یہاں کا تو قصّہ میں چھوڑا یہاں
ذرا اب سنو غم زدوں کا بیاں
کروں حال ہجراں زدوں کا رقم
کہ گزرا جدائی سے کیا ان پہ غم
کھلی آنکھ جو ایک کی واں کہیں
تو دیکھا کہ وہ شاہ زادہ نہیں
نہ ہے وہ پلنگ اور نہ وہ ماہ رو
نہ وہ گل ہے اس جا، نہ وہ اس کی بو
رہی دیکھ یہ حال حیران کار
کہ یہ کیا ہوا ہائے پروردگار
کوئی دیکھ یہ حال رونے لگی
کوئی غم سے جی اپنا کھونے لگی
کوئی بلبلاتی سی پھرنے لگی
کوئی ضعف ہو ہو کے گرنےلگی
کوئی سر پر رکھ ہاتھ، دل گیر ہو
گئی بیٹھ، ماتم کی تصویر ہو
کوئی رکھ کے زیر زنخداں چھڑی
رہی نرگس، آسا کھڑی کی کھڑی
رہی کوئی انگلی کو دانتوں میں داب
کسی نے کہا: گھر ہوا یہ خراب
کسی نے دیے کھول سنبل سے بال
تپانچوں سے جوں گل کیے سرخ گال
نہ بن آئی کچھ ان کو اس کے سوا
کہ کہیے یہ احوال اب شہہ سے جا
سنی شہ نے القصّہ جب یہ خبر
گرا خاک پر کہہ کے: ہائے پسر!
کلیجہ پکڑ ماں تو بس رہ گئی
کلی کی طرح سے بِکس رہ گئی
کہا شہ نے : وهاں کا مجھے دو پتا
عزیزو! جہاں سے وہ یوسف گیا
گئے لے ووشہ کو لبِ بام پر
دکھایا کہ سوتا تھا یہاں سیم بر
یہی تھی جگہ وہ جہاں سے گیا
کہا: ہائے بیٹا ، تو یہاں سے گیا؟
مرے نوجواں ! میں کدھر جاؤں پیر
نظر تونے مجھ پر نہ کی بے نظیر!
عجب بحر غم میں ڈبویا ہمیں
غرض جان سے تو نے کھویا ہمیں
کروں اس قیامت کا کیا میں بیاں
ترقی میں ہردم تھا شور وفغاں
لبِ بام کثرت جو یک سر ہوئی
تلے کی زمیں ساری، اوپر ہوئی
شب آدھی، وہ جس طرح سوتے کٹی
رہی تھی جو باقی، سو روتے کٹی
|