آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Friday 23 October 2020

Majlis e Ishq e Rasool ﷺ Meelad e Rasool Day-5

 مجلس عشقِ رسول یعنی میلاد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم

میلاد کی کتاب“ جناب شاہ محمد عثمانیؒ (مولد و وطن مالوف سملہ،ضلع اورنگ آباد، بہار۔ مدفن جنت المعلیٰ،مکہ مکرمہ)
کی مرتب کردہ ایک نایاب و کمیاب کتاب ہے۔ 
قارئین آئینہ کے استفادہ اور محفل میلاد کی برکتوں سے فیضیاب ہونے کے مقصد سے
 اسے قسط وار پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جارہی ہے۔
 اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ میلاد کی ان مجلسوں کو ہم سب کے لیے خیر و برکت اور اصلاح کا سبب بنائے،
 اورصاحبِ مرتب کی  اس خدمت کو قبول فرمائےاور اُن کے درجات کو بلند فرمائے۔ (آئینہ)

(پانچویں محفل)

وَمَا اَرْسَلْنٰـکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْن
رہبانیت سے نفرت:
اللہ نے آدمی کو زمین پر اپنا خلیفہ یعنی نائب اور جانشین بنایا ہے۔ اسے دنیا کا انتظام کرنا ہے۔ آسمان اور زمین کے درمیان جتنی چیزیں ہیں سب اس کے تابع ہیں- یہ چرند، یہ پرند، یہ پیڑ، یہ دریا،یہ پہاڑ سب سے آدمی کام لیتا ہے اور سب کا انتظام کرتا ہے، اس لئے اگر کوئی آدمی دنیا سے بھاگے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی ڈیوٹی اور اپنے فرض سے بھاگتا ہے۔ اسلام کے سوا دوسرے مذہبوں میں جو لوگ دنیا کا بوجھ نہیں اٹھاتے ہیں، جنگلوں میں مارے مارے پھرتے ہیں، اپنی جان کو اذیت دیتے ہیں،  لوگوں سے مانگ کر اپنا پیٹ بھر لیتے ہیں اور رہبانیت اختیار کرلیتے ہیں وہ اپنے مذہب میں اچھے سمجھے جاتے ہیں، اسلام نے ان کو اچھا نہیں بتایا۔ اسلام نے لوگوں کو ان کی ڈیوٹی بتائی اور الله تعالیٰ کی نعمتوں کی کھوج لگا نے کو کہا، دنیا سے بھاگنا برا بتایا۔ حکم ہوا کہ اپنی جان کا،بیوی بچوں کا،بزرگوں اور عزیزوں کا،گاوؤں والوں کا اور نوع انسان کا اور ساری کائنات کا حق ہے۔ اچھا آدمی وہ ہے جو ان سب کا حق ادا کرے اور اس راہ میں جواذیت ہو اس کو بِرداشت کرے۔ دنیا سے بھاگنے کو اور اس کا بوجھ نہ اٹھانے کو رہبانیت کہتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا۔  ایسی مشغولی جس سے دنیاوی فرائض ادا نہ ہوں آپؐ نے پسند نہیں فرمایا ہدایت فرمائی کہ اپنی جان کو عذاب نہ دو۔میں کھاتا بھی ہوں، میں نے شادی بھی کی ہے، میں سوتا بھی ہوں؛ پس جو میرے طریقہ پر نہیں وہ میرا نہیں۔
مساوات:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے کوئی امتیاز اور بڑائی نہیں چاہی، جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے ۔ پھر حضورؐ اس کو کیسے پسند کرتے کہ لوگ آپس میں ایک دوسرے پر بڑائی جتائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں دولت کی بنیاد پر یا خاندان کی بنیاد پر کسی کو کوئی حق زیادہ نہیں ملتا تھا۔ سب کا حق برابر تھا کسی میں کوئی فرق نہ کرتے۔ شادی بیاہ میں بھی آپؐ نے معاش يا ذات کی بناء پر کسی کو ترجیح نہیں دی۔ اپنی پھوپھی زاد بہن کی شادی اپنے گھر کے غلام سے کر دی ۔ فرماتے لوگ حسن ، ذات اور دولت کو شادی بیاہ میں پیش نظر رکھتے ہیں مسلمانوں کو چاہیے کہ دین داری کو پیش نظر رکھیں یعنی جو لڑکا یا لڑکی دین دار ہو ، شادی کے لیے اس کو پسند کریں ۔
مرض الموت کے زمانہ میں حضورؐ نے ایک فوج مرتب کی جس کا سردار ایک غلام کو بنایا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد آپؐ کے خلیفہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس فوج کو شام بھیجا۔ لوگوں نے کہا۔ غلام کے بدلے کسی دوسرے کو سردار بنائیے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس کو سردار بنا چکے ہیں اسے سرداری سے کیونکر ہٹا سکتا ہوں۔
حضورؐ کے یہاں کھانے پینے ، اٹھنے بیٹھنے، ملنے جلنے میں کسی کا کوئی فرق نہ تھا ۔ ہاں قرآن نے کہا ہے اِنَّ اَکرمکم عند اللّٰہ اتقکم (  تم میں بزرگ وہی ہے جو متقی اور پرہیزگار ہے)۔ یعنی جو لوگ دین کے لئے دکھ اور اذیت سہتے رہے اور ہر لمحہ جہاد کے لئے آمادہ اور تیار رہے اور اسلام قبول کرنے میں اور اسلام کا جھنڈا اونچا کرنے میں جنھوں نے پہل کیا اور جو آگے آگے رہے ان کا درجہ بڑا ہے لیکن یہ وہ بڑائی ہے جو ہر ذات اور برادری کا آدمی ہمت کر کے حاصل کرسکتا تھا اور جو لوگ ان اچھی اچھی باتوں میں بڑے تھے، ہمارے حضورؐ نے ان کی کوئی ایسی الگ اور ممتاز برادری قائم نہیں کی جن کے لڑکوں اور لڑکیوں  کا عقدان کے آپس ہی میں محدود ہو اور جن کو جماعت میں کوئی معاشی تفوّق دیا گیا ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،کہ عربی کو عجمی پر،کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر کوئی فضیلت اور بڑائی نہیں ہے مگر تقویٰ  کی وجہ سے۔
بلا معاوضہ کام لینا یا چیز لینا:
حضورؐ فرماتے جب کسی سے کوئی کام یا چیز لو تو اس کو اس کا بدلہ دو اور اگر بدلہ نہ دے سکو تو کم از کم دعاء ہی کردو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی سےکوئی چیز مفت لینا پسند نہیں فرماتے تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپؐ کے جاں نثار دوست تھے لیکن ہجرت کے موقع پر حضورؐ کو اونٹ بغیر قیمت کے اور مفت دینا چاہا تو حضورؐ نے قبول نہیں کیا اور اس کی پوری قیمت دی۔

0 comments:

Post a Comment

خوش خبری