آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Monday 13 April 2020

Masnavi - Meer Ghulam Hasan - NCERT Solutions Class IX Urdu

داستان شہزادے کے غائب ہونے کی اورغم
سے ماں باپ اور سب کے حالت تباہ کرنے کی

یہاں کا تو قصّہ میں چھوڑا یہاں
ذرا اب سنو غم زدوں کا بیاں
کروں حال ہجراں زدوں کا رقم
کہ گزرا جدائی سے کیا ان پہ غم
کھلی آنکھ جو ایک کی واں کہیں
تو دیکھا کہ وہ شاہ زادہ نہیں
نہ ہے وہ پلنگ اور نہ وہ ماہ رو
نہ وہ گل ہے اس جا، نہ وہ اس کی بو 
رہی دیکھ یہ حال حیران کار
کہ یہ کیا ہوا ہائے پروردگار 
کوئی دیکھ یہ حال رونے لگی
کوئی غم سے جی اپنا کھونے لگی
کوئی بلبلاتی سی پھرنے لگی
کوئی ضعف ہو ہو کے گرنےلگی 
کوئی سر پر رکھ ہاتھ، دل گیر ہو
گئی بیٹھ، ماتم کی تصویر ہو
کوئی رکھ کے زیر زنخداں چھڑی
رہی نرگس، آسا کھڑی کی کھڑی 
رہی کوئی انگلی کو دانتوں میں داب
کسی نے کہا: گھر ہوا یہ خراب
کسی نے دیے کھول سنبل سے بال
تپانچوں سے جوں گل کیے سرخ گال
نہ بن آئی کچھ ان کو اس کے سوا
کہ کہیے یہ احوال اب شہہ سے جا
سنی شہ نے القصّہ جب یہ خبر
گرا خاک پر کہہ کے: ہائے پسر! 
کلیجہ پکڑ ماں تو بس رہ گئی
کلی کی طرح سے بِکس رہ گئی
کہا شہ نے : وهاں کا مجھے دو پتا
عزیزو! جہاں سے وہ یوسف گیا 
گئے لے ووشہ کو لبِ بام پر
دکھایا کہ سوتا تھا یہاں سیم بر 
یہی تھی جگہ وہ جہاں سے گیا
کہا: ہائے بیٹا ، تو یہاں سے گیا؟ 
مرے نوجواں ! میں کدھر جاؤں پیر
نظر تونے مجھ پر نہ کی بے نظیر! 
عجب بحر غم میں ڈبویا ہمیں
غرض جان سے تو نے کھویا ہمیں
کروں اس قیامت کا کیا میں بیاں
ترقی میں ہردم تھا شور وفغاں
لبِ بام کثرت جو یک سر ہوئی
تلے کی زمیں ساری، اوپر ہوئی
شب آدھی، وہ جس طرح سوتے کٹی
رہی تھی جو باقی، سو روتے کٹی
مثنوی
مثنوی مسلسل اشعار کے ایسے مجموعے کو کہتے ہیں جس میں ہر شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں اور ہر شعر کے قافیے الگ الگ ہوتے ہیں۔
مثنوی کے اشعار کی تعداد مقرر نہیں ہے۔ اردو میں طویل اورمختصر دونوں طرح کی مثنویاں لکھی گئی ہیں ۔ طویل مثنویوں میں میرحسن کا سحرالبیان اور دیاشنکرنسیم کی  گلزار نسیم بہت مشہور ہیں۔
مثنوی میں رزم و بزم حسن وعشق، پندونصیحت، مدح وجو ہر طرح کے موضوعات نظم کیے جا سکتے ہیں ۔ قدیم مثنویوں میں زیادہ تر عشقیہ تھے اور مذہبی و اخلاقی مضامین نظم کیے گئے ہیں ۔ ان عشقيہ قصّوں میں وہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں جو نثری داستانوں میں ملتی ہیں ۔ فوق فطری عناصر کے علاوہ مثنویوں میں اس زمانے کی تہذیب و معاشرت کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں ۔ حالی اور آزاد کے زمانے سے مثنویوں کے اسلوب اور موضوعات میں نمایاں فرق آیا ہے۔ اس کے بعد اس میں مختلف موضوعات و مسائل نظم کیے جانے لگے۔
میر غلام حسن،حسن
(1738ء - 1786ء)
میرحسن کے خاندان کے لوگ ایران سے آ کر دلّی میں بس گئے تھے۔ اس خاندان نے اردو زبان وادب کی بیش بہا خدمات انجام دیں ۔ میر حسن کے والد میر غلام حسین ضاحک اچھے شاعر تھے۔ ان کے بیٹے میرخلیق اور ان کے پوتے میر انیس نے اردو شاعری میں مرثیہ گوئی کی نئی راہیں نکالیں۔
امیرحسن کچھ دنوں تک میر درد کے شاگردر ہے۔ جب دلی سے بہت سے لوگوں کا تعلق ٹوٹا تو میر حسن کے والد بھی فیض آباد چلے گئے۔ وہاں سے لکھنو پہنچے اور وہیں انتقال کیا۔ میر حسن نے غزلیں بھی لکھی ہیں لیکن ان کی شہرت کا دارومدار ان کی مثنوی سحر البیان پر ہے۔ یہ مثنوی میر حسن نے انتقال سے کچھ ہی پہل مکمل کی تھی ۔ ”سحرالبیان‘‘ کی شہرت اور مقبولیت کے سامنے دوسرے بہت سے شعرا کی مثنویاں اور خود میرحسن کی دوسری مثنویاں ماند پڑ گئیں۔
منظر نگاری، واقعہ نگاری اور کردار نگاری کو دلچسپ اور متحرک شکل میں پیش کرنے اور کہانی کو مربوط طریقے سے بیان کرنے میں میر حسن کو خاص مہارت حاصل تھی۔ ان کی مثنوی مختلف اشیا اور مظاہر کے ذکر سے بھری ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مثنوی کی کہانی اگر چہ بالکل خیالی ہے لیکن اس کے واقعات اور کردار جیتے جاگتے اور ہماری دنیا کے باسی معلوم ہوتے ہیں۔

لفظ و معنی
ہجراں زده : جدائی کا مارا ہوا
رقم : تحریر (اس کے معنی روپیہ پیسہ کے بھی ہوتے ہیں)
ماہرو : چاند جیسے چہرے والا
جا : جگہ
ضعف : کمزوری
دل گیر : مغموم ، رنجیده غمگین ، دل گرفته
زنخداں : تھوڑی
سنبل : ایک قسم کی خوشبودار بیل
پسر : بیٹا
بِکس : مرجھانا
بام : بالا خانہ کوٹھا
سیم بر : چاندی جیسے بدن والا
پیر : بوڑھا
شور و فغاں : بلند آواز سے رونا

غور کرنے کی بات
* میرحسن کی یہ مثنوی تقریباً دو سو سال پرانی ہے۔ اس کی خوبی اس کی سادگی اور جادو بیانی ہے اسی لیے اس کا نام سحرالبیان رکھا گیا ہے۔ اس مثنوی میں ایک ایسے بادشاہ کا ذکر ہے جس کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ بہت منتوں مرادوں کے بعد اس کے یہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جو بہت ہی خوب صورت تھا اس لیے اس کا نام بے نظیر رکھا گیا۔ نجومیوں کے کہنے کے مطابق شہزادے کے لیے بارہ سال خطرناک تھے اس لیے اسے کھلے آسمان کے نیچے نہیں جانا تھا۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ بارہ سال پورے ہونے سے چند گھڑیاں پہلے شہزادہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ چھت پر جا کر سو گیا اور ایک پری اس کی خوب صورتی کی وجہ سے اس پر عاشق ہوگئی اور اسے اڑا کر لے گئی ۔ آپ کے نصاب میں اس سے آگے کا اقتباس شامل ہے جس میں شہزادے کے غائب ہونے کے بعد محل کے اندر جو آہ و فغاں کا طوفان اٹھا اس کی عکاسی بہت پر اثر انداز میں کی گئی ہے۔

سوالوں کے جواب لکھیے
1. ’ماہ رو‘ اور ’گل رو‘ کے الفاظ کس کے لیے اور کس شعر میں استعمال ہوئے ہیں؟
جواب: اس مثنوی میں ماہ رو اور گل رو کے الفاظ شہزادہ بے نظیر کے لیے استعمال ہوئے ہیں ۔پلنگ اور شہزادے کے غائب ہوجانے کا تذکرہ کچھ اس طرح کیا گیا ہے:
 نہ ہے وہ پلنگ اور نہ وہ ماہ رو 
نہ وہ گل ہے اس جا، نہ وہ اس کی بو 
یہاں ماہ رو اور گل دونوں ہی بطور تشبیہ شہزادے کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔
عملی کام
*  استاد کی مدد سے شعروں کی بلند خوانی کیجیے۔

* نیچے دیئے گئے محاوروں کو جملوں میں استعمال کیجیے۔
کچھ بن نہ آنا : شہزادے کے اچانک غائب ہوجانے سے کسی سے کچھ بھی نہ بن آیا۔
دانتوں میں انگلی دبانا : شہزادے کی پلنگ خالی دیکھ کر کنیزوں نے دانتوں میں انگلیاں دبالیں۔
کھڑی کی کھڑی رہ جانا : اچاک صدمہ سے کنیزیں وہیں کھڑی کی کھڑی رہ گئیں۔

* مثنوی کے کس شعر میں کون تھی تلمیح استعمال کی گئی ہے لکھیے ۔
*  اس مثنوی کے ایسے شعروں کی نشان دہی کیے جن میں صنعت تشبیہ ہو بھی لکھیے کہ کسی چیز کوکس چیز سے تشبیہ دی گئی ہے۔

کلک برائے دیگر اسباق

Qataa - Akhtar Ansari - NCERT Solutions Class 9 Urdu

قطعات----- اختر انصاری

امکانات
قدم آہستہ رکھ کہ ممکن ہے
 کوئی کونپل زمیں سے پھوٹی ہو
 یا کسی پھول کی کلی سر ِدست
 مزے خواب عدم کے لوٹتی ہو

اختر انصاری
(1909-1988)
اختر انصاری ، بدایوں (اتر پردیش) میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے دہلی اور علی گڑھ میں تعلیم حاصل کی۔ پھر وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن گئے مگر والد کی علالت کے باعث جلد واپس آگئے ۔ پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ ہوئے اس کے بعد ٹریننگ کالج میں بحیثیت لیکچرر ان کا تقرر ہوا۔ 1974ء میں وہ ریٹائر ہوئے اور آخر وقت تک علی گڑھ ہی میں رہے۔
ان کی ادبی زندگی کا آغاز طالب علمی کے زمانے میں ہوا۔ وہ شروع میں شیلی اورکیٹس سے متاثر ہوئے لیکن بعد میں انھوں نے ترقی پسند ادبی تحریک کے اثرات قبول کیے اور شاعری کو سیاسی اور سماجی شعور کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ اختر انصاری نے افسانے بھی لکھے اور تنقید بھی لیکن انھیں شہرت قطعات سے ملی۔ ایک ادبی ڈائری، افادی ادب، غزل کی سرگزشت، غزل اور غزل کی تعلیم ان کی نثری تصنیفات ہیں ۔ نغمۂ روح، روحِ عصر ،دهان زخم، خنده ٔ سحر، درووداغ، شعلہ بجام، آبگینے اختر انصاری کے مجموعے ہیں۔

لفظ ومعنی
سردست : في الحال ، ابھی
عدم : وہ دنیا، جہاں انسان مرنے کے بعد جاتا ہے، وجود کا نہ ہونا

غور کرنے کی بات
* اس قطعے میں اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ ہمیں زندگی کو احتیاط کے ساتھ دوسروں کا خیال رکھتے ہوئے گزارنا چاہیے یا اس طرح جینا چاہیے کہ دوسروں کو دشواری نہ ہو۔

سوالوں کے جواب لکھیے
1. کلی کا خواب عدم کے مزے لوٹنے سے کیا مراد ہے؟
جواب:کلی کا خوابِ عدم کے مزے لوٹنے سے مراد یہ ہے کہ وہ ابھی کسی اور دنیا میں میٹھی نیند لے رہی اور جیسے ہی وہ بیدار ہوگی اس کے کلی سے پھول بننے کا عمل شروع ہوجائے گا۔

2. اس قطعے میں شاعر کیا کہنا چاہتا ہے؟
جواب:اس قطعہ میں شاعر کہتا ہے کہ کارخانۂ ہستی میں تو اپنے قدم ذرا سنبھل کر رکھ اس لیے کہ ممکن ہے کہ اس وقت زمین سے کوئی کونپل پھوٹی ہو یا کوئی کلی نیند کے مزے لے رہی ہو۔ یعنی تو کوئی ایسا قدم نہ اٹھا جو دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث ہو۔

عملی کام
*  اس قطعے کو زبانی یاد کیجیے اور خوشخط لکھیے

آرزو
دل کو برباد کیے جاتی ہے
 غم بدستور دیے جاتی ہے
 مرچکیں ساری امیدیں اختر
 آرزو ہے کہ جیے جاتی ہے
لفظ ومعنی 
برباد : تباه
بدستور : ہمیشہ کی طرح مسلسل

غور کرنے کی بات
* اس قطعے میں شاعر نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ حالات کسی قدر نا خوشگوار ہوں تب بھی جینے کی آرزو ہمیشہ قائم رہتی ہے۔

 سوالوں کے جواب لکھیے
 1. ’ آرزو ہے کہ جیے جاتی ہے‘ سے کیا مراد ہے؟
جواب: اس مصرع میں شاعر کہتا ہے کہ انسان کی تمنائیں کبھی نہیں مرتیں اس کی آرزوئیں ہمیشہ جوان رہتی ہیں۔ انسان بچپن سے جو خواب دیکھتا ہے جو تمنائیں کرتا ہے وہ بڑھاپے تک اس کے ساتھ رہتی ہیں۔

 2. اس قطعہ میں کیا بات کہی گئی ہے؟
جواب: اس قطعے میں شاعر کا کہنا ہے کہ اس کی آرزوؤں اور تمناؤں نے اس کے دل کو برابد کر رکھا ہے یعنی تمنائیں نہ پوری ہونے پر اس کا دل غمناک ہے اور اب اس کی ساری امیدیں ختم ہو چکی ہیں لیکن آرزو ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔یعنی شاعر یہ کہنا چاہتا ہے کہ آرزوئیں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔
عملی کام
* قطعے کو بلند آواز سے پڑھے اور زبانی یاد کیجیے۔
* قطعے کے مفہوم کو اپنے الفاظ میں لکھیے۔

شَبِ پُر بَہار
 اندھیری رات، خموشی، سرور کا عالم
بھری ہے قہر کی مستی ہوا کے جھونکوں میں
 سکوت بن کے فضاؤں پہ چھا گئی ہے گھٹا
 برس رہی ہیں خدا جانے کیوں مری آنکھیں
لفظ ومعنی
سُرور : نشہ
قہر : غضب
سکوت : خاموشی

سوال کے  جواب لکھیے
1. اس قطعے میں شاعر نے فطرت کی کن کیفیات کو بیان کیا ہے؟
جواب: اس قطعے میں شاعر نے فطرت کی کچھ غمگین کیفیات کا ذکر کیا ہے۔وہ کہتا ہے کہ اندھیری رات ہے،چاروں جانب خموشی چھائی ہے ،فضا میں ایک قسم کا سرور اور مستی چھائی ہے۔ہوا کے جھونکے گرچہ تیز و تند ہیں لیکن ان میں مستی ہے۔فضا بالکل خاموش ہے اور گھٹائیں برس رہی ہیں۔دراصل شاعر یہاں اشاروں میں اپنی اندرونی کیفیات کا ذکر کر رہا ہے۔

2.  ہوا کے جھونکوں میں کیسی مستی بھری ہوئی ہے؟
جواب: ہوا کے جھونکوں میں قہر کی مستی بھری ہوئی ہے۔ یعنی ہوائیں غضبناک ہیں، تیز و تند ہیں لیکن ان میں بھی ایک الگ مستی ہے۔


کلک برائے دیگر اسباق

Dawat e Inquilab - NCERT Solutions Class 9 Urdu

دعوتِ انقلاب
وحید الدین سلیم

کیا لے گا خاک ! مرده افتاده بن کے تو
طوفان بن، کہ ہے تری فطرت میں انقلاب

کیوں ٹممٹائے کرمکِ شب تاب کی طرح!
بن سکتا ہے تو اوج فلک پر اگر شہاب

وہ خاک ہو، کہ جس سے ملیں ریزہ ہائے زر
وہ سنگ بن کہ جس سے نکلتے ہیں لعل ناب

چڑیوں کی طرح دانے پر گرتا ہے کس لیے
پرواز رکھ بلند، کہ تو بن سکے عقاب

وہ چشمہ بن کہ جس سے ہوں سرسبز کھیتیاں
رہرو کو تو فریب نہ دے صورتِ سراب


خلاصہ:
جیسا کہ نام سے ظاہر ہےاس قطعہ میں شاعر وحید الدین سلیم نے  انقلاب کی دعوت دے کر انسان کے اندر تحریک اور حرکت عمل کا جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مردہ بن کر تو کچھ نہیں کر پائے گا اس لیے کہ تو فطرتاً انقلابی ہے اس لیے تجھے چاہیے کہ تو طوفان بن جا ۔ رات میں چمکتے ہوے جگنو کی طرح ٹمٹما نے کے بجا ئے تو آسمان پر شہاب کی ماند کوند ۔یعنی شاعر اپنے بچوں کو جگنو نہیں بلکہ بجلی بنانا چاہتا ہے وہ ان کی سوچ کو انقلابی بنانا چاہتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ تو اگر خاک بھی بنتا ہے تو ایسی خاک بن جس سے سونا نکلتا ہے اور اگر پتھر بنا ہے تو ایسا پتھر بن جس سےلعل ناب یعنی سرخ قیمتی پتھر نکلتے ہیں ۔ شاعر بچوں ے اندر مزید حوصلہ پیدا کرنے کے لیے کہتا ہے کہ چڑیوں کی مانند بکھرے ہوئے دانوں پر مت گرو بلکہ عقاب بن اپنی پرواز بلند رکھو اور اپنا شکار خودجھپٹ کر حاصل کرنے کی عادت ڈالو ۔ ایک ایسا چشمہ بن جا ؤجس سے کھیتیاں سیراب ہوتی ہوں ۔ تم ایسا صحرا نہ بنو جومسافروں کو سراب کی مانند فریب دیتا ہے۔
 مختصر طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس قطعے میں انسانی قوت اور اس کی خوبیوں کو بیان کیا گیا ہے اور اس بات کا احساس دلایا گیا ہے کہ اگر انسان چاہے تو اپنی کوششوں سے ہرمشکل کو آسان بنا سکتا ہے۔
قطعہ
رباعی کی طرح قطعہ بھی عام طور پر چار مصرعوں کی نظم ہوتا ہے۔ لیکن رباعی اور قطعے میں دو باتوں کے لحاظ سے بنیادی فرق ہے۔ رباعی کے لیے ایک بحر اور اس کی کچھ شکلیں مخصوص ہیں اور رباعی کے تین مصرعوں کا ہم قافیہ ہونا ضروری ہے۔ اس کے چاروں مصرعے بھی ہم قافیہ ہو سکتے ہیں اس کے برخلاف قطعے کی شرط یہ ہے کہ اس میں مطلع نہیں ہوتا، لیکن اس کے پہلے کے دونوں مصرعے ہم قافیہ نہیں ہوتے۔ قطعہ کلاسیکی شاعروں کے یہاں عموماً غزل کے اشعار میں ملتا ہے ۔ قطعہ بند اشعار غزل کے اندر دو بھی ہو سکتے ہیں اور دو سے زائد بھی لیکن آج کل کے زیادہ تر شعرانے قطعے کو رباعی کی طرح صرف چار مصرعوں تک محدود کر دیا ہے۔
وحید الدین سلیم
(1859ء تا 1928 ء)
وحید الدین سلیم ماہر لسانیات، صحافی ، مترجم ، کامیاب مصنف اور شاعر تھے۔ انھوں نے پہلے منتوں اور پھر سلیم تخلص اختیار کیا۔ پانی پت میں ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔ کم عمری میں والد کا انتقال ہوگیا۔ 1882ء میں مڈل اسکول کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد لاہور کے اورینٹل کالج میں تعلیم جاری رکھی ۔ طالب علمی کا زمانہ غربت میں بسر ہوا۔ ایک دوست کی وساطت سے ایجرٹین کالج بھاولپور میں السنہ مشرقیہ کے استاد کی جگہ پر ان کا تقرر ہو گیا۔ حالی نے 1894 ء میں انھیں علی گڑھ بلوایا اور سرسید سے ملاقات کروائی ۔ 1907ء میں علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کی ادارت کے لیے انھیں مدعو کیا گیا۔ قیام علی گڑھ میں وحیدالدین سلیم نے انجمن مترجمین قائم کی تھی جس کا مقصد انگریزی کتابوں کو اردو میں منتقل کرنا تھا۔ جب حیدر آباد میں جامعہ عثمانیہ قائم کی گئی تو نصاب کی کتابوں کو طالب علموں کے لیے اردو میں ترجمہ کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ راس مسعود اور بعض دوسرے حضرات نے سلیم کو حیدر آباد بلوالیا۔ یہاں ترجمے کے کام کو آگے بڑھانا تھا۔ جس کے لیے وضع اصطلاحات کی کمیٹی بنائی گئی ۔ اس میں مختلف علوم کی کتابوں کا ترجمہ کرنے کے سلسلے میں اصطلاحات سازی کی ضرورت پیش آئی۔ جب شعبۂ اردو کا قیام عمل میں آیا تو انھیں پروفیسر مقرر کردیا گیا۔ آخری زمانے میں صحت کی خرابی کے باعث ملیح آباد چلے گئے ۔ وہیں ان کا انتقال ہوا۔

لفظ ومعنی
افتاده : گرا پڑا ہوا
کرمک شب تاب : جگنو
اوج : بلندی، شان، عروج
شہاب : ستارہ کا نام
لعل ناب : گہرے سرخ رنگ کا قیمتی پتھر
عقاب : چیل کی شکل کے ایک بڑےپرندے کا نام
سُراب : ریگزار جس پر دور سے پانی کا گمان ہو، مطلب فریب نظر کا دھوکا

غور کرنے کی بات
* اس قطعے میں انسانی قوت اور اس کی خوبیوں کو بیان کیا گیا ہے اور اس بات کا احساس دلایا گیا ہے کہ اگر انسان چاہے تو اپنی کوششوں سے ہرمشکل کو آسان بنا سکتا ہے۔

سوالوں کے جواب لکھیے
1. انقلاب سے شاعر کی کیا مراد ہے؟
جواب: انقلاب سے شاعر کی مراد زندگی اور حرکت و عمل کا پیدا کرنا ہے۔ وہ کمزوروں اور محکوموں کو کو طوفان بننے کا مشورہ دیتا ہے اس لیے کہ وہ سمجھتا ہے کہ انسان کی  فطرت میں انقلاب ہے۔

2. انقلاب پیدا کرنے کی صلاحیت کس میں ہے؟
جواب: شاعر کی نگاہ میں انسان میں انقلاب پیدا کرنے کی فطری صلاحیت موجود ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ انسان آسمان پر شہاب کی مانند چمک سکتا ہے تو پھر وہ اپنے لیے جگنو کی طرح ٹمٹمانا کیوں پسند کرے۔

3. شاعرانسان کو کس طرح کا چشمہ بننے کے لیے کہہ رہا ہے؟
جواب: شاعر انسان کو وہ چشمہ بننے کے لیے کہہ رہا ہے جس کے دوسروں کو فیض پہنچےیعنی اس کی ذات دوسروں کے لیے فائدہ مند ہو جیسے کہ بہتا ہوا پانی کھیتوںکو سیراب کر کے انہیں سبز و شاداب بناتا ہے اسی طرح اس سے بھی دوسروں کو فائدہ ہو۔

4. شاعرانسان کو چڑیا بننے کے بجائے عقاب بننے کی ترغیب کیوں دے رہا ہے؟
جواب: شاعر کا کہنا ہے کہ تم چڑیا نہ بنو جو کہ دانوں پر بھوکوں کی طرح گر پڑتی ہے بلکہ ایسا عقاب بنو جس کی پرواز بلند ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں عقاب اور چڑیے کی مثال دے کر شاعر انسانوں کو بلند ہمتی اور بلند نظری کی ترغیب دے رہا ہے۔ 

عملی کام
* اس قطعے کو بلند آواز سے پڑھیے۔
* اس قطعے کے آخری تین اشعار خوشخط لکھیے ۔

* درج ذیل الفاظ کے متضاد لکھیے:
اوج : پست
مرده : زندہ
فلک : زمین
سرسبز : خس و خاشاک

* اس قطعہ میں شاعر نے جن الفاظ کے ساتھ اضافت کا استعمال کیا ہے، ان کی نشاندہی کیجیے۔
مردۂِ افتادہ (گرے پڑے مردے کی طرح)
کرمکِ شب تاب(جگنو کی طرح)
اوجِ فلک(آسمان کی بلندی کی مانند)
لعلِ ناب(گہرا سُرخ پتھر)
 (چھلاوے کی مانند) صورتِ سُراب
(یہاں معنی آپ کو سمجھانے کے لیے لکھے گئے ہیں۔)

کلک برائے دیگر اسباق

Sukh Ki Taan - Meeraji - NCERT Solutions Class 9 Urdu


اس صفحہ پر کام جاری ہے
سُکھ کی تان
میرا جی

اب سُکھ کی تان سنائی دی
اک دنیا نئی دکھائی دی
 اب سکھ نے بدلا بھیس نیا  اب دیکھیں گے ہم دیس نیا
جب دل نے رام دہائی دی
اک دنیا نئی دکھائی دی
 اس دیس میں سب اَن جانے ہیں  اپنے بھی یہاں بیگانے ہیں
پیتم نے سب سے رہائی دی
اک دنیا نئی دکھائی دی
 ہر رنگ نیا، ہر بات نئی  اب دن بھی نیا اور رات نئی
اب چین کی راہ سجھائی دی
اک دنیا نتی دکھائی دی 
اب اپنا محل بنائیں گے  اب اور کے در پہ نہ جائیں گے
اک گھر کی راہ سجھائی دی
 اک دنیا نئی دکھائی دی

میراجی
( 1949 ء – 1912ء )
میراجی کا اصلی نام محمد ثناء اللہ ڈار تھا۔ وہ ایک کشمیری خاندان میں گوجرانوالہ، پنجاب میں پیدا ہوئے ۔ ان کا زیادہ وقت لاہور ، دلّی اور ممبئی میں گزرا۔ وہ انتہائی ذہین انسان تھے ۔ مطالعے کا انھیں بہت شوق تھا، اس لیے انھوں نے مختلف زبانوں کی شاعری کا مطالعہ کیا ، تراجم کیے اور مضامین لکھے۔ وہ لاہور کی ایک مشہور ادبی انجمن حلقہ ارباب ذوق کے بانیوں میں تھے ، جس نے بہت سے ذہنوں کو متاثر کیا اور شاعری میں جدید رجحانات کو فروغ دیا ۔ انھوں نے اختر الایمان کے ساتھ مل کر رسالہ خيال نکالا جس کے چند ہی شمارے شائع ہو سکے ۔ ممبئی میں ہی ان کا انتقال ہوا۔ میرا جی کی نظموں کے کئی مجموعے مثلا میرا جی کی نظمیں اور گیتوں کا مجموعہ گیت ہی گیت ان کی زندگی میں شائع ہوئے۔ ایک مجموعہ پابندنظمیں اور انتخاب تین رنگ بعد میں شائع ہوئے۔ بہت بعد میں پاکستان سے کلیات میراجی (مرتبہ جمیل جالبی ) اور باقیات میراجی (مرتبہ شیما مجید ) شائع ہوئے ۔ نثر میں دو کتابیں مشرق ومغرب کے نغمے اور اس نظم میں معروف ہیں۔
جدید تنقید میں بھی میراجی کا نام بہت بلند ہے۔ انھوں نے نظم کا تجزیہ لکھنے کی ایک نئی رسم کو فروغ دیا۔ ہندوستان اور یورپ کے نئے پرانے شاعروں پر بہت اچھے مضامین لکھے۔ میراجی کی بہت سی شاعری میں جنسی خیالات اور تجربات پیش کیے گئے ہیں۔
مشق
لفظ ومعنی
تان : سریلی آواز
رام دہائی : اللہ کی پناہ
پیتم : محبوب ، شوہر
در پہ نہ جانا : کسی اور کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا

غور کرنے کی بات
 * اس نظم میں ایک سیدھی سادی ، ہندوستانی لڑکی کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کی گئی ہے۔ جو ایک نئی زندگی کے ارمان لیے ہوئے ہے جس میں وہ اپنا گھر بسانے کا خواب دیکھتی ہے اور گنگناتی ہے۔
 * یہ گیت سادہ زبان میں لکھا گیا ہے جو پُر تاثیر بھی ہے۔

 سوالوں کے جواب لکھیے
1. اس گیت میں لڑکی کس نئی دنیا میں قدم رکھ رہی ہے؟
جواب: اس گیت میں ایک لڑکی اپنا گھر بسانے کا خوبصورت خواب دیکھ رہی ہے۔ اور اس نئی دنیا میں سبھی نئے اور انجانے لوگوں کے ساتھ اپنی نئی زندگی شروع کرنے کے منصوبے بنا رہی ہے۔

2. اب سکھ نے بدلا بھیس نیا سے کیا مراد ہے؟
جواب: اس لڑکی کا ماننا ہے کہ اب اس کے سکھ اور خوشیوں کا انداز بدل جائے گا اور اب وہ ایک نئے روپ میں اپنے پیتم کے گھر میں لوگوں کے دل جیتے گی۔ اب تک وہ اپنے ماں باپ ،بھائی بہن کے ساتھ سکھ کی زندگی بتا رہی تھی اب سُکھ ایک نئے انداز میں اس کے سامنے ہوگا۔

 3. اپنا محل بنانا اور دوسرے کے در پر نہ جانا کے کیا معنی ہیں؟
جواب: لڑکی اب تک اپنے میکے میں تھی جس کو وہ دوسروں کا گھر تصور کرتی ہے اور اب وہ اپنا محل بنانے کے منصوبے بنا رہی ہے۔ اب وہ اپنی سسرال کو اپنا گھر سمجھتی ہے اور اس گھر کو ہی اپنا محل تسلیم کرتی ہے۔

عملی کام
* اس گیت کو بلند آواز سے پڑھیے۔
* اس گیت کے پہلے بند کوخوش خط لکھیے اور اس کا مطلب بھی لکھیے۔
*  گیت کو زبانی یاد کیجیے۔

کلک برائے دیگر اسباق

Bol - Faiz Ahmad Faiz - NCERT Solutions Class IX Urdu

(اس صفحہ پر ابھی کام جاری ہے)
بول
فیض احمد فیض

بول ، کہ لب آزاد ہیں تیرے
 بول، زباں اب تک تیری ہے

 تیرا سُتواں جسم ہے تیرا 
بول کہ جاں اب تک تیری ہے

 دیکھ کہ آہن گھر کی دکان میں
تند ہیں شعلے، سرخ ہے آہن

کھلنے لگے قفلوں کے دہانے
 پھیلا ہر اک زنجیر کا دامن

بول، یہ تھوڑا وقت بہت ہے 
جسم وزبان کی موت سے پہلے

 بول، کہ سچ زندہ ہے اب تک
 بول، جو کچھ کہنا ہے کہہ لے

فیض احمد فیض
(1911ء - 1984 ء)
فیض سیالکوٹ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم چرچ مشن اسکول، سیالکوٹ سے حاصل کی ۔ انگریزی سے ایم ۔ اے کرنے کے بعد امرتسر کے ایک کالج میں لیکچرر مقرر ہوئے۔ بعد میں انھوں نے فوج میں ملازمت کی ۔ پھر انگریزی صحافت میں سرگرم رہے۔ انھیں راولپنڈی سازش کیس میں شریک ہونے کی جرم میں کئی سال تک قید و بند کی سزا بھی بھگتنی پڑی۔ فیض کا انتقال لاہور میں ہوا۔
فیض غزل اور نظم دونوں میں ممتاز ہیں۔ انھوں نے غزل کی کلاسیکی روایت سے استفادہ کیا اور اسے انقلابی فکر سے ہم آہنگ کر کے ایک بالکل نئی کیفیت پیدا کی ۔ فیض اہم ترین ترقی پسند شاعر تھے۔ انھوں نے جلا وطنی کی زندگی بھی گزاری لیکن وہ حق و انصاف کے لیے برابر آواز اٹھاتے رہے۔ ان کی شاعری میں دردمندی ، دل آویزی اور تاثیر ہے۔ مختلف زبانوں میں ان کے کلام کے ترجمے ہو چکے ہیں ۔ ان کے مجموعے’ نقش فریادی‘،’ دست صبا‘ ، ’زنداں نامہ‘،’دستِ تہِ سنگ‘، ’سرِ وادی سینا’،‘ شامِ شہر یاران‘ اور ’مرے دل مرے مسافر‘ وغیرہ ہیں۔ ان کا کلیات نسخہ ہائے وفا کے نام سے شائع ہوا۔

مشق
الفاظ و معانی

سُتواں : سیدھا۔ عام طور پر یہ لفظ سوتوا سیدھا اور سیدھی ناک کے لیے بولا جاتا ہے (جیسے ستواں ناک ) لیکن شاعر نے یہاں ستواں جسم لکھا ہے۔
آہن گر : لوہار
تند : تیز
آہن : لوہا
دہانہ : دہن، جبڑے

 غور کرنے کی بات
* اس نظم میں اظہار خیال کی آزادی پر زور دیا گیا ہے۔
* دنیامیں حق و باطل کی جنگ برابر جاری رہتی ہے لیکن دنیا کی فلاح کے لیے حق یعنی سچ کا زندہ رہنا بہت ضروری ہے۔
*  سچ کو زندہ رکھنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے اور آزادی اظہار کی ضرورت ہوتی ہے۔
*  سچ کو دبانے کے لیے سچ کے خلاف بہت سی طاقتیں اپنا کام کرتی رہتی ہیں ۔ انھیں کچلنا ضروری ہے اور اس کے لیے حق بات بولتے رہنا لازمی ہے۔

سوالوں کے جواب لکھیے
1. وہ کون سے حالات ہیں جن کے خلاف انسان کا بولنا ضروری ہے؟
جواب: جب انسان پر جبر اور ظلم و ستم بڑھ جائے تو اسے اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔ فیض کا ماننا ہے کہ مزدوروں کو اپنے استحصال کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔ اور انہیں خموشی سے ہر ظلم برداشت نہیں کرنا چاہیے۔

2. بولنافوری طور پر کیوں ضروری ہے؟ اور اسے کیوں نہیں ٹالا جاسکتا؟
جواب: فوری طور پر بولنا اس لیے ضروری ہے کہ ابھی اس کے لب آزاد ہیں ۔ اگر وہ نہیں بولا تو ایک دن اس کی زبان پر تالا لگا دیا جائے کا اور پھر وہ کبھی ظلم و ستم کے خلاف آواز نہیں اٹھا پائے گا۔

3. تمام مخالفتوں کے باوجود ایک چیز بولنے والے کے حق میں بھی جاتی ہے، وہ کیا ہے؟
جواب: تمام مخالفتوں کے بعد ایک چیز بولنے والوں کے حق میں جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ سچ ابھی زندہ ہے۔اگر وہ ظلم کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو حق کی حمایت کرنے والے اس کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔

 عملی کام
*  اس نظم کو بلند آواز سے پڑھیے اور زبانی یاد کیجیے۔
*  اس نظم کا خلاصہ اپنی زبان میں لکھیے۔

کلک برائے دیگر اسباق

Ek Aarzu - Muhammad Iqbal - NCERT Solutions Class IX Urdu


(اس صفحہ پر ابھی کام جاری ہے)

ایک آرزو
محمد اقبال

دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یارب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو

 شورش سے بھاگتا ہوں دل ڈھونڈتا ہے میرا 
 ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو

مرتا ہوں خامشی پر یہ آرزو ہے میری
 دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھوپڑا ہو

 آزادفکر سے ہوں ، عزلت میں دن گزاروں
 دنیا کے غم کا دل سے کا نٹا نکل گیا ہو

 لذت سرود کی ہو چڑیوں کے چہچہوں میں 
 چشمے کی شورشوں میں باجا سابج رہا ہو

گل کی کلی چٹک کر پیغام دے کسی کا
ساغر ذرا سا گویا مجکو جہاں نما ہو

 ہو ہاتھ کا سرہانا سبزہ کا ہو بچھونا!
شرمائے جس سے جلوت خلوت میں وہ ادا ہو

 مانوس اس قدر ہو صورت سے میری بلبل
 ننھے سے دل میں اس کے کھٹکا نہ کچھ مرا ہو

 صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں
 ندّی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو

 ہو دل فریب ایسا کہسار کا نظارہ 
پانی بھی موج بن کر اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہو 

آغوش میں زمیں کی سویا ہوا ہو سبزہ 
پھر پھر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو

پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی  ٹہنی
 جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو

مہندی لگائے سورج جب شام کی دلہن کو
سرخی لیے سنہری ہر پھول کی قبا ہو

 راتوں کو چلنے والے رہ جائیں تھک کے جس دم
اُمید ان کی میرا ٹوٹا ہوا دیا ہو

 بجلی چمک کے ان کو کٹیا مری دکھا دے
جب  آسماں پر ہر سو بادل  گھرا  ہوا ہو

پچھلے پہر کی کوئل وہ صبح کی مؤذّن 
میں اس کا ہم نوا ہوں ، وہ میری ہم نوا ہو

 کانوں پر ہو نہ میرے دیر و حرم کا احساں!
 روزن ہی جھونپڑی کا مجکو سحر نما ہو

 پھولوں کو آئے جس دم شبنم وضو کرانے
 رونا   مرا  وضو ہو، نالہ مری دعا ہو!

 اس خامشی میں جائیں اتنے بلند نالے
 تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو

ہر درد مند   دل کو رونا  مرا    رُلا    دے
 بے ہوش جو پڑے ہیں شاید انھیں جگادے

محمد اقبال
(1877ء - 1938ء)
علامہ ڈاکٹر مہ اقبال سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے سیالکوٹ ہی میں امتیاز کے ساتھ انٹرنس کا امتحان پاس کیا پھر لاہور میں اعلی تعلیم پائی ۔ کچھ دن بعد وہ یوروپ گئے اور انگلستان سے قانون کی اور جرمنی سے فلسفے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
ابتدائی تعلیم کے زمانے ہی سے اقبال شعر کہنے لگے تھے۔ اقبال نے شاعری کی ابتدا غزل سے کی اور داغ سے اصلاح لی۔ آگے چل کر انھوں نے اپنی شاعری کو اپنے پیغام اور فکر کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ وہ حرکت و عمل اور خودی کی تعلیم دیتے ہیں اور ان خوبیوں کو انسانیت کی بقا کے لیے ضروری سمجھتے ہیں ۔ ان کے کلام میں موسیقیت اور زور بیان ہے۔ انھوں نے لفظوں کے انتخاب میں بڑی ہنر مندی کا ثبوت دیا ہے۔ اسی لیے ان کے اشعار میں خوش آہنگی بہت ہے۔ اردو میں ان کے مجموعے بانگ درا ، بال جبریل، ضرب کلیم اور ارمغان حجاز ہیں۔ فارسی میں ان کی شاعری کے کئی مجموعے شائع ہوئے۔
اقبال کو بیسویں صدی کا سب سے بڑا ہندوستانی شاعر کہا جاسکتا ہے۔ انھوں نے ہندوستانیوں اور خاص کر ہندوستانی مسلمانوں کو ذہنی اور تہذیبی غلامی سے آزاد کرایا اور یورپ کے علوم سے مرعوب ہونے کے بجائے یورپ سے استفادہ کرنا سکھایا اور یہ بتایا کہ یورپ کی تہذیب مادہ پرستی اور بے انصافی پر مبنی ہے اور اسے بہت جلد زوال آجائے گا۔
اقبال کی شاعری میں فلسفۂ تغزل، ڈراما، پیغامِ عمل اور مذہب اسلام سب اس طرح گھل مل کر ایک ہوگئے ہیں کہ وہ اپنی طرح کی بےنظیر چیز بن گئی ہے۔

خلاصہ:
اقبال نے اپنی نظم ’ایک آرزو‘ کے میں اپنی خواہشات کا ذکر کیا ہے اور اپنے دردمند دل کی داستان بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ دنیا سے اکتا چکے ہیں اور گوشہ تنہائی کی تلاش میں ہیں۔ وہ ایک ایسی جگہ جانا چاہتےجہاں سکون ہی سکون ہو اور ایسی سکون کی جگہ پہاڑ کے دامن ہی میں ہو سکتی ہے اور وہیں انسان قدرت کے آغوش میں ہر فکر سے بے نیاز ہو کر رہ سکتا ہے۔ اقبال ایک ایسی پرسکون جگہ کی تلاش میں ہیں جہاں وہ سکون سے قدرتی ماحول میں زندگی کا لطف اٹھا سکیں۔اقبال کی یہ خواہش ہے کہ پہاڑ کے دامن میں ایک چھوٹی سی جھونپڑی ہو، جہاں وہ قدرتی حسن سے لطف اندوز ہوں، ہر فکر سے آزاد ہوں ، جانوروں اور پرندوں سے قربت حاصل کریں۔ قدرتی نظاروں کا جی بھر کے لطف لے سکیں اور اس پر سکوت ماحول میں اپنے معبودحقیقی کی بارگاہ میں اپنے نالہ ہا ۓ نیم شبی پہنچا سکیں۔ایسی جگہ ہو جہاں چاروں طرف سبزہ زار ہو۔ اور وہاں ایسی تنہائی ہو کہ جس میں محفل بھی شرما جائے یعنی وہاں اس تنہائی میں پرندوں کی چہچہاہٹ ہو۔بلبل مجھ سے اتنی مانوس ہو کہ اسے میرا کوئی خوف نہ ہو۔شاعر نے اس نظم میں قدرتی مناظر کی مکمل تصویر کشی کی ہے جو قاری کو موہ لیتی ہے۔وہ کہتے ہیں میری جھونپڑی کا روشن دان ہی مجھے صبح ہونے کی گواہی دے اور ۔میری زبان کوئل کی طرح صبح کی اذان کی موذن ہو۔ می شبنم سے وضو کروں اور میرا چہرہ میرےنالوں اور آنسوؤں سے تر ہو۔ اقبال چاہتے ہیں کہ ان کی یہ آرزو نہ صرف اُن کی بلکہ ہر درد مند دل کی آواز بنے۔اور جو لوگ بھی خواب غفلت میں ہیں وہ بیدار ہوجائیں۔
مشق
الفاظ ومعانی
شورش : شور و غل، اتھل پتھل
سکوت : خاموشی
تقریر : بیان، بات
عزلت : تنہائی ، گوشہ
سرود : گانا، نغمہ
جہاں نما : جس میں یا جس سے تمام دنیا نظر آئے
جلوت : محفل ، لوگوں کی موجودگی
خلوت : تنہائی
دل فریب : دل کو لبھانے والا ، من موہن
قبا : پوشاک
ہم نوا : ہم آواز
روزن : سوراخ، روشن دان
سحر نما : صبح کا دیدار کرانے والا
ناله : فریاد، رونے کی آواز
درا : قافلے کے روانہ ہونے سے پہلے بجنے والا گھنٹہ ، جرس

غور کرنے کی بات
 *  کسی شعر یا شعر کے کسی مصرعے میں دو متضاد الفاظ کے استعمال کو صنعت تضاد کہتے ہیں ۔ اس نظم میں کئی اشعار ایسے ہیں جن میں دو متضاد الفاظ آئے ہیں ۔ جیسے
شورش سے بھاگتا ہوں دل ڈھونڈتا ہے میرا 
ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو 

ہو   ہاتھ کا سر ہانا، سبزہ کا ہو بچھونا
شرمائے جس سے جلوت خلوت میں وہ ادا ہو

*  ’جہاں نما‘ ایک مرکب ہے جو ’جہاں‘ بمعنی دنیا اور ’نما‘ بمعنی دکھانے والا ، سے مل کر بنا ہے۔
جب دو مختلف الفاظ ایک ساتھ مل کر ایک ترکیب بتاتے ہیں تو اسے ’مرکب‘ کہتے ہیں۔
*  شعر میں کسی تاریخی واقعے، مشہور شخصیت یا شے کا ذکر کیا جائے تو اسے صنعت تلمیح کہتے ہیں۔ ’ساغر ذرا سا گویا مجھ کو جہاں نما ہو‘ اس مصرعے میں صنعت تلمیح  کا استعمال کیا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ قدیم ایرانی بادشاہ جمشید کے پاس ایک پیالہ تھا جس میں وہ پوری دنیا کو دیکھ لیتا تھا۔ یہاں کلی کو استعارتاً ساغر کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے اور ساغر کے لیے جہاں نما کی تلمیح سے مدد لی گئی ہے۔

 سوالوں کے جواب لکھیے 
1. شاعر نے تنہائی کی کیا خوبیاں بیان کی ہیں؟ وضاحت کیجیے۔
جواب:

2. پہاڑ کے دامن میں وہ کون سی چیز میں ہیں جن میں شاعر کو خاص دلچسپی ہے؟
جواب:

 3. شاعر کی آرزو کے مطابق رات کے مسافروں کی آمد کیا ہوگی؟
جواب:

4. آخری شعر میں شاعر کیا بات کہنا چاہتا ہے؟
جواب:

عملی کام
* نظم ایک آرزو بلند آواز سے پڑھیے۔
*  اقبال کے مجموعے بانگ درا میں کئی نظمیں بچوں کے لیے ہیں۔ آپ ان نظموں کو تلاش کر کے پڑھیے۔
ایک پہاڑ اور گلہری
*  درج ذیل اشعار کا مفہوم اپنے الفاظ میں بیان کیجیے۔

پچھلے پہر کی کوئل وہ صبح کی مؤذّن
 میں اس کا ہم نوا ہوں وہ میری ہم نوا ہو 


کانوں پر ہو نا میرے دیر و حرم کا احساں
 روزن ہی جھونپڑی کا مجھ کو سحرنما ہو


 مہندی لگائے سورج جب شام کی دلہن کو
سرخی لیے سنہری ہر پھول کی قبا ہو

* نظم سے ایسے دو اشعار تھے جن میں تشبیہہ کا استعمال ہوا ہے۔

* درج ذیل الفاظ کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے:
لفظ : معنی : جملہ
جہاں نما : جس میں یا جس سے تمام دنیا نظر آئے : جمشید اپنے جہاں نما میں دنیا دیکھ رہا تھا۔
سحر نما : صبح کی مانند : میری جھونپڑی کا روشن دان میرا سحر نما ہو۔
ہم نوا : ہم آواز : اقبال بلبل کے ہم نوا بننے کے آرزو مند تھے۔
دل فریب : دل کو لبھانے والا : کوئل دل فریب آواز کی مالک ہے۔
جلوت : محفل : جلوت کی ہوس نے رقاصہ کو رسوا کردیا
خلوت : خلوت : رضیہ خلوت پسند تھی۔

کلک برائے دیگر اسباق

Sunday 12 April 2020

Ramayan Ka Ek Scene - Pandit Brij Narayan Chakbast - NCERT Solutions Class IX Urdu

Ramayan Ka Ek Scene by Brij Narayan Chakbast  Chapter 17 NCERT Solutions Urdu
(اس صفحہ پر ابھی کام جاری ہے)

رامائن کا ایک سین
برج نارائن چکبست

رخصت ہوا وہ باپ سے لے کر خدا کا نام 
راو وفا کی منزل ازل ہوئی تمام

 منظور تھا جو ماں کی زیارت کا انتظام 
دامن سے اشک پونچھ کر دل سے کیا کلام

اظہار ہے کسی سے ختم ہوگا اور بھی
دیکھا میں اداس تو غم ہوگا اور بھی

 دل کو سنجالتا ہوا آخر وہ نونہال
 خاموش ماں کے پاس گیا صورت خیال

 دیکھا تو ایک دور میں ہے بیٹی وہ خستہ حال
 سکتہ سا ہو گیا ہے ، یہ ہے شدت ملال

تن میں ابو کا نام نہیں، زرد رنگ ہے
گویا بشر نہیں کوئی تصویرسنگ ہے 

کیا جانے کس خیال میں گم تھی وہ بے گناہ
 نور نظر پر دیده حسرت سے کیا نگاه 

جنبش ہوئی لبوں کو بھری ایک سرد آہ
 کی گوشہ ہائے چشم سے اشکوں نے رخ کی راہ

چہرے کا رنگ حالت دل کھولنے لگا
ہر موئے تن، زباں کی طرح بولنے لگا

 روکر کہا خموش کھڑے کیوں ہو میری جان 
میں جانتی ہوں جس لیے آئے ہوم یہاں

 سب کی خوشی نہیں ہے تو صحرا کو ہو رہوں 
لیکن میں اپنے منہ سے نہ ہرگز ہوں گی ہاں

کس طرح بن میں آنکھوں کے تارے کو تج دوں
 جوگی بنا کے راج دلارے کو بھیج دوں

 لیتی کسی فقیر کے گھر میں اگر جنم
 ہوتے نہ میری جان کو سامان یہ ہم 

ستا نہ سانپ بن کے مجھے شوکت چشم 
تم میرے لال تھے مجھے کسی سلطنت سے کم

میں خوش ہوں پھونک دے کوئی اس تخت وتاج کو
تم ہی نہیں تو آگ لگاؤں گی راج کو

 سرزد ہوئے تھے مجھ سے خدا جانے کیا گناه
 منجدھار میں جو یوں مری کشتی ہوئی تباہ 

آتی نظر نہیں کوئی امن و امان کی راہ 
اب یہاں سے کوچ ہو تو عدم میں ملے پناہ

تقصیر میری خالتي عالم مکمل کرے
آسان مجھ غریب کی مشکل آبل کرے

 سن کر زبان سے ماں کی یہ فریاد در ونیز 
اس خستہ جاں کے دل پر چل نم کی تین تیزر 

عالم یہ تھا قریب کہ آنکھیں ہوں اشک ریز 
لیکن ہزار ضبط سے رونے سے کی گریز

سوچا نہیں کہ جان سے ہے کس گزر نہ جائے
ناشاد ہم کو دیکھ کے ماں اور مر نہ جائے

 پھر عرض کی یہ مادر ناشاد کے حضور 
مایوس کیوں ہیں آپ الم کا ہے یہ وفور

 صدمہ بہ شاق عالم پیری میں ہے ضرور
 لیکن نہ دل سے کیسے صبر و قرار دور

شاید خزاں سے شکل عیاں ہو بہار کی
کچھ مصلحت اسی میں ہو پروردگار کی

 پڑتا ہے جس غریب پر رن من کا بار 
کرتا ہے اس کو صبر عطا آپ کردگار 

مایوس ہو کے ہوتے ہیں انساں گناہ گار 
ہی جانتے ہیں وہ دانائے روزگار

انسان اس کی راہ میں ثابت قدم رہے 
گردن وہی ہے امیر رضا میں جو ثم رہے

 اکثر ریاض کرتے ہیں پھولوں پر باغباں
 ہے دن کی دھوپ رات کی شبنم انھیں گراں 

لیکن جو رنگ باغ بدلتا ہے نا گہاں 
وہ گل ہزار پردوں میں جاتے ہیں رائیگاں

رکھتے ہیں جو عزیز نھیں اپنی جاں کی طرح
ملتے ہیں دست یاس وہ برگ خزاں کی طرح

 لیکن جو پھول کھلتے ہیں صحرا میں بے شمار 
موقوف کچھ ریاض پر ان کی نہیں بہار 

دیکھو یہ قدرت چین آرائے روزگار 
وہ ابر و باد و برف میں رہتے ہیں برقرار

ہوتا ہے ان پر فضل جو رب کریم کا 
 موج سموم بنتی ہے جھونکا سیم کا

 اپنی نگاہ ہے کرم کارساز پر 
مرا چون بنے گا وہ ہے مہرباں اگر

 جنگل ہو یا پہاڑ سفر ہو کہ ہو حضر 
رہتا نہیں وہ حال سے بندے کے بے خبر

اس کا کرم شریک اگر ہے تو غم نہیں 
دامان دشت ،دامن مادر سے کم نہیں

پنڈت برج نرائن چکبست
(1882ء - 1926 ء)
پنڈت برج نرائن چکبست کی ولادت ایک کشمیری خاندان میں بہ مقام فیض آباد، (اتر پردیش) میں ہوئی ۔ انھوں نے لکھنؤ میں تعلیم حاصل کی ۔ ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد لکھنؤ ہی میں وکالت کرنے لگے۔ ان کا انتقال بریلی میں ہوا اور آخری رسومات لکھنؤ میں ادا کی گئیں۔
چکبست نے روایتی انداز سے شاعری شروع کی اور غزلیں بھی کہیں ۔ جلد ہی وہ نظم گوئی کی طرف متوجہ ہو گئے ۔ وطن پرستی کو موضوع بنایا۔ چکبست نے ہوم رول کے موضوع پر بہت سی نظمیں کہی ہیں ۔ ان کی نظموں میں قدرتی مناظر کی عکاسی ، بیداری وطن کے جذبات، آزادی کی تڑپ اور دردمندی کے پہلو نمایاں ہیں۔ ان کے کلام میں سلاست اور روانی پائی جاتی ہے۔ انھوں نے اپنے احباب ، بزرگوں اور قومی رہنماؤں پر مرثیے لکھ کر ان کی سیرت کی عمدہ عکاسی کی ہے۔ ان کی نظموں کا مجموعہ ”صبح وطن“ اور مضامین کا مجموعہ ”مضامین چکبست“ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔

Ramayan Ka Ek Scene by Brij Narayan Chakbast  Chapter 17 NCERT Solutions Urdu
مشق
لفظ ومعنی
زیارت : کسی متبرک مقام، چیز یاشخص کو عقیدت سے دیکھنا، کسی مقدس مقام کا سفر کرنا
ستم : ظلم
نونہال : پودا کم عمر بچہ
سکتہ : بے حس و حرکت ہوجانے کا مرض
ملال : رنج
بشر : انسان
تصویرِ سنگ : مجسمہ، پتھر کی تصویر، پتھر کی مورت
دیدهٔ حسرت : حسرت بھری نگاہ
گوشہ ہائے چشم : آنکھ کے کونے
موئے تن : جسم کے بال
جوگی : فقیر
بہم : ساتھ ساتھ، اکٹھے
شوکت و حشم : شان و شکوه، رعب داب
سرزد ہونا : پیش آنا ، واقع ہونا
منجدھار : بھنور ، دریا کے بیچوں بیچ
کوچ کرنا : روانہ ہونا
عدم : آخرت، غیر موجود ہونا
تقصیر : قصور، غلطی
بحل کرنا : معاف کرنا
اجل : موت
درد خیز : درداٹھانے والا
گریز : بچنا
ناشاد : ناخوش
الم : غم
وفور : زیادتی
شاق : سخت، دشوار
عیاں : ظاہر
رنج و محن : دکھ درد، غم ، تکلیف
امر رضا : اللہ کی مرضی
خم : ٹیڑھاپن
ریاض : بہت سے باغ
ناگہاں : اچانک
رائیگاں : بے کار
دستِ یاس ملنا : افسوس سے ہاتھ ملانا
برگِ خزاں : خزاں کے پتّے
موقوف : منحصر، ملتوی
موجِ سموم : گرم ہوا، جھلسا دینے والی ہوا ،لؤ
نسیم : ٹھنڈی ہوا
کارساز : کام بنانے والا یعنی اللہ
حضر : ایک جگہ، قیام ٹھہراؤ
دشت : جنگل
دامنِ مادر : ماں کی گود ، ماں کی آغوش

غور کرنے کی بات 
*  اس نظم میں ماں اور بیٹے کے جذبات کی عکاسی کی گئی ہے۔
*   ایودھیا کے راجہ دشرتھ کی تین بیویاں تھیں کوشلیا بھائی اور مترا۔ رام چندر منی کوشلیا کے بیٹے تھے۔ جب تخت پر رام چندر جی کے بیٹھنے کا وقت آیا تو ان کی سوتیلی ماں لیلائی نے اپنا لیا ہوا وعده را جا دشرتھ کو یاد دلایا۔ آخر کار رام چندر جی کو چودہ برس کا بن باس ملا نظم کے اس سین میں رام چندری کا اپنی ماں کوشلیا سے رخصت ہونا بہت پر درد انداز میں دکھایا گیا ہے۔

سوالوں کے جواب لکھے
1. ”راو وفا کی منزل اوّل ہوئی تمام“  یہ کہہ کر شاعر نے کسی کی طرف اشارہ کیا ہے؟
جواب:

 2. مندرجہ ذیل الفاظ شاعر نے کس کے لیے استعمال کیے ہیں؟
 صورت خیال، خستہ حال ،شدت ملال ، تصویر سنگ
جواب:

3. شاعر کے خیال میں شوکت وحشم سانپ بن کر کس طرح ڈس رہا ہے؟
جواب:

4. موئے تن زبان کی طرح بولئے سے شاعر کی کیا مراد ہے؟
جواب:

5. چھٹے اور ساتویں بند کی تشریح کیجیے؟
جواب:

عملی کام

*  اس نظم سے متضاد الفاظ تلاش کر کے لکھے۔
*  نظم میں ایک لفظ ماشاء آیا ہے جس کے معنی خوش نہ ہونے کے ہیں لیکن اگر ہم اس میں سے ناک ہٹا دیں تو لفظ شاؤ بن جائے گا جس کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ آپ بھی ایسے ہی کچھ الفا الکھے جس میں نا کا استعمال کیا گیا ہو۔
*  اضافت کی تعریف اس سے پہلے آپ پڑھ چکے ہیں۔ اس نظم میں بھی کچھ اضافتیں آئی ہیں۔ جیسے خالق عالم ۔ آپ نظم میں آئی اضافتوں کی نشاندہی کیجیے۔
*   اسی طرح کچھ الفاظ ایسے آئے ہیں جن میں دو الفاظ کے درمیان میں کا استعمال ہوا ہے جیسے شوکت وشم ۔ یہ لکھتے تو لگا کر ہیں لیکن پڑھتے ہیں ملاکر جیسے (شوکتواستم ) ولفظوں کو اس طرح ملانے والے وکوحرف عطف کہتے ہیں ۔ آپ اس نظم میں سے اس طرح کے الفاظ کو تلاش کر کے لکھے جن میں عطف کا استعمال ہوا ہو۔

*  مندرجہ ذیل الفاظ کے معنی لکھیے اور انھیں جملوں میں استعمال کیے:
لفظ : معنی : جملہ
بہم : ں : ں
اشک ریز : ں : ں
خالق عالم : ں : ں
عیاں : ں : ں
رنج و محن : ں : ں
منجدھار : ں : ں
الم : ں : ں
وفور : ں : ں

کلک برائے دیگر اسباق

Saturday 11 April 2020

Hakeem Shah Tahir Usmani


حکیم شاہ محمدطاہرعثمانی فردوسیؒ
نام : محمد طاہر عثمانی
ولدیت : حضرت شاہ محمد قاسم فردوسی علیہ الرحمہ
سکونت : موضع سملہ ضلع اورنگ آباد (بہار)
ولادت: 1926ء
فراغت: 1946ء
تعلیم گاه: گورنمنٹ طبی کالج پٹنہ

بہار کے ضلع اورنگ آبادمیں سملہ عثمانی فردوسی خانوادے کی قدیم بستی ہے۔ اس خانوادے میں علماء صوفیاء پیدا ہوتے رہے ہیں۔ انہیں حضرت مخدوم جہاں مخدوم الملك شرف الدین بہاری علیہ الرحمة کے سلسلہ سہروردیہ فردوسیہ کی نسبت کا شرف حاصل رہا ہے۔ ہند و بیرون ہند کےاکثر سلاسل کی اجازت و خلافت بھی اس خانوادے کے اکابرین کو حاصل تھی۔ رشد و ہدایت کے ساتھ ساتھ فن طب کے ساتھ وابستگی بھی ان کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔ حکیم شاہ محمدطاہر عثمانی صاحب کے جد امجد حکیم شاہ مجیب الحق کمالی فردوسی علیہ الرحمة نے رشد و ہدایت کے ساتھ ساتھ علاج معالجہ کا سلسلہ ہمیشہ قائم رکھا۔ آپ کا شمار علاقہ کے مشاہیراطباء میں تھا۔ آپ کے چھوٹے چچا حکیم شاہ محمد فردوسی مشہور کامیاب طبیب گذرے ہیں۔
حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی صاحب کی ابتدائی تعلیم خانقاہ کے مدرسہ میں ہوئی۔آپ نے فارسی مولانا حفیظ الرحمن صاحب اور درسیات اپنے محترم جناب شاہ صاحب فردوسی سے پڑھی۔ 1942ء میں طب کی تعلیم کے لئے گورنمنٹ طبی کالج پٹنہ میں داخل ہوئے اور1946ء میں جی یو ایم ایس کی فائنل ڈگری امتیازی حیثیت سے حاصل کی اور گولڈ مڈل حاصل کیا۔ نسخہ نویسی میں اول آئے اور جمالی دواخانہ سبزی باغ پٹنہ کا عطا کردہ گولڈمیڈل حاصل کیا۔
آپ کے ایام تعلیم میں کالج ماہرِفن اساتذہ سے معمور تھا جناب حکیم محمدادریس صاحب پرنسپل تھے۔ شفاء الملک حکیم سید مظاہراحمدصاحب، زبدة الحکما حکیم مولانا سید احمد حسین صاحب برکاتی، آفتاب حکمت حکیم عبدالشکور صاحب، ڈاکٹر ذکریاصاحب، ڈاکڑسید محمد صاحب مجنون رحمہماللہ علیہم اجمعین۔ اس کے علاوہ ڈاکٹرمناظر احسن صاحب، ڈاکٹر احسن الہدیٰ صاحب، حکیم عبدالاحدصاحب ، ماسر عبد العزیز صاحب جیسے مایۂ ناز اساتذہ سے تلّمذ کا شرف آپ کو حاصل ہے ۔
حکیم صاحب شعروشاعری کا پاکیزه ذوق رکھتے ہیں۔ آپ کے ادبی مضامین اورغزلیں مؤقر علمی وادبی جرائد و رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ مطب کی مشغولیت اور دینی و سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے اس طرف توجہ کم ہوگئی ہے لیکن آج بھی مشق سخن جاری ہے۔
حکیم صاحب 1946 میں گورنمنٹ طبّی کالج پٹنہ سے فراغت کے بعد کچھ عرصہ علیل رہے اس کے بعد مطب کی طرف توجہ کی ۱۹۵۰ سے جھریامیں مطب کرتے ہیں مطب کامیاب ہے۔ وہاں کی مذہبی تعلیمی سماجی تحریکوں کے روح رواں ہیں. ہرطبقہ میں مقبولیت حاصل ہے۔ امراء وغرباء سب کے ساتھ یکساں سلوک ہے۔ قدرت نے دست شفابخشاہے۔ مخلوق خدا آپ سے فیضیاب ہورہی ہے۔ مزاج میں انکساری و عاجزی ہے۔ ہر چھوٹے بڑے سے خندہ پیشانی سے ملتے ہیں۔ آپ خانقاه امامیہ مجیبیہ فردوسیہ سملہ کے سجادہ نشیں بھی ہیں۔ آپ کے مریدین و معتقدین کا وسیعحلقہ نہ صرف بہار بلکہ بیرون بہار میں بھی پھیلا ہوا ہے۔ آپ کے فیوض و برکات ظاہری و باطنی سے مخلوق خدا فیضیاب ہورہی ہے۔
(مندرجہ بالا مضمون ان کے صاحبزادےخبیب عثمانی سلمہ نے بھیجا ہے جس میں ضرورت کے مطابق میں نے ہلکی سی ترمیم کردی ہے۔)
تاریخ اطبائے بہار (جلد دوم)
حکیم محمد اسرار الحق،
ریٹائرڈ پروفیسرگورنمنٹ طبّی کالج پٹنہ

Ghazal - Rakhshan Abdali

<

غزل
رخشاں ابدالی

تھوڑی سی ملا دیجئے مَے بھی جو دوا میں
اکسیر ہی بَن جائے گی تاثیر و شفا میں

پیشانی پر بَل ہو نہ ذرا حکمِ قضا پر
دل! دیکھ نہ دھبّہ لگے دامانِ رضا میں

ہِر پھِر کے یہیں جاتی ہیں جَم اپنی نگاہیں
کیا جذب و کشش ہے ترےنقشِ کفِ پا میں

ہم خوگر بیداد ہیں، بیداد میں خوش ہیں
وہ اور ہیں خورسند جو ہوں لُطف و عطا میں

کیوں تم کو ستم کرنے میں اب ہے یہ تکلّف
شک تم کویہ کیوں ہونے لگا میری وفا میں

کم حوصلگی تیری غضب ہے دلِ ناداں!
آرام کی!ہے فکر!تجھے راہِ! وفا !میں

دل سوزِ یقیں سے جو ہوئے خالی تو رخشاں
لہجہ میں صداقت ہے نہ تاثیر دعا میں
(المجیب ، اگست۱۹۷۰)

خوش خبری