| :مزید دیکھیں | ||
| ایک مس سیمیں بدن سے کر لیا لندن میں عقد | اکبر الہ آبادی طنز و اصلاح کا شاعر |
ترتیب داستان سر گذشت آزاد بخت بادشاہ کی میر امن ادبی تاریخ مرزا مظہر جان جاناں محمد حسین آزاد طن...
| :مزید دیکھیں | ||
| ایک مس سیمیں بدن سے کر لیا لندن میں عقد | اکبر الہ آبادی طنز و اصلاح کا شاعر |
حضرت خضر علیہ السلام اور آبِ حیات
حضرت خضر علیہ السلام کی کنیت ابو العباس اور نام ''بلیا'' اور ان کے والد کا نام ''ملکان'' ہے۔ ''بلیا'' سریانی زبان کا لفظ ہے۔ عربی زبان میں اس کا ترجمہ ''احمد'' ہے۔ ''خضر'' ان کا لقب ہے اور اس لفظ کو تین طرح سے پڑھ سکتے ہیں۔ خَضِر، خَضْر، خِضْر۔ ''خضر'' کے معنی سبز چیز کے ہیں۔ آپ جہاں بیٹھتے تھے وہاں آپ کی برکت سے ہری ہری گھاس اُگ جاتی تھی اس لئے لوگ ان کو ''خضر'' کہنے لگے۔
آپ بہت ہی عالی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور آپ کے آباؤ اجداد بادشاہ تھے۔ بعض عارفین نے فرمایا ہے کہ جو مسلمان ان کا اور ان کے والد کا نام اور ان کی کنیت یاد رکھے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ اُس کا خاتمہ ایمان پر ہو گا۔
(صاوی، ج۴،ص۱۲۰۷،پ۱۵،الکہف:۶۵)
ہو سکےتو آپ بھی اس کنیت کو یاد رکھئے گا۔ ابوالعباس بلیا بن ملکان۔
حضرت خضر علیہ السلام حضرت ذوالقرنین کے خالہ زاد بھائی بھی تھے۔ حضرت خضر علیہ السلام حضرت ذوالقرنین کے وزیر اور جنگلوں میں علمبردار رہے ہیں۔ یہ حضرت سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں ۔تفسیر صاوی میں ہے کہ حضرت ذوالقرنین حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے دست حق پرست پر اسلام قبول کر کے مدتوں اُن کی صحبت میں رہے اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے ان کو کچھ وصیتیں بھی فرمائی تھیں۔
(صاوی،ج۴،ص۱۲۱۴،پ۱۶، الکہف:۸۳)
تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام کا دور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور کے فوری بعد کا ہی ہے۔
کیا حضرت خضر علیہ السلام زندہ ہیں۔ اس میں کچھ علماء نے اختلاف کیا ہے۔ لیکن جمہور علماء (یعنی کثیر علماء) کی یہ ہی رائے ہے کہ وہ زندہ ہیں۔ بلکہ ان کی ملاقات حضرت موسی علیہ السلام سے بھی ثابت ہے حالانکہ آپ کا دور حضرت موسی علیہ السلام سے کئی سو برس پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور کے فوری بعد کا ہے۔ تفسیر روح البیان میں ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام جو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پڑپوتے ہیں ان کے درمیان اور حضرت موسی علیہ السلام کے درمیان 400 سال کا فرق ہے۔ تو اس لحاظ سے حضرت موسی علیہ السلام حضرت خضر علیہ السلام سے تقریبا 600 سال بعد پیدا ہوئے ہوں گے۔ واللہ تعالی اعلم۔ امام بدر الدین عینی صاحب شرح بخاری نے ان کے متعلق لکھا ہے کہ جمہور کا مذہب یہ ہے اور صحیح بھی یہ ہے کہ وہ نبی ہیں اور زندہ ہیں ۔
(عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری مصنف بدرالدین العینی ۔کتاب العلم،باب ما ذکرفی ذہاب موسی، ج۲،ص۸۴،۸۵)
خدمت بحر (یعنی سمندر میں لوگوں کی رہنمائی کرنا) انہیں سے متعلق (یعنی انہیں کے سپرد) ہے اور اِلیاس علیہ السلام '' بَرّ ''(خشکی) میں ہیں۔
(الاصابۃ فی تمیزالصحابۃ،حرف الخاء المعجمۃ،باب ماوردفی تعمیرہ،ج۲،ص۲۵۲)
اسی طرح تفسیر خازن میں ہے (اور اکثر عُلَماء اور مشائخِ صوفیہ و اصحابِ عرفان کا اس پر اتفاق ہے) کہ حضرت خضر علیہ السلام زندہ ہیں۔ شیخ ابو عمرو بن صلاح نے اپنے فتاوٰی میں فرمایا کہ حضرت خضر جمہور عُلَماء و صالحین کے نزدیک زندہ ہیں، یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت خضر و الیاس دونوں زندہ ہیں اور ہر سال زمانۂ حج میں ملتے ہیں۔ یہ بھی اسی میں منقول ہے کہ حضرت خضر نے چشمۂ حیات میں غسل فرمایا اور اس کا پانی پیا۔ اسی طرح تفسیر صاوی میں ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے بھی مشرف ہوئے ہیں۔ اس لئے یہ صحابی بھی ہیں۔
(صاوی، ج۴،ص۱۲۰۸،پ ۱۵، الکہف:۶۵)
اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی ان کی ملاقات ثابت ہے اور حضرت خضر علیہ السلام نے ان کو نصیحت بھی فرمائی تھی ۔ کہ اے عمر!رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بات سے بچنا کہ تو ظاہر میں تو خدا کا دوست ہو اور باطن میں اس کا دشمن کیونکہ جس کا ظاہر اور باطن مساوی نہ ہو تو منافق ہوتا ہے اور منافقوں کا مقام درک اسفل ہے۔ یہ سن کر عمربن عبدالعزیزرضی اللہ تعالیٰ عنہ یہاں تک روئے کہ آپ کی داڑھی مبارک تر ہوگئی ۔
(تنبیہ المغترین،الباب الاوّل،مساواتہم السر والعلانیۃ،ص39)
اور بھی بزرگان دین نے ان سے ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ واللہ تعالی اعلم
آب حیات کے متعلق بہت اختلاف ہے۔ بعض لوگ اس کو ایک افسانے کے علاوہ کچھ نہیں کہتے ۔ کیونکہ آب حیات کا تذکرہ نہ قرآن میں ہے نہ ہی کسی صیحح حدیث میں۔ ہاں کچھ علماء کرام نے اس کا تذکرہ اپنی تفسیر میں حضرت ذوالقرنین کے پہلے سفر کے ذمرے میں کیا ہے۔ جیسے کہ تفسیر خزائن العرفان پ۱۶، الکہف: ۸۶تا ۹۸ میں نقل ہے۔حضرت ذوالقرنین نے پرانی کتابوں میں پڑھا تھا کہ سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک شخص چشمہءحیات سے پانی پی لے گا تو اس کو موت نہ آئے گی۔ اس لئے حضرت ذوالقرنین نے مغرب کا سفر کیا۔ آپ کے ساتھ حضرت خضر علیہ السلام بھی تھے وہ تو آب ِ حیات کے چشمہ پر پہنچ گئے اور اس کا پانی بھی پی لیا مگر حضرت ذوالقرنین کے مقدر میں نہیں تھا، وہ محروم رہ گئے۔ اس سفر میں آپ جانب مغرب روانہ ہوئے تو جہاں تک آبادی کا نام و نشان ہے وہ سب منزلیں طے کر کے آپ ایک ایسے مقام پر پہنچے کہ انہیں سورج غروب کے وقت ایسا نظر آیا کہ وہ ایک سیاہ چشمہ میں ڈوب رہا ہے۔ جیسا کہ سمندری سفر کرنے والوں کو آفتاب سمندر کے کالے پانی میں ڈوبتا نظر آتا ہے۔ وہاں ان کو ایک ایسی قوم ملی جو جانوروں کی کھال پہنے ہوئے تھی۔ ا س کے سوا کوئی دوسرا لباس ان کے بدن پر نہیں تھا اور دریائی مردہ جانوروں کے سوا ان کی غذا کا کوئی دوسرا سامان نہیں تھا۔ یہ قوم ''ناسک'' کہلاتی تھی۔ حضرت ذوالقرنین نے دیکھا کہ ان کے لشکر بے شمار ہیں اور یہ لوگ بہت ہی طاقت ور اور جنگجو ہیں۔ تو حضرت ذوالقرنین نے ان لوگوں کے گرد اپنی فوجوں کا گھیرا ڈال کر ان لوگوں کو بے بس کر دیا۔ چنانچہ کچھ تو مشرف بہ ایمان ہو گئے کچھ آپ کی فوجوں کے ہاتھوں مقتول ہو گئے۔
اسی طرح تفسیر خازن اور شیخ ابو عمرو بن صلاح نے اپنے فتاوٰی میں فرمایا کہ حضرت خضر اور الیاس جمہور عُلَماء و صالحین کے نزدیک زندہ ہیں اور ہر سال زمانۂ حج میں ملتے ہیں ۔ اور یہ کہ حضرت خضر نے چشمۂ حیات میں غسل فرمایا اور اس کا پانی بھی پیا تھا۔ بس آب حیات یا چشمہ حیات کی اتنی حقیقت ہی کتب میں لکھی ہے۔ مگر اصل حقیقت تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ واللہ تعالی اعلم
(تاریخ اسلام کے فیس بُک صفحہ سے شکریہ کے ساتھ)
| حیات | : | زندگی |
| قضا | : | موت، حکمِ خدا |
| عمر خضر | : | مرادلمبی عمر |
| بوقتِ مرگ | : | موت کے وقت |
| فغاں | : | آہ و زاری، واویلا |
| بادِ صبا | : | صبح کی ٹھنڈی ہوا، پُروائی |
| بساط | : | وہ خانے دار کپڑا جو چوسر یا شطرنج کھیلنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے |
| بدقمار | : | ناکام جواری |
| نازاں ہونا | : | ناز کرنا، فخر کرنا |
| خرد | : | عقل |
| دانش | : | سمجھ بوجھ |
| دانش وری | : | ہوشیاری ،سمجھ داری، زیادہ علم رکھنا |
| کلک برائے دیگر اسباق |
بہت دنوں کا ذکر ہے جب ہر جگہ نیک لوگ بستے تھے اور دعا فریب بہت
ہی کم تھا۔ ہندو مسلمان ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے۔
کوئی کسی پر زیادتی نہیں کرتا تھا اور جو جس کا حق ہوتا تھا، اسے
مل جایا کرتا تھا ۔ ان دنوں ایک شہر تھا: عادل آباد۔ اس عادل آباد
میں ایک بہت دولت مند دکان دار تھا۔ دور دور کے ملکوں سے اس کا لین
دین تھا۔ اس کے پاس ایک گھوڑا تھا جو اس نے بہت دام دے کر ایک عرب
سے خریدا تھا۔
ایک دن کا ذکر ہے کہ وہ دکان دار تجارت کی غرض سے گھوڑے پر سوار
ہو کر جارہا تھا کہ بے خیالی میں شہر سے بہت دور نکل گیا اور ایک
جنگل میں جا نکلا ۔ ابھی یہ اپنی دھن میں آگے جاہی رہا تھا کہ
پیچھے سے چھے آدمیوں نے اس پر حملہ کر دیا۔ اس نے ان کے دو ایک وار
تو خالی دیے لیکن جب دیکھا کہ وہ چھے ہیں تو سوچا کہ اچھا نہیں ہے
کہ ان سے بچ کرنکل چلوں ۔ اس نے گھوڑے کو گھر کی طرف پھیرا ، لیکن
ڈاکوؤں نے بھی اپنے گھوڑے پچھے ڈال دیے۔ اب تو عجیب حال تھا۔ سارا
جنگل گھوڑوں کی ٹاپوں سے گونج رہا تھا ۔ سچ یہ ہے کہ دکان دار کے
گھوڑے نے اسی دن اپنے دام وصول کرادیے۔ کچھ دیر بعد ڈاکوؤں کے
گھوڑے پیچھے رہ گئے ۔ گھوڑا دکان دار کی جان بچا کر اسے گھر لے
آیا۔
اس روز گھوڑے نے اتنا زور لگایا کہ اس کی ٹانگیں بے کار ہو گئیں ۔
خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ کچھ دنوں بعد غریب کی آنکھیں بھی جاتی
رہیں ۔ لیکن دکان دار کو اپنے وفادار گھوڑے کا احسان یاد تھا۔ چناں
چہ اس نے سائیس کو حکم دیا کہ جب تک گھوڑا جیتا رہے، اس کو روز صبح
وشام چھ سیر دانہ دیا جائے اور اس سے کوئی کام نہ لیا جائے۔
لیکن سائیس نے اس حکم پر عمل نہ کیا۔ وہ روز بروز گھوڑے کا دانہ
کم کرتا گیا۔ یہی نہیں بلکہ ایک روز اسے اپاہج اور اندھا سمجھ کر
اصطبل سے نکال دیا۔ بے چارہ گھوڑا رات بھر بھوکا پیاسا، بارش اور
طوفان میں باہر کھڑا رہا۔ جب صبح ہوئی تو جوں توں کر کے وہاں سے چل
دیا۔
اسی شہر عادل آباد میں ایک بڑی مسجد تھی اور ایک بڑا مندر ۔ ان
میں نیک ہندو اور مسلمان آ کر اپنے اپنے ڈھنگ سے عبادت کرتے اور
خدا کو یاد کرتے تھے۔ مندر اور مسجد کے بیچ ایک بہت اونچا مکان تھا
اس کے بیچ میں ایک بڑا سا کمرا تھا۔ کمرے میں ایک بہت بڑا گھنٹا
لٹکا ہوا تھا اور اس میں ایک لمبی سی رسی بندھی ہوئی تھی ۔ اس گھر
کا دروازہ دن رات کھلا رہتا۔ شہر عادل آباد میں جب کوئی کسی پر ظلم
کرتا یا کسی کا مال دبالیتا یا کسی کا حق مار لیتا تو وہ اس گھر
میں جاتا، رسی پکڑ کر کھینچتا۔ یہ گھنٹا اس زور سے بچتا کہ سارے
شہر کو خبر ہو جاتی ۔ گھنٹے کے بجتے ہی شہر کے سچے ، نیک دل
ہندومسلمان وہاں آجاتے اور فریادی کی فریاد سن کر انصاف کرتے ۔
اتفاق کی بات کہ اندھا گھوڑا بھی صبح ہوتے ہوتے اس گھر کے دروازے
پر جا پہنچا۔ دروازے پر کچھ روک ٹوک تو تھی نہیں ، گھوڑا سیدھا گھر
میں گھس گیا۔ بیچ میں رسی تھی۔ یہ غریب مارے بھوک کے ہر چیز پر منھ
چلاتا تھا، رسی جو اس کے بدن سے لگی تو وہ اسی کو چبانے لگا۔ رسی
جو ذرا کھنچی تو گھنٹا بجا۔ مسلمان مسجد میں نماز کے لیے جمع تھے۔
پجاری مندر میں پوجا کر رہے تھے۔ گھنٹا جو بجا تو سب چونک پڑے اور
اپنی اپنی عبادت ختم کر کے اس گھر میں آن کر جمع ہو گئے ۔ شہر کے
پنچ بھی آگئے ۔ پنچوں نے پوچھا : ” یہ اندھا گھوڑا کس کا ہے؟‘‘
لوگوں نے بتایا: ’’ یہ فلاں تا جر کا ہے۔ اس گھوڑے نے تاجر کی جان
بچائی تھی ۔‘‘ پوچھا گیا تو معلوم ہوا کہ تاجر نے اسے نکال باہر
کیا ہے۔ پنچوں نے تاجر کو بلوایا ۔ ایک طرف اندھا گھوڑا تھا، اس کی
زبان نہ تھی جو شکایت کرتا۔ دوسری طرف تاجر کھڑا تھا، شرم کے مارے
اس کی آنکھیں جھکی تھیں ۔ پنچوں نے کہا: تم نے اچھا نہیں کیا ۔ اس
گھوڑے نے تمھاری جان بچائی اور تم نے اس کے ساتھ کیا کیا ؟ تم آدمی
ہو، یہ جانور ہے آدمی سے اچھا تو جانور ہی ہے۔ ہمارے شہر میں ایسا
نہیں ہوتا ۔ ہر ایک کو اس کا حق ملتا ہے اور احسان کا بدلہ احسان
سمجھا جا تا ہے۔
تاجر کا چہرہ شرم سے سرخ ہوگیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے ۔
بڑھ کر اس نے گھوڑے کی گردن میں ہاتھ ڈال دیا۔
قواعد:
گھوڑے پر سوار ہو کر جارہا تھا۔
بہت دنوں کا ذکر ہے جب ہر جگہ نیک لوگ بستے تھے۔
معلوم ہوا کہ تاجر نے اسے نکال باہر کیا ہے۔
اوپر دیے گئے جملوں میں جن کاموں کے بارے میں بتایا جارہا ہے وہ پہلے ہو چکے ہیں یعنی یہ گزرے ہوئے وقت
کی باتیں ہیں ۔ گزرے ہوئے وقت / زمانہ کو ماضی کہتے ہیں