آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Friday 1 May 2020

Shah Mansoor - A Badshah of Sufism

شاہ منصورؒ: دنیائے تصوف کے بادشاہ 
(8 رمضان المبارک یوم وصال کے موقع پر خصوصی مضمون)
ابن طاہر

کچھ شخصیتیں ایسی گزری ہیں جن کا خیال دل پر ایسا نقش ہے کہ برسوں کا طویل سفر بھی ان کی یادوں کو ذرہ برابر بھی دھندلا نہیں کرپایا ہے۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے
دل کے آئینےمیں ہے تصویر یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
خانقاہ برہانیہ کمالیہ، دیورہ، ضلع گیا کے صاحب سجادہ حضرت حکیم شاہ منصور احمد فردوسیؒ کی ذاتِ گرامی بھی ایسی ہی شخصیتوں میں سے ایک ہے۔ آپ کو تصویر کھینچوانا سخت نا پسند تھا۔ کیمرہ دیکھتے ہی اپنے آپ کو اس طرح سمیٹ لیتے کہ کیمرہ مین آپ کے جلال سے مرعوب ہوکر آپ کی جانب دیکھنے کی ہمت ہی نہیں کر پاتا۔آپ عالم دین تھے اور فوٹو گرافی کو جائز نہیں سمجھتے تھے لہٰذا آپ کی تصویر شاذ و نادر ہی کسی کے پاس موجود ہے۔ آج کے علما کو شاید یہ بات عجیب لگے کیوں کہ عام طور پر یہ بات بالکل عنقا ہو چکی ہے کہ کبھی علما کے اندر اس نکتے پر بھی کوئی اعتراض تھا۔  لیکن کاغذ پر اپنی تصویر نہ اتروانے والی شخصیت نے لوگوں کے دل و دماغ پر اپنی تصویر اس طرح ثبت کردیں کہ آپ ان کے چہرے کو بھلا نہیں سکتے۔ جن لوگوں نے ان کو دیکھا ہے ان کے دل و دماغ پر ان کی تصویر گہرائی تک ثبت ہے۔ کہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا کے لیے تصویر کھنچوانے کو ناپسند کرنے والے کی تصویر خود آپ کے دلوں میں پرنٹ کردی ہے۔ میں نے بہت ساری تصویریں کھینچی ہیں ان کو دیکھنے کے لیے یا تو مجھے البم نکالنا پڑتا ہے یا اپنے کمپیوٹر کی اسٹوریج کھنگالنی پڑتی ہے لیکن آپ کی تصویر کے لیے بس شاعر کا یہی مصرع صادق ہے اک ذرا گردن جھکائی دیکھ لی۔ اللہ تعالیٰ اس نقش کی تابناکی کو ہمیشہ قائم رکھے اور اس میں مزید نکھار پیدا کرے۔ اس خیال کے پیچھے جو جذبہ کار فرما ہے وہ ہے محبت، عشق۔ اپنے بزرگوں سے یہ محبت آپ کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ ان کی شان میں ذرا سی بھی گستاخی آپ کو قبول نہ تھی۔ عشقِ رسولؐ کا جذبہ تو آپ کی رگوں میں اس طرح سمایا تھا کہ اس کی سرشاری آپ کے رخ روشن سے جھلکتی تھی۔
حضرت حکیم شاہ منصور احمد فردوسیؒ کی شخصیت میں جو وقار تھا اس سے بڑے بڑے عالم دین مرعوب ہوئے بغیر نہیں رہتے۔خدا، اس کے رسولﷺ اور پھر اپنی ذات پر اتنا بھروسہ میں نے بہت کم لوگوں میں دیکھا ہے۔ فقر و استغنا کی ایسی زندہ مثال اس زمانے میں نہیں ملتی۔جس محفل میں جاتے اپنی گفتگو اور طرز تکلم سے بہت جلد لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتے۔ علمی مباحث میں اتنا ٹھہراؤ، اپنے عقیدے کی درستگی کے استدلال پر اس درجہ یقین ہوتا کے سامنے والا ایک لمحہ کو حیرت زدہ رہ جاتا۔مدلل انداز گفتگو اورمثبت دلائل سامنے والے کو لاجواب کر دیتے۔ کبھی کسی سے بلا وجہ زبردستی اپنی بات منوانے کی کوشش نہیں کی بلکہ ہمیشہ ہی بڑی سادگی اور دل جمعی سے اپنے بزرگوں کے مطمعٔ نظر کو سامنے رکھا۔کبھی کبھی تو یہ بحثیں ساری رات چلتیں اور کبھی کسی کا دل میلا نہ ہوتا۔ رمضان کے دنوں میں خاص کر نماز تراویح کے بعد رات کے کھانے پر جو گفتگو شروع ہوتی تو وہ سحری تک جاری رہتی۔
آپ جامعہ نعیمیہ،مرادآباد سے فارغ التحصیل تھے۔ لیکن آپ کا خانقاہی و خاندانی رنگ سب رنگوں پر غالب تھا۔ خوش پوش و خوش لباس تھے۔ فقیری میں بھی شان نرالی تھی۔ چہرے پر ایک جلال تھا لیکن مزاج اتنا ہی شفیق۔ کسی سے کبھی اونچے الفاظ میں بات نہ کرنا اور دوسروں کی خطاؤں کو یکسر نظر انداز کر دینا آپ کی سب سے بڑی خوبی تھی۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:

انسانی غرضیں ٹکراتی ہیں اور ان سے شکوہ و شکایت پیدا ہوتی ہے لیکن اس کی وجہ سے کوئی ایسی حرکت کرنا جو جہنم کا سبب بن جائے نہیں کرنا چاہیے۔ کوئی کچھ کہے اپنا کام  خیر کا کیے جانا چاہیے۔ بہت دفعہ غلط فہمی پیدا ہو جاتی ہےاور دور کرنے کی کوشش بھی کی جائے تو دور نہیں ہوتی۔ بلا سے نہیں ہوتی خود خیر کیے جانا چاہیے وہ کام کیا جانا چاہیےجو اللہ کی رضا کا سبب ہے۔ اسی میں دونوں جہان کا فائدہ ہے۔
منصور احمد فردوسی غفرلہ
حضرت حکیم شاہ منصور احمد فردوسیؒ کو مطالعہ کا بے حد شوق تھا۔ ہر وقت کوئی نہ کوئی کتاب یا رسالہ آپ کےہاتھ میں ہوتا۔ کچھ نہیں ملتا تو روزنامہ یا ہفت روزہ سے اس تشنگی کو دور کرتے۔ مطالعہ کے ساتھ آپ ادب کی ایک ایسی صنف کے ماہر تھے جو اب تقریباً ناپید ہوتی جارہی ہے۔ ناپید ہوتی صنفِ حاشیہ نویسی کا شوق ایسا تھا کہ جو بھی کتاب آپ کے ہاتھ میں آتی اس کے حاشیے آپ کی تحریروں سے بھر جاتے۔ ایک ایک نکتے کو اتنا بلیغ بنا دیتے کہ کتاب کی قدر و قیمت میں اضافہ ہو جاتا۔ حاشیہ نویسی کا مقصد کبھی تنقید نہ ہوتا بلکہ مصنف کی باتوں کو مزید کھول کر اور واضح کرکے بتانا ہوتا۔ آپ کے حواشی کسی بھی مضمون میں موضوعات کاانسائکلوپیڈیا تیار کردیتے۔ کتاب سے الگ ایک کتاب تیار ہوجاتی۔ وہ ساری کتابیں اور رسالے معلوم نہیں  کہاں ہیں جو آپ کی حاشیہ نویسی سے مزین ہوئے۔ اگر وہ ساری تحریریں یکجا ہوجاتیں تو یقیناً فن حاشیہ نویسی پر ایک دفتر تحریر ہو سکتا تھا۔
بزرگوں کی روش کے مطابق مکتوبات کے ذریعہ مریدین و متوسلین کی رہنمائی کی روش آپ کے یہاں بھی پائی جاتی ہے۔ ذیل میں آپ کا ایک خط قارئین کے استفادے کے لیے پیش ہے جس میں بڑی خوبی سے ایک سماجی برائی پر روشنی ڈالی گئی ہے ساتھ ہی ورد و وظائف کی تلقین و رہنمائی بھی کی گئی ہے۔
حضرت مولانا شاہ منصور احمد فردوسی دیوروی ؒ کا
محمد الیاس فردوسی کے نام
ایک خط  
برادر دینی ومحبت یقینی۔۔۔۔۔ وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
آج کل بچّیوں کا معاملہ نازک صورت اختیار کرگیا ہے اللہ تعالیٰ اپنے حبیب پاک کے طقیل میں ہم لوگوں پر رحم فرمائے۔ یہ ساری پریشانیاں ہم لوگوں کی اسلام سے ہٹ جا نے کی وجہ سے پیدا ہوگئی۔مسلم قوم دنیا طلبی میں روز بہ روز غیر مسلموں کی طرح ہوتی جارہی ہے۔ حب مال اور حب جاہ یہ دو بت بہت خطرناک ہیں۔ اللہ تعالی ان کا پجاری ہونے سے بچائے ۔ یہ حب مال ہی کی ایک شکل ہے جولڑکی والوں سے مطالبہ کی شکل میں بھی ظاہر ہورہا ہے۔ اور بڑے بڑے دیندار لوگ اس مرض میں مبتلا نظر آ تے ہیں۔
. میں نے جو چیز آپ کو پڑھنے کودی ہے فی الحال ان کو پڑھاجائے ۔حضرت رحمتہ اللہ علیہ فر ماتے تھے کہ وظیفہ پابندی سے پڑھو اگرچہ کم ہو زیادہ وظیفہ ناغہ کر کے بہتر نہیں ۔ اسی لئے میں اپنے لوگوں کو جو مشغول ہوں زیادہ وظیفہ نہیں بتلا تا۔ خود حضرت رحمتہ اللہ علیہ کی بھی عادت یہی تھی۔ اس لیے کہ اطمینان قلب کے لئے رزق حلال کا حصول ضروری ہے قرآن کریم ہمیں سکھلاتا ہے ۔ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ دنیا کی اچھائی کو آخرت کی اچھائی پر مقدم کیا ۔ اور ہم لوگوں کا یہ دل گردہ نہیں بہت زیادہ پریشانیوں میں مبتلا ہو کر آخرت کی اچھائی حاصل کرنے میں مشغول ره سکیں ۔ ہاں دنیا کی محبت اور اس میں دل لگا نا برا ہے۔ حصول دنیا میں بھی اللہ اور اس کے رسولﷺ کا حکم ہمیشہ پیشں نظر رہنا چاہیے۔ کمائیں اس کے حکم سے اور خرچ کریں اس کی خواہش کے مطابق۔ اگر موقع ہو تو پھر رَبِّ اغفِرلی  وَ تُب عَلَیَّ إنَّکَ أنتَ التَّوّابُ الرَّحیم کا ختم  کر ڈالیے 3125 بار روزانہ پڑھنے سے چالیس دن میں سوا لاکھ اس کا ختم پورا ہو جائے گا۔ 3125 بار 24 گھنٹے میں پورا ہو جانا چاہئے اور بیٹھ کر پڑھنا چاہیے جتنے وقت میں پورا ہو۔
میرے بھائی! آپ نے لکھا ہے کہ مخدوم الملکؒ کے یہاں کی حاضری کی خواہش اور بےچینی بڑھتی جاتی ہے۔ اس کے متعلق میں کیا  لکھوں۔ نماز و روزه ، حج و زکوٰة، دعاء اوروظيفہ سب مناسبت قلبی پیدا کرنے کے ذریعہ ہیں۔ اصل چیز یہی مناسبت ہے جس کو عشق اور محبت سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں ۔ اگر یہ نہ ہوتوسب ریا اور دکھلا وا ہے۔ حضرت شیخنا و مولانا شاہ کمال علی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
جو کچھ ہے سرّ معنی عشق ہے عشق
تمامی کوئے معنی عشق ہے عشق
 ایک جگہ اپنے لیے دعاء فرماتے ہیں۔
الٰہی دل کو نازک اس قدر کر
 کہ موج بوئے گُل ہو تیغ اس پر
 اپنے اضطراب کو ان الفاظ میں ظاہر فرمائے ہیں۔
مرنے کے بعد بھی نہ گیا دل کا اضطراب
 تڑپے  ہے آج تک میری خک مزار دیکھ
 اور اپنے سلسلہ کے بزرگ اپنے شیخ سے محبت یہ سب ذریعہ ہے اللہ تعالی کی محبت کے حاصل ہونے کا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے وابتغوااِلیہ الوسیلة، تلاش کرو اس کی طرف وسیلہ یعنی ذریعہ، فنا فی الشیخ فنا فی الرسول فنا فی اللہ کی منزلیں ہیں۔
حضرت تراب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
تراب اسی پر رہنا تو ثابت قدم
جومرشد تراتجھ سے کہہ سن گیا
اللہ بس باقی ہوس-
فقط والسلام
منصوراحمد فردوسی
رمضان المبارک کی ساتویں شب میں آپ کی طبیعت زیادہ خراب تھی۔ قلب کا عارضہ شدت اختیار کر گیا تھا۔تہجد کا وقت گزر چکا تھا۔ بار بار فجر کی اذان سے متعلق دریافت فرماتے۔ آخری سفر کی تیاریاں مکمل تھیں بس ایک  آخری بار اپنے رب کے حضور آخری سجدے کا انتظار تھا۔ آپ کی بیٹیاں چاروں جانب اپنے شفیق باپ کی چارپائی کی پٹّی پکڑے کھڑی تھیں۔ سب کی آنکھیں نم تھیں ۔اپنے بزرگ باپ کی تیاری ان کی جدائی کی کہانی بیان کر رہی تھی۔8 رمضان المبارک صبح انتظار ختم ہوا فجر کی اذان شروع ہوگئی اتنی شدید تکلیف کے بعد بھی آپ پوری توجہ سے اذان کی جانب متوجہ ہو گئے، لب آہستہ آہستہ ہل رہے تھے۔ یقیناً اپنے رب کی حمد وثنا بیان کر رہے ہو ں گے اور اپنے رسولﷺ پر درود سلام کا نذرانہ پیش کر رہے ہوں گے ۔ آپ ایک سچے عاشق رسولﷺ تھے۔
اذان مکمل ہونے کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھایا۔ شفاعت طلب کرنے کی دعا مکمل ہوئی۔چہرے پر ہاتھ پھیرا اور ہاتھ چہرے سے ڈھلک کر سینے پر آٹکا۔ 8 رمضان المبارک 1415ھ مطابق 9 فروری 1995 بروز پنجشنبہ دنیائے تصوف کی یہ باوقار شخصیت اپنے مالک حقیقی سے جا ملی۔

حضرت مولانا حکیم شاہ منصور احمد فردوسی ؒ


Wednesday 29 April 2020

Jis Din Se Gayin Hain Woh Maike - Syed Hasan Askari Tariq

شاد کے مصرع 
ڈھونڈو گے مجھے ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
سے ڈاکٹر کلیم عاجز کے
جب پھول اچھالا کرتے تھے اُس بام سے تم اِس بام سے ہم
سے گزر کر جب یہ بحر ایک ”زاہد خوش مزاج“ حضرت سید حسن عسکری طارق ؔ تک پہنچتی ہے تو مزاح کے ایک خاص رنگ میں ڈھل جاتی ہے جس سے لطف اندوز ہوئے بغیر آپ نہیں رہ سکتے۔ سید حسن عسکری طارق نے بیرون ملک اپنی مزاحیہ شاعری کے جوہر خوب دکھائے لیکن اپنے ملک کا ادبی حلقہ اس سے محروم رہا۔ اب ان کے بھتیجے سید ولی حسن قادری نے ان کا مجموعہ کلام ”شگفتہ خاطر“ شائع کرکے اس کمی کو پورا کردیا ہے۔ سید حسن عسکری طارق نے اپنی زندگی کا بڑا عرصہ مدینہ منورہ میں گزارا اور اسی پاک سرزمین پر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور درجات کو بلند کرے۔آمین۔ سید حسن عسکری طارق نے میر، غالب، اقبال، کلیم عاجز اور احمد فراز کی زمینوں پر ایسے ایسے گُل کھلائے کہ دل و دماغ کو معطر کردیا۔ آئیے آپ بھی ان کی شاعری کو پڑھیے، مسکرانے یا قہقہہ لگانے کا فیصلہ آپ کو کرنا ہے لیکن ان کے بیشتر اشعار آپ کو سوچنے پر بھی مجبور کردیتے ہیں۔

جس دن سے گئی ہیں وہ میکے
سید حسن عسکری طارق ؔ

جس دن سے گئی ہیں وہ میکے رہتے ہیں بڑے آرام سے ہم 
سالن کا خیال آتا ہی نہیں کھا لیتے ہیں روٹی جام سے ہم

 جو آنکھ سے دل میں اتری تھی وہ سبز پری اب گھر میں ہے
 اب لوگ نہ مانیں یا مانیں کچھ کم تو نہیں گلفام سے ہم

 اب تو ہے گلی میں سناٹا پھر بھیڑ بہت ہوجائے گی
کچھ دیر تو کھیلیں بڈمنٹن اس بام سے تم اس بام سے ہم

 آغاز محبت کے یہ مزے چھوڑے نہیں جاتے اے ناصح
 جو ہوگا دیکھا جائے گا ڈرنے کے نہیں انجام سے ہم

 جو تیری گلی میں کھائی تھی وہ چوٹ نہیں ہم بھولیں گے
 جب زور کی ٹھنڈک پڑتی ہے کرتے ہیں سینکائی بام سے ہم

 تنہائی بھی تھی وہ بھی تھے مگر اللہ کا ڈر بھی شامل تھا
 ہر چند خطا سے بچ تو گئےلیکن نہ بچے الزام سے ہم

 اے اہل ديار شعروسخن، للہ ہمیں شاعر مانو 
دیکھو نا سنانے اپنی غزل، دوڑے آئے دمام سے ہم

 اک دوست کے گھر ہے اے طارق ؔ، بریانی کی دعوت آج کی شب
 بیٹھے ہیں پجائے منہ اپنا بھوکے ہی گذشتہ شام سے ہم

Tuesday 28 April 2020

Sheikh Ibrahim Zauq

شیخ ابراہیم ذوق

 اصل نام  محمد ابرہیم تھا ذوق دہلوی کے نام سے مقبول ہوئے۔آپ ایک قصیدہ گو شاعر تھے۔آپ کے والد کا نام  محمد رمضان تھا۔  شاہ نصیر دہلوی، غلام رسول شوق سے شرف تلمذ حاصل کیا۔ دیباچہ دیوان ذوق مرتب آزاد دہلوی کے مطابق ذوق کی تاریخ ولادت22 اگست 1790ء ہے۔ آپ دہلی میں پیدا ہوئے اور دہلی میں ہی16نومبر 1854  بروز جمعرات وفات پائی۔ تکیہ میر کلو، قطب روڈ ، دہلی میں تدفین عمل میں آئی۔
 ذوق کی اہم تصانیف میں بارہ ہزار ۱۲۰۰۰ اشعار پر مشتمل ایک دیوان ہے۔
ایک نا تمام مثنوی نالۂ جہاں سوز یادگارہے ۔
کہتے ہیں کہ ذوق جب تک زندہ رہے ان کے سامنے کسی اور شاعر کا چراغ نہ جل سکا۔ ذوق اپنے عہد کے سب سے مقبول شاعر تھے اور عوامی مقبولیت میں انہوں نےغالب اور مومن جیسے عظیم شاعروں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ ذوق بچپن ہی سے شعر وسخن کا ذوق رکھتے تھے ۔ فطری مناسبت اور کثرت مشق کی بدولت چند ہی دنوں میں مشہور و ممتاز ہو گئے ۔ ذوق کو آخری مغل بادشاہ  بہادر شاہ ظفر کا بھی استاد ہونے کا شرف حاصل تھا۔۔ذوق کو عربی، فارسی کے علاوہ شعرو سخن، علومِ موسیقی ، نجوم ، طب، تعبیرخواب،قیافہ شناسی ، وغیرہ پر کافی دسترس حاصل تھی۔ نہایت ذہین تھے۔ حافظہ قوی تھا۔ طبیعت میں جدت و ندرت تھی۔ ذوق کی یہ شہرت بہت زیادہ دنوں تک قائم نہ رہ سکی اور بعد میں غالب اور مومن کا نام ان سے پہلے لیا جانے لگا۔
ذوق قصیده و غزل کے استاد تھے۔ وہ زبان کے بہت بڑے جوہری اور صنّاع تھے۔ نشست الفاظ، زبان کی صفائی اور پاکیزگی محاورات ، اور امثال کے استعمال میں ان کا جواب نہیں تھا۔ الفاظ کا محل استعمال فن عروض سے کما حقہ واقفیت ، زور تخیل اور بلندی مضامین ، موسیقیت اور غنائیت ان کے کلام کی خصوصیات ہیں ۔ غزلیات میں مختلف شعراء کا رنگ موجود ہے۔ میر درد، جرأ ت ، شاہ نصیر، سودا سبھی کا رنگ نمایاں ہے۔ رعایت لفظی، فن زبان محاورہ اور ضرب المثل کا پورا پورا التزام ہے۔ قصیدے کے وہ بادشاہ ہیں ۔ ان کی وسعت معلومات اورمختلف علوم سے ان کی واقفیت کا اندازہ ان کے تقصیدوں سے  ہوتا ہے۔ زبان کی صفائی تراکیب کی چستی اور نشست الفاظ میں ان کا جواب نہیں۔ ان کے کلام میں حسن و عشق  کے ساتھ ہی اخلاقی و صوفیانہ مضامین بھی  موجود ہیں۔
 نمونہ کلام : 
اگر یہ جانثے چُن چُن کے ہم کوتوڑیں گے
 توگل کبھی نہ تمنائے رنگ و بو کرتے
بقول آزاد انتقال سے تین گھنٹے قبل یہ شعر کہا:
کہتے ہیں ذوق آج جہاں سے گزر گیا
کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے

ذوق کی ایک اور غزل
لائی حیات ا،ئی قضا لے چلی چلے

Shad Azimabadi

شاد عظیم آبادی

نام سیدعلی محمد اورتخلص شاد تھا ۔والد کا نام سیداظہارحسین عرف عباس مرزا  تھا۔شاد 8 جنوری 1846 میں عظیم آباد میں اپنے نانیہالی مکان میں پیدا ہوئے۔
شاد نے اردو و فارسی کے علاوہ عربی کی بھی تعلیم حاصل کی۔ان کی شاعری میں عربیو قرانی تلمیحات سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں عربی پر اچھی دسترس حاصل تھی۔شاد نے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی اور شاعری میں خوب نام کمایا۔
1891 میں حکومت برطانیہ نے” خان بہادر“ کے خطاب سے سرفراز کیا ۔وہ 17 سال تک آنریری مجسٹریٹ رہےاور تاعمرحکومت برطانیہ کے نامزد میونسپل کمشنر رہے۔ ان کاموں کے علاوہ  مختلف تعلیمی اداروں کے ممبرادر کمیٹیوں کے بیر ہوا  رکن  رہے۔ سرکار برطانیہ نے اخیر عمر میں پہلے 600 روپیہ سالانہ کا وظیفہ مقرر کردیا تھا جو بعد میں ایک ہزار روپے ہوگیا۔
 گھوڑ سواری اور تیراکی کاشوق تھاجو اس زمانے کے شرفا کا خاص شوق تھا۔ چالیس سال کی عمر کے بعد یہ اشغال چھوٹ گئے اور تصنیف و تالیف کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔
1897 میں شاد اپنی نانیہال پانی پت گئے۔وہاں نواب نظیر احمد خاں مرحوم کے مہمان رہے۔ واپسی میں دہلی گئے اور حالی کی فرمائش پر علی گڑھ گئے اور سرسید احمد خاں سے ملاقات کی۔ اور 2 دمسبر 1897 کو اسٹریچی ہال میں اپنا مشہور مولود پڑھا۔ 1916 میں امیر مینائی کے شاگرد حفیظ جونپوری کی دعوت پرجومپور گئے اور واپسی میں کانپور میں قیام کرتے ہوئے عظیم آباد واپس آئے۔
 شاد نے بہار میں شاعری اور نثر نگاری کو حیات دوام عطا کیا۔شاد نے عظیم آباد کی ادبی حیثیت کو مستحکم کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔شاد نے نظم و نثر کی چھوٹی بڑی کم و بیش 60 کتابیں چھوڑیں۔ غزلیں ، نظمیں، قطعات، مرثیہ نگاری،مثنوی غرض سبھی اصناف میں شاد نے  طبع آزمائی کی ساتھ ہی ساتھ انہوں نے نثر میں بھی ایک بڑا سرمایہ چھوڑا۔
غزلیات انتخاب کلام شاد مرتبہ حسرت موہانی، کلام شاد مرتبہ قاضی عبدالودود،ریاض عمر،میخانۂ الہام،زیور عرفان، لمعات شاد، مولود مراثی،ظہور رحمت(مولود جو علی گڑھ میں پڑھا گیا۔)، مراثی شاد(جلد اول و دوم)،سروش ہستی وغیرہ شاد کا شعری سرمایہ ہیں۔ نثری سرمایہ  میں تاریخ بہار اور نقش پائیدار کی تین جلدیں شامل ہیں۔ ان کی سوانح حیات ’حیات فریاد‘ کئی بار چھپی۔ ان کے ناول صورت الخیال کو بھی کافی شہرت ملی۔اردو تعلیم، ارض فارس،صورت حال اور نصائح البیان کے علاوہ تذکرہ مردم دیدہ، تذکرة الاسلاف فارسی اورنوائے وطن تحریر کیا۔
اربیہ شرح قصیدہ،عرشیہ، متروکات،قدر کمال، الصرف النحو شاد کی دیگر کتابیں ہیں۔
کلام شاد کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد ان کی شاعری کو چھ حصّوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔رومانی، عرفانی، علم الکلام، فلسفیانہ شاعری،اخلاقی سماجی اور سیاسی شاعری۔ ان تمام تر موضوعات کو شاد نے اپنی غزلوں میں سمو دیا ہے۔
7 جنوری 1927 کو رات گیارہ بجے علم و ادب کا یہ درخشندہ ستارہ غروب ہوگیا۔ ان کا ذاتی مکان جو بعد میں شاد منزل کہلایا ان کا مدفن بنا۔

غزل
شاد عظیم آبادی
ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم 
جو یاد نہ آئے بھول کے پھر اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم 

میں حیرت و حسرت کا مارا خاموش کھڑا ہوں ساحل پر 
دریائے محبت کہتا ہے آ کچھ بھی نہیں پایاب ہیں ہم 

ہو جائے بکھیڑا پاک کہیں پاس اپنے بلا لیں بہتر ہے 
اب درد جدائی سے ان کی اے آہ بہت بیتاب ہیں ہم 

اے شوق برا اس وہم کا ہو مکتوب تمام اپنا نہ ہوا 
واں چہرہ پہ ان کے خط نکلا یاں بھولے ہوئے القاب ہیں ہم 

کس طرح تڑپتے جی بھر کر یاں ضعف نے مشکیں کس دیں ہیں 
ہو بند اور آتش پر ہو چڑھا سیماب بھی وہ سیماب ہیں ہم 

اے شوق پتا کچھ تو ہی بتا اب تک یہ کرشمہ کچھ نہ کھلا 
ہم میں ہے دل بے تاب نہاں یا آپ دل بے تاب ہیں ہم 

لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں منزل پہ پہنچتے ہیں دو ایک 
اے اہل زمانہ قدر کرو نایاب نہ ہوں کم یاب ہیں ہم 

مرغان قفس کو پھولوں نے اے شادؔ یہ کہلا بھیجا ہے 
آ جاؤ جو تم کو آنا ہو ایسے میں ابھی شاداب ہیں ہم 

غزل
شاد عظیم آبادی

تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں 
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں 

ہوں اس کوچے کے ہر ذرے سے آگاہ 
ادھر سے مدتوں آیا گیا ہوں 

نہیں اٹھتے قدم کیوں جانب دیر 
کسی مسجد میں بہکایا گیا ہوں 

دل مضطر سے پوچھ اے رونق بزم 
میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں 

سویرا ہے بہت اے شور محشر 
ابھی بے کار اٹھوایا گیا ہوں 

ستایا آ کے پہروں آرزو نے 
جو دم بھر آپ میں پایا گیا ہوں 

نہ تھا میں معتقد اعجاز مے کا 
بڑی مشکل سے منوایا گیا ہوں 

لحد میں کیوں نہ جاؤں منہ چھپا کر 
بھری محفل سے اٹھوایا گیا ہوں 

عدم میں کیوں نہ جاؤں منہ چھپائے 
بھری محفل سے اٹھوایا گیا ہوں 

کجا میں اور کجا اے شادؔ دنیا 
کہاں سے کس جگہ لایا گیا ہوں

Ae Ishq Hamein Barbaad Na Kar - Akhtar Shirani


 live nor die
 اے عشق ہمیں برباد نہ کر
اختر شیرانی

اے عشق نہ چھیڑ آ آ کے ہمیں ، ہم بھولے ہوؤں کو یاد  نہ کر
 پہلے ہی بہت ناشاد ہیں ہم ، تو اور ہمیں  ہمیں ناشاد نہ کر
 قسمت کا ستم ہی کم نہیں کچھ، یہ تازہ ستم ایجاد نہ کر
یوں ظلم نہ کر بیداد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر 

جس دن سے ملے ہیں دونوں کا سب چین گیا، آرام گیا
 چہروں سے بہار صبح گئی ، آنکھوں سے فروغ شام گیا
 ہاتھوں سے خوشی کا جام چھُٹا، ہونٹوں سے ہنسی کا نام گیا
غمگیں نہ بنا، ناشاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر

 ہم راتوں کواٹھ کر روتے ہیں، رو رو کے دعائیں کرتے ہیں
 آنکھوں میں تصوّر دل میں خلش، سردھُنتے ہیں آہیں بھرتے ہیں
 اے عشق یہ کیساروگ لگا، جیتے ہیں نہ ظالم مرتے ہیں
یہ ظلم تو اے جلّاد نہ کر
 اے عشق ہمیں برباد نہ کر

یہ روگ لگا ہے جب سے ہمیں، رنجیدہ ہوں میں، بیمار ہے وہ
ہر وقت تپش، ہروقت خلش بیخواب ہوں میں بیدار ہے وہ
 جینے سے اِدھربیزار ہوں میں، مرنے پر ادھر تيار ہے وہ
اور ضبط کہے، فریاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر 

اے عشق خدارا دیکھ کہیں وہ شوخ حزیں بدنام نہ ہو
 وہ ماہ لقا بدنام نہ ہو، وہ زہرہ جبیں بدنام نہ ہو
 ناموس کا اُس کے پاس رہے، وہ پردہ نشیں بدنام نہ ہو
اس پردہ نشیں کو یاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر

 آنکھوں کو یہ کیا آزار ہوا ، ہرجذبِ نہاں پر رو دینا
 آہنگِ طرب پر جھک جانا ، آوازِ فغان پر رو دینا
 بربط کی صدا پررو دینا ، مُطرب کے بیاں پر رو دینا
احساس کو غم بنیاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر

Ek Jurm Hua Hai Hum Se - Rashida Khan

اک جرم ہوا ہے ہم سے
راشدہ خان

اک جرم ہوا ہے ہم سے
’اک یار بنا بیٹھے ہیں‘
کچھ اپنا اس کو سمجھ کر
’سب راز بتا بیٹھے ہیں‘
پھر اس کی پیار کی راہ میں
’دل و جان گنوا بیٹھے ہیں‘
وہ یاد بہت آتے ہیں
’جو ہم کوبھلا بیٹھے ہیں‘




Monday 27 April 2020

Tahir Usmani - A proud ِSufi of Silsila e Firdausia

سلسلہ فردوسیہ کی ایک باوقار شخصیت
حضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسیؒ کے وصال پر ممتاز شخصیتوں کا اظہار تعزیت

10 فروری 2005
خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ، سملہ ضلع اورنگ آباد ( بہار) کے معمر اور بزرگ سجادہ نشیں ، پیر طریقت طبیب حاذق اور معروف صحافی تحسین عثمانی کے والد ماجد حضرت مولانا حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسی کی وفات پر ملک کی ممتاز شخصیتوں نے اظہار تعزیت کیا ۔
حضرت مولانا حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوی کا وصال 4 جنوری 2005 کو رات کے آخری پہر کولکتہ میں ہوا۔ وہ اپنے سنجھلے صاحبزادے مولانا شاہ تسنیم عثمانی فردوسی کو حج بیت اللہ کے لئے رخصت کرنے گئے تھے۔ آپ صاحب تصنیف و تالیف بزرگ تھے۔ حضرت مخدوم جہاں مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیری کے ملفوظ ”راحت القلوب“ کا ترجمہ آپ نے ہی فرمایا تھا۔ آپ کو شاعری کا بھی شغف حاصل رہا اور 60 کی دہائی میں آپ کی نظمیں اور غزلیں ملک بھر کے نامور جرائد و رسائل میں انتہائی آب و تاب سے شائع ہوتی رہیں۔ آپ ابتدا میں ندیم اور پھر تاج العرفان تخلص فرماتے تھے۔ آپ نے حمد، نعت، منقبت اور دیگر اصناف شاعری میں بھی طبع آزمائی کی۔
آپ کی وفات پر تعزیت کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا سیّد رابع حسنی ندوی نے فرمایا کہ آج بہار اپنی ایک عظیم شخصیت سے محروم ہو گیا۔
حضرت مخدوم جہاں مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیٰ  منیریؒ کی خانقاہ معظم بہار شریف کے سجاده نشیں حضرت مولانا سید شاد محمد سيف الدين فردوسی اور خانقاه منعمیہ میتن گھاٹ ،پٹنہ کے سجادہ نشیں حضرت سید شاہ شمیم الدین ا حمد منعمی نے آپ کے وصال کو دنیائے تصوف و انسانیت کا عظیم نقصان قرار دیا۔
آستانہ مخدوم حسین نوشۂ توحید بلخی فردوسیؒ کے سجادہ نشیں محمد علی ارشد شرفی البلخی نے فرمایا کے حضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسیؒ سلسلہ فردوسیہ کی شان، محبوب بارگاه مخدوم جہاں، گو ہر تاج مجیبی، گل گلزارکبیری ، نمونه سلف، قاسم فیضان شرف ، برکت العصر اور مرشد وقت تھے۔ ایسے وقت میں جبکہ ہر طرف اکابر شخصیتوں سے خانقاہیں خالی ہوتی جا رہی ہیں ایک اور مربّی کا رخصت ہوجانا نہ صرف سلسلہ فردوسیہ بلکہ امت مسلمہ کا بہت بڑا نقصان ہے۔
خانقاہ حسینیہ اشرفیہ ، کچھوچھہ شریف کے مولانا سید ابو امیر جیلانی اشرف نے حضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسیؒ سے اپنے دیرینہ  تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے بندگان خدا کی فکری و روحانی تربیت کے لئے آپ کی خدمات کو یاد کیا۔
سی آئی ای ایف ایل کے شعبہ عربی کے صدر پروفیسرمحسن عثمانی نے فرمایا کہ اللہ تعالی آپ کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے ۔ ان کی نیکیاں ، ذکر عبادت جو آخرت کے اکاونٹ میں جمع ہوچکی تھیں اب کام آئیں گی۔ اسلامک فقہ اکیڈمی کے جنرل سکریٹری امین عثمانی نے حضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسیؒ کے انتقال پر اپنے دلی صدمہ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ محترم گوناگوں صفات کے حامل تھے۔ حسن سلوک ، بڑوں کی تکریم و عزت، منکسر المزاجی ، رواداری اور تواضع، مہمانوں کی ضیافت، بیماروں کی تیمار داری و علاج، اعزاء کی خبر گیری، یہ سب ان کی امتیازی شان تھی ۔ وہ نرم دلی و رقت قلبی کے ساتھ ساتھ محبت الہی سے سرشار دل رکھنے والے تھے۔ انہوں نے اکابر صوفیا کی روش پر چلتے ہوئے عزیمت کے ساتھ اپنی ساری عمر گزار دی۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی قبروں کو نور سے بھر دےاور انہیں بلند مقام عطا کرے ۔
ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی صدر شعبہ اردو انجمن آرٹس سائنس اینڈ کامرس کالج بھٹکل نے کہا کے آپ کی ذات خلوص ومحبت، ہمدردی ، نرمی ،خوش مزاجی اور رواداری کا مجموعہ تھی۔ آپ خاندان کی روش اور روایت کے مطابق ایک جمالی بزرگ تھے۔
دفتر امارت شرعیہ، پھلواری شریف پٹنہ میں ایک تعزیتی نشست میں حضرت امیر شریعت مولانا سید نظام الدین صاحب نے حضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسیؒ کی رحلت پر اپنے دلی صدمے کا اظہار کیا اور فرمایا کہ حضرت حکیم صاحب بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔ وہ عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ شیخ طریقت اور طبیبِ حاذق بھی تھے۔ امارت شرعیہ سے ان کا بڑا گہرا اور قدیم تعلق تھا ۔ قاضی مجاہد الاسلام قاسمی اور میں خود متعدد باران کے دولت کدہ پر تشریف لے جا چکا ہوں۔ وہ بڑے خلیق اور وضع دار انسان تھے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے ۔
ناظم امارت شرعیہ مولانا انیس الرحمٰن صاحب قاسمی نے اپنے تعزیتی پیغام میں فرمایا کہ حکیم صاحب بڑے خوش مزاج ، ملنسار ، متواضع اور شریف الطبع انسان تھے۔ تعزیتی نشست سے مولانا مفتی ثناء الهدی قاسمی، نائب ناظم امارت شرعیہ ، مولانا مفتی جنید عالم قاسمی، مولانا مفتی سہیل احمد قاسمی ،جناب مرزا حسین بیگ، جناب سمیع الحق، مولانا رضوان احمد ندوی اور دوسرے حضرات نے بھی خطاب کیا اور اپنے دلی صدمہ کا اظہار کیا۔
حضرت حکیم شاہ محمد  طاہر عثمانی فردوسیؒ کے مریدین و متوسلین اور معتقدین کا حلقہ بہار، جھارکھنڈ اور مغربی بنگال میں کافی دور دور تک پھیلا ہوا ہے۔ آپ کی نمازِ جنازہ میں 30 سے 35 ہزار افراد شریک تھے۔ نمازِ جنازہ سے قاتحہ چہلم تک آپ کے بڑے صاحبزادے شاہ صہیب عثمانی نے اپنی والدہ محترمہ کی دعاؤں کے سایہ میں اس عظیم صدمہ کے باوجود بڑی ہمت اور ثابت قدمی سے خانقاہ کی روایت کے مطابق تمام رسومات کی ادائیگی کی ۔ فریضۂ حج کی ادائیگی سے واپسی کے بعد حضرت شاہ تسنیم عثمانی فردوسی مدظلہ العالی کی رجب عرس کے موقع پر سجادگی عمل میں آئی۔
(بہ شکریہ ویوز ٹائمز)

Mohammad Rafi Sauda

مرزا محمد رفیع سودا

1713-1781

مرزا محمد رفیع نام سودا تخلص تھا۔ بعض تذکرہ نگارں نے لکھا ہے کہ ان کے والدمرزا محمدشفیع   بغرض تجارت  کابل سے دہلی  آئے   اور یہیں  آباد ہو گئے۔ مگر نقش  علی جن کے  سودا کے  ساتھ ذاتی تعلقات تھے  ان کا اصل وطن بخارا بتایا ہے۔ سودا دلی میں  پیدا ہوئے  ۔ محمد حسین آزاد نے ان کا سن پیدائش  1125 ھ لکھا ہے۔اپنے دور کے مروجہ رواج علوم یعنی عربی  و فارسی کی تعلیم حاصل کی ۔فارسی پر انہیں دسترس حاصل تھی ۔بچپن  سے نہایت  ذہین اور موزوں   طبع  تھے۔ ابتدا میں فارسی اشعار کہے اور  سلیماان قلی خاں داؤد  کو اپنا کلام دکھایا ،اس کے بعد شاہ حاتم کے با قاعدہ شاگرد ہوئے۔خان آرزو   نے سودا کو مشورہ دیا کہ ابھی تک ریختہ میں ابھی تک کسی نے نام نہیں کمایا اور یہ میدان ابھی خالی ہے تم اگر طبع آزمائی کرو تو ممکن ہے شہرت کی بلندیوں تک پہنچ جاؤ۔ سودا کو مشورہ پسند آیا اور خان آرزو کی ایما پر اردو شاعری کی طرف توجہ کی اور اس فن میں وہ کمال بہم پہنچایاکہ بہت جلد مسلم الثبوت استاد تسلیم کر لیے گئے۔ ریختہ گوئی میں سودا کو خوب شہرت حاصل ہوئی۔بادشاہ وقت شاہ عالم آفتاب از راہ قدر دانی ان سے مشورۂ سخن کرتے تھے۔
سودا کی شاعری کا شہرہ  سن کرنواب شجاع الدّولہ  نے”برادر من،مشفق من“لکھ کر انھیں لکھنؤ  آنے کی دعوت دی۔سودا  اس وقت تو نہ جا سکے مگر کچھ  عرصےکے بعد حالات نے انہیں دہلی چھوڑ کر لکھنؤ جانےپر مجبور کر دیا جہاں نواب شجاع الدّولہ  اور ان کے بیٹے نواب آصف الدولہ کے زمانے میں ان کی خاطر خواہ پذیرائی ہوئی۔تقریباً ستر برس کی عمرمیں لکھنو میں انتقال کیا۔
سودا نے  شاعری کی تمام اصناف میں طبع آزمائی کی۔ غزلیں، قصیدے ، رباعیاں،مستزاد،قطعات،تعریفیں، پہیلیاں،واسوخت، ترجیح بند، ترکیب بند اور مخمس سب کچھ کہا۔مگر قصیدہ گوئی اور  ہجو نگاری میں ان کا مرتبہ سب سے بلند ہے۔ ان کے قصائد شوکت الفاظ ،تازگیٔ مضامین، بلند خیالی، بندش کی چستی اور جدّت تراکیب کی وجہ سے فصاحت و بلاغت کے اعلیٰ نمونے ہیں۔
سودا مزاجاً قصیدے کے شاعر ہیں مگر ان کی غزلیں بھی زبان و بیاں کی دلآویزی اور لب و لہجے کے بانکپن کی وجہ سےالگ پہچانی جاتی ہے ۔ان کا ایک الگ اور مخصوص انداز ہےجس میں درد مندی کی جگہ شوخی، سوز وگداز  کی جگہ نشاط، اور سادگی کی جگہ پُرکاری نمایاں ہے۔ ان کی سب سے بڑی طاقت زور باں میں پوشیدہ ہے۔جس کے ذریعہ وہ معمولی اور سادہ مضامین کے اندررنگ آمیزی  کرکے جان ڈال دیتے ہیں۔ برجستگی ،صوتی بلند آہنگی،ترنم اور موسیقیت سودا کی غزلوں کی امتیازی اوصاف ہیں۔ سنگلاخ زمینوں میں جب ان کی قادرالکلامی کے جوہر کھلتے ہیں تو غزلوں پر  قصیدے کے اثرات زیادہ نمایا ں اور واضح ہوجاتے ہیں۔


غزل
محمد رفیع سودا
مقدور نہیں ا س کی تجلّی کے بیان کا
 جوں شمع سراپا ہو اگر صَرف زبان کا 

پردے کو تعیّن کے در دل سے اٹھادے 
کُھلتا ہے ابھی پل میں طلِسمات جہاں کا

ٹُک دیکھ صنم خانۂ عشق آن کے اے شیخ
جوں شمعِ حرم رنگ جھلکتا ہے بُتاں کا

اس گلشن ہستی میں عجب دید ہے لیکن 
جب چشم  کھلی گل کی تو موسم ہے خزاں کا

 ہستی سے عدم  تک نَفَسِ چند کی ہے راہ
 دنیا سے گزرنا سفر ایسا ہے کہاں کا


Sunday 26 April 2020

Suraj Ke Fayede- Mohammad Husain Azad

سورج کے فائدے
محمد حسین آزاد
بس اٹھ بیٹھو بیٹا بہت سو چکے
بہت وقت بيكار تم کھو چکے
نکل آیا سورج بڑی دیر کا
ذرا آنکھ کھولو بہت دن چڑها
نہ سواب نہیں ہے یہ سونے کا وقت
اٹھو یہ ہے منہ ہاتھ دھونے کا وقت
اگر ہاتھ منہ دهو کے آؤ ابھی
سنائیں تمهیں آج باتیں نئی
یہ سنتے ہي لڑكا ہوا اٹھ کھڑا
وہیں ہاتھ منہ دهو کے حاضر ہوا
کہا باپ نے بهر بڑے پیار سے
سنو! آج سورج کے تم فائدے
یہ دنیا میں کرتا بہت کام ہے
بڑے ہم کو دیتا یہ آرام ہے
یہ نکلے تو دے دن ہمیں کام کو
چھپے جب تو دے رات آرام کو
یہ کرتا ہے چاروں طرف روشنی
نظر جس سے آتی ہیں چیزیں سبھی
اسی روشنی کا تو ہے نام دھوپ
یہی دھوپ رکھتی ہے دنیا میں روپ
پڑا کرتی سردی ہے جب زور کی 
تو یہ د هوپ لگتی ہے کیسی بھلی
غریبوں کو سردی میں بھاتی ہے یہ
ٹهٹهرنے سے ان کو بچاتی ہے یہ
پکانے اناجوں کی یہ کھیتیاں
جنہیں روز کھاتا ہے سارا جہاں
نہ ہو یہ تو پھر ہے کہاں زندگی
ہیں اس کی بدولت تو جیسے سبھی
خدا کی عنایت ہے ہم پر بڑی
  کہ سورج سی نعمت ہمیں اس نے دی
کریں خوبیاں اس کی کیا ہم بیاں 
خدا کی یہ قدرت کا ہےاک نشاں

Saturday 25 April 2020

Bachchon Ke Liye Urdu Ki Sehar Angez Duniya

بچّوں کے لیے اردو کی سحر انگیز دنیا
مبشرہ منصور

نئی نسل اور خاص کر ان کے والدین کے اندر اردو کے لیے دلچسپی پیدا کرنا آئینہ کے اعلیٰ مقاصد میں سے ایک ہے۔ نئی نسل کو بچّوں کے لیے تحریر عظیم سرمایہ سے واقف کرانا اور ان کے اندر بچپن سے ہی اعلیٰ اخلاقی قدریں پیدا کرنا آج کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اور والدین کو اس پہلو پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے۔ ایک ایسے ماحول میں جب ہمارا معاشرہ انگریزی تعلیم و تہذیب سے متاثر اور مغلوب ہے اپنی قدیم اخلاقی صفات کو باقی رکھنے اور اسے پروان چڑھانے کے لیے بچّوں کو ان تحریروں سے واقف کرانا ضروری ہو جاتا ہے۔ یہ تحریریں دلچسپ بھی ہیں اور سبق آموز بھی۔
بچّوں کے لیے تعمیری،اخلاقی اور سبق آموز تحریریں لکھنے والوں میں کئی نمایاں نام شامل ہیں۔ قدیم مصنفین میں محمد حسین آزاد کا نام قابل ذکر ہے۔ آزاد نے فسانۂ آزاد لکھ کر خوب نام کمایا۔ لیکن بچّوں کے لیے لکھی گئی ان کی اردو کی نصابی کتابیں اب بچّوں کی پہنچ سے دور ہیں۔محمد حسین آزاد کی یہ تحریریں بچّوں کے اندر اعلیٰ اخلاقی صفات پیدا کرنے، انہیں چھوٹی چھوٹی باتوں سے واقف کرانے، اور ایک صاف ستھرے معاشرے کی تعمیر میں معاون ہو سکتی ہیں۔
آزاد نے جس زمانے میں یہ تحریریں لکھیں اس عہد میں اخلاق کی تعلیم بنیادی حیثیت رکھتی تھی۔یہی سبب ہے کہ آزاد کے یہاں اخلاقی تلقین بڑے صاف اور واضح انداز میں ملتی ہے۔
معاشرے میں پیدا ہونے والے بگاڑ کو دیکھتے ہوئےآزاد کی تحریروں کی ضرورت اور اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہمارے بچّے اپنے نصاب میں اردو کے بطور مضمون شامل ہونے کے بعد ہی اردو پڑھیں۔ بلکہ ہمیں اردو کو ان کے سامنے اتنا دلچسپ اور دلآویز بناکر پیش کرنا چاہیے کہ وہ انگریزی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اردو کے بھی گرویدہ ہو جائیں۔ والدین سے ہماری اتنی ہی گزارش ہے کہ وہ انگریزی  تعلیم کے ساتھ ساتھ بچّوں کو بنیادی اردو تعلیم ضرور دلوائیں تاکہ وہ کم از کم اردو کے حروف پڑھنا سیکھ جائیں۔ ایک بار وہ اردو کے حروف سے شناسا ہوگئے اور انہیں جملے پڑھنے کی شد بد ہو گئی تو یہ زبان اتنی دلچسپ اور اس کا ادبی ذخیرہ اتنا من موہ لینے والا ہے کہ پھر وہ خود کو اس سے الگ نہیں رکھ پائیں گے۔
آج موبائل اور انٹر نیٹ کا زمانہ ہے۔ ہر بچّے کے ہاتھ میں موبائل ہے۔ آن لائن ایجوکیشن کو فروغ دیا جارہا ہے۔ ایسے میں کچھ بچّے بے مقصد مشغولیات میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔ ایک بار انہیں سیدھی راہ دکھا دی گئی تو وہ نہ صرف یہاں اپنی درسی کتابوں سے بلکہ اس کے علاوہ اردو کی ایک ایسی سحر انگیز دنیا سے واقف ہو سکتے ہیں جو انہیں ہیری پورٹر کے سیریلوں سے زیادہ لطف دے سکتی ہے۔
بچّوں کے اردو ادب کی اس سحر انگیز سمندر میں غوطہ لگانے کا آغاز ہم محمد حسین آزاد کی تحریروں سے کر رہے ہیں۔ ان تحریوں میں شعبہ ہائے زندگی کے مختلف پہلوؤں پر آسان زبان میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ تحریریں بچّوں کو ایک ایسی تخیلاتی دنیا میں لے جاتی ہیں جہاں ایسا لگتا ہے وہ کھلی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہے ہوں۔ ماحول کی منظر کشی اور مختصر جملوں میں پورے منظر کی عکاسی آزاد کی خصوصیت ہے۔ یہ تحریریں بچّوں کی معلومات میں اضافہ کرتی ہیں ساتھ ہی انہیں ایک بہتر زندگی گزارنے کا سبق سکھاتی ہیں۔
امید ہے آپ کو بھی لطف آئے گا!

خوش خبری