آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Friday, 26 June 2020

Oas By Khwaja Hasan Nizami NCER Class IX Chapter 4


اوس
خواجہ حسن نظامی

برسات کے موسم میں کوئی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کا خواست گار ہے۔ کسی کو اودی اودی کالی کالی گھٹائیں پسند ہیں۔ کسی کا دل بادلوں کی کڑک اور بجلی کی چمک سے مست ہوجاتا ہے۔ مجھ کو تو برسات کی یہ ادا بھاتی ہے کہ مینہ برس کر کھل جاتا ہے اور صاف آسمان کی رات گزر جاتی ہے توصبح کے وقت درختوں، پھولوں اور جنگل کی گھاس کی عجیب شان ہوتی ہے ۔ اوس کے قطرے پھولوں کی پتیوں پر ایسے چپ چاپ نظر آتے ہیں جیسے رات کو آسمان کے تارے تھے۔ کیا خبر ہے کہ رات کے وقت تارے ٹوٹ پڑے ہوں اور یہ انھی کی گل افشانیاں ہوں۔
کہتے ہیں کہ اوس میں سونا، اوس میں پھرنا جسمِ انسانی کے لیے مضر ہے۔ خبر نہیں یہ کیوں کہتے ہیں ۔ خدا کی ساری مخلوق تو اوس باری‘ سے تروتازہ اور نہال ہو جاتی ہے ۔ تو انسان بھی ایک مخلوق ہے۔ اُس کو اِس سے کیوں کر نقصان پہنچ سکتا ہے؟
یہ تو سائنس والے بتائیں گے کہ اوس کیا چیز ہے کہاں سے آتی ہے ، کیوں آتی ہے؟ فقیر تو اتنا ا جانتا ہے کہ اوس قدرتِ ربّانی کا عجیب و غریب جلوہ ہے۔ جن کی آنکھ سویرے کو بیدار ہونے کی عادی ہے وہ صبح کے  وقت سورج نکلنے سے پہلے اوس میں ذاتِ الٰہی کے ہزاروں جلووں کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔ ایک شخص کو دیکھا . کہ باغ میں جوہی کے پھولوں کے پاس جھکا ہوا کچھ دیکھ رہا تھا اور ایسا مستغرق تھا کہ دنیا و مافیہا کی خبر نہیں تھی ۔ در حقیقت جوہی کے پھول پر اوس کا انداز قیامت کا ہوتا ہے۔ چھوٹا پھول، نازک پتّیاں اور اس پراوس کی ننّھی ننّھی بوندیں، حِس و حرکت کرنے والے دل کے لیے محشر سے کم نہیں ۔ اوس کی عمر بہت تھوڑی ہے۔ رات کو پیدا ہوتی ہے اور سورج نکتے وقت مر جاتی ہے۔ اوس کی سیرابی بارانِ رحمت کی طرح ہر خاص و عام، چھوٹے بڑے، اونچے نیچے کے لیے یکساں مفید ہے مگر مینہ سورج کا مقابلہ کرتا ہے۔ بادلوں کے لشکر لاتا ہے تو آفتاب کو پوشیده ہونا پڑتا ہے ۔ مگر اوس بے چاری بڑی ڈر پوک صُلح کُل ہے۔ آسمان پر جب سورج کا عمل دخل نہیں رہتا اور بادل بھی اپنے گھروں سے چلے جاتے ہیں اس وقت بی نمودار ہوتی ہے اور سورج کے نکلنے کے ساتھ ہی جان دے دیتی ہے۔
انسان اگر یہ شکایت کرے تو حق بجانب ہے کہ ایسی تمام درو دیوار کو شجر و حجر کو تر کردیتی ہے۔ مگر کسی پیاسی زبان کی تشنگی دور نہیں کرسکتی ۔ اردو زبان میں ایک مَثَل ہے کہ اوس جب پڑتی ہے تو ہاتھی بھیگ جاتا ہے۔ گویا ہاتھی اوس میں نہا لیتا ہے مگر چڑیا کی پیاس نہیں بجھتی ۔ یہ قدرت کا ایک گہرا راز ہے۔ اس میں اوس کی کچھ شکایت نہ کرنی چاہیے۔ بہرحال الله تعالیٰ کی نشانیوں میں سے اوس بھی ایک نشانی ہے، جس کو دیکھ کر دلِ حق پرست میں عرفانِ یزداں کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔
خواجہ حسن نظامی
(1878 - 1955)
خواجہ حسن نظامی دہلی کے ایک معزز خاندان کے فرد تھے۔ ان کا بچین تنگ دستی میں گزرا لیکن اپنی ذاتی کوششوں سے انھوں نے بہت جلد ترقی کی۔ وہ خواجہ حضرت نظام الدین اولیا کے عاشقوں میں سے تھے۔ اس عشق و محبت کے اثرات ان کی تحریروں میں نمایاں نظر آتے ہیں۔
اردو زبان و ادب میں ان کا مرتبہ بلند ہے۔ انھیں مصور فطرت کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ انھوں نے کئی کتابیں لکھیں جن میں غدر دہلی کے افسانے اور سی پاره دل کافی مشہور ہیں۔
ان کے مضامین کی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر نہایت ہی معمولی چیزوں پر لکھے گئے ہیں ۔ لیکن خواجہ صاحب نے بات میں سے بات پیدا کر کے ان چھوٹی چھوٹی چیزوں سے جو مطالب نکالے ہیں وہ بڑے سبق آموز ہیں۔ خواجہ صاحب کے لکھنے کا ایک مخصوص انداز ہے۔
معنی یاد کیجیے۔
 اوس باری : اوس کا برسنا
خواستگار :  طلب گار، چاہنے والا
اودی اودی : ہلکا بیگنی رنگ
مینہ : بارش
گل افشانیاں : پھول بکھیرنا
مُضر : نقصان دہ
مخلوق : پیدا کی ہوئی چیزیں اور انسان وغیره
نہال ہونا : خوش ہونا
قدرتِ ربّانی : خدا کی قدرت
بیدار ہونا : جاگنا
مستغرق : ڈوبا ہوا
 دنیا وما فيها : دنیا اور دنیا میں جوکچھ ہے
محشر : قیامت
سیرابی : شادابی
پارانِ رحمت : رحمت کی بارش
یکساں : ایک جیسا
پوشیدہ : چھپا ہوا
صُلح کُل : سب سے مل جل کر رہنا ، سب سے بنا کر رکھنا
نمودار ہونا : ظاہر ہونا
شجر : درخت
حق بجانب :  سچائی کے ساتھ، حق کی طرف
حجر : پتّھر
تشنگی : پیاس
دلِ حق پرست : خدا پرست دل
عرفانِ یزداں : خدا کی پہچان

سوچیے اور بتائیے
1. اوس کے قطریں  پھولوں کی پتیوں پر کیسے لگتے ہیں؟
جواب: اوس کے قطرے پھولوں کی پتیوں پر ایسے چپ چاپ نظر آتے ہیں جیسے رات کے تارے ٹوٹ گئے ہوں اور یہ انہی کی گل افشانیاں ہوں۔

2.خدا کی ساری مخلوق کس چیز سے تروتازہ اور نہال ہوتی ہے؟
جواب:خدا کی ساری مخلوق اوس گرنے سے تروتازہ اور نہال ہوتی ہے۔

3.مصنف نے اوس کو قدرتی ربانی کا جلوہ کیوں کہا ہے؟
جواب:مصنف نے اوس کو قدرتی ربانی کا جلوہ  اس لئے کہا ہے کیونکہ  جن لوگوں کی آنکھ سویرے بیدار ہونے کی عادی ہیں وہ صبح سورج نکلنے سے پہلے اوس کو دیکھ کر  ذاتِ الٰہی کے ہزاروں جلوؤں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

4.اوس کے بارے میں کون سی ضرب المثل مشہور ہے؟
جواب: اوس جب پڑتی ہے تب ہاتھی بھیگ جاتا ہے گویا ہاتھی اوس میں نہا لیتا ہے مگر چڑیا کی پیاس نہیں بجھتی ہے۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے۔
اوس : رات بہت زیادہ اوس گری۔
مخلوق : انسان بھی خدا کی مخلوق ہیں۔
عجیب و غریب : ڈیناسور ایک عجیب وغریب جانور ہے۔
عمل دخل : دسویں کے ریزلٹ میں ٹیچر کا کوئی عمل دخل نہیں
صُلح کُل : ہمیں ہمیشہ صُلح کُل سے کام لینا چاہیے
نیچے لکھے لفظوں کے واحد اور جمع بنائیے۔
جذبہ : جذبات
مشاہدہ : مشاہدے
جلوے : جلوہ
خبر : اخبار
گھٹائیں : گھٹا
بوند : بوندیں

نیچے

Monday, 22 June 2020

The Corona Phase - By - Albeena Sohail

The Corona Phase
By - Albeena Sohail

Happy was I
So were you
All busy in the daily schedule
None pondered to see these days
When life would run at slow pace
Hustle and bustle came to an end
Joy and laughter all went
Now like the birds in cage
With clipped wings
Man is in his home indeed
All because of a virus
Which is called the corona virus
 Now you know the bird's pain
Locked in a cage in vain
There are heroes who still remain
Leaving their families and mates
Fighting with the corona virus
Virus which caused pain
Now you know who's the real hero
Risking their lives for you and me 
No doubt they need a 
Great grand salute 
Let's join hand in hand
So that corona vanishes
And returns the happy days of life
Where every day is super bright
ALBEENA SOHAIL
CLASS: 9,
AGE: 14 YRS,
Place: Dhanbad


Sunday, 21 June 2020

Tasawwuf - Allah Aur Bande Ke Ruhani Taalluq Ki Buniyaad

از : شبلی فردوسی
اورنگ آباد (بہار)
ایم - اے (اردو) جامعہ ملیہ اسلامیہ (نئی دہلی)  و مگدھ یونیورسٹی (بودھ گیا)

یہاں اس بات کا موقع نہیں کہ یہ بحث کی جائے کہ تصوّف کا ہندی ، ایرانی ، یونانی ، عیسائی یا اسلامی پسِ منظر کیا ہے ، تاریخِ اسلام میں تصوّف کی حیثیت ایک ایسے مستقل ادارے کی رہی ہے جس کے اثرات ہمہ گیر اور مختلف النوع رہے ہیں ، آج سے پچاس ساٹھ برس پہلے تک مغرب کے بعض مستند عالموں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسلام میں تصوّف کی ابتدا محض عجمی و عیسائی اثرات کے تحت ہوئی اور ان کا یہ نظریہ خاصا مقبول بھی ہوا لیکن در حقیقت صورتحال ایسی نہ تھی جیسی کہ ان لوگوں نے پیش کی تھی ۔

اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے اور اس امر میں کسی کو شک نہیں رہا کہ اسلام میں احسان اور تزکیہ نفس کا جو قوی عنصر ہے ، جس پر خدا اور بندے کے مابین اس گہرے روحانی تعلق کی بنیاد ہے جو مزہب کا مقصود اصلی ہے ، اسی پر اسلامی تصوف کی اصلی عمارت قائم ہے ۔ اس عمارت میں بعد میں جو توسیع ہوئی اور بعض متوسطین و متاخرینِ صوفیاء کے عہد میں اس میں جو نقش و نگار بنائے گئے ان میں سے بعض چیزیں اسلامی تصوّف سے میل نہیں کھاتیں ، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تصوّف کی بنیاد قرآن کی تعلیمات ، احادیثِ نبویؐ ، صحابہؓ کی پاک سیرت و زندگی ، تابعین اور تبع تابعین (رحمتہ اللہ عنہم اجمعین) کی پاک سیرت پر ہے ۔ اس سلسلے میں خود لفظِ صوفی کے متعلق طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی گئیں لیکن اب مشرق اور مغرب دونوں جگہ اس امر پر اتفاق ہو گیا ہے کہ لفظ "صوفی" صوف (پشمینہ) سے ہے ۔

کتاب ' للّمع فی التصوّف ' جو ابو نصر سرّاج کی تالیف ہے، اس موضوع پر قدیم ترین کتاب ہے ، اس کتاب میں سراج نے لکھا ہے کہ :

" کسی پوچھنے والے نے پوچھا کہ اصحابِ حدیث کی نسبت حدیث اور فُقہا کی نسبت فِقہہ سے ہے ، اسی طرح زہاد کی نسبت زہد سے ، متوکلین کی نسبت توکّل سے اور صابرین کی نسبت صبر سے ہے ، لیکن صوفیہ کی نسبت کس سے ہے ؟؟
جواب ملا کہ صوفیہ کی نسبت نہ کسی علم سے ہے اور نہ کسی حال سے ، وہ در حقیقت تمام عُلوم کے معدن اور تمام نیک اعمال و اخلاق کے مخزن ہیں ۔ وہ مسلسل ایک حال سے دوسرے حال کی طرف بڑھتے رہتے ہیں اور ان کی غالب خصوصیات لمحہ بہ لمحہ بدلتی رہتی ہے ، اس لئے انہیں ان کے احوال میں کسی ایک حال سے منسوب نہیں کیا جا سکتا ۔
(لفظ صوفی) کی نسبت صوف سے ہے کہ انبیاء ، اولیاء اور اصفیا کا لباس تھا ۔ کیا تمہیں علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کے خاص احباب کی ایک جماعت کو ان کے لباس کی طرف منسوب فرمایا ہے اور انہیں حواری فرمایا ہے :  ( وَاِذْ قالَ الحوّارَیّونْ ۔۔۔۔۔ )
اور حوّاری کے معنی سفید لباس والوں کے ہیں ۔
پوچھنے والے نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کے زمانے میں کسی صوفی لفظ کا ذکر نہیں ملتا ۔۔۔۔
جواب دیا گیا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اگر یہ لفظ نہیں ملتا تو اسکی وجہ یہ ہے کہ صحابی سے بڑھ کر کوئی اور محترم اور معزز لفظ نہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بات کہ اہلِ بغداد نے اس لفظ کو اختیار کیا غلط ہے ۔ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ اور سفیان ثوری ؒ کے عہد میں بھی یہ لفظ رائج تھا ۔ حسن بصری ؒ  سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک صوفی کو (حرم میں) طواف کرتے دیکھا ، انہوں نے اسے کوئی چیز دینی چاہی پر اس نے لینے سے انکار کر دیا ۔ سفیان ثوری ؒ  سے روایت ہے کہ اگر ابو ہاشم صوفی نہ ہوتے تو مجھے ریاکاری کی باریکیاں نہ معلوم ہو سکتیں ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام سے پہلے بھی لوگ اس لفظ سے آشنا تھے "

اہلِ علم حضرات نے لکھا ہے کہ مومنین میں ان اولوٰالعلم کا مرتبہ جو قائمین باالقسط ہیں ، بلند و برتر ہے اور یہی لوگ انبیاء کے جانشین ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کتاب اللہ کا سر رشتہ مضبوطی سے تھامنے والے ، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں پورے طور پر کوشاں اور صحابہؓ اور تابعین کے نقشِ قدم پر چلنے والے اور اولیاءاللہ متّقین اور صالحین کی راہ اختیار کرنے والے ہیں ۔

سراج نے ایسے لوگوں کو تین طبقات میں تقسیم کیا ہے  :
1. اصحاب الحدیث
2. فقہا
3. صوفیہ

حضراتِ صوفیہ کے معتقدات بھی وہی ہیں جو اصحابِ حدیث اور فُقہا کے ہیں ، انہوں نے ان کے علوم کو قبول کیا اور ان کی تشریحات و مفاہیم کی مخالفت نہیں کی ۔ کیونکہ یہ بدعت اور نفسانیت ہوتی ۔ صوفیہ کا ایک خاص وصف یہ ہے کہ وہ اپنی عبادت ، اطاعت اور اخلاقِ جمیلہ کے سہارے درجاتِ عالیہ اور منازلِ رفیعہ کو طئے کرتے ہیں ۔ یہ خصوصیت ان لوگوں میں نہیں پائی جاتی جو محض عالم ، فقہہ اور اصحابِ حدیث ہیں ۔ صوفیہ کی خصوصیت اور انفرادیت یہ ہے کہ وہ فرائض کی ادائیگی اور محارم سے اجتناب کے علاوہ ہر اس لایعنی چیز کو ترک اور ہر اس تعلق کو منقطع کرتے ہیں ،جو ان کے اور انکے مطلوب و مقصود کے مابین حائل ہوتا ہے اور ان کا مطلوب و مقصود اللہ کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔ ان کے آداب و احوال مختلف ہوتے ہیں ،مثلاً ان میں قناعت ہوتی ہے اور کھانے پینے، لباس و دنیاداری کے دوسرے معاملات میں نہایت اختصار سے کام لیتے ہیں ۔ بس وہ اتنے ہی پر اکتفا کرتے ہیں جتنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے ۔ وہ اپنی مرضی سے غنا کے بجائے فقر اختیار کرتے ہیں، جاہ و مرتبے اور قوت و اقتدار سے منھ پھیر لیتے ہیں ۔ خلق پر شفقت کرتے ہیں ، ہر چھوٹے بڑے سے تواضع و انکسار سے پیش آتے ہیں ۔ ایثار سے کام لیتے ہیں، اپنی طاعت و عبادت میں مخلص ہوتے ہیں ، نیکی اور خیر کی راہ میں تیزگام ہوتے ہیں ۔ توجہ الی اللہ کے لئے ہمہ وقت بیچین رہتے ہیں ، قضائے الٰہی پر راضی رہتے ہیں ، مجاہدہ کی مداوات اور نفس کی مخالفت پر جمے رہتے ہیں ۔

حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ کے شاگرد رشید حضرت ابوبکر شبلی ؒ نے فرمایا پرہیزگاری تین طرح کی ہوتی ہے :

1. زبان سے
2. ارکان سے (اعضاء و جوارح)
3. دل سے

زبان کی پرہیزگاری یہ ہے کہ جس امر سے کچھ تعلق نہ ہو اس میں انسان خاموش رہے ۔ ارکان کی پرہیزگاری یہ ہے کہ شبہات چھوڑ دئے جائیں اور جن چیزوں سے شک پیدا ہوتا ہے انہیں چھوڑ کر اس چیز کی طرف رجوع کیا جائے جس میں شک و شبہہ نہیں اور دل کی پرہیزگاری یہ ہے کہ ذلیل و حقیر ارادوں اور برے خیالات سے پیچھا چھڑا لیا جائے ۔ ایک موقع پر شبلی ؒ نے فرمایا کہ صوفی اس وقت صوفی ہوتا ہے جب ساری خلقت کو اپنی عیال خیال کرے یعنی اپنے آپ کو سب کا کفیل اور بوجھ اٹھانے والا سمجھے ۔

شریعت ، طریقت اور حقیقت کا فرق اس طرح واضح کیا : شریعت یہ ہے کہ تو خدائے عزّوجل کی عبادت کرے ، طریقت یہ ہے کہ تجھے اس کی طلب ہو اور حقیقت یہ ہے کہ تو اس کو دیکھے ۔

حضرت شبلی ؒ کے یہ اقوال تصوّف کی بنیادی باتیں ہیں :

1. آزادی دل کی آزادی ہے اور بس ۔
2. مُحبّ اگر خاموش ہوا اور عارف اگر نہ خاموش ہوا تو ہلاک ہوا ۔
3. شکم منعم کی طرف دیکھنے کا نام ہے نا کہ نعمت کی طرف ۔
4. دل ، دنیا اور آخرت دونوں سے بہتر ہے کیونکہ دنیا محنت کا گھر ہے اور آخرت نعمت کا جبکہ دل معرفت کا گھر ہے ۔
5. ہزار ہا سال کی عبادت میں ایک وقت کی غفلت بھی رسوائی ہے ۔
6. عبادت کی زبان علم ہے اور اشارت کی زبان معرفت ہے ۔

سماع کے بارے میں شبلی ؒ کا بھی وہی خیال تھا جو آپکے مُرشد حضرت جنید بغدادی ؒ  کا تھا کہ سماع کے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہے : زمان ، مکان اور اخوان (دوست).

حضرت جنید ؒ سے یہ بھی روایت ہے کہ جس نے تکلفاً سماع کو چاہا اس کے لئے یہ فتنہ ہوگا مگر جسے خود بخود یہ حاصل ہوا اس کے لئے سماع راحت ہے ۔

جناب شبلی ؒ سے سماع کے بارے میں پوچھا گیا تو کہا کہ اس کا فتنہ ظاہر ہے اور باطن عبرت یعنی جس شخص کو رموزِ باطن کی معرفت حاصل ہو وہی اس کے ذریعے عبرت حاصل کر سکتا ہے ورنہ وہ مصیبت میں پڑ جائے گا ۔
کسی نے شبلی ؒ سے عرض کیا کہ بعض لوگ سماع سنتے ہیں مگر باوجود اس کے کہ کچھ نہیں سمجھتے انہیں حال آ جاتا ہے ایسے لوگوں کی نسبت آپکی کیا رائے ہے؟؟
جواب میں آپنے چند اشعار پڑھے جن سے حقیقتِ حال واضح تھی ۔ ان اشعار کا خلاصہ یہ ہے :
" ہمارے صحن میں ایک کبوتر کی آواز آ رہی ہے جس میں درد اور کسک ہے ، وہ بھی کسی کی شکوہ سنج ہے لیکن میں سمجھ نہیں پاتا ، میں بھی کسی کی شکایت کرتا ہوں جسے وہ سمجھ نہیں پاتی مگر دونوں کو اس بات کا احساس ہے کہ ہم عشق کے مارے ہوئے ہیں ، وہ محبت کے درد سے روئی اور اس سے میرے غم میں حرکت پیدا ہو گئی " ۔۔۔۔

پہلے بتایا جا چکا ہے کہ صوفیہ کا خاص موضوعِ فکر و بحث " توحید " تھا اور وہ عام طور پر اپنے معاصرین میں " اربابِ توحید " کے نام سے مشہور تھے ۔ ایک صوفی کے مزہبی تجربے میں یہ احساس بنیادی اہمیت کا حامل ہے کہ خدا اور بندے کے درمیان ایک عظیم فاصلہ ہے اور یہ احساس اس کے شعور و ادراک پر چھایا رہتا ہے ، صوفیہ کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس فاصلے کو عبور کر جائیں اور در حقیقت اسی کا نام تصوّف ہے ۔ فکر ، ریاضت اور زندگی کے طریقوں اور اظہارِ بیان میں صوفیہ کے مابین اختلاف ہو سکتا ہے اور ہوتا رہا ہے لیکن سب کا مقصود ایک ہی ہوتا ہے اور وہ یہ کہ انہیں قُربِ الہیٰ حاصل ہو جائے یعنی وہ فاصلہ کم سے کم یا دور ہو جائے جو خدا اور بندے کے درمیان حائل ہے ۔

حضرت جنید بغدادی ؒ نے تصوّف کی ماہئیت کے بارے میں جو کچھ کہا اس میں یہ بھی ہے کہ " انسان خدا کے ساتھ اس طرح رہے کہ اس کا پھر کسی دوسری ہستی سے کوئی تعلق باقی نہ رہے اور یہ کہ تصوّف ایک سعی مسلسل ہے جس میں انسان ہمیشہ مشغول رہتا ہے " ۔۔۔۔

پوچھا گیا کہ یہ حق کی صفت ہے یا خلق کی؟؟ جواب ملا کہ " اصل کے اعتبار سے تو یہ حق کی صفت ہے لیکن حالتِ انعکاس میں یہ خلق کی صفت بن جاتی ہے یعنی انسان کی تمام صفات دراصل عکسی صفات ہیں "  ۔ ہجویری نے اس بات کی وضاحت یوں کی ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ توحید کی حالت میں انسانی صفات باقی نہیں رہتیں کیونکہ انہیں بقا نہیں ، محض عکس ہیں ۔

ایک سچے صوفی ، زاہد اور عبادت گزار کی یہ تمنا کہ وہ اپنے دنیوی اور غیر حقیقی وجود کو خیرباد کہہ کر اپنی ابتدائی حالت کی طرف لوٹ جائے ، تصوف کی روح ہے اور اللہ تعالیٰ کے ایسے خاص اور عبادت گزار بندوں کا حال ہمیں معلوم ہے جو اپنی انفرادیت کھو کر توحیدِ حقیقی کے اسرار کی لذّت سے بہرہ یاب تھے لیکن وہ یہ چیز نہیں کہ بندہ محض اپنی کوشش سے حاصل کر لے ، یہ چیز خدا کی نصرت و تائید ہی سے حاصل ہو سکتی ہے ۔ یہ گویا انعام ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے خاص اور برگزیدہ بندوں پر .....

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اور کوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے  ( یعنی فرائض مجھ کو بہت پسند ہیں جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ )  اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں .......

حضرت محبوب الاولیاء مولانا شاہ محمد قاسم عثمانی فردوسی سملوی رحمتہ اللہ علیہ " تصوّف و احسان " کی حقیقت پر بڑی وضاحت سے روشنی ڈالتے ہیں ، چنانچہ آپ کا ارشاد ہے :

" تصوّف سراپا عمل ہے،  تصوّف اتباع نبوی علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام ہے "

پھر فرماتے ہیں :

" تصوّف میں منازل و مقامات اور فنا و بقا کی اصطلاح نظری نہیں بلکہ عملی ہے ، اسی طرح ذکر ، شغل و مراقبہ بھی صرف ذہنی چیز نہیں بلکہ ساراپا عمل ہے "

تصوف کیا ہے؟؟  عموماً لوگ اسے ہندوانہ جوگ یا نصرانی رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں ، آپ فرماتے ہیں :

" تصوّف نہ ہندوانہ جوگ ہے اور نہ نصرانی رہبانیت ۔۔۔۔۔۔ تصوّف ماسویٰ اللہ سے دلی تعلق کو قطع کر کے خدا کی طرف یکسو کر دینے کی تعلیم دیتا ہے ۔ تصوّف مادی نعمتوں کا ترک کرنا نہیں سکھاتا بلکہ ان کا صحیح استعمال بتاتا ہے ۔ حقیقت میں اسلامی تصوف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صوری و معنوی پیروی کا نام ہے " ۔۔۔۔۔

ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں :

" شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ایمان بالله کا نام شریعت ہے اور اتباع نبوی کا نام طریقت "
اس کی وضاحت میں آپ آگے لکھتے ہیں :

" الغرض ارشاداتِ نبویؐ کا نام شریعت ہے ، افعالِ نبویؐ کا نام طریقت اور احوالِ نبویؐ کا نام حقیقت ہے ۔ پس تصوّف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری و باطنی پیروی کا نام ہے اور بس " ۔۔۔۔

اسی طرح " آغازِ طریقت " کے حوالے سے آپکا ارشاد ہے کہ :

" آغازِ طریقت یہ ہے کہ شریعت کی رخصتوں اور آسانیوں سے اپنے آپ کو بچایا جائے اور شریعت کے احسن اور مستحبات حکموں کو اپنے اوپر لازم کیا جائے " ۔۔۔۔

" سلوک کی حقیقت " کی نشاندہی اس طرح فرماتے ہیں :

" سلوکِ طریقت سے مراد تہزیب الاخلاق ہے ، طالب کے لئے ضروری ہے کہ ہر قسم کی بری اور خسیسس صفتوں : بخل ، حسد ، غرور ، خود بینی ، ریا ، مکر وغیرہ کو دور کر کے اچھے اوصاف : سخاوت ، اخلاص ، عجز ، تواضع وغیرہ کو اپنے اندر پیدا کرے تاکہ " وصول " کی استطاعت میسر آئے " ۔۔۔۔۔۔۔

اسی حوالے سے اپنے ایک مخلص عزیز کو اس طرح نصیحت کرتے ہیں :

" تلاوت قرآن مجید سے بڑھکر کوئی وظیفہ نہیں ، درود سے بڑھکر کوئی دعا نہیں ، لا اله الا الله سے بڑھکر کوئی ذکر نہیں اور الله عزوجل کو حاضر و ناظر جاننے سے بڑھ کر کوئی مراقبہ نہیں ۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو اپنی عبادت کی توفیق بخشے اور اتباع سنت کی ہمت عطا فرمائے "۔۔۔۔۔   اٰمین ۔

آج کے دور میں تصوّف و احسان اور سلوک کا موضوع بڑا نازک بن گیا ہے ، اس کی نِت نئی تعبیریں ہیں جو مختلف حضرات مختلف الفاظ ، نقطہ نظر اور اپنے اپنے انداز سے کرتے ہیں ، لیکن واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں ابتدا سے ایک ایسا گروہ موجود ہے جس نے تمام مقاصدِ دنیوی سے قطعِ نظر کر کے اپنا نصب العین محض یادِ خدا اور ذکرِ الٰہی کو رکھا اور صدق و صفا ، سلوک و احسان کے مختلف طریقوں پر عامل رہا ، یہی گروہ رفتہ رفتہ گروہِ صوفیہ کہلایا اور اس کے مسلک کا نام " مسلکِ تصوّف پڑ گیا " ...

موجودہ دور میں تصوف کی مسخ شدہ شکل ، جو عام طور پر نظر آتی ہے وہ اسلامی اور غیر اسلامی عناصر کا ایک معجونِ مرکب بن گئی ہے ۔۔۔ جس کے اسلامی اجزاء غیر اسلامی افکار و نظریات کے دھندلکوں میں چھپ کر رہ گئے ہیں ، سچ تو یہ ہے کہ اسلامی تصوّف وہ ہے جو خود حضرت سرورِ کائنات صلی الله عليه وسلم کا تھا ، جو حضرت ابوبکر صدیقؓ و حضرت علی مرتضیٰ ؓ کا تھا ، جو حضرت سلمان فارسی ؓ اور حضرت ابوذر غفاری ؓ کا تھا اور جس کی تعلیم حضرت جنید بغدادی ؒ شیخ عبد القادر جیلانی ؒ ، شیخ شہاب الدین سہروردی ؒ  ، خواجہ معین الدین چشتی ؒ ، محبوبِ الٰہی حضرت نظام الدین اولیاء دہلوی ؒ اور مخدوم الملک حضرت شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری ؒ نے دی ۔۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین ، تابعین ؒ اور تبع تابعین ؒ کی طرح صلحاء اور اخیارامت کی زندگی بھی ہمارے لئے اسوہ اور نمونہ ہے ۔ ان اہلِ دل بزرگوں کے حالات کو جاننا اور ان کی حقیقی اسلامی تعلیمات کی واقفیت بہم پہنچانا ، ہماری سعادت کا باعث ہے ۔۔۔۔۔۔



حوالہ جات :

کتاب ' للّمع فی التصوّف ' از شیخ ابو نصر سراج ( م 378 ھ)  (باب 1 ، 9 ، 10 ، 11 )

حضرت جنید بغدادی ؒ  سیرت و شخصیت مع اردو ترجمہ ' معالی الہمم ' از ضیاء الحسن فاروقی ۔

رسالہء قشیریہ باب 49 بعنوان " سماع " ۔۔

صحیح بخاری ( کتاب الرقاق ، باب التواضع ) صحیح حدیث 6502 ۔۔

حیاتِ دوام - سوانح مصلح امت محبوب الاولیاء حضرت مولانا شاہ محمد قاسم عثمانی فردوسی رحمتہ اللہ علیہ از طیّب عثمانی ندوی ۔ ( بابِ دوم - سلوک و تصوّف کی حقیقت)

Saturday, 20 June 2020

Nadan Dost By Prem Chand NCERT urdu class IX Chapter 3

نادان دوست
کیشو کے گھر میں ایک کارنس کے اوپر ایک چڑیا نے انڈے دیے تھے۔ کیشو اور اس کی بہن شیاما دونوں بڑے غور سے چڑیا کو وہاں آتے جاتے دیکھا کرتے ۔ سویرے دونوں آنکھ ملتے کارنس کے سامنے پہنچ جانتے اور چڑا اور چڑیا دونوں کو وہاں بیٹھا پاتے۔ ان کو دیکھنے میں دونوں بچوں کو نہ معلوم کیا مزہ ملتا تھا۔ دودھ اور جلیبی کی بھی سدھ نہیں رہی تھی۔ دونوں کے دل میں طرح طرح کے سوالات اٹھتے ” انڈے کس رنگ کے ہوں گے؟ کتنے ہوں گے؟ کیا کھاتے ہوں گے؟ ان میں سے بچے کس طرح نکل آئیں گے بچوں کے پر کیسے نکلیں گے گھونسلا کیسا ہے؟ لیکن ان باتوں کا جواب دینے والا کوئی نہ تھا، نہ اماں کو گھر کے کام دھندے سے فرصت تھی، نہ بابو جی کو پڑھنے لکھنے سے۔ دونوں بچے آپس میں سوال و جواب کر کے اپنے دل کو تسلی دے لیا کرتے تھے۔ شیاما کہتی کیوں بھیا !  بچے نکل کر پھر سے اڑ جائیں گے "
کیشو عالمانہ غرور سے کہتا " ہیں رے پگلی ، پہلے پر نکلیں گے۔ بغیر پروں کے بیچارے کے کیسے اڑ جائیں گے " شیاما: بچوں کو کیا کھلائے گی بیچاری؟
کیشو اس پیچیدہ سوال کا جواب کچھ نہ دے سکا تھا۔
            اس طرح تین چار دن گذر گئے۔ دونوں بچوں کی خواہش تحقیقات دن بدن بڑھتی جاتی تھی۔ انڈوں کو دیکھنے کے لیے وہ بے تاب ہو اٹھے تھے۔ انھوں نے قیاس کیا اب بچے ضرور نکل آئے ہوں گے بچوں کے چارے کا سوال اب ان کے سامنے کھڑا ہوا ۔ چڑیا بیچاری اتنا دانہ کہاں پائے گی کہ سادے بچوں کا پیٹ بھرے ۔ غریب بچے بھوک کے مارے چوں چوں کرکے مر جائیں گے۔
اس مصیبت کا اندازہ کرکے دونوں نے فیصلہ کیا کہ کارنس پر تھوڑا سا دانہ رکھ دیا جائے۔ شیاما خوش ہوکر بولی تب تو چڑیوں کو چارے کے لیے کہیں اڑ کر نہ جانا پڑے گا۔
کیشو نہیں تب کیوں جائے گی؟
شیاما کیوں کیوں بھیا بچوں کو دھوپ نہ لگتی ہوگی ؟
کیشو کا دھیان اس تکلیف کی طرف نہ گیا تھا بولا" ضرور تکلیف ہوتی ہوگی۔ بچارے پیاس کے مارے تڑپتے ہوں گے، اوپر سایہ بھی نہیں ۔
آخر یہ فیصلہ ہوا کہ گھونسلے کے اوپر کپڑے کی چھت بنادینی چاہیے ۔ پانی کی پیالی اور چاول رکھ دینے کی تجویز منظور ہوگئی ۔
      دونوں بچے بڑے شوق سے کام کرنے لگے ۔ شیاما ماں کی آنکھ بچا کر مٹکے سے چاول نکال لائی ۔ کیشور نے پتھر کی پیالی کا تیل چپکے سے زمین پر گرا دیا اور اسے خوب صاف کر کے اس میں پانی بھرا۔ اب چاندنی کے لیے کپڑ ا کہاں سے آئے ۔ پھر اوپر بغیر چھڑیوں کے ٹھہر ے گا کیسے؟ اور چھڑیاں کھڑی کیسے ہوں گی؟
کیشو بڑی دیر تک اسی ادھیڑ بن میں رہا۔ آخر اس نے یہ مشکل بھی حل کرلی۔ شیاما سے بولا" جا کر کوڑا پھینکنے والی ٹوکری اٹھا لاؤ ، اماں کو مت دکھانا ۔"
شیاما دوڑ کر ٹوکری اٹھالائی۔ کیشو نے اس کے سوراخ میں تھوڑا سا کاغذ ٹھونس دیا اور ٹوکری کو ایک ٹہنی سے لٹکا کر بولا دیکھ ایسے ہی گھونسلے پر اس کی آڑ کروں گا تو کیسے دھوپ چاۓ گی ۔
شیاما نے دل میں سوچا ، بھیا کیسے چالاک ہیں۔
گرمی کے دن تھے۔ بابوجی دفتر گئے ہوئے تھے۔ ماں دونوں  بچوں کو سلا کر خود سوگئی تھی۔ لیکن دونوں بچوں کی آنکھوں میں نیند کہاں؟ اماں جی کو بہلانے کے لیے دونوں دم روکے ، آنکھیں بند کیے موقعے کا انتظار کر رہے تھے۔ جوں ہی معلوم ہوا کہ اماں جی اچھی تھی طرح سوگئی ہیں، دونوں چپکے سے اٹھے اور بہت آہستہ سے دروازے کی چٹکنی کھول کر باہر نکل آئے۔ انڈوں کی حفاظت کی تیاریاں ہونے لگیں ۔
کیشو کمرے سے جا کر ایک اسٹول اٹھالا یا۔ لیکن اس سے کام نہ چلا تو نہانے کی چوکی لا کر اسٹول کے نیچے رکھی اور ڈرتے ڈرتے اسٹول پر چڑھا۔ شیاما دونوں ہاتھوں سے اسٹول پکڑے ہوئے تھی۔ اسٹول چاروں ٹانگیں برابر نہ ہونے کی وجہ سے جس طرف زیادہ دباؤ پاتا تھا، ذرا ساہل جاتا تھا۔ اس وقت کیشو کو کس قدر تکلیف برداشت کرنی پڑتی تھی، یہ اسی کا دل جانتا تھا۔ دونوں ہاتھوں سے کارنس کر پکڑ لیتا تھا اور شیاماں کو دبی آواز سے ڈانتا۔" اچھی طرح پکڑو ورنہ اتر کر بہت ماروں گا۔ مگر بے چاری شیاما کا دل تو اوپر کارنس پر تھا۔ بار بار اس کا دھیان ادھر چلا جاتا اور ہاتھ ڈھیلے پڑ جاتے۔
کیشو نے جوں ہی کارنس پر ہاتھ رکھا، دونوں چڑیاں اڑ گئیں ۔
کیشو نےدیکھا کہ کارنس پر تھوڑے سے تنکے بچھے ہوئے ہیں اور اس پر تین انڈے پڑے ہوئے ہیں۔ جیسے گھونسلے - اس نے درخت پر دیکھے تھے ویسا کوئی گھونسلا نہیں ہے
شیاما نے نیچے سے پوچھا "بچے ہیں بھیا" کیشو : تین انڈے ہیں والے ہیں، بچے ابھی تک نہیں نکلے
شیاما : ذرا  ہمیں دکھا دو بھیا ، کتنے بڑے ہیں؟
کیشو: دکھا دوں گا، پہلے ذرا جھنڈی لے کر آ نہ نیچے بچھادوں، بچارے انڈے تنکوں پر پڑے ہیں۔"
شیاما دوڑ کر اپنی پرانی دھوتی پھاڑ کر ایک ٹکڑا لائی ۔ کیشو نے جھک کر کپڑا لے لیا اور اسے تہہ کر کے ایک گدی بنائی اور اسے تنکوں پر بچھا کرتہہ کر کے تینوں انڈے
اس پر رکھ دیے ۔ شیاما نے پھر کہا:" ہم کو بھی دکھا دو بھیا ۔"
کیشو : دکھادوں گا ۔ پہلے ذرا ٹوکری تو دے او پر سایہ تو کردوں۔
  شیاما نے ٹوکری نیچے سے تھما دی اور بولی "اب تم أتر آؤ میں بھی دکھوں" ۔
  کیشو نے ٹوکری کو ایک ٹہنی سے لگا کر کہا۔ "جا، دانہ اور پانی کی پیالی لے آ، میں اتر آؤں گا تو تجھے دکھا دوں گا"۔
   شیاما پیالی اور چاول بھی لے آئی۔
    کیشو نے ٹوکری کے نیچے دونوں چیزیں رکھ دیں اور آہستہ سے اتر آیا۔
     شیاما نے گڑگڑا کر کہا۔" اب ہم کو بھی چڑھا دو بھیا ؟ کیشو : تو گر پڑے گی ۔
شیاما : نہ گروں گی بھیا تم نیچے سے پکڑے رہنا۔
کیشو : کہیں تو گرگرا  پڑی تو اماں جی میری چٹنی ہی
کر ڈالیں گی۔ کہیں گی کہ تو نے ہی چڑھا یا تھا ۔ کیا کرے گی دکھ کر؟ اب انڈے بڑے آرام سے ہیں ۔ جب بچے نکلیں گے تو ان کو پالیں گے۔
دونوں پرندے بار بار کارنس پر آتے تھے اور بغیر بیٹھے ہی اڑ جاتے تھے۔ کیشو نے سوچا ہم لوگوں کے ڈر سے یہ نہیں پٹھتے ۔ اسٹول اٹھا کر کمرے میں آیا۔ چوکی چہان کی تھی وہیں رکھے دی۔
شیاما نے آنکھ میں آنسو بھر کر کہا۔" تم نے مجھے نہیں دکھا یا اماں جی سے کہہ دوں گی" ۔
کیشو۔ :  اماں جی سے کہے گی تو بہت ماروں گا کہے دیتا ہوں۔
شیاما: تو تم نے مجھے دکھایا کیوں نہیں؟
کیشو : اگر گر پڑتی تو چار سر نہ ہوتے۔
شیاما : ہو جاتے تو ہو جاتے۔ دکھ لینا میں کہہ دوں گی۔
اتنے میں کوٹھری کا دروازہ کھولا اور ماں نے دھوپ سے آنکھوں کو بچاتے ہوئے کہا تم دونوں باہر کب نکل آئے؟  میں نے کہا تھا دو پہر کو نہ نکلنا؟ کس نے یہ کواڑ کھولا ؟
کواڑ کیشو نے کھولا تھا ۔ لیکن شیاما نے ماں سے بات نہیں تھی۔ اسے خوف ہوا کہ بھیاپٹ جائیں گے۔ کیشو دل میں کانپ رہا تھا کہ کہیں شیاما کہہ نہ دے انڈے نہ دکھائے تھے۔ اس وجہ سے اب اس کو شیاما پر اعتبار نہ تھا۔ شیاما صرف محبت کے مارے چپ تھی یا اس قصور میں حصہ دار ہونے کی وجہ سے، اس کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ شاید دونوں ہی باتیں تھیں۔
مال نے والوں کو ڈانٹ ڈپٹ کر پھر کمرے میں بند کر دیا اور آہستہ آہستہ آنھیں پنکھا جھلنے لگی۔ ابھی صرف دو بجے تھے۔ باہر تیز لو چل رہی تھی اب دونوں کو نیند آگئی۔
چار کے یکا یک شیاما کی آنکھ کھلی ۔ کواڑ کھلے ہوئے تھے ۔ وہ دوڑتی ہوئی کارنس کے پاس آئی اوپر کی طرف تکنے لگی۔ ٹوکری کا پتہ نہ تھا اتفاقاً اس کی نگاہ نیچے گئی اور وہ الٹے پاؤں دوڑتی ہوئی کمرے میں جا کر زور سے بولی۔
"بھیا انڈے تو نیچے پڑے ہیں بچے اڑ گئے۔"
کیشو گھبرا کراٹھا اور دوڑتا ہوا باہر آیا ۔ دیکھتا ہے کہ تینوں انڈے نیچے ٹوٹے پڑے ہیں۔ پانی کی پیالی بھی ایک طرف ٹوٹی پڑی ہے۔ اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ سہمی ہوئی آنکھوں سے زمین کی طرف دیکھنے لگا۔
شیاما نے پوچھا " بچے کہاں اڑ گئے بھیا ؟"
کیشو نے افسوسناک لہجے میں کہا" انڈے تو پھوٹ گئے۔"
شیاما ؛ اور بچے کہاں گئے؟
کیشو : تیرے سر میں دیکھی نہیں ہے انڈوں سے اجلا اجلا پانی نکل آیا ہے۔ وہی تو دو چار دن میں بچے بن  جاتے۔ ماں نے سوئی ہاتھ میں لیے ہوئے پوچھا تم دونوں وہاں دھوپ میں کیا کر رہے ہو؟
  شیاما نے کہا " اماں جی ! چڑیا کے انڈے پڑے ہیں۔
  ماں نے آکر ٹوٹے ہوئے انڈوں کو دیکھا اورغصے سے بولی: " تم لوگوں نے انڈوں کو چھوا ہو گا ۔
اب تو شیاما کو بھیا پر ذرا بھی ترس نہ آیا ۔ اسی نے شاید انڈوں کو اس طرح رکھ دیا کہ وہ نیچے گر پڑے۔ اس کی سزا انھیں ملنی چاہیے۔ انہوں نے انڈوں کو چھیڑا تھا اماں جی “
ماں نے کیشو سے پوچھا " کیوں رے کیشو ! بھیگی بلی بنا کھڑا ہے تو وہاں پہنچا کیسے؟"
شیاما : چوکی پر اسٹول رکھ کر چڑھے تھے سماجی ۔
کیشو تو اس کو تھامے نہیں کھڑی تھی ۔
شیاما: تم ہی نے تو کہا تھا۔
ماں : تو اتنا بڑا ہو گیا تجھے نہیں معلوم چھونے سے چڑیا کے انڈے گندے ہو جاتے ہیں ۔ چڑیا پھر انہیں نہیں سیتی ۔
شیاما نے ڈرتے ڈرتے پوچھا تو کیا چڑیا نے انڈے گرائے ہیں ، اماں جی
  اماں : اور کیا کرتی ؟ کیشو کے سر اس کا پاپ پڑے گا۔ ہابا ! تین جانیں لے لیں دشٹ نے۔
کیشو : روئی صورت بنا کر بولا: میں نے تو صرف انڈوں کو گدی پر رکھ دیا تھا اماں "
ماں کو ہنسی آگئی ۔ مگر کیشو کو کئی دن تک اپنی غلطی کا افسوں رہا۔ انڈوں کی حفاظت کرنے کے زعم میں اس نے ان کا ستیا ناس کرڈالا ۔ اس کو یاد کر کے کبھی کبھی وہ رو پڑتا۔
دونوں چڑیاں پھر وہاں نہ دکھائی دیں ۔

                                                          (پریم چند)
پریم چند
( 1880 - 1936)
پریم چند کا اصلی نام دھنپت رائے تھا۔ وہ بنارس کے قریب ایک گاؤں لمہی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا شمار اردو کے ابتدائی اہم افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانوں میں زندگی کے روپ اپنے حقیقی مسائل اور کرداروں کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ غربت اور افلاس میں جینے والا عام انسان خصوصاً دیہاتی کسان اور مزدور، ان کے افسانوں کا اہم کردار ہوا کرتا ہے۔
پریم چند نے سیکڑوں افسانے اور کئی ناول لکھے ہیں ۔ پریم پچپیسی ، پریم چالیسی، دودھ کی قیمت اور واردات ان کے اہم افسانوی مجموعے ہیں۔گئودان، غبن، میدان عمل بیوہ اور بازارحسن ان کے اہم ناول ہیں۔

سوچیے اور بتائیے
1. گھونسلہ دیکھ کر بچوں کے دل میں کیا خواہش پیدا ہوئی؟
جواب:گھونسلہ دیکھ کر بچوں کہ دل میں  خواہش پیدا ہوئی کہ انڈوں کو دھوپ سے بچایا جائے  اور کھانے کی چیزوں کو گھونسلے کے قریب ہی رکھ دیا جائے تاکہ چڑیا اور اس کے بچوں کو کوئی پریشانی نہ ہو ۔

2.گھونسلے تک پہنچنے کی کیشو نے کیا ترکیب کی؟
جواب:گھونسلے تک پہنچنے کے لیے ان لوگوں نے اسٹول پر چوکی رکھی اور اس کے بعد کیشو گھونسلے تک پہنچا شیاما نے اسٹول کو پکڑا تاکہ وہ گر نہ جائےاس طرح کیشو گھونسلے تک پہنچ گیا-

3.شیاما  کو اپنے بھائی کیشو  پر ترس کیوں  نہیں آیا؟
جواب:چونکہ کیشو نے شیاما کو انڈے نہیں دکھائے تھے  اس لیے جب ماں نے کیشو کو ڈانٹا تو شیاما  کو بالکل ترس نہیں آیا اور اس نے ماں سے شکایت کردی کہ بھیا نے انڈوں کو چھیڑا تھا۔

4.پرندوں کے انڈوں کو کیوں نہیں چھونا چاہیے؟
جواب:پرندوں کے انڈوں کو چھونے سے وہ گندے ہو جاتے ہیں اور پرندے انہیں چھوڑ دیتے ہیں اس لیے انھیں نہیں چھونا چاہیے۔

5.گھونسلے سے زمین پر انڈے کس نے گرا دیے اور کیوں؟
جواب:چڑیا ہی نے انڈے زمین پر گرا دیے کیوں کہ بچوں کہ چھیڑنے سے انڈے گندے ہو گئے تھے  اور گندے انڈوں سے بچّے نہیں نکلتے۔

نیچے لکھے لفظوں کی مدد سے خالی جگہوں کو بھریے:

بچے##### پاپ#####  ٹوٹی#####  دفتر#####  کانپ

کیشو دل میں کانپ رہا تھا۔
پیالی کی پیالی بھی ایک طرف ٹوٹی پڑی ہے۔
کیشو کے سراس کا پاپ پڑے گا
بچے نکل کر پھر سے اڑ جائں گے
بابوجی دفتر گئے ہوئے تھے
نیچے لکھے ہوئے لفظوں کے واحد اور جمع بنائیے:

سوالات :  سوال
موقع : مواقع
تکلیف : تکلیف
خواہش :  خواہشات 
پرندے : پرندہ
چیز :چیزیں

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کےمزکر اور مونث لکھیے:
اماں :  ابا
چڑا :  چڑیا
بہن :  بھائی
بچہ : بچے
بلی : بلا
نیچے لکھے ہوئے لفظوں کے متضاد لکھیے:

دھوپ : چھاوں
تکلیف :  آرام
سزا  : انام
پاپ : پُنیہ
جواب :  سوال

ایک سچّا واقعہ
نادان دوستوں کی کہانی آپ نے اپنے سبق میں پڑھی آئیے اب آپکو ایک سچا واقعہ سناتا ہوں ۔ پرندوں کے گھونسلا بنانے کی عادت کا ایک ویڈیو ان دنوں سوشل میڈیا میں تیزی سے وائرل ہو رہا ہے جس میں ایک چڑیا نے ایک کار کی ونڈو شیلڈ پر ہی گھونسلا بنا دیا اور اس میں انڈے دے دیے۔ اور جانتے ہو بچّو! یہ مہنگی اور قیمتی گاڑی کس کی تھی یہ ہم تمہیں آگے بتائیں گے۔
پرندہ ہو یا کوئی جانور انہیں اس بات کاعلم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں ۔ ہماری بالکونی میں لگے پودوں کو گلہری اس بے دردی سے کتر ڈالتی ہے کہ کیا بتائیں۔ ان کی یہ حرکتیں کسی بھی انسان کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ کیونکہ انہیں نہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ آخر کیا کر رہی ہیں۔ پھر چاہے کسانوں کے کھیت میں بوئے گئے بیجوں کو چگنا ہو یا پھر کسی کے گھر کی بالکونی میں گھونسلا بنانا۔ پرندے اکثر کسی بھی گھر میں ایسے مقام پر گھونسلا بناتے ہیں جو انہیں اپنی اور اپنے بچوں کے تحفظ کی کوئی فکر نہ ہو لیکن انسان ایسی مخلوق ہے جو کہیں بھی پہنچ جاتی ہے بھلے ہی انسان پرندوں کو نقصان نہ پہنچائیں باوجود اس کے پرندوں میں یہ تشویش پائی جاتی ہے۔
پرندوں کے گھونسلا بنانے کی عادت کا ایک ویڈیو ان دنوں سوشل میڈیا میں تیزی سے وائرل ہو رہا ہے جس میں ایک چڑیا نے ایک کار کی ونڈو شیلڈ پر ہی گھونسلا بنا دیا اور اس میں انڈے دے دیے۔ یہ کار دبئی کے ولی عہد شہزادہ ایگزیکٹو کونسل کے صدر شیخ حمدان بن محمد بن راشد المکتوم کی تھی۔ در اصل چڑیا نے ولی عہد شہزادہ کی مرسڈیز ایس یو وی کی ونڈ شیلڈ پر گھونسلا بنا لیا۔
جیسے ہی اس بات کا ولی عہد شہزادہ کو پتہ چلا تو انہوں نے کار کو ایک طرف کھڑا کروادیا۔ تاکہ پرندے امن سے رہ سکیں اور ان کے بچوں کو کوئی پریشانی نہ آئے۔ گزشتہ ہفتے ، ولی عہد شہزادہ نے کار کے بونٹ پر ماں پرندے کا ویڈیو اپنے انسٹاگرام اسٹوری پر شیئر کیا تھا کہ وہ تب تک اس کار کا استعمال نہیں کریں گے جب تک بچے انڈوں سے نہ نکل جائیں۔
اس ویڈیو کے سامنے آںے کے بعد سوشل میڈیا کے صارفین ولی عہد شہزادے کی جم کر تعریف کر رہے ہیں۔ ایک صارف نےلکھا آپ سچ میں پرنس ہیں۔ پرندوں کے لئے آپ کے دل میں بہت محبت ہے۔ وہیں دوسرے یوزر نے لکھا آپ کا دل سونے کا ہے، آج کے زمانے میں کون اتنی چھوٹی بات کو سوچتا ہے۔ آپ نے جو کیا اس سے میرا دل بھر آیا۔ آپ کو بہت سارا پیار۔

Sunday, 14 June 2020

Hazrat Amir Khusrau


چھاپ تلک سب چھینی رے مجھ سے نینا ملا کے
فضا میں ستار، ہارمونیم اور ڈھولک کی تھاپ پر عشق و محبت کے درد میں ڈوبا یہ نغمہ بکھر رہا ہے،کہیں دور  سے’ زحال مسکیں مکن تغافل در آئی نیناں بنائے بتیاں‘ کی سریلی آواز دل کو گرما رہی ہے رات کے پچھلے پہر’ نہ آپ آئے نہ بھیجی پتیاں‘ کی درد بھری سسکاری محبوب کی یاد میں خون کے آنسو رُلا رہی ہے۔اور جس کی تان
گوری سوئے سیج پر مکھ پر ڈارے کیس 
چل خسرو گھر آپنے رین بھئی چہوں دیس 
پر جا کر ٹوٹ جاتی ہے۔
دہلی کے حضرت نظام الدین کی گلیوں سے نکال کر پوری دنیا میں پھیل جانے والی یہ آواز طوطی ہند حضرت امیر خسرو ؒ کی ہے۔ جو اپنے زمانے کے مشہور صوفی بزرگ محبوب الٰہی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءکے مرید و خلیفہ تھے۔
خسرو کی پیدائش1253ء میں اتر پردیش کے قصبے پٹیالی  میں ہوئی۔یہ قصبہ ضلع ایٹہ      میں دریائے گنگا کے کنارے آباد ہے۔ ان کا لقب ابو الحسن تھا اور نام امین الدولہ ۔ان کے والدامیر سیف الدین محمود  لاچین قوم کے ایک ترک سردار تھے۔ منگولوں کے حملوں کے وقت ہندوستان آئے اور پٹیالی میں سکونت اختیار کی۔جب وہ ہندوستان آئے تو یہاں سلطان شمس الدین التمش کی حکومت تھی۔
خسرو کے والد ترک نسل کے تھےاور اُن  کی والدہ ہندوستانی تھیں۔وہ وزیر عماد الملک کی بیٹی تھیں۔  خسروآٹھ سال کی عمر میں یتیم ہوگئے اور  کچھ عرصہ بعد یہ خاندان آگرہ سے دہلی منتقل ہو گیا اور خسرو اپنے نانا عماد الملک کے ساتھ رہنے لگے۔۔ امیرخسرو نے سلطنت دہلی کے آٹھ بادشاہوں کا زمانہ دیکھا جن میں خاندان غلامان، خلجی اورتغلق شامل ہیں  ۔خسرو نےبرصغیر میں اسلامی سلطنت کے ابتدائی ادوار کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی زندگی میں سرگرم حصہ لیا۔خسرو 20سال کے تھے کہ ان کے نانا کا انتقال ہوگیا اور انہیں اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ خود ہی اٹھانا پڑا۔
حضرت امیرخسرو محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء کے بڑے چہیتے مرید تھے اور  خسرو کو بھی  اپنے مرشد سے انتہائی عقیدت تھی ۔
سیّد محمد بن مبارک کرمانیؒ سیر الاولیاء میں لکھتے ہیں:
راقم الحروف نے اپنے والد بزرگوارسے سنا ہے وہ کہتے تھے کہ جس دن امیر خسرو پیدا ہوئے امیر خسرو کے باپ امیر لاچین کے گھر کے پاس ہی ایک دیوانہ رہتا تھا بڑا خدا رسیدہ۔امیر خسرو کے باپ نے اس بچّے کو کپڑے میں لپیٹا اور اس دیوانے کے پاس لے گیادیوانے نے کہا لے آؤ ایسے آدمی کو جو خاقانی سے دو قدم آگے ہوگا۔غرضیکہ جب سن بلوغت کو پہنچےتو سلطان المشائخ کی عقیدت و ارادت میں رنگے گئے اور ان کی شفقتوں اور کرم فرمائیوں کے لیے مخصوص ہوئے۔
حضرت امیر خسرو نےسلطان المشائخ سے عقیدت و ارادت میں اس صدق و خلوص سے کوشش کی کہ مرشد کے محرم اسرار بن گئے۔ حضرت امیر خسرو کوسلطان المشائخ کے ہاں انتہائی قرب اور خاص مقام حاصل تھا۔
کہتے ہیں کہ خسرو نے  ایک دن سلطان المشائخ کی مدح میں اُن کے سامنے شعر پڑھے۔ آپ نے فرمایا کیا چاہتے ہو۔ کیونکہ خسرو کو شعر و شاعری کی ہی تمنّا تھی۔شیرینی اتاثیر ِ شعر کی درخواست کی فرمایا کہ شَکر کا جو طشت کھاٹ کے نیچے ہے لاؤ اور اپنے سر پر نثار کرواور اس میں سے کچھ کھا بھی لو۔ امیر خسرو نے ایسا ہی کیا اور اسی کے کلام کی شیرینی کا شہرہ مشرق و مغرب میں پھیل گیا۔اور  وہ اگلے پچھلے شاعروں کے لیے باعث فخر بن گئے۔خسرو اس درخواست کے قبول ہونے سے آخری عمر تک نادم رہےکہ اس وقت اس سے بہتر کوئی چیز کیوں نہ مانگ لی۔
بتاتے ہیں کہ سلظان المشائخ نے ذوق و شوق سے پُر نہ جانے کتنے خطوط امیر خسرو کو اپنے ہاتھ سے خود لکھے ہیں۔
خسرو نے ہر صنف شعر، مثنوی، قصیدہ، غزل، اردو دوہے ،پہیلیاں، گیت وغیرہ میں طبع آزمائی کی۔ غزل میں پانچ دیوان یادگارچھوڑے۔ ہندوستانی موسیقی میں ترانہ، قول اور قلبانہ انہی کی ایجاد ہے۔ بعض ہندوستانی راگنیوں میں ہندوستانی پیوند لگائے۔ راگنی (ایمن کلیان) جو شام کے وقت گائی جاتی ہے انہی کی ایجاد ہے۔ کہتے یہ کہ ستار پر تیسرا تار آپ ہی نے چڑھایا۔
امیر خسروفارسی اور اردو کے  بہت ہی مشہورصوفی شاعر تھے۔وہ  ماہر موسیقی تھے اور انہیں نے نہ جانے کتنے راگ ایجاد کیے ۔ ستار بھی آپ ہی کی ایجاد ہے جو آج بھی موسیقی کے دکدادہ افراد کا پسندیدہ ساز ہے۔خسرو کو طوطی ہند کہا جاتا ہے۔
فارسی کلام کی مثالیں
اگر فردوس بر روۓ زمین است ##### ہمین است و ہمین است و ہمین است
کافر عشقم، مسلمانی مرا در کار نیست##### ہر رگ من تار گشتہ، حاجت زُنار نیست
از سر بالین من برخیز ای نادان طبیب ##### دردمند عشق را دارو بہ جز دیدار نیست
ناخدا بر کشتی ما گر نباشد، گو مباش ##### ما خدا داریم ما ناخدا در کار نیست
خلق می‌گوید کہ خسرو بت‌پرستی می‌کند #####آری! آری! می‌کنم! با خلق ما را کار نیست
خسرو نے اردو میں دوہے بھی کہے:
خسرو دریا پریم کا، اُلٹی وا کی دھار##### جو اترا سو ڈوب گیا، جو ڈوبا سو پار
سیج وُہ سونی دیکھ کے رووُوں میں دن رین ##### پیا پیا میں کرت ہوں پہروں، پل بھر سکھ نا چین

امیر خسرو شاعری سے ہی نہیں بلکہ موسیقی سے بھی کافی دلچسپی رکھتے تھے۔ ہندوستانی کلاسیکل موسیقی کے ایک اہم شخصیت بھی مانے جاتے ہیں۔ کلاسیکل موسیقی کے اہم ساز، طبلہ اور ستار انہی کی ایجاد مانی جاتی ہے۔ اور فن موسیقی کے اجزا جیسے خیال اور ترانہ بھی انہی کی ایجاد ہے۔
دنیا میں اردو کا پہلا شعر حضرت امیرخسرو ہی کی طرف منسوب ہے۔ اس سلسلے میں اردو کے ابتدائی موجدین میں ان کا نام نمایاں ہے ۔
جب سلطان المشائخ کا انتقال ہواتو خسرو دلّی میں نہ تھے۔دلّی واپس آنے پر اُن کی موت کی المناک خبر سنی اور شدّتِ غم سے بے حال ہوگئے۔ اُن کے لیے یہ بہت بڑا صدمہ تھا۔ انہوں نے اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے اور چہرے پر خاک مل لی۔اسی حالت میں پیر کی قبر پرپہنچے اور بے ساختہ یہ دوہا پڑھا
گوری سوئے سیج پر مکھ پر ڈارے کیس
چل خسرو گھر آپنے رین بھئی چہوں دیس

(گوری(حضرت نظام الدین اولیاء)اپنے منہ پر بالوں کو بکھیر ے سیج پر سورہی ہے۔ اے خسرو اب اپنے گھر چل ،چاروں طرف رات کا اندھیرا چھا گیا ہے۔)
محبوب الٰہی کے انتقال کے بعد امیر خسرو زیادہ دن زندہ نہیں رہے اور 6 ماہ بعد1325ء  میں وہ بھی اپنے شیخ کے قدموں میں ابدی نیند سو گئے۔

خسرو کی شہرہ آفاق تصانیف
”تحفۃ الصغر“،”وسطالحیات“،”غرۃالکمال“،”بقیہ نقیہ“،”قصہ چہار درویش“”نہایۃالکمال“،”ہشت بہشت“،”قران السعدین“،”مطلع الانوار“،”مفتاح الفتوح“،”مثنوی ذوالرانی-خضرخان“،”نہ سپہر“،”تغلق نامہ“،”خمسہ نظامی“،”اعجاز خسروی“،”خزائن الفتوح“،”افضل الفوائد“،”خالق باری“،”جواہر خسروی“،”لیلیٰ مجنوں“،”آئینہ سکندری“،”ملا الانور“،”شیریں خسرو“
حوالہ جات:
1. سَیر الاولیاء
2. امیر خسرو از شیخ سلیم احمد
3. آزاددائرة المعارف، ویکی پیڈیا

Sunday, 7 June 2020

ّAazmaish By Md. Mujeeb NCERT Solutions Class 10 Urdu Chapter 5


ڈراما
ڈراما یونانی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ہیں’ کرنا‘ ۔ ادب میں  یہ  ایسی صنف ہے جس میں کرداروں، مکالموں اور مناظر کے ذریعے کسی کہانی کو پیش کیا جاتا ہے۔ قدیم ہندوستان میں سنسکرت کا ویہ میں بھی اس کی روایت بہت مضبوط تھی اور اس کو ” نا ٹیہ“ کہا جاتا تھا۔
ارسطو نے ڈرامے کو زندگی کی نقّالی کہا ہے۔ داستان ، ناول اور افسانے کے مقابلے میں ڈراما اس لحاظ سے حقیقت سے قریب تر ہوتا ہے کہ اس میں الفاظ کے ساتھ ساتھ کردار، ان کی بول چال اور زندگی کے مناظر بھی دیکھنے والوں کے سامنے آتے ہیں ۔ کرداروں کی ذہنی اور جذباتی کشمکش کو مکا لمے اور آواز کے اُتار چڑھاؤ کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے۔ ڈراما بنیادی طور پر اسٹیج کی چیز ہے لیکن ایسے بھی ڈرامے لکھے گئے ہیں اور لکھے جاتے ہیں جو صرف سنانے اور پڑھنے کے لیے ہوتے ہیں ۔ ریڈیو کی وجہ سے ڈراموں کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے ۔ اور ٹیلی وژن پر جس طرح کے سیریل سب سے زیادہ پیش کیے جاتے ہیں، ان کا تعلق کسی نہ کسی طرح ڈرامے ہی کی صنف سے ہوتا ہے۔
ارسطو نے ڈرامے کے اجزائے ترکیبی میں چھ چیزوں کو ضروری قرار دیا ہے۔ قصہ، کردار، مکالمہ، خیال، آرائش اور موسیقی ۔ لیکن ضروری نہیں کہ ہر ڈرامے میں سنگیت یا موسیقی کا عنصر ہو۔ پلاٹ، کردار، مکالموں اور مرکزی خیال کا ہونا البتہ ضروری ہے۔ ڈرامے کی کامیابی کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس میں واقعات کی کڑیاں اس طرح ملائی جائیں کہ بتدریج نقطۂ عروج تک پہنچ سکیں اور ناظرین کی توجہ ایک نکتے  یا خیال پر مرکوز ہو جائے ۔ اس کے بعد ڈراما انجام کی طرف بڑھتا ہے۔ واقعات سے جو نتیجہ برآمد ہوتا ہے ، وہ انجام کے ذریعے پیش کر دیا جاتا ہے۔ حق و باطل اور خیر و شر کی کشمکش، بنیادی انسانی اقدار اور سماجی ، قومی و سیاسی مسائل کو ڈراموں میں پیش کیا جاتا ہے۔
اردو میں ڈرامےکا آغاز واجد علی شاہ کے زمانے میں ہوا جب ”رادھا کنھیا‘‘ کا قصہ اسٹیج کیا جانے لگا۔ امانت کی” اندر سبھا‘‘ بھی اسی زمانے میں لکھی گئی جو بے حد مقبول ہوئی ۔” اندر سبھا “کے اثر سے بعد کے  پارسی اردو تھیٹر میں بھی رقص و موسیقی کا  خاصا زور رہا۔ انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں اردو تھیٹر نے بہت ترقی کی اور آغا حشر کے ڈرامے بہت مقبول ہوئے ۔ اس کے بعد امتیاز علی تاج ، حکیم احمد شجاع ، ڈاکٹر سیّد عابد حسین ، پروفیسر محمد مجیب ، مرزا ادیب ، اشتیاق حسین قریشی اور فضل الرحمٰن نے ڈراما نگاری پر خصوصی توجہ کی ۔ کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی اور ریوتی سرن شرما نے بھی ریڈیائی ڈرامے  لکھے اور ڈراما نگاری کی روایت کو مزید استحکام بخشا۔

محمد مجیب
(1902 - 1985)
محمد مجیب لکھنؤ میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد ایک معروف وکیل تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم لکھنؤ کے لاریٹو کانونٹ میں حاصل کی۔ اس کے بعد دہرہ دون کے ایک پرائیوٹ اسکول سے سینیر کیمبرج کا امتحان پاس کیا۔ 1919 میں محمد مجیب نے آکسفورڈ سے جد ید تاریخ میں بی۔ اے (آنرز) کیا۔ برلن میں ان کی ملا قات ڈاکٹر ذاکر حسین اور ڈاکٹر سیّد عابد حسین سے ہوئی۔ وہیں انھوں نے جرمن اور روسی زبانیں سیکھیں ۔ فرانسیسی زبان وہ آکسفورڈ میں سیکھ چکے تھے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین کے ساتھ انھوں نے جامعہ ملّیہ اسلامیہ میں کام کرنے کا عہد کیا۔ فروری 1926 میں وہ جامعہ ملّیہ اسلامیہ کے شیخ الجامعہ ( وائس چانسلر) بنائے گئے اور وہ اس عہدے پر چوبیس برس تک فائز رہے۔ ان کا انتقال دہلی میں ہوا۔
مجیب صاحب انتظامی امور کے ساتھ تصنیف و تالیف کے کام میں بھی برابر لگے رہے۔ اردو اور انگریزی میں ان کی بہت سی کتا بیں شائع ہوئیں ۔ مجیب صاحب نے آٹھ ڈرامے لکھے جن کے نام ہیں : ”کھیتی“ ،” انجام‘‘، ”خانہ جنگی“،”حبہ خاتون “، ”،ہیروئن کی تلاش“، ”آزمائش“ اور ”دوسری شام“، اور بچوں کے لیے ایک ڈراما ”آؤڈراما کریں“ ۔ مجیب صاحب صاف، سادہ اور سلیس نثر لکھتے تھے۔ ان کے مکالموں میں بول چال کا فطری انداز ہے۔
نصاب میں جو ڈرامہ شامل ہے وہ مجیب صاحب کے ڈرامے آزمائش کا آخری ایکٹ ہے۔ یہ ڈراما 1857 کے الم ناک تاریخی واقعات پرمبنی ہے۔ جنرل بخت خاں اور اس کی ہندوستانی فوجوں کو شکست ہو چکی ہے۔ بہادر شاہ ظفر گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ انگریزوں کا دہلی پر قبضہ ہو جانے کے بعد  پکڑ دھکڑشروع ہو چکی ہے۔ رام سہائے کی بیوی بھاگ وتی نے جنگ آزادی کی دو مجاہد خواتین سلمیٰ  اور کشن کنور کو پناہ دے رکھی ہے۔ بخت خاں کے سپاہی اگر چہ ہار گئے ہیں لیکن ان کے حوصلے بلند ہیں۔

آزمائش
(آخری ایکٹ)
 رام سہائے مل کے مکان میں ایک چھوٹا سا دالان ۔ رات ہوگئی ہے ۔ ڈیوَٹ پر ایک دیا جل رہا ہے۔ رام سہائے مل اس کی روشنی میں کھانا کھا رہا ہے۔ بھاگ وتی ، اس کی بیوی، آنچل سے منھ بند کیے کھڑی ہے، اس کو پنکھا جھل رہی ہے اور چپکے چپکے رو رہی ہے۔ رام سہائے مل کو اس کے رونے کا احساس نہیں ہے اور وہ کھانا کھاتا رہتا ہے۔
رام سہائے مل  :  کہو، آج پانی کافی مل گیا؟
 بھاگ وتی : (روہانسی آواز میں ) ابھی شام کو رام پرشاد لے آیا۔ بہت دور جانا پڑا، آس پاس کے کنوؤں میں لاشیں پڑی ہیں ۔
 رام سہائے مل : رام رام ، رام رام ۔۔۔۔(اس کی طرف دیکھ کر ) مگرتم رو کیوں رہی ہو؟
بھاگ وتی : میرا بھی مر جانے کو جی چاہتا ہے۔
رام سہائے مل : کیوں ، تم کیوں بیٹھے بیٹھے جان سے بیزار ہوگئی ہو؟
بھا گ وتی : کیا بتاؤں؟
رام سہائے مل  : پر ماتما کا شکر کرو ۔ اتنی بڑی مصیبت آئی اور گزرگئی۔
بھاگ وتی : ہاں۔
رام سہائے مل : مگر ابھی بہت چوکس رہنا ہے۔ دیکھتی رہنا دروازے سے پہرے والے نہ ہٹیں۔
بھاگ وتی : نہیں ، میں تو برابر چکر لگاتی رہتی ہوں ۔
رام سہائے مل : اور کوئی اندر نہ آنے پائے ۔ مرد، عورت، بچہ۔
بھاگ وتی :  نہیں ، قصور ہوگا تو میرا ہو گا۔ میں کہہ دوں گی کہ میں نے آپ کو بتائے بغیر کیا ہے۔ مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ جان پہچان کی کوئی عورت یا  بچّہ پناہ مانگے اور میں اسے پناہ نہ دوں ۔
رام سہائے مل : (بھاگ وتی کو دیر تک غور سے دیکھ کر )معلوم ہوتا ہے تم نے مجھے بتائے بغیر کسی کو گھر میں چھپا لیا ہے ۔ اب تو ہماری جان پر ماتما کی د یا سے ہی بچ سکتی ہے۔ تمھارا دل اتنا کمزور ہے تو تم مجھے کیوں نہیں بلا لیتی ہو؟
بھاگ وتی : میں چاہتی ہوں کہ آپ کو معلوم ہی نہ ہو۔
رام سہائے مل  : یہ کون مانے گا کہ میرے گھر میں آدمی چھپے ہیں اور مجھے معلوم نہیں۔
بھاگ وتی : آدمی نہیں، لاوارث عورتیں بھوکے پیاسے بچّے!
رام سہائے مل : کس کی عورتیں، کسی کے بچّے؟
بھاگ وتی : یہ میں پوچھتی ہی نہیں ہوں۔
رام سہائے مل : يا پوچھا ہے اور مجھے بتانا نہیں چاہتی ہو۔ ہمارے محلے میں ایسے لوگ ہیں ہی نہیں جنھوں نے بغاوت میں حصہ لیا ہو۔ یہ عورتیں اور بچے تو باہر سے آئے ہوں گے۔ (بھاگ وتی زمین پر بیٹھ کر اور اپنا منہ بند کر کے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی ہے۔ بتاؤ تو یہ ہیں کون؟ کبھی پوچھ تاچھ ہو تو میں جواب تو دے سکوں (بھاگ وتی سر ہلاتی ہے۔) اچھا، نہ بتاؤ۔ (خاموشی) جب لڑائی ہورہی تھی تو تمہاری زبان پر تین چار نام رہا کرتے تھے....................... بخت خاں کی آل اولاد یہاں تھی ہی نہیں، سدھاری سنگھ بھی باہر کا آدمی ہے۔ کیا کسی مسلمان عورت کو پناہ دی ہے؟.............. ہند و عورتوں میں تو تمھارے رانی کشن کنور سے تعلقات تھے۔ نہارسنگھ روپیہ وصول کرنے آنا چاہتا تو زمین تیار کرنے سے پہلے اسی کو بھیجتا تھا۔ مگر کیا معلوم رانی ب
بلّبھ گڑھ میں ہے یا یہاں ۔ بہر حال، جہاں بھی ہو، کوئی نہ کوئی اس کا پتہ دے گا ضرور ............ اگر نہار سنگھ کو پکڑ لیا ہے تو شاید اس کو تلاش نہ کرے۔
بھاگ وتی  : پکڑ لیا ہے! ( پھر زور سے روتی ہے)
رام سہائے مل :  پکڑ لیا ہے تو اب تو کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔ اس کے برابر سونا دے کر اسے مول لینا چاہو تو نہ دیں گے ....... تو رانی کشن کنور نے تمہارے یہاں پناہ لی ہے.......... بے چاری! (رام سہائے سے اب اور کھایا نہیں جاتا۔ برتن سامنے سے کھسکا دیتا ہے۔ پانی پینا چاہتا ہے مگر پیالا دیر تک ہاتھ میں لیے رہتا ہے اور پی نہیں پاتا۔)
کیا بہت رورہی ہے؟
بھاگ وتی : (سر ہلا کر)نہیں، اس کا افسوس کر رہی ہے کہ جہادی عورتوں کے ساتھ میدان میں نہیں گئی اور ماری نہیں گئی۔
رام سہائے مل : رام رام، کیا ہمت ہے۔ اس کو اچھی طرح رکھنا۔ میں بھی کبھی اس کے درشن کروں گا۔ اس کا ہمارے گھرمیں رہنا کچھ ایسا خطرناک نہیں ہے۔ مسلمان عورت کی بات اور ہے۔
بھاگ وتی : ایک مسلمان بہن بھی ہے۔
رام سہائے مل : ہائے! کون؟
بھاگ وتی : سلمیٰ۔
رام سہائے مل : ارے وہی یوسف میاں کی منگیتر؟ وہ تو مورچوں پرلڑی بھی تھی۔
بھاگ وتی : ہاں اس نے گھروں کی چھتوں پر سے بھی گولی چلائی ۔ رانی کشن کنور بھی اس کے ساتھ بندوق چلا رہی تھیں۔پھر وہ زخمی ہوگئی ۔ رانی کشن کنور نے نہ جانے کس طرح اس کو یہاں پہنچایا۔ میں  تو سمجھتی تھی کہ مر جائے گی، مگر اب بھلی چنگی ہے۔ سوچ رہی ہے کہ کسی طرح دلّی سے نکل جائے اور بخت خاں کی فوج میں مل جائے۔رانی کشن کنور کہتی ہیں کہ وہ بھی ساتھ جائیں گی۔
 رام سہائے مل : دیکھو، یہ نہیں ہوسکتا۔ میں اس پر تیار ہوں کہ وہ یہاں چھپی رہیں، اور جب خطرہ نہ رہے تو چپکے سے چلی جائیں۔ یہاں وہ سال بھر تک رہیں ۔ مگر باہر جا کر پھر کہیں لڑائی میں شامل ہوئیں تو تم پکڑی جاؤ گی، اورمجھے تو ضرور پھانسی ہو جائے گی............... اور یوسف میاں کو کیا ہوا؟
بھاگ وتی : سلمیٰ کو کچھ معلوم نہیں۔
رام سہائے مل : اورتم کو معلوم ہوگا تو بتاؤ گی نہیں۔
بھاگ وتی : سنا ہے وہ آخر وقت تک لڑتے رہے۔ اردو بازار میں کسی گورے نے ایک عورت کے ساتھ بدتمیزی کی تھی اسے جان سے مار دیا۔ اس میں نہ معلوم کتنے پکڑے گئے مگر وہ نہیں تھے۔ کہتے ہیں اب اردو بازار پر گولہ باری ہوگی ۔ ایک مکان بھی کھڑا نہ چھوڑا جائے گا۔
رام سہائے مل : اب پر ماتما بچائے ہم سب کو۔
(ایک عورت گھبرائی ہوئی اندر آتی ہے، اس کے منھ سے بات نہیں نکلتی ۔ پھر ایک ملازم آتا ہے۔)
ملازم : سرکار، دروازے پر چار سپاہی آئے ہیں۔ کہتے ہیں دروازہ کھولو، ہم تلاشی لیں گے۔
رام سہائے مل : میرے گھر میں نہیں آ سکتے۔ میرے پاس امان کا پروانہ ہے۔
ملازم : سرکار، وہ ہماری بات نہیں مانیں گے۔
بھاگ وتی : پروانہ میرے پاس ہے۔ چلو میں دکھا دوں گی۔
رام سہائے مل : تم کہاں جاؤ گی؟
بھاگ وتی : میں نہیں جاؤں گی تو اور کون جائے گا؟ میں نے مشہور کر دیا ہے کہ آپ انگر یز کمانڈروں سے بات چیت کررہے ہیں گھر پر نہیں ہیں۔
رام سہائے مل :  نہیں ، تم بیٹھو، میں جاتا ہوں۔
(بھاگ وتی جلدی سے دِیا بجھا کر بھاگ جاتی ہے۔ رام سہائے مل اندھیرے میں بیٹھا رہتا ہے۔ کچھ دیربعد دائیں طرف سے بھاگ وتی الٹے پاؤں چلتی ہوئی نظر آتی ہے۔ چار سپاہی اسے سنگینوں سے دھمکا رہے ہیں ۔ پہلا سپاہی ان کا سردار معلوم ہوتا ہے۔)
پہلا سپاہی : بتا کہاں ہیں وہ دونوں!
بھاگ وتی : (سہمی ہوئی روہانسی ، مگر بہت دبی آواز میں ) یہاں کوئی نہیں چھپا ہے۔
پہلا سپاہی : یہاں دو عورتیں چھُپی ہیں ۔ ہمارے آدمیوں نے ان کو گولی چلاتے دیکھا، پھر وہ بھاگ کر اس گھر میں آتےہوئے دیکھی  گئیں۔ رام سرن اس عورت کو لے جا کر دیوار کے ساتھ کھڑا کرو، باقی تین آدمی فَیر کرو۔
(رام سرن بھاگ وتی کی طرف بڑھتا ہے۔)
رام سہائے مل  :  ارے تم لوگوں کو شرم نہیں آتی۔ ایک بے قصور عورت کو اس طرح مار رہے ہو۔
پہلا سپاہی : اچھا، لالہ جی چھُپے بیٹھے ہیں ، سوچا تھاللائن ہم کو بہلا پھسلا کر رخصت کر دے گی۔ رام سرن! کھڑا کروا نھیں بھی للائن کے ساتھ۔
بھاگ وتی  : (چلّا کر) ا ے مجھے مار ڈالو، انھیں چھوڑ دو! یہ بالکل کچھ نہیں جانتے ! ارے یہ بالکل بے قصور ہیں۔
پہلا سپاہی : اچھا یہ بے قصور ہیں تو تمھیں تو معلوم ہے کہ دونوں عورتیں کہاں چھپی ہیں۔
بھاگ وتی : (ویسے ہی چلّا کر) ارے انھیں چھوڑ دو! ہائے میری قسمت! یہ بالکل بھی نہیں جانتے، ہائے ہائے!
(اسٹیج کے دائیں طرف کے کونے سےسلمیٰ اورکشن کنور اندر آتی ہیں۔)
سلمیٰ : ان دونوں کا پیچھا چھوڑ دو۔ ہم آگئے ہیں ہمیں جو سزا چاہو دے دو۔ سیٹھ صاحب اور ان کی بیوی بالکل بے قصور ہیں۔
پہلا سپاہی :  (سلمیٰ اورکشن کنور کو غور سے دیکھنے کے بعد) مجھے تو تم اسی گھرانے کی عورتیں معلوم ہوتی ہو۔
 کشن کنور : ان دونوں کو چھوڑ دو۔ ہم تمھارے ساتھ چلنے کو تیار ہیں ۔ شہر میں ہزاروں آدمی ہم کو پہچان لیں گے۔
پہلا سپاہی : ہاں، میں تم کو لے کر باہر چلا جاؤں اور اس دوران میں اصلی مجرم نکل جائیں۔
سلمیٰ : تمھاری مرضی، بے گناہوں کا خون کرنا تو تمھارا کام ہی ہے۔
پہلا سپاہی : اچھا تو بتاؤ، کیا نام ہیں تمھارے؟
سلمیٰ : سلمیٰ
کشن کنور : کشن کنور
پہلا سپاہی : تم اپنے جرم کا اقبال کرتی ہو؟
سلمیٰ : ہم نے کوئی جرم نہیں کیا۔ ہم اپنے ملک کے لیے، اپنے بادشاہ کی طرف سے لڑے ہیں۔
پہلا سپاہی : تم لڑائی میں شریک ہوئی ہو؟
سلمیٰ :  دل و جان سے ہم شریک ہوئے ، ہم نے دوسروں کو لڑنے پر آمادہ کیا۔ ہم مورچوں پر لڑے، ہم نے دشمنوں کو مارا۔
کشن کنور : ہمیں افسوس اس کا ہے کہ اس سے زیادہ نہ کر سکے۔
پہلا سپاہی : تو جاؤ کھڑی ہو جا ؤ دیوار سے لگ کر۔
سلمیٰ  : ہم دیوار سے لگ کر کیوں کھڑے ہوں؟ ہم صحن میں کھڑے ہوں گے اور تمھاری بندوقوں پر ہنسیں گے۔
پہلا سپاہی : تو چلو کھڑی ہو جاو ٔ! اسی بات پر۔
(سلمیٰ اورکشن کنور  بیچ صحن میں کھڑی ہو جاتی ہیں۔ پہلے سپاہی کے اشارے پر تین سپاہی ان سے تین چار قدم ہٹ کر اور ایک گھٹنے کو زمین پر ٹیک کر بندوقیں تانتے ہیں ۔ بھاگ وتی چیخ مار کر سپاہیوں اور دونوں عورتوں کے بیچ میں آ جاتی ہے۔ مگر غش کھا کر گر پڑتی ہے۔ سپاہی بندوقیں تانے رہتے ہیں، مگر انھیں فائر کرنے کا حکم نہیں ملتا۔سلمیٰ کے چہرے پر مسکراہٹ ہے اور وہ بندوقوں کی طرف دیکھتی رہتی ہے ۔ کشن کنور کی نظر آسمان کی طرف ہے، اس کے چہرے پر وجد کی کیفیت ہے۔ سپاہی  فائرنہیں کرتے۔ ایک بارگی پہلا سپاہی گھٹنوں پر جاتا ہے۔)
پہلا سپاہی : (ہاتھ جوڑ کر) ہماری خطا معاف کیجیے۔ ہم صرف اس کا یقین کرنا چاہتے تھے کہ آپ وہی ہیں جنھیں ڈھونڈ کرلانے کا ہمیں حکم دیا گیا تھا۔
(تقدیر کے اس انقلاب کو برداشت کر ناسلمیٰ اورکشن کنور کے بس میں نہیں ۔کرشن کنور چیخ مار کر گر پڑتی ہے۔سلمیٰ کی آنکھیں چڑھ جاتی ہیں ، ہاتھ پاؤں جواب دے دیتے ہیں اور وہ زمین پر ڈھیر ہو جاتی ہے۔)
رام سہائے مل : ظالموں! اب کب تک ان بے چاریوں کو ستاؤ گے؟ ارے مارنا ہے تو ایک دفعہ مار دو۔
پہلا سپاہی : (انتہائی ندامت کے انداز میں ) ہم انھیں تکلیف دینا نہیں چاہتے تھے، ان کے دل کی آرزو پوری کرناچاہتے تھے۔ ہمیں جنرل بخت خاں نے انگریزی فوج کی وردیاں پہنا کر بھجوایا ہے کہ انھیں جلد سے جلد تلاش کر کے ان کے پاس پہنچا دیں ۔ ہم نے ان کو صحیح سلامت نہ پہنچایا تو ہمارے گولی مار دی جائے گی، یا انگریز ہمیں پکڑ کر پھانسی دے دیں گے۔
( بھاگ وتی اس دوران میں اٹھ کھڑی ہوتی ہے، اورکشن کنور اورسلمیٰ کے منھ پر پانی کے چھینٹے دیتی ہے اور ان کے سر سہلاتی ہے۔)
بھاگ وتی : اٹھو پیاری ، تمھارے بخت خاں نے تمھیں بلایا ہے۔ اپنے پیاروں کا بدلہ لو، اپنے ملک کی آبرو بڑهاؤ!
(آہستہ آہستہ سلمیٰ اورکشن کنور کو ہوش آتا ہے۔ وہ اٹھ کر بیٹھتی ہیں ۔ بھاگ وتی ا نھیں پانی پلاتی ہے۔)
پہلا سپاہی : آپ سے پھر آپ کے قدموں پر گر کر معافی مانگتا ہوں ۔ (سلمیٰ اورکشن کنور مسکرا دیتی ہیں۔) مگر ابھی ایک اور گستاخی کرنا ہے۔ ہم آپ کو شہر کے باہر صرف قیدی بنا کر لے جا سکتے ہیں۔ ہمیں آپ کی مُشکیں کسنا ہوں گی اور گلے میں رسیّاں باندھنا۔
(سلمیٰ اورکشن کنور ایک دوسرے کی طرف دیکھتی ہیں۔ پھر دونوں کھڑی ہو جاتی ہیں۔ سپاہی جلدی جلدی اُن کی مشکیں کستے ہیں اور گلے میں پھندا ڈالتے ہیں ۔ پھر ایک سپاہی آگے، دو پیچھے اٹینشن ہو جاتے ہیں۔ پہلا سپاہی روانگی کا حکم دیتا ہے۔)

خلاصہ:



خلاصه:۔ آپ نے اس ڈرامے کے تعلق سے پڑھا ہے کہ محمد مجیب صاحب نے 1857 کے الم ناک واقعات پر مبنی ایک ڈراما لکھا تھا۔ آپ کے نصاب میں اس ڈرامے کا آخری ایکٹ ہے، اس ایکٹ سے پہلے بہادر شاہ ظفر گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ جنرل بخت خاں اور ان کی ہندوستانی فوجوں کو شکست ہو چکی ہے۔ انگریزوں کا دہلی پر قبضہ ہو جانے کے بعد پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی ہے۔ لالہ رام سہائے کی بیوی بھاگ وتی نے جنگ آزادی کی دو مجاہد عورتوں سلمی اور کشن کنورکو پناہ دے رکھی ہے جس کاعلم لالہ رام سہاۓ کونہیں ہے۔
رات کا وقت ہے اور رام سہائے مل کھانا کھارہے ہیں۔ اس کی بیوی بھاگ وتی آنچل سے منہ چھپائے کھڑی ہے اور پنکھا جھلتے ہوئے چپکے چپکے رورہی ہے۔ لالہ رام سہاۓ مل اسے سمجھاتے ہیں کہ کسی کو گھر میں نہ آنے دیں ۔ بھاگ وتی کہتی ہے کہ میں ایسا نہیں کرسکتی اگر کوئی جان پہچان والا آئے اور میں اس کو پناہ نہیں دوں۔ رام سہائے مل سمجھ جاتا ہے کہ گھر میں کوئی موجود ہے۔ پوچھتا ہے تو بھاگ وتی بتاتی ہے کہ رانی کشن کنور اور سلمی جو مورچوں پرلڑی تھیں اس وقت پناہ میں موجود ہیں مگر وہ جلد از جلد یہاں سے باہر جانا چاہتی ہیں اور بخت خاں کی فوج میں شامل ہونا چاہتی ہیں۔ اسی دوران ایک عورت گھبرائی ہوئی آتی ہے اسکے بعد ایک ملازم آ کر اطلاع دیتا ہے کہ چار سپاہی آئے ہیں اور کہتے ہیں دروازہ کھولو تلاشی لینی ہے رام سہائے مل کہتا ہے وہ میرے گھر میں نہیں آ سکتے، میرے پاس امان کا پروانہ ہے۔ ملازم کہتا ہے کہ سرکار وہ ہماری بات نہیں مانیں گے۔ بھاگ وتی رام سہاۓ ل کو چھوڑ کر باہر جاتی ہے۔ وہ سپاہیوں کو سمجھانے کی کوشش کرتی ہے
کہ ہمارے پاس امان کا پروانہ ہے اور ہمارے گھر میں کوئی نہیں ہے۔ کچھ دیر بعد سپاہی اسے دھمکاتے ہوئے واپس لے آتے ہیں اور دریافت کرتے ہیں کہ وہ دونوں کہاں ہیں؟ بھاگ وتی کے نہ بتانے پر سپاہی اسے دیوار کے سہارے کھڑا کردیتے ہیں، اس پر گولی چلانے کیلئے کہا جاتا ہے، اسی دوران رام سہائے باہر نکل آتا ہے تو سپاہی اسے پکڑ لیتے ہیں، تب بھاگ وتی کہتی ہے کہ یہ کچھ نہیں جانتے، انہیں چھوڑ دو، یہ بے قصور ہیں۔ سپاہی پھر پوچھتے ہیں کہ دونوں کہاں ہیں؟ اسی وقت سلمی اورکشن کنور وہاں آجاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ انہیں چھوڑ دو، یہ بے قصور ہیں ۔ سپاہی کو یقین نہیں آتا وہ ان سے کہتا ہے کہ دیوار سے لگ کر کھڑی ہو جائیں ، تم انہیں بچانے کیلئے جھوٹ بول رہی ہو سلمی اورشن کنور آسمان کے نیچے سینہ تان کر کھڑی ہو جاتی ہیں، ان دونون کے چہروں پرخوف نہیں ، چہرے مسکراتے ہوئے ہیں تبھی پہلا سپاہی کہتا ہے کہ ہمیں بخت خاں نے بھیجا ہے اور آپ کو ڈھونڈ کر لانے کیلئے کہا ہے۔ اتنا سننے کے بعد وہ دونوں بیہوش ہو جاتی ہیں۔ بھاگ وتی انہیں اٹھاتی ہے اور ان سے کہتی ہے کہ یہ لوگ تمہیں بخت خاں کے پاس لے جانے آئے ہیں تبھی سپاہی ان سے کہتے ہیں کہ ہمیں ایک گستاخی کرنی ہوگی ، ہم آپ کو شہر کے باہر صرف قیدی بنا کر لے جا سکتے ہیں ہمیں آپ کی مشکیں کسنا ہوں گی اور گلے میں رسیاں باندھنا۔ پھر سپاہی انہیں باندھ کر اس طرح باہر لے جاتے ہیں جیسے ان کے ساتھ خطرناک قیدی ہوں۔
سوالوں کے جواب لکھیے 
1.رام سہائے اور اس کی بیوی بھاگ وتی کے خیالات میں کیا فرق تھا؟
جواب: بھاگ وتی ایک جذباتی عورت ہے وہ دوسروں کی مددکرنا بھلائی سمجھتی ہے۔ اور اپنے آپ کوخطرے میں ڈال سکتی ہے، اس کا پتی رام سہائے مل اس سے مختلف ہے وہ اپنی جان کی فکر میں مبتلا رہتا ہے کہ کہیں کوئی آفت نہ آجائے۔ فطرتاً وہ کمزور دل اورڈرپوک ہے۔
2.رام سہائےمل کے دروازے پر سپاہی آئے تو اس نے کیوں کہا کہ میرے پاس امان کا پروانہ ہے؟
جواب:رام سہائے مل کے گھر جب سپاہی پہنچے تا کہ وہ گھر کی تلاشی لیں تو رام سہائےمل نے کہا کہ وہ ایسا  نہیں کر سکتے کیونکہ اس کے پاس انگریزوں کا دیا ہوا وہ حکم نامہ ہے جس کے تحت اس کی حفاظت کی جائےگی۔ اور سپاہی اسے کسی طرح کا نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ اسلئے اس حکم نامے کو امان کا پروانه ( آرڈر لیٹر) کہا۔
سوال 3.سپاہی سلمی اورکشن کنور کی مشکیں کس کر شہر سے باہر کیوں لے جانا چاہتے تھے؟
جواب:سپاہی سلمی اورکشن کنور کو اسلئے مشکیں کس کر شہر سے باہر لے جانا چاہتے تھے کہ کوئی انہیں پہچان کر انگریز سپاہیوں کو نہ بتادے۔ مشکیں کسنے کی صورت میں ان کے پہچاننے والے جان لیں گے کہ - انہیں انگریزوں نے گرفتار کروایا ہے اور شہر سے باہر بھیجا جارہا ہے۔

Hindu Musalman By Tilok Chand Mehroom NCERT Class IX Chapter 1

ہندو مسلمان
تلوک چند محروم

ہندو مسلمان، ہیں بھائی بھائی
تفریق کیسی، کیسی لڑائی 
ہندو ہو کوئی یا ہو مسلماں
 عزت کے قابل ہے بس وہ انساں 
نیکی ہو جس کا کار نمایاں 
اوروں کی مشکل ہو جس سے آساں
ہر اک سے نیکی ، سب سے بھلائی
ہندو مسلمان سب بھائی بھائی 
دونوں کا مسکن ہندوستاں ہے
 دوو بلبلیں ہیں اک گلستاں ہے
 اک سر زمیں ہے اک آستاں ہے
 دونوں کا یک جا سود و زیاں ہے
نا اتفاقی آزار جاں ہے
مل جل کے رہنا ہے کامرانی
 ہندو مسلمان، قومیں پرانی

تلوک چند محروم
(1887 – 1966)
تلوک چند محروم ، دریائے سندھ کے مغربی کنارے تحصیل عیسیٰ خیل، ضلع میاں والی میں پیدا ہوئے۔ وہیں ابتدائی تعلیم پائی۔ پھر بی۔ اے کی سند حاصل کی۔ 1908 میں مشن ہائی اسکول، ڈیرہ اسماعیل خاں میں استاد کے عہدے پر تقرر ہوا۔ 1944 سے 1947 تک کا رڈن کالج، راولپنڈی میں اردو ، فارسی کے لیکچرر رہے۔ 1948 میں کیمپ کا لج دہلی میں اردو کے لیکچرر بنے۔ شعر و شاعری کا شوق بچپن سے تھا۔ محروم قادر الکلام شاعر تھے۔ انھوں نے کئی شعری اصناف میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کلام رباعیات محروم، گنج معانی کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔

مشق
معنی یاد کیجیے:
تفریق : فرق
کارِ نمایاں : وہ کام جس سے سب واقف ہوں،بڑا اور تعاریف کے قابل کام
مسکن : رہنے کی جگہ،گھر
گلستاں : باغ
سرزمیں : زمین،وطن
یک جا : ایک جگہ
سود و زیاں : فائدہ اور نقصان
نا اتفاقی : میل جول نہ ہونا
آزارِ جاں : جان کا دکھ
کامرانی : کامیابی
سوچیے اور بتائیے:
1.عزت کے قابل کون ہیں؟
جواب : شاعر نے عزت کے قابل اُسے بتایا ہے جو نیک ہو اور دوسروں کا بھلا چاہتا ہو۔  اور جس کی وجہ سے اوروں کا کام آسان ہوتا ہو۔
2.نظم میں بلبلیں اور گلستان کے الفاظ کس کے لیے استعمال کیے گئے ہیں؟
جواب: اس نظم میں بلبلیں سے مراد اس ملک میں رہنے والے  ہندو اور مسلماان ہیں اور گلستان سے مراد ہندوستان ہے۔ جس طرح دو بلبلیں ایک باغ کو خوش نما بناتی ہیں  ویسے ہی ہندو اور مسلمان  ہندوستان کی شان بڑھاتے ہیں۔ شاعر نے ہندو اور مسلم کے لیے بلبل کی مثال دی ہے اور گلستاں یعنی ہندوستان کو ان کا مسکن قرار دیا ہے۔ 
3. نااتفاقی کو آزارِ جاں کیوں کہا گیا ہے؟
جواب: شاعر نے نااتّفاقی کو آزارِ جان اس لیے کہا ہے کہ اس سے انسان کے لیے بہت ساری مشکلیں پیدا ہوتی ہیں۔ اگر آپس میں اتفاق نہ ہو تو دشمن آپ پر بہت جلد قابو پا لیتا ہے اور آپ کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔
4. کامرانی کا راز کیا ہے؟
جواب: آپس میں مل جل کر رہنا ہی کامرانی کا راز ہے۔ شاعر نے اس نظم میں ہندوؤں اور مسلمانوں سے آپس میں مل جل کر رہنے کی اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ اسی میں ملک کی کامیابی کا راز چھپا ہوا ہے۔ شاعر نے دونوں ہی قوموں کو بھائی چارے کا سبق سکھایا ہے۔
غور کیجیے:
٭ مل جل کر رہنے میں ہی کامیابی ہے۔لڑائی جھگڑے نقصان دہ ہوتے ہیں۔ تمام قوموں کو مل جُل کر رہنا چاہیے۔
نیچے لکھے ہوئے لفظوں کے واحد بنائیے:
اَوروں : اَور
بلبلیں : بلبل
قومیں : قوم
نیکیاں : نیکی

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کے متضاد لکھیے:
اتفاق : نااتفاقی، نفاق 
آسان : مشکل
آسماں : زمیں
کامرانی :ناکامی
عزت : ذلت

عملی کام
* اس نظم کو زبانی یاد کیجیے۔

خوش خبری