آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Wednesday 13 February 2019

Pahle Kaam, Baad Aaraam - NCERT Solutions Class VI Urdu

پہلے کام، بعد آرام
تلوک چند محروم
کام کے وقت جو آرام کیا کرتے ہیں
 آخر کار وہ ناکام رہا کرتے ہیں

 سخت نادان ہیں وہ لوگ برا کرتے ہیں
 ہم تو داناؤں سے یہ قول سنا کرتے ہیں

پہلے تم کام کرو بعد میں آرام کرو

 لطف آرام میں ملتا ہے بہت کام کے بعد
 کام کرنے میں مزہ آتا ہے آرام کے بعد 

دن کو جو سویا تو کیا سوئے گا وہ شام کے بعد 
دور راحت کا مزہ تلخئی ایام کے بعد

پہلے تم کام کرو بعد میں آرام کرو 

جس کو آرام سے ہر وقت سروکار رہے
 فکر آرام میں جو کام سے بیزار رہے 

کیا تعجب ہے کہ وہ مفلس و نادار رہنے 
کاہل وخستہ و در مانده و لاچار رہے

پہلے تم کام کرو بعد میں آرام کرو

 چھوڑتے کام ادھورا نہیں ہمت والے 
کام پورا نہیں کرتےکبھی راحت والے

 بازی لے جاتے ہیں جو لوگ ہیں محنت والے
 ہار جاتے ہیں سدا سستی و غفلت والے

پہلے تم کام کرو بعد میں آرام کرو

سوچیے اور بتائیے
1. وقت پر کام نہ کرنے کا کیا نتیجہ ہوتا ہے؟
جواب: وقت پر جو لوگ کام نہیں کرتے ہیں وہ اپنی زندگی میں ناکام رہا کرتے ہیں۔

2. کامیابی حاصل کرنے کے لیے کس قول پر عمل کرنا چاہیے؟
جواب: کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہمیں پہلے کام بعد میں آرام کے قول پر عمل کرنا چاہیے۔ آج کا کام کل پر نہ ٹال بھی ایک مشہور قول ہے۔

3. آرام میں لطف کب حاصل ہوتا ہے؟
جواب: آرام میں لطف اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب آدمی اپنے کام مکمل کر لیتا ہے۔

4. شاعر نے آرام کرنے والوں کے لیے کون کون سے الفاظ استعمال کیے ہیں؟
جواب: شاعر نے آرام کرنے والوں کے لیے کاہل، خستہ، درماندہ اور لاچار کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔

5. اس نظم میں محنت سے کام کرنے والوں کی کیا کیا خوبیاں بیان کی گئی ہے؟
جواب: ہمت کرنے والےکبھی اپنا کام ادھورا نہیں چھوڑتے۔محنت والے ہمیشہ بازی لے جاتے ہیں۔

6. سستی اور غفلت سے کام کرنے والوں ا کیا انجام ہوتا ہے؟
جواب:سستی اور غفلت کرنے والے ہمیشہ ہار جاتے ہیں۔

7. پہلے کام بعد میں آرام کی تکرار سے شاعر کا کیا مطلب ہے۔
جواب: پہلے کام بعد میں تکرار سے شاعر کا یہ کہنا ہے کہ وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو وقت پر اپنا کام کرتے ہیں۔

نیچے دیے ہوئے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے۔
بیزار ہونا : وہ اپنی کتاب سے بیزار ہو گیا۔
بازی لے جانا :  امتحان میں  صبا دوسروں پر بازی لے گئی۔
ہار جانا : کبڈی میں میری کلاس ہار گئی۔
نادان : نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہے۔
غفلت :
مسافر غفلت کا شکار ہوگئے۔

دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Ghode Aur Hiran Ki Kahani - NCERT Solutions Class VI Urdu

گھوڑے اور ہرن کی کہانی
 ہزاروں سال پرانی بات ہے ایک ہرن اور گھوڑے میں بڑی دوستی تھی۔ ایک بار کسی بات پر دونوں میں جھگڑا ہو گیا ، مار پیٹ کی نوبت آگئی ۔ ہرن ہلکا پھلکا اور پھر تیلا تھا۔ اُس نے اُچھل اُچھل کر گھوڑے کو پیٹا۔ مار پیٹ میں گھوڑے کو بہت چوٹ آئی ۔ اُسے اپنے آپ کو سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ گھوڑا کچھ نہ کر پایا اور ہرن مار پیٹ کر چلتا بنا۔
گھوڑے کو بہت غصّہ آیا۔ اُس نے سوچا، ہرن سے بدلہ لینا چاہیے۔ لیکن بدلہ لے تو کیسے ! بہت دنوں تک جنگل میں مارا مارا پھرتا رہا۔ ایک دن اُس کی نظر ایک آدمی پر پڑی جو تیر کمان لیے شکار کی تلاش میں پھر رہا تھا۔ گھوڑے نے پوچھا : ”بھائی آدمی! تم جنگل میں اکیلے کیا کرتے پھر رہے ہو؟“
آدمی نے جواب دیا : ” میں شکاری ہوں اور شکار کی تلاش میں ہوں ۔“
گھوڑے نے کہا : ”اگر میں تمھیں کوئی شکار دکھادوں ، تو کیا تم اُسے مار دوگے؟“
 ”ہاں کیوں نہیں! میرا تو کام ہی یہ ہے۔" شکاری نے کہا۔
اب تو گھوڑا خوش ہو گیا۔ اس کی سمجھ میں ایک ترکیب آ گئی ۔ اس نے شکاری سے کہا : ”اس جنگل میں ایک ہرن رہتا ہے۔ تم چاہو تو اس کو مار سکتے ہو۔“
شکاری نے کہا : مارنے کو تو میں مار دوں لیکن تم ہی بتاؤ کہ میں اُس کے پیچھے کیسے دوڑ سکتا ہوں؟ اگر تم میری مدد کرو تو میں اُسے مار دوں ۔“
گھوڑے نے کہا : "میں تیار ہوں ۔ بتاؤ میں تمھاری کیا مدد کروں؟"
 شکاری نے کہا : "مجھے اپنی پیٹھ پر بٹھالو اور وہاں لے چلو جہاں وہ ہرن رہتا ہے۔"
گھوڑے نے شکاری کو اپنی پیٹھ پر بٹھا لیا تو شکاری نے کہا : ” بھائی گھوڑے ! ایک بات سنو اگر تمھیں تکلیف نہ ہوتو میں تمھارے منھ میں لگام ڈال لوں؟“
لگام سے کیا ہوگا ؟‘‘ گھوڑے نے پوچھا۔
شکاری نے کہا : ” لگام سے ہہ فائدہ ہوگا کہ جس طرف ہرن نظر آئے گا، میں اسی طرف لگام موڑ دوں گا، تم ادھر چل پڑنا۔ پھر میں اسے اپنے تیر کا نشانہ بنادوں گا۔“
گھوڑا تو ہر قیمت پر ہرن سے انتقام لینا چاہتا تھا۔ اس نے کہا: "اچھی بات ہے، تم میرے منہ میں لگام ڈال دو-‘‘
شکاری نے گھوڑے کے منہ میں لگام ڈال دی اور دونوں ہرن کی تلاش میں نکل پڑے۔ تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ ہرن نظر آیا۔ گھوڑے نے کہا : یہی ہے وہ ہرن، تم اسے مار دو۔
شکاری نے گھوڑے کو اس کے پیچھے ڈال دیا۔ گھوڑا تیز تیز دوڑنے لگا۔ دوڑتے دوڑتے وہ ہرن کے بالکل قریب پہنچ گیا۔ شکاری نے تیر چلایا۔ تیر ہرن کے سینے پر لگا۔ ہرن نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن تھوڑی دور جا کر گر پڑا۔
اب گھوڑے نے اطمینان کا سانس لیا کہ اس کا دشمن مارا گیا۔ اس نے شکاری سے کہا "بھائی شکاری! میں تمھارا احسان مند ہوں کہ تم نے میرے دشمن کا کام تمام کر دیا۔ اب تم اپنا شکار لے جا سکتے ہو۔"
شکاری نے کہا :" اس میں احسان کی کیا بات ہے۔ مجھے شکار ملا اور اس کے ساتھ ایک اور فائدہ بھی ہوا۔“
گھوڑے نے پوچھا : "کیا فائدہ؟"
شکاری نے کہا: "مجھے پہلے نہیں معلوم تھا کہ تم اتنے کار آمد ہو۔ اب پتہ چلا ہے کہ تم تو بڑے کام کے جانور ہو۔" یہ کہہ کر اس نے لگام کھینچی ۔ گھوڑا بے چارہ بے بس ہو گیا۔ کرتا تو کیا کرتا۔ شکاری گھوڑے کو بستی میں لے آیا۔ وہ دن اور آج کا دن گھوڑے کے منھ سے لگام نہیں نکلی اور گھوڑے کا کام ہی یہ ہے کہ وہ آدمی کو اپنی پیٹھ پر بٹھائے پھرتا ہے۔ اسی لیے تو کہتے ہیں کہ آپس کا لڑنا جھگڑنا ٹھیک نہیں۔"
سوچیے اور بتائیے
1. ہرن نے گھوڑے کو کیوں مارا؟
جواب: ایک بار کسی بات پر دونوں میں جھگڑا ہو گیا اور ہرن نے گھوڑے کو خوب مارا۔

2. گھوڑا ہرن سے کیوں بدلا لینا چاہتا تھا؟
جواب: ایک بار جھگڑے میں ہرن نے گھوڑے کو پیٹ پیٹ کر زخمی کردیا تھا اس لیے گھوڑا ہرن سے بدلہ لینا چاہتا تھا۔

3. شکاری سے مل کر گھوڑا کیوں خوش ہوا؟
جواب: شکاری سے مل کر گھوڑا اس لیے خوش ہوا کہ اسے لگا کہ اب وہ شکاری کی مدد سے ہرن سے بدلہ لے سکے گا۔

4. گھوڑے نے ہرن سے کس طرح بدلا لیا؟
جواب: گھوڑے نے ایک شکاری کو ہرن کا نہ صرف پتہ بتایا بلکہ اپنی ۔پیٹھ پر شکاری کو بٹھاکر اسے ہرن‌کے پاس لے گیا۔اور شکاری نے ہرن کو مار دیا۔

5. ہرن کے مارے جانے کے بعد گھوڑے نے شکاری سے کیا کہا؟
جواب: گھوڑے نے شکاری سے کہا” بھائی شکاری! میں تمہارا احسان مند ہوں کہ تم نے میرے دشمن کا کام تمام کردیا۔ اب تم اپنا شکار لے جا سکتے ہو۔“

6. شکاری نے گھوڑے کو کیا جواب دیا؟
جواب: شکاری نے گھوڑے سے کہا کہ اس میں احسان کی کیا بات ہے۔ مجھے تو ایک فایدہ اور ہوا کہ مجھے ایک کام کا جانور مل گیا۔

7. شکاری نے گھوڑے کو کام کا جانور کیوں سمجھا؟
جواب: شکاری نے گھوڑے کو کام جانور اس لیے کہا کا وہ آرام سے اس کی سواری کر سکتا تھا۔

8. آپس میں لڑنا جھگڑنا کیوں ٹھیک نہیں؟
جواب: لگام کس سجانے کے بعد گھوڑے کو اپنی بے بسی سے سمجھ آیا کہ لڑنا جھگڑنا اچھی بات نہیں۔

صحیح جملوں پر صحیح اور غلط پر غلط کا نشان لگائیے
1. ہرن اور گھوڑے میں بہت دوستی تھی۔(صحیح)
2. گھوڑا ہلکا پھلکا اور پھرتیلا تھا۔(غلط)
3. شکاری نے گھوڑے کو اپنی پیٹھ پر بٹھا لیا۔(غلط)
4. گھوڑا ہر قیمت پر ہرن سے انتقام لینا چاہتا تھا۔(صحیح)
5. آپس میں لڑنا جھگڑنا ٹھیک بات ہے۔(غلط)

نیچے لکھی ہوئی باتوں کی وجہ لکھیے۔
1. ہرن نے گھوڑے کو بہت پیٹا کیونکہ وہ ہلکا پھلکا اور پھرتیلا تھا۔
2. گھوڑے کو غصّہ اس لیے آیا کہ وہ ہرن سے بری طرح پِٹ گیا۔
3. ہرن کے مرنے کے بعد گھوڑے نے اطمنان کا سانس لیا کیونکہ اب اس کا انتقام پورا ہو چکا تھا۔
4. شکاری کے سامنے گھوڑا بے بس تھا کیونکہ شکاری نے اس کو لگام ڈال دی تھی
5. آپس میں لڑنا جھگڑنا ٹھیک نہیں کیونکہ اس سے دونوں کا ہی نقصان ہوتا ہے۔

نیچے دیے ہوئے جمع الفاظ کی واحد لکھیے
تراکیب : ترکیب
مشکلات : مشکل
فوائد : فائدہ
تکالیف : تکلیف
تجاویز : تجویز



دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Gandhi Ji - NCERT Solutions Class VI Urdu

گاندھی جی
حامد اللہ افسر
سنہ انیس سو اکیس (1921) کا ذکر ہے میں ایل ایل بی کا طالب علم تھا۔ گاندھی جی میرے وطن میرٹھ میں تشریف لائے۔ مجھے ان سے ملنے کا بڑا شوق تھا۔ آخر میری آرزو بر آئ اور مجھے ان کی خدمت میں حاضر ہو نے کا موقع مل گیا۔ باتیں کرتے کرتے گاندھی جی نے میری اچکن کی طرف اشارہ کر کے فرمایا ”دیسی کیوں نہیں پہنتے؟“
میں نے عرض کیا: ”تین چار دیسی چیزیں میں مستقل طور پر استعمال کرتا ہوں دیسی آم کھاتا ہوں ، دیسی پان کھاتا ہوں، دیسی آلو کھاتا ہوں اور دیسی شکر استعمال کرتا ہوں ، کیا یہ کافی نہیں؟“
گاندھی جی نے بڑے زور سے قہقہہ لگایا اور فرمایا :” تب تو آپ کے لیے دیسی کپڑا پہننا اور بھی آسان ہے، ایک ہی دیسی  چیز کا تو اور اضافہ ہوگا۔“
اس کے بعد متعدد بار، کئی کئی برس  کے وقفے سے مجھے گاندھی جی کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملا مگر حیرت ہے کہ ہر مرتبہ مجھے  دیکھتے ہی انھیں میری چار دیسی  چیزوں میں اپنی اسی پانچویں چیز کا خیال آ جاتا۔
انیس سو پینتالیس (1945) کا زمانہ تھا ۔ گاندهی جی مسوری پہاڑ پر بِرلا ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے تھے ۔ میں بھی اس سال مسوری گیا ہوا تھا اور گاندھی جی کی خدمت میں کبھی کبھی حاضر ہوتا رہتا تھا۔
مسوری میں ان دنوں بہت سے لداخی مزدور آئے ہوئے تھے۔ لداخ کشمیر میں ایک جگہ ہے، یہاں کے رہنے والوں کو لداخی کہتے ہیں ۔ وہ ہر سال گرمی کے موسم میں کام کی تلاش میں مسوری اور دوسرے مقامات پر آ جاتے ہیں۔ یہ سب کے سب یا ان میں سے زیادہ تر مسلمان تھے۔ بے چارے بہت غریب تھے۔ ایک پھٹے ہوئے جانگئیے اور پیوند لگے ہوئے شلوکے کے سوا ان کے بدن پر کچھ نہ ہوتا تھا۔ رات کے وقت ٹاٹ کے بورے میں لپٹ جاتے تھے۔ یہی ٹاٹ کا بورا ان کا لحاف تھا اور یہی ان کا گدّا۔ انھیں اس حالت میں دیکھ کر گاندھی جی کو بڑا ترس آیا اور انھوں نے ان کی امداد کے لیے مختلف  تجویزوں پر غور کرنا شروع کیا۔ اس سلسلے میں گاندھی جی نے ایک ایسی عمارت کی تعمیر  کی تحریک بھی شروع کی جہاں پر یہ بے چارے پہاڑی مزدور ٹھہر سکیں اور اُن سے اُس کا کرایہ نہ لیا جاۓ۔  شاید اس عمارت کے لیے ڈیڑھ لاکھ روپے کے وعدے بھی ہو گئے تھے۔
ایک دن میں بیٹھا ہوا تھا کہ یہ ذکر چلا کہ اُس عمارت کا نام کیا رکھا جائے؟  کئی نام تجویز ہوئے، مگر گاندھی جی کو کوئی نام بھی پسند نہ آیا۔ آخر فیصلہ ہوا کہ اُسے دھرم شالہ کہا جائے۔
میں نے عرض کیا : ”اُس عمارت کا نام آپ ’غریب خانہ‘ کیوں نہیں رکھتے؟“
 ایک اور صاحب وہاں بیٹھے ہوئے تھے بولے : ”’غریب خانہ‘ تو شاید اپنے ہی گھر کو کہتے ہیں؟“
میں نے کہا: ”جی ہاں، کہتے تو ہیں، لیکن اپنے گھر کوغریب خانہ محض انکساری کی وجہ سے کہتے ہیں ۔ خود کو غریب فرض کر لیتے ہیں اور اپنے گھر کو غریب خانہ قرار دیتے ہیں ، ورنہ 'غریب خانہ' کے معنی غریب کے گھر کے سوا اور کُچھ نہیں۔ “
گاندھی جی کو یہ نام پسند آیا۔ اس کے بعد مجھے معلوم نہ ہو سکا کہ وہ عمارت بنی بھی  یانہیں اور اُس کا نام "غریب خانہ‘‘ رکھا گیا یانہیں ۔
گاندھی جی بھی جھوٹ برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ستیہ گرہ آشرم میں ایک نیک چلنی اور سچائی کے قواعد بڑے سخت تھے۔ یہاں تک کہ بچّوں کو بھی اُن  کی پابندی کرنی پڑتی تھی۔ ایک دفعہ ایک نوجوان آشرم میں رہنے کے لیے آئے۔ یہ بی اے پاس کر چکے تھے۔ دستور کے مطابق گاندھی جی نے اُن کے  سپرد یہ کام کیا کہ تین مہینے تک وہ آشرم میں روزانہ جھاڑو دیا کریں۔
اُس نوجوان کو بچّوں سے بڑا اُنس تھا اور بچّے بھی اُس سے بہت مانوس تھے۔ ایک دن آشرم کی ایک آٹھ سالہ لڑکی اُس نوجوان سے ایک لیمو چھیننا چاہتی تھی ۔ وہ اُس لڑکی کے ساتھ کھیلنے لگا۔ کھیلتے کھیلتے اُسے تھکا دیا لیکن لیمو نہیں دیا۔  لڑکی تنگ آکر رو پڑی۔ اصل میں یہ لیمو آشرم کے ایک مریض کے واسطے تھا، اُس لڑکی کو کیسے دے دیا جاتا۔ جب لڑکی رونے لگی تو اُس نوجوان کی کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ اب کیا کرے؟
 آخر اُسے ایک ترکیب سوجھی ۔ اُس نے لیمو ہاتھ میں لے کر زور سے اپناہاتھ ہلایا اور یہ ظاہر کیا کہ جیسے لیمو کو سابر متی ندی میں پھینک دیا ہو، مگر اصل میں ایسا نہیں کیا تھا، بلکہ لیمو اپنی جیب میں رکھ لیا تھا۔ اب لڑکی کا دھیان ندی کی طرف گیا اور کہنے لگی ”میں لیمو کو ندی  سے نکال  لاؤں، کنارے ہی پرتو ہوگا؟“
نوجوان نے جواب دیا ”لیمو ندی میں ڈوب گیا، اب تم اسے نہیں نکال سکتیں۔“ بات آئی گئی ہوئی۔ دونوں باتیں کرتے ہوئے آگے بڑھے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ مریض کے کمرے کی طرف جاتے ہوئے اس نوجوان نے اپنی جیب سے رومال جو نکالا اس کے ساتھ لیمو بھی جیب سے نکل کر زمین پر گر پڑا۔ لڑکی ہکّا بکّا رہ گئی اور نفرت سے نوجوان کی طرف دیکھ کر بولی: ”اچھا آپ نے مجھ سے جھوٹ بولا،لیمو آپ نے جیب میں رکھ لیا تھا اور مجھ سے کہہ دیا کہ میں نے ندی میں پھینک دیا۔ آشرم میں رہ کر آپ نے اتنی بری بات کی۔ میں باپو سے کہوں گی کہ آپ جھوٹ بولتے ہیں۔“
یہ کہہ کر وہ بھاگی اور سیدھی گاندھی جی کی خدمت میں پہنچی اور ان سے کہہ دیا کہ فلاں آدمی نے اس طرح جھوٹ بولا۔ گاندھی جی نے کہا:”ہم معلوم کریں گے کہ کیا بات ہے اور کیوں انھوں نے جھوٹ بولا؟“
شام کو دعا کے بعد گاندھی جی نے اس نوجوان کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ”کیا بات تھی؟“اس نے سارا قصہ سنا دیا اور کہا”یہ سب مزاق تھا۔“
گاندھی جی نے مسکرا تے ہوئے اس سے کہا:”دیکھو!آئندہ سے اس بات کا خیال رکھو کہ بچّوں سے مزاق میں بھی جھوٹ نہ بولو۔ “                                                          
سوچیے اور بتائیے
1. گاندھی جی کہاں تشریف لے گئے تھے؟
جواب: گاندھی جی میرٹھ تشریف لے گئے تھے۔

2. گاندھی جی نے اچکن کی طرف اشارہ کرکے کیا فرمایا؟
جواب: گاندھی جی نے اچکن کی طرف اشارہ کرکے فرمایا''دیسی کیہں نہیں پہنتے۔''

3.گاندھی جی نے قہقہہ کیوں لگایا؟
جواب: گاندھی جی نے مصنف کی اس بات پر قہقہہ لگایا کہ وہ چار دیسی چیزیں، دیسی آم، دیسی پان، دیسی آلو اور دیسی شکر استعمال کرتا ہے تو کیا پانچویں چیز دیسی اچکن بھی استعمال کرنا ضروری ہے۔

4. گاندھی جی مسوری میں کس جگہ ٹھہرے ہوئے تھے؟
جواب: گاندھی جی مسوری پہاڑ پر برلا ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے تھے۔

5. لداخی مزدور گرمی کے موسم میں مسوری کس لیے آتے ہیں؟
جواب: لداخی مزدور ہر سال کام کی تلاش میں مسوری آجاتے ہیں۔

6.لداخی مزدوروں پر گاندھی جی کو کیوں ترس آیا؟
جواب: لداخی مزدوروں پر گاندھی جی کو اس لیے ترس آیا کہ یہ بے چارے بہت غریب تھے۔ایک ذھٹے ہوئے جانگیے اور پیوند لگے ہوئے شلوکے کے سوا آن کے بدن پر کچھ نہ ہوتا تھا۔رات کے وقت وہ ٹاٹ کے بورے میں لپٹ جاتے۔یہی بورا ان کا لحاف بھی تھا اور ان کا گدا بھی۔

7. ''غریب خانہ" کس کو کہا جاتا ہے؟
جواب: اپنے ہی گھر کو انکساری کی وجہ سے غریب خانہ کہتے ہیں۔

8.ستیہ گرہ آشرم میں کن قواعد کی پابندی ہوتی تھی۔
جواب: ستیہ گرہ آشرم میں نیک چلنی اور سچائی کے قواعد بڑے سخت تھے۔چھوٹے بڑے کب کو اس پر عمل کرنا پڑتا تھا۔

9.بچی کو نوجوان کیا واقعی دھوکہ دینا چاہتا تھا
جواب: نہیں وہ صرف اسے بہلانا چاہتا تھا۔ اور یہ سب محض ایک مذاق تھا۔

خالی جگہ کو صحیح لفظ سے بھریے
1. مجھے ان سے ملنے کا بڑا شوق تھا۔
2. تین چار دیسی چیزیں۔مستقل طور پر استعمال کرتا ہوں۔
3. گاندھی جے نے بڑے زور سے قہقہہ لگایا۔
4.مسوری میں ان دنوں بہت سے لداخی مزدور کام کی تلاش میں آئےہوئے تھے۔
5. وہ ہر سال گرمی کے موسم میں کام کی تلاش میں مسوری اور دوسرے مقامات پر آجاتے ہیں۔
6. انھیں اس حالت میں دیکھ کر گاندھی جی کو بڑا ترس آیا۔
7. آخر فیصلہ ہوا کہ اسے غریب خانہ کہا جائے۔

دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Lalach - NCERT Solutions Class VIII Urdu

لالچ
 رام آسرا راج
Courtesy NCERT
سوچیے اور بتائیے:
1. مشکوب کو اجنبی مسافر پر کیوں رحم آیا؟
جواب: مشکوب کو مسافر پر رحم آگیا اس لیے کہ وہ ایک لمبا سفر طے کر کے آیا تھا اور وہ پیاسا اور بہت ہی تھکا ہوا تھا۔

2. مسافر نے مشکوب کو کیاہدایت دی؟
جواب: مسافر نے مشکوب ایک کتاب دیتے ہوئے ہدایت کی کہ اس میں دوا کی تیاری کا نسخہ اور طریقہ درج ہے اس پر عمل کیجیے اور یاد رکھیے کہ کسی بھی غریب آدمی سے دوا کی قیمت نہ لیجیے ورنہ دوا کا اثر جاتا رہے گا۔ 

3. مشکوب حکیم مشکوب کیسے بنا؟
جواب: مسافر نے مشکوب کو نسخہ کی کتاب دی جس سے دوا بناکر وہ لوگوں کو دوائیں دینے لگا۔اس طرح وہ مشکوب سے حکیم مشکوب بن گیا۔

4. دواؤں کا اثر کیوں زائل ہوگیا؟
جواب: مشکوب نے ایک نہایت غریب آدمی سے اس کے بچّے کے علاج کے لیے پیسہ طلب کیا اور بڑی منت سماجت کے بعد بھی اسے فت میں دوا نہ دی جس کی وجہ سے دواؤں کا اثر زائل ہوگیا۔

5. سانڈنی سوار نے مشکوب کو اپنے بارے میں کیا بتایا؟
جواب: سانڈنی سوار نے مشکوب سے کہا کہ میں ایک بے یار و مددگار مسافر ہوں، رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے، اندھیرا چھانے کو ہے۔ ایک رات کے لیے مجھے اپنے گھر ٹھرنے کی اجازت دے دیں۔

6. قیمتی کتاب پتھر میں کیوں تبدیل ہو گئی؟
جواب: مشکوب نے مسافر کی بات نہ مانی اور خود اکیلے ہی سونا بنانے کی ٹھانی اس لیے اس کی قیمتی کتاب پتھر میں تبدیل ہو گئی۔

7. مسافر نے مشکوب سے گڑگڑاکر کیا کہا؟
جواب: مسافر نے گڑگڑاکر کہا کہ میں بھوکا پیاسا ایک بے یار و مددگار شخص ہوں مجھے ایک رات اپنے گھر میں ٹھہرنے کی جگہ دے دو۔

8. بو علی سینا کون تھے اور انہوں نے مشکوب سے کیا کہا۔
جواب: بوعلی سینا ایک نامی طبیب تھے انہوں نے کہا کہ میری زندگی غریبوں اور محتاجوں کے لیے وقف ہے۔ مگر تمہاری سنگ دلی نےمیری محنت پر پانی پھیر دیا اور دو قیمتی کتابوں کو پتھر بنا دیا۔ اب یہ پتھر قیمتی کتابوں میں اس وقت تک نہیں بدل سکتے جب تک تم جیسے سنگ دل لوگ اپنی زندگی غریبوں اور محتاجوں کی بھلائی کے لیے وقف نہ کر دیں۔ جو بھی شخص ایسا کرے گا اس کے دل کی گرمی ان پتھروں کو پگھلا سکے گی۔ علم ور عقل سونے سے نہیں خریدے جا سکتے بلکہ سونا حاصل کرنے کے لیےعلم اور عقل کے ساتھ ساتھ درد مند دل بھی پیدا کرنا پڑتا ہے۔ یہ کہہ کر بو علی سینا نظروں سے اوجھل ہو گئے۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے:
مجرب : مسافر نے مشکوب کو مجرب نسخہ دیا۔
بادلِ ناخواستہ : مشکوب نے بادل ناخواستہ مسافر کی بات مان لی۔
کیمیاگری : مسافر نے مشکوب کو کیمیا گری سکھائی۔
مربی : وہ اس بچّے کا مربی بن گیا۔
جمع پونجی : ساری جمع پونجی ختم ہو گئی۔
اوجھل : مسافر نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
مسکین : وہ ایک مسکین و نادار شخص تھا۔

ان لفظوں کے متضاد لکھیے:
تندرست : بیمار
اجنبی : جاننے والا
خوش حال : بدحال
مستحق : غیر مستحق
نادار : حقدار 
محاوروں کو جملےمیں استعمال کیجیے:
عقل پر پردہ پڑجانا : میری عقل پر پردہ پڑگیا تھا کہ میں اس کی باتوں میں آگئی۔
نشہ ہرن ہونا  : شیر کو دیکھ کر اس کا نشہ ہرن ہوگیا۔ 
پتھر پگھلانا  :  کلاس ٹیچر کو منانا پتھر پگھلانے جیسا ہے۔ 
تھک کر چور ہونا  : امتحان کی تیاری میں طسلبات تھک کر چور ہو گئیں۔ 
صحیح جملے پر صحیح اور غلط پر غلط کا نشان لگائیے:

پیشے کی نسبت سے لوگ اسے مشکوب کہہ کر پکارتے تھے۔(صحیح)
مشکوب کو اجنبی مسافر پر رحم آگیا(صحیح)
مسافر نے مشکوب کو مجرب نسخہ نہیں دیا۔(غلط)
نسخہ پاکر بھی مشکوب سڑکوں پر پانی بیچتا رہا۔(غلط)
مشکوب کی دوائیں اثر والی نہیں تھیں۔(غلط)
لوگ مشکوب کے نام سے مخاطب کرنے لگے۔(صحیح)
ایک دن ایک غریب آدمی اپنے بیمار بچے کی دوا لینے آیا۔(صحیح)
مشکوب کی نسخے والی کتب غائب ہوگئی۔(صحیح)
اجنبی مسافر بوعلی سینا تھے۔(صحیح)

پڑھیے، سمجھیے اور لکھیے:

’’مسافر‘‘ کا مطلب ہے ''سفر کرنے والا‘‘ یہ اسم فاعل ہے یعنی ایسا اسم جس سے کسی کام کے کرنے کا پتہ چلے’’اسمِ فاعل‘‘ کہلاتا ہے۔ درج ذیل کواسمِ فاعل میں بدل کر لکھیے۔
طلب کرنے والا : طالب
شعر کہنے والا : ۔شاعر
شکر ادا کرنے والا : شاکر
عبادت کرنے والا  : عابد
حفظ کرنے والا : حافظ
کلک برائے دیگر اسباق

Yeh Hai Mera Hindustan - NCERT Solutions Class VIII Urdu

یہ ہے میرا ہندوستان
زبیر رضوی
سوچیے اور بتائیے
1. شاعر اس گیت میں کیا کہنا چاہتا ہے؟
جواب: شاعر اس گیت میں اپنے وطن ہندوستان کی خوبیاں بیان کر رہا ہے۔

2. اس نظم میں شاعر نے کن قدرتی مناظر کا ذکر کیاہے؟
جواب: اس نظم میں شاعر نے الگ الگ موسموں کا ذکر کیا ہے جیسے بارش ہونا، ہوا چلنا، گنگا اور نہروں کی دلکش آواز اور دھرتی پر لہراتے کھیتوں کا بھی ذکر کیا ہے۔

3. غالب کون تھے؟
جواب: غالب ایک مشہور شاعر تھے۔ وہ جتنے بڑے مفکر تھے اس سے بھی بڑے شاعر تھے۔ غالب کو نظم اور نثر دونوں پر یکساں قدرت حاصل تھی۔

4. گوتم بدھ کو کس بات کا احساس ہوا تھا؟
جواب: گوتم بدھ کو سچائی کا احساس ہوا تھا۔

5. اس بند کا مطلب آسان زبان میں لکھیے
ہنستا گاتا جیون اس کا دھوم مچاتے موسم
گنگا جمنا کی لہروں میں سات سروں کا سرگم
تاج ایلورا جیسے سُندرتصویروں کے البم
       یہ ہے میرا ہندوستان


جواب: اس بند میں شاعر نے ہندوستان کی خوبصورتی بیان کی ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ یہاں لوگوں کی زندگی ہنستی کھیلتی ہے۔ یہاں کے موسم خوشگوار ہیں اور یہاں گنگا جمنا کی لہریں سنگیت کے سروں پر رقص کرتی ہیں۔ اس بند میں تاج محل اور ایلورہ کو خوبصورت تصویروں کے البم سے تشبیہ دی گئی ہے۔

مصرعے مکمل کیجیے
غالب اور ٹیگور یہیں کے میرا کالی داس
یہیں ہوا تھا سچائی کا گوتم کو احساس
یہیں لیا تھا ساتھ رام کے سیتا نے بن باس
یہ ہے میرا ہندوستان

واحد سے جمع اور جمع سے واحد بنائیے
سُروں  : سُر 
کھیتی  : کھیتیاں 
لہروں  : لہر 
تصویر  : تصاویر 
پریاں  : پری 
کلک برائے دیگر اسباق

Shabnam - NCERT Solutions Class VIII Urdu

شبنم
روش صدیقی

سوچیے اور بتائیے
1.شاعر کو کن کن چیزوں پر شبنم کا گمان ہوتا ہے؟
جواب: شاعر کو تاروں،موتیوں ،ہیروں اور آنسوؤں پر شبنم کا گمان ہوتا ہے۔

2. شبنم کو رات کے آنسو کیوں کہا گیا ہے؟
جواب: کیوں کہ رات کے آخری پہر میں شبنم کے قطرے نظر آتے ہیں۔

3. زمین نے شبنم کے بارے میں کیا کہانی سنائی؟
جواب: زمین نے شبنم کے بارے میں یہ کہانی سنائی کہ جب ستاروں کا جھرمٹ رات کے پچھلے پہر اپنے گھر جاتا ہے تو اپنی ہنسی کے موتی بکھیرتا جاتا ہے جسے صبح سویرے سورج اپنے پلکوں سے چن لیتا ہے۔

4. کہکشاں پچھلے پہر لاکھوں گوہر پھینکتی جاتی ہے، یہ لاکھوں گوہر کیا ہیں؟
جواب: یہ لاکھوں گوہر شبنم کے قطرے ہیں۔

5. خورشید کی پلکوں سے کیا چنا جا رہا ہے؟
جواب:خورشید کی پلکوں سے شبنم کے قطرے چنے جاتے ہیں۔ شبنم کے قطروں کے چنے جانے کا مطلب ہے سورج کی گرمی سے ان غائب ہونا ہے۔

6. شبنم اور گوہر کا آپس میں کیا تعلق ہے؟
جواب: شاعر کی نظر میں موتی اور شبنم ایک ہی طرح کی دو چیزیں ہیں۔

7.شبنم کے علاوہ اور کس کس کو اپنا وطن پیارا ہے؟
جواب: باغ کے پھولوں کو چمن، بن میں کھلنے والی کلیوں کو اپنا بن اسی طرح شبنم کو اپنا وطن پیارا ہے۔ یعنی ہر شخص کو اپنا وطن پیارا ہے۔

8. شبنم کو زمین کے دامن میں ہی سکون کیوں ملتا ہے؟
جواب: شبنم کو زمین کے دامن میں ہی سکون ملتا ہے اس لیے کہ اسے بھی اپنا وطن پیارا ہے۔

مصرعوں کو مکمل کیجیے:
کیا یہ تارے ہیں زمیں پر جو اتر آئے ہیں
یا وہ موتی ہیں کہ جو چاند ے برسائے ہیں
نہ بہت دور پہنچ جائے مری بات کہیں
اپنے آنسو تو نہیں بھول گئی رات کہیں

نیچے دیے ہوئے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے
دیے : منڈیروں پر دیے جل رہے تھے۔
شبنم(اوس) : پتوں پر شبنم کے قطرے ہیں۔
صحرا(جنگل) : وہ صحرا میں پیاسا گھوم رہا تھا۔
کہکشاں(ستاروں کا جھرمٹ) : آسمان میں کہکشاں بکھری ہوئی تھی۔
جل ترنگ : جلترنگ بج رہی تھی۔
خورشید(سورج/آفتاب) : وہ مثل خورشید چمک رہا تھا۔
کلک برائے دیگر اسباق

Diwali Ke Deep Jale Class 8 NCERT


دیوالی کے دیپ جلے
رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری

نئی ہوئی پھر رسم پرانی، دیوالی کے دیپ جلے 
شام سلونی رات سہانی دیوالی کے دیپ جلے 

دھرتی کا رس ڈول رہا ہے دور دور تک کھیتوں کے
 لہرائے وہ آنچل دهانی دیوالی کے دیپ جلے

 نرم لوں نے زبانیں کھولیں پھر دنیا سے کہنے کو
بے وطنوں کی رام کہانی دیوالی کے دیپ جلے

 آج منڈیروں سے گھر گھر کی نور کے چشمے پھوٹ پڑے
 پگھلے شعلوں کی یہ روانی، دیوالی کے دیپ جلے

 جلتے دیپک رات کے دل میں گھاؤ لگاتے جاتے ہیں 
شب کا چہرہ ہے نورانی، دیوالی کے دیپ جلے

چھیڑ کے ساز نشاط چراغاں آج فراق سناتا ہے 
غم کی کتھا خوشی کی زبانی دیوالی کے دیپ جلے

سوچیے اور بتائیے:
1. دھانی آنچل کے لہرانے سے کیا مراد ہے؟
جواب: دھانی آنچل سے مراد کھیتوں میں دور تک سبزہ لہرانا ہے۔

2. چراغ کی لویں دنیا سے کیا کہہ رہی ہیں؟
جواب: چراغ کی لویں دنیا سے بے وطنوں کی کہانی بیان کر ہی ہیں۔

3.منڈیروں سے نور کے چشمے کس طرح پھوٹتے ہوئے لگ رہے ہیں؟
جواب: منڈیروں پر چراغ روشن ہیں جس سے کہ نور کی کرنیں نکل رہی ہیں۔

4.رات کے دل میں گھاؤ لگنے سے کیا مراد ہے؟
جواب: رات کے دل میں گھاؤ لگنے سے مراد جلتے ہوئے دیپک کی روشنی سے تاریکی کا خاتمہ ہونا ہے۔ شاعر دیپک سے روشنی ہونے کو رات کے دل کا زخم قرار دیتا ہے۔

5. شاعر غم کی کتھا کیوں سنا رہا ہے؟
جواب: شاعر غم کی کتھا اس لیے سنا رہا ہے کہ ہر طرف دیوالی کا چراغاں ہے اور وہ اپنے وطن سے دور ہے۔

مصرعوں کو مکمل کیجیے
1. لہرائے وہ آنچل دھانی دیوالی کے دیپ جلے
2. آج منڈیروں سے گھر گھر کی نور کے چشمے پھوٹ پڑے
3.چلتے دیپک رات کےدل میں گھاؤ لگاتے جاتے ہیں
4. پگھلے شعلوں کی یہ روانی، دیوالی کے دیپ جلے
5. چھیڑ کے ساز نشاط چراغاں آج فراق سناتا ہے

نیچے دیے ہوئے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے۔
رسم(رواج): دیوالی کے دیپ جلنے سے پرانی رسم نئی ہو گئی۔
سلونی(سانولی): دیوالی کی شام سلونی اور سہانی ہے۔
منڈیر: منڈیر پر دیپ جل رہے ہیں۔
نور(روشنی): چاروں جانب نور پھیل گیا۔
روانی(بھراؤ): دریا روانی سے بہہ رہا ہے۔
نورانی(روشنی): بزرگ کا چہرہ نورانی تھا۔

ان لفظوں کے متضاد لکھیے
شب : روز
پرانی : ۔نئی
نور : ۔تاریکی
نشاط : رنج
غم : خوشی
املا درست کیجیے
نشات : نشاط
صاز : ساز
بے وتن : ۔بے وطن
ثلونی : سلونی
چراگاں : ۔چراغاں

عملی کام:

دیوالی کے موضوع پر اور بھی کئی شاعروں نے نظمیں لکھی ہیں۔ اسکول کی لائبریری سے کتاب لے کر نظیر اکبرآبادی کی نظم دیوالی پڑھیے اورلکھیے۔  دیوالی کارڈ بنا کر اس میں رنگ بھریے۔

پڑھے اور سمجھیے: 
اکرم نے پوچھا : میں نے پوچھا
اکرم کو روٹی دی : مجھے روٹی دی
بے وتن : ۔بے وطن
اکرم کا سر پھٹ گیا : میرا سر پھٹ گیا

اوپر کے جملوں میں خط کشیدہ الفاظ ترتیب وار فاعلی ، مفعولی یا اضافی حالت میں ہیں۔ پہلے کالم میں یہ اسم ہیں دوسرے میں ضمیر۔ حالات کی تبدیلی سے اسم میں تبدیلی نہیں ہوتی لیکن ضمیر میں تبدیلی ہوگئی۔

غور کرنے کی بات 
 دیوالی خوشیوں کا تہوار ہے لیکن خوشی اور غم کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے ۔ خوشی کے موقعے پر کچھ محرومیاں اور ناکامیاں بھی یاد آجاتی ہیں وہ انسان کو غم زدہ  کردیتی ہیں۔ اس نظم میں بیان کی خوشی کے ساتھ ساتھ غم کی یہی کیفیت ظاہر کی گئی ہے۔

اس نظم کے شاعرفراق گورکھپوری کی سوانح حیات پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

کلک برائے دیگر اسباق

Gul e Abbas - NCERT Solutions Class VIII Urdu

گلِ عباس
غلام عباس
Courtesy NCERT

میں ایک چھوٹے سے کالے کالے نی میں رہتا تھا۔ یہی میرا گھر تھا۔ اس کی دیوار میں خوب مضبوط تھیں اور مجھے اس کے اندر کسی کا ڈر نہ تھا۔ یہ دیواریں مجھے سردی سے بھی بچاتی تھیں اور گرمی سے بھی۔ کچھ دن تو میں ادھر ادھر رہا لیکن میرا گھر کالی مٹی میں دبا دیا گیا کہ کوئی اٹھا کر پھینک نہ دے اور میں کسی شریر لڑکے کے پاؤں تلے نہ آ جاؤں۔ زمین کی مدھم گرمی مجھے بہت اچھی لگتی تھی اور میں نے سوچا تھا کہ بس اب میں ہمیشہ مزے سے یہیں رہوں گا ،مگر میرے کان میں اکثر میٹھی میٹھی سریلی سی آواز آتی تھی ۔ میں ٹھیک سے نہیں کہہ سکتا کہ آواز کدھر سے آتی تھی مگر میں سمجھتا ہوں کہ اوپر سے آتی تھی۔ یہ آواز مجھ سے کہا کرتی تھی کہ ”اس گھر سے نکل، بڑھ روشنی کی طرف چل“ لیکن میں زمین میں اپنے گھر کے اندر ایسے مزے سے تھا کہ میں نے اس آواز کے کہنے پر کان نہ دھرا اور جب اس نے بہت پیچھا کیا تو میں نے صاف کہہ دیا کہ : ”نہیں۔ میں تو یہیں رہوں گا۔بڑھنے اور گھر سے نکلنے سے کیا فائدہ۔ یہیں چین سے سونے میں مزہ ہے۔ یہیں! میں تو یہیں رہوں گا۔“
یہ آواز بند نہ ہوئی۔ ایک دن اس نے ایسے پر اثر انداز سے مجھ سے کہا: ”چلو روشنی کی طرف چلو“ کہ مجھے پھر پری سی آ گئی اور مجھ سے نہ رہا گیا۔ میں نے سوچا کہ اس گھر کی دیواروں کو توڑ کر باہر نکل ہی آؤں مگر دیواریں مضبوط تھیں اور میں کمزور۔ اب جب وہ آواز مجھ سے کہتی کہ ”بڑ ھے چلو“ تو میں پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جاتا تھا اور مجھے معلوم ہوتا تھا کہ میں بہت طاقتور ہوگیا ہوں ۔ آخر کو اللہ کا نام لے کر جو زور لگایا تو دیوار ٹوٹ گئی اور میں ہرا کلّہ بن کر نکل آیا۔ اس دیوار کے بعد زمین تھی ، مگر میں نے ہمت نہ ہاری اور اس کو بھی ہٹا دیا۔ اب میں نے اپنی جڑوں کو نیچے بھیجا کہ خوب مضبوطی سے جگہ پکڑ لیں۔ آخر کو ایک دن میں زمین کے اندر سے نکل ہی آیا اور آنکھیں کھول کر دنیا کو دیکھا۔ کیسی خوبصورت اور اچھی جگہ ہے۔
کچھ دنوں بعد تو خوب ادھر ادھر پھیل گیا اور ایک دن اپنی کلی کا منہ جو کھولا تو سب لوگ کہنے لگے:” دیکھو یہ کیا خوبصورت لال لال گلِ عباس ہے۔ میں نے بھی جی میں سوچا کہ اس تنک گھر کو چھوڑا تو اچھا ہی ہے۔ آس پاس اور بہت سے گُلِ عباس تھے۔ میں ان سے خوب باتیں کرتا اور ہنستا بولتا تھا۔ دن بھر ہم سورج کی کرنوں سے کھیلا کرتے تھے اور رات کو چاندنی سے ۔ ذرا آنکھ لگتی تو آسمان کے تارے آ کر ہمیں چھیڑ تے تھے اور اٹھا دیتے۔ افسوس! یہ مزے زیادہ دن نہ رہے۔ ایک دن صبح ہمارے کان میں ایک سخت آواز آئی۔” گل عباس چاہیے، ہیں گلِ عباس“ ”اچھا جتنے چاہے لے لو۔“ ہمارے سمجھ میں یہ بات کچھ نہ آئی اور ہم حیرت ہی میں تھے کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ اور ارادہ کر رہے تھے کہ ذرا چل کر اپنے دوست ستاروں سے کہیں کہ دوڑو! ہماری مدد کرو، یہ کیسا معاملہ ہے۔ اتنے میں کسی نے قینچی سے ہمیں ڈنٹھل سمیت کاٹ لیا اور ایک ٹوکری میں ڈال دیا۔
اب یاد نہیں کہ اس ٹوکری میں کتنی دیر پڑے رہے۔ وہ تو خیر ہوئی کہ میں اوپر تھا نہیں تو گھٹ کر مر جاتا۔ شاید میں سو گیا ہوں گا، کیونکہ جب میں آٹھا ہوں تو میں نے دیکھا پانچ چھ اور ساتھیوں کے ساتھ مجھے بھی ایک خوبصورت تاگے سے باندھ کر کسی نے گلدستہ بنایا ہے۔ آس پاس نظر ڈالی تو نہ باغ کی روشیں تھیں، نہ چڑیوں کا گانا ۔ سڑک کے کنارے ایک چھوٹی سی میلی کچیلی دکان تھی۔ ہزاروں آدمی ادھر ادھر آ جا رہے تھے۔ یکے گاڑیاں شور مچا رہی تھیں ۔ فقیر بھیک مانگ رہے تھے اور کوئی ایک پیسہ نہ دیتا تھا۔ میرا جی ایسا گھبرایا کہ کیا کہوں ۔ ستاروں کوڈھونڈا تو ان کا پتہ نہیںں، چاند کو تلاش کیا تو وہ غائب ۔ سورج کی کرنیں بھی سڑک تک آ کر رک گئی تھیں اور میں پکارتے پکارتے تھک گیا کہ:” مجھے جانتی ہو؟ روز ساتھ کھیلتی تھیں ، ذرا پاس آؤ اور بتاؤ کہ یہ معاملہ کیا ہے؟“ مگر وہ ایک نہ سنتی تھیں ۔ شام ہونے کو آئی تو ایک خوبصورت لڑکی دکان کے پاس سے گزری ۔ ہماری طرف دیکھا۔ پھولوں والے نے مجھے اور میرے ساتھیوں کو اس زور سے جھٹکا دے کر لڑکی کے سامنے رکھا کہ میری اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی۔
پھولوں والوں نے کہا: ”بیٹی ! دیکھو کیسے خوبصورت گلِ عباس ہیں۔ ایک آنے میں گلدستہ، ایک آنے میں ۔“
لڑکی نے اکنّی دی اور ہمیں ہاتھ میں لے لیا۔ اس کے ہاتھ ایسے نرم نرم تھے کہ یہاں آ کر جان میں جان آئی ۔ لیکن تھوڑی دیر بعد شاید میں بے ہوش ہو گیا۔ اصل بات یہ تھی کہ پانی نہیں ملا تھا اور پیاس بہت لگی تھی۔ لڑکی نے شیشے کے ایک گلدان میں پانی بھر کر ہمیں پلایا تو ذرا طبیعت ٹھیک ہوئی اور میں نے سر اٹھا کر ادھر ادھر دیکھا۔ اب میں ایک صاف کمرے میں تھا۔ جس میں کئی بستر لگے ہوئے تھے۔ ایک طرف سے ایک بیمار لڑکی کی آواز سنائی دی: ”ڈاکٹر صاحب ! کیا میں اچھی نہیں ہوں گی، کیا اب میں کبھی چل پھر نہ سکوں گی؟ کیا کبھی باغ میں کھیلنے نہ جا سکوں گی۔ اور کیا اب کبھی گل عباس دیکھنے کو نہ ملیں گے؟“ یہ کہتے کہتے بچّی کی ہچکی بندھ گئی۔ آنکھوں سے آنسو پونچھ کر کروٹ لی تو اس کو میں اور میرے ساتھی گلدان میں رکھے ہوئے دکھائی دیے۔ لڑکی خوشی سے تالیاں بجانے  لگی۔ پاس جو نرسں کھڑی تھی اس نے ہمیں اٹھا کر اس لڑکی کے ہاتھ میں دے دیا۔ اس پیاری بچّی نے ہمیں چوما۔
اس کے گورے گورے گالوں میں ہماری سرخی کی ذرا سی جھلک آگئی۔
اس وقت سمجھ میں آیا۔ بیج کا گھر چھوڑ کر روشنی کی طرف بڑھنے کی غرض یہی تھی کہ ایک دکھیاری بیمار بچّی کو کم سے کم تھوڑی دیر کی خوشی ہم سے مل جائے۔

معنی یاد کیجیے
گل عباس : ایک قسم کا پھول جن میں سے کچھ خاص سرخ، چھ گلانی، کچھ زرد اور کچھ پانچ رنگ اسے گل عباسی بھی کہتے ہیں
مدھم : دهیما، آہستہ
سریلی : مدھر آواز ، ایسی آواز جس میں شر ہو
پھریری : جھرجھری
ہرا کِلّہ : ہری کونپل
روشیں : روش کی جمع ، کیاریوں کے درمیان کا راستہ، پگڈنڈی
اکنّی : ایک آنہ، ایک لہ جو چار پیسے کے برابر ہوتا تھا۔
سوچیے اور بتائیے

1. گل عباس کا گھر کیسا تھا؟
جواب:ایک چھوٹا کالا سا بیج گلِ عباس کا گھر تھا۔جو بہت مضبوط تھا اور اسے سردی و گرمی سے بچاتا تھا۔

2.گل عباس کا نیا گھر کیسا تھا؟
جواب: گلِ عباس کا نیا گھر بڑا ہی دلکش تھا۔وہاں اس دوست تھے۔کھلا آسمان تھا۔ ٹھنڈی ہوائیں تھیں اور رات میں تاروں برا آسمان تھا۔

3. گل عباس نے بیج کی دیوار کس طرح توڑی؟
جواب:گل عباس کو جب بھی آواز آتی اسگھر سے نکل اور روشنی کی طرف بڑھ تو اس کی ہمت بڑھ جاتی۔آواز کہتی بڑھے چلو تو وہ پہلے سے اور زیادہ مضبوط ہوجاتا یہاں تک کہ ایک دن وہ زمین سے نکل آیا۔

4. باغ سے نکلنے کے بعد گل عباس پر کیا گزری؟
جواب:باغ سے نکلنے کے بعد اس کے ساتھ بدسلوکی کا دور شروع ہوگیا۔ اسے کسی نے قینچی سے ڈنٹھل سمیت کاٹ دیا اور ایک ٹوکری میں ڈال دیا۔ پھر ایک خوبصورت دھاگے سے باندھ کر اس کا گلدستہ بنا دیا گیا۔

5. گل عباس کو لڑکی کے پاس پہنچ کر کیا محسوس ہوا؟
جواب: گل عباس کو لڑکی کے پاس پہنچ کر سکون ملا۔ اس لڑکی کے ہاتھ اتنے نرم تھے کہ گل عباس کے جان میں جان آئی۔

6. ڈاکٹر سے باتیں کرتے کرتے لڑکی کی ہچکی کیوں بندھ گئی؟
جواب:'اکٹر سے بات کرتے کرتے لڑکی کی ہچکی بندھ گئی کہ اب وہ کبھی باغ میں نہیں جا سکے گی اور وہ اب کبھی گل عباس کو نہیں دیکھ سکے گی۔

7. بیمار لڑکی کے خوش ہنے کی کیا وجہ تھی؟
جواب: جب اس لڑکی نے کروٹ لی تو اس نے دیکھا کہ گلِ عباس اور اس کے ساتھی گلدان میں سجے ہیں۔یہ دیکھ کر وہ خوش ہوگئی۔

8. گل عباس کے ساتھ بیمار بچی نے کیسا سلوک کیا؟
جواب:بیمار بچی نے گل عباس کو اٹھاکر چوما جس سے اس کے چہرے پر رونق آگئی۔

خالی جگہ کو صحیح لفظ سے بھریے
1. میں ایک چھوٹے سے کالے بیج میں رہتا تھا۔
2.دیواریں مجھے سردی سے بھی بچاتی تھیں اور گرمی سے بھی۔
3. دن بھ ہم سورج کی کرنوں سے کھیلا کرتے تھے۔
4. شام ہونے کو آئی تو ایک خوبصورتلڑکی دکان کے سامنے سے گزری۔
5. اس کے ہاتھ ایسےنرم نرم تھے کہ یہاں آکر جان میں جان آئی۔

صحیح جملوں کے سامنے صحیح (üاور غلط کے سامنے غلط (X کا نشان لگائیے
1. ایک کالا کالا سا بیج ہی گل عباس کا گھر تھا۔(ü)
2. گل عباس کو دنیا بڑی خوبصورت اور اچھی لگی۔(X)
3. گل عباس کا رنگ پیلا ہوتا ہے۔(X)
4. پھولوں والوں نے کہا بیٹی دیکھو کیسے خوبصورت گل عباس ہیں۔(ü)
5. فقیر بھیک مانگ رہے تھے اور کوئی ایک پیسہ نہ دیتا تھا۔(ü)
6. شام کو ایک بدصورت لڑکی دکن کے پاس سے گزری۔(X)
7. لڑکی خوشی سے تالیاں بجانے لگی۔(ü)
8.اس پیاری بچی نے ہمیں باہر پھینک دیا۔(X)

عملی کام
* گلِ عباس کی کہانی کا خلاصہ اپنے لفظوں  میں لکھیے۔
* جن پھولوں کے نام سے آپ واقف ہیں ان کی ایک فہرست بنائے اور اس کے علاوہ دوسرے پھولوں کے بارے میں بھی
واقفیت حاصل کیجیے۔

پھولوں سے متعلق مکمل تفصیلات کے لیے آئینہ کا ”داستانِ گُل“ سیکشن دیکھیں۔

 پڑھیے سمجھیے اورلکھیے۔
چور چلا گیا۔
اجنبی ہانپ رہا تھا۔
 سورج نکلا ۔
ان جملوں میں چور، اجنبیی اور سورج فاعل ہیں۔ چلا گیا، ہانپ رہا تھا اور نکلا فعل ہیں ۔ ان جملوں میں مفعول نہیں ہے۔ اس کے باوجود ان جملوں کا مطلب سمجھ میں آتا ہے۔ ایسے جملوں کے فعل کو فعل لازم کہتے ہیں۔ ایسے فعل جو فاعل کے ساتھ مل کر پورا مطلب بتادے اسے فعل لازم کہتے ہیں۔ سونا، بیٹھنا، دوڑنا، ہنسنا، رونا، آنا اور جانا سے جوفعل بنتے ہیں وہ فعل لازم ہوتے ہیں۔

 غور کرنے کی بات
*  آج کی دنیا میں رہنے والے دکھوں اور تکلیفوں سے گھرے ہوئے ہیں ، چند لمحوں کی خوشیاں بھی آسانی سے میسر نہیں ہوپاتیں۔
*  اس سبق کا مرکزی خیال یہ ہے گل عباس اپنے وجود سے ایک دکھیاری بچی کو کم سے کم تھوڑی دیر کی خوشی تو دیتا ہے۔ اس کے گورے گورے گالوں پر سُرخی کی جھلک لانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
*  لال لال گل عباس گلدان میں پاکرلڑکی خوشی سے تالیاں بجانے لگتی ہے۔

کلک برائے دیگر اسباق

Bachche - NCERT Solutions Class VIII Urdu

بچّے
پطرس بخاری

Courtesy NCERT
Courtesy NCERT
سوچیے اور بتائیے
1. بچوں کے پانچوں حواس کب کام کرنا شروع کرتے ہیں؟
جواب: بیدار ہونے پر بچوں کے پانچوں حواس کام کرنے لگ جاتے ہیں۔

2. روتے ہوئے بچّے کو چُپ کرانے کے لیے مصنف نے کیا تدبیر کی؟
جواب: روتے ہوئے بچّے کو چپ کرانے کے لیے مصنف نے گیت گائے،ناچے، تالیاں بجائیں، گھٹنوں کے بل چل کر نقلیں اتاریں، بھیڑ بکری کی آوازیں نکالیں،سر کے بل کھڑے ہوکر ہوا میں سائیکل چلائی مگر بچّہ چپ نہ ہوا۔

3.مصنف نے کن والدین کو خوش قسمت کہا ہے؟
جواب:  مصنف نے ان لوگوں کوخوش قسمت کہا ہے جو والدین کہلاتے ہیں اور جن کے بچے صرف دوسروں کو پریشان کرتے ہیں۔

4. مرزا صاحب کے بچّے مصنف کو رات میں کس طرح پریشان کرتے تھے؟
جواب: مرزا صاحب کے بچّے رات بھر رو رو کر مصنف کو پریشان کرتے تھے۔

5. بچّوں کی ضد عموماً کس وقت کار آمد ہوا کرتی ہے؟
جواب: جب گھر میں کوئی مہمان موجود ہو تو بچّے کی ضد کار آمد ہوتی ہے۔

خالی جگہوں کو صحیح الفاظ سے بھریے
1. مگر میری مراد صرف انسان کے بچّوں سے ہے۔
2. اس سے بڑھ کر میری صحت کے لیےمضر کوئی اور چیز نہیں۔
3. ان نغمہ سرا بیٹوں نے میری زندگی حرام کردی۔
4. میں اچھی طرح جانتا ہوں یہ وہی نالائق ہے۔
5. خدا جانے آج کل کے بچّے کس قسم کے ہیں۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے
بیدار: بچّہ نیند سے بیدار ہو گیا۔
اتفاق: اتفاق سے وہ وقت پر پہنچ گیا۔
بدقسمت: وہ ایک بدقسمت انسان ہے۔
لمحہ: زندگی کا ہر لمحہ قیمتی ہے۔
تجربہ: یہ ایک تلخ تجربہ تھا۔

واحد سے جمع اور جمع سے واحد بنائیے۔
پنگوڑے : پنگوڑا
خطابات : خطاب
حکما : حکیم
شغل : اشغال
موقع : مواقع
نغمہ  : نغمات 
تجربات  : تجربہ 
فقرہ  : فقرے 


کلک برائے دیگر اسباق

Monday 11 February 2019

Ibn e Insha Germani Mein - NCERT Solutions Class VIII Urdu

ابن انشا جرمنی میں
Courtesy NCERT
خلاصہ:
اس انشائیہ میں مصنف نے اپنے دلچسپ انداز میں ایک غیر ملک میں وہاں کی زبان نہ جاننے کی وجہ سے ہونے والی پریشانیوں کا ذکر کیا ہے۔اور اس سلسلہ میں پیش آنے والے واقعات بیان کیے ہیں۔
 ایک مرتبہ مصنف جرمن کے ایک شہر ہمبرگ گئے۔ مصنف اپنے دوست مشتاق احمد یوسفی کے ساتھ اسٹشن پر کھڑے تھے تیز ہوا چل رہی تھی ، ابن انشا کے بال ہوا سے اڑ کر انہیں پریشان کر رہے تھے ، مصنف نے ایک دکان پرکنگھے کی خر یداری شروع کردی مصنف چونکہ ہندوستانی تھے ، اور اس وقت جرمن کے شہر ہمبرگ میں ان کی انگریزی کون سمجھتا۔ اس لئے انہوں نے کنگھا خریدنے کے لئے اشاروں کا استعمال کیا ۔ مصنف بڑے پریشان ہوئے اب کس طرح انہیں سمجھائیں اتنی دیر میں مسٹر کیدرلین آئے ان کے آتے ہی دکاندار نے جھٹ بہت سارے کنگھے نکال کر ان کے سامنے رکھ دیے، تب ان کا مسئلہ حل ہوا۔
 مصنف کے سفر کا دوسرا واقعہ ہے کہ مصنف برلن ہمبرگ اور میونخ سے ہوکر فرنیکفرٹ قیام پذیر تھے۔ اتوار کی صبح مصنف نے اٹھ کر شیو کا سامان نکالا تو بلیڈ نہ تھا، سارا سوٹ کیس چھان مارا ، بلیڈکا کہیں پتہ نہیں ، آخر کارسوچا کہ بلیڈ بازار سے خریدا جائے ، نیچے کاؤنٹر پر جا کر دریافت کیا کہ بلیڈ کہاں سے خریدے جاسکتے ہیں ؟وہ شخص ان کی بات نہ سمجھا اور بولا اچھا آپ جارہے ہیں تو آپ کا بل بنا دوں۔مصنف نے کہا نہیں بھائی ! ہماری صورت کیا اتنی بری معلوم ہوتی ہے جوہمیں جانے کے لئے کہہ رہے ہو۔ مصنف نے داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ہم شیو کرنا چاہتے ہیں ، بولا ۔ اچھا۔ آج تو سب دکانیں بند ہیں ، ریلوے اسٹیشن چلے جا ؤ شاید وہاں کوئی مل جائے۔ اتنے میں ایک چھوٹی سی دکان پر ایک بڑی بی نظر آئیں مصنف نے پہلے Blatt یعنی بلیڈکا ترجمہ کہا پھر Rasieren یعنی شیو کرانے کے لئے کہا اور داڑھی پر ہاتھ پھیرا۔ بڑی بی فوراًسمجھ گئیں انہوں نے بلیڈ اٹھا کر مصنف کو دے دیا۔ 
 تیسرا واقعہ مصنف اس طرح بیان کرتے ہیں کہ شام کو ایک سوال کے جواب میں ٹیکسی والے نے انہیں گڈ ایوننگ کہہ کر انگریزی بولنی شروع کی ۔ مصنف نے کہا میاں خوب انگریزی بولتے ہو ۔بو لا میں لندن کا رہنے والا ہوں یہاں ٹیکسی چلاتا ہوں ۔ وہ جرمن ، فرنچ، اٹالین اور ہسپانوی زبانیں جانتا تھا۔ منزل آنے پر مصنف نے اسے پیسے دیے اور ٹیکسی والا تھینک یو کہہ کر چلا گیا۔
سوچیے اور بتائیے
1. ابن انشاکہاں گئے ہوئے تھے؟
جواب: ابن انشا جرمنی کے شہر ہیمبرگ گئے ہوئے تھے۔

2. ابن انشا نے کنگھا خریدنے کے لیے کیا کیا اشارے کیے؟
جواب:انہوں نے بالوں کی پٹیاں ہاتھ سے جما کر دکھائیں۔ ٹیڑھی مانگ نکالی۔سیدھی مانگ نکالی۔بالوں میں انگلیوں سے کنگھا کر کے دکھایا۔

3. ٹیکسی ڈرائیور کون تھا اور کون کون سی زبانیں جانتا تھا۔؟
جواب: ٹیکسی ڈرائیور لندن کا رہنے والا تھا۔ وہ برٹش آرمی میں افسر تھا۔وہ انگریزی ، اردو، جرمن، فرنچ،اٹالین اور ہسپانوی جانتا تھا۔

4.  بڑی بی نے بلیڈ خریدتے وقت ابن انشا کی کیا مدد کی؟
جواب: بڑی بی ابن انشا کا اشارہ جلد سمجھ گئیں اور انہیں بلی، کا پیکٹ نکال کر دے دیا۔

5. ابن انشا نے میونخ میں خاتون کو کس طرح خوش کیا؟
جواب: ابن انشا نے میونخ میں خاتون کو فیض کے دو تین اشعار کا ترجمہ سنایا جس سے وہ بہت خوش ہوئیں۔


خالی جگہوں کو صحیح الفاظ سے بھریے۔
COMB تو خیر وہ کیا سمجھتا۔ ہم نے بالوں میں انگلیوں سے کنگھا کرکے دکھایا۔ اس نے پہلے کریم کی ایک شیشی پیش کی۔ہم نے رد کردی تو شیمپو کی ایک ٹیوب دکھائی۔اس پر ہم نے ہامی نہ بھری تو وہ بالوں کی ایک وگ دکھانے لگا۔ہم نےبالوں کی پٹیاں ہاتھ سے جماکر دکھائیں۔ٹیڑھی مانگ نکالی سیدھی مانگ نکالی۔


نیچے لکھے ہوئے لفظوں کو اپنے جملے میں استعمال کیجیے
قطار(لائن): لوگ قطار میں کھڑے تھے۔
مقصد(ارادہ): اس کا مقصد پورا نہ ہوسکا۔
مقام(جگہ): ابن انشا اس مقام تک پہنچ کر رک گئے۔
شائستہ: اس نے شائستہ لہجہ میں پوچھا۔
فروخت(بیچنا): دوکاندار نے کنگھا فروخت کر دیا۔

واحد سے جمع اور جمع سے واحد بنائیں۔
ترکیب : تراکیب
دوکان : دوکانیں
انگلیوں : انگلی
تحریریں : تحریر
راہ : راہیں
مٹھائی : مٹھائیاں
زبانوں : زبان
خرابی : خرابیاں
خوبیوں : خوبی
خبر : خبریں

ان لفظوں کے متضاد لکھیے۔
بوڑھا : جوان
ہوشیار : بے وقوف
خوش : اداس
مغرب : مشرق
باقاعدہ : بے قاعدہ
کلک برائے دیگر اسباق

خوش خبری