آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Wednesday 27 May 2020

Hazrat Makhdoom Jehan Sheikh Sharafuddin Ahmad Yahya Maneri (r) Ka Urs Is saal Awam Ke liye Band

حضرت مخدوم جہاں مخدوم الملک
 شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیریؒ کا
 سالانہ 659واں ”چراغاں“ میلہ اس سال نہیں

بہار شریف۔27 مئی2020
خانقاہ معظم بہار شریف کے سجادہ نشیں حضرت مولانا سید شاہ سیف الدین فردوسی نے صحافیوں کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ کورونا جیسی سنگین مہلک بیماری کی وجہ سے اور سرکار کے ذریعہ گائیڈ لائنس کا احترام کرتے ہوئے اس سال چراغاں میں میلہ کا انعقاد نہیں کیا جائے گا۔جمعہ کے روز لوگ گھروں سے ہی مغرب کے بعد قُل و فاتحہ پڑھ کر ملک ، ریاست و ضلع کی سلامتی کے لیے دعا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہو سکے تو مخدوم کے چاہنے والے دس ضرورت مندوں کو کھانا کھلائیں۔
Courtesy Aaina
حضرت مخدوم جہاں ؒ کا مزار مبارک۔ تصویر آئینہ
صاحبِ سجادہ مدظلہ العالی نے فرمایا کہ نگاہ کے سامنے رہنے سے کوئی مخدوم کے قریب نہیں ہوتا جو دل سے قریب ہے
وہی قریب ہے۔ انہوں نے کہا کہ کورونا سے نجات کے لیے اب دعا ہی کام آئے گی۔ دعا سے اللہ تعالیٰ ہر پریشانی کو دور کرتے ہیں اس لیے میری اپیل ہے کہ لوگ درگاہ شریف نہیں آئیں۔ بھیڑ قطعی نہ لگائیں۔ اور گھر سے ہی دعا کریں۔
اے ڈی ایم نوشاد عالم نے کہا کہ مخدوم صاحب جیسی شخصیت کے بارے میں کچھ بھی بولنے کا مطلب سورج کو روشنی دکھانے جیسا ہے۔ اس بار ”چراغاں“ میلہ تو نہیں لگے گا لیکن دعا کے لیے چند لوگوں کو آستانہ پر جانے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ رسم ادائیگی ہوجائے۔ حضرت مخدوم جہاں کے آستانہ پر انتظامیہ کی جانب سے پیش کی جانے والی چادر بھی دو لوگوں کے ذریعہ پیش کر دی جائے گی۔ کسی بھی قیمت پر ہمیں لاک ڈاؤن کا خیال رکھنا ہوگا۔ سماجی دوری کا خیال رکھنا ہوگا۔ دعا کہیں سے بھی کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے صاف لفظوں میں کہا کہ عام لوگوں کو چادر پوشی کی اجازت نہیں ہوگی۔
اس موقع پر ایس ڈی او جناردھن پرساد اگروال، ایس ڈی او عمران پرویز و ڈی پی آر او رویندر کمار اور خانقاہ کے دیگر معززین موجود تھے۔

Sunday 24 May 2020

Eid Ki Khushi - Nazeer Akbarabadi

عید کی خوشی
نظیر اکبر آبادی

روزے کی خشکیوں سے جو ہیں زرد زرد گال
خوش !ہوگئے!وہ !دیکھتے !ہی !عید کا ہلال
پوشاکیں تن میں زرد سنہری سفید لال
دل کیا کہ ہنس رہا ہے پڑا تن کا بال بال
ایسی! نہ شب برات! نہ !بقرعید کی خوشی
جیسی ہر ایک دل میں ہے اس عید کی خوشی
پچھلے پہرسے اٹھ کے نہانے کی دھوم ہے
شیر و شکر! سویاں! پکانے! کی !دھوم ہے
پیر و جوان کو نعمتیں کھانے کی دھوم ہے
لڑکوں کو عید گاہ کے جانے کی دھوم ہے
ایسی! نہ شب برات! نہ !بقرعید کی خوشی
جیسی ہر ایک دل میں ہے اس عید کی خوشی
روزوں کی سختیوں میں نہ ہوتے اگراسیر
تو ایسی عید کی! نہ خوشی! ہوتی! دل پذير
سب! شاد! ہیں گدا!سے لگا !شاه !تا وزیر
دیکھا جو ہم نے خوب تو سچ ہے میاں نظیر
ایسی! نہ شب برات! نہ !بقرعید کی خوشی
جیسی ہر ایک دل میں ہے اس عید کی خوشی

Paigham e Eid - Dr. Shah Hasan Usmani

عید کا پیغام
پروفیسر شاہ حسن عثمانی

عید عام معنوں میں تہوار نہیں ہے۔ اس کا ایک خاص دینی پس منظر ہے۔ جس کا تعلق رمضان، روزہ اور نزول قرآن سے ہے۔ عید ایمان اور احتساب کے ساتھ روزہ کی تکمیل پر خدا کا انعام ہے۔ یہ یوم تشکر بھی ہے۔ یوم اجر بھی اور تقویٰ بھری زندگی گزارنے کے عہد و پیمان کا دن بھی۔ عید کے دن سے مومن کی زندگی کا سالانہ نیا باب شروع ہو جاتا ہے جس میں زہد وتقوی کی شان اور صبر ومواساة کا پیغام شامل ہوتا ہے۔ عید چند لمحوں یا ایک دن کی خوشیاں منانے کا دن نہیں بلکہ مہینہ بھر کی تربیت اور ریاضت اور خداخوفی کی پونجی سنبھال کر خرچ کرنے کی تذکیر بھی ہے۔ ایک مومن جب ایمان اور احتساب کے ساتھ ایک ماہ تک شعوری روزہ رکھتا ہے۔قیام لیل کرتا ہے۔ قرآن پڑھتا اور اس پر غور وفکر کرتا ہے اور اس کے حکم اور ہدایت کو اپنے ذہن و فکر اور عمل کے ڈھانچے میں ڈھالتا چلا جاتا ہے تو اس کے اندر تقویٰ کی صفت پیدا ہوتی ہے۔ اس کی نظر اس کی فکر ، اس کا نفس اور اس کے خواہشات و جذبات خداترسی کی لذت سے سرشار ہو جاتے ہیں اور اس کی انفرادی اور اجتماعی زندگی نیکی و خداترسی ، محبت و ہمدردی اور امن و سلامتی کی ضمانت بن جاتی ہے۔
غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ عید صرف عمده لباس زیب تن کرنے اور ذائقہ دار کھانوں کی لذت اٹھانے کا نام نہیں ہے ۔ اس میں غریبوں، مسکینوں، محتاجوں اور حاجتمندوں کے ساتھ ہمدردی ، عام انسانوں کے ساتھ شریفانہ سلوک اور صالح معاشرے اور پاکیزه سوسائٹی کی تعمیر کا پیغام مضمر ہے۔
عید کے آتے ہی رمضان کا فرض روزہ ختم ہوا۔ لیکن اس کی وہ کیفیت جو تقویٰ اور ضبط نفس کی شکل میں حاصل ہوئی وہ ختم نہیں ہونی چاہئے ۔ اس کی تربیت ہی آنے والے دنوں کے لئے ہوئی ہے وہ ختم نہیں ہونی چاہئے ۔ عبادات ، اطاعت اور خشیت الٰہی کا تسلسل جاری رکھنا ہے۔ قرآن مقدس کے حکم و ہدایت کے مطابق زندگی کی تعمیر کرنی ہے۔ خیالات، جذبات اور خواہشات پر کنٹرول رکھنا ہے۔ خدا کے کمزور بندوں کے ساتھ محبت و خیرخواہی کا سلسلہ رکھنا ہے۔ ظلم وزیادتی اور جبر وتشد د کا ارتکاب نہ کرنا ہے اور نہ کسی کو کرنے دینا ہے۔
ماہ صیام کی ایک خصوصیت یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ یہ شہر مواخات ہے۔ یہ ماہ مبارک ہمیں اس کی تعلیم دیتا ہے کہ ہمیں اپنے دینی بھائیوں کے تئیں وہی جذبہ الفت و محبت رکھنا چاہئے ۔ جس کی ایک حدیث میں تشبیہ کے پیرایہ میں تصویر پیش کی گئی ہے۔”مسلمان ایک جسم کے مانند ہیں۔اگر اس کے ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو پورا جسم اس درد کو محسوس کرتا ہے۔“
اسلامی عید خدا کے فضل و کرم سے تمام عیوب سے پاک ہے۔ اور اخلاقی و روحانی عظمت اور برتری کا ایک بہترین نمونہ اور دلکش منظر ہے۔ یادر ہے مسلمانوں کی عید آتش بازی، ناچ و رنگ کا عید نہیں بلکہ مسلمانوں کی عید شکرانے کی عید ہے۔ دراصل اصلی خوشی حقیقی مسرت تو اسی کا ہے جو اس ماہ مبارک میں روزہ دار رہا اور جس نے تقویٰ اور پرہیز گاری حاصل کی۔
عيد الفطر کو بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے مسرت کا دن قرار دیا ہے اور اتنی بات بھی شریعت سے ثابت ہے کہ اس روز جو بہتر سے بہتر لباس کسی شخص کو میسر ہووہ لباس پہنے۔ آج کل اس غرض کے لئے جن فضول خرچیوں اور اسراف کے ایک سیلاب کوعیدین کے لوازم میں سمجھ لیا گیا ہے۔ اس کا دین وشریعت سے کوئی تعلق نہیں۔
آج یہ بات فرض اور واجب سمجھ لی گئی ہے کہ کسی شخص کے پاس مالی طور پرگنجائش ہوں نہ ہولیکن وہ کسی نہ کسی طرح گھر کے ہر فرد کے لئے جوتے اور ٹوپی سے لیکر ہر چیز نئی خریدے۔
گھر کی آرائش اور زیبائش کے لئے نت نۓ سامان فراہم کرے۔ دوسرے شہروں میں رہنے والے اعزاء و اقارب کوقیمتی عید کارڈ بھیجے اور ان تمام امور کی انجام دہی میں کسی سے پیچھے نہ رہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہورہا ہے کہ ایک متوسط آمدنی رکھنے والے کے لئے عید کی تیاری ایک مستقل مصیبت بن چکی ہے۔ عید کی بے جا تیاری کا کم از کم یہ نقصان تو ہے ہی کہ رمضان اور خاص طور سے آخری عشرہ کی راتیں جو گوشۂ تنہائی میں اللہ تعالیٰ سے عرض و مناجات اور ذکر وفکر کی راتیں ہیں وہ عموماً لوگوں کے بالخصوص خواتین کی بازاروں میں گزر جاتی ہیں۔ نیز گناہوں کے کاموں میں مسابقت اور مقابلہ اس کی سنگینی کو اور بڑھا دیتا ہے۔ اس طرح بے شمار گناہوں کے ساتھ لاکھوں روپے ضائع و برباد ہو جاتے ہیں۔ اگر اتنی ہی رقم غرباء مساکین اورفقراء پر خرچ کی جائے تو کتنے تنگ دست گھرانے خوش حال ہوجائیں۔ بیمار تندرست ہوجائیں، روزی کے محتاج برسر روزگار ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہم تمام لوگوں کو دین کا یہ فہم عطا فرمائے اور اس گناہ عظیم سے بچنے کی توفیق بخشے۔ آمین
و آخرو دعونا الحمد و لله رب العالمين

(پروفیسر شاہ حسن عثمانی کے خطبات پر مبنی کتابچہ” استقبال ِ رمضان و عیدین“ سے ماخوذ)

Saturday 23 May 2020

Alwida Rahat e Khasta e Jaan - Umaima Quadri


چند دن کا جو مہماں ہوا تھا 
جس کے آنے سے جی خوش ہوا تھا 
جس نے روشن کئے تھے اندھیرے 
لذتیں بخشیں سجدوں کو جس نے 
آج رخصت وہ مہماں ہوا ہے 
پھر جدا ہم سے رمضاں ہوا ہے 
روز و شب میں ہی الجھے رہے ہم 
حق ادا کیا ترا کر سکے ہم
کر سکے ہم نہ تیری ضیافت 
در گزر کرنا اے ماہ رحمت
تیری آمد نے بہلا رکھا تھا  
زخم پر دل کے مرہم رکھا تھا 
کھل گئے ہیں وہ سب زخم دل کے  
ہم ہیں پھر خلق کی ٹھوکروں پہ
ہم ہیں اور پھر یہ شام و سحر ہیں 
تیری آمد کے پھر منتظر ہیں 
الوداع اے سکون مسلماں 
الوداع راحت خستۂ جاں 
یاد تو نے دلائی حرم كى 
رونق بزم شاه امم  كى 
كاش پھر ہو میسر وہ رمضاں 
کاش پھر ہم نبی کے ہوں مہماں
ماہ رمضان اے ماہ برکت 
پوری ہو یہ ا ؔمیمہ کی حاجت

Hai Eid Chale Aao - Mazhar Balgarami

ہے عید چلے آؤ
حکیم سید مظفر علی مظہر بلگرامی
Courtesy Isra Usmani

اس درجہ نہ تڑپاؤ
کچھ دل میں تو شرماؤ
اب رحم بھی فرماؤ
ایسے میں تو آجاؤ
ہے عید چلے آؤ
آنا ہے تو آجاؤ
شاید کے ہمیں پاؤ
یوں مان بھی اب جاؤ
تقصیر تو بتلاؤ
ہے عید چلے آؤ
پھر فصل بہاراں ہے
ویرانہ گلستاں ہے
حیوان بھی شاداں ہے
انسان تو انساں ہے
ہے عید چلے آؤ
دریا میں روانی ہے
موجوں میں دوانی ہے
بہتا ہوا پانی ہے
ہر شے میں جوانی ہے
ہے عید چلے آؤ
پر جوش بہاراں ہے
فردوس  بہ داماں ہے
گلزار بیاباں ہے
دیکھو جسے نازاں ہے
ہے عید چلے آؤ
یہ دن ہیں مسرت کے
یہ روز ہیں عشرت کے
ایام ہیں بہجت کے
موقعے نہیں حجت کے
ہے عید چلے آؤ
کیا مجھ پہ شباب آیا
گویا کے عذاب آیا
کیوں مجھ پہ عتاب آیا
اب تک نہ جواب آیا
ہے عید چلے آؤ
میں سخت پریشاں ہوں
تقدیر پہ گریاں ہوں
جینے سے میں نالاں ہوں
اک قالب بے جاں ہوں
ہے عید چلے آؤ
گر دید تمہاری ہو
پھر عید ہماری ہو
نالہ ہو نہ زاری ہو
نے لب پہ یہ جاری ہو
ہے عید چلے آؤ
کب تک یہ ستم آخر
کب تک میں رہوں مضطر
ہے تار نفس خنجر
آرام ملے کیوں کر
ہے عید چلے آؤ

(رسالہ ندیم، گیا میں 1941 کے شمارہ میں شائع ایک نظم)

Friday 22 May 2020

Yadein Bachpan Ke Ramzan Ki

یادیں بچپن کے رمضان کی
صفاح عثمانی

رمضان اب رخصت ہونے ہونے کو ہے۔ جدائی کا وقت آپہنچا ہے۔ سعودی عربیہ اور دوسرے خلیجی ملکوں میں لوگوں کی نگاہیں عصر بعد سے ہی آسمان میں ٹِک گئی ہیں۔ گرچہ اس بار رمضان المبارک نے ہمیں اپنی آمد سے بھرپور استفادہ کرنے سے محروم رکھا۔ نہ تراویح ہوئی اور نہ مساجد میں نماز اور شب بیداری۔ایک مہلک وبا نے لوگوں کو اپنے گھروں میں بند ہوجانے کے لیے مجبور کردیا۔ ایسے میں عید کی آمد بھی بہت زیادہ رونق لے کر نہیں آرہی۔ مختلف ملکوں نے عید کی آمد سے قبل ہی مزید سختی کے اشارے دے دیے ہیں۔ ایسے میں ذہن کے پردے پروقت کی سوئی بہت تیزی سے ماضی کی طرف بھاگ رہی ہے۔ جب رمضان کا آنا لوگوں میں خوشیوں کا پیغام لے کر آتا اور اس  کی رخصت لوگوں کے دلوں کو آزردہ کردیتی۔جمعتہ الوداع کی آمد کو رمضان کے رخصت ہونے کا اعلان سمجھا جاتا۔اور دلوں میں ایک مایوسی کا احساس جاگزیں ہو جاتا۔ ہمارے شہر میں بھی ہندوستان کے دیگر شہروں کی طرح صبح سحری کے وقت جگانے کا رواج تھا لیکن یہ اس معاملہ میں انوکھا تھا کے یہاں لوگوں کو جگانے کے لیے شاعری اور موسیقی دونوں کا سہارا لیا جاتا۔ رمضان میں سحری میں جگانے والوں کے لیے مقامی شاعر اپنے فن کا بھرپور مظاہرہ کرتے اور گلوکار ان کی نظموں میں نئی جان ڈال دیتے۔ اگر یہ کلام محفوظ ہوں تو یہ اردو صنف شاعری میں ایک نئے باب کے طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ رمضان المبارک کی آمد کا جشن اور اس کے وداع ہونے کا منظر ان کے کلام میں اتنی شدّت سے پیش کیا جاتا کہ آپ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ 
قافلے بھی مختلف طرح کے ہوتے۔ کچھ میں صرف گانے والے ہوتے اور کچھ موسیقی کے ساتھ۔ ان قافلوں میں ایک قافلہ وہ تھا جس کے سالار ایک ماہر بینجو نواز تھے تو دوسرا قافلہ شہر کے مشہور قوال قطب تارہ قوال کا تھا۔ یہ ٹولیاں جنہیں ہم قافلہ کہا کرتے یہ دو سے سات آٹھ افراد پر مشتمل ہوتیں۔ اپنی آواز کو دور تک پہنچانے کے لیے ان سب کے پاس مائک ہوتا۔ اور لوگوں کا ایک ہجوم ان کے ساتھ چلتا۔ ایک عجیب سی رونق ہوتی۔ نماز، روزہ اور تراویح کے ساتھ یہ روپ رمضان کی رونقوں کو دوبالا کردیتا۔ اب یہ اور اس طرح کی بہت سی چیزیں رسم ممنوعہ قرار دے کر معاشرے سے چھین لی گئی ہیں۔ لوگ ان ثقافتی خوشیوں سے محروم ہو گئے ہیں۔ گھروں میں موبائل اور ٹی وی پر فلمیں اور مولاناؤں کی بے جا بحثوں پر کوئی فتویٰ نہیں آتا لیکن اگر آپ نے کسی تہوار میں خوشیوں کا نیا رنگ گھولنا چاہا تو اسے بلا تاخیر بدعت قرار دے دیا جاتا ہے ۔حالانکہ یہ تقریب مذہبی فریضہ نہیں بلکہ مقامی تہذیب ثقافت کا عکس ہوتی ہیں۔ جس میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور اس اسلامی تہوار کے تئیں بھرپور عقیدت ہوتی ہے۔
 بہر حال میں ذکر کر رہا تھا اپنے شہر میں سحری کے لیے جگانے والے قافلوں کا جو میرے شہر کی ایک نمایاں خصوصیت کا درجہ رکھتے تھے۔ سحری سے ڈیڑھ گھنٹے قبل یہ قافلے اپنے اپنے علاقوں سے نکل جاتے۔ محلوں کی مختلف سڑکوں سے گھومتے ہوئے شہر کی چھوٹی مسجد کے سامنے سارے قافلے اکٹھا ہوجاتے۔ ان قافلوں کے شاعر بھی خوب سے خوب فکری جولانیاں دکھاتے۔ رمضان کے لیے ان کی محبت و عقیدت کا اظہار صاف جھلکتا۔ ہر قافلہ کا شاعر الگ ہوتا یا کبھی ایک ہی شاعر کا کلام دو تین قافلہ سالار گاتے۔ ہاں یہ ضرور تھا کہ سب کا کلام الگ ہوتا تھا۔ اکثر ایسا ہوتا کہ دو قافلے سڑک پر آمنے سامنے آجاتے پھر دونوں میں وہ مقابلہ آرائی ہوتی کہ مزا آجاتا۔ ترنم،گلوکاری اور شعری معیار کا وہ بھرپور مظاہرہ ہوتا کہ آخر میں لوگوں کو دونوں کے درمیان برابری پر صلح کرانی پڑتی تبھی دونوں قافلے اپنی اپنی راہ لیتے۔ جمعتہ الوداع کے بعد فضا ذرا غمگین ہو جاتی۔ رمضان کے الوداعی کلام پڑھے جانے لگتے۔ زیادہ تر طرزیں فلموں کے درد بھرے نغموں پر مبنی ہوتیں۔ لوگوں کو یہ احساس ہوجاتا کہ اب ایک برکت بھرا مہینہ اُن سے رخصت ہونے والا ہے۔چاند رات میں چاند نکلتے ہی ان قافلے والوں کا رنگ ایک بار پھر تبدیل ہوجاتا۔ مغرب بعد سے ہی جشن و طرب کے نغمے گائے جانے لگتے۔ سادہ لوح ایک دوسرے سے محبت کرنے والے اور ایک دوسرے کا پورا خیال رکھنے والے میرے شہر کے معصوم لوگ سر میں ٹوپی چپکائے چاند رات کی خریداری میں مصروف ہوجاتے۔ خوشی و عید کی آمد کا جوش ہر چہرے سے صاف جھلکتا۔ آخری لمحوں کی خریداری میں عطر، سرمہ، رومال، نئی ٹوپی، بنیان خریدنے والوں کی بھیڑ زیادہ ہوتی۔ قافلے میں جشن و طرب کے نغمے گانے کا یہ سلسلہ فجر کی نماز کے بعد تک چلتا۔ اور پھر لوگ عید کی نماز کی تیاریوں میں مصروف ہو جاتے۔محلے میں نماز کا وقت ہونے تک ایک سناٹا ہوجاتا لوگ اپنے اپنے گھروں میں عید کی تیاریوں میں مصروف ہوجاتے۔ نماز کا وقت قریب آتے ہی مسجدیں بھر جاتیں۔نماز ہوتی خطبہ ہوتا اور پھر لوگوں کا ایک دوسرے سے گلے ملنے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا۔ شاید مسجد میں موجود ہر شخص مسجد میں موجود ہردوسرے شخص سے گلے ضرور ملتا۔ آج جب بڑے شہروں میں لاکھوں لوگوں سے بھری مسجد میں خود سے گلے ملنے والے دو چار رشتہ داروں کے علاوہ ہم کسی کو نہیں پاتے تو ایک عجیب سی محرومی کا احساس ہوتا ہے۔بڑے اور چھوٹے شہروں کا یہ فرق آج کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا ہے۔
 بات ہورہی تھی سحری کے لیے جگانے والے قافلوں کی تو یہ سلسلہ رمضان تک ہی محدود نہیں رہتا۔ عید کے تیسرے یا چوتھے دن ایک بڑے قافلہ کمپٹیشن کا اعلان ہوتا جس میں آس پاس کے کئی شہروں کے قافلے حصّہ لیتے۔ ہر ایک قافلہ سالار اپنے ترنم اور کلام کے معیار کی بنیاد پر جانچا اور پرکھا جاتا اور پھر جیتنے والوں کو بڑی بڑی شیلڈوں اور مختلف انعامات و اکرامات سے نوازا جاتا۔ یہ قافلہ سالار بڑے ہی باصلاحیت ہوتے اور اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑتے۔ اکثر مقابلہ بڑا دلچسپ ہوتا۔ اب یہ سب باتیں محض تذکرہ بن گئی ہیں۔ مولویوں نے ہر تہوار میں صرف تقریروں کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ تہذیبی و ثقافتی سرگرمیوں کو تقریروں کے بل بوتے پر کنارے لگا دیا گیا ہے اور لوگ ایک مشینی زندگی کے عادی ہوگئے ہیں جہاں وہ ان سرگرمیوں کو چھوڑ کر فلمیں دیکھنے اور فلمی نغمے سن کر اپنا دل بہلانے کے لیے مجبور ہیں۔ بڑے بڑے ”بھونپو“ لگے ہوئے ہیں اور ہر کوئی اپنی اپنی ڈفلی  اپنا اپنا راگ الاپ رہا ہے۔
الوداع! اے ماہ رمضاں الوداع!
عید کی صبح فجر کی اذان ہو چکی ہے نمازی مسجد جا رہے ہیں اور فضا میں عید کا نغمہ بکھر رہا ہے:
عید جشن وفا ہے چلے آئیے
عید جلوہ نما ہے چلے آئیے
آپ سبھوں کو عید مبارک!

بھوجپوری زبان میں سحری کی ایک نظم

Tuesday 19 May 2020

Hazrat Nuh or Noah A.S. by Allama Rashid ul Khairi

حضرت نوح علیہ السلام

حضرت نوح بن الامک حضرت ادریس کے پڑپوتے تھے اور حضرت ادریس حضرت شیث کے پوتے پڑپوتے تھے۔ اللہ کے یہ سب نیک بندے اپنی زندگی بھر لوگوں کو راہ راست پر بلاتے رہے اورخدا کی باتیں سمجھاتے رہے۔ حضرت ادریس کے انتقال ہوجانے پر تمام قوم گمراہ ہوگئی اورایسی گمراہ ہوئی کہ کبھی بھول کر بھی خدا کا نام نہ لیتی تھی۔ دن رات بت پرستی کرتے تھے۔ یوں تولاتعداد بُت ان لوگوں نے بنائے تھے۔ حضرت نوح اپنی اس قوم کو ہر وقت توحید کی طرف بلاتے اور شرک و بُت پرستی سے باز رکھنے کی کوشش کرتے ۔ مگران کے دلوں پر کچھ ایسی مہر لگی ہوئی تھی کہ وہ حضرت نوح کی باتوں پر ہنستے اور مضحکہ اڑاتے۔ گنتی کے چند آدمی جوان پر ایمان لائے تھے ان کو بھی چھیڑتے اورکمینہ بےوقوف کہتے۔ حضرت نوح اپنی طرف سے ان لوگوں کو بہترا سمجھاتے مگر ان پر خاک اثر نہ ہوتا۔ آخر حضرت نوح نے ایک موقعہ پر ان سے کہا کہ ”یاد رکھو اگر تم نافرمانی کروگے تو عذاب الٰہی تم  کو تباہ کر دے گا“ یہ سن کر قوم نے قہقہہ مارا اور کہا کہ نوح وہ عذاب تم بلوادو، ہم بھی دیکھیں کیا ہوتا ہے؟ یہ کہہ کر حضرت نوح کو مارنا شروع کیا اور اتنا مارا کہ وہ بیہوش ہوگئے اور بدن سےخون  بہنے لگا۔ جب ہوش میں آئے تو خدا سےعرض کیا :
(ترجمہ) اے رب میں اپنی قوم کو رات دن بُلاتا رہا اور میرے بُلانے سے اور زیادہ بھاگتے رہے۔
اس دعا کے بعد حضرت نوح خاموش بیٹھے تھے کہ کچھ لوگوں نے آوازے کسنے شروع کئے اوربرا بھلا کہا۔ حضرت نوح نے ٹھنڈے دل سے ان کے مظالم برداشت کئے۔ مگرجب پورا یقین ہوگیا کہ یہ راہ راست پر نہیں آئیں گے تو خدا سے کہا ”الٰہی اب میں تھک گیا۔ یہ تو ایمان لانے والے نہیں۔ اپ تو ان کو ایسا تباہ و برباد کر کے ایک بچّہ تک باقی نہ رہے۔
یہ دعا قبول ہوئی اور حضرت نوح کو حکم ہوا کہ بس جو ایمان لے آئے وہ لے آئے اب تو خاموش ہوجا اور رنج ذہ کر اور اب ایک بہت بڑی کشتی بنا۔ مگر یہ یاد ر ہے کہ توان گنہگاروں کے متعلق ہم سے ہرگز ہرگز کچھ نہ کہیو۔ ہم اب سب کو ڈبوتے ہیں-
حضرت نوح کی یہ دعا:۔
(ترجمہ) اے رب زمین پر ایک مُنکر کو بھی زندہ نہ چھوڑ۔
خدا کے حضور میں قبول ہو چکی تھی۔ جب کشتی تیار کرنے کا حکم ہوا تو وہ حکم کی تعمیل میں مشغول ہوئے اور کشتی بنانے لگے ۔ قوم کے لوگ جب ادھر سے گذرتے اور ان کو دیکھتے ، تو کہتے ” اب اس کے دیوانے ہونے میں کیا شک ہے کہ خشکی میں کشتی بنارہا ہے؟ حضرت نوح  چپکے چپکے بیٹھے اپنا کام کرتے اور لوگوں کے کہنے سننے کی مطلق پرواہ نہ کرتے اور فرماتے۔ تمہارے ہنسنے  کا وقت ختم ہورہا ہے اور میرے ہنسنے کا وقت آ رہا ہے۔المختصر حضرت نوح کی کشتی تیار ہوئی تو پندرہ گزاونچی 25 گز چوڑی اور ڈیڑھ سو گز لمبی تھی۔
کشتی تیار ہوگئی اور خدا کے عذاب کا وقت آ پہنچا۔ بارش شروع ہوئی اور اس قدر مینہ برسا کہ الامان والحفیظ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آسمان پر سوا پانی کے اور کوئی چیز نہیں ہے۔ اب قوم پریشان ہوئی اور جب یہ دیکھا کہ طوفان سر پر آ پہنچا اور سب ڈوب جائیں گے تو حضرت نوح کے پاس پناہ لینے کے لئے دوڑے آئے۔
حضرت نوح کو یہ معلوم ہو چکا تھا کہ جس روز تنور سے گرم پانی اُترے گا اسی روز خدا کا قہر شروع ہو جائے گا۔ چنانچہ جب ایک دن ان کی بیوی روٹی پکا کر اٹھیں تو تنور ابلنا شروع ہوا۔ اب ادھر توکشتی تیار ہوگئی ادھر آسمان و زمین اژدہے کی طرح ان لوگوں کو نگلنے کے لئے تیار ہوئے جو خداا کی نافرمانی کررہے تھے اور خدا کے سچے  بندے نوح کوجُھٹلا رہے تھے۔ حضرت نوح نے اپنی بیوی اور تین لڑکوں کویعنی سام،حام اور یافث کو مع ان کے اہل و عیال کے کشتی میں بٹھایا۔ پانی کا یہ حال تھاکہ کسی طرح تھمنے کا نام نہ لیتا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آسمان میں چھید ہوگئے ہیں اور اب کسی طرح پانی نہ رکے گا ۔ حضرت نوح جب کشتی میں بیٹھ گئے تو انہوں نے اپنے چھوٹے لڑکے کنعان کو ڈوبتے دیکھا۔
اس لڑکے کی بابت اک فریق کا یہ خیال ہے کہ یہ ان کا اپنا بیٹا نہ تھا۔ بلکہ ان کی بیوی کا بھتیجا یا بھائی تھا۔ اور حضرت نوح اس سے بھی بیٹوں ہی کے برابر محبت کرتے تھے اوربیٹا ہی کہتے تھے۔ چنانچہ قرآن مجید میں بھی اس کو بیٹا ہی کہا گیا ہے۔ جس وقت بیٹا ڈوبنے لگا، تو حضرت نوح علیہ السلام نے اس سے کہا کہ میرے ساتھ کشتی میں آجا ۔ مگر وہ بدنصیب چونکہ پرلے سرے کا نافرمان اورگستاخ تھا کہنے لگا :
آپ گھبرائیے نہیں میں تیر کر نکل آؤں گا۔ اب حضرت نوح نے آسمان کی طرف دیکھا اور خدا سے عرض کیا کہ ” رب العالمین تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ میرے اہل وعیال محفوظ رہیں گے ۔ تیرا وعدہ سچا ہے اور یہ لڑکا میرے اہل وعیال میں سے ہے۔ اس کو بچا۔ اور تو سب سے بڑا حاکم ہے۔ خدا کی طرف سے  حکم ہوا کہ اے نوح وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے۔ کیونکہ اس کا ایمان تیرے موافق نہیں اسی عرصہ میں پانی کی ایک موج آئی اور اس نے حضرت نوح کی نگاہوں سے کنعان کو اوجھل کردیا۔ حضرت نوح نے خدا کے حکم کے بموجب کشتی میں جانوروں کا ایک جوڑا ار کھانے
پکانے کا سامان رکھ لیا تھا۔ کیونکہ خدا یہ فیصلہ کرچکا تھا کہ اس کشتی کے سوا آدم کی اولاد میں کوئی شخص اور کوئی جانور زندہ نہ رہے گا۔ کشتی پانی میں چلی اور قریب قریب ڈیڑھ مہینہ چلتی رہی۔ زمین سمندر بن چکی تھی مگر آسمان کا پانی کسی طرح نہ تھمتا تھا۔ جب حضرت نوح کی یہ دعا کہ الٰہی ایک کافر کو بھی زمین پرزنده نهچھوڑ قتبول ہوچکی تو پانی کا زور کم ہوا اوریہ کشتی  جودی پہاڑ کے قریب آکر ٹھہری جواب ارارلٹ کے نام سے مشہور ہے اور عراق میں موصل کے قریب ہے۔
اس وقت حضرت نوح نےایک کبوتر کو چھوڑا وہ دن بھر اُڑ اُڑا  کر شام کو کشتی میں آگیا۔ حضرت نوح کو معلوم ہوگیا کہ ابھی تک روئے زمین پر خشکی کا نام و نشان نہیں ہے۔ ایک ہفتہ راہ دیکھنے کےبعد نوح علیہ السلام نے کبوتر کو پھر چھوڑا وہ واپس آیا اور اس سے معلوم ہوگیا کہ پانی کم ہونا شروع ہوگیا اور درختوں کی پتیاں نمودار ہرہی ہیں اس کے کچھ دنوں کے بعد حضرت نوح نے پھر کبوتر چھوڑا وہ واپس نہ آیاا۔ اوراب حضرت نوح کو معلوم ہوگیا کہ زمینپر ٹھہرنے کی جگہ ہوگئی ہے۔
چنانچہ حضرت نوح زمین پراترے اور انھوں نے اپنی کشتی کو توڑا۔ اس کی لکڑیوں سے اور پہاڑ کی مٹّی  اور پتھروں سے ایک مسجد جودی پہاڑ پر بنائی اورخود بھی وہیں آباد ہوئے اس جگہ کا نام شانین ہوا۔ جس وقت یہ طوفان نازل ہوا ہے اس وقت حضرت نوح کی عمر چھ سو برس کی تھی ۔ اس کے بعد وہ ساڑھے  تین سوبرس اور زندہ رہے اور نو سو برس کی عمر میں انتقال کیا ۔
دنیا میں اس وقت جتنی آبادی ہے ۔ وہ حضرتنوح کی اولاد ہے. سام کے نام پر شام مشہور علاقہ ہے عراق وغیرہ کی طرف انھیں کی اولاد پھیلی۔ہندوستان کے لوگ اور یورپ کی قومیں یافث کی نسل سے ہیں اور مصر اور افریقہ کی قومیں حام کی اولاد ہیں۔
(علامہ راشد الخیری)

Sunday 17 May 2020

Dastaan e Gul

آئینہ نے جب پھولوں کے بارے میں اردو میں تفصیلی معلومات فراہم کرنے کا ارادہ کیا تو اُس کے پاس انگریزی سے استفادہ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ خواہش تھی کہ اردو کے طلبہ کو پھولوں سے متعلق وہ تمام معلومات فراہم کی جائیں جو ان کے لیے مفید بھی ہوں اور کار آمد بھی۔ اس سلسلہ میں مطالعہ کے دوران ”آرایش محفل“ مصنف حیدر بخش حیدری دہلوی کا تحریر کردہ ایک باب پھولوں سے متعلق نظر سے گزرا۔ یہ مضمون نہ صرف اپنے زبان و بیان میں انوکھا ہے بلکہ ہندوستان میں پائے جانے والے پھولوں کا مجموعی خاکہ بھی پیش کرتا ہے۔ ہندوستان صدیوں سے طرح طرح کے پھولوں کا گلدستہ رہا ہے۔  آئیے!آپ بھی اس مضمون کی خوشبو سے اپنا دل و دماغ معطر کیجیے۔

چند سطریں پھولوں کی تعریف میں
پھول بھی یہاں سارے دیکھنے اور سونگھنے کے اپنی اپنی بہار میں بے مثال ہوتے ہیں۔ رنگ ڈھنگ میں بھی کچھ ایران توران وغیرہ کے پھولوں سے کم نہیں چُنانچہ عَبّاسی کئی رنگ کی بہت دَھدَھی اور گُلِ مہندی بھانت بھانت کی نپٹ چہچہی۔ گلاب و یاسَمن و سَوسَن کا وفُور۔ نرگس و نسرین و نسترن سے چمن کے چمن مَعمور۔ زنبق و بنفشہ جِدھر تِدھر۔ صَد بَرگ و تاجِ خُروس چَپّے چَپّے پر۔ چَمَن کے چَمَن رَیحان و اَرغَوان کے۔ تَختے کے تَختے لالہ و نافرمان کے۔ رعنا و زیبا جہاں تہاں۔ داؤدی و صد برگ کی ہزاروں کیاریاں۔ اور وے پھول جو خُصُوصیَت اس سرزمین سے رکھتے ہیں ہزاروں میں ہیں۔ اگر اُن سب کے فقط نام لکھوں تو یہ فصل برابر گلستان کے ہوجائے۔اور تھوڑے سے فایدے کے لیے کلام میں طول بہت سا لازم آئے لیکن مشہور معروف خلق میں بیشتر اتنے ہیں۔ سیوتی- سُکھ درسن، سورج مکھی، چنپا، چنبیلی، چاندنی،جائی جُوہی، جعفری، موگرا، موتیا، مدن بان، مولسری، کرنا، کَپُور، بیل، کنوَل، کیوڑا،کیتکی، گُڑھل، ہارسنگار،نِواڑی بیلا، کٹھ بیلا،رتن منجری، رائی بیل، رتن مالا، دُپَہریا۔ابیات۔
ہے اس مملکت کی عجب گل زمیں
کہیں پھول یاں کے سے ہوتے نہیں
دل بستہ دیکھ اُن کو ہر باغ باغ ###### جو سونگھے تو بھر جائے بو سے دماغ
گُندھے بِن گُندھے گر وہ محفل میں آئیں
تو مجلِس کا عالم چَمَن کا بنائیں
جو پہنے انہیں حسن اُن کا پھلے###### کہ عاشق کا دل اُن پہ دُونا چلے
جو لکھنے کے قابل ہو مو کا قلم######  نزاکت ہو کچھ سیوتی کی رقم
سفیدہ سحر کا جو حل ہو کے آئے
صباحت ذرا اُس کی تب لکّھی جائے
کروں وصف کیا مونگرے کا بیاں######  کہ ایک ایک کلی اُس کی ہے عطر داں
مُعطر ہے شدّت سے بیلے کی باس######  یہ آتی نہیں حیف عاشق کو راس
جو سوتے میں آجائے اُس کی لَپَٹ
پھڑک جائے دل نیند جاوے اُچَٹ
ہے کرنے کی اس مرتبہ مست بو
جو سُونگھے اُسے ٹُک سیہ مست ہو
مدن بان کی ادھ کھلی ہر کلی ######  بڑھاتی ہے عشاق کی بے کلی
خوشایند ہے نگہت راے بیل######  رہے بزم میں اُس کی نت ریل پیل
چاندنی کی بو ہے نزاکت بھری######  سچَکتی ہوئی سونگھے اس کو پری
یہ ہیں خُشنُما جائی جوہی کے پھول
کہ دیکھ ان کو سَرت جاتی ہے بھول
صفائی کا عالم کہوں اُن کی کیا######  کہ پائے نظر یاں پھسل ہی پڑا
بہت موتیا کی پیاری ہے بو######  ہرایک گل سے اس کی نرالی ہے بو
انوٹھی نہو کیونکہ اُس کی کلی######  نہائیت اُس کی ہے بو میں بھری
نواری کی از بسکہ میٹھی ہے بو######  دلوں کے وہ مقبول کیونکر نہو
جدا سب سے دو پہریا کا ہے روپ
کہاں اُس کی رنگت کو لگتی ہے دھوپ
گلوں سے نرالا ہے گل چاندنی ###### چَمَن کا اجالا ہے گل چاندنی
یہ چنپا کہ پھولوں میں ہَیگی مہک
لپٹ ان کی جاتی ہے گردوں تلک
میں رنگت میں تشبیہ دوں اُسے کیا
کہ بن باس جوہر ہے پُکھراج کا
ہر ایک گل کا ہے رَنگ و عالم جُدا
نہیں لُطف سے کوئی خالی ذرا
جسے دیکھیے ہر طرح خوب ہے######  طَبیعت کا ہر ایک کی مرغوب ہے
یہ گو ہر طرف سستے بکتے پھریں
یہ خوباں جہاں دیکھیں سر پر دھریں
ہوئے سستے یوں تاکہ پہنیں منگا ######  زنِ بے نَوَا و زنِ بادشا
جو عالم دکھاتے ہیں دمڑی کے پھول
وہ ہرگز نہو موتیوں سے حصول
پہنّے کا اُن کو نہو کیونکہ چاؤ######  کہ ہوتا ہے یاں کوڑیوں میں بناؤ
کسی خوب کی دل میں کھبتی نہ آن
نہ ہوتے جہاں میں اگرپھول پان
القِصّہ کوئی پھول چمنِ دہر میں رنگ و بو سے خالی نہیں۔ مصرعہ۔
ہر گُلے را رنگ و بُوئے دیگر است
لیکن موتیا چنبیلی بعضے بعضے وَصفوں میں سب سے زیادہ ہیں۔ تیل عطر انھیں کا نکلتا ہے۔اور ہر ایک صاحب طبع اُس چاہ کر مَلتا ہے۔ خصُوصاً وے عورتیں کہ جن کے مزاج میں سُتھرائی سُگھرائی بیشتر ہے۔ہمیشہ بدن کو لگائے اور بالوں کو اُس میں بسائے ہی رکھتے ہیں۔نا چاہنے والی کی خواہش زیادہ بڑھے۔ اور چاہ کی آنکھ اکثر  پڑے۔بیت
اگر تیل اور عطر ہوتے نہ یاں تو رونق پکڑتا نہ حسن ِ بتاں
بڑھائی انھوں نے ہَیں یہ اُن کی قدر
عجب چیز ہینگی غرض تیل و عطر
اور کیتکی کیوڑے کی بو باس صورت شکل کسی پھول سے نہیں ملتی۔اُن کا عالم ہی جُدا ہے۔ اگر ہزار پھول خوشبو دھرے ہوں اور کیوڑے کا ایک پھول بھی آئے۔ تو اُن کی مَہَک اُس کی لپٹ میں چھِپ جائے۔ گلاب و بید مشک اُس کے عرق سے خجالت کھینچےعطر کو اُس کے کوئی عطر لگ نہ سکے۔ بیت۔
جو ایک پھول ہو کیوڑے کا دھرا######  تو روشن نہ کیجیے کہیں لخلخا

اس موضوع پر مزید دیکھیں

Saturday 16 May 2020

Aakhri Qadam - NCERT Solutions Class VI Urdu

آخری قدم
ڈاکٹر ذاکر حسین
آؤ، آج تمھیں ایک بہت اچھے آدمی کا حال سنائیں جسے اس کے جیتے جی بہتیرے لوگ برا برا کہتے تھے اور مرنے کے بعد بھی اس کی نیکی کا حال بس وہی جانتے ہیں جن کے ساتھ اس نے بھلائی کی تھی۔ اور شاید بعضے تو ان میں سے بھی بھول گئے ہوں گے۔
اس نیک آدمی کے پاس بڑی دولت تھی مگر یہ ان لوگوں میں تھا جو اپنے دھن دولت کو اپنا نہیں سمجھتے بلکہ اللہ میاں کی امانت جانتے ہیں، جو بس اس لیے ان کے سپرد کی جاتی ہے کہ اسے اس کے بندوں پر صرف کریں۔ خود ان کی اُجرت یہ ہے کہ اس میں سے بھی بس موٹا جھوٹا پہن لیں اور دال دلیا کھا کر گزرکرلیں۔
ہاں، تو یہ نیک آدمی بھی اپنی دولت سے خود بہت کم فائدہ اٹھاتا تھا۔ ایک صاف سے مگر بہت چھوٹے مکان میں رہتا تھا۔ گذی گاڑھے کے بہت معمولی کپڑے پہنتا تھا۔ اور کھانے کا کیا بتاؤں، کبھی چنے چاب لیے، کبھی مکا کی کھیلیں کھالیں ۔ ایک وقت ہنڈیا چڑھی تو تین وقت کے کھانے کا انتظام ہو گیا ۔ دوست احباب جنہیں اس کے حال کی خبرتھی طرح طرح سے اسے کھیل تماشوں میں ، رنگ رلیوں میں گھسیٹنا چاہتے تھے۔ مگر یہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ بہانا کر کے ٹال دیتا تھا۔ آخر کوسب سے بڑا کنجوس مشہور ہو گیا ۔ اس کے دوست اسے ”میاں مکّھی چوس“ کہا کرتے تھے ۔ بعض دوست اس کی دولت کی وجہ سے جلتے تھے۔ وہ اسے اور بھی چھیڑتے اور بدنام کرتے تھے۔ مگر یہ دھن کا پکّا تھا۔ برابرچُھپ چُھپ کر چُپ چُپاتے اپنی دولت سے کسی نہ کسی مستحق کی مدد کرتا ہی رہتا تھا، اور اس طرح کہ سیدھے ہاتھ سے دیتا تو الٹے ہاتھ کو خبر نہ ہوتی اور زبان پر ذکر آنے کا تو ذکر ہی کیا۔
نہ جانے کتنی بیوائیں اس کے روپے سے پلتی تھیں ! کتنے یتیم اس کی مدد سے پڑھ پڑھ کر اچھے اچھے کاموں سے لگ گئے تھے ۔ کتنے مدرسے اس کی سخاوت سے چل رہے تھے۔ کتنے قومی کام کرنے والوں کو اس نے روٹی کپڑے سے بے فکر کر دیا تھا اور وہ یکسوئی سے اپنی اپنی دھن میں لگے ہوئے تھے ۔ کئی شفاخانوں میں دوا کا سارا خرچ اس نے اپنے سر لے لیا تھا اور ہزاروں دکھی بیماروں کو بے جانے اس کے روپے سے روز آرام پہنچتا تھا ۔ لیکن مشہور تھا وہی”کنجوس مکّھی چوس، دنیا کا کتا، نہ اپنے کام آئے نہ کسی اور کے ۔‘‘ کوئی اس پر ہنستا تھا، کوئی خفا ہوتا تھا سب اسے برا سمجھتے تھے!۔
آدی کتنا ہی نیک ہو، دوسروں کے ہردم برا کہنے سےجی دُکھتا ہی ہے۔ اس کے دل کو بھی کبھی کبھی بڑی ٹھیس لگتی تھی، جھنجھلاتا تھا، آنکھوں میں آنسو بھر بھر آ تے تھے مگر پھر صبر کر لیتا تھا۔
Courtesy NCERT

اس کے پاس ایک خوب صورت سی کتاب تھی، چکنا چکنا موٹا کاغد، نیلے کپڑے کی سبک سی جلد، پشت پرسنہرے حرفوں میں لکھا ہوا ”حسابِ امانت‘‘۔ اس کتاب میں یہ اپنا پیسے پیسے کا حساب لکھا کرتا تھا۔ جس کو بھی کچھ دیا تھاسب اس میں درج تھا۔ کہیں کہیں کیفیت کے خانے میں بڑی دلچسپ باتیں لکھی گئی تھیں ۔ کسی یتیم کو پڑھنے کے لیے وظیفہ دیا ہے۔ 15 سال بعد تاریخ دے کر کیفیت کے خانے میں درج ہے ”اب احمد آباد میں ڈاکٹر ہیں اور وہاں کے یتیم خانے کے ناظم ‘‘ کتابوں کے ایک کاروباری کوسخت پریشانی کے زمانے میں دو ہزار روپے دیے ہیں ۔ کئی سال بعد کیفیت کے خانے میں لکھا ہے۔” آج خط آیا ہے کہ انھوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک نہایت صاف اور سادہ زبان میں لکھوا کر ایک لاکھ نسخے طلبہ میں مفت تقسیم کیے ہیں ۔ خدا جزائے خیر دے ۔“ دلّی کے ایک مدرسے کو ایسے وقت کہ اس کا کوئی مددگار نہ تھا دس ہزار روپے دیئے تھے۔ اندراج رقم کے سامنے کیفیت میں لکھا تھا۔”سالانہ رپورٹ پڑھی۔ ہر صوبے میں اس کی ایک ایک شاخ قائم ہوگئی ہے۔ اس صوبے میں تو گاؤں میں تعلیمی مرکز قائم کر دیے ہیں ۔ یہ کام نہ ہوتا تو اس ملک میں مسلمانوں کی تمدّنی ہستی کبھی کی ختم ہو چکی تھی ۔“ اسی قسم کے بے شماراندراجات تھے۔
اس کتاب کو یہ اکثر اٹھا کر پڑھنے لگتا تھا۔ خصوصاً جب کسی نادان دوست کی زبان سے دل دکھتا تو ضرور اس کتاب کی ورق گردانی کی جاتی تھی۔ اسے دیکھ کر کبھی کبھی مسکراتا بھی تھا۔ اس کا ارادہ تھا کہ مرتے وقت یہ کتاب ان لوگوں کے لیے چھوڑ جاؤں گا جو عمر بھر مجھے پہچانے بغیر میرا دل دکھاتے رہے۔ اس ارادے سے اسے بڑی تسکین ہوتی تھی ۔ سو سُنار کی ایک لوہار کی ۔ انھوں نے ہزار دفعہ میرا جی خون کیا ہے۔ میں ایک دفعہ اُنھیں ایسا شرماؤں گا کہ بس سرنہ اٹھے گا۔ یہ سوچتا تھا اور خوش ہوتا تھا۔ ہوتے ہوتے بڑھاپا آن پہنچا۔ بدن جواب دینے لگا۔ روز کوئی نہ کوئی بیماری کھڑی ہے۔ ایک دفعہ دسمبر کا مہینہ تھا۔ سخت بیمار ہوا۔ بخار اور کھانسی ۔ ایک دن ، دودن ، تیسرے دن سینے میں سخت درد شروع ہوا۔ کوئی دو پہر غفلت رہی ۔ ہوش آیا تو سانس لینے میں بھی تکلیف ہوتی تھی ۔ نمونیا کا حملہ تھا اور سخت حملہ۔ شام سے حالت غیر ہونے لگی۔ بار بارغفلت ہو جاتی تھوڑی دیر کو ہوش آتا، پھرغفلت ۔ کوئی چار بجے کے قریب ہوش آیا تو اس کی سمجھ میں آ گیا کہ اب وہ وقت آن پہنچا ہے جو سب کے لیے آتا ہے اور جس سے کوئی بھاگ کر بچ نہیں سکتا۔
Courtesy NCERT

چارپائی کے پاس ہی میز پر وہ نیلی خوب صورت کتاب ”حسابِ امانت“ رکھی تھی جسے ابھی بیماری میں بھی دو دن پہلے اٹھا کر پڑھا تھا۔ چند لمحے اس کی طرف غور سے دیکھا۔ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔ ایسے کہ تھمتے ہی نہ تھے۔ کتاب کی طرف ہاتھ بڑھا کر اسے اٹھانا چاہا کئی مرتبہ کی کوشش میں اسے مشکل سے اٹھا پایا۔ پھر کچھ سوچ میں پڑا گیا۔یہ عظیم الشان گھڑی اور یہ چھوٹا خیال.......................... ان کو شرما کر تجھے کیا ملے گا................................ تو اپنا کام کرچلا...................اپنے کام سے کام.................منزل آ پہنچی..................... آخری قدم کیوں ڈگمگائے؟ ........................ دونوں ہاتھوں میں کتاب تھامے ہاتھ تھر تھرارہے تھے جیسے کوئی بہت بڑا بوجھ اٹھایا ہو ۔ بڑی مشکل سے تکیے پر سے سر بھی کچھ اٹھایا اور ناتواں جسم کی ساری آخری قوت صَرف کر کے کتاب کو اس پاس والی بڑی انگیٹھی میں پھینک دیا جس میں کوئی ڈھائی بجے نوکر نے بہت سے کو ئلے ڈالے تھے اور میاں کو سوتا جان کر دوسرے کمرے میں جا کر سو گیا تھا۔
کتاب جلنے لگی۔ اس کی نظر اس پر جمی تھی۔ جلد کے جلنے میں دیر لگی۔ پھر اندر کے کاغذوں میں آگ لگی تو ایک شعلہ اُٹھا۔ اس کی روشنی میں اس کے ہونٹوں پر ایک خفیف سی مسکراہٹ دکھائی دی اور چہرے پرعجیب اطمینان ۔ ادھر موذّن نے اشہد انَّ مُحمّد الرَّسُول الله کہا۔ اور نیکیوں کے اس کا رواں سالار کی رسالت کے اعلان کے ساتھ ہی اس کی امت کے اس نیک راہ رو نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔

معنی یاد کیجیے
بُہتیرے : بہت سارے
سپرد کرنا : حوالے کرنا
اُجرت : بدلہ ، معاوضہ
موٹا جھونٹا : بہت معمولی ، جو سستا ہو
دال دلیا : معمولی کھانا
گزرکرنا : معمولی طریقے سے زندگی گذارنا
گذی گاڑھے : ایک قسم کا معمولی موٹا کپڑا 
کھیلیں :  کھیل کی جمع بھنا ہواناج جوچٹخ کرپھول گیا ہو
احباب : ساتھی ، دوست
رنگ رلیاں :عیش وعشرت
دھن کا پکا ہونا (محاورہ) : ارادے کا پکا ہونا
مکّھی چوس : بہت ہی کنجوس
چپ چپاتے : خاموشی کے ساتھ، چھپ کر کسی کو بتائے بغیر
مستحق : ضرورت مند، حقدار
سخاوت : دوسروں پر زیادہ خرچ کرنا، در یا دلی
قومی کام : قوم کی بھلائی کے کام
یک سوئی سے : بہت توجہ کے ساتھ ، اطمینان
سَر لینا : ذمّے لینا
خفا : ناراض
ٹھیس لگنا : دُکھ پہنچنا
سُبک : نازک، ہلکی
سوچیے اور بتائیے
1. نیک آدمی میں کیا خوبیاں تھیں؟
جواب: نیک آدمی اپنی دولت غریبوں اور مستحق لوگوں پر خرچ کرتا تھا۔ نہ جانے کتنی بیوائیں اس کے روپے سے گزر بسر کرتی تھیں ۔وہ کتنے ہی یتیم بچوں کی کفالت کرتا اور ان کے تعلیمی خرچ اٹھاتا تھا۔

2. لوگ اس نیک آدمی کو برا کیوں کہتے تھے؟
جواب: لوگ نیک آدمی کو اس لیے برا بھلا کہتے تھے کہ وہ اپنی سخاوت کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دیتا اور اتنی دولت ہونے کے بعد بھی بہت سادہ زندگی گزارتا،معمولی کپڑے پہنتا، معمولی کھانا کھاتا۔ یہاں تک کہ وہ بہت کنجوس مشہور ہوگیا تھا۔

3. بعض لوگ اس کی دولت سے کیوں جلتے تھے
جواب: بعض لوگ اس کی دولت سے اس لیے جلتے تھے کہ وہ اسے رنگ رلیوں اور کھیل تماشے میں گھسیٹنا چاہتے تھے لیکن وہ اپنی ہی دھن میں لگا ر ہتا تھا۔

4. وہ نیک آدمی اپنی دولت کن کاموں پر خرچ کرنا چاہتا تھا؟
جواب: وہ نیک آدمی اپنی دولت بیواؤں کی مدد کرنے، یتیموں کی کفالت کرنے، مدرسے چلانے، بیماروں کے لیے شفاخانے کھلوانے اور دین کے فروغ  پر خرچ کرتا تھا۔

5. وہ سیدھے ہاتھ سے دیتا تو الٹے ہاتھ کو خبر نہ ہوتی اس جملے کیا مطلب ہے؟
جواب: اس جملے کا مطلب ہے کہ وہ لوگوں کی انتہائی خاموشی سے دوسروں سے چھپاکر مدد کرتا تھا۔

6. نیک آدمی''حسابِ امانت" میں کیا درج تھا؟
جواب: نیک آدمی ''حسابِ امانت'' میں اپنا پیسے پیسے کا حساب لکھا کرتا۔ اس نے جس کو کبھی بھی کچھ دیا تھا وہ اس کتاب میں درج تھا۔ کہیں کہیں کیفیت کے خانے میں بڑی دلچسپ باتیں درج تھیں۔ کسی یتیم کو تعلیم کے لیے وظیفہ دیا تھا تو پندرہ سال بعد کی تاریخ میں درج تھا کہ اب وہ احمد آباد میں ڈاکٹر ہیں اور وہاں کے یتیم خانے میں ناظم ہیں۔ کتابوں کے کاروباری کو ایک بار سخت پریشانی کے عالم میں دو ہزار روپے دیے تھے تو کئی سال بعد اس کی کیفیت میں لکھا کہ آج خط آیا ہے کہ اس شخص نے سیرت پاک کے ایک لاکھ نسخے طبع کرکے طلبہ میں مفت تقسیم کیے۔ غرض اس کتاب میں اس کی نیکی اور سخاوت کے تمام واقعات درج تھے۔

7. لوگوں کی باتوں سے تنگ آکر نیک آدمی کیا کرتا تھا؟
جواب: لوگوں کی باتیں سن کر اس نیک آدمی کو سخت رنج پہنچتا اور اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے۔ وہ تنہائی میں اپنی ڈائری حساب امانت کو پڑھتا جس سے اس کو قلبی سکون ملتا تھا۔

8. نیک آدمی کا ارادہ کیا تھا؟
جواب: نیک آدمی کا ارادہ تھا کا وہ اپنی کتاب حساب امانت لوگوں کہ لیے چھوڑ جائے گا تاکہ اس کے جانے کے بعد دنیا والوں کو اس کی نیکیوں کا علم ہو۔

9. نیک آدمی نے آخری وقت میں اپنے ارادے پر عمل کیوں نہیں کیا؟
جواب: آخری وقت میں اس آدی کو خیال آیا کہ کسی اور کو شرمندہ کرکے اسے کیا ملے گا۔ بلکہ اس کی زندگی بھر کی نیکی اس کے اس عمل سے ضائع ہوجائے گی۔ اس نے ارادہ کیا کہ اس کا آخری قدم کیوں ڈگمگائے۔ اس نے کتاب کو ضائع کرنے کا فیصلہ کرلیا اور اپنی کتاب کو آگ کی انگیٹھی میں ڈال دیا۔

اس سبق میں لفظ امانت دار آیا ہے۔ جس کے معنی ہیں امانت رکھنے والا۔ نیچے دیے ہوئے لفظوں کے آگے دار لگاکر لفظ بنائیے
دم : دم دار
سمجھ : سمجھ دار
شان : شان دار
عزت : عزت دار
خبر : خبردار
طرح : طرح دار
وفا : وفادار
ہوا : ہوا دار
جان : جان دار
خار : خار دار

نیچے دیے ہوئے محاوروں کو جملوں میں استعمال کیجیے
دُھن کا پکّا ہونا : وہ اپنی دھن کا پکا تھا۔
ٹھیس لگنا : امتحان کا نتیجہ دیکھ  کر فرزانہ کے دل پر ٹھیس لگی۔
جی خون ہونا : اپنے گناہوں کو یاد کر  اسلم کا جی خون ہو گیا۔
سر نہ اٹھنا : شرم کے مارے اسلم کا سر نہ اٹھ سکا۔
ٰحالت غیر ہونا :  بھوک سے اس کی حالت غیر ہو گئی۔

لکھیے
نیک آدمی کی کہانی اینے لفظوں میں لکھیے
 اس کہانی کا کوئی نیا عنوان لکھیے

غور کرنے کی بات :
*  ”اس نیک آدمی کے پاس بڑی دولت تھی۔ مگر یہ ان لوگوں میں تھا جو اپنے دھن دولت کو اپنا نہیں سمجھتے بلکہ اللہ میاں کی امانت جانتے ہیں ۔ جو بس اس لیے ان کے سپرد کی جاتی ہے کہ اسے اس کے بندوں پر صَرف کریں۔ خود ان کی اجرت یہ ہے کہ اس میں یہ بھی بس موٹا جھوٹا پہن لیں اور دال دلیا کھا کر گزرکرلیں۔“
 اس عبارت میں مصنف نے نیک لوگوں کی کتنی اچھی تعریف کی ہے کہ وہ نیک لوگ جنھیں اللہ نے دولت دی ہے مغرور اور گھمنڈی نہیں ہوتے بلکہ اپنی دولت کو ضرورت مندوں پر خرچ کرنے کے لیے اللہ کی امانت سمجھتے ہیں اور خود سادہ زندگی گزارتے ہیں۔
*  ’’آؤ آج تمھیں ایک بہت اچھے آدمی کا حال سنائیں جسے اس کے جیتے جی بہترے لوگ برا برا کہتے تھے ۔“
یہ آپ کے سبق کا پہلا جملہ ہے۔ اس جملے میں لفظ ”برا“ دو بار ایک ساتھ آیا ہے۔ لفظ کے دو بار ایک ساتھ آنے کو تکرار کہتے ہیں جیسے ساتھ ساتھ بیٹھنا، بار بار کہنا، مزے مزے کی با تیں وغیرہ۔

Thursday 14 May 2020

wafat se qabl Hazrat Ali ki Wasiyat

 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی وصیت
آخر وقت میں آپ نے اپنی اولاد امجاد خصوصاً حضرات حسنین علی جدہما و علیہما الصلوة والسلام اور حضرت محمد بن حنفیہ رضی الله عنہ کو بلا کر جو وصیتیں فرمائیں ان میں سے کچھ بطور اختصار لکھی جاتی ہیں۔
خدا کو حاضر و ناظر جان کر اس سے ڈرتے رہنا۔ خوشی و ناخوشی میں حق بات کو نہ جانے دینا۔ تم دنیا کی محبت میں مبتلا نہ ہو جانا۔ اگرچہ وہ تم کو مبتلا کرنا چاہے۔ دنیا کے جانے پرغمگین نہ ہونا۔ یتیم پر رحم کرنا۔ بے کس و لاچار کی مدد کرنا۔ اس کی مدد اور دستگیری کو اپنے اوپرلازم کرنا۔ ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار رہنا۔ کتاب الله پر عمل کرنا۔ احکام الٰہی کے بجالانے میں کسی کی ملامت سے نہ ڈرنا۔
ان تینوں بزرگوں کو آپس میں میل ملاپ محبت و الفت سے رہنے اور ایک کو دوسرے کی مدد واعانت کی بہ تاکید ہدایت فرمائی اور فرمایا :
اسلام سے بڑھ کر شرافت کسی میں نہیں۔ تقوے سے بڑھ کر کرامت، ورع سے زیادہ حفاظت کسی چیز میں نہیں۔ توبہ  سے بڑھ کرشفاعت کرنے والا اور گناہوں کو مٹانے والا دوسرا نہیں ۔ بدترین توشہ آخرت بندگانِ خدا پرظلم وتعدی روارکھناہے۔ بشارت ہے اس شخص کو جس کے اعمال خالصتاًللہ ہوں۔ اس کا علم وعمل، بغض وحسد و محبت، کسی سے ملنا، کسی کو چھوڑ نا، بولنایا چپ رہناقول وفعل سب اللہ کے واسطے ہوں۔ حضرت سیدنا امام حسن مجتبیٰ علی جدہ وعلیہ الصلوۃ والسلام کی طرف خاص خطاب کر کے فرمایا :
اے بیٹے! تجھ کوخوفِ خدا کی وصیت کرتا ہوں ۔ نماز وقت پر ادا کرنا۔ زکوٰة اس کے موقع پر دیتے رہنا۔ وضو آداب وسنن کی رعایت کے ساتھ کرنا کیونکہ نماز بغیر طہارت کامل کے نہیں ہوتی ہے۔ لوگوں کی خطائیں معاف کرنا۔ غصہ کو ضبط کرنا قرابت مندوں کاحق ادا کرنا اور کرتے جاہل کے ساتھ حلم سے پیش آنا۔ اس کی جہالت کی پروا نہ کرنا۔ دین کے معاملات میں خوب غوروفکر کرنا ۔ اپنے ہر کام میں استقلال کا لحاظ رکھنا۔ قرآن شریف پر نظر رکھنا۔ اس کی تلاوت کرتے رہنا۔ ہمسایہ کے ساتھ نیکی کرنا اور نیک کاموں کی ترغیب دینا۔ بری باتوں سے روکتے رہنا اور خود بھی برے کاموں سے پرہیز کرنے کو اپنی عادت بنانا۔
(ماخوذ از مولائے کائنات، تالیف مبارکہ حضرت فیاض المسلمین بدر الکاملین مولانا سید شاہ محمد بدرالدین نورعالم قادری پھلواروی قدس سرہ)

خوش خبری