آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Wednesday 13 May 2020

Makdi Ki Kahani

مکڑی کی کہانی 

 کسی زمانے میں  ایک لڑکی تھی جو نہایت نفاست اور صفائی کے ساتھ کپڑا بناتی تھی اس کے کام کی خوبی اور صناعی کو دیکھ کر لوگ یہ کہا کرتے تھے  کہ ہو نہ ہو اس لڑکی کو اس بوڑھی جادوگرنی سے شاگردی  کی نسبت ہے جو دستکاری  کے فن میں استاد ہے۔ شہرت اور ناموری نے اس لڑکی کو اتنا بددماغ بنا دیا کہ کبھی کبھی وہ یہ دعویٰ کرنے لگتی کہ اس کی اُستانی بھی اس کی کاریگری کو نہیں پہنچ سکتی۔اس کی یہ شیخی اس جادوگرنی کے کانوں تک پہنچی اور اس نے چاہا کہ اس مغرور لڑکی کے بے جا غرور کی کڑی سزا دے۔ پس وہ ایک بڑھیا کے بھیس میں لڑکی کے پاس آئی۔ اس کا کام دیکھا اور کہا ”بیٹی کام تو تمہارا بے شک قابل تعریف ہےمگر میری ایک بات یاد رکھو وہ یہ ہے کہ کبھی بھولے سے بھی اپنے اساتذہ سے برابری کا دعویٰ نہ کرنا کیونکہ ایسا کرنا شوخی اور گستاخی ہے جس کا نتیجہ بُرا ہوگا۔“
مغرور لڑکی بُڑھیا کی اس نصیحت کو سُن کر ہنس پڑی اور کہا ”بڑی بی تم تو سٹھیا گئی ہو۔ مجھے کسی کا ڈر نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ کہ اگر میری وہ بوڑھی استانی بھی میرے سامنے آئے تو مجھ سے مقابلہ کرنے میں گھبرائے۔اس کی ہستی ہی کیا ہے  وہ اگر ابھی بھی میرے سامنے آجائے تو میں اس کے ساتھ مقابلہ کرنے اور اپنا کمال دکھانے کے لیے تیار ہوں۔“ یہ سنتے ہی اس جادو گرنی نے اپنا لمبا چوغہ اتار دیا۔ صناعت و کاریگری کی ماہر وہ جادوگرنی اپنی تمام شان و شوکت کے ساتھ سامنے کھڑی ہو گئی اور کہا ” بے وقوف لے میں موجود ہوں اور مجھ سے مقابلے کے لیے تیار ہوجا۔“ نادان لڑکی کو اپنے کمال کا بڑا گھمنڈ تھا وہ خیال کرتی تھی کہ اس کے کمال کے آگے اس کی استانی کا کمال بالکل ہیچ ثابت ہوگا اور وہ بازی لے جائے گی۔دونوں نے کام شروع  کیا اگرچہ کہ لڑکی نے بڑی ہی کاریگری سے نقش و نگار بنائے مگر کہاں یہ بے چاری اور کہاں وہ جادوگرنی۔ زبردست و کمزور کا مقابلہ کیا۔ آخر وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ لڑکی ہار گئی اس ہار نے اُس کو بہت بددل کردیا۔ یہاں تک وہ اپنی زندگی سے بیزار ہو گئی۔ مگر اس جادوگرنی نے کہا” نہیں تیرا اس طرح فنا ہو جانا مناسب نہیں تجھے زندہ رہنا اور ہمیشہ چرخہ کاتنا چاہیے۔“ لڑکی نے بہت منت سماجت کی مگر وہ جادوگرنی نہ مانی۔ جادو گرنی نے کچھ منتر پڑھ کر لڑکی پر پھونکا۔ لڑکی قدو قامت میں گھٹنے لگی۔ گھٹتے گھٹتے اناج کے دانے کے برابر ہوگئی اور اُس کی شکل مکڑی کی ہوگئی۔ پیارے بچّو اور بچّیوں یہ وہی شیخی خور لڑکی ہے جو آج تمہارے مکانوں میں مکڑی کی شکل میں جالا بناتی رہتی ہے۔ اس لیے دیکھو تم کبھی غرور نہ کرنا اور ہمیشہ اپنے اُستاد کی عزت کرنا۔
(بصیر النسا بیگم کی کہانی سے ماخوذ)


Tuesday 12 May 2020

Phool Shah by Ibn e Tahir

پھول شاہ
رمضان المبارک اپنے آخری عشرے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اب سے چار دہائی قبل کا  پاکیزگی اور عظمتوں سے بھرپور رمضان۔ گھر کے سبھی افراد روزہ ہیں۔ افطار کی تیاریاں شروع ہو چکی ہیں۔ امّی باورچی خانے میں افطار بنانے میں مصروف ہیں ۔ ابّا جان کی نگاہیں چھت کی منڈیر سے نیچے سڑک پر ٹکی ہیں کہ افطار میں شریک ہونے کے لیے کسے آواز دیں۔ عصر کے بعد سے ہی باہر کا دروازہ کھول دیا جاتا تھا  تاکہ افطار کے وقت کسی مہمان کو کنڈی کھٹکھٹانے کی ضرورت نہ پڑے۔ عام دنوں میں گھر کا دروازہ بند رہتا تھا۔ رمضان کے اس آخری عشرے میں ہم سب بھائیوں کے کان ایک مخصوص،سریلی، میٹھی اور مانوس  آواز کا انتظار کرنے لگتے۔   اچانک عصر اور مغرب اور کبھی کبھی ظہر اور عصر کے درمیان وہ سُریلی آواز ہمارے کانوں میں گونجنے لگتی:
چمپا، چنبیلی ، مونگے، جوہی، پھولے ہزارے
سچّا ہے جو مسلماں روزے کے پھول چُن لے
جاگیے! اللہ اللہ کیجیے!
ہم سب بھائی اور چھوٹی بہن باہر دروازے کی طرف دوڑ پڑتے۔” پھول شاہ آگئے“، ”پھول شاہ آگئے“ اپنی اتنی عزت و توقیر اور اس والہانہ استقبال سے پھول شاہ بھی پھولے نہ سماتے۔ اس زمانے میں کوئی ریکارڈر نہ تھا لیکن آج بھی وہ آواز اسی طرح ذہن میں موجود ہے۔ شاید گیت کے الفاظ کچھ بدل گئے ہوں لیکن روزے کی پھولوں سے تشبیہ ہو بہو یہی ہے۔ دراز قد، دبلا پتلا جسم، لمبا کرتا، کندھے میں ٹنگا ہوا تھیلا، سفید لمبی داڑھی اور ہاتھوں میں چھڑی اور ایک کشکول۔ یہ تھا پھول شاہ کا حلیہ۔ اباجان رمضان سے قبل ہی پھول شاہ کے لیے اپنا ایک کرتا پاجامہ اور ایک نئی لنگی ان کے نام پر الگ رکھ دیتے تھے۔ لیکن یہ سب انھیں اسی وقت دیا جاتا جب وہ ہم سب کو اپنی سُریلی آواز میں پھولوں کی خوشبوؤں سے معطر اپنا گیت سُنا  دیتے۔ ہم سب اسے سننے کی بار بار ضد کرتے اور آخر وہ دوسرے دن آنے کا وعدہ کر ہی اپنی جان چھڑا پاتے۔ ہم سب ان سے بڑی ہی عزت سے پیش آتے اور پورے عزت و احترام سے اُن کا تحفہ اُن کے حوالے کردیا جاتا اور وہ خوشی سے ہمیں دعائیں دیتے روانہ ہوجاتے ۔مجھے یاد نہیں کہ وہ ہمارے گھر سے نکلنے کے بعد آس پڑوس کے کسی اور گھر میں جاتے ہوں۔ ایک خدا ترس فقیر کی جو توقیر  ہم نے اپنے  گھر میں دیکھی وہ مجھے اور کہیں نظر نہیں آئی۔ اب نہ ویسے سحری کے وقت مخلص جگانے والے اور خوددار سائل رہے اور نہ ان فقیروں اور درویشوں کی عزت و احترام کرنے والے۔ معلوم نہیں ہم آج اپنے بچّوں کی ویسی تربیت کر پا رہے ہیں یا نہیں لیکن ہمارے بڑوں نے جو ہمیں سکھایا ہم آج بھی اس سے فیضیاب ہو رہے ہیں۔ آج 18 رمضان ہے کانوں میں وہی آواز گنگنا رہی ہے
چمپا، چنبیلی ، مونگے، جوہی، پھولے ہزارے
سچّا ہے جو مسلماں روزے کے پھول چُن لے
جاگیے! اللہ اللہ کیجیے!
پھول شاہ کا سراپا سامنے ہے۔ کون تھے کہاں کے رہنے والے تھے یہ معلوم کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی بس رمضان کے آخری عشروں میں چند لمحوں کا ساتھ تھا جس نے ان کے سراپے اور ان کی سُریلی آواز کو آج بھی زندہ رکھا ہے۔ اس سے قبل کہ ایسی شخصیتیں ہماری یادوں سے بھی گُم ہوجائیں اپنے بچّوں کو اُس تہذیب سے روشناس کرادینا ضروری سمجھتا ہوں۔ 

دیگر اسباق کے لیے کلک کریں

Monday 11 May 2020

Urdu mein yaksaan huroof ka mukhtalif istemaal

اردوسےدلچسپی رکھنےوالوں کے لئےپتےکی بات

"ھ" اور "ہ" میں کیا فرق ہے؟

"ھاں" اور "ہاں" کیا دونوں ٹھیک ہیں؟ اسی طرح "ہم" اور "ھم" اگر فرق ہے تو کیا ہے؟

👈اردو میں دو چشمی ھ کا استعمال کمپاؤنڈ حروف تہجی بنانے کے لئے ہوتا ہے۔ مثلاً:
بھ، پھ، تھ، ٹھ، جھ، چھ، دھ، ڈھ، گھ، اور لھ وغیرہ۔

بعض جگہوں پر خوب صورتی یا کسی اور وجہ سے لوگ ابتدا میں ھ کا استعمال کرتے ہیں مثلاً "ھم"، "ھماری" اور "ھاں" وغیرہ .

لیکن یہ استعمال درست نہیں ہے۔ اول تو یہ کہ اردو میں ھ ابتداء لفظ میں کبھی آ ہی نہیں سکتا۔

کیوں کہ دوچشمی ‘‘ھ’’ کی اکیلی مستقل آواز نہیں ہے بلکہ اسے کسی دوسرے حرف کے ساتھ ملا کر لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ اور یہ صرف چند حروف کے ساتھ ہی آسکتی ہے، اردو کے تمام حروف تہجی کے ساتھ نہیں آسکتی مثلاً:
بھ، پھ، تھ، ٹھ، جھ، چھ، دھ، ڈھ، کھ، گھ، لھ، نھ۔
اس کے علاوہ باقی حروف کے ساتھ دوچشمی ھ نہیں آتی، جبکہ ‘‘ ہ ’’ کی الگ مستقل آواز ہوتی ہے۔
ذیل میں دوچشمی ھ اور ہ کے چند جملے لکھے جارہے ہیں، انہیں پڑھ کر آپ کو خود ہی اندازہ ہوجائے گا کہ ان دونوں کے پڑھنے میں کیا فرق ہے اور اُردو زبان میں یہ دو مختلف ھ/ہ الگ الگ کیوں رائج ہیں:

"ھ" 👈 بھ: ننھے منے بچے سب کے من کو بھاتے ہیں۔
"ہ"👈 بہ: لاپرواہ لوگ پانی زیادہ بہاتے ہیں۔

"ھ"👈 پھ: بچے نے کاپی کا صفحہ پھاڑ دیا۔
"ہ"👈 پہ : پہاڑ پر چڑھنا ایک دشوار کام ہے۔

"ھ"👈 تھ : میرا ایک دوست تھائی لینڈ میں رہتا ہے۔
"ہ"👈 تہ: ابھی تک صرف ایک تِہائی کام ہوا ہے۔

"ھ"👈 ٹھ : ان دونوں کی آپس میں ٹھنی ہوئی ہے۔
"ہ"👈 ٹہ: درخت کی ٹہنی پر چڑیا چہچہا رہی ہے۔

"ھ"👈 جھ: آج فضا بوجھل سی ہے۔
"ہ"👈 جہ : ابوجہل اسلام کا سخت دشمن تھا۔

"ھ"👈 چھ: ڈاکٹر نے مریض کے جسم سے گولی کا چَھرّا نکال دیا ، یا چُھری تیز کروا لو۔۔
"ہ"👈 چہ: اس کا چہرہ خوشی سے کِھلا پڑ رہا تھا۔

"ھ"👈 دھ: یار میرا دھندہ خراب مت کرو۔
"ہ"👈 دہ: وہ اس کا نجات دہندہ بن کر آیا۔

نوٹ:- ڈ کے ساتھ ‘‘ہ’’ اور ر کے ساتھ "ھ" کا جملہ نہیں آتا۔

"ھ"👈 ڑھ: میرے گھر کے آگے ڈم ڈم کی باڑھ لگی ہوئی ہے۔
"ہ"👈 ڑہ: میرے گھر کے پاس بھینسوں کا باڑہ ہے۔

"ھ"👈 کھ: میرا قلم کھو گیا ہے۔
"ہ"👈 کہ: ہاں اب کہو! کیا کہنا چاہ رہے تھے۔

"ھ"👈 گھ: جنگلات میں گھنے درخت ہوتے ہیں۔
"ہ"👈 گہ: اس نے اپنی شادی پر گہنے اور دیگر زیورات پہنے ہوئے تھے۔

یہ جملے صرف دوچشمی "ھ" اور "ہ" کے آپس میں فرق واضح کرنے کے لیے بطور مثال لکھے ہیں، اُمّید ہے اس سے آپ مستفید ہوں گے.
 (فیس بُک وال سے، نامعلوم مصنف کے شکریہ کے ساتھ)

Friday 8 May 2020

Hazrat Saleh A.S. - By Allama Rashid ul Khairi

حضرت صالح علیہ السلام

جب شداد اور اس کی قوم کے آدمی تباه تاراج ہو چکے تو پھر لوگوں نے سر کشی اختیار کی۔ عاد کے بعد ثمود کی قوم پیدا ہوئی، یہ لوگ بھی اپنی تجارت وغیرہ میں اچھی طرح کامیاب ہوکر دولت مند ہو گئے۔ اونچے اونچے مکان اور باغات کے مالک بنے۔ اور رات دن بُرے بُرے کاموں میں مصروف رہتے تھے۔ مال کے نشہ نے ان کو اندھا کردیا اور وہ ہرقسم کے گناہوں میں گرفتار ہو گئے۔ جس طرح خدا کا دستور رہا ہے اسی طرح ان میں سے بھی خدا نے ایک شخص کو اپنا بنا لیا۔وہ حضرت صالح علیہ السلام تھے۔ جو ان لوگوں کو ان کے اعمال پر تنبیہ کرتے ۔ ان کو خدا کا راستہ بتاتے ۔ لیکن صالح علیہ السلام کی کوششیں بے کار ثابت ہوئیں ۔ یہ لوگ بھی اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے۔ اور خدا کو خدا نہ سمجھا ۔ یہ قوم دن دونی اور رات چوگنی بے غیرتی اور بے حمیتی میں ترقی کرتی گئی۔
ایک موقع پر جب حضرت صالح علیہ السلام قوم کو خدا کی باتیں بتا رہے تھے۔ لوگوں نے ان کی ہنسی اڑائی - اور کہا”تو دیوانہ ہوگیا ہے ۔ اور۔ چاہتا ہے کہ ہم بھی تیری طرح سِڑی اور پاگل برہوجائں۔ اگر تیرا خدا کوئی ہے تو ہم کو دکھا اور اگر اس کو نہیں دکھاتا اور تو سچّا ہے تو تیرا خدا بھی سچّا ہے تو اس کا کوئی معجزہ دکھانا کہ ہم اس پر ایمان لائیں۔ ورنہ نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم سب مل کر یا تو تجھے مار ڈالیں گے ، یا اپنی بستی سے نکال دیں گے کہ تیراجھگڑا پاک ہو اور ہم اس عذاب سے نجات پائیں۔“
حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا” تو تم مجھ کو بتاؤ کہ کیا دیکھنا چاہتے ہو جو معجزہ تم کہو میں اپنے خدا سے دعا کروں اور وہی معجزه تم کو دکھا دوں۔“
سب نے سوچ کر اور آپس میں مشورہ کر کے کہا ”اگر تو سچّاہے تو اسی وقت اس پتھرسے جو سامنے ہے ایک اونٹنی پیدا ہو اور ہمارے سامنے آکر بچّہ دے اور وہ دودھ دے تو ہم تم کو سچّا پیغمبر یقین کریں ۔“ حضرت صالح علیہ السلام نے کہا : ”اچھا میں خدا سے دعا کرتا ہوں ۔ مگرشرط یہ ہے کہ تم ا ونٹنی کو کسی قسم کی تکلیف نہ دینا۔وعدہ کر لیا تو حضرت صا لح علیہ السلام نے خدا سے دعا کی۔ یہ دعا فورا ً قبول ہوئی اور حضرت صالح نے اپنی قوم سے کہا تم اب میری سچائی کا ثبوت دیکھو۔ مگر اپنی شرط ہمیشہ یاد رکھنا ۔ کہ اونٹنی کو تکلیف نہ ہو۔ اور یہ بھی یاد رکھو کہ تم پر سوا اس کے دودھ کے اورکوئی چیز حلال نہیں ۔
دفعتاً ایک آواز سخت اس پتھرسے نکلی اور تھوڑی دیر بعد ایک خوبصورت اونٹنی برآمد ہوئی ۔ جس نے سب کے سامنے بچّہ دیا۔ اس کے ساتھ تھوڑی سی سبز گھاس بھی تھی ، جو اس نے کھائی ۔ اس کے پاس ہی ایک چشمہ بھی دکھائی دیا اور ایک چراگا ہ جہاں رہ کرگھاس چرتی اور پانی پیتی رہی ۔لوگ اسی اونٹنی کا دودھ خود پیتے تھے اوربھر بھر کر اپنے گھر لے جاتے تھے ۔ حضرت صالح نے لوگوں سے کہا کہ اس کنویں کا پانی خدا کے حکم سے ایک روز کے واسطے تمہارا ہے اور ایک روز اونٹنی کا ۔ تم لوگ باری باری پانی لو مگر جس دن دودھ نہ دوہو اس روز اس او نٹنی کو پانی پینے دو،تم اس روز پانی کا ایک قطره بھی نہ لو۔ دیکھو یہ اللہ کی نشانی ہے۔ اگر
تمھارے ہاتھوں اس کو کوئی تکلیف پہنچی توخدا کا عذاب تم پر نازل ہو گا۔ میں پھر تم کو سمجھاتا ہوں کہ تم اپنے مولا سے ڈرو اور اس کے عذاب سے محفوظ رہو۔
ایک عرصہ تک اس پر عمل ہوتا رہا اور خلق اللہ اس اونٹنی سے فائدہ اٹھاتی رہی ۔ ایک روز کا ذکر ہے کہ چند آدمی جن کی تعداد دس تھی۔ حضرت صالح علیہ السلام کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا کہ عنقریب ایک لڑکا پیدا ہونے والا ہے ، جس کی وجہ سے یہ قوم تباہ ہوجائے گی ؟ چنانچہ جب یہ لڑکا پیدا ہوا جس کا نام قُدار تھا۔ تو لوگوں نے اس کو نگاہ میں رکھا ۔ یہ بڑا ہوا تو اس نے اپنے ساتھ ہر قبیلہ کے ایک ایک آدمی کو بلا یا ۔ اور شراب پی کر طے کیا کہ اونٹنی کو مار ڈالیں ۔ جس وقت اونٹنی پانی پی رہی تھی ان لوگوں نے حملہ کیا اور اونٹنی کو مار ڈالا۔ اور حضرت صالح علیہ السلام سے کہا کہ اگر تو سچّا ہے تو اب ہم کو کوئی عذاب دکھا ۔ ہم نے تیری اونٹنی کو سزا دی ۔ اگر کوئی عذاب نہ آیا تو یاد رکھ تیری بھی تکاّ بوٹی کر دیں گے۔
حضرت صالح علیہ السلام کچھ دیر خاموش رہے اور اپنی اونٹنی پر بہت رنجیدہ ہوئے۔ اس کے بعد انھوں نے اونٹنی کی طرف دیکھا ۔ ہاتھ اٹھا کر دعا کی اور کہا:
”اے قوم ثمود ،میں نے اپنی طرف سے تم کو سمجھانے اور خدا کی طرف بلانے میں کسر باقی نہ چھوڑی ۔لیکن میری بدقسمتی نے تم کو سیدھے راستے پر نہ آنے دیا۔ تونے میری ہنسی اڑائی، برا بھلاکہا اور میری ایک بات نہ سنی ۔ اب میں تم کو خبردار کرتا ہوں کہ تمہارے کہنے کے موافق میں نے خدا سے عذاب کی دعا کی ہے ۔ میں جانتا ہوں کہ میرا خدا میری دعا قبول کرے گا۔ تم پر اس کا عذاب نازل ہو گا۔ توبہ کا دروازہ اب بھی کھلا ہوا ہے ۔ اگر اس وقت بھی تم اپنے کئے پرپچھتاؤ گے اور سچے دل سے توبہ کرتے ہوئے اس کی طرف صاف بڑھوگے تو اُس کے عذاب سے بچے رہوگے۔ آگے تم کو اختیارہے۔“
اس کے جواب میں قوم ِثمود نے قہقہہ لگایا اور کہا صا لح علیہ السلام کیسا عذاب کس کا عذاب ،ان باتوں میں ہم آنے والے نہیں ہیں۔ اس لغویت کو اپنے پاس رکھو اور عذاب کا خوف کسی اور قوم کوسُناہم تیری باتوں میں آنے والے نہیں ہیں۔
حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا ”تم پر ایک چنگھاڑ کا عذاب نازل ہو گا ۔یعنی آتشی چنگھاڑ کہ کان کے پردے پھٹ جا ئیں گے اور تم مر جاؤ گے۔“
یہ سن کر ان بے وقوفوں نے نے اپنے کانوںمیں روئیاں ٹھونسیں اور روز خبریں رکھیں کہ کسی طرح چنگھاڑ سے محفوظ رہیں مگرجب خدا کا حکم قریب پہنچا توبھونچال یعنی زلزلہ شروع ہوا۔ اور بہت زور زور کی آوازیں نکلیں اور اس قیامت کی کہ سوائے ان لوگوں کے، جو حضرت کے ساتھ تھے باقی جس قدرتھے تباه و تاراج ہوگئے۔اس طرح قوم ِ ثمود اپنی نا فرمانی کی وجہ سے عذابِ الٰہی میں گرفتار ہوئی ۔
حضرت صالح اس قوم کی یہ کیفیت دیکھ کرشام کی طرف روانہ ہوئے اور وہیں رہنے سہنے لگے۔
(علامہ راشد الخیری)

*قُدار بن سالف بن جندع قبیلہ ثمود کا وہ شخص تھا جس نے حضرت صالح کی اونٹنی کو ہلاک کیا۔

Thursday 7 May 2020

Malika Bilqees

ملکہ بلقیس
ایک دن حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے دربار میں رونق افروز تھے، انسان اورجنّات سب قسم کے حیوانات حاضرخدمت تھے ۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے پرندوں کی طرف نگاہ مبارک اٹھا کر دیکھا اور فرمایا۔ ہم میں آج ہُد ہُد  نظر نہیں آتا کیا وجہ ہے؟ وه آج کیوں غیر حاضر  ہےاورکیا و جہ اس کی حاضری میں مانع ہوئی، ہم کو اس بات کی سخت تشویش ہے اگر اس کی غیر حاضری گستاخی پرمبنی ہے تو آج ہم اس کو ضرور ہلاک کردیں گے۔
ابھی یہ بات حضرت سلیمان علیہ السلام کے دہن مبارک سے نکلی ہی تھی کہ ہُدہُد پھدکتا  ہوا دربار میں داخل ہوا اور عرض کیا اے جہاں پناه آج میں نے ایک نہایت عجیب واقعہ دیکھا ہے اجازت ہوتوعرض کروں۔ یہی واقعہ میری عدم موجودگی کا باعث ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام  کے اجازت دینے پر ہُدہُد نے بیان کیا کہ آج میں سویرے اِدھر اُدھر پھرتا پھراتا ایک ملک میں سے گزرا اس ملک کا نام ”سباح“ ہے اور اس میں بجائے مرد کے ایک عورت حکمرانی کرتی ہے۔ اس کا نام ملکہ بلقیس ہے۔ ملک نہایت سرسبز ہے، رعیت کے لئے بہت اچھا انتظام ہے۔ خداوند عالم نے وہاں کسی قسم کی کمی نہیں چھوڑی۔ ہر طرح سے لوگ خوش ہیں۔ لیکن بجائے اس کے کہ وہ لوگ مالک حقیقی کے آگے سرنیاز خم کریں وہ سورج کی پرستش کرتے ہیں۔ جہاں پناہ مجھے یہ دیکھ کر بہت رنج ہوا ۔ اس قدر ہے ادبی اتنی گستاخی نہ معلوم خدا وند عالم کی کون سی مصلحت پوشیدہ ہے۔ کہ باوجود اس گناہ کے وہاں کے لوگ  نہایت آرام سے رہتے ہیں۔ حضرت علیہ السلام نے فرمایا  اے ہُد ہُد کیا تو سچ کہتا ہے؟ ہمیں اب تک اس جگہ کا پتہ نہ تھا۔ ہم ابھی دریافت کرتے ہیں۔ہمارا یہ فرمان     لے کر تم خود ملکہ کے دربار میں جاؤ۔ فرمان چُپکے سے ملکہ کے آگے ڈال کر خود ایک طرف ہٹ جاؤ ۔ پھر دیکھو کیا واقعہ ظہور میں آتا ہے۔
ہُد ہُد فرمان لے کر روانہ ہوا۔ منزل بہ منزل طے کرتا ہوا۔ ملک سباح میں پہونچا۔ فرمان ملکہ کے قریب ڈال کر خود ایک طرف ہوگیا۔ ملکہ نے فرمان دیکھ کر حکم دیا کہ اس کو پڑھا جائے۔چنانچہ فرمان پڑھا گیا اور ملکہ نے کہا اے میرے وزیر اورمشیر مجھے صلاح دو کہ میں کیا کروں؟ وزیروں مشیروں نے عرض کیا ملکہ عالم ہمارے پاس بہت سی فوج ہے اور آپ بخوبی جانتی ہیں کہ ہم بہت بہادر ہیں۔ اگر آپ حکم دیں تو ابھی کوچ کردیں اور ان کے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں۔ ملکہ نے کچھ دیر توقف کیا پھر سوچ کر کہا میں لڑائی کرنا پسند نہیں کرتی اس لیے کہ اس میں بہت نقصان ہوتا ہے، بہت سے بے گناہ قتل ہوتے ہیں نسلیں خراب ہوجاتی ہیں، قحط پڑجاتا ہے، میری رائے ہے کچھ تحفے حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں روانہ کیے جائیں۔ چنانچہ ایلچی بہت بیش بہا تحفے لے کر حضرت سلیمان کی خدمت میں حاضر ہوا لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام نے ان کے لینے سے انکار کیا اور فرمایا نہیں ہمیں ان چیزوں کی ضرورت نہیں ہمارا مقصد یہ ہے کہ تمہارا ملک معبود حقیقی کی پرستش کرے۔بعد ازاں فرمایا اس وقت ملکہ بلقیس کو میرے پاس حاضر کر سکتا ہے۔ جنّات میں سے ایک نے عرض کیا حضور میں دربار کے برخاست ہونے سے پہلے ملکہ کا تخت حاضر کردوں گا۔ حضرت سلیمان یہ سن کر خاموش رہے۔ معلوم ہوتا تھا کہ ان کو اتنی دیر میں ملکہ کا آنا منظور نہیں۔ آپ کے وزیر اعظم آصف نے آپ کے بشرے کو دیکھ کر کہا”بادشاہ عالم! میں ملکہ کو اسی لمحے حاضر کرتا ہوں۔“کہتے ہیں کہ وزیر آصف نے اسم اعظم کے اثر سے ملکہ کو اس کے بیش بہا تخت سمیت ایک آنِ واحد میں حاضر کردیا۔تب حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ بلقیس سے زبانی بات چیت کی۔ملکہ بلقیس کو پہلے ہی حضرت سلیمان کا حال معلوم ہوچکا تھا چنانچہ وہ فوراً ایمان لے آئیں کیونکہ وہ خود سچّے مذہب کی متلاشی تھیں۔
حضرت سلیمان علیہ السلام ملکہ بلقیس کو اپنے محل خاص میں لے کر گئے اس کا تمام فرش عبور کا تھا۔بچاری ملکہ کو خبر نہ تھی اس نے سمجھا کہ پانی ہے وہ اپنے پانچے اٹھا اٹھا کر چلنے لگی۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے اصل حقیقت بتائی تو ملکہ بہت شرمندہ ہوئی کہ اس نےہر قسم کا سامان اور چیزیں اپنے ملک میں دیکھی تھیں لیکن اس سے ناواقف تھی۔
(نصرت جہاں۔ بہ شکریہ بنات)

Wednesday 6 May 2020

Zaif ul Eteqaadi - Pandit Ratan Nath Sarshar

ضعیف الاعتقادی
 پنڈت رتن ناتھ سرشار

(یہ مضمون  پنڈت رتن ناتھ سرشار کی کتاب ”فسانۂ آزاد“ سے لیا گیا ہے، یہ کتاب  دراصل ایک مسلسل افسانہ ہے جو اخبار اودھ میں قسط وار شائع ہوا تھا جس کو بعد میں کتاب کی صورت میں شائخ کیا۔ اس کی کئی جلدیں ہیں۔ اس مضمون میں سرشار نے ثوہم پرستی اور کمزور اعتقادی کی تردید کی ہے۔ یہ مضمون اس زمانے کی لکھنؤ کی ٹکسالی زبان میں لکھا گیا ہے جس میں محاوروں،تلمیحات و تشبیہات و استعارات کی بھرمارہے۔)

میاں آزاد کو ایک دن  نماز پڑھنے کا شوق ہوا۔ سوچے کہ آج جمعہ ہے۔ چنانچہ مسجد کی طرف نکلے۔ راہ میں دو آدمی بھوت پریت اور جن و شیطان کے متعلق گفتگو کرتے جارہے تھے۔ ان میں ایک موٹا اور دوسرا د بلا پتلا تھا۔ موٹا بھوت پریت کا قائل نہ تھا اور دبلاجن پری پر ایمان لایا ہوا تھا۔ دونوں میں تکرار ہورہی تھی۔موٹے نے کہا : ”اگر جن پری کی کچھ حقیقت ہے تو مجھے ثابت کر دکھاؤ" چنانچہ دونوں نے ایک گاؤں کو جانا طے کیا۔ جہاں ایک عامل بھوت پریت کا عمل کرتاہے۔
میاں آزاد یہ سُن کر ان کے ساتھ ہو لئے اور نماز پڑھنا بھول گئے۔ ٹانگے میں  سوار ہو کر گاؤں میں جا پہنچے۔ عامل کے مکان پر ایک میلے کی سی بھیڑ تھی۔ اس بھیڑ میں انھوں نے اس موٹے کو ڈھونڈ نکالا۔ اوراس سے کہا کہ میں بھی بھوت پریت کا قائل نہیں۔ آج اس مکّار عامل کی قلعی کھولتا چاہئے۔ دونوں مل گئے۔ اتنے میں عامل با ہر آیا اور للکار کر کہا کہ کوئی آکرمجھ سے زور آزمانا چاہے تو آئے۔ ایک سدها ہو آدمی آگے بڑھا اور کشتی ہوئی۔ وہ شخص ایک ہی مار میں چاروں خانے چت ہوگیا اور بیہوش بنا پڑ گیا، عامل نے پھرللکارا کہ کوئی اور ہے ؟ یہ سُن کر میاں آزاد نے آؤ دیکھا نہ تاؤ جھٹ لنگو ٹ کس کر میدان  میں کوو پڑے ۔ عامل یہ  دیکھ کر ہکّا بکّا رہ گیا۔ آخر میاں آزاد نے ایک ہی مار میں اسے پچھاڑ دیا. عامل کی ساری شیخی جاتی رہی اور سارا مجمع غُل مچانے لگا۔ عامل کو اُسی روزگاؤں چھوڑنا پڑا۔
وہاں سے میاں آزاد اور موٹا  آدمی دونوں ہاتھ میں ہاتھ ملائے واپس لوٹے۔ راستہ بھر ہی عامل کی باتیں اور بھوت پریت کے قصّے ہوتے رہے۔ آزاد نے اپنا ایک اور قصّہ سنایا کہ ایک صاحب غیب دان تھے لوگ ان کے بہت معتقد تھے۔ ایک روز آزاد نے پوچھا کہ میرے ہاتھ میں کیا ہے ؟ اس نے کہازرد پھول ہے۔  آزاد نے کہا اگر نہ ہوتو؟ یہ سُن کر غیب دان کا چہرہ زرد پڑ گیا ، پھر کہا سبزپھول ہے۔ آزارنے کہا آج تک ہرے رنگ کا پھول کہیں دیکھا نہ سُنا۔ غیب دان پریشان ہوگیا، مجلس میں ایک قہقہہ پڑا اور اس کے حواس غائب ہو گئے۔
میاں آزاد سیدھے اسٹیشن پہونچے۔ یہاں ایک رئیس اپنے مصاحبوں کے ساتھ  تشریف رکھتے تھے ۔ میاں آزاد کی انگریزی وضع دیکھ کر رئیس کے  مصاحب آزاد پر  پھبتیاں کسنے لگے۔ آزاد  تو تھے ہی آزاد ترکی بہ ترکی جواب دینے لگے ۔ مصاحب عاجز آ گئے، نواب نے ان کی حاضر جوابی کو پسند کیا اور آزاد کو بھی اپنے مصاحبوں میں شامل کر لیا مصاحبوں نے ازراہِ حسد نواب سے کہاحضور کا ان کو مصاحب رکھنا مناسب نہیں معلوم نہیں یہ کون ذات شریف ہیں؟۔

Monday 4 May 2020

Pahad Aur Gilehri - NCERT Solutions Class 10 Urdu

پہاڑ اور گلہری

علامہ اقبال
 Courtesy NCERT
کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے
تجھے ہو شرم تو پانی میں جا کے ڈوب مرے
ذرا سی چیز ہے، اس پر غرور، کیا کہنا !
یہ عقل اور یہ سمجھ، یہ شعور، کیا کہنا
خدا کی شان ہے، ناچیز، چیز بن بیٹھیں
جو بے شعور ہوں، یوں با تمیز بن بیٹھیں
تری بساط ہے کیا، میری شان کے آگے
زمیں ہے پست، مری آن بان کے آگے
جو بات مجھ میں ہے، تجھ کو وہ ہے نصیب کہاں
بھلا پہاڑ کہاں، جانور غریب کہاں
کہا یہ سن کے گلہری نے منہ سنبھال ذرا
یہ کچّی باتیں ہیں، دل سے انھیں نکال ذرا
جو میں بڑی نہیں تیری طرح تو کیا پروا
نہیں ہے تو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا
ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے
کوئی بڑا، کوئی چھوٹا، یہ اس کی حکمت ہے
بڑا جہان میں تجھ کو بنا دیا اس نے
مجھے درخت پر چڑھنا سکھا دیا اس نے
قدم اٹھانے کی طاقت نہیں ذرا تجھ میں
نِری بڑائی ہے، خوبی ہے اور کیا تجھ میں
جو تو بڑا ہے، تو مجھ سا ہنر دکھا مجھ کو
یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دکھا مجھ کو
نہیں ہے چیز نِکمّی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں

علامہ اقبال
(1877-1938)
اقبال کا شمار اردو کے بلند مرتبہ شاعروں اور مفکروں میں ہوتا ہے۔ وہ سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔ اپنے خیالات کی گیرائی اور شعری صلاحیت کی وجہ سے ان کا نام دنیا بھر میں مشہور ہے۔ انھوں نے بچوں کے لیے بھی نظمیں کہی ہیں۔ ان کی شاعری دنیا کی عظیم شاعری میں شمار کی جاتی ہے۔ اقبال اردو کے سب سے بڑے فلسفی شاعر ہیں۔ بچوں کے لیے انھوں نے جونظمیں لکھی ہیں ان میں” بچے کی دعا‘‘ ،’’قومی ترانہ“، ”پہاڑ اور گلہری“، ”جگنو“، ” ہمدردی‘‘، ’’ پرندے کی فریاد“ اور ”ماں کا خواب“ وغیرہ بہت مقبول ہوئیں۔
ان نظموں کے ذریعے اقبال نے بچوں میں بلند خیالی، ایمانداری، سچائی، محبت، بھائی چارہ، انصاف، بلند کرداری، ہمدردی، انسانی جذبہ، مل جل کر ساتھ رہنے اور ایک دوسرے کی مدد کرنے جیسی صفات پیدا کی ہیں ۔
اقبال کی کئی کتابیں اردو کے علاوہ فارسی اور انگریزی میں بھی شائع ہوچکی ہیں اور ان کی شاعری کے ترجمے دنیا کی بہت سی زبانوں میں کیے گئے ہیں۔

معنی یاد کیجیے:
شعور : عقل، سمجھ
ناچیز : معمولی ، حقیر
با تمیز : تمیزدار
بساط : حیثیت
پست : نیچی، کم درجہ
آن بان : شان ، بڑائی
حکمت : تدبیر
نِری : صرف
ہنر : کام کرنے کی صلاحیت، فن
نِکمّی : بے کار
غور کیجیے:
دنیا میں کوئی چیز اپنے قد کی وجہ سے اہم نہیں ہوتی ، اصل اہمیت کام کی ہے۔

سوچیے اور بتائیے:
سوال: پہاڑ نے گلہری سے ڈوب مرنے کو کیوں کہا؟
جواب: پہاڑ کے نظریے سے گلہری ایک ذرا سی چیز ہے پھر بھی اس کو بہت غرور ہے۔ساتھ ہی نہ اس کے پاس عقل ہے نہ شعور پھر بھی خود کو بہت بڑا سمجھتی ہے۔

سوال: گلہری نے پہاڑ کو کیا جواب دیا؟
جواب: گلہری نے پہاڑ کی باتیں سن کر پہاڑ کو منھ سبھالنے کے لیے کہا اور کہا کہ ان کچّی باتوں کو دل سے نکالے۔اس نے کہا کہ میں اگر تمہاری طرح بڑی نہیں ہوں تو کیا ہوا۔ خدا کے کارخانے میں کوئی بڑا کوئی چھوٹانہیں اس نے  سب کو الگ الگ کام کے لئے بنایا ہے۔

 سوال: پہاڑ نے اپنی بڑائی میں کیا کہا؟
جواب: پہاڑ نے اپتی بڑائی کرتے ہوئے گلہری کو نیچا دکھایا اور کہا کہ  پہاڑ کی آن بان کے آگےزمین بھی پست ہے۔تو اس کے آگے ایک گلہری  کی کیا حیثیت ہے۔

 سوال: گلہری ایسا کون سا کام کر سکتی ہے جو پہاڑ کے بس کا نہیں؟
 جواب: گلہری درخت پہ چڑھ سکتی ہے، چھالیا توڑ سکتی ہے لیکن پہاڑ یہ سب نہیں کر سکتا۔

 سوال: کن باتوں سے خدا کی قدرت کا پتہ چلتا ہے؟
جواب: دنیا کی ہر چیز سے خدا کی حکمت ظاہر ہوتی ہے، کوئی بھی چیز بیکار نہیں ، دنیا میں خدا کی بنائی ہوئی کوئی بھی چیز بری نہیں۔

عملی کا م:
* ”غرور/شعور“
* ”چیز/تمیز“
* ان لفظوں کو بلند آواز سے پڑھ کر معلوم کیجیے کہ ان کی آوازیں آخر میں کیسی ہیں۔ ایسے ہی ایک جیسی آوازوں پر ختم ہونے والے دوسرے الفاظ نظم سے تلاش کر کے اپنی کاپی میں لکھیے ۔ استاد سے پوچھیے کہ ایسے لفظوں کو کیا کہتے ہیں؟

کلک برائے دیگر اسباق

Iswaran - The Story Teller - Urdu- R K Laxman

ایشورن۔ ایک قصّہ گو
آر کے لکشمن


مہیندر  ایک فرم میں جونیئر سپروائزر تھا جو مختلف قسم کے تعمیراتی سائٹ  جیسے فیکٹریوں، پلوں اور ڈیموں پر سپروائزری کی پیش کش کرتا تھا ۔ اس کا کام وہاں چلنے والے کام پر نظر رکھنا تھا۔اسے اپنے کام  کے سلسلے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا پڑتا تھا۔کوئلے کی کان سے لے کر ریلوے پُل کے تعمیراتی جگہ تک۔
وہ کنوارا تھا۔ اس کی ضرورتیںکم تھیں اور وہ اپنے آپ کو ہر طرح کی عجیب و غریب حالتوں میں ایڈجسٹ کرنے کے قابل تھا ۔ لیکن اس کے پاس ایک اثاثہ تھا اس کا باورچی ، ایشورن۔ باورچی  کا مہیندر کے ساتھ کافی لگاؤ  تھا اور جہاں بھی اس کی پوسٹنگ ہوتی بلاجواز اس کے پیچھے چل پڑتا۔ وہ مہیندر کے لئےکھانا پکا تا ،  کپڑے دھوتا اور رات کے وقت اپنے آقا سے باتیں کرتا۔
وہ مختلف موضوعات پر نہ ختم ہونے والی کہانیاں  سنااور  بنا سکتا تھا۔
ایشورن میں بنجر زمین  میں ، سبزیاں اور کھانا پکانے کے اجزا پیدا کرنے کی حیرت انگیز صلاحیت موجود تھی ، جس کے آس پاس میلوں دور تک کوئی دکان نہ تھی ۔ وہ۔ زنک شیٹ شیلٹر پہنچنے جو کے مہندر کے نئے کام کی جگہ تھی  یہاں پہُنچ کر ایشورن نے بہت لذیذ پکوان تیار کیے جو کے بلکل تازی سبزیوں سے بنے تھے۔
مہیندر صبح سویرے اٹھتا اور ناشتے کے بعد کام پر روانہ ہوتا ، اپنے ساتھ کچھ تیار کھانا لے کر جاتا ۔ ادھر ، ایشورن صاف صفائی کرتا ، کپڑے دھوتا اور آرام سے نہاتا ،  اس وقت تک لنچ کا وقت ہوجاتا ۔ کھانے کے بعد ، وہ کتاب پڑھتا  کتاب عام طور پر کچھ مشہور تامل زبان  کے ناول ہوتے ۔بہت صفحات پڑھ لینے کے بعد  اُسکی تصوّر اور داستان گوئی میں اضافہ ہو جاتا۔
ایشورن کا اپنا کردار تمل مصنفوں سے متاثر تھا  جب وہ چھوٹے چھوٹے واقعات کو بھی بیان کر رہا ہوتا تو وہ پیش بند مزید پر اسرار طریقے سے سناتا اور حیرت میں اس کو ختم کرتا ۔ مثال کے طور پر ، وہ یہ کہنے کے بجائے کہ وہ راہ پر ایک اکھڑے ہوئے درخت کے پاس آگیا ہے ، بھوؤں کو پراسرار انداز میں محراب بنا کر اور ہاتھوں کو ڈرامائی اشارے سے تھامے کہتا، ”سڑک ویران ہوگئی تھی اور میں بالکل تنہا تھا۔ اچانک میں نے کچھ ایسی چیز دیکھی جس کو دیکھ کر لگتا   تھا کہ ایک بہت بڑا جنگلی درندہ سڑک کے  اُس پار پھیلا پڑا ہے۔ میں آدھا مڑ گیا اور مڑ کر واپس گیا۔ لیکن جب میں قریب پہنچا تو میں نے دیکھا کہ یہ ایک گرا ہوا درخت ہے ، جس کی خشک شاخیں دور تک پھیل چکی ہیں۔“ مہیندر خود کو واپس اپنی  کرسی پر کھینچتا اور  غور سے  ایشورن کی داستانیں سنتا۔
”جس جگہ سے میں آیا ہوں وہ لکڑی کے لئے مشہور ہے ، “ ایشورن شروع کرتا ہے۔ ”وہ جگہ چاروں طرف جنگل سے بھرپور ہے۔ وہاں بہت سے ہاتھی ہیں ۔ وہ بہت خطرناک  جانور ہیں۔ جب وہ جنگلی ہوجاتے ہیں تب  انتہائی تجربہ کار مہاوت ان پر قابو نہیں رکھتا ہے۔“ اس  کے بعد ، ایشورن ایک ہاتھی کو شامل کرتے ہوئے  ایک طویل قصّے کی شروعات کرتا ہے۔
”ایک دن لکڑی کے صحن سے ایک ہاتھی فرار ہوگیا اور گھومنے پھرنے لگا ، جھاڑیوں کو کچلنے  لگا   ،  اپنی مرضی سے شاخیں توڑ رہا تھا۔ آپ جانتے ہیں ، جناب ، جب ہاتھی پاگل ہوجاتا ہے تو وہ کیسا سلوک کرتا ہے۔“ ایشورن اپنی کہانی کے جوش میں اتنا پھنس جاتا کہ وہ فرش سے اٹھ کر پھلانگ جاتا ، پاگل ہاتھی کی تقلید میں اپنے پاؤں کو فرش پر مار نے لگتا۔
”ہاتھی ہمارے شہر کے وسط  میں پہنچ کر مرکزی سڑک پر آگیا اور پھلوں ، مٹی کے برتنوں اور کپڑے فروخت کرنے والے تمام اسٹالوں کو توڑ دیا۔ گھبراہٹ میں لوگ یہاں وہاں  بھاگے! ہاتھی اب اینٹوں کی دیوار کو توڑ کر اسکول کے میدان میں داخل ہوا جہاں بچے کھیل رہے تھے ،  سب لڑکے کلاس روموں میں بھاگے اور دروازوں کو سختی سے بند کیا۔ وہ جانور  گھوم رہا ،ہاتھی نے فٹ بال کا گول پوسٹ کھینچا ، والی بال کا جال پھاڑ دیا ، پانی  رکھے ہوئے ڈرام کو لات مار کر چپٹا کیا ، اور جھاڑیوں کو جڑ سے اکھاڑ دیا۔ اسی دوران ، تمام استا د اسکول کی عمارت کی چھت پر چڑھ گئے تھے۔ وہاں سے انہوں نے بے بسی سے ہاتھی کی تباہی  دیکھی۔ زمین پر نیچے کوئی  نہیں تھا۔ سڑکیں خالی تھیں جیسے پورے قصبے کے باسی اچانک غائب ہو گئے ہوں۔
میں اس وقت جونیئر کلاس میں پڑھ رہا تھا اور چھت سے پورا ڈرامہ دیکھ رہا تھا۔ مجھے نہیں معلوم  اچانک میرے دماغ میں کیا آیا۔ میں نے ایک استا د کے ہاتھ سے ایک چھڑی پکڑی اور سیڑھیاں اتر کر باہر کی طرف بھاگا۔ ہاتھی نے  ایک شاخ کو گرا دیا ،  یہ خوفناک لگتا تھا.مگر میں آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھا۔  لوگ اس منظر کو قریبی گھروں کی چھتوں سے خوفزدہ نظروں سےدیکھ رہے تھے۔ ہاتھی نے سرخ آنکھوں سے میری طرف دیکھا ، ہاتھی میری طرف جھپٹنے کو تیار تھا  اس وقت میں آگے بڑھا اور  اپنی ساری قوت کو اکٹھا کرتے ہوئے  جلدی سے اس کی تیسری انگلی پر مارا حیوان ایک لمحے کے لئے دنگ رہ گیا۔ تب یہ سر سے پاؤں تک ہل گیا - اور وہیں ڈھیرہوگیا۔“
اس موقع پر ایشورن اس کہانی کو ادھورا چھوڑ دیتا ،”میں گیس جلانے اور رات کا کھانا گرمانے کے بعد واپس آؤں گا۔“
مہندر جو بڑے غور سے کہانی سن  رہا تھا کہانی کے درمیان میں لٹکا رہ گیا ۔
جب  ایشوران لوٹ کر آتا ، وہ کہانی نہیں سناتا تھا  مہیندر کواُسے یاد دلانا پڑتا تھا کہ کہانی ختم نہیں ہوئی تھی آخر میں کیا ہوا ۔
 ”خیر ، ایک ویٹنری ڈاکٹر کو جانور کو ٹھیک کرنے کے لئے طلب کیا گیا تھا ، دو دن بعد اسے جنگل کی طرف روانہ کردیا گیا۔“
”ٹھیک ہے ، تم نے اس کا انتظام کیسے کیا ، ایشورن - تم نے اس درندے کو کیسے نیچے  گرایا؟“
”میرے خیال میں ، اس کا جاپانی فن سے کوئی تعلق ہے۔ کراٹے یا ’جو-جیتسو‘  کہتے ہیں۔ میں نے اس کے بارے میں کہیں پڑھا تھا۔ آپ دیکھیں گے کہ عارضی طور پر یہ اعصابی نظام کو مفلوج کردیتا ہے۔“
ایسا کوئی دن نہیں گزرتا تھا جب ایشورن کوئی پُر اسرار ،سسپنس سے بھرپور ڈراؤنی کہانی نہیں سناتا چاہے وہ قابلِ اعتبار ہو یہ نہ ہو۔
مہیندر کو ایشورن کے انداز میں کہانی سننا بہت پسند تھا ۔ایشورن مہیندر کے لیے ٹیلی ویژن کا کام کرتا تھا۔
 ایک صبح جب مہیندر ناشتہ کر رہا تھا ایشورن نے پوچھا ، ”کیا میں آج رات کے کھانے کے لئے کچھ خاص بنا سکتا ہوں؟ بہر حال ، آج کا دن ایک اچھا دن ہے۔ روایت کے مطابق ہم آج اپنے پروجوں کی روح کو کھانا کھلانے کے لئے طرح طرح کے پکوان تیار کرتے ہیں۔“

 اس رات مہیندر نے انتہائی  لذیذ کھانے کا لطف اٹھایا اور اُس نے ایشورن  کی مہارت کی تعریف کی۔ وہ بہت خوش تھا لیکن ، اچانک ایشورن نے بھوت پریت کی کہانی سناني شروع کردی۔
”آپ جانتے ہیں کے یہ فیکٹری کی جگہ کبھی قبرستان تھی ۔“
مہند ر لذیذ کھانے کھا کے بیٹھا تھا یہ سن کر اسے جھٹکا لگا۔
ایشورن کہتا گیا میں تو پہلے دن ہی  سے جانتا تھا جب میں نے راستے میں بہت سی ہڈیاں اور کھوپڑیاں دیکھی تھیں۔
ایشورن سناتا گیا ”میں نے دو راتوں سے بھوت کو بھی دیکھا ہے، میں ڈرتا نہیں ہو ںکیونکہ میں بہادر ہوں، لیکن ایک عورت کی روح جو پورے چاند کی آدھی رات کو دکھائی دیتی ہے۔یہ بہت ڈراؤنی عورت ہے اُلجھے ہوئے بال خوفناک جھریوں سے بھرا چہرہ اور ہاتھ میں ایک بچّے کا کنکال لیے رہتی ہے ۔“
 مہیندر یہ سن کر کانپ اٹھا اُس نے ایشورن کو ٹوکا” تم پاگل ہو بھوت پریت کچھ نہیں ہوتا  یہ سب تمہاری سوچ ہے میرے خیال سے تمہارا ہاضمہ ٹھیک نہیں اور  دماغ بھی ،تم  بکواس کر رہے ہو۔“
وہ سونے کے لئے چلا گیا اور سوچنے لگا کہ ایشورن اگلے دو دن تک اُداس رہیگا لیکن اگلے دن ایشورن  پہلے کی طرح خوش اور باتونی تھا۔
اس دن سے مہیندر کو سوتے وقت بے چینی رہنے لگی ہر  رات وہ اپنے کمرے میں کھڑکی سے اندھیرے میں جھانکتا تھا کے آس پاس کوئی بھوت یا روح تو نہیں ۔
لیکن اسے کچھ نظر نہیں آتا۔
 ایک رات مہیندر کی نیند کھڑکی کے پاس  کراہنے کی آواز سے کھلی۔ پہلے تو اُس نے یہ سمجھا کے کوئی بلی گھوم رہی ہے مگر آواز کسی انسان کی لگ رہی تھی۔
اس نے سوچا کہ جھانک کر دیکھے مگر وہ ڈرتا تھا کے کوئی بھوت نہ ہو مگر آواز تیز ہوتی گئی  اور یہ صاف ہو گیا کے یہ کسی بلی کی آواز نہیں ہے وہ اپنے آپ کو نہیں روک سکا اور اُس نے نیچے جھانکا، ایک سایہ نیچے کھڑا تھا۔  اس کو ٹھنڈا پسینہ آگیا اور وہ تکیے پر آ گرا ۔جب وہ  اس  سایہ کے خوف سے تھوڑا ٹھیک ہوا تو اُس نے اسے اپنا دماغی فتور مان لیا۔اگلے دن جب وہ اٹھا  اور کمرے سے نکلا تو رات کی باتیں اُس کے دماغ سے نکل گئی تھیں۔ ایشورن نے اسے دوپہر کے کھانے کا تھیلا پکڑایا پھر ہنس کر کہا:
صاحب اس دن کو یاد کیجیے ایک عورت جو ہاتھ میں بچّہ لیے تھی آپ اس بات کے لیے مجھ سے بہت ناراض ہوئے
آپ نے بھی تو اسے پچھلی رات دیکھ لیا ۔
جب میں نے آپ کے کمرے سے آواز آتی سنی تو میں دوڑ کر آیا تھا ۔
مہیند ر ٹھنڈا پڑ گیا اور اس سے پہلےکہ ایشورن پوری بات کہتا   وہ چلا گیا۔
اوراُسی دن  اُس نے آفس میں لیٹر دے دیا کے اب وہ یہاں نہیں رہے گا اور کل ہی واپس چلا جائیگا۔

Dard Minnat Kashe Dawa Na Hua - Mirza Ghalib - NCERT Solutions Class IX Urdu

غزل
مرزا غالب

درد منت کش دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا

 جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا، گِلا نہ ہوا

 کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا

 ہے خبر گرم ان کے آنے کی
آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا

 کیا وہ نمرود کی خدائی تھی؟
بندگی میں برا بھلا نہ ہوا

 جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

 کچھ تو پڑھیے کہ لوگ کہتے ہیں
 آج غالب غزل سرا نہ ہوا

مرزا اسد اللہ خاں غالب
(1869ء - 1797ء)
مرزا غالب آگرے میں پیدا ہوئے ۔ باپ اور چچا کی موت کی وجہ سے غالب بچپن ہی میں تنہا رہ گئے اور ان کی دادی نے ان کی پرورش کی۔ تیرہ سال کی عمر میں ان کی شادی ہوگئی ۔ کچھ عرصہ بعد غالب دلی آگئے اور عمر بھر یہیں رہے۔ غالب کی زندگی کے آخری دن میں بیماری کی وجہ سے تکلیف میں گزرے لیکن ان کے مزاج کی شوخی اور ذہن کی تازگی تا عمر برقرار رہی۔
غالب اردو کے چندسب سے بڑے شاعروں میں شمار کیے جاتے ہیں ۔ وہ ابتدا میں اسد تخلص کرتے تھے، بعد میں غالب اختیار کیا۔ انھوں نے اردو فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہے ہیں۔ انہیں عام راستے سے الگ نئی راہ بنا کر چلنے کا شوق تھا ، یہی وجہ ہے کہ ان کا کلام اپنے عہد کے شاعروں بلکہ کم ویش اردو کے تمام شاعروں کے کلام سے منفرد ہے۔ غالب کے کلام کو عموماً مشکل سمجھا جاتا ہے پھر بھی ان کے اشعار کی ایک بڑی تعداد آج بھی لوگوں کی زبان پر ہے۔ ان کا بہت سا کلام سادہ اور بظاہر آسان بھی ہے۔ غالب کے اردو اشعار کا مجموعه ”دیوان غالب“ کے نام سے شائع ہواہے۔ ان کے اردو خطوط کے دو مجموعے ”عود ہندی“ اور ”اردوئے معلی“ ، معروف ہیں۔ ان کے خطوط میں اردو نثر کی ادبی شان، اپنے زمانے کے حالات، ادبی مباحث پر گفتگو غرض بہت کچھ ملتا ہے جس کے باعث غالب ہمارے سب سے بڑے شاعروں کے ساتھ سب سے بڑے نثر نگاروں میں بھی شمار ہوتے ہیں۔

لفظ ومعنی
منت کش : احسان اٹھانے والا
رقیب : حریف ، عاشق کا مقابل اور مخالف
گلہ : شکایت
مزا : مزہ
خبرگرم : کسی خبر کا بہت مشہور ہونا
خنجر آزما : خنجر چلانے والا
نمرود : ملک عراق میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے کے ایک بادشاہ کا نام جس نے خدائی کا دعوی کیا تھا۔
بندگی : فرماں برداری ، اطاعت
غزل سرا ہونا : غزل گانا یعنی غزل کو محفل میں پیش کرنا

تشريح
درد منت کش دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا
تشريح . درد عشق کو دوا کا احسان نہیں اٹھانا پڑا۔ یہ اچھا ہی ہوا۔ مراد یہی ہے کہ ہمارا درد یعنی در عشق دواسے ٹھیک نہیں ہو پایا۔ یہ ہمارے نزدیک اچھا ہی ہوا کیونکہ عشق کے لیے عشق کی کسک لذت دینے والی ہوتی ، تکلیف دینے والی نہیں۔ اسی لئے وہ کہ ر ہا ہے کہ اگر دوا ہمارا علاج نہیں کر پائی تو یہ ہمارے حق میں بہترہی ہوا۔
 جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا، گِلا نہ ہوا
تشريح : غب اپنے مخصوص شوخ انداز میں کہ رہے ہیں کہ اے میرے محبوب اگر تمہیں مجھ سے شکوہ ہے شکایات ہیں تو انہیں اکیلے میں مجھے بتا دیتے کیا ضروری تھا کہ تمام رقیبوں کو جمع کر کے شکوے شکایات کا دفتر کھولا جاتا تم نے گلہ شکوے کو ایک تماشا بنا کر رکھ دیا۔
 کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا
تشریح : غالب کہتے ہیں کہ اے میرے محبوب تیری شیر یں لبوں سے نکلی گالیاں رقیبوں کو بری نہیں لگ رہی ہیں بلکہ لطف دے رہی ہیں ۔ مراد یہی ہے کہ میرا محبوب بہت شیریں بیان ہے۔
 ہے خبر گرم ان کے آنے کی
آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا
تشریح :. غالب کہہ رہے ہیں کہ آج محبوب کے آنے کی خبر ہے اور آج ہی ہمارے گھر کا برا حال ہے۔ بور یا تک نہ ہوا سے مراد ہے آج ہم تنگ دست ہورہے ہیں اور محبوب کی آمد ہے ۔
 کیا وہ نمرود کی خدائی تھی؟
بندگی میں برا بھلا نہ ہوا
تشریح : غالب نے یہاں صفت تلمیح کا خوبصورت استعمال کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ نمرود جس نے خدائی کا دعویٰ کیا تھالیکن وہ ایک مجبور انسان تھا۔ وہ خدا کی طرح اپنے بندوں کو کچھ نہ دے سکتا تھا۔ اس لئے کہہ رہے ہیں کہ میں نے اتنی بندگی کی مگر حاصل مراد حاصل نہ ہو پایا۔ کیامیں نے نمرود کی خدائی میں بندگی کی تھی جو میرا بھلا نہ  ہو پایا ۔
 جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
تشریح : خدائے بزرگ و بر تر نے ہمیں پیدا کیا۔ ہم نے اپنی تمام زندگی اس کے لئے وقف کردی۔ اس کی راہ میں نچھاور کر دی لیکن اس کے باوجود ہم نہیں سمجھتے ہی کہ ہم حق بندگی ادا کر سکتے ہیں حق ادانہ ہوا کا استعمال خوب کیا ہے ۔
 کچھ تو پڑھیے کہ لوگ کہتے ہیں
 آج غالب غزل سرا نہ ہوا
تشریح : یہاں غالب شاعرانہ تعلی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ غالب کی غزل سرائی کی تعریف لوگ مرنے کے بعد بھی کریں گے ۔ شاعرانہ تعلی میں بھی غالب مختلف انداز اختیار کرتے ہیں
غور کرنے کی بات 
*  اس غزل میں سادگی بیان اور عام گفتگوکا انداز ہے اور کہیں کہیں خودکامی کا انداز بھی ہے۔ خود کلامی سے مراد اپنے آپ سے بات کرنا ہے۔ مثلاً غزل کے مطلع اور شعر 6، 5 اور 7 میں خود کلامی کا انداز ہے۔
*  غالب غزل کے ممتاز شاعر ہیں۔ کم سے کم لفظوں میں بات کو کہنا ، سادگی کے ساتھ ساتھ معنی کی گہرائی ان کی شاعری کی اہم خصوصیات ہیں۔
* ’ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا‘ اس مصرعے میں حق دو جگہ آیا ہے۔ اس لفظ کے دونوں جگہ الگ الگ معنی ہیں ۔ ایک حق ہونا (سچ)اور دوسرا حق ادا ہونا (فرض) .
* مطلعے کو غور سے پڑھیے۔ دوسرے مصرعے میں لفظ ’اچھا‘ یوں تو ’برا‘ کی ضد ہے لیکن یہاں یہ لفظ صحت یاب ہونے کے معنی میں آیا ہے۔ اس اعتبار سے اچھا، برا اور ہوا، نہ ہوا الفاظ ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔ شعر کی یہ خوابی صنعت تضاد کہلاتی ہے۔

سوالوں کے جواب لکھیے
1. میں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

2. شاعر نے رقیبوں کو جمع کرنے پر کیوں اعتراض کیا ہے؟

3. پانچویں شعر میں نمرود کی خدائی سے کیا مراد ہے؟

4.  جان دی دی ہوئی آئی تھی اس مصر نے میں اس کا اشارہ اس کی طرف ہے؟


عملی کام
* غزل کے اشعار بلند آواز میں پڑھیے اور اپنے دوست سے پسندیدہ غزل کے دو اشعار سنیے۔

*  غزل کو خوشخط لکھیے اور زبانی یاد کیجیے۔

*  اس غزل میں کیا کیا قافیے استعمال ہوئے ہیں لکھیے۔

کلک برائے دیگر اسباق

Saturday 2 May 2020

Asraar Jamai Ki Yaad Mein - Umair Manzar

اردو ادب کا ایک بڑا سرمایہ فیس بُک کی تیز رفتاری کے باعث قارئین کی نظروں سے مختصر مدت میں اوجھل ہوجاتا ہے۔ آئینہ نے فیس بُک کے سمندر سے چنندہ تخلیقات کو اپنے قارئین اور آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان جواہر پاروں کو آئینہ صاحبِ قلم کے شکریہ کے ساتھ اپنے ویب صفحہ پر شامل اشاعت کر رہا ہے۔(آئینہ)

اسرار جامعی کی یاد میں 
عمیر منظر

طنز و مزاح کے مشہور شاعر اسرار جامعی آج صبح دلی میں انتقال کر گئے. بہت دنوں سے وہ صاحب فراش تھے.
اسرار جامعی کا تعلق بہار کے شاہو بگہہ گیا سے تھا مگر ایک مدت سے انھوں  نے دلی میں سکونت اختیار کررکھی تھی.
اسرار جامعی نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تعلیم حاصل کی تھی. ڈاکٹر ذاکر حسین ،عابد حسین اور پروفیسر محمد مجیب ان کے اساتذہ میں شامل تھے جیسا کہ اسرار جامعی نے اپنے مجموعہ کلام شاعر کے انتساب میں لکھاہے.
شاعر اعظم ان کا پہلا مجموعہ کلام ہے جو 1996 میں شائع ہوا.
اسرار جامعی کا اصل نام سید شاہ محمد اسرار الحق تھا.
ابتدا میں انھوں نے شاعری میں شفیع الدین نیر صاحب سے اصلاح لی اس کے بعد رضا نقوی واہی کے حلقہ تلمذ میں شامل ہو گئے.
اسرار جامعی اوکھلا سے  پارلیمانی الیکشن میں ایک بار آزاد امیدوار بھی رہے. جس میں وہ جیت تو نہیں سکے مگر ان کی شاعری کا چرچا خوب رہا. اردو کے علاوہ انگریزی اور ہندی اخبارات میں ان کی شاعری اس زمانے میں تصویر کے ساتھ شائع ہوئی.
اسرار جامعی بہت بیباک اور نڈر تھے. بہار سے لے کر دلی تک ان کی جرات کے بیشمار واقعات اور قطعات ہیں. ٹاڈا قانون پر نظم کہی اور کانگریس کی افطار پارٹی میں اس وقت کے وزیر داخلہ ایس بی چوہان کے سامنے سر محفل نظم سنانی شروع کردی اور اس وقت تک سناتے رہے جب تک نظم نہ ختم ہوئی. اگلے روز افطار پارٹی کی خبر کم اور اسرار جامعی کی نظم کی خبر باتصویر دلی کے تمام اخبارات میں شائع ہوئ. ایک شعر بہت نقل ہوا،
گر مونچھوں والا کوئی پکڑائے تو نہ پکڑو
گر داڑھی والا آیا ٹاڈا میں بند کردو
وزیر داخلہ کو یہ ماننا پڑا کہ ٹاڈا کا غلط استعمال ہورہا ہے. اس کی تفصیل دی نیشن اینڈ دی ورلڈ میں دیکھی جاسکتی ہے واضح رہے کہ اس وقت اس کے ایڈیٹر سید حامد صاحب تھے.
 اس کے علاوہ وی پی سنگھ، راجیو گاندھی اور چندر شیکھر کے سامنے بھی بے خوف اور نڈر ہو کر اپنے جذبات کا اظہار کیا.
چٹنی اور پوسٹ مارٹم کے نام سے مزاحیہ صحافت ان کا ایک اہم کارنامہ ہے. شاعری اور نثر کے علاوہ کارٹون بھی مزاحیہ صحافت کا حصہ تھے.
بروقت اور برمحل اشعار کہنے میں انھیں ید طولیٰ حاصل تھا. پروفیسر عبدالمغنی کی کتاب اقبال کا نظام فن کی تقریب اجرا میں علامہ اسرار جامعی کا ایک قطعہ کتاب سے زیادہ مشہور ہوا. اس تقریب میں پروفیسر مغنی کی جہاں دیگر ارباب ادب نے تعریف و توصیف کی تھی خود عبد المغنی صاحب نے اس کتاب کے لیے اپنی تعریف کی تھی. اجرا کے بعد جب مشاعرہ شروع ہوا تو اسرار جامعی کے ایک قطعہ نے رسم اجرا کی پوری بساط ہی لپیٹ دی.
اک دن کہیں پہ شاعر مشرق ملے مجھے
دیکھا تو بدحواس و پریشان و پرمحن
پوچھا کہ خیریت تو ہے حضرت یہ حال کیا
بولے کہ مل گیا ہے اک استاد دفعتاً
اس دم عظیم آباد کی جانب رواں ہوں  میں
جی چاہتا ہے سیکھ لوں اپنا نظام فن.
وہ سراپا مزاح تھے اور اس کا موقع فراہم کرتے رہتے تھے. جب تک جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اسٹور پر ڈاک خانہ رہا ان کا پتا سب کو یاد رہا.
اسرار جامعی
پوسٹ بکس نمبر 1
جامعہ نگر، نئی دہلی
ڈاک خانے کے ملازم ان کی ساری ڈاک آفس کے ایک کنارے لگا دیتے اور یہ خود پہنچ کر اٹھا لیتے. یہی اپنا پوسٹ بکس خود ہی تھے.
گھر کے دروازے پر قلم اور کاغذ لٹکا رہتا. آپ جائیں اور اگر اسرار صاحب نہ ملیں( اکثر نہیں ملتے تھے) رقعہ چھوڑ دیں وہ تلاش کرکے آپ سے مل لیں گے. اس زمانے میں موبائل نہیں تھا مگر جامعی صاحب چلتا پھرتا موبائل تھے او دن بھر ملاقاتیں کرتے رہتے تھے. یہ زمانہ کمپیوٹر کا نہیں بلکہ ٹائپ رائٹر کا تھا. اس زمانے میں اسپیڈ دیکھنے کے لیے طرح طرح کے جملہ لکھے رہتے تھے اور اس سے ٹائپنگ کی رفتار طے کی جاتی تھی. اسرار جامعی نے اپنی ذہانت سے ایک جملہ ایسا بنادیا کہ اسے دور دور تک شہرت ملی.
اردو ٹائپنگ کوڈ کے الفاظ کی یہ تخلیق شاعر طنز و مزاح اسرار جامعی کی غضب کی ذہانت اور خلوص کی بڑی اچھی مثال ہے
اس جملے میں کل پچیس الفاظ ہیں ایک منٹ میں ٹائپ کرنے والی کی اسپیڈ فی منٹ پچیس الفاظ کی ہوگی.

(باقی آئندہ)

خوش خبری