آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Tuesday, 13 October 2020

Jalwa e Darbar e Dehli-Akbar Allahabadi-Nazm-Class 9

جلوۂ دربار دہلی
اکبر الہ آبادی
سر میں شوق کا سودا دیکھا 
دہلی کو ہم نے بھی جا دیکھا
جو کچھ دیکھا اچھا دیکھا
کیا بتلائیں کیا کیا دیکھا

جمنا جی کے پاٹ کو دیکھا
اچھے ستھرے گھاٹ کو دیکھا
سب سے اونچے لاٹ کو دیکھا
حضرت ڈیوک کناٹ کو دیکھا

پلٹن اور رسالے دیکھے
گورے دیکھے کالے دیکھے
سنگینیں اور بھالے دیکھے
بینڈ بجانے والے دیکھے

خیموں کا اِک جنگل دیکھا
اس جنگل میں منگل دیکھا
برھما اور ورنگل دیکھا
عزت خواہوں کا دنگل دیکھا

سڑکیں تھیں ہر کمپ سے جاری
پانی تھا ہر پمپ سے جاری
نور کی موجیں لمپ سے جاری
تیزی تھی ہر جمپ سے جاری

ڈالی میں نارنگی دیکھی 
مخمل میں سارنگی دیکھی
بے رنگی بارنگی دیکھی 
دہر کی رنگا رنگی دیکھی

اچھے اچھوں کو بھٹکا دیکھا 
بھیڑ میں کھاتے جھٹکا دیکھا
منھ کو اگر چہ لٹکا دیکھا 
دل دربار سے اٹکا دیکھا

ہاتھی دیکھے بھاری بھرکم
ان کا چلنا کم کم تھم تھم
زرّیں جھولیں نور کا عالم 
میلوں تک وہ چم چم چم چم

پُر تھا پہلوۓ مسجد جامع
روشنیاں تھیں ہر سو لامع
کوئ نہیں تھا کسی کا سامع 
سب کے سب تھے دید کے طامع

سرخی سڑک پے کٹتی دیکھی 
سانس بھی بھیڑ میں گھٹتی دیکھی
آتش بازی چھٹتی دیکھی 
لطف کی دولت لٹتی دیکھی

چوکی اِک چولکھّی دیکھی
 خوب ہی چکھی پکھی دیکھی
ہر سو نعمت رکھی دیکھی
 شہد اور دودھ کی مکھی دیکھی

ایک کا حصہ منّ و سلوا
ایک کا حصہ تھوڑا حلوا
ایک کا حصہ بھیڑ اور بلوا 
میرا حصہ دور کا جلوا

اوج برٹیش راج کا دیکھا
 پرتو تخت و تاج کا دیکھا
رنگ زمانہ آج کا دیکھا 
 رُخ کرزن مہراج کا دیکھا

پہنچے پھاند کے سات سمندر
 تحت میں ان کے بیسیوں بندر
حکمت و دانش ان کے اندر 
 اپنی جگہ ہر ایک سکندر

اوج بخت ملاقی ان کا 
 چرخ ہفت طباقی اُن کا
محفل ان کی ساقی اُن کا 
 آنکھیں میری باقی اُن کا

ہم تو ان کے خیر طلب ہیں 
ہم کیا، ایسے ہی سب کے سب ہیں
ان کے راج کے عمدہ ڈھب ہیں 
 سب سامان عیش و طرب ہیں

—اکبر الہ آبادی
 
نظم کی تشریح
سر میں شوق کا سودا دیکھا 
دہلی کو ہم نے بھی جا دیکھا
جو کچھ دیکھا اچھا دیکھا
کیا بتلائیں کیا کیا دیکھا

جمنا جی کے پاٹ کو دیکھا
اچھے ستھرے گھاٹ کو دیکھا
سب سے اونچے لاٹ کو دیکھا
حضرت ڈیوک کناٹ کو دیکھا

پلٹن اور رسالے دیکھے
گورے دیکھے کالے دیکھے
سنگینیں اور بھالے دیکھے
بینڈ بجانے والے دیکھے

خیموں کا اِک جنگل دیکھا
اس جنگل میں منگل دیکھا
برھما اور ورنگل دیکھا
عزت خواہوں کا دنگل دیکھا


تشریح:- اکبر الہ آبادی کہتے ہیں کہ ہمیں بھی شوق ہوا کہ دہلی جا کر دربار دہلی کا جلوہ دیکھیں۔ وہ دہلی آئے، دریائے جمنا کا پاٹ اور صاف ستھرے گھاٹ دیکھے۔ سب سے اونچے لاٹ (لارڈ)اور ڈیوک کناٹ کے دیدار کیے ۔ پلٹن، فوجی رسالے، ہتھیار بند گورے، کالے فوجی تھے اور انہیں کے ساتھ بینڈ باجے والے بھی موجود تھے۔ دور تک (کشمیری گیٹ تاکنگزوے کیمپ) خیموں کا جنگل تھا، جدھر نظر جاتی تھی خیمے ہی خیمے تھے۔ اس دربار دہلی کے لئے بلند مرتبہ عزت دار لوگوں کے درمیان مقابلہ ہور ہا تھا کہ وہ کس مقام پر رہے گا، اس کا خیمہ کہاں ہوگا، وہ انگریز حکمران کے کس قدر نزدیک رہے گا۔


سڑکیں تھیں ہر کمپ سے جاری
پانی تھا ہر پمپ سے جاری
نور کی موجیں لمپ سے جاری
تیزی تھی ہر جمپ سے جاری

ڈالی میں نارنگی دیکھی 
مخمل میں سارنگی دیکھی
بے رنگی بارنگی دیکھی 
دہر کی رنگا رنگی دیکھی

اچھے اچھوں کو بھٹکا دیکھا 
بھیڑ میں کھاتے جھٹکا دیکھا
منھ کو اگر چہ لٹکا دیکھا 
دل دربار سے اٹکا دیکھا

ہاتھی دیکھے بھاری بھرکم
ان کا چلنا کم کم تھم تھم
زرّیں جھولیں نور کا عالم 
میلوں تک وہ چم چم چم چم
تشریح:- اکبر الہ آبادی کہتے ہیں کہ خیمے لگانے میں یہ اہتمام کیا گیا تھا کہ ہر کیمپ کا الگ راستہ تھا جو سڑک تک جاتا تھا۔ ہر طرف پانی کے پمپ لگے ہوئے تھے ، روشنی کے لیے لیمپ تھے۔ ہر شخص تیزی سے دوڑ دوڑ کر کام کر رہا تھا۔
کہیں سجاوٹ زیادہ تھی اور کہیں کم۔ماحول کو خوبصورت بنانے کے لیے درختوں ٹہنیوں پر مصنوعی نارنگیاں لگائی گئی تھی۔محفل میں موسیقی میں سارنگی بج رہی تھی۔اس قدر  لوگ تھے اور رونق تھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پوری دنیا یہاں سمٹ آئی ہے، لوگوں کے ہجوم میں اچھے اچھے بھٹک رہے تھے۔ بھیڑ میں دھکے لگ رہے تھے۔ اس وجہ سے لوگوں کے چہرے لٹکے ہوئے تھے مگر دل دربار میں اٹکا ہوا تھا۔ بھاری بھرکم ہاتھیوں کی کمر پرسنہری کام والی جھولیں پڑی ہوئی تھیں ۔ وہ ٹھہر ٹھہر کر آہستہ آہستہ چل رہے تھے، جدھر نظر جاتی تھی میلوں تک رونق نظر آرہی تھی۔


پُر تھا پہلوۓ مسجد جامع
روشنیاں تھیں ہر سو لامع
کوئ نہیں تھا کسی کا سامع 
سب کے سب تھے دید کے طامع

سرخی سڑک پے کٹتی دیکھی 
سانس بھی بھیڑ میں گھٹتی دیکھی
آتش بازی چھٹتی دیکھی 
لطف کی دولت لٹتی دیکھی

چوکی اِک چولکھّی دیکھی
 خوب ہی چکھی پکھی دیکھی
ہر سو نعمت رکھی دیکھی
 شہد اور دودھ کی مکھی دیکھی

ایک کا حصہ منّ و سلوا
ایک کا حصہ تھوڑا حلوا
ایک کا حصہ بھیڑ اور بلوا 
میرا حصہ دور کا جلوا

تشریح:- اکبر الہ آبادی کہتے ہیں کہ جامع مسجد کے اطراف میں بھی لوگ موجود تھے۔ ہر طرف روشنی سے علاقہ جگمگا رہا تھا۔ اس قدر بھیڑ تھی کہ کوئی کسی کی بات سننا نہیں چاہتا تھا۔ سب کے سب اس بات کے خواہش مند تھے کہ کسی طرح دربار کا جلوہ دیکھیں۔ سڑکوں پرسرخ بجری کوٹ کر ڈالی گئی تھی۔ بھیڑ میں سانس لینا محال تھا، آتش بازی چھوڑی جارہی تھی ۔ مفت میں لطف اندوز ہونے کے سامان تھے۔ لطف کی دولت لٹتی دیکھی سے مراد ہے بغیر کوئی پیسہ خرچ کیے لطف حاصل کرنا۔
دربار کے لیے ایک بہت قیمتی چوکی کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ہر طرف نعمتیں رکھی ہوئی تھیں ( کھانے پینے کا سامان ) اسی کے ساتھ شہد اور دودھ  پر بیٹھنے والی مکھی بھی موجود تھی (اکبرکا طنز ) مگر عالم یہ تھا کہ کسی کے حصے میں لذیذ کھانے آرہے تھے تو کسی کو صرف حلوے پر اکتفا کرنا پڑ رہا تھا۔ کوئی بھیڑ اور ہنگاموں کا حصہ بنا ہوا تھے۔اکبر کہتے ہیں کہ اُن کے حصے میں دور کا جلوہ آیا یعنی اُنہونے دور ہی سے دربارِ دہلی منعقد ہوتے دیکھا۔


اوج برٹیش راج کا دیکھا
 پرتو تخت و تاج کا دیکھا
رنگ زمانہ آج کا دیکھا 
 رُخ کرزن مہراج کا دیکھا

پہنچے پھاند کے سات سمندر
 تحت میں ان کے بیسیوں بندر
حکمت و دانش ان کے اندر 
 اپنی جگہ ہر ایک سکندر

اوج بخت ملاقی ان کا 
 چرخ ہفت طباقی اُن کا
محفل ان کی ساقی اُن کا 
 آنکھیں میری باقی اُن کا

ہم تو ان کے خیر طلب ہیں 
ہم کیا، ایسے ہی سب کے سب ہیں
ان کے راج کے عمدہ ڈھب ہیں 
 سب سامان عیش و طرب ہیں

تشریح:- اکبر الہ آبادی کہتے ہیں اس موقع پر برٹش حکومت کا عروج نظر آیا۔ تخت و تاج کی چمک دیکھ کر آج کے زمانے کے رنگ کا خیال آیا (وقت کس قدر بدل گیا ہے) کبھی یہاں مغلوں کی حکومت تھی اور اب تخت پر لارڈ کرزن تشریف فرما ہیں۔
انگریز ہندوستان میں سات سمندر پار سے آئے تھے، ان کے ساتھ بیسیوں اعلیٰ افسر تھے، جن میں عقلیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور ہر ایک اپنی جگہ سکندر تھا۔ اس وقت انگریزوں کی خوش نصیبی پورے عروج پر تھی ان کی وسیع حکومت اور سلطنت کودیکھ کر اندازہ ہورہا تھا کہ ساتویں آسمان تک انگریزوں کی حکومت ہے۔ انگریزوں کی محفل تھی اور اس محفل میں وہی چھائے ہوئے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اُن کی آنکھیں ان سب چیزوں کو دکھ رہتی تھیں ۔ آخری بند میں اکبر کہتے ہیں کہ وہ تو ان کے خیر خواہ ہیں اور صرف وہ ہی نہیں سب ہی لوگ اُن کی طرح بہی خواہ ہیں کیونکہ اُن کے حکومت کرنے کے طریقے شاندار ہیں اور عیش و عشرت کے سامان کی کوئی کمی نہیں۔(یہاں بھی اکبر نے طنز کیا ہے)۔

اکبر الہ آبادی
(1846تا1921) 
سید اکبر حسین رضوی نام، اکبر تخلص تھا۔ ضلع الہ آباد میں پیدا ہوئے۔ بچپن ضلع شاہ آباد میں گزرا۔ 1855 میں اپنے خاندان کے ساتھ الہ آباد گئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ یہاں پہلے ایک مکتب اور پھر جمنا مشن اسکول میں داخل ہوئے لیکن 1857 کے انقلاب کے باعث تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ ملازمت کی ابتدا عرضی نویسی سے کی۔ کچھ مدت کے بعد الہ آباد ضلع میں نائب تحصیلدار ہو گئے ۔ ہائی کورٹ کی وکالت کا امتحان پاس کر کے وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔ منصف کے عہدے پر بھی مامور ہوئے۔ 1898 میں انھیں حکومت سے خان بہادر کا خطاب ملا۔ اکبر کی زندگی کا آخری زمانہ ذہنی و جسمانی تکالیف اور پریشانیوں میں گزرا۔ پچھتّر برس کی عمر میں الہ آباد ہی میں ان کا انتقال ہو گیا۔
اکبر کو شاعری کا شوق بچپن ہی سے تھا۔ انھوں نے عام رواج کے مطابق شاعری کی ابتدا غزل گوئی سے کی۔ کلام پر اصلاح غلام حسین وحید سے لی جو آتش کے شاگرد تھے۔ اکبر کے کلام میں غزلوں کی تعداد کافی ہے اور ان میں اتنی جان ہے کہ انھیں آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ان کی انفرادیت ان کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں نظر آتی ہے۔ یہی شاعری ان کی دائمی شہرت کا باعث بنی اور اس میں کوئی دوسرا شاعر ان کا ہم سر نہ ہو سکا۔ اکبر کی ظریفانہ شاعری محض ہنسنے ہنسانے کا ذر یعہ نہیں۔ انھوں نے اس کے ذریعے انگریزی تعلیم کے منفی اثرات اور مغربی تہذیب کی اندھی تقلید پر بھرپور وار کیے اور چھوٹی چھوٹی نظموں سے وہ کام لیے جو بڑی بڑی تقریروں سے نہیں لیا جاسکتا تھا۔ اکبر الہ آبادی اگرچہ طنزیہ اور مزاحیہ شاعر کی حیثیت سے مشہور ہیں لیکن ان کی شاعری کا ایک بڑا حصّہ سنجیدہ شاعری پر مشتمل ہے۔ انھوں نے بہت سی نظموں کے ترجمے بھی کیے ہیں۔

غور کرنے کی بات:
٭دسمبر 1898 میں لارڈ کرزن نئے وائسرائے کی حیثیت سے ہندوستان آئے۔ انھوں نے 1903 میں دربار کیا۔ اسی دربار پر اکبر الہ آبادی نے نظم لکھی ہے۔
٭دوسرے بند میں لاٹ اور ڈیوک دو لفظ آئے ہیں ہندوستان میں لارڈ ( Lord ) کو عام لوگ لاٹ کہتے تھے۔ یہ برطانیہ کا اعزازی خطاب ہے۔ اس کے معنی مالک اور آقا کے بھی ہیں ۔ گورنر یا حاکم صوبہ کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا تھا اسی طرح ڈیوک ( Duke ) بھی خطاب ہے نواب رئیس یا امیر کے لیے بھی یہ خطاب استعمال ہوتا تھا۔ 
٭جنگل میں منگل ہونا محاورہ ہے۔ جس کے لغوی معنی ہیں ویرانے میں عیش و عشرت کا سامان ہونا یا غیر آباد جگہ میں رونق اور چہل پہل ہونا۔ دربار دہلی کے موقع پر کشمیری گیٹ سے باہر کنگزوے کیمپ تک خیمے لگائے گئے تھے۔ اس وقت یہ جگہ غیر آباد اور ویران تھی۔ خیمے لگنے کے بعد جب دربار کے لیے لوگ یہاں آئے تو خوب رونق اور چہل پہل ہو گئی۔  مصرعے میں اسی جانب اشارہ ہے۔
٭ اکبر الہ آبادی انگریزی الفاظ کا استعمال معنی خیز انداز میں کرتے ہیں ۔ اس نظم میں بھی انھوں نے بہت سے انگریزی الفاظ استعمال کیے ہیں ۔

سوالوں کے جواب لکھیے :

1-”سر میں شوق کا سودا دیکھا“ سے کیا مراد ہے؟
جواب۔ اکبرالہ آبادی نے اس مصرعہ میں جلوۂ دربار دہلی دیکھنے کے لیے اپنے اس شوق کا ذکر کیا ہے جو انہیں دہلی کھینچ لایا۔ یہاں انہوں نے پایا کہ  دہلی کے لوگوں میں بھی اپنے مقصد کو پانے کے لیے وہی دیوانگی پائی جاتی ہے۔
2- ”خیموں کا اک جنگل دیکھا“ اس مصرعے میں شاعر نے کس منظر کی عکاسی کی ہے؟ 
جواب۔ اس مصرعہ میں شاعر نے دربار دہلی کی تصویر کھینچتے ہوئے اس کی رونق کا ذکر کیا ہے ۔ جب وہ دہلی آئے تو یہاں چاروں جانب سپاہیوں کے خیمے لگے تھے یعنی خیموں کا ایک جنگل آباد تھا۔شاعر نے اسی لیے اس کی جنگل سے مثال دی جہاں قطاروں میں درخت لگے ہوتے ہیں۔ یہ خیمے ویرانے میں لگے تھے اوراپنی چہل پہل سے جنگل میں منگل کا سماں پیش کر رہے تھے۔
3-”میرا حصّہ دور کا جلوہ“ شاعر نے کیوں کہا ہے؟ وضاحت کیجیے۔
جواب۔  اس مصرعے میں اکبر الہ آبادی دربار دہلی کی رونق اور چہل پہل کا ذکر کر رہے ہیں جہاں ہر طرف لوگوں کا ہجوم تھا دربار میں طرح طرح کی پکوانیں تھیں جس پر ایک ہجوم ٹوٹا پڑتا تھا اور ان پکوانوں کا لطف اٹھا رہا تھا۔ اکبر بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے ان پکوانوں تک نہیں پہنچ پاتے اور دور سے ہی ان کا دیدار کرتے ہیں۔اپنی اسی محرومی کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ سب کے حصّے میں تو اُن کی خواہش کے مطابق چیزیں آگئیں لیکن اُن کے حصّے میں صرف دور کا جلوہ ہی آیا۔
     :مزید دیکھیں
 ایک مس سیمیں بدن سے کر لیا لندن میں عقد    اکبر الہ آبادی
 طنز و اصلاح کا شاعر

Monday, 12 October 2020

Hazarat Khizr (AS) (From Tareekh e Islam)

 حضرت خضر علیہ السلام اور آبِ حیات

حضرت خضر علیہ السلام کی کنیت ابو العباس اور نام ''بلیا'' اور ان کے والد کا نام ''ملکان'' ہے۔ ''بلیا'' سریانی زبان کا لفظ ہے۔ عربی زبان میں اس کا ترجمہ ''احمد'' ہے۔ ''خضر'' ان کا لقب ہے اور اس لفظ کو تین طرح سے پڑھ سکتے ہیں۔ خَضِر، خَضْر، خِضْر۔ ''خضر'' کے معنی سبز چیز کے ہیں۔ آپ جہاں بیٹھتے تھے وہاں آپ کی برکت سے ہری ہری گھاس اُگ جاتی تھی اس لئے لوگ ان کو ''خضر'' کہنے لگے۔

آپ بہت ہی عالی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور آپ کے آباؤ اجداد بادشاہ تھے۔ بعض عارفین نے فرمایا ہے کہ جو مسلمان ان کا اور ان کے والد کا نام اور ان کی کنیت یاد رکھے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ اُس کا خاتمہ ایمان پر ہو گا۔

(صاوی، ج۴،ص۱۲۰۷،پ۱۵،الکہف:۶۵)

ہو سکےتو آپ بھی اس کنیت کو یاد رکھئے گا۔ ابوالعباس بلیا بن ملکان۔

حضرت خضر علیہ السلام حضرت ذوالقرنین کے خالہ زاد بھائی بھی تھے۔ حضرت خضر علیہ السلام حضرت ذوالقرنین کے وزیر اور جنگلوں میں علمبردار رہے ہیں۔ یہ حضرت سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں ۔تفسیر صاوی میں ہے کہ حضرت ذوالقرنین حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے دست حق پرست پر اسلام قبول کر کے مدتوں اُن کی صحبت میں رہے اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے ان کو کچھ وصیتیں بھی فرمائی تھیں۔

(صاوی،ج۴،ص۱۲۱۴،پ۱۶، الکہف:۸۳)

تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام کا دور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور کے فوری بعد کا ہی ہے۔

کیا حضرت خضر علیہ السلام زندہ ہیں۔ اس میں کچھ علماء نے اختلاف کیا ہے۔ لیکن جمہور علماء (یعنی کثیر علماء) کی یہ ہی رائے ہے کہ وہ زندہ ہیں۔ بلکہ ان کی ملاقات حضرت موسی علیہ السلام سے بھی ثابت ہے حالانکہ آپ کا دور حضرت موسی علیہ السلام سے کئی سو برس پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور کے فوری بعد کا ہے۔ تفسیر روح البیان میں ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام جو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پڑپوتے ہیں ان کے درمیان اور حضرت موسی علیہ السلام کے درمیان 400 سال کا فرق ہے۔ تو اس لحاظ سے حضرت موسی علیہ السلام حضرت خضر علیہ السلام سے تقریبا 600 سال بعد پیدا ہوئے ہوں گے۔ واللہ تعالی اعلم۔ امام بدر الدین عینی صاحب شرح بخاری نے ان کے متعلق لکھا ہے کہ جمہور کا مذہب یہ ہے اور صحیح بھی یہ ہے کہ وہ نبی ہیں اور زندہ ہیں ۔

(عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری مصنف بدرالدین العینی ۔کتاب العلم،باب ما ذکرفی ذہاب موسی، ج۲،ص۸۴،۸۵)

خدمت بحر (یعنی سمندر میں لوگوں کی رہنمائی کرنا) انہیں سے متعلق (یعنی انہیں کے سپرد) ہے اور اِلیاس علیہ السلام '' بَرّ ''(خشکی) میں ہیں۔

(الاصابۃ فی تمیزالصحابۃ،حرف الخاء المعجمۃ،باب ماوردفی تعمیرہ،ج۲،ص۲۵۲)

اسی طرح تفسیر خازن میں ہے (اور اکثر عُلَماء اور مشائخِ صوفیہ و اصحابِ عرفان کا اس پر اتفاق ہے) کہ حضرت خضر علیہ السلام زندہ ہیں۔ شیخ ابو عمرو بن صلاح نے اپنے فتاوٰی میں فرمایا کہ حضرت خضر جمہور عُلَماء و صالحین کے نزدیک زندہ ہیں، یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت خضر و الیاس دونوں زندہ ہیں اور ہر سال زمانۂ حج میں ملتے ہیں۔ یہ بھی اسی میں منقول ہے کہ حضرت خضر نے چشمۂ حیات میں غسل فرمایا اور اس کا پانی پیا۔ اسی طرح تفسیر صاوی میں ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے بھی مشرف ہوئے ہیں۔ اس لئے یہ صحابی بھی ہیں۔

(صاوی، ج۴،ص۱۲۰۸،پ ۱۵، الکہف:۶۵)

اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی ان کی ملاقات ثابت ہے اور حضرت خضر علیہ السلام نے ان کو نصیحت بھی فرمائی تھی ۔ کہ اے عمر!رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بات سے بچنا کہ تو ظاہر میں تو خدا کا دوست ہو اور باطن میں اس کا دشمن کیونکہ جس کا ظاہر اور باطن مساوی نہ ہو تو منافق ہوتا ہے اور منافقوں کا مقام درک اسفل ہے۔ یہ سن کر عمربن عبدالعزیزرضی اللہ تعالیٰ عنہ یہاں تک روئے کہ آپ کی داڑھی مبارک تر ہوگئی ۔

(تنبیہ المغترین،الباب الاوّل،مساواتہم السر والعلانیۃ،ص39)

اور بھی بزرگان دین نے ان سے ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ واللہ تعالی اعلم

آب حیات کے متعلق بہت اختلاف ہے۔ بعض لوگ اس کو ایک افسانے کے علاوہ کچھ نہیں کہتے ۔ کیونکہ آب حیات کا تذکرہ نہ قرآن میں ہے نہ ہی کسی صیحح حدیث میں۔ ہاں کچھ علماء کرام نے اس کا تذکرہ اپنی تفسیر میں حضرت ذوالقرنین کے پہلے سفر کے ذمرے میں کیا ہے۔ جیسے کہ تفسیر خزائن العرفان پ۱۶، الکہف: ۸۶تا ۹۸ میں نقل ہے۔حضرت ذوالقرنین نے پرانی کتابوں میں پڑھا تھا کہ سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک شخص چشمہءحیات سے پانی پی لے گا تو اس کو موت نہ آئے گی۔ اس لئے حضرت ذوالقرنین نے مغرب کا سفر کیا۔ آپ کے ساتھ حضرت خضر علیہ السلام بھی تھے وہ تو آب ِ حیات کے چشمہ پر پہنچ گئے اور اس کا پانی بھی پی لیا مگر حضرت ذوالقرنین کے مقدر میں نہیں تھا، وہ محروم رہ گئے۔ اس سفر میں آپ جانب مغرب روانہ ہوئے تو جہاں تک آبادی کا نام و نشان ہے وہ سب منزلیں طے کر کے آپ ایک ایسے مقام پر پہنچے کہ انہیں سورج غروب کے وقت ایسا نظر آیا کہ وہ ایک سیاہ چشمہ میں ڈوب رہا ہے۔ جیسا کہ سمندری سفر کرنے والوں کو آفتاب سمندر کے کالے پانی میں ڈوبتا نظر آتا ہے۔ وہاں ان کو ایک ایسی قوم ملی جو جانوروں کی کھال پہنے ہوئے تھی۔ ا س کے سوا کوئی دوسرا لباس ان کے بدن پر نہیں تھا اور دریائی مردہ جانوروں کے سوا ان کی غذا کا کوئی دوسرا سامان نہیں تھا۔ یہ قوم ''ناسک'' کہلاتی تھی۔ حضرت ذوالقرنین نے دیکھا کہ ان کے لشکر بے شمار ہیں اور یہ لوگ بہت ہی طاقت ور اور جنگجو ہیں۔ تو حضرت ذوالقرنین نے ان لوگوں کے گرد اپنی فوجوں کا گھیرا ڈال کر ان لوگوں کو بے بس کر دیا۔ چنانچہ کچھ تو مشرف بہ ایمان ہو گئے کچھ آپ کی فوجوں کے ہاتھوں مقتول ہو گئے۔

اسی طرح تفسیر خازن اور شیخ ابو عمرو بن صلاح نے اپنے فتاوٰی میں فرمایا کہ حضرت خضر اور الیاس جمہور عُلَماء و صالحین کے نزدیک زندہ ہیں اور ہر سال زمانۂ حج میں ملتے ہیں ۔ اور یہ کہ حضرت خضر نے چشمۂ حیات میں غسل فرمایا اور اس کا پانی بھی پیا تھا۔ بس آب حیات یا چشمہ حیات کی اتنی حقیقت ہی کتب میں لکھی ہے۔ مگر اصل حقیقت تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ واللہ تعالی اعلم

(تاریخ اسلام کے فیس بُک صفحہ سے شکریہ کے ساتھ)

Lai Hayat Aae Qaza Le Chali Chale by Ibrahim Zauq - Nawa e Urdu Class 10

لائی حیات، آئے، قضا لے چلی، چلے

لائی حیات، آئے، قضا لے چلی،چلے 
اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے 
 بہتر تو ہےیہی کہ نہ دنیا سے دل لگے 
پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے
کم ہوں گے اس بساط پہ ہم جیسے بد قمار 
جو چال ہم چلے سو نہایت بری چلے
ہو عمر خضر بھی تو کہیں گے بوقت مرگ 
ہم کیا رہے یہاں، ابھی آئے ابھی چلے 
نازاں نہ ہو خرد پہ جو ہونا ہے، ہو وہی
 دانش تری، نہ کچھ مری دانشوری چلے
دنیا نے کس کا راہ فنا میں دیا ہے ساتھ 
 تم بھی چلے چلو یوں ہی جب تک چلی چلے 
جاتے ہوائے شوق میں ہیں اس چمن سے ذوق
اپنی  بلا  سے باد صبا  اب  کبھی  چلے

تشریح:
لائی حیات، آئے، قضا لے چلی، چلے شیخ محمد ابراہیم ذوق کی مشہور غزل ہے جس میں شاعر نے زندگی کی حقیقت کا ذکر بیان کیا ہے۔ اس غزل میں شاعر نے بتایا ہے کہ انسان کے اپنے اختیار میں کچھ بھی نہیں ہے جو کچھ بھی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ انسان دنیا میں نہ اپنی خوشی سے آتا ہے نہ اپنی مرضی سے جاتا ہے۔
لائی حیات، آئے، قضا لے چلی،چلے 
اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے 
 شاعر کہتا ہے کہ وہ دنیا میں نہ اپنی خوشی سے آیا ہے نہ اپنی خوشی سے جائے گا۔ اُس کی حیات اُسے دنیا میں لے کر آئی اور اب اُسے اس کی قضا دنیا سے لے جائے گی ان دونوں کاموں میں اُس کی اپنی مرضی کا کوئی دخل نہیں۔
 بہتر تو ہےیہی کہ نہ دنیا سے دل لگے 
پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے
اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ دنیا ایک بے وفا جگہ ہے اور اس سے دل لگانا اچھا نہیں ہے لیکن کیا کیا جائے کہ دنیا سے دل لگائے بغیر کام بھی نہیں چلتا ہے۔ ہر انسان اس دنیا سے دل لگانے کے لیے مجبور ہے۔
کم ہوں گے اس بساط پہ ہم جیسے بد قمار 
جو چال ہم چلے سو نہایت بری چلے
 شاعر کہتا ہے کہ دنیا میں ہم جیسے بدقمار یعنی ناکام جواری شاید ہی ہوں گے جس نے جو بھی چال چلی ہمیشہ ہی اُلٹی چلی۔ یہاں شاعر اپنی ناکامیوں کا ذکر کر رہا ہے۔ دنیا اُسے ایک بساط کی طرح نظر آتی ہے جہاں ہرشخص اپنی چالیں چل رہا ہے۔ شاعر کو لگتا ہے کہ وہ ایک ایسا ناکام کھلاڑی ہے جس کا کوئی بھی حربہ کوئی بھی چال کبھی کامیاب نہیں ہوتی۔
ہو عمر خضر بھی تو کہیں گے بوقت مرگ 
ہم کیا رہے یہاں، ابھی آئے، ابھی چلے 
 شاعر کہتا ہے کہ اُس کی عمر اگر حضرت خضر علیہ السلام کی طرح بھی ہو تب بھی ہر انسان یہی کہتا ہے کہ وہ دنیا میں زیادہ دنوں تک نہیں رہا۔ یعنی دنیا میں رہنے کی خواہش کبھی ختم نہیں ہوتی اُسے ہمیشہ یہی لگتا ہے کہ وہ ابھی دنیا میں آیا تھا اور ابھی ہی اس کے جانے کا وقت آگیا۔ یعنی شاعر حضرت خضر علیہ السلام کا ذکر کرکے اُن کی طویل العمری کی طرف اشارہ کررہا ہے کہ اتنی طویل عمر پانے کے بعد بھی مرنے کے وقت ہر انسان یہی رونا روتا ہے کہ وہ ابھی تو آیا تھا اور ابھی اُس کے جانے کا وقت آگیا۔
نازاں نہ ہو خرد پہ جو ہونا ہے، ہو وہی
 دانش تری، نہ کچھ مری دانشوری چلے
اس شعر میں شاعر کا کہنا ہے کہ اپنی ہوشیاری اور عقلمندی پر ناز کرنا فضول ہے۔ ہمیں اپنی عقلمندی پر ناز نہیں کرنا چاہیے اس لیے کہ نہ تو یہاں تمہاری سوجھ بوجھ، ہوشیاری یا عقلمندی کچھ کام آنے والی ہے نہ میری۔ اس دنیا میں تو وہی چلے گا جو اللہ کو منظور ہوگا۔
دنیا نے کس کا راہ فنا میں دیا ہے ساتھ 
 تم بھی چلے چلو یوں ہی جب تک چلی چلے 
اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ دنیا سے رخصت ہوتے وقت کس نے کسی کا ساتھ دیاہے۔ یہ دنیا ایک سرائے فانی ہے اور ہر کسی کو جانا ہے۔ یہ زندگی جب تک ہے تم بھی اسے جیے جاؤ۔ جب موت آئے گی تو کوئی تمہاری مدد کے لیے نہیں آئے گا۔ اس لیے جب تک زندہ ہو اس کا لطف اٹھاؤ۔
جاتے ہوائے شوق میں ہیں اس چمن سے ذوق
اپنی  بلا  سے باد صبا  اب  کبھی  چلے
مقطع میں ذوق کہتے ہیں کہ وہ اب شوق کی ہواؤں پر سوار ہوکر اس چمن سے رخصت ہورہے ہیں یعنی اپنی خواہشات کے ساتھ دنیا سے جا رہے ہیں اب یہاں ٹھنڈی ہوائیں چلیں تو چلیں اُس کا اُسے اب کوئی انتظار نہیں اور اب وہ اس چمن سے جانے کے لیے تیار ہے۔  
 ذوق کی یہ غزل پوری طرح انسان کی بے بساعتی کو ظاہر کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ دنیا میں انسان محض ایک کھلاڑی ہے جو دوسروں کی انگلیوں کے اشارے پر چلتا ہے اور کہیں بھی اس کی اپنی مرضی کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔
شیخ محمد ابراہیم ذوق
(1854 - 1789)
شیخ محمد ابراہیم نام اور ذوق تخلص تھا۔ذوق نے ابتدائی تعلیم حافظ غلام رسول سے حاصل کی۔ اسی زمانے میں شاعری کا شوق پیدا ہوا اور اپنے وقت کے مستند استاد شاہ نصیر کے شاگردوں میں شامل ہو گئے۔ رفتہ رفتہ مشق سخن اور اپنی ذہانت کے باعث وہ بہت کم عمری میں استادی کے مرتبے کو پہنچ گئے ۔ بہادر شاہ ظفر کی استادی کا فخر بھی حاصل ہوا اور خاقانی ہند اور ملک الشعرا کے خطابات سے سرفراز کیے گئے ۔ بادشاہ کی سر پرستی میں ذوق کی زندگی آرام و آسائش سے بسر ہوئی ۔ ذوق کو موسیقی اور علمِ نجوم سے کافی دلچسپی تھی عربی و فارسی اور دیگر مشرقی علوم کے عالم تھے۔ لیکن ان کا اصل کمال ان کی شاعری سے ظاہر ہوا ۔ شاعری ان کی معاش کا ذریعہ بنی اور  یہی فن ان کی قدر و قیمت کا وسیلہ بھی ثابت ہوا۔ 
ذوق نے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ، قصیدہ ان کا اصل میدان ہے۔ اس صنف میں صرف سودا ان سے آگے ہیں ۔ انھوں نے اپنے قصیدوں میں شوکت الفاظ، بلند خیالی اور معنی آفرینی کے ساتھ مختلف علوم کی اصطلاحات سے بھی کام لیا ہے۔ غزل گوئی میں بھی ذوق کا ایک خاص مقام ہے۔ زبان پر قدرت ، بیان کی سلاست، روز مرہ اور محاورے پر اپنی گرفت کے لحاظ سے وہ ممتاز ہیں ۔
مزید:
بہادر شاہ ظفر نے انہیں ’ملک الشعراء‘ اور ’خاقانی ہند‘ کے خطابات دیے۔ ذوق نے کئی اصناف میں اظہار خیال کیا ہے۔ ان کی اصل پہچان قصیدہ نگار کی ہے بالخصوص بہادر شاہ ظفر پر لکھے ہوئے قصائد کا مرتبہ بلند ہے۔ لیکن وہ غزل کے بھی ایک قابل ذکر شاعر ہیں۔ذوق دہلی میں پیدا ہوئے اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔وہ ایک سپاہی کے بیٹے تھے۔
ذوق نے اپنے کلام میں نیا پن پیدا کرنے اور زبان اور محاورے کی صفائی پر خاص توجہ دی ہے۔
غزل
عام طور پر غزل سے شاعری کی وہ صنف مراد لی جاتی ہے جس میں عورتوں سے  یا محبوب سے باتیں کی گئی ہوں ، گویا کہ بنیادی طور پر غزل کی شاعری عشقیہ شاعری ہے ۔ عاشقانہ مضامین اور غنائیت غزل کی خاص پہچان ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ غزل میں دوسرے مضامین بھی داخل ہوتے گئے ۔ آج یہ کہا جا سکتا ہے کہ غزل میں تقریباً ہر طرح کے مضامین بیان کیے جا سکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ
غزل آج بھی اردو کی سب سے زیادہ مقبول صنف سخن ہے۔ غزل کا ہر شعر اپنے مفہوم کے اعتبار سے مکمل ہوتا ہے ۔ اسی لیے سب سے زیادہ یاد رہ جانے والے اشعار بھی غزل کے ہی ہوتے ہیں۔ 
جس طرح غزل میں مضامین کی قید نہیں ہے اسی طرح اشعار کی تعداد بھی مقرر نہیں ہے۔ غزل میں عام طور پر پانچ یا سات شعر ہوتے ہیں لیکن کئی غزلوں میں زیادہ اشعار بھی ملتے ہیں کبھی کبھی ایک ہی بحر اور ردیف و قافیہ میں شاعر ایک سے زیادہ غزلیں کہہ دیتا ہے۔ اس کو دو غزلہ ،سہ غزلہ اور چہار غزلہ کہا جاتا ہے۔ 
 غزل کا پہلا شعر جس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں مطلع کہلاتا ہے۔ غزل میں ایک سے زیادہ مطلعے بھی ہو سکتے ہیں۔ غزل بغیر مطلع کے بھی سکتی ہے۔ غزل کا وہ آخری شعر جس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرتا ہے اس شعرکو مقطع کہتے ہیں کبھی کبھی مطلع میں یا غزل کے درمیان بھی کسی شعر میں شاعر اپنا نام استعمال کر لیتا ہے لیکن ایسے شعر و مقطع نہیں کہیں گے مثال کے طور پر
میر تقی میر کا مطلع
پھر موج ہوا پیچاں اے میر نظر آئی 
شاید کہ بہار آئی زنجیر نظر آئی
 غزل کا سب سے اچھا شعر بیت الغزل یا شاه بیت کہلاتا ہے۔ جس غزل میں ردیف نہ ہو اور شعر قافیے پر ہی ختم ہو جاتے ہوں اس غزل کو غیر مردف غزل کہتے ہیں۔
معنی یاد کیجیے: 
حیات : زندگی
قضا : موت، حکمِ خدا
عمر خضر : مرادلمبی عمر
بوقتِ مرگ : موت کے وقت
فغاں : آہ و زاری، واویلا
بادِ صبا : صبح کی ٹھنڈی ہوا، پُروائی
بساط : وہ خانے دار کپڑا جو چوسر یا شطرنج کھیلنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے
بدقمار : ناکام جواری
نازاں ہونا : ناز کرنا، فخر کرنا
خرد : عقل
دانش : سمجھ بوجھ
دانش وری : ہوشیاری ،سمجھ داری، زیادہ علم رکھنا

غور کیجیے:
٭دوسرے شعر میں ”دل لگے“ اور ”دل لگی“ نے شعر میں بیان کا حسن پیدا کردیا ہے۔
٭کلام میں جب کسی تاریخی واقعے یہ کیسی شخصیت کا ذکر ہوتا ہے تو اُسے صنعت تلمیح کہتے ہیں یہاں حضرت خضر کا ذکر کیا گیا ہے۔
حضرت خضر اپنی لمبی عمر کے لیے مشہور ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ قیامت تک زندہ رہیں گے اور بھولے بھٹکوں کو راستہ دکھاتے رہیں گے۔



سوالوں کے جواب لکھیے:
1۔ اس غزل کے مطلع کا مطلب لکھیے۔
جواب:غزل کا مطلع-
  ”لائی حیات، آئے، قضا لے چلی،چلے
اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے“
غزل کے مطلع  میں شاعر کہتا ہے کہ وہ دنیا میں نہ اپنی خوشی سے آیا ہے نہ اپنی خوشی سے جائے گا۔ اُس کی حیات اُسے دنیا میں لے کر آئی اور اب اُسے اس کی قضا دنیا سے لے جائے گی ان دونوں کاموں میں اُس کی اپنی مرضی کا کوئی دخل نہیں۔

2۔ عمر خضر سے شاعر کی کیا مراد ہے؟
جواب:عمرخضر سے مراد لمبی عمر ہے۔ شاعر حضرت خضر کا ذکر کرکے اُن کی طویل العمری کی طرف اشارہ کررہا ہے۔

3۔ہم کیا رہے یہاں، ابھی آئے ابھی چلے‘‘ اس مصرعے کے ذریعے شاعر نے انسانی زندگی کے کس پہلو کی نشاندہی کی ہے؟
جواب:طویل عمر پانے کے بعد بھی مرنے کے وقت ہر انسان یہی رونا روتا ہے کہ وہ ابھی تو آیا تھا اور ابھی اُس کے جانے کا وقت آگیا۔وہ دنیا میں زیادہ دنوں تک نہیں رہا۔ یعنی دنیا میں رہنے کی خواہش کبھی ختم نہیں ہوتی اُسے ہمیشہ یہی لگتا ہے کہ وہ ابھی دنیا میں آیا تھا اور ابھی ہی اس کے جانے کا وقت آگیا۔

4 ۔ غزل کے مقطع میں چمن سے شاعر کی کیا مراد ہے؟
جواب:  چمن سےشاعر کی مراد دنیا اور اس کا اپنا وطن  ہے جہاں اسے صرف تکلیف ہی تکلیف اٹھانی پڑی ہے۔  وہ کہتا ہے کہ اب ٹھنڈی ہوائیں چلیں تو چلیں اُس کا اُسے اب کوئی انتظار نہیں اور اب وہ اس چمن سے جانے کے لیے تیار ہے۔                                                                                                   

عملی کام:
اس غزل کے کچھ شعر زبانی یاد کیجیے اور بلند آواز سے پڑھیے۔
اس نظم میں شاعر نے طویل عمر کے لیے تلمیح کے طور پر حضرت خضر علیہ السلام کا ذکر کیا ہے۔حضرت خضرعلیہ السلام کون تھے پڑھنے کے لیے نام پر کلک کریں۔


کلک برائے دیگر اسباق

Saturday, 10 October 2020

Firaq Gorakhpuri

فراق گورکھپوری
(1896-1982 )
انام رگھوپتی سہائے ، اور فراق تخلص تھا۔ اُن کی پیدائش 18 اگست 1896 گورکھپورمیں ہوئی۔ شاعری انہیں ورثے میں ملی تھی اور ان کے والد منشی گورکھ پرشاد عبرت گورکھپوری اپنے وقت کے مشہور شاعر تھے۔ فراق بھی بچپن ہی سے شعر کہنے لگے اور انھوں نے نظم، غزل، رباعی وغیرہ شعری اصناف میں طبع آزمائی کی۔ ان کا شمار اردو کے اہم شعرا میں ہوتا ہے۔ 1917 ء میں کانگریس میں شامل ہوئے اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔ الہ آباد یونیورسٹی میں انگریزی کے استاد تھے۔
فراق کا کلام انسانی عظمت اور درد مندی کے احساس سے بھرا ہوا ہے۔ انھوں نے عشقیہ معاملات کے ساتھ ساتھ زندگی کے دیگر مسائل کو بھی موضوع بنایا ہے۔ ان کی زبان میں گھلاوٹ اور مٹھاس ہے۔ انھوں نے عشق کے معاملات کو اکثر بالکل نئے ڈھنگ سے پیش کیا ہے اور بعض نئے مضامین بھی استعمال کیے ہیں۔ رباعی میں انھوں نے سنسکرت کے سنگھار رس سے استفادہ کرتے ہوئے معشوق کو ایک نئے اور دلکش گھر یلو رنگ میں پیش کیا۔
فراق نے ایک نسل کو متاثّر کیا،نئی شاعری  کی آبیاری میں اہم کردار ادا کیا اور حسن و عشق کا شاعر ہونے کے باجود ان موضوعات  کو نئے زاویے سے دیکھا۔انہوں نے نہ صرف یہ کہ جذبات و احساسات کی ترجمانی کی بلکہ شعور و ادراک کے مختلف نتائج بھی پیش کئے۔ان کا جمالیاتی احساس دوسرے تمام غزل گو شاعروں سے مختلف ہے۔
نغمۂ ساز، غزلستان، شعرستان، شبنمستان، روح کائنات، گل نغمہ، روپ اور گلبانگ کے نام سے کئی شعری مجموعے شائع ہو کر قبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ انھوں نے اعلیٰ درجے کی تنقید بھی لکھی۔ ان کی نثری کتابوں میں اندازے اور اردو کی عشقیہ شاعری معروف ہیں۔ فراق گورکھپوری کو گیان پیٹھ ایوارڈ اور دوسرے کئی اہم اعزازات سے بھی نوازا گیا۔
اونچے درجے کے طلبہ کے لیے:
فراق کو نوجوانی میں ہی شاعری کا شوق پیدا ہو گیا تھا اور 1916 میں جب ان کی عمر 20 سال کی تھی اور وہ بی اے کے طالب علم تھے، پہلی غزل کہی۔پریم چند اس زمانہ میں گورکھپور میں تھے اور فراق کے ساتھ ان کے گھریلو تعلقات تھے۔پریم چند نے ہی فراق کی ابتدائی غزلیں چھپوانے کی کوشش کی اور زمانہ کے ایڈیٹردیا نرائن نگم کو بھیجیں۔فراق نے بی اے سنٹرل کالج الہ آباد سے  پاس کیا اور چوتھی پوزیشن حاصل کی۔اسی سال فراق کے والد کا انتقال ہو گیا۔یہ فراق کے لئے اک بڑا سانحہ تھا۔چھوٹے  بھائی بہنوں کی پرورش اور تعلیم کی ذمہ داری فراق کے سر آن پڑی۔بے جوڑ دھوکہ کی شادی اور والد کی موت کے بعد گھریلو ذمہ داریوں کے بوجھ نے فراق کو توڑ کر رکھ دیا وہ بے خوابی کے شکار ہو گئے اورمزید تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنا پڑا۔ اسی  زمانہ میں وہ ملک کی سیاست میں شریک ہوئے۔سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے 1920 میں ان کو گرفتار کیا گیا اور انہوں نے 18 ماہ جیل میں گزارے۔ 1922 میں وہ کانگرس کے انڈر سیکریٹری مقرر کئے گئے۔ وہ ملک  کی سیاست میں ایسے وقت پر شامل ہوئے تھے جب سیاست کا مطلب گھر کو آگ لگانا ہوتا تھا  نہرو خاندان سے ان  کےگہرے مراسم تھے اور اندرا گاندھی کو وہ بیٹی کہہ کر خطاب کرتے  تھے۔مگر آزادی کے بعد انہوں نے اپنی سیاسی خدمات کو بھنانے کی کوشش نہیں کی۔وہ ملک کی محبت میں سیاست  میں گئے تھے،سیاست ان کا میدان نہیں تھی۔1930 میں انھوں نے پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے آگرہ یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کا امتحان امتیاز کے ساتھ پاس کیا۔ اور کوئی درخواست یا انٹرویو دئے بغیر الہ آباد یونیورسٹی میں لیکچرر مقرر ہو گئے۔اس زمانہ میں الہ آباد یونیورسٹی کا انگریزی کا شعبہ سارے ملک میں شہرت رکھتا تھا۔
نغمۂ ساز، غزلستان، شعرستان، شبنمستان، روح کائنات، گل نغمہ، روپ اور گلبانگ کے نام سے کئی شعری مجموعے شائع ہو کر قبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ انھوں نے اعلیٰ درجے کی تنقید بھی لکھی۔ ان کی نثری کتابوں میں اندازے اور اردو کی عشقیہ شاعری معروف ہیں۔ فراق گورکھپوری کو گیان پیٹھ ایوارڈ اور دوسرے کئی اہم اعزازات سے بھی نوازا گیا۔
فراق نے اردو زبان کو نئے گمشدہ الفاظ سے روشناس کرایا ان کے الفاظ زیادہ   تر روز مرّہ کی بول چال کے،نرم،سبک اور میٹھے ہیں۔فراق کی شاعری کی ایک بڑی خوبی اور خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے عالمی تجربات کے ساتھ ساتھ تہذیبی قدروں کی عظمت اور اہمیت کو سمجھا اور انہیں شعری پیکر عطا کیا۔ فراق کے شعر دل پر اثر انداز ہونے کے ساتھ ساتھ دعوت فکر بھی دیتے ہیں اور ان کی یہی صفت فراق کو دوسرے تمام شعراء سے ممتاز کرتی ہے۔
فراق کا انتقال 3 مارچ 1982 کو دہلی میں ہوا۔

Do Bail By Munshi Prem Chand

دو بیل
منشی پریم چند
جانور وں میں گدھا سب سے بیوقوف سمجھا جاتاہے۔ جب ہم کسی شخص کوپرلے درجہ کا احمق کہنا چاہتے ہیں تو اسے گدھا کہتے ہیں۔ گدھاواقعی بیوقوف ہے۔ یا اس کی سادہ لوحی اور انتہا درجہ کی قوتِ برداشت نے اسے یہ خطاب دلوایا ہے۔ اس کا تصفیہ نہیں ہوسکتا۔ 

گائے شریف جانور ہے۔ مگر سینگ مارتی ہے۔ کتّا بھی غریب جانور ہے لیکن کبھی کبھی اسے غصّہ بھی آجاتا ہے۔ مگر گدھے کو کبھی غصّہ نہیں آتا جتنا جی چاہے مارلو۔چاہے جیسی خراب سڑی ہوئی گھاس سامنے ڈال دو۔ اس کے چہرے پر ناراضگی کے اثار کبھی نظر نہ آئیں گے۔ اپریل میں شاید کبھی کلیل کرلیتا ہو۔ پر ہم نے اسے کبھی خوش ہوتے نہیں دیکھا۔ اس کے چہرے پر ایک مستقل مایوسی چھائی رہتی ہے سکھ دکھ،نفع نقصان سے کبھی اسے شاد ہوتے نہیں دیکھا۔ رشی منیوں کی جس قدر خوبیاں ہیں۔ سب اس میں بدرجہ اتم موجود ہیں لیکن آدمی اسے بیوقوف کہتاہے۔ اعلیٰ خصلتوں کی ایسی توہین ہم نے اور کہیں نہیں دیکھی۔ممکن ہے دنیا میں سیدھے پن کے لیے جگہ نہ ہو۔ 

لیکن گدھے کا ایک بھائی اور بھی ہے۔ جو اس سے کچھ کم ہی گدھا ہے اور وہ ہے بیل، جن معنوں میں ہم گدھے کا لفظ استعمال کرتے ہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں۔ جو بیل کو بیوقوفوں کا سردار کہنے کو تیار ہیں۔ مگر ہمارا خیال ایسا نہیں۔بیل کبھی کبھی مارتا۔ کبھی کبھی اڑیل بیل بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔ اور کبھی کئی طریقوں سے وہ اپنی ناپسندیدگی اور ناراضگی کا اظہار کردیتا ہے۔ لہذٰ اس کا درجہ گدھے سے نیچے ہے۔ 

جھوری کاچھی کے پاس دو بیل تھے۔ ایک کا نام ہیرا تھا دوسرے کا موتی۔دونوں پچھائیں نسل کے تھے۔ دیکھنے میں خوبصورت کام میں چوکس ڈیل ڈول میں اونچے۔ بہت دنوں سے ایک ساتھ رہتے رہتے دونوں میں محبت سی ہوگئی۔ دونوں آمنے سامنے یا ایک دوسرے کے پاس بیٹھے زبانِ خاموش میں ایک دوسرے سے بات چیت کرتے تھے وہ ایک دوسرے کے دل کی بات کیوں کر سمجھ جاتے تھے۔ یہ ہم نہیں کہہ سکتے۔ضروران میں کوئی نہ کوئی ناقابلِ فہم قوت تھی۔ جس کے سمجھنے سے اشرف المخلوقات ہونے کا مدعی انسان محروم ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو چاٹ کر اور سونگھ کر اپنی محبت کا اظہار کرتے تھے۔ کبھی دونوں سینگ ملالیا کرتے تھے۔ عناد سے نہیں محض زندہ دلی سے محض ہنسی مذاق سے جیسے یار دوستوں میں کبھی کبھی دھول دھپّا ہو جاتا ہے۔ اس کے بغیر دوستی کچھ پھیکی اور ہلکی سی رہتی ہے۔ جس پر زیادہ اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ 

جس وقت یہ دونوں بیل ہل یا گاڑی میں جوتے جاتے اور گردنیں ہلاہلا کر چلتے تو ہر ایک کی یہی کوشش ہوتی تھی کہ زیادہ بوجھ میر ی ہی گردن پر رہے۔ کام کے بعد دوپہر یا شام کو کھلتے، تو ایک دوسرے کو چوم چاٹ کر اپنی تھکان اتار لیتے ۔ ناند میں کھلی بھوسا پڑجانے کے بعد دونوں ایک ساتھ اٹھتے۔ ایک ساتھ ناند میں منہ ڈالتے اور ایک ہی ساتھ بیٹھتے ایک منہ ہٹا لیتا تو دوسرا بھی ہٹا لیتا تھا۔ 

ایک مرتبہ جھوری نے دونوں بیل چند دنوں کے لیے اپنے سسرال بھیجے، بیلوں کو کیا معلوم وہ کیوں بھیجے جاتے ہیں۔ سمجھے مالک نے ہمیں بیچ دیا کون جانے بیلوں کو اپنا بیچا جانا پسندآیا یا نہیں۔ لیکن جھوری کے سالے کو انھیں اپنےگاؤں تک لے جانے میں دانتوں پسینہ آگیا۔ پیچھے سے ہانکتا تو دونوں دائیں بائیں بھاگتے۔ آگے سے پکڑکر کھینچتا تو دونوں پیچھے کو زور لگاتے۔مارتا تو دونوں سینگ نیچے کرکے پھنکارتے۔ اگر ان بے زبانوں کے زبان ہوتی تو جھوری سے پوچھتے تم نے ہم غریبوں کو کیوں نکال دیا۔ ہم نے تمھاری خدمت کرنے میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔ اگر اتنی محنت سے کام نہ چلتا تھا ۔ تو اور کام لے لیتے۔ ہم کو انکار نہ تھا۔ ہمیں تمھاری خدمت میں مرجانا قبول تھا۔ ہم نے کبھی دانے چارے کی شکایت نہیں کی۔ تم نے جو کچھ کھلایا سر جھکا کر کھالیا۔ پھر تم نے ہمیں اس ظالم کے ہاتھ کیوں بیچ دیا؟ 

شام کے وقت دونوں بیل گیاکےگاؤںمیں جا پہنچے دن بھر بھوکے تھے۔ لیکن جب ناند میں لگائے تو کسی نے بھی اس میں منہ نہ ڈالا۔ دونوں کا دل بھاری ہورہا تھا۔جسے انھوں نے اپنا گھر سمجھا تھا وہ آج ان سے چھوٹ گیا یہ نیا گھر نیاگاؤں نئے آدمی سب انھیں بے گانے لگتے تھے۔ دونوں نے چپ کی زبان میں کچھ باتیں کیں۔ ایک دوسرے کو کنکھیوں سے دیکھا اورلیٹ گئے۔ 

جب گاؤںمیں سوتا پڑگیا تو دونوں نے زور مار کر پگہتے تڑالیے اور گھر کی طرف چلے۔ پگہے مضبوط تھے کسی کو شبہہ بھی نہ ہوسکتا تھا کہ بیل انھیں توڑ سکیں گے پر ان دونوں میں اس وقت دگنی طاقت آگئی تھی۔ ایک جھٹکے میں رسیاں ٹوٹ گئیں۔ 

جھوری نے صبح اٹھ کردیکھاکہ دونوں بیل چرنی پر کھڑے تھے دونوں کی گردنوں میں آدھا آدھارسّہ لٹک رہا تھا۔ گھٹنوں تک پاؤں کیچڑ میں بھرے ہوئے تھے اور دونوں کی آنکھوں میں محبت اور ناراضگی جھلک رہی تھی۔جھوری ان کو دیکھ کر محبت سے باؤ لا ہوگیا۔ اور دوڑکر ان کے گلے سے لپٹ گیا انسان اور حیوان کی محبت کا یہ منظر نہایت دلکش تھا۔ 

گھر اورگاؤں کے لڑکے جمع ہوگئے اور تالیاںبجا بجا کران کا خیر مقدم کرنے لگے۔گاؤںکی تاریخ میں یہ واقعہ اپنی قسم کا پہلا نہ تھا۔ مگر اہم ضرور تھا۔ بال سبھا نے فیصلہ کیا کہ ان دونوں بہادروں کا ایڈریس دیا جائے۔ کوئی اپنے گھر سے روٹیاں لایا۔ کوئی گُڑ چوکر، کوئی بھوسی۔ 

ایک لڑکے نے کہا، ’’ایسے بیل اور کسی کے پاس نہ ہوں گے۔‘‘ 

دوسرے نے تائید کی، ’’اتنی دور سے دونوں اکیلے چلے آئے۔‘‘ 

تیسرا بولا، ’’پچھلے جنم میں ضرور آدمی ہوں گے۔‘‘ 

اس کی تردید کرنے کی کسی میں جرأت نہ تھی۔ سب نے کہا، ’’ہاں بھائی ضرور ہوں گے۔‘‘ 

جھوری کی بیوی نے بیلوں کودروازہ پر دیکھا تو جل اٹھی اور بولی، ’’کیسے نمک حرام بیل ہیں ایک دن بھی وہاں کام نہ کیا۔ اور بھاک کھڑے ہوئے۔‘‘ 

جھوری اپنے بیلوں پر یہ الزام برداشت نہ کرسکا۔ بولا، ’’نمک حرام کیوں ہیں۔ چارہ دانہ نہ دیا ہوگا کیا کرتے؟‘‘ 

عورت نے تنگ آکر کہا،’’بس تم ہی بیلوں کو کھلانا جانتے ہو اور تو سبھی پانی پلا پلا کر رکھتے ہیں۔‘‘ 

جھوری نے چڑھا یا، ’’چارہ ملتا ‘ تو کیوں بھاگتے؟‘‘ 

عورت چڑھی، ’’بھاگے اس لیے کہ وہ لوگ تم جیسے بدھوؤں کی طرح بیلوں کو سہلاتے نہیں کھلاتے ہیں، تو، توڑ کر جوتتے بھی ہیں، یہ دونوں ٹھہرے کام چور بھاگ نکلے۔ اب دیکھتی ہوں کہاں سے کھلی اور چوکر آتا ہے خشک بھوسے کے سوا کچھ نہ دوں گی کھائیں چاہے مریں۔‘‘ 

وہی ہوا مزدور کو تاکید کردی گئی کہ بیلوں کوصرف خشک بھوسا دیا جائے، بیلوں نے ناند میں منہ ڈالا تو پھیکا پھیکا، نہ چکناہٹ نہ رس کیا کھائیں؟ پر امید نگاہوں سے دروازے کی طرف دیکھنے لگے۔ 

جھوری نے مزدور سے کہا، ’’تھوڑی سی کھلی کیوں نہیں ڈال دیتا ہے؟‘‘ 

مزدور؛ ’’مالکن مجھے مارہی ڈالے گی۔‘‘ 

جھوری؛ ’’ڈال دے تھوڑی سی۔‘‘ 

مزدور؛ ’’نہ دادا۔ بعد میں تم بھی انھیں کی سی کہو گے۔‘‘ 

دوسرے دن جھوری کا سالا پھر آیا اور بیلوں کو لے چلا۔ اب کے اس نے دونوں کو گاڑی میں جوتا۔ دوچار مرتبہ موتی نے گاڑی کو کھائی میں گرانا چاہا مگر ہیرا نے سنبھال لیا۔اس وقت دونوں میں قوتِ برداشت زیادہ تھی۔ شام کے وقت گھر پہنچ کر گیا نے دونوں کو موٹی رسیوں سے باندھا اور کل کی شرارت کا مزہ چکھایا پھر وہی خشک بھوسہ ڈال دیا۔ اپنے بیلوں کو کھلی چونی سب کچھ کھلایا۔ 

ہیرا اور موتی اس برتاؤ کے عادی نہ تھے۔جھوری انھیں پھول کی چھڑی سے بھی نہ مارتا تھااس کی آواز پر دونوں اڑنے لگتے تھے۔ یہاں مار پڑی اس پر خشک بھوسہ۔ ناند کی طرف آنکھ بھی نہ اٹھائی۔ 

دوسرے دن گیا نے بیلوں کو ہل میں جوتا پران دونوں نے جیسے پاؤ ں اٹھانے کی قسم کھالی تھی۔ وہ مارتے مارے تھک گیا۔ مگر انھوں نے قدم نہ اٹھایا۔ ایک مرتبہ جب اس ظالم نے ہیرا کی ناک پر ڈنڈا جمایا تو موتی غصّہ کے مارے آپے سے باہرہوگیا۔ ہل لے بھاگا، ہل رسی اور جواجوت سب ٹوٹ کر برا بر ہوگئے۔ گلے میں بڑی بڑی رسیاں نہ ہوتیں ، تو دونوں نکل گئے تھے۔ ہیرا نے زبان خاموش سے کہا، ’’بھاگنا مشکل ہے۔‘‘ 

موتی نے بھی نگاہوں سے جواب دیا، ’’تمھاری تو اس نے جان لے لی تھی۔اب کے بڑی مار پڑے گی۔‘‘ 

ہیرا؛ ’’پڑنے دو۔ بیل کا جنم لیا ہے تو مار سے کہاں بچیں گے۔‘‘ 

گیا دو آدمیوں کے ساتھ دوڑا آرہا ہے۔ دونوں کے ہاتھوں میں لاٹھیاں ہیں۔ 

موتی؛ ’’کہو تو میں بھی دکھادوں کچھ مزا؟ 

ہیرا، ’’نہیں بھائی کھڑے ہوجاؤ۔‘‘ 

موتی، ’’مجھے مارے گا، تو میں ایک آدھ کو گرادوں گا۔‘‘ 

ہیرا، ’’یہ ہمارا دھرم نہیں ہے۔‘‘ 

موتی دل میں اینٹھ کر رہ گیا۔ اتنے میں گیا آپہنچا اور دونوں کو پکڑکر لے چلا۔خیریت ہوئی کہ اس نے اس وقت مارپیٹ نہ کی۔ نہیں تو موتی بھی تیار تھا۔ اس کے تیور دیکھ کر سہم گیا اور اس کے ساتھی سمجھ گئے کہ اس وقت ٹال جانا ہی مصلحت ہے۔ 

آج دونوں کے سامنے پھر وہی خشک بھوسا لایا گیا۔ دونوں چپ چاپ کھڑے رہے۔ گھر کے لوگ کھانا کھانے لگے۔ اسی وقت ایک چھوٹی سی لڑکی دو روٹیاں لیے نکلی اور دونوں کے منہ میں دے کر چلی گئی۔ اس ایک ایک روٹی سے ان کی بھوک تو کیا مٹتی مگر دونوں کے دل کو کھانا مل گیا۔ معلوم ہوا۔ یہاں بھی کوئی صاحب دل رہتا ہے یہ لڑکی گیا کی تھی اس کی ماں مر چکی تھی۔ سوتیلی ماں اسے مارتی تھی اس لیے ان بیلوں سے اسے ہمدردی تھی۔ 

دونوں دن بھر جوتے جاتے۔ اڑتے ، ڈنڈے کھاتے۔شام کو تھان پر باندھ دیے جاتے اوررات کو وہی لڑکی انھیں ایک ایک روٹی دے جاتی۔ محبت کے اس کھانے کی یہ برکت تھی، کہ دوچار خشک بھوسے کے لقمے کھاکر بھی دونوں کمزور نہ ہوتے تھے۔ دونوں کی آنکھوں کی نس نس میں سرکشی بھری تھی۔ 

ایک دن چپ کی زبان میں موتی نے کہا، ’’اب تو نہیں سہا جاتا ہیرا۔‘‘ 

ہیرا؛ ’’کیاکرنا چاہیے؟‘‘ 

موتی؛ ’’گیا کو سینگ پر اٹھاکر پھینک دوں؟‘‘ 

ہیرا؛ ’’مگر وہ لڑکی اس کی بیٹی ہے اسے مار کر گراؤ گے تووہ یتیم ہوجائے گی۔‘‘ 

موتی؛ ’’تومالکن کو پھینک دوں، وہ لڑکی کو ہر روز مارتی ہے۔‘‘ 

ہیرا؛ ’’عورت کو ماروگے بڑے بہادر ہو۔‘‘ 

موتی؛ ’’تم کسی طرح نکلنے ہی نہیں دیتے تو آؤآج رسّا تڑاکر بھاگ چلیں۔‘‘ 

ہیرا؛ ’’ہاں یہ ٹھیک ہے لیکن ایسی موٹی رسّی ٹوٹے گی کیونکر۔‘‘ 

موتی ؛ ’’پہلے رسّی کو چبالو پھر جھٹکا دے کر تڑالو۔‘‘ 

رات کو جب لڑکی روٹیاں دے کر چلی گئی۔ دونوں رسّیاں چبانے لگے۔ پرموٹی رسّی منہ میں نہ آتی تھی۔ بچارے بار بار زور لگاکر رہ جاتے۔ 

معاًگھر کا دروازہ کھلا اور وہی لڑکی نکلی دونوں سر جھکا کر اس کے ہاتھ چاٹنے لگے۔ دونوں کی دُمیں کھڑی ہوگئیں۔ اس نے ان کی پیشانی سہلائی اور بولی، ’’کھول دیتی ہوں۔ بھاگ جاؤ۔ نہیں تو یہ لوگ تمھیں مارڈالیں گے۔آج گھر میں مشہور ہورہا ہے کہ تمھاری ناک میں ناتھ ڈال دی جائیں۔‘‘ 

اس نے دونوں کے رسّے کھول دیے، پر دونوں چپ چاپ کھڑے رہے۔ 

موتی نے اپنی زبان میں پوچھا، ’’اب چلتے کیوں نہیں؟‘‘ 

ہیرا نے جواب دیا، ’’اس غریب پر آفت آجائے گی۔ سب اسی پر شبہہ کریں گے۔‘‘ 

یکایک لڑکی چلّائی او دادا۔اودادا۔دونوں پھوپھاوالے بیل بھاگے جارہے ہیں۔ دوڑو۔ دونوں بیل بھاگے جارہے ہیں۔‘‘ 

گیا گھبرا کر باہر نکلا اور بیلوں کو پکڑنے چلا۔ بیل بھاگے گیا نے پیچھا کیا وہ اور بھی تیز ہوگئے۔ گیا نے شور مچایا پھرگاؤں کے کچھ اور آدمیوں کو ساتھ لانے کے لیے لوٹا۔ دونوں بیلوں کو بھاگنے کاموقع مل گیا۔ سیدھے دوڑے چلے گئے یہاں تک کہ راستہ کا خیال نہ رہا۔ جس راہ سے یہاں آئے تھے اس کا پتہ نہ تھا نئے نئےگاؤں ملنے لگے۔ تب دونوں ایک کھیت کے کنارے کھڑے ہوکر سوچنے لگے۔ کہ اب کیا کرنا چاہیے؟ 

ہیرا نے اپنی زبان میں کہا، ’’معلوم ہوتا ہے راستہ بھول گئے۔‘‘ 

موتی؛ ’’تم بھی بے تحاشا بھاگے وہیں اسے مار گراتے۔‘‘ 

ہیرا؛ ’’اسے مارگراتے تو دنیا کیا کہتی وہ اپنا دھرم چھوڑدے لیکن ہم اپنا دھرم کیونکر چھوڑدیں۔‘‘ 

دونوں بھوک سے بے حال ہورہے تھے۔ کھیت میں مٹر کھڑی تھی چرنے لگے۔رہ رہ کر آہٹ لے رہے تھے کہ کوئی آ تو نہیں رہا۔ جب پیٹ بھر گیا اور دونوں کو آزادی کا احساس ہوا تو اچھلنے کودنے لگے۔ پہلے ڈکار لی پھر سینگ ملائے اور ایک دوسرے کو دھکیلنے لگے۔ موتی نے ہیرا کو کئی قدم پیچھے ہٹادیا۔ یہاں تک کہ وہ ایک کھائی میں گر گیا۔تب اسے بھی غصّہ آیا سنبھل کر اٹھا اور پھر موتی سے لڑنے لگا۔ موتی نے دیکھا کہ کھیل میں جھگڑا ہو اچاہتا ہے تو ایک طرف ہٹ گیا۔ 

ارے یہ کیا کوئی سانڈڈونکتا چلا آتا ہے۔ ہاں سانڈہی تو ہے وہ سامنے آپہنچا دونوں دوست تذبذب میں پڑگئے۔ سانڈ بھی پورا ہاتھی۔ اس سے لڑنا جان سے ہاتھ دھونا تھا لیکن نہ لڑنے سے بھی جان بچتی نظر نہ آتی تھی۔ انھیں کی طرف آرہا تھا کتنا جسیم تھا۔ 

موتی نے کہا، ’’بُرے پھسے جان کیسے بچے گی؟ کوئی طریقہ سوچو۔‘‘ 

ہیرا نے کہا، ’’غرور سے اندھا ہورہا ہے منّت سماجت کبھی نہ سنے گا۔‘‘ 

موتی؛ ’’بھاگ کیوں نہ چلیں؟‘‘ 

ہیرا؛ ’’بھاگنا پست ہمتی ہے۔‘‘ 

موتی؛ ’’تو تم یہیں مروبندہ نودوگیارہ ہوتا ہے۔‘‘ 

ہیرا؛ ’’اور جودوڑآئے تو پھر۔؟‘‘ 

موتی؛ ’’کوئی طریقہ بتاؤ۔ لیکن ذرا جلدی۔ وہ تو آپہنچا۔‘‘ 

ہیرا؛ ’’ طریقہ یہی ہے کہ ہم دونوں ایک ساتھ حملہ کردیں۔ میں آگے سے اس کو دھکیلوں تم پیچھے سے دھکیلو۔ دیکھتے دیکھتے بھاگ کھڑا ہوگا۔ جوں ہی مجھ پر حملہ کرے تم پیٹ میں سینگ چبھودینا۔ جان جوکھوں کا کام ہے۔ لیکن دوسرا کوئی طریقہ نہیں۔‘‘ 

دونوں دوست جان ہتھیلیوں پر لے کر آگے بڑھے سانڈ کو کبھی منظّم دشمن سے لڑنے کا اتفاق نہ ہوا تھا۔ وہ انفرادی جنگ کا عادی تھا جوں ہی ہیرا پرجھپٹتا موتی نے پیچھے سے ہلّہ بول دیا۔ سانڈ اس کی طرف مڑا تو ہیرا نے دھکیلنا شروع کیا۔ سانڈ چاہتا تھا ایک ایک کرکے دونوں کر گرالے۔ پھر یہ بھی استاد تھے اسے یہ موقعہ ہی نہ دیتے تھے۔ ایک مرتبہ سانڈ جھلّا کر ہیرا کو ہلاک کرنے چلا۔ تو موتی نے بغل سے آکر اس کے پیٹ میں سینگ رکھ دیے۔ بے چارہ زخمی ہوکر بھاگا اور دونوں فتحیاب دوستوں نے دور تک اس کا تعاقب کیا۔ یہاں تک کہ سانڈ بے دم ہوکر گر پڑا۔ تب دونوں نے اس کا پیچھا چھوڑدیا۔ 

دونوں بیل فتح کے نشہ میں جھومتے چلے جاتے تھے۔ موتی نے اپنے اشاروں کی زبان میں کہا، ’’میرا جی تو چاہتا تھا کہ ہتچہ جی کو مار ہی ڈالوں۔‘‘ 

ہیرا۔’’گرے ہوئے دشمن پر سینگ چلانا نا مناسب ہے۔‘‘ 

موتی؛ ’’یہ سب فضول ہے اگر اس کاداؤ چلتا تو کبھی نہ چھوڑتا۔‘‘ 

ہیرا؛ ’’اب کیسے گھر پہنچوگے؟یہ سوچو۔‘‘ 

موتی ؛ ’’پہلے کچھ کھالیں تو سوچیں ابھی عقل کام نہیں کرتی۔‘‘ 

یہ کہ کر موتی مڑکے کھیت میں گھس گیا ہیرا منع کرتا ہی رہ گیا لیکن اس نے ایک نہ سنی۔ابھی دو ہی چار منہ مارے تھے کہ دوآدمی لاٹھیاں لیے آگئے اور دونوں بیلوں کو گھیر لیا۔ ہیرا تو مینڈ پر تھا۔ نکل گیا موتی کھیت میں تھا۔ اس کے کُھر کیچڑ میں دھنسنے لگے نہ بھاگ سکا۔ پکڑا گیا۔ ہیرا نے دیکھا دوست تکلیف میں ہے تو لوٹ پڑا۔ پھنسیں گے، تو اکٹھے۔رکھوالوں نے اسے بھی پکڑ لیا۔ دوسرے دن دونوں دوست کانجی ہاؤس میں تھے۔ 

ان کی زندگی میں یہ پہلا موقعہ تھا کہ سارا دن گذرگیا اور کھانے کو ایک تنکا بھی نہ ملا۔ سمجھ میں نہ آتا تھا۔ یہ کیسا مالک ہے اس سے تو گیا ہی اچھا تھا۔ وہاں کئی بھینسیں تھیں، کئی بکریاں ، کئی گھوڑے، کئی گدھے چارہ کسی کے سامنے بھی نہ تھا۔ سب زمین پر مردے کی طرح پڑے تھے۔کئی تو اس قدر کمزور ہوگئے تھے کہ کھڑے بھی نہ ہوسکتے تھے۔ سارا دن دروازہ کی طرف دیکھتے رہے۔ مگر چارہ لے کر نہ آیا تب غریبوں نے دیوار کی نمکین مٹّی چاٹنی شروع کی مگر اس سے کیا تسکین ہوسکتی تھی؟ 

جب رات کو بھی کھانا نہ ملا، تو ہیرا کے دل میں سرکشی کے خیالات پیدا ہوئے۔ موتی سے بولا۔‘‘مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جان نکل رہی ہے۔‘‘ 

موتی۔’’اتنی جلدی ہمت نہ ہار و بھائی۔ یہاں سے بھاگنے کا طریقہ سوچو۔‘‘ 

ہیرا؛ ’’آؤ دیوار توڑڈالیں۔‘‘ 

موتی؛ ’’مجھ سے تو اب کچھ نہ ہوگا۔‘‘ 

ہیرا؛ ’’بس اسی بوتے پر اکڑتے تھے۔‘‘ 

موتی؛ ’’ساری اکڑ نکل گئی بھائی۔‘‘ 

باڑے کی دیوار کچی تھی ہیرا نے اپنے نوکیلے سینگ دیوار میں گاڑ دیے اور زور سے مارا تو مٹّی کا ایک چیڑ نکل آیا۔ اس سے اس کا حوصلہ بڑھ گیا۔ اس نے دوڑ دوڑ کر دیوارسے ٹکّریں ماریں ہر ٹکّر میں تھوڑی تھوڑی مٹی گرنے لگی۔ 

اتنے میں کانجی ہاوس کا چوکیدار لالٹین لے کر جانوروں کی حاضری لینے آنکلا۔ ہیرا کی وحشت دیکھ کر اس نے اسے کئی ڈنڈے رسید کیے اور موٹی سی رسّی سے باندھ دیا۔ 

موتی نے پڑے پڑے اس کی طرف دیکھا گویا زبان ِ حال سے کہا آخر مارکھائی کیا ملا۔ 

ہیرا؛ ’’ زور توآزمالیا۔‘‘ 

موتی؛ ’’ایسا زور کس کام کا ۔اور بندھن میں پڑگئے۔‘‘ 

ہیرا ؛ ’’اس سے باز نہ آؤں گا۔ خواہ بندھن بڑھتے جائیں۔‘‘ 

موتی؛ ’’جان سے ہاتھ دھو بیٹھوگے۔‘‘ 

ہیرا۔’’اس کی مجھے پرواہ نہیں۔ یوں بھی مرناہے ذرا سوچو اگر دیوار گر جاتی، تو کتنی جانیں بچ جاتیں۔ اتنے بھائی یہاں بند ہیں کسی کے جسم میں جان بھی نہیں ۔ دوچار دن یہی حال رہا تو سب مرجائیں گے۔‘‘ 

موتی نے بھی دیوار میں اسی جگہ سینگ مارا۔تھوڑی سی مٹّی گری اور ہمّت بڑھی تودیوار میں سینگ لگا کر اس طرح زور کرنے لگا۔ جیسے کسی سے لڑ رہا ہو۔ آخر کوئی دو گھنٹہ کی زور آزمائی کے بعد دیوار کا کچھ حصّہ گر گیا۔ اس نے دوگنی طاقت سے دوسرا دھکّا لگایا تو آدھی دیوار گر پڑی۔ 

دیوار کا گرنا تھا کہ نیم جان جانور اُٹھ کھڑے ہوئے تینوں گھوڑیاں بھاگ نکلیں۔ بھیڑ بکریاں نکلیں۔ اس کے بعد بھینسیں بھی کھسک گئیں۔ پر گدھے ابھی کھڑے تھے۔ 

ہیرا نے پوچھا۔ ’’تم کیوں نہیں جاتے؟‘‘ 

ایک گدھے نے کہا، ’’کہیں پھر پکڑ لیے جائیں تو؟‘‘ 

ہیرا ؛’’پکڑ لیے جاؤ پھر دیکھا جائے گا اس وقت تو موقعہ ہے۔‘‘ 

گدھا ؛ ’’ہمیں ڈرلگتا ہے ہم نہ بھاگیں گے۔‘‘ 

آدھی رات گذر چکی تھی۔ دونوں گدھے کھڑے سوچ رہے تھے بھاگیں یا نہ بھاگیں۔ موتی اپنے دوست کی رسّی کاٹنے میں مصروف تھاجب وہ ہار گیا تو ہیرانے کہا۔تم جاؤ مجھے یہیں رہنے دو۔ شاید کبھی ملاقات ہوجائے۔ 

موتی نے آنکھوں میں آنسو لاکر کہا، ’’تم مجھے خود غرض سمجھتے ہو ہیرا، ہم اور تم اتنے دنوں ساتھ رہے۔ آج تم مصیبت میں پھنسے۔ تو میں چھوڑ کر بھاگ جاؤں۔‘‘ 

ہیرا؛ ’’بہت مار پڑے گی۔ سمجھ جائیں گے یہ تمھاری شرارت ہے۔‘‘ 

موتی؛ ’’جس قصور کے لیے تمھارے گلے میں رسّا پڑا۔ اس کے لیے اگر مجھ پر مارپڑے گی۔ توکیا بات ہے اتنا تو ہوگیا کہ نودس جانوروں کی جان بچ گئی۔‘‘ یہ کہہ کر موتی نے دونوں گدھوں کو سینگ مارمار کر باہر نکال دیا اور اپنے دوست کے پاس آکر سوگیا۔ 

صبح ہوتے ہوتے منشیوں، چوکیداروں اور دوسرے ملازموں میں کھلبلی مچ گئی۔ اس کے بعد موتی کی مرمت ہوئی اور اسے بھی موٹی رسّی سے باندھ دیا گیا۔ 

ایک ہفتہ تک دونوں بیل بندھے پڑے رہے۔ خدا جانے اس کا نجی ہاؤ س کے آدمی کیسے بے درد تھے، کہ کسی نے چارے کو ایک تنکا تک نہ ڈالا۔ ہاں ایک مرتبہ پانی دکھادیا جاتاتھا۔ یہی ان کی خوراک تھی۔ دونوں اتنے کمزور ہوگئے کہ اٹھا تک نہ جاتا تھا۔ ہڈیاں نکل آئیں۔ 

ایک دن باڑے کے سامنے ڈگڈگی بجنے لگی۔ اور دوپہر ہوتے ہوتے پچاس ساٹھ آدمی جمع ہوگئے۔ تب دونوں بیل نکالے گئے اور ان کی دیکھ بھال ہونے لگی۔لوگ آآکر ان کی صورت دیکھتے اور چلے جاتے تھے۔ ایسے نیم جان بیلوں کو کون خریدتا؟ 

معاً ایک آدمی جس کی آنکھیں سرخ تھیں اور جس کے چہرہ پرسخت دلی کے آثار نمایاں تھے۔ آیا اور منشی جی سے باتیں کرنے لگا۔ اس کی شکل دیکھ کر کسی نا معلوم احساس سے دونوں بیل کانپ اٹھے۔ وہ کون ہے اور انھیں کیوں خریدتاہے؟ اس کے متعلق انھیں کوئی شبہہ نہ رہا۔ دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور سر جھکالیا۔ 

ہیرا نے کہا؛ ’’گیا کے گھر سے ناحق بھاگے۔ اب جان نہ بچے گی۔‘‘ 

موتی نے جواب دیا، ’’کہتے ہیں۔ بھگوان سب پر مہربانی کرتے ہیں۔’’انھیں ہماری حالت پر رحم کیوں نہیں آتا؟‘‘ 

ہیرا؛ ’’بھگوان کے لیے ہمارا مرنا جینا دونوں برابر ہیں۔‘‘ 

موتی؛ ’’چلو اچھا ہے کچھ دن ان کے پاس رہیں گے۔‘‘ 

ہیرا؛ ’’ایک مرتبہ بھگوان نے اس لڑکی کے روپ میں بچایا تھاکیا اب نہ بچائیں گے۔‘‘ 

موتی؛ ’’یہ آدمی چھُری چلائے گا دیکھ لینا۔‘‘ 

ہیرا؛ ’’معمولی بات ہے مرکر ان دکھوں سے چھوٹ جائیں گے۔‘‘ 

نیلام ہوجانے کے بعد دونوں بیل اس آدمی کے ساتھ چلے دونوں کی بوٹی بوٹی کانپ رہی تھی۔ بچارے پاؤں تک نہ اٹھاسکتے تھے۔ مگر ڈر کے مارے چلے جاتے تھے ذرا بھی آہستہ چلتے تو ڈنڈا جما دیتا تھا۔ 

راہ میں گائے بیلوں کا ایک ریوڑ مرغزالہ میں چرتا نظر آیا۔ سبھی جانور خوش تھے کوئی اچھلتا تھا کوئی بیٹھاجگالی کرتا تھا کیسی پر مسرت زندگی تھی۔ لیکن وہ کیسے خود غرض تھے کسی کو ان کی پرواہ نہ تھی۔ کسی کو خیال نہ تھا، کہ ان کے دو بھائی موت کے پنجہ میں گرفتار ہیں۔ 

معاًانھیں ایسا معلوم ہوا، کہ یہ راستہ دیکھا ہوا ہے۔ ہاں ادھر ہی تو سے گیا ان کو اپنےگاؤں لے گیا تھا۔ وہی کھیت ہیں وہی باغ وہی گاؤں۔ اب ان کی رفتار تیز ہونے لگی۔ ساری تھکان، ساری کمزوری، ساری مایوسی رفع ہوگئی۔ ارے یہ تو اپنا کھیت آگیا۔ یہ اپنا کنواں ہے۔ جہاں ہر روز پانی پیا کرتے تھے۔ 

موتی نے کہا، ’’ہمارا گھر نزدیک آگیا۔‘‘ 

ہیرا بولا، ’’بھگوان کی مہربانی ہے۔‘‘ 

موتی؛ ’’میں تواب گھر بھاگتا ہوں۔‘‘ 

ہیرا؛ ’’یہ جانے بھی دے گا اتناسوچ لو۔‘‘ 

موتی؛ ’’اسے مارگراتا ہوں۔ جب تک سنبھلے تب تک گھرجا پہنچیں گے۔‘‘ 

ہیرا؛ ’’نہیں ڈور کر تھان تک چلو۔وہاں سے آگے نہ چلیں گے۔‘‘ 

دونوں مست ہوکر بچھڑوں کی طرح کلیلیں کرتے ہوئے گھر کی طرف دوڑے اور اپنے تھان پر جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہ آدمی بھی پیچھے پیچھے دوڑا آتا تھا۔ 

جھوری دروازہ پر بیٹھا دھوپ کھارہا تھا۔ بیلوں کو دیکھتے ہی دوڑا۔ اور انھیں پیار کرنے لگا۔ بیلوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ ایک جھوری کا ہاتھ چاٹ رہا تھا۔ دوسرا پیر۔ 

اس آدمی نے آکر بیلوں کی رسّیاں پکڑلیں۔ جھوری نے کہا، ’’یہ بیل میرے ہیں۔‘‘ 

’’تمھارے کیسے ہیں۔ میں نے نیلام میں لیے ہیں۔‘‘ 

جھوری؛ ’’میرا خیال ہے چراکر لائے ہو چپکے سے چلے جاؤ بیل میرے ہیں بیچوں گا تو بکیں گے، کسی کو میرے بیل کو بیچنے کا کیا حق ہے؟‘‘ 

’’میں نے تو خرید ے ہیں۔‘‘ 

’’خریدے ہوں گے۔‘‘ 

اس پروہ آدمی زبردستی بیلوں کولے جانے کے لیے آگے بڑھا۔ اسی وقت موتی نے سینگ چلایا۔ وہ آدمی پیچھے ہٹا۔ موتی نے تعاقب کیا۔اور اسے ریلتا ہواگاؤں کے باہر تک لے گیا۔ اور تب اس کا راستہ روک کھڑا ہوگیا وہ آدمی دور کھڑا دھمکیاں دیتا تھا۔ گالیاں دیتا تھا۔ پتھر پھینکتا تھا اور موتی اس کا راستہ روکے ہوئے تھاگاؤں کے لوگ یہ تماشہ دیکھتے تھے اور ہنستے تھے۔ 

جب وہ آدمی ہارکے چلا گیا تو موتی اکڑتا ہوا لوٹ آیا۔ ہیرا نے کہا، ’’میں ڈر رہا تھا کہ کہیں تم اسے مار نہ بیٹھو۔‘‘ 

موتی؛ ’’اگر نزدیک آتا تو ضرور مارتا۔‘‘ 

ہیرا؛ ’’اب نہ آئے گا۔‘‘ 

موتی؛ ’’آئے گا تو دور ہی سے خبر لوں گا۔ دیکھوں کیسے لے جاتا ہے۔‘‘ 

ذرا دیر میں ناند میں کھلی بھوسہ چوکر دانہ سب کچھ بھردیا گیا۔ دونوں بیل کھانے لگے۔ 

جھوری کھڑا ان کی طرف دیکھتا اور خوش ہوتا تھا۔ بیسوں لڑکے تماشہ دیکھ رہے تھے ساراگاؤںمسکراتامعلوم ہوتا تھا۔ 

اسی وقت مالکن نے آکر اپنے دونوں بیلوں کے ماتھے چوم لیے۔ 

Premchand Firaq Ki Nazar Mein

پریم چند کی شخصیت
فراق گورکھپوری
بات ہے ۱۹۰۹ء یا ۱۹۱۰ء کی یا اس سے پہلے کی بھی ہو سکتی ہے۔ اس وقت ہندوستان بھر میں اردو کے شاید تین چار ماہانہ رسالے شائع ہوتے تھے۔ اب تو شاید سوسے زیادہ رسائل شائع ہوتے ہیں۔ ان دنوں کانپور سے شائع ہونے والا رسالہ ’’زمانہ‘‘ سب سے اچھا اردو رسالہ سمجھا جاتا تھا۔ ہندوستان کے تمام چوٹی کے ادیب ’’زمانہ‘‘ میں لکھتے تھے۔ ان کی فہرست بہت طویل اور تابناک ہے۔ 

سوامی رام تیرتھ، شبلی نعمانی، گنگا پرشاد ورما، حالی، اکبر، پنڈت وشنو نرائن در، اقبال، چکبست، سرور جہاں آبادی، نوبت رائے نظر، بال مکند گپت، لالہ لاجپت رائے، رتن ناتھ سرشار اور اگر دوسرے درجے کے ادیبوں کے نام گنواؤں تو چالیس پچاس اور مشہور ادیبوں کے نام لینے پڑیں گے۔ اس وقت ہندوستان بھر کی زبانوں میں جو رسالے اور جریدے شائع ہوتے تھے، ان میں نظموں یا تعلیم سے متعلق مضامین کی بھر مار رہتی تھی۔ ہندوستان میں لگ بھگ ہر سال پندرہ سو کہانیاں یا مختصر افسانے لکھے جاتے تھے۔ اور اردو میں تو ایک ہی آدمی تھا جس نے کہانی لکھنے کے لئے پہلے پہل قدم اٹھایا اور وہ تھے پریم چند۔ 

جاڑوں کے دن تھے، ہمارے یہاں گھر پر ’’زمانہ‘‘ کا تازہ شمارہ آیا تھا جو بزرگوں کے دیکھنے کے بعد ہمارے بھی ہاتھ لگا۔ اس میں پریم چند کی ایک کہانی چھپی تھی ’’بڑے گھر کی بیٹی۔‘‘ جیسے جیسے وہ کہانی میں پڑھتا گیا، میرے دل کی دھڑکن اور سانسوں کی رفتار تیز ہوتی گئی اور پلکیں بھیگتی گئیں۔ پریم چند سے یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ آج تک کسی کہانی کا مجھ پر وہ اثر نہ ہوا تھا جیسا کہ اس کہانی کا ہواتھا۔ اس کے بعد لگ بھگ ہر مہینہ ’’زمانہ‘‘ میں پریم چند کی کہانی چھپتی اور میں اسے کلیجے سے لگا کر پڑھتا۔ ہر مہینہ پریم چند کی نئی کہانی ’’زمانہ‘‘ میں چھپنا دنیائے ادب کا ایک واقعہ تصور کیا جاتا۔ یہ کہانیاں لڑکوں، لڑکیوں، سب کو ایک طرح متاثر کرتی تھیں۔ کہانیوں کو پڑھ کر مولانا شبلی جیسے عالم کی آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے اور وہ کہہ اٹھتے تھے کہ ہندوستان کے سات کروڑ مسلمانوں میں ایک بھی ایسا سحر نگار نہیں ہے۔ لوگ سوچتے تھے کہ پریم چند آدمی ہیں یا دیوتا۔ 

کچھ سال بیت گئے۔ میں امتحانوں میں کامیابی حاصل کرتا ہوا بی۔ اے میں آچکا تھا۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں الہ آباد سے اپنے وطن گورکھپور آ گیا تھا۔ ایک دن شام کو گورکھپور میں ایک بڑے بینک کی بلڈنگ میں سیر کرنے کے لئے نکل گیا تھا۔ وہاں میرے ایک دوست مہابیر پرساد پود دارملے، جن کے ساتھ ایک صاحب اور تھے۔ وہ بظاہر ایک بہت ہی معمولی آدمی معلوم ہوتے تھے، گھٹنوں سے کچھ ہی نیچے تک کی دھوتی، کرتا، جو عام کرتوں سے بہت چھوٹا کٹا ہوا تھا، پیروں میں معمولی جوتا۔ میں پود دار سے نئی کتابوں کے بارے میں باتیں کرنے لگا۔ ان کے ساتھی بھی گفتگو میں شریک ہوگئے اور بات پریم چند کی آگئی۔ 

پود دار نے مجھ سے پوچھا کہ تم پریم چند سے ملنا چاہتے ہو؟ مجھے ایسا معلوم ہوا گویا وہ مجھ سے پوچھ رہے ہوں، دنیا بھر کی دولت پر قبضہ کرنا چاہتے ہو؟ اس خوش نصیبی پر یقین ہی نہیں آتا تھا کہ پریم چند کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکوں گا۔ میں ان کا بالکل نہ یقین کرنے کے لہجہ میں پوچھا، ’’پرم چند سے ملنا! کیسے، کہاں اور کب؟’‘ دونوں آدمی ہنسنے لگے اور پود دار نے بتایا کہ ان کے ساتھ جو صاحب ہیں وہی پریم چند ہیں۔ میری سانس اندر کی اندر اور باہر کی باہر رہ گئی، بلکہ انتہائی مسرت کے ساتھ میری کچھ دل شکنی سی ہوئی۔ اس لئے کہ پریم چند بہت معمولی صورت شکل کے آدمی نظر آئے اور میں سمجھے بیٹھا تھا کہ اتنا بڑا ادیب معمولی شکل کا آدمی نہیں ہوسکتا۔ پھر بھی پریم چند کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ 

یہ جان کر تو میں خوشی سےجھوم گیا کہ پریم چند گورکھپور میں میرے مکان سے آدھے فرلانگ پر نارمل اسکول کے ایک بنگلہ میں مستقل طور پر مقیم رہیں گے۔ میں اور پریم چند تو فوراً گھل مل گئے۔ ہم دونوں ایک ہی مزاج کے تھے۔ دوسرے دن سے تیسرے پہر پریم چند کے گھر جانا میرا روز کا معمول بن گیا۔ پریم چند نارمل اسکول کے سکینڈ ماسٹر اور بورڈنگ ہاؤس کے سپریٹنڈنٹ تھے، اپنے چھوٹے سے بنگلے کے صحن میں چند درختوں کے سائے میں تیسرے پہر چند کرسیاں ڈال لیتے تھے، ایک چھوٹی سی میز بھی لگا لیتے تھے۔ اسی صحن میں ہر تیسرے پہر ملنا میرا روز کا معمول بن گیا تھا۔ شاعری، ادب، کتابیں، مصنف، فلسفہ ہماری گفتگو کے موضوع تھے۔ کبھی کبھی ان لوگوں کا بھی ذکر چھڑ جاتا، جو ذکر کے قابل نہیں ہوتے تھے۔ ایسے بھی مواقع آجاتے جب کہ وہ اپنے بچپن کا حال یا خاندان کی باتیں سنایا کرتے تھے۔ اس طرح ان کی زندگی کاپورا کردار میرے سامنے آ گیا۔ 

ان کی باتوں میں بڑی معصومیت ہوتی تھی، بڑی سادگی، بڑی بے تکلفی۔ اس طرح باتوں کے دوران انہوں نے بتایا کہ ان کے بچپن کے زمانے میں جب ان کے والد ڈاک خانے کے ملازمت کے سلسلے میں گورا دور میں رہتے تھے، اسکول میں پریم چندکی دوستی ایک تمباکو بیچنے والے کے لڑکے سے تھی۔ اسکول سے واپسی کے وقت اس لڑکے کے گھر پر پریم چند جاتے تھے۔ وہاں بزرگوں میں حقہ کے کش جاری رہتے تھے اور ’’طلسمِ ہوش رُبا‘‘ روزپڑھا جاتا تھا۔ ’’طلسم ہوش ربا‘‘ سنتے سنتے بچپن میں ہی پریم چند کی خوابیدہ خیالی دنیا جاگ اٹھی جیسے ’’الف لیلہ‘‘ پڑھ کر مشہور ناول نگار ڈکنس کا سویا ہوا شعور فن جاگ اٹھا تھا۔ پھر اردو نثر کی روانی بھی پریم چند کے اندر گرج اٹھی۔ 

پریم چند کا بچپن بہت غریبی میں گزرا۔ باپ کی تنخواہ بیس بچیس روپے تھے۔ پھر ماں سوتیلی تھی۔ تیرہ چودہ سال کی عمر میں چار پانچ روپے کے ٹیوشن کے لئے تین میل جانا اور تین میل آنا پڑتا تھا۔ ایک بار ایسا گھر ملا کہ اسی گھر کے اصطبل میں سائیس کے ساتھ رہنا پڑتا تھا۔ سیکڑوں مواقع ایسے آئے کہ ایک پیسے کے چنے بھنا کر اسی کو کھا کر دن کاٹ دیا۔ اسی زماے میں ایک ہیڈ ماسٹر نے انہیں ذہین سمجھ کر کچھ سہولیتں بہم پہنچائیں اور اس طرح وہ انٹرنس پاس کر کے کسی اسکول میں بیس بائیس روپے پر ٹیچر ہوگئے۔ ان کے والد نے اسی زمانے میں پریم چند کی شادی بھی کر دی تھی۔ ایسی شادی کہ دوچار ہفتوں بعد ہی بیوی سے جدا ہونا پڑا۔ اسی حالت میں باپ بھی چل بسے۔ سوتیلی ماں اور سوتیلے بھائی کا بوجھ بھی پریم چند کے کندھوں پر آرہا۔ 

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ دس بارہ سال کی عمر سے لگ بھگ بیس بائیس سال کی عمر تک جیسی تلخ زندگی پریم چند کی تھی، اردو یا کسی زبان کے ادیب کی زندگی شاید ہی اتنی پرالم رہی ہو۔ ہم اور آپ تو شاید ایسے امتحان میں مٹ کر رہ جاتے۔ اسی دور میں پریم چند نے پرائیویٹ طور پر ایف۔ اے، بی۔ اے اور بی۔ ٹی کے امتحانات بھی پاس کئے۔ محکمۂ تعلیم میں انہیں ملازمت مل گئی۔ وہی زمانہ زندۂ جاوید تخلیقات کا ابتدائی دور ہے جنہیں آج لاکھوں آدمی کلیجہ سے لگائے پھرتے ہیں۔ 

پریم چند اب اپنی اردو تخلیقات کو ہندی میں بھی شائع کرنے لگے تھے لیکن اسے اگر اردو زبان اور ادب کا جادو نہ کہیں تو کیا کہیں کہ ہندی میں ان کی پہلی ہی کتاب چھپی تھی کہ وہ ہندی کے سب سے بڑے ادیب مان لئے گئے اور اگر وہ اردو نہ جانتے ہوتے اور صرف ہندی جانتے تو اتنی شاندار اور منجھی ہوئی زبان نہ لکھ پاتے۔ یہ وقت لگ بھگ ۱۹۱۹ء کا ہے۔ اسی زمانے میں میں نے آئی۔ سی۔ ایس کی نوکری چھوڑی اور پریم چند نے بھی، جن کی نوکری ایک ہزار روپے تک جاتی۔ عدم تعاون کی تحریک کے سلسلہ میں میرے ساتھ ہی اپنی ملازمت کو خیر باد کہہ دیا۔ اس کے بعد وہ پندرہ سولہ سال اور زندہ رہے۔ اس عرصے میں لگ بھگ دس ناول اور سو کہانیاں ان کے قلم سے نکلیں۔ مجھے بھی ایک لحاظ سے پریم چند نے ہی ادیب بنایا۔ میری پہلی تحریر ’’زمانہ‘‘ میں پریم چند نے چھپوائی تھی۔ جب میں جیل میں سیاسی قیدی تھا تو میری کچھ کہانیاں پریم چند ہی نے مشہور رسائل میں شائع کروائی تھیں۔ جیل ہی میں، میں نے ان کے ناول ’’گوشۂ عافیت‘‘ (ہندی میں پریم آشرم) پر تنقید لکھی تھی جسے پاکر انہوں نے مجھے لکھا تھا کہ، ’’ناول پر آپ کی تنقید پڑھ کر روح پھڑک اٹھی۔ آپ نے میرے ناول کو مجھ سے بہتر سمجھا۔’‘ 

یہ ہیں وہ یادیں جو پریم چند کے متعلق میرے ذہن میں محفوظ ہیں۔ پریم چند کی قبل از وقت موت نے اردو ہندی ادب اور ادیبوں کو یتیم کردیا۔ جو ادب درباروں اور رئیسوں کی محفلوں کی چیز تھی، اس زبان و ادب کو پریم چند نے کروڑوں بیگھے لہلہاتے کھیتوں میں اور کسانوں کے جھونپڑوں میں لا کر کھڑا کر دیا۔ ہماری ہزاروں سال کی تہذیب میں بھارت ورش کی دیہاتی زندگی کی آنکھ کھول دینے والی تصویر کشی ہندوستان کے کسی زبان کے کسی ادیب نے نہیں کی تھی۔ 

پریم چند اردو کی تاریخ میں اس دور کے ادیب نہیں تھے جب پونے دو آدمی استادِ زمانہ مان لئے جاتے تھے۔ سیکڑوں چھوٹے ادیبوں کے بیچ میں پریم چند کا زمانہ وہ زمانہ ہے جب آسمانِ ادب پر ٹیگور، شرت چندر چٹرجی، اقبال، چکبست، حالی، شبلی، حسرت موہانی ایسے سورج اور چاند جگمگا رہے تھے۔ 

لازوال شہرت حاصل کرنے والی زبردست ہستیوں سے پریم چند کا اگر مقابلہ کیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ ان کے عظیم ہم عصر ادیبوں کے کارناموں سے کہیں زیادہ قیمتی کارنامہ پریم چند نے چھوڑا ہے۔ پریم چند کی کہانیوں اور ناولوں پر لمبی بحث چھیڑنے کایہ موقع نہیں، لیکن اس کا تجربہ تو آپ نے کیاہی ہوگا کہ پریم چند ہندی اور اردو کا واحد ادیب ہے جس کی تخلیقات کو اونچے سے اونچے دماغ والوں سے لے کر چپراسی، مزدورشہر والے، دیہات والے، مرد، عورت، بچے سبھی ایک طرح متاثر ہوکر پڑھتے ہیں۔ 

پریم چند کی کتابوں کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے مادرِ ہند نے ہمیں اپنی گود میں اٹھا لیا ہے۔ ہم پریم چند کی آواز میں اپنے دل کی دھڑکنوں کو سنتے ہیں۔ ہندوستان کی زندگی، ہندوستان کا مزاج، اس کا دکھ سکھ، اس کی تقدیر، اس کا سہاگ سب کچھ پریم چند کی سحر انگیز تحریروں میں ہمیں اس طرح ملتا ہے جیسا اور کہیں ملنا محال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندی اردو کے اپنے ہم عصر ادیبوں میں پریم چند محض شہرت ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی شہرت حاصل کر چکے ہیں۔ 

Friday, 9 October 2020

Chaar Bahre

 چار بہرے
(ایک دلچسپ کہانی)
ایک بہرے آدمی کے پاس بکریوں کا ایک ریوڑ تھا۔ ایک دن اسے جنگل میں چرا نے کے لئے گیا۔ ان میں سے چند بکریاں گم ہو گئیں جن میں ایک لنگڑی بکری بھی تھی۔ بہرا ان کی تلاش میں نکلا ۔کچھ دور جا کر  اس نے ایک درخت کے نیچے ایک آدمی کو بیٹھے دیکھا۔ اس کے پاس جاکر پوچھا ”میری چند بکریاں گم ہو گئی ہیں کیا تم نے کہیں دیکھی ہے ۔“وہ آدمی بھی بہرا تھا۔ اس نے سمجھا مسافر ہے، راستہ بھول گیا ہے، اس لئے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ اس راستہ پر چلے جاؤ ۔گڈریئے نے خیال کیا کہ میری بکریاں اسی راستے سے گئی ہیں ۔دل میں کہنے  لگا اگر مل گئیں تو اس میں سے لنگڑی بکری ضرور اس آدمی کو دے دوں گا۔ اتفاق سے تھوڑی دور جاکر اسے اپنی تمام بکریاں مل گئیں ۔بہت خوش ہوا اور  لنگڑی بکری لے کر بطور انعام دینے کے لئے اس آدمی کے پاس آیا ۔جب گڈریا نے لنگڑی بکری کو بہرے کے سامنے پیش کر کے کہا ”لو یہ میں تمہیں دیتا ہوں۔“ تو اس نے کہا ”میں نے تیری بکری کی ٹانگ نہیں توڑی ہے۔ تو جھوٹ بولتا ہے۔مجھ پر غلط الزام لگا تا ہے۔“ دونوں بہرے اپنی اپنی کہے جا رہے تھے کہ ایک طرف سے ایک سوار آگیا۔ یہ دونوں اس کے پاس گئے اور گھوڑی کی لگام پکڑ کر اپنا معاملہ بیان کرنے لگے۔ اتفاق سے یہ بھی بہرا تھا ۔اس نے یہ سمجھا یہ دونوں میری گھوڑی کو لینے کا دعویٰ کر رہےہیں۔ گھبرا کر بولاچھوڑو  لگام گھوڑی تو میری ہے، اس کا بچہ میرے گھر پر ہے میں نے اس کو سو روپے دے کر لیا ہے۔ میرے بہت سے گواہ ہیں۔ تینوں دیر تک اپنی اپنی کہتے رہے جب پریشان ہو گئے تو فیصلہ ہوا کہ قاضی کے پاس چلو، قاضی کی بیوی قاضی سے ناراض ہو کر اپنے میکے چلی گئی تھی۔ تینوں آدمیوں نے پہنچ کر قاضی سے اپنا اپنا حال بیان  کر نا شروع کیا مگر قاضی جی بھی بہت اونچا سنتے تھے۔ انہوں نے سمجھا کہ میری بیوی کے میکے کی طرف سے یہ لوگ سفارش لے کر آئے ہیں ،اس لئے انہوں نے کہنا شروع کیا ”میں اس عورت کو ہرگز نہیں رکھوں گا سر سے پاؤں تک سو نے کی بنا کر لاؤ تب بھی قبول نہیں کروں گا۔طلاق طلاق طلاق۔ تین دفعہ طلاق۔“اور ڈانٹ کر کہا ”چلے جاؤ یہاں سےورنہ ابھی بلاتا ہوں پولیس کو۔“ قاضی کی ڈانٹ سنکر تینوں ڈر گئے اور پریشان ہوکر اپنے اپنے گھر چلے گئے۔(ازعبدالسبحان)

Saturday, 3 October 2020

Kamsin Ghazal By Majnoon Lucknavi

کمسِن غزل
منور آغا مجنوں لکھنوی




Sunday, 27 September 2020

Jamia Millia Islamia School and University Admission Schedule 2020

Jamia Millia Islamia  University Admission Schedule 2020  
Jamia Millia Islamia School  Admission Schedule 2020

Ehsaan Ka Badla Ehsaan By Dr.Zakir Hussain NCERT Urdu Class IX

احسان کا بدلہ احسان 
        ڈاکٹر ذاکر حسین

بہت دنوں کا ذکر ہے جب ہر جگہ نیک لوگ بستے تھے اور دعا فریب بہت ہی کم تھا۔ ہندو مسلمان ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے۔

کوئی کسی پر زیادتی نہیں کرتا تھا اور جو جس کا حق ہوتا تھا، اسے مل جایا کرتا تھا ۔ ان دنوں ایک شہر تھا: عادل آباد۔ اس عادل آباد میں ایک بہت دولت مند دکان دار تھا۔ دور دور کے ملکوں سے اس کا لین دین تھا۔ اس کے پاس ایک گھوڑا تھا جو اس نے بہت دام دے کر ایک عرب سے خریدا تھا۔

ایک دن کا ذکر ہے کہ وہ دکان دار تجارت کی غرض سے گھوڑے پر سوار ہو کر جارہا تھا کہ بے خیالی میں شہر سے بہت دور نکل گیا اور ایک جنگل میں جا نکلا ۔ ابھی یہ اپنی دھن میں آگے جاہی رہا تھا کہ پیچھے سے چھے آدمیوں نے اس پر حملہ کر دیا۔ اس نے ان کے دو ایک وار تو خالی دیے لیکن جب دیکھا کہ وہ چھے ہیں تو سوچا کہ اچھا نہیں ہے کہ ان سے بچ کرنکل چلوں ۔ اس نے گھوڑے کو گھر کی طرف پھیرا ، لیکن ڈاکوؤں نے بھی اپنے گھوڑے پچھے ڈال دیے۔ اب تو عجیب حال تھا۔ سارا جنگل گھوڑوں کی ٹاپوں سے گونج رہا تھا ۔ سچ یہ ہے کہ دکان دار کے گھوڑے نے اسی دن اپنے دام وصول کرادیے۔ کچھ دیر بعد ڈاکوؤں کے گھوڑے پیچھے رہ گئے ۔ گھوڑا دکان دار کی جان بچا کر اسے گھر لے آیا۔

اس روز گھوڑے نے اتنا زور لگایا کہ اس کی ٹانگیں بے کار ہو گئیں ۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ کچھ دنوں بعد غریب کی آنکھیں بھی جاتی رہیں ۔ لیکن دکان دار کو اپنے وفادار گھوڑے کا احسان یاد تھا۔ چناں چہ اس نے سائیس کو حکم دیا کہ جب تک گھوڑا جیتا رہے، اس کو روز صبح وشام چھ سیر دانہ دیا جائے اور اس سے کوئی کام نہ لیا جائے۔

لیکن سائیس نے اس حکم پر عمل نہ کیا۔ وہ روز بروز گھوڑے کا دانہ کم کرتا گیا۔ یہی نہیں بلکہ ایک روز اسے اپاہج اور اندھا سمجھ کر اصطبل سے نکال دیا۔ بے چارہ گھوڑا رات بھر بھوکا پیاسا، بارش اور طوفان میں باہر کھڑا رہا۔ جب صبح ہوئی تو جوں توں کر کے وہاں سے چل دیا۔

اسی شہر عادل آباد میں ایک بڑی مسجد تھی اور ایک بڑا مندر ۔ ان میں نیک ہندو اور مسلمان آ کر اپنے اپنے ڈھنگ سے عبادت کرتے اور خدا کو یاد کرتے تھے۔ مندر اور مسجد کے بیچ ایک بہت اونچا مکان تھا اس کے بیچ میں ایک بڑا سا کمرا تھا۔ کمرے میں ایک بہت بڑا گھنٹا لٹکا ہوا تھا اور اس میں ایک لمبی سی رسی بندھی ہوئی تھی ۔ اس گھر کا دروازہ دن رات کھلا رہتا۔ شہر عادل آباد میں جب کوئی کسی پر ظلم کرتا یا کسی کا مال دبالیتا یا کسی کا حق مار لیتا تو وہ اس گھر میں جاتا، رسی پکڑ کر کھینچتا۔ یہ گھنٹا اس زور سے بچتا کہ سارے شہر کو خبر ہو جاتی ۔ گھنٹے کے بجتے ہی شہر کے سچے ، نیک دل ہندومسلمان وہاں آجاتے اور فریادی کی فریاد سن کر انصاف کرتے ۔ اتفاق کی بات کہ اندھا گھوڑا بھی صبح ہوتے ہوتے اس گھر کے دروازے پر جا پہنچا۔ دروازے پر کچھ روک ٹوک تو تھی نہیں ، گھوڑا سیدھا گھر میں گھس گیا۔ بیچ میں رسی تھی۔ یہ غریب مارے بھوک کے ہر چیز پر منھ چلاتا تھا، رسی جو اس کے بدن سے لگی تو وہ اسی کو چبانے لگا۔ رسی جو ذرا کھنچی تو گھنٹا بجا۔ مسلمان مسجد میں نماز کے لیے جمع تھے۔ پجاری مندر میں پوجا کر رہے تھے۔ گھنٹا جو بجا تو سب چونک پڑے اور اپنی اپنی عبادت ختم کر کے اس گھر میں آن کر جمع ہو گئے ۔ شہر کے پنچ بھی آگئے ۔ پنچوں نے پوچھا : ” یہ اندھا گھوڑا کس کا ہے؟‘‘ لوگوں نے بتایا: ’’ یہ فلاں تا جر کا ہے۔ اس گھوڑے نے تاجر کی جان بچائی تھی ۔‘‘ پوچھا گیا تو معلوم ہوا کہ تاجر نے اسے نکال باہر کیا ہے۔ پنچوں نے تاجر کو بلوایا ۔ ایک طرف اندھا گھوڑا تھا، اس کی زبان نہ تھی جو شکایت کرتا۔ دوسری طرف تاجر کھڑا تھا، شرم کے مارے اس کی آنکھیں جھکی تھیں ۔ پنچوں نے کہا: تم نے اچھا نہیں کیا ۔ اس گھوڑے نے تمھاری جان بچائی اور تم نے اس کے ساتھ کیا کیا ؟ تم آدمی ہو، یہ جانور ہے آدمی سے اچھا تو جانور ہی ہے۔ ہمارے شہر میں ایسا نہیں ہوتا ۔ ہر ایک کو اس کا حق ملتا ہے اور احسان کا بدلہ احسان سمجھا جا تا ہے۔

تاجر کا چہرہ شرم سے سرخ ہوگیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے ۔ بڑھ کر اس نے گھوڑے کی گردن میں ہاتھ ڈال دیا۔

اس کا منہ چوما اور کہا: ”میرا قصور معاف کر“ یہ کہہ کر اس نے وفادار گھوڑے کو ساتھ لیا اور گھر لے آیا۔ پھر اس کے لیے ہر طرح کے آرام کا انتظام کر دیا۔
ڈاکٹر ذاکر حسین
(1897 - 1969)
ڈاکٹر ذاکر حسین حیدر آباد میں پیدا ہوئے ۔ ان کا تعلق قصبہ قائم گنج ضلع فرخ آباد ( اتر پردیش) کے ایک معز ز پٹھان خاندان سے تھا۔ ان کی ابتدائی تعلیم اسلامیہ اسکول، اٹاوہ ( یوپی) میں ہوئی۔ وہ اعلی تعلیم کے لیے علی گڑھ ،الہ آباد اور جرمنی تک گئے۔ جرمنی سے انھوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
ڈاکٹر ذاکر حسین کی شخصیت کے کئی اہم پہلو تھے۔ وہ بیک وقت ایک صاحب طرز ادیب، ماہرتعلیم قومی رہنما اور سیاست داں تھے۔ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے وائس چانسلر رہے۔ انھوں نے صوبہ بہار کے گورنر ، نائب صدر اور صدر جمہوریہ ہند کی حیثیت سے ملک و قوم کی غیر معمولی خدمات انجام دیں۔
ذاکر صاحب کا ادبی سفر دنیا کی چند اہم کتابوں کے ترجموں سے شروع ہوا۔ ان تر جموں میں مشہور فلسفی افلاطون کی کتاب "ریاست" اور اڈون کینن کی "سیاسی اقتصادیات" وغیرہ شامل ہیں ۔ انھوں نے جرمنی زبان میں گاندھی جی پر ایک کتاب لکھی۔ بچوں کی تعلیم و تربیت اور بچوں کے ادب سے انھیں خصوصی دلچسپی تھی۔ انھوں نے بچوں کے لیے متعدد مضامین اور کہانیاں لکھیں۔ ’’ابو خاں کی بکری‘‘، ’’ لومڑی کی چالاکی‘‘ ،’’ مور کا حسن“، ”اونٹ کا ضبط“، ”اُسی سے ٹھنڈا اُسی سے گرم“ اور "گھوڑے کی نرمی‘‘ وغیرہ ان کی مشہور کہانیاں ہیں ۔
سوچیے اور بتائیے
1.ڈاکووں نے دکان دار پر کیوں حملہ کیا؟
جواب:‌تاجر اپنے گھوڑے پر سوار تھا بےخیالی میں وہ بہت دور چلا گیا اور  جنگل  جاپہنچا، وہاں ڈاکو آگئے۔ اتاجر کو اس کے گھوڑے کے ساتھ سنسان جنگل میں دیکھ کر ڈاکوؤں حملے کردیا-
2. دکان دار کو گھوڑے کے دام کس طرح وصول ہوئے؟
جواب:جب ڈاکوؤں نے تاجر  پر حملہ کردیا تب اسے بچانے کے لیے گھوڑا  بہت تیز دوڑا اور تاجر کی جان بچائی۔ اس طرح گھوڑے کے دام دکان دار کو وصول ہو گئے-
3.سائیس کے برتاو کی وجہ سے گھوڑے کو کیا کیا تکلیفیں اٹھانی پڑیں؟
جواب:جب گھوڑا بوڑھا ہوگیا توسائیس دن بدن اس کا دانا کم کرتا گیا اور ایک دن اس  نے اپاہج اور اندھے  گھوڑے کو  اصطبل سے نکال دیا بیچارہ گھوڑا رات بھر بھوکا پیاسا  بارش اور طوفان میں باہر کھڑا رہا جب صبح ہوئی تو گھوڑا وہاں سے چلا گیا۔
4.اونچے مکان میں گھنٹا کیوں لٹکایا گیا تھا؟
جواب:مندر اور مسجد کے بیچ میں ایک بڑا مکان تھا۔ وہاں ایک گھنٹا لگا تھ۔ا جب بھی شہر میں کسی پر ظلم ہوتا،  کسی کا حق مارا جاتا تو وہ وہاں آتا اور گھنٹا بجاتا گھنٹے کی آواز سے پورے شہر کو خبر ہوجاتی سارے بچے اور نیک لوگ آجاتے  اور پھر اُس کے ساتھ انصاف کرتے۔
5.گھوڑے نے گھنٹا کس طرح بجایا؟
جواب: گھوڑے نے رسی کو چارہ سمجھ کر کھانے کی کوشش کی۔رسی کے ہلنے سے گھنٹا بجنے لگا۔
6.تاجر کا چہرہ شرم سے کیوں سرخ ہوگیا؟
جواب:سائیس نے اس وفادار گھوڑے کے ساتھ جو سلوک کیا تھا اسے سن کر تاجر کا چہرہ شرم سےسرخ ہوگیا وہ خود کو ہی اس کی حالت کا ذمے دار سمجھنے لگا۔

قواعد:

گھوڑے پر سوار ہو کر جارہا تھا۔

بہت دنوں کا ذکر ہے جب ہر جگہ نیک لوگ بستے تھے۔

معلوم ہوا کہ تاجر نے اسے نکال باہر کیا ہے۔

اوپر دیے گئے جملوں میں جن کاموں کے بارے میں بتایا جارہا ہے وہ پہلے ہو چکے ہیں یعنی یہ گزرے ہوئے وقت 

کی باتیں ہیں ۔ گزرے ہوئے وقت / زمانہ کو ماضی کہتے ہیں

 


خوش خبری