آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Thursday 22 October 2020

Majlis e Ishq e Rasool ﷺ Meelad e Rasool Day-4

 مجلس عشقِ رسول یعنی میلاد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم

(چوتھی محفل)

وَمَا اَرْسَلْنٰـکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْن

سادگی: 
آپؐ بہت سادہ رہتے، موٹا کھاتے ، موٹا پہنتے اور چھوٹی سی جگہ میں رہتے۔ در و دیوار پر کپڑے ٹانگنے کومنع فرماتے۔ فرماتے ایک بچھونا اپنے لئے ، ایک بیوی کے لئے اور ایک مہمان کے لئے؛ چوتھا شیطان کا حصہ ہے۔
بناوٹی اور سناوے کی باتوں کو ناپسند فرماتے اور دکھاوے کے کام کو بھی برا جانتے۔ اپنی تعریف پسند نہ فرماتے تھے۔ کہتے اللہ نے جو مرتبہ مجھ کو دیا ہے ، میں نہیں چاہتا کہ تم مجھ کو اس سے بڑھاؤ ۔
آپؐ اپنا کام آپ کرتے۔ پھٹے کپڑوں کوسینا ، پیوند لگانا، گھرمیں جھاڑو دینا، صفائی کرنا، دودھ دوہنا ، بازار سے سودا لانا ، جوتا گانٹھ لینا، یہ سب کام اپنے ہاتھوں سے کرتے کبھی کبھی آٹا بھی گوندھ لیتے۔ مسجد نبوی اور مسجد قبا کی تعمیرمیں آپؐ بھی مزدوروں کی طرح کام کرتے۔آپؐ نے سرِراہ بیٹھ کراپنی چپل کا تسمہ جوڑا ہے۔ ایک صحابی نے اس کام کو کرنا چاہا تو راضی نہ ہوئے، اور فرمایا یہ خود پسندی ہے۔
بہت سے لوگ اپنا کام آپ کرنا برا سمجھتے ہیں، حالانکہ اپنا کام آپ کرنا اچھا ہے اور دوسروں کا کام کردینا اس سے بھی اچھا ہے۔

بیمارپُرسی:
مریضوں کو دیکھنے جانا اور حال چال پوچھنا، بیمار پُرسی اور عیادت ہے۔ جب کوئی بیمار پڑتا توآپؐ دیکھنے جاتے، اس کا حال پوچھتے اور اس کی خدمت کرتے۔

معاف کردینا:
بدلہ لینا تو دور کی بات ہے، کوئی قصور کرتا تو آپؐ اس سے پوچھتے بھی نہیں۔ مکہ فتح ہوا۔ دشمن قابو میں ہوئے تو سب تکلیف بھول گئے اور سب کو معاف کر دیا۔ ایک بدو نے مسجد میں پیشاب کرنا شروع کیا، لوگ مارنے کو  دوڑے۔ آپؐ نے منع فرمایا اور کہا کہ لوگو! پیشاب کو دهو دو سختی نہ کرو۔ اللہ نے تم کو سختی کے لئے نہیں بنایا ہے، نرمی کے لئے بنایا ہے۔ حضورؐ نے اس کے بعد بدو کو بھی سمجھایا کہ مسجد میں پیشاب پاخانہ نہیں کرنا چاہیے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ آپؐ کا کام کرتے تھے۔ وہ چھوٹے سے تھے۔ ایک دن آپؐ نے کام کو کہا لیکن حضرت انس رضی اللہ عنہ کھیل میں مشغول ہوگئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کچھ نہ بولے اور وہ کام خود کرلیا۔
ایک روز آپؐ مسجد سے نکل رہے تھے۔ ایک بدونے آپؐ کے گلے میں چادر ڈال کر آپؐ کو اس زور سے کھینچا کہ آپ کی گردن لال ہوگئی۔ اس کے بعد کہا کہ تیرے پاس جو کچھ ہے نہ تیرا ہے نہ تیرے باپ کا، میرے دو اونٹ غلوں سے لادو۔آپ خفا کیا ہوتے کہ الٹے دو اونٹ کھجوروں سے لدوادیئے۔
ایک دشمن نے زہر میں بجھا ئی تلوار لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ کیا چھپ کر مدینہ آیا لوگ اُسے پکڑ کر آپ کے پاس لائے۔ آپ نے اسے اپنے پاس بٹھایا، جو اس کا ارادہ تھا وہ بھی بتادیا اور کچھ نہ کہا۔

غریبوں سے محبت:
آپؐ غریبوں سے محبت کرتے اور غریبوں سے محبت کر نے کی تعلیم دیتے۔ ایک بار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو فرمایا :۔
”کسی غریب کو اپنے دروازہ سے خالی ہاتھ واپس نہ کرو ۔ کچھ نہ کچھ دے دو۔غریبوں سے محبت کرو گی تو اللہ بھی تم سے محبت کرے گا۔ “
آپ کمزوروں اور غریبوں کو اٹھانا اور ان کو زمین کا وارث اور حاکم بنانا چاہتے تھے ۔ یہی وجہ ہےکہ پہلے پہل غریبوں نے آپ کے دین کو قبول کیا۔
عیسائی بادشاہ ہرقل نے ملک شام میں حضرت ابوسفیان سے پوچها تھا ( یہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) کہ رسول کے ماننے والے زیادہ غریب ہیں یا امیر ؟ تو انھوں نے جواب دیا تھا کہ غریب ہیں۔
ایک دفعہ کچھ لوگ آئے؛ ننگے سر، ننگے پاؤں، کپڑے پھٹے ہوئے؛ حضورؐ بےچین ہو گئے-- مسجد نبوی میں لوگوں کو ان کی امداد کے لئے ابھارا اوران کی مدد کی۔

قناعت:
آپؐ نے لوگوں کی بھلا ئی اور لوگوں کی اصلاح کے لئے جتنی مصیبتیں سہی ہیں اگر اتنی مصیبت اپنے آرام و آسائش کے لئے اٹھاتے تو دنیا کی دولت اکھٹی کر لیتے۔ مگر آپؐ نے کبھی مال و دولت کی لالچ نہیں کی۔ کم سے کم سامان میں اپنی ضرورت پوری کی اور اکثر فاقوں میں گزارا۔ اپنے بیوی بچوں کے لئے سونے کا زیور پسند نہ فرمایا۔ ایک دفعہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دروازہ پر پردہ پڑا پایا تو واپس ہوگئے کہ ایسا کیوں ہے۔

0 comments:

Post a Comment

خوش خبری