیہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کی نثر ظرافت کا  اعلیٰ نمونہ ہے۔ وہ عام طور پر اپنی تحریروں میں سیاسی ، معاشرتی اور ادبی مسائل کا ذکر کرتے ہیں اور ان کو دلچسپ بنانے کے لیے نادر تشبیہات متضاد الفاظ   اور رمز واشارہ سے کام لیتے ہیں۔ ان کے طنز کا وار بھر پور ہوتا ہے۔

سوالوں کے جواب لکھیے 
1. رشید احمد صدیقی نے چارپائی کو ہندوستانیوں کا اوڑھنا بچھونا کیوں کہا ہے؟ 
جواب: کیونکہ ہم اس پر پیدا ہوتے ہیں اور یہیں سے مدرسے آفس، جیل خانے، کونسل، یا آخرت کا راستہ لیتے ہیں۔

2. رشید احمد صدیقی نے چار پائی کی مثال ریاست کے ملازم سے کیوں دی ہے؟
جواب: کیوں کہ چارپائی ہر کام کے لئے ناموزوں ہوتی ہے اس لیے ہر کام پر اسے لگا دیا جاتا ہے مثلاً کسی ریاست میں کوئی شخص ولایت پاس کر کے لوٹا ریاست میں اس وقت کوئی آسامی نہ ہونے کی وجہ سے انہیں کسی دوسرے شخص کی ملازمت پر لگا دیا گیا چونکہ وہ آدمی سوجھ بوجھ والے اور سمجھدار تھے ٹھیک یہی مثال چارپائی کی ہے کہ وہ گھر کے تمام ناموزوں کاموں کیلئے مستعمل ہے۔

 3. ہندوستانی گھرانوں میں چار پائی کو کس کس کام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے؟
جواب: ہندوستانی گھرانوں میں چارپائی کو ڈرائینگ روم، سونے کا کمرہ، غسل خانہ، قلعہ، خانقاہ، خیمہ، دواخانہ، صندوق، کتاب گھرسب کی حیثیت کبھی کبھی بیک وقت ورنہ وقت وقت پر حاصل ہے۔

 4. مصقف نے چار پائی کو ضرورت اور ایجاد کا سب سے بھر پور نمونہ کیوں کہا ہے؟ 
جواب: کیونکہ چارپائی بھی ہندوستان اور ہندوستانیوں کی طرح ڈھیلی ڈھالی، شکستہ حال، بے سروسامان لیکن ہندوستانیوں کی طرح غالب اور حکمران کیلۓ ہر قسم کا سامان راحت فراہم کرنے کیلئے آمادہ،کوچ اور سوفے پر بیٹھنے والے حضرات چارپائی کی راحت کا اندازہ نہیں لگا سکتے اور روز مرہ کی زندگی میں چارپائی ہر ناموزوں کاموں کے لئے موزوں ہے۔

5. چارپائی میں رشید احمد صدیقی نے عام ہندوستانی رہن سہن کا جو نقشہ کھینچا ہے، اسے مختصر لکھیے۔
جواب: رشید احمد صدیقی نے چارپائی کو ہندوستانی تہذیب اور اس کے رہن سہن کا بہترین نمونہ بتلایا ہے مثلاً اگر کوئی شخص بیمار ہے اسے سفر آخرت میسر ہو یا نہ ہو اگر چارپائی اسکے پاس ہے تو اسے دنیا کی کوئی دوسری چیز کی حاجت نہیں۔اسی طرح اگر کوئی مہمان آیا تو چارپائی نکالی گئی اور اس پر ایک نئ دری بچھا دی گئی اور مہمان صاحب اسی چارپائی پر جلوہ افروز ہوئے، اسی طرح روز مرہ کے ہر چھوٹے بڑے کام کو چارپائی سے منسلک کیا ہے جس میں ہندوستانی تہذیب ابھر کر سامنے آتی ہے مثلاً ہندوستانی تہذیب میں خاندان کے بڑے حضرات چارپائی پر ہی براجمان ہوتے ہیں اور وہیں سے ہر طرح کے احکام جاری کرتے ہیں چاہے جزا کے ہوں یا سزا کے، چارپائی سے بکس کا کام بھی لیا جاتا ہے مثلاً حوائج یومیہ کے تمام تر اشیاء اس کے نیچے محفوظ کی جاتی ہیں خواہ وہ طبیب کا نسخہ ہو، ایک آدھ روپیہ، اسٹیشنری، کتابیں، رسالے، جاڑے کے کپڑے، تہوڑا بہت ناشتہ، جعلی دستاویز کے کچھ مسودے وغیرہ وغیرہ الغرض یہ سارے ہندوستانی تہذیب سے وابستہ ہیں۔
Charpai  Chapter 2 NCERT Solutions Urdu
عملی کام
چار پائی کا جو پیراگراف آپ کو پسند ہو اسے اپنی کاپی میں خوش خط نقل کیجیے۔
 اس سبق میں جو محاورے استعمال کیے گئے ہیں ، ان میں سے کوئی پانچ محاورے تلاش کیجیے اور ان کے معنی بھی لکھیے۔

 درج ذیل الفاظ کے واحد لکھیے : 
ملازمین  ملازم
 طلبا  طالب علم
 کتب  کتاب
تقاریب  تقریب
مجرمین  مجرم
انشائیہ ’چارپائی‘کا مرکزی خیال لکھیے۔
چارپائی رشید احمد صدیقی کا لکھا ہوا انشائیہ ہے۔ اس میں رشید احمد صدیقی نے چارپائی کو انسانی زندگی کا ایک اٹوٹ حصّہ بتلایا ہے یہ کہا ہے کہ چارپائی انسان کی گھٹی میں شامل ہے خاص کر ہندوستان کی تہذیب وتمدن میں شامل ہے یہاں تک کہ روز مرہ کے ہر چھوٹے بڑے کاموں کو چارپائی سے منسوب کیا ہے مثلاً چارپائی پر انسان پیدا ہوتا ہے اور اسی پر مر جاتا ہے اگر بیمار ہوتا ہے تو ‌چارپا‌ئی پر ہی ہوتا ہے،حکومت بھی چارپائی سے ہی ہوتی ہے،خاندان کے بڑے حضرات بھی چارپائی پر ہی تشریف فرما ہوتے ہیں،چھوٹی چھوٹی استعمال کی چیزیں اگر انہیں چارپائی کے نیچے رکھ دیں تو یہ ایک بکس کا کام بھی کرتی ہیں،کبھی ہم چارپائی پر فکر قوم کرتے ہیں تو کبھی فکر سخن، دعا،دوا،فقیری ،خاکساری، حاجت مندی وامیری غرض چارپائی انسانی زندگی کے تمام مراحل کی بہترین ساتھی ہےاور انسانی زندگی کا صاف وشفاف آئینہ ہے۔

چارپائی (خلاصہ)
چارپائی رشید احمد صدیقی کا ایک انشائیہ ہے جس میں انہوں نے چار پائی کو بنیاد بناکر ہندوستانیوں کے رہن سہن کے انداز اور ان کے طور طریقوں پر اپنے مخصوص انداز میں طنز کے تیر چلائے ہیں ۔ ان کے کہنا ہے کہ مذہب اور چار پائی ہندوستانیوں کے لئے لازم وملزوم ہیں ۔ ان دو چیزوں کے بغیر کسی ہندوستانی کا تصور بھی محال ہے۔ رشید احمد صدیقی چارپائی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم یہیں پیدا ہوتے ہیں اور یہیں سے دنیا جہان کے کام کرتے ہیں بلکہ حکم بھی چلاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مہد سے لحدتک یعنی پیدائش سے موت تک کے تمام کام چار پائی پر ہی انجام دیے جاتے ہیں۔
وہ ہندوستانی گھروں میں چارپائی کی اہمیت بیان کرتے ہوئےکہتے ہیں کہ چار پائی صندوق بھی ہے اور بستر بھی ، سونے سے لے کر سامان رکھنےتک کا ہر کام چار پائی ہی پرانجام پاتا ہے۔ کتا ہیں ، دوائیں، اناج ، آلو، پیاز ،کھاناغرض ہر کام کے لئے چار پائی حاضر ہو جاتی ہے۔ ہمارےگھروں میں چار پائی ڈرائنگ روم بھی ہے اور باتھ روم تھی ، لائبریری بھی ہے اور دوا خانہ بھی محض ایک چار پائی ہزار کام انجام دیتی ہے۔
ہندوستانی اپنی ضرورت کے مطابق چار پانی کا استعمال کرتے ہیں ۔ گھروں میں یہ ملاقات کرنے ، سونے، بول و براز کرنے ، بزرگوں کے رہنے، کتابیں اور دوائیں وغیرہ رکھنے ،نیچے سامان رکھنے، اناج سکھانے اور پیاز کا ذخیرہ کرنے کے لئے اسی چار پانی کا استعمال ہوتا ہے۔ چار پائی اور سرکاری ملا زم میں بہتری مشترک با تیں ہیں اور ان مشترک باتوں سے طنز و مزاح پیدا ہوتا ہے۔رشید احمد صدیقی کے مطابق ایک سرکاری ملازم جتنا حکم کا غلام ہے اسی طرح چارپائی بھی ہر کام کے لیے مجبور ہے۔ ایک سرکاری ملازم کی طرح چارپائی سے بھی ہر طرح کا کام لیا جاتا ہے۔
چار پائی ہندوستانیوں کی زندگی میں ایک مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ ہندوستان کی پہچان قالینوں اور صوفہ سیٹوں سے نہیں بلکہ چارپائی سے ہے جسے کروڑوں ہندوستانی استعمال کرتے ہیں۔ اور جس کے بغیر کسی بھی ہندوستانی کی زندگی نامکمل ہے۔
کلک برائے دیگر اسباق

Wednesday 1 April 2020

Ham hain mata e koocha o bazaar ki tarah - Majrooh - NCERT Solutions Class IX Urdu

Ham Hain Mata e Koocha o Baar Ki Tarah by Majrooh Sultanpuri  Chapter 15 NCERT Solutions Urdu
(اس صفحہ پر ابھی کام جاری ہے)
غزل
مجروح سلطان پوری

ہم ہیں متاع کوچہ و بازار کی طرح
 اٹھتی ہے ہر نگاه خریدار کی طرح

 وہ تو کہیں ہے اور اگر دل کے آس پاس
 پھرتی ہے کوئی شے نگہ یار کی طرح

 سیدھی ہے راو شوق پہ یوں ہی کہیں کہیں
خم ہوگئی ہے گیسوئے دل دار کی طرح

بے تیشے نظر نہ چلو راه رفتگاں
 ہر نقش پا بلند ہے دیوار کی طرح

 اب جا کے کچھ کھلا ہنر ناخن جنوں
 زخم جگر ہوئے لب و رخسار کی طرح

مجروح لکھ رہے ہیں وہ اہل وفا کا نام
 ہم بھی کھڑے ہوئے ہیں گنہ گار کی طرح


مجروح سلطان پوری
اسرارحسن خاں مجروح سلطان پوری ، سلطان پور، اتر پردیش میں پیدا ہوئے ۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ پھر انھوں نے لکھنؤ سے طلب کی سند حاصل کی اور طبابت کا پیشہ اختیار کیا لیکن بچپن سے ہی انھیں شاعری سے لگاؤ تھا اور بہت جلد وہ طبابت چھوڑ کر صرف شاعری کرنے لگے ۔ بعد میں ممبئی چلے گئے اور انھوں نے فلم کے لیے بہت سے مقبول اورمشہور گیت لکھے۔ ان کا شعر پڑھنے کا انداز ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہوا۔ ان کا شمار ترقی پسند غزل کے نمائندہ شاعروں میں ہوتا ہے۔ ان کے کلام کے مجموعے غزل اور مشعل جان کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔
مجروح کو اقبال اعزاز (جسے عام طور پر اقبال سمان کہتے ہیں) اور دادا صاحب پینا کے ایوارڈ کے علاوہ بھی دیگر کئی انعامات و اعزازات سے نوازا گیا۔
Ham Hain Mata e Koocha o Baar Ki Tarah by Majrooh Sultanpuri  Chapter 15 NCERT Solutions Urdu
لفظ ومعنی
متاع : سامان، پونجی
کوچہ : گلی
راہ شوق : محبت کا راستہ
خم : ٹیڑھ، بل، پیچ
گیسوئے دلدار : محبوب کی زلفیں
تیشہ : کدال، لہذا بے تیشہ نظر نہ چلو کے معنی ہوئے غور کرنے والی نگاه کو اس طرح استعمال کرو جس طرح کدال استعمال کی جاتی ہے۔ یعنی پرانے خیالات جو دیوار کی طرح ہیں، انھیں اپنے غور وفکر کی طاقت سے برابر اور ہموار کر دو۔
رفتگاں : گزرے ہوئے لوگ
نقش پا : قدموں کے نشان
اہل وفا : وفاکرنے والے لوگ

غور کرنے کی بات
* اس غزل کے اشعار میں انسان کی مختلف حیثیتوں کو ظاہرکیا گیا ہے۔ بہ حیثیتیں ہیں : عاشق،انقلا بی، نئی راہیں نکالنے والا
* مجروح کا شمار اس دور کے اہم ترین غزل گو شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کا تعلق انجمن ترقی پسند مصنفین سے تھا۔ ان کا کلام پر اثر ہے اورتصنع سے پاک ہے۔

 سوالوں کے جواب لکھیے:
1.  راہِ شوق سے کیا مراد ہے؟ ایک جملے میں لکھیے۔
جواب:

2.  د دوسرے شعر میں وہ تو کہیں ہے اور کس کی طرف اشارہ ہے؟
جواب:

 3. غزل کے مقطعے میں شاعر نے کیا بات کہی ہے؟
جواب:


عملی کام
* غزل کو بآواز بلند پڑھیے۔
* غزل کے اشعار کو خوش خط لکھیے
* اس غزل کوزبانی یاد کیجیے۔
* غزل میں استعمال کی گئی تشبیہات اور استعارات کی نشاندہی کیجیے۔

مطلب لکھیے۔
 ہم ہیں متاع کوچہ و بازار کی طرح
اٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح

سیدھی ہے راہ شوق پہ یوں ہی کہیں کہیں
خم ہو گئی ہے گیسوئے دلدار کی طرح


کلک برائے دیگر اسباق

Sar Mein Sauda Bhi Nahin Dil Mein Tamanna Bhi Nahin- Firaq Gorakhpuri - NCERT Solutions Class IX

Sar mein sauda bhi nahin dil mein tamanna bhi nahin by Firaq Gorakhpuri  Chapter 14 NCERT Solutions Urdu
(اس صفحہ پر ابھی کام جاری ہے)
غزل
(فراق گورکھپوری)

سر میں سودا بھی نہیں ، دل میں تمنا بھی نہیں 
لیکن اس ترک محبت کا بھروسا بھی نہیں

 ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
 اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ، ایسا بھی نہیں

 یوں تو ہنگامے اٹھاتے نہیں دیوانۂ عشق
 مگراے دوست ، کچھ ایسوں کا ٹھکانا بھی نہیں

 دل کی گنتی نہ یگانوں میں، نہ بیگانوں میں
 لیکن اس جلوہ گہ ناز سے اٹھتا بھی نہیں 

آج غفلت بھی ان آنکھوں میں ہے پہلے سے سوا
 آج ہی خاطر بیمار شکیبا بھی نہیں

ہم اسے منھ سے برا تو نہیں کہتے کہ فراق
 دوست تیرا ہے ، مگر آدمی اچھا بھی نہیں

فراق گورکھپوری
(1896ء- 1982 ء)
ان کا نام رگھوپتی سہائے ، اور فراق تخلص تھا۔ شاعری انہیں ورثے میں ملی تھی اور ان کے والد منشی گورکھ پرشاد عبرت گورکھپوری اپنے وقت کے مشہور شاعر تھے۔ فراق بھی بچپن ہی سے شعر کہنے لگے اور انھوں نے نظم، غزل، رباعی وغیرہ شعری اصناف میں طبع آزمائی کی۔ ان کا شمار اردو کے اہم
شعرا میں ہوتا ہے۔ 1917 ء میں کانگریس میں شامل ہوئے اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔ الہ آباد یونیورسٹی میں انگریزی کے استاد تھے۔
فراق کا کلام انسانی عظمت اور درد مندی کے احساس سے بھرا ہوا ہے۔ انھوں نے عشقیہ معاملات کے ساتھ ساتھ زندگی کے دیگر مسائل کو بھی موضوع بنایا ہے۔ ان کی زبان میں گھلاوٹ اور مٹھاس ہے۔ انھوں نے عشق کے معاملات کو اکثر بالکل نئے ڈھنگ سے پیش کیا ہے اور بعض نئے مضامین بھی استعمال کیے ہیں۔ رباعی میں انھوں نے سنسکرت کے سنگھار رس سے استفادہ کرتے ہوئے معشوق کو ایک نئے اور دلکش گھر یلو رنگ میں پیش کیا۔

نغمۂ ساز، غزلستان، شعرستان، شبنمستان، روح کائنات، گل نغمہ، روپ اور گلبانگ کے نام سے کئی شعری مجموعے شائع ہو کر قبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ انھوں نے اعلا درجے کی تنقید بھی لکھی۔ ان کی نثری کتابوں میں اندازے اور اردو کی عشقیہ شاعری معروف ہیں۔ فراق گورکھپوری کو گیان پیٹھ ایوارڈ اور دوسرے کئی اہم اعزازات سے بھی نوازا گیا۔
Sar mein sauda bhi nahin dil mein tamanna bhi nahin by Firaq Gorakhpuri  Chapter 14 NCERT Solutions Urdu
لفظ و معنی 
سودا : جنون، دیوانگی
تمنا : آرزو خوابش
ترک کرنا : چھوڑنا
یگانہ : اس لفظ کے اصل معنی ہیں جس کی کوئی نظیر نہ ہو، واحد لیکن شاعر نے یہاں و اسے بیگانہ کی ضد کے طور پر استعمال کیاہے
بیگانہ : غیر
جلوہ گہ : جلوہ صورت، یا صورت کی جھلک نظر آنے کی جگہ
ناز : ادا
شکیبا : جسے صبر حاصل ہو، جسے صبر آ جائے
خاطر : دل
رنجش : ناراضگی
بےجا : نامناسب ، بلا وجہ بے سبب

غور کرنے کی بات
*  فراق کی غزل گوئی منفرد آہنگ و انداز رکھتی ہے۔
* فراق کی غزل میں روایت کا پاس بھی ہے اور جدت کا اظباربھی ہے۔
*  فراق کے اسلوب میں صفائی اور بے ساختگی ہے جس کی ایک مثال یہ غزل ہے۔

سوالوں کے جواب لکھیے
1. مطلع میں شاعر نے کس کیفیت کا اظہار کیا ہے؟
جواب:

2. خاطر پیار سے شاعر کی کیا مراد ہے؟
جواب:

 3. غزل کے تیسرے شعر میں محبت کرنے والے کی کسی نفسیاتی کیفیت کو بیان کیا گیا ہے؟
جواب:

 4. جلوہ گاہ ناز سے آپ کیا سمجھتے ہیں؟
جواب:


عملی کام
استادکی مدد سے شعروں کی صحیح قرأت کیجیے۔

غزل کے اشعار خوش خط لکھیے۔

ذیل میں دیے گئے اشعار کومکمل کیجیے:
آج غفلت بھی ان آنکھوں میں ہے پہلے سےسوا آج ہی خاطر بیمار شکیبا بھی نہیں
دل کی گنتی نہ یگانوں میں ، نہ بیگانوں میں لیکن اس جلوہ گہ ناز سے اٹھتا بھی نہیں




کلک برائے دیگر اسباق

خوش خبری