آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Thursday, 16 April 2020

Aaina e Irfaan

 Aaina e Irfaan

مشمولات
حمد تاج العرفان حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسی ؒ
شاہ محمد قاسم عثمانی فردوسی ؒ طیب عثمانی ندوی
حضرت مولانا حکیم شاہ منصور احمد فردوسی شاہ ہلال احمد قادری
اردو شاعری میں رنگ تصوف شاہ رشاد عثمانی
حضرت شاہ کمال ڈاکٹر امین چند شرما
مولانا طیب عثمانی ندوی کے اذکار صوفیانہ شاہ ہلال احمد قادری
حصرت خواجہ اجمیری کا ذوق سماع حضرت مولانا سید شاہ محمد آیت اللہ قادری
گیارہویں شریف امیمہ قادری
المجیب: خانقاہ مجیبیہ کی خدمات نمبر شاہ محمد تسنیم عثمانی فردوسی
کیا وقت تھا کیالوگ تھے ابن طاہر
کیا وقت تھا کیالوگ تھے۔2 ابن طاہر
حضرت مخدوم جہاں مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیریؒ ابن طاہر
غیر مسلم شعرا کی نعت نگاری ڈاکٹر کے وی نکولن
ٹوٹ گئے ستار کے تار ادارہ
شاعر اسلام اقبال۔ شخصیت اور پیام طیب عثمانی ندوی
حمد، نعت،عارفانہ کلام
موئے رسول پاکؐ دکھانا بھی نعت ہے امیمہ قادری
نمی دانم چہ منزل بود شب جائیکہ من بودم حضرت امیر خسرو
اب تو یہ بھی نہیں رہا احساس جگر مراد آبادی
نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں ناصر کاظمی
بہک بھی سکتا ہوں توبہ کی چاہتیں لکھ دے جوگا سنگھ انور
ہم چپکے چپکے اشک بہانے سے بچ گئے تاجور سلطانہ
ہولی نظیر اکبر آبادی
اک مس سیمیں بدن سے کرلیا لندن میں عقد اکبر الہ آبادی

Wednesday, 15 April 2020

Ek Miss Seemin Badan Se - Akbar Allahabadi


ایک مس سیمیں بدن سے کر لیا لندن میں عقد

اکبر الہ آبادی

ایک مس سیمیں بدن سے کر لیا لندن میں عقد
 اس خطا پر سن رہا ہوں طعنہ ہائے دل خراش

 کوئی کہتا ہے کہ بس اس نے بگاڑی نسل قوم
 کوئی کہتا ہے کہ یہ ہے  بدخصال و بدمعاش

 دل میں کچھ انصاف کرتا ہی نہیں کوئی بزرگ
 ہو کے اب مجبور خود اس راز کو کرتا ہوں فاش

 ہوتی تھی تاکید لندن جاؤ انگریزی پڑھو
 قوم انگلش سے ملو سیکھو وہی وضع  تراش

 جگمگاتے ہوٹلوں کا جا کے نظارہ کرو 
سوپ و کاری کے مزے لو۔ چھوڑ کر یخنی و آش

 لیڈیوں سے مل کے دیکھو ان کے انداز و طریق
ہال میں ناچو کلب میں جا کے کھیلو ان سے تاش

 باده تہذیب یورپ کے چڑھاؤ خم کے خم
 ایشیا کے شیشۂ تقویٰ کو کردو  پاش پاش

 جب عمل اس پر کیا پر یوں کا سایہ ہو گیا
 جس سے تھا دل کی حرارت کو سراسر انتعاش

 سامنے تھیں لیڈیاں زہرہ  وش جادو نظر
 یاں جوانی کی امنگ اور ان کو عاشق کی تلاش

 اس کی چتون سحر آگیں اس کی باتیں دل ربا
چال اس کی فتنہ خیز اس کی نگاہیں برق پاش

 وہ فروغ آتشِ رخ جس کے آگے آفتاب
 اس طرح جیسے کہ پیش شمع پروانے کی لاش

 جب یہ صورت تھی تو ممکن تھا کہ اک برق بلا
 دست سیمیں کو بڑھاتی اور میں کہتا دور باش؟

 دونوں جانب تھا رگوں میں جوش خونِ فتنہ زا
 دل ہی تھا آخر نہیں تھی برف کی یہ کوئی قاش

 بار بار آتا ہے اکبر میرے دل میں یہ خیال
 حضرت سیّد سے جا کر عرض کرتا کوئی کاش

 درمیان قعر دریا تختہ بندم کرده  ای
باز میگوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش
(دریا کی منجدھار میں مجھے تختے پر باندھ کر چھوڑ دیا ہے اور پھر کہتے ہو کہ خبردار ہشیار رہنا تمھارا دامن تر نہ ہونے پائے۔)

Ghazal- Us ke sharar e husn - Nazeer Akbarabadi


غزل
نظیر اکبر آبادی

اس کے شرار حسن نے جلوہ جو اک دکھادیا
 طور کو سر سے پاؤں تک پھونک دیا جلا دیا

پھر کے نگاہ چارسو، ٹھہری اسی کے روبرو
اس نے تو میری چشم کو قبلہ نما بنا دیا

 میں ہوں پتنگ کاغذی ڈور ہے اس کے ہاتھ میں
چاہا!! اِدھر گھٹا! لیا!، !چاہا !!اُدهر!بڑھا! دیا

تیشے کی کیا مجال تھی، یہ  کہ تراشے بے ستوں
تھا وہ تمام دل کا زور جس نے پہاڑ ڈھا دیا

 نکلے جو راهِ دَیر سے اک ہی نگاہ مست میں
گبر کا صبر کھو دیا، بُت کو بھی بُت بنا دیا

Guzra Hua Zamana - Sir Syed - NCERT Solutions Class 9 Urdu

Guzra hua Zamana by Sir Syed Ahmad Khan Chapter 1 NCERT Solutions Urdu
گزرا ہوا زمانہ
سرسید احمد خاں

برس کی اخیر رات کو ایک بڈّھا اپنے اندھیرے گھر میں اکیلا بیٹھا ہے ، رات بھی ڈراونی اور اندھیری ہے ، گھٹا چھا رہی ہے بجلی تڑپ تڑپ کر کڑکتی ہے، آندھی بڑے زور سے چلتی ہے، دل کانپتا ہے اور دم گھبراتا ہے ۔ بڈّھا نہایت غمگین ہے مگر اس کاغم نہ اندھیرے گھر پر ہے، نہ اکیلے پن پر اور نہ اندھیری رات اور بجلی کی کڑک اور آندھی کی گونج پر اور نہ برس کی اخیر رات پر۔ وہ اپنے پچھلے زمانے کو یاد کرتا ہے اور جتنا زیادہ یاد آتا ہے اتنا ہی زیادہ اس کا غم بڑھتا ہے۔ ہاتھوں سے ڈھکے ہوئے منہ پر آنکھوں سے آنسوبھی بہے چلے جاتے ہیں ۔
پچھلا زمانہ اس کی آنکھوں کے سامنے پھرتا ہے، اپنا لڑکپن اس کو یاد آتا ہے، جب کہ اس کو کسی چیز کا غم اور کسی بات کی فکر دل میں نہ تھی۔ روپے،اشرفی کے بدلے ریوڑی اور مٹھائی اچھی لگتی تھی۔ سارا گھر ماں باپ، بھائی بہن اس کو پیار کرتے تھے۔ پڑھنے کے لیے چھٹی کا وقت جلد آنے کی خوشی میں کتابیں بغل میں لیے مکتب میں چلا جاتا تھا۔ مکتب کا خیال آتے ہی اس کو اپنے ہم مکتب یادآتے تھے۔ وہ زیادہ غمکین ہوتا تھا اور بے اختیار چلاّ اٹھتا تھا ”ہائے وقت، ہائے وقت! گزرے ہوئے زمانے! افسوس کہ میں نے تجھے بہت دیر میں یاد کیا۔“
پھر وہ اپنی جوانی کا زمانہ یاد کرتا تھا۔ اپنا سرخ سفید چہرہ، سڈول ڈیل بھرا بھرا بدن ، رسیلی آنکھیں ، موتی کی لڑی سے دانت ، امنگ میں بھرا ہوا دل، جذبات انسانی کے جوشوں کی خوشی اسے یاد آتی تھی ۔ اس کی آنکھوں میں اندھیرا چھائے ہوئے زمانے میں ماں باپ جو نصیحت کرتےتھے، نیکی اور خدا پرستی کی بات بتاتے تھے اور یہ کہتا تھا ”اُہ ابھی بہت وقت ہے“ اور بڑھاپے کے آنے کا کبھی خیال بھی نہ کرتا تھا۔ اس کو یاد آتا تھا اور افسوس کرتا تھا کہ کیا اچھا ہوتا اگر جب ہی میں اس وقت کا خیال کرتا اور خدا پرستی  اور نیکی سے اپنے دل کو سنوارتا اور موت کے لیے تیار رہتا ۔ آه وقت گزر گیا، آہ وقت گزر گیا۔ اب پچھتائے کیا ہوتا ہے۔ افسوس میں نے آپ اپنے تئیں ہمیشہ یہ کہہ کر برباد کیا کہ ”ابھی وقت بہت ہے۔“
یہ کہہ کر وہ اپنی جگہ سے اٹھا اورٹٹول ٹٹول کرکھڑکی تک آیا۔ کھڑکی کھولی ، د یکھا کہ رات ویسی ہی ڈراونی ہے، اندھیری گھٹا چھا رہی ہے۔ بجلی کی کڑک سے دل پھٹا جاتا ہے، ہولناک آندھی چل رہی ہے، درختوں کے پتے اڑتے ہیں اور ٹہنے ٹوٹتے ہیں، تب وہ چلا کر بولا ”ہائے ہائے میری گزری ہوئی زندگی بھی ایسی ہی ڈراونی ہے جیسی یہ رات“ یہ کہہ کر پھر اپنی جگہ آ بیٹھا۔
اتنے میں اس کو اپنے ماں باپ، بھائی بہن، دوست آشنا یاد آئے جن کی ہڈیاں قبروں میں گل کر خاک ہو چکی تھیں ۔ ماں گویا محبت سے اس کو چھاتی سے لگائے آنکھوں میں آنسو بھرے کھڑی ہے۔ یہ کہتی ہوئی کہ ہائے بیٹا وقت گزر گیا۔ باپ کا نورانی چہرہ اس کے سامنے ہے اور اس میں سے یہ آواز آتی ہے کہ کیوں بیٹا ہم تمھارے ہی بھلے کے لیے نہ کہتے تھے۔ بھائی بہن دانتوں میں انگلی دیے ہوئے خاموش ہیں اور ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی جاری ہے۔ دوست آشنا سب غمگین کھڑے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب ہم کیا کر سکتے ہیں۔
ایسی حالت میں اس کو اپنی وہ باتیں یاد آتی تھیں جو اس نے نہایت بے پروائی اور بے مروتی اور کج خلقی سے اپنے ماں باپ، بھائی ، بہن ، دوست آشنا کے ساتھ برتی تھیں ۔ ماں کو رنجیدہ رکھنا، باپ کو ناراض کرنا، بھائی بہن سے بے مروت رہنا، دوست آشنا کے ساتھ ہمدردی نہ کرنا یاد آتا تھا اور اس پر ان گلی ہڈیوں میں سے ایسی محبت کا دیکھنا اس کے دل کو پاش پاش کرتا تھا۔ اس کا دم چھاتی میں گھٹ جا تا تھا اور یہ کہہ کر چلا اٹھتا تھا کہ ہائے وقت نکل گیا، ہائے وقت نکل گیا، اب کیوں کر اس کا بدلہ ہو!
 وہ گھبرا کر پھر کھڑکی کی طرف دوڑ ا اور ٹکرا تا لڑکھڑاتا کھڑکی تک پہنچا۔ اس کو کھولا اور دیکھا کہ ہوا کچھ ٹھہری ہے اور بجلی کی کڑک کچھ تھمی ہے پر رات ویسی ہی اندھیری ہے۔ اس کی گھبراہٹ کچھ کم ہوئی اور پھر اپنی جگہ آ بیٹھا۔
اتنے میں اس کو اپنا ادھیڑ پن یاد آیا جس میں کہ نہ وہ جوانی رہی تھی اور نہ وہ جوانی کا جوبن، نہ وہ دل رہا تھا اور نہ دل کے ولولوں کا جوش ، اس نے اپنی اس نیکی کے زمانے کو یاد کیا جس میں وہ بہ نسبت بدی کے نیکی کی طرف زیادہ مائل تھا۔ وہ اپنا روزہ رکھنا ، نمازیں پڑھنی ، حج کرنا ، زکوٰة دینی، بھوکوں کو کھلانا، مسجدیں اور کنویں بنوانا یاد کر کر اپنے دل کو تسلی دیتا تھا۔ فقیروں اور درویشوں کو جن کی خدمت کی تھی، اپنے پیروں کی جن سے بیعت کی تھی اپنی مد دکو پکارتا تھا مگر دل کی بے قراری نہیں جاتی تھی۔ وہ دیکھتا تھا کہ اس کے ذاتی اعمال کا اسی تک خاتمہ ہے۔ بھوکے پھر ویسے ہی بھوکے ہیں ، مسجدیں ٹوٹ کر یا تو کھنڈر ہیں اور یا پھر ویسے ہی جنگل ہیں ۔ کنویں اندھے پڑے ہیں ۔ نہ پیر اور فقیر ، کوئی اس کی آواز نہیں سنتا اور نہ مدد کرتا ہے۔ اس کا دل پھر گھبراتا ہے اور سوچتا ہے کہ میں نے کیا کیا جو تمام فانی چیزوں پر دل لگایا۔ یہ پچھلی سمجھ پہلے ہی کیوں نہ سوجھی ، اب کچھ بس نہیں چلتا اور پھر یہ کہہ کر چلا اٹھا ”ہائے وقت ، ہائے وقت میں نے تجھ کو کیوں کھودیا؟“
وہ گھبرا کر پھر کھڑکی کی طرف دوڑا۔ اس کے پٹ کھولے تو دیکھا کہ آسمان صاف ہے، آندھی تھم گئی ہے۔ گھٹا کھل گئی ہے، تارے نکل آئے ہیں، ان کی چمک سے اندھیرا بھی کچھ کم ہو گیاہے۔ وہ دل بہلانے کے لیے تاروں بھری رات کو دیکھ رہا تھا کہ  یکایک اس کو آسمان کے بیچ میں ایک روشنی دکھائی دی اور اس میں ایک خوبصورت دلہن نظر آئی۔ اس نے ٹکٹکی باندھ اسے دیکھنا شروع کیا۔ جوں جوں وہ اسے دیکھتا تھا وہ قریب ہوتی جاتی تھی، یہاں تک کہ وہ اس کے بہت پاس آ گئی۔ وہ اس کے حسن و جمال کو دیکھ کر حیران ہو گیا اور نہایت پاک دل اور محبت کے لہجے سے پوچھا کہ تم کون ہو، وہ بولی کہ میں ہمیشہ زندہ رہنے والی نیکی ہوں ۔ اس نے پوچھا کہ تمھاری تسخیر کا بھی کوئی عمل ہے ۔ وہ بولی ہاں ہے، نہایت آسان پر بہت مشکل ۔ جو کوئی خدا کے فرض اس بدوی کی طرح جس نے کہا کہ ”والله لا از ید و لاانقص‘‘ ادا کر کر انسان کی بھلائی اور اس کی بہتری میں سعی کرے اس کی میں مسخر ہوتی ہوں ۔ دنیا میں کوئی چیز ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے، انسان ہی ایسی چیز ہے جو اخیر تک رہے گا ۔ پس جو بھلائی کہ انسان کی بہتری کے لیے کی جاتی ہے وہی نسل درنسل اخیر تک چلی آتی ہے۔ نماز ، روزہ ، حج، زکوٰة  اسی تک ختم ہوجاتا ہے۔ اس کی موت ان سب چیزوں کو ختم کردیتی ہے۔ مادّی چیزیں بھی چند روز میں فنا ہو جاتی ہیں مگر انسان کی بھلائی اخیر تک جاری رہتی ہے۔ میں تمام انسانوں کی روح ہوں، جو مجھ کو تسخیر کرنا چاہے انسان کی بھلائی میں کوشش کرے کم سے کم اپنی قوم کی بھلائی میں تو دل و جان ومال سے ساعی ہو۔ یہ کہہ کر وہ دلہن غائب ہوگئی اور بڈھا پھر اپنی جگہ آ بیٹھا۔
اب پھر اس نے اپنا پچھلا زمانہ یاد کیا اور دیکھا کہ اس نے اپنی پچپن برس کی عمر میں کوئی کام بھی انسان کی بھلائی اور کم سے کم اپنی قومی بھلائی کا نہیں کیا تھا۔ اس کے تمام کام ذاتی غرض پرمبنی تھے۔ نیک کام جو کیے تھے ثواب کے  لالچ اور گویا خدا کو رشوت دینے کی نظر سے کیے تھے۔ خاص قومی بھلائی کی خالص نیت سے کچھ بھی نہیں کیا تھا۔
اپنا حال سوچ کر وہ اس دل فریب دلہن کے ملنے سے مایوس ہوا۔ اپنا اخیر زمانہ دیکھ کر آ ئندہ کرنے کی بھی کچھ امید نہ پائی ۔ تب تو نہایت مایوسی کی حالت میں بے قرار ہو کر چلا اٹھا ”ہائے وقت، ہائے وقت، کیا پھر تجھے میں بلا سکتا ہوں؟ ہائے میں دس ہزار دیناریں دیتا اگر وقت پھر آتا اور میں جوان ہوسکتا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ایک آہ سرد بھری اور بے ہوش ہوگیا۔
تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ اس کے کانوں میں میٹھی میٹھی باتوں کی آواز آنے لگی۔ اس کی پیاری ماں اس کے پاس آ کھڑی ہوئی، اس کو گلے لگا کر اس کی ببّی لی ۔ اس کا باپ اس کو دکھائی دیا۔ چھوٹے چھوٹے بھائی بہن اس کے گرد آ کھڑےہوئے ۔ ماں نے کہا کہ بیٹا کیوں برس کے برس دن روتا ہے؟ کیوں تو بے قرار ہے؟ کس لیے تیری ہچکی بندھ گئی ہے؟ اُٹھ منھ ہاتھ دھو  کپڑے پہن ، نوروز کی خوشی منا، تیرے بھائی بہن تیرے منتظر کھڑے ہیں۔ تب وہ لڑکا جاگا اور سمجھا کہ میں نے خواب دیکھا اور خواب میں بڈّھا ہو گیا تھا۔ اس نے اپنا سارا خواب اپنی ماں سے کہا۔ اس نے سن کر اس کو جواب دیا کہ بیٹا بس تو ایسا مت کر جیسا کہ اس پشیمان بڈّھے نے کیا ، بلکہ ایسا کر جیسا تیری دلہن نے تجھ سے کہا۔
یہ سن کر وہ لڑ کا پلنگ پر سے کود پڑا اور نہایت خوشی سے پکارا کہ او یہی میری زندگی کا پہلا دن ہے، میں کبھی اس بڈّھے کی طرح نہ پچھتاؤں گا اور ضرور اس دلہن کو بیاہوں گا جس نے ایسا خوبصورت اپنا چہرہ مجھ کو دکھلایا اور ہمیشہ زندہ رہنے والی نیکی اپنا نام بتلایا۔ اوخدا، او خدا تو میری مدد کر، آمین۔
پس اے میرے پیارے نوجوان ہم وطنو! اور اے میری قوم کے بچّو، اپنی قوم کی بھلائی پر کوشش کرو تا کہ اخیر وقت میں اس بڈھے کی طرح نہ پچھتاؤ۔ ہمارا زمانہ تو اخیر ہے اب خدا سے یہ دعا ہے کہ کوئی نوجوان اٹھے اور اپنی قوم کی بھلائی میں کوشش کرے، آمین۔

انشائیہ
انگریزی میں انشائیہ اور مضمون دونوں کے لیے Essay کی اصطلاح  رائج ہے۔ انشائیہ ادیب کی ذہنی اور ادبی اسلوب کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ انشائیہ نگار زندگی کی عام یا خاص بات یا کیفیت کو اپنی افتاد طبع ،علمیت اور شگفتہ نگاری سے پرلطف انداز میں بیان کردیتا ہے۔ ابتدا میں تمثیلی انشائیےبھی لکھے گئے۔ انہیں رمزیے( Allegory) کہا جاتا ہے۔ ان کی بہترین مثال محمد حسین آزاد کی کتاب ”نیرنگ خیال“ ہے۔ سرسید ،شبلی ، حالی اور خواجہ حسن نظامی سے لے کر نیاز فتح پوری ، سید عابد حسین، خواجہ غلام السیدین، محمد مجیب ، رشید احمد صدیقی اور ان کے بعد کے لکھنے والوں کی بعض تحریریں انشائیہ بھی کہی جاسکتی ہیں اور مضمون بھی ۔ کنہیالال کپور، مشتاق احمد یوسفی ، یوسف ناظم، وزیرآغا اورمجتبیٰ حسین وغیرہ ہمارے زمانے کے ممتاز انشائیہ نگار ہیں۔

سرسید احمد خاں
(1898 – 1817)

سید احمد خاں دہلی میں پیدا ہوئے ۔ سید احمد نے اپنے زمانے کے اہل کمال سے فیض حاصل کیا۔ 1839ء میں انھوں نے انگریزی سرکار کی ملازمت اختیار کی اورمختلف مقامات پر کام کیا۔ 1862ء میں جب وہ غازی پور میں تھے، انھوں نے ایک انجمن ”سائنٹفک سوسائٹی“ کے نام سے بنائی ۔ اس انجمن کا مقصد یہ تھا کہ مختلف علوم ، خاص کر سائنس کے علوم کا مطالعہ کیا جائے اور ان علوم کو ہندوستانیوں میں عام کیا جائے ۔ 1869ء میں سید احمد خاں ایک سال کے لیے انگلستان گئے۔ واپس آ کر انھوں نے انگریزی کے علمی اور سماجی رسالوں کی طرز پر اپنا ایک رسالہ ”تہذیب الاخلاق“ نکالنا شروع کیا۔
انگلستان سے واپس آ کر سید احمد خاں نے علی گڑھ میں 1875ء میں ایک اسکول کھولا ۔ یہ اسکول 1878ء میں ”محمڈن اینگلو اورینٹل کالج“ اور پھر 1920 ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل میں ہندوستان کا ایک نمایاں تعلیمی ادارہ بن گیا۔
1878ء میں سید احمد خاں کو ’سر‘ کا خطاب ملا۔ اس لیے لوگ انھیں سرسید کے نام سے جانتے ہیں ۔ سرسید آخر عمر تک قومی کام کاج کی دیکھ بھال اور تصنیف و تالیف میں مشغول رہے۔ ان کی متعدد تصانیف میں ”آثار  الصنادید“،   ”اسباب بغاوت ہند“ اور ”سرکشی ضلع بجنور“ خاص طور پر اہمیت رکھتی ہیں ۔ ان کے مضامین کئی جلدوں میں مجلس ترقی ادب لاہور سے شائع ہوئے ہیں۔ ان میں سائنس، فلسفه، مذہب اور تاریخ سے متعلق مضامین ہیں۔
جدید اردو نثر کی بنیاد ڈالنے کے ساتھ ساتھ سرسید نے اردو میں مختصر مضمون نگاری کو بھی فروغ دیا۔ لمبی لمبی تحریروں کے بجائے چندصفحات میں کام کی بات کہنے کا فن سرسید نے عام کیا۔ سرسید اپنے زمانے کے مفکر اور مصلح تھے اور ان کی نثر میں، وہی وزن اور وقار ہے جو ان کی شخصیت میں تھا۔
Guzra hua Zamana by Sir Syed Ahmad Khan Chapter 1 NCERT Solutions Urdu
مشق
لفظ و معنی

مکتب : مدرسہ
کج خلقی : مزاج کا کڑوا پن، روکھا پن
بیعت کرنا : مرید بننا، اطاعت کا عہد لینا
تسخیر : قابو میں کرنا، فتح کرنا
بدوی : عرب کے وہ باشندے جو گھر نہیں بناتے، ریگستانوں میں رہتے ہیں اور زیادہ تر زندگی اونٹوں پر یا خیمے میں گزارتے ہیں۔
واللہ لاازیدولاانقص : (عربی فقرہ) خدا کی قسم نہ میں زیادہ کروں گا اور نہ کم
سعی : کوشش
ساعی : کوشش کرنے والا
مبنی : منحصر
پشیمان : شرمندہ، پچھتانے والا

 غور کرنے کی بات
* سرسید اپنے زمانے کے مفکر اور مصلح تھے۔ ان کی نثر میں وہی سنجیدگی ، وزن اور وقار ہے جو ان کے کردار میں تھا۔
* اس مضمون میں سر سیّد کا اسلوب بڑا افسانوی ہے۔ آخری اقتباس سے قبل یہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ سرسید کی کہانی کا ہیرو کوئی بوڑھا نہیں بلکہ ایک کم عمر لڑکا ہے۔
* سرسید وقت کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھتے تھے اور اپنی تحریروں کے ذریعے وہ قوم کےنوجوانوں کو وقت کی قدر و قیمت کا احساس دلاتے رہتے تھے۔

 سوالوں کے جواب لکھیے
 1. بوڑھا اپنی جوانی کے زمانے کو کن لفظوں میں یاد کرتا ہے؟
جواب: بوڑھا اپنی جوانی کے زمانے کو یاد کرتاہے اسے اپنا سرخ چہرہ، ڈیل ڈول، بھرا بھرا بدن، رسیلی آنکھیں، موتی کی لڑی سے دانت، امنگ میں بھرا ہوا دل، جذبات انسانی کے جوشوں کی خوشی اسے یاد آتی ہیں۔
 2. سرسید نے برس کی اخیر رات کا ذکر کس طرح کیا ہے؟
جواب: سر سید نے برس کے اخیر رات کا ذکر اس کا اندھیراپن، ڈراؤناپن، رات کی ہولناکی اور اس کی خوفناکی بتلا کر کیا ہے مثلاً جس میں تیز آندھیاں چل رہی ہوں بجلیاں کڑ کڑا رہی ہوں اور چاروں طرف  خوفناک اندھیرا ہی  اندھیرا ہو۔
3. بوڑھے کو جو خوبصورت دلہن نظر آئی، اس سے مصنف کی کیا مراد ہے؟
جواب: خوبصورت دلہن سے مصنف کی مراد ہمیشہ زندہ رہنے والی نیکی ہے۔
4. ماں نے لڑکے کو کیا نصیحت کی؟
جواب: ماں نے بیٹے سے کہا کہ بیٹا بس تو ایسا مت کر جیسا کہ اس پشیمان بڈھے نے کیا بلکہ ایسا کر جیسا کہ تیری دلہن نے تجھ سے کہا۔
5. لڑکے نے کیا عہد کیا؟
جواب: لڑکا اپنی ماں کی نصیحت سننے کے بعد پلنگ سے کود پڑا اور نہایت خوشی سے پکارا‌ کہ یہی میری زندگی کا پہلا دن ہے میں کبھی اس بڈھے کی طرح نہ پچھتاؤں گا اور ضرور اس دلہن کو بیاہوں گا جس نے اپنا خوبصورت چہرہ مجھکو دکھلایا اور ہمیشہ زندہ رہنے والی نیکی اپنا نام بتلایا۔
 6. آخری پیراگراف میں سرسید نے قوم کے نوجوانوں کو کیا نصیحت کی ہے؟
جواب: سر سید احمد خان اپنی قوم کے نوجوانان سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اۓ میری قوم کے نوجوان بچوں اپنی قوم کی بھلائی پر کوشش کرو تاکہ اخیر وقت میں تمہیں اس بڈھے کی طرح نہ پچھتانا  پڑے ہمارا زمانہ تو اخیر ہے اب خدا سے دعا ہے کہ کوئی نوجوان اٹھے اور اپنی قوم کی بھلائی کے لیے سعی کرے۔

عملی کام
سبق کی بلندخوانی کیجیے۔
مضمون میں نیکی بدی، آسان مشکل جیسے متضاد الفاظ ایک ساتھ استعمال کیے گئے ہیں ۔ آپ اسی طرح کے کچھ متضادالفاظ سوچ کر لکھیے۔
جواب:روشنی تاریکی، خوبی خرابی، اچھا برا،جنت جہنم، اونچ نیچ،

 مندرجہ ذیل محاوروں کو جملوں میں استعمال کیجیے:
 دل پاش پاش ہونا: اپنے گناہوں کو یاد کر بوڑھے کا دل پاش پاش ہوگیا۔
 ہچکی بندھنا: بوڑھے کی روتے روتے ہچکی بندھ گئی۔
ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا: بوڑھا اس حسین عورت کی جانب ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگا۔

 مندرجہ ذیل لفظوں میں سے مذکر اور مونث الگ الگ کیجیے:
اندھیرا،  زندگی،  آشنا،  جوبن،  کھڑکی،  گھٹا،  بجلی،  بادل،

مذکر: اندھیرا، آشنا، جوبن، بادل
مونث: زندگی،کھڑکی،  گھٹا،  بجلی
خلاصہ:
سرسید کا انشائیہ’ گزرا ہوا زمانہ ‘ ایک ایسے بوڑھے کی کہانی بیان کرتا ہے جسے اپنی پوری زندگی کو بیکار کے کاموں میں گنوا دینے کا افسوس ہے۔اس انشایئے میں انہوں نے ایک ایسے انسان کےدرد و کرب کو اس انداز سے پیش کیا ہے کہ ہر انسان کی نظروں کے سامنے اس کی اپنی پوری زندگی سامنے آجاتی ہے۔ وہ اس بوڑھے میں اپنے آپ کو دیکھتا ہے جسے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ یاد آ رہا ہے۔ برس کی آخری رات ہے چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے اور وہ بوڑ ھا اپنی زندگی کے بیتے ہوئے دنوں کا حساب کر رہا ہے۔ اس بوڑھے کواپنا بچپن یاد آتا ہے اور اس کے رونے میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ بچپن کی شرارتیں روٹھنا ،اسکول جانا اورچھٹی کے وقت خوشی خوشی گھر واپس آنا۔ اپنے ہم جماعتوں کی یاد یں ایک ایک کر کے اسے ستارہی ہیں۔اُسے شدّت سے اس بات کا احساس ہے کہ اس نے اپنے بچپن کو فضول کے کاموں میں گنوا دیا ہے۔اپنا سارا وقت اس نے کھیل کود میں ضائع کردیا ہے۔ پھر اسے جوانی کی یادیں ستاتی ہیں ۔ ان میں بھری راتیں اور جوانی کے دن یاد آتے ہیں۔ ماں باپ کی نصیحتیں یاد آتی ہیں اور اپنالا ابالی پن یا دآ تا ہے۔ ساتھ ہی اسے وقت کے ہاتھ سے نکل جانے کا بھی احساس ہوتا ہے۔ اس کے پاس ندامت اور پچھتاوے کے علاوہ کچھ نہیں رہ جاتا۔ اسے اپنے ماں باپ ،بھائی بہن، دوست آشنا، سب یاد آتے ہیں۔ جیسے اس سے کہہ رہے ہوں دیکھو ہم تمہیں کتنا سمجھاتے تھے مگر تم نے ہماری باتوں پر توجہ نہ دی ۔ اسے اپنی بے مروتی اور کج خلقی بھی یاد آتی ہے۔ جوانی سے اس کی یادیں ادھیڑ عمر میں پہنچ جاتی ہیں ۔ جہاں اس کی طبیعت قدرے نیکی کی طرف مائل ہوتی تھی ۔ عمر کی اس منزل میں کئے ہوئے کچھ نیکی کے کام سے یاد آتے ہیں اورتسلی ہوتی ہے کہ شاید یہی کام اس کی عاقبت سنوار دیں مگر اسے اپنے ہی کام ناکافی لگنے لگتے ہیں اور وہ پھر چلا اٹھتا ہے ہائے وقت ہائے وقت۔ اچانک اس کے سامنے ایک خوبصورت دلہن آجاتی ہے وہ اس کے حسن و جمال کو دیکھ کر خوش بھی ہوتا ہے ا اور حیران بھی ہوتا ہے۔ پوچھنے پر وہ اسے بتاتی ہے کہ میں ہمیشہ زندہ رہنے والی نیکی ہوں اور مجھے حاصل کرنے کے لئے نیک اعمال ہی کام آتے ہیں ۔ یہ کہہ کر وہ دلہن غائب ہوجاتی ہے۔ اس کے کانوں میں لوگوں کی باتیں کرنے کی میٹھی میٹھی آوازیں آئیں ۔ دیکھا تو اس کی ماں اسے جگا رہی تھی اور بھائی بہن پاس کھڑے تھے۔ اس نے دیکھا ہوا خواب ماں کو سنایا اور پرجوش انداز میں پلنگ سے اتر ا، کہنے لگا میر ےپاس وقت ہے میں خوبصورت دلہن کو ضرور حاصل کروں گا۔ سرسید نے اس انشائیے میں ڈرامائی رنگ اختیار کیا ہے۔ قاری آخر تک کہانی کے اختتام سے بے خبر رہتا ہے۔ وہ کردار کے ساتھ اس کی آہ و فغاں میں گم ہوتا جاتا ہے اور اچانک ڈرامائی طور پر جب اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک خواب دیکھ رہا ہے تو اسے حیرت اور خوشی کا ایک ملا جلا احساس ہوتا ہے۔ یہاں سرسید اس بوڑھے کے ساتھ ساتھ قاری کو یہ احساس کرا دینا چاہتے ہیں کہ وقت ابھی گزرا نہیں ہے۔وہ وقت کو غنیمت جانیں اور اپنی آخرت کی بھلائی کے لیے کچھ نیکی کرلیں۔اس انشائیے میں سرسید نوجوانوں بالخصوص طلبہ کو نصیحت کرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ انھیں بھی اس بوڑھے کی طرح پچھتانا پڑے لہٰذا وہ وقت کو غنیمت جانیں اور نیکی اور لوگوں کی بھلائی کا کام کریں۔

انشائیہ ’گزرا ہوا زمانہ‘ کا مرکزی خیال لکھیں۔
گزرا ہوا زمانہ مضمون سر سید احمد خان نے لکھا ہے۔ یہ ایک نہایت ہی سنجیدہ مضمون ہے جس میں سر سید احمد خان نے انسان کی ایک مکمل عملی زندگی کا تجزیہ کیا ہے اور وقت کی اہمیت اس کا صحیح استعمال اور اس کی قدروقیمت پر روشنی ڈالی ہے یعنی ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے پھر جوان ہوتا ہےاور بوڑھا ہوتا ہے  پھر مر جاتا ہے۔ ماں کی گود سے گور تک اس نے جو بھی عمل کیا اس کا عملی اور شرعی جائزہ مکمل حیات زندگی میں ماں باپ بھائی بہن، دوست واحباب،یارورشتہ دار کے ساتھ اخلاق و رسوم کا جائزہ، وقت کا صحیح استعمال و اس کی قدروقیمت، اس کے گذر جانے کے بعد افسوس، غرض ایک انسان کی مکمل زندگی کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے اور اس کو انسانی خواب کے ذریعہ تصور کرایا ہے مزید یہ بھی ذکر کیا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے نیک اور صالح اعمال ہی باقی ہیں وقت کا صحیح استعمال اور شرعی احکام کے مطابق زندگی گزارنے والے لوگ ہی اللہ کے نزدیک برگزیدہ اور قابل قبول ہیں۔

کلک برائے دیگر اسباق

Monday, 13 April 2020

Ghazal Natiya - Rakhshan Abdali




Masnavi - Meer Ghulam Hasan - NCERT Solutions Class IX Urdu

داستان شہزادے کے غائب ہونے کی اورغم
سے ماں باپ اور سب کے حالت تباہ کرنے کی

یہاں کا تو قصّہ میں چھوڑا یہاں
ذرا اب سنو غم زدوں کا بیاں
کروں حال ہجراں زدوں کا رقم
کہ گزرا جدائی سے کیا ان پہ غم
کھلی آنکھ جو ایک کی واں کہیں
تو دیکھا کہ وہ شاہ زادہ نہیں
نہ ہے وہ پلنگ اور نہ وہ ماہ رو
نہ وہ گل ہے اس جا، نہ وہ اس کی بو 
رہی دیکھ یہ حال حیران کار
کہ یہ کیا ہوا ہائے پروردگار 
کوئی دیکھ یہ حال رونے لگی
کوئی غم سے جی اپنا کھونے لگی
کوئی بلبلاتی سی پھرنے لگی
کوئی ضعف ہو ہو کے گرنےلگی 
کوئی سر پر رکھ ہاتھ، دل گیر ہو
گئی بیٹھ، ماتم کی تصویر ہو
کوئی رکھ کے زیر زنخداں چھڑی
رہی نرگس، آسا کھڑی کی کھڑی 
رہی کوئی انگلی کو دانتوں میں داب
کسی نے کہا: گھر ہوا یہ خراب
کسی نے دیے کھول سنبل سے بال
تپانچوں سے جوں گل کیے سرخ گال
نہ بن آئی کچھ ان کو اس کے سوا
کہ کہیے یہ احوال اب شہہ سے جا
سنی شہ نے القصّہ جب یہ خبر
گرا خاک پر کہہ کے: ہائے پسر! 
کلیجہ پکڑ ماں تو بس رہ گئی
کلی کی طرح سے بِکس رہ گئی
کہا شہ نے : وهاں کا مجھے دو پتا
عزیزو! جہاں سے وہ یوسف گیا 
گئے لے ووشہ کو لبِ بام پر
دکھایا کہ سوتا تھا یہاں سیم بر 
یہی تھی جگہ وہ جہاں سے گیا
کہا: ہائے بیٹا ، تو یہاں سے گیا؟ 
مرے نوجواں ! میں کدھر جاؤں پیر
نظر تونے مجھ پر نہ کی بے نظیر! 
عجب بحر غم میں ڈبویا ہمیں
غرض جان سے تو نے کھویا ہمیں
کروں اس قیامت کا کیا میں بیاں
ترقی میں ہردم تھا شور وفغاں
لبِ بام کثرت جو یک سر ہوئی
تلے کی زمیں ساری، اوپر ہوئی
شب آدھی، وہ جس طرح سوتے کٹی
رہی تھی جو باقی، سو روتے کٹی
مثنوی
مثنوی مسلسل اشعار کے ایسے مجموعے کو کہتے ہیں جس میں ہر شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں اور ہر شعر کے قافیے الگ الگ ہوتے ہیں۔
مثنوی کے اشعار کی تعداد مقرر نہیں ہے۔ اردو میں طویل اورمختصر دونوں طرح کی مثنویاں لکھی گئی ہیں ۔ طویل مثنویوں میں میرحسن کا سحرالبیان اور دیاشنکرنسیم کی  گلزار نسیم بہت مشہور ہیں۔
مثنوی میں رزم و بزم حسن وعشق، پندونصیحت، مدح وجو ہر طرح کے موضوعات نظم کیے جا سکتے ہیں ۔ قدیم مثنویوں میں زیادہ تر عشقیہ تھے اور مذہبی و اخلاقی مضامین نظم کیے گئے ہیں ۔ ان عشقيہ قصّوں میں وہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں جو نثری داستانوں میں ملتی ہیں ۔ فوق فطری عناصر کے علاوہ مثنویوں میں اس زمانے کی تہذیب و معاشرت کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں ۔ حالی اور آزاد کے زمانے سے مثنویوں کے اسلوب اور موضوعات میں نمایاں فرق آیا ہے۔ اس کے بعد اس میں مختلف موضوعات و مسائل نظم کیے جانے لگے۔
میر غلام حسن،حسن
(1738ء - 1786ء)
میرحسن کے خاندان کے لوگ ایران سے آ کر دلّی میں بس گئے تھے۔ اس خاندان نے اردو زبان وادب کی بیش بہا خدمات انجام دیں ۔ میر حسن کے والد میر غلام حسین ضاحک اچھے شاعر تھے۔ ان کے بیٹے میرخلیق اور ان کے پوتے میر انیس نے اردو شاعری میں مرثیہ گوئی کی نئی راہیں نکالیں۔
امیرحسن کچھ دنوں تک میر درد کے شاگردر ہے۔ جب دلی سے بہت سے لوگوں کا تعلق ٹوٹا تو میر حسن کے والد بھی فیض آباد چلے گئے۔ وہاں سے لکھنو پہنچے اور وہیں انتقال کیا۔ میر حسن نے غزلیں بھی لکھی ہیں لیکن ان کی شہرت کا دارومدار ان کی مثنوی سحر البیان پر ہے۔ یہ مثنوی میر حسن نے انتقال سے کچھ ہی پہل مکمل کی تھی ۔ ”سحرالبیان‘‘ کی شہرت اور مقبولیت کے سامنے دوسرے بہت سے شعرا کی مثنویاں اور خود میرحسن کی دوسری مثنویاں ماند پڑ گئیں۔
منظر نگاری، واقعہ نگاری اور کردار نگاری کو دلچسپ اور متحرک شکل میں پیش کرنے اور کہانی کو مربوط طریقے سے بیان کرنے میں میر حسن کو خاص مہارت حاصل تھی۔ ان کی مثنوی مختلف اشیا اور مظاہر کے ذکر سے بھری ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مثنوی کی کہانی اگر چہ بالکل خیالی ہے لیکن اس کے واقعات اور کردار جیتے جاگتے اور ہماری دنیا کے باسی معلوم ہوتے ہیں۔

لفظ و معنی
ہجراں زده : جدائی کا مارا ہوا
رقم : تحریر (اس کے معنی روپیہ پیسہ کے بھی ہوتے ہیں)
ماہرو : چاند جیسے چہرے والا
جا : جگہ
ضعف : کمزوری
دل گیر : مغموم ، رنجیده غمگین ، دل گرفته
زنخداں : تھوڑی
سنبل : ایک قسم کی خوشبودار بیل
پسر : بیٹا
بِکس : مرجھانا
بام : بالا خانہ کوٹھا
سیم بر : چاندی جیسے بدن والا
پیر : بوڑھا
شور و فغاں : بلند آواز سے رونا

غور کرنے کی بات
* میرحسن کی یہ مثنوی تقریباً دو سو سال پرانی ہے۔ اس کی خوبی اس کی سادگی اور جادو بیانی ہے اسی لیے اس کا نام سحرالبیان رکھا گیا ہے۔ اس مثنوی میں ایک ایسے بادشاہ کا ذکر ہے جس کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ بہت منتوں مرادوں کے بعد اس کے یہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جو بہت ہی خوب صورت تھا اس لیے اس کا نام بے نظیر رکھا گیا۔ نجومیوں کے کہنے کے مطابق شہزادے کے لیے بارہ سال خطرناک تھے اس لیے اسے کھلے آسمان کے نیچے نہیں جانا تھا۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ بارہ سال پورے ہونے سے چند گھڑیاں پہلے شہزادہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ چھت پر جا کر سو گیا اور ایک پری اس کی خوب صورتی کی وجہ سے اس پر عاشق ہوگئی اور اسے اڑا کر لے گئی ۔ آپ کے نصاب میں اس سے آگے کا اقتباس شامل ہے جس میں شہزادے کے غائب ہونے کے بعد محل کے اندر جو آہ و فغاں کا طوفان اٹھا اس کی عکاسی بہت پر اثر انداز میں کی گئی ہے۔

سوالوں کے جواب لکھیے
1. ’ماہ رو‘ اور ’گل رو‘ کے الفاظ کس کے لیے اور کس شعر میں استعمال ہوئے ہیں؟
جواب: اس مثنوی میں ماہ رو اور گل رو کے الفاظ شہزادہ بے نظیر کے لیے استعمال ہوئے ہیں ۔پلنگ اور شہزادے کے غائب ہوجانے کا تذکرہ کچھ اس طرح کیا گیا ہے:
 نہ ہے وہ پلنگ اور نہ وہ ماہ رو 
نہ وہ گل ہے اس جا، نہ وہ اس کی بو 
یہاں ماہ رو اور گل دونوں ہی بطور تشبیہ شہزادے کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔
عملی کام
*  استاد کی مدد سے شعروں کی بلند خوانی کیجیے۔

* نیچے دیئے گئے محاوروں کو جملوں میں استعمال کیجیے۔
کچھ بن نہ آنا : شہزادے کے اچانک غائب ہوجانے سے کسی سے کچھ بھی نہ بن آیا۔
دانتوں میں انگلی دبانا : شہزادے کی پلنگ خالی دیکھ کر کنیزوں نے دانتوں میں انگلیاں دبالیں۔
کھڑی کی کھڑی رہ جانا : اچاک صدمہ سے کنیزیں وہیں کھڑی کی کھڑی رہ گئیں۔

* مثنوی کے کس شعر میں کون تھی تلمیح استعمال کی گئی ہے لکھیے ۔
*  اس مثنوی کے ایسے شعروں کی نشان دہی کیے جن میں صنعت تشبیہ ہو بھی لکھیے کہ کسی چیز کوکس چیز سے تشبیہ دی گئی ہے۔

کلک برائے دیگر اسباق

Qataa - Akhtar Ansari - NCERT Solutions Class 9 Urdu

قطعات----- اختر انصاری

امکانات
قدم آہستہ رکھ کہ ممکن ہے
 کوئی کونپل زمیں سے پھوٹی ہو
 یا کسی پھول کی کلی سر ِدست
 مزے خواب عدم کے لوٹتی ہو

اختر انصاری
(1909-1988)
اختر انصاری ، بدایوں (اتر پردیش) میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے دہلی اور علی گڑھ میں تعلیم حاصل کی۔ پھر وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن گئے مگر والد کی علالت کے باعث جلد واپس آگئے ۔ پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ ہوئے اس کے بعد ٹریننگ کالج میں بحیثیت لیکچرر ان کا تقرر ہوا۔ 1974ء میں وہ ریٹائر ہوئے اور آخر وقت تک علی گڑھ ہی میں رہے۔
ان کی ادبی زندگی کا آغاز طالب علمی کے زمانے میں ہوا۔ وہ شروع میں شیلی اورکیٹس سے متاثر ہوئے لیکن بعد میں انھوں نے ترقی پسند ادبی تحریک کے اثرات قبول کیے اور شاعری کو سیاسی اور سماجی شعور کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ اختر انصاری نے افسانے بھی لکھے اور تنقید بھی لیکن انھیں شہرت قطعات سے ملی۔ ایک ادبی ڈائری، افادی ادب، غزل کی سرگزشت، غزل اور غزل کی تعلیم ان کی نثری تصنیفات ہیں ۔ نغمۂ روح، روحِ عصر ،دهان زخم، خنده ٔ سحر، درووداغ، شعلہ بجام، آبگینے اختر انصاری کے مجموعے ہیں۔

لفظ ومعنی
سردست : في الحال ، ابھی
عدم : وہ دنیا، جہاں انسان مرنے کے بعد جاتا ہے، وجود کا نہ ہونا

غور کرنے کی بات
* اس قطعے میں اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ ہمیں زندگی کو احتیاط کے ساتھ دوسروں کا خیال رکھتے ہوئے گزارنا چاہیے یا اس طرح جینا چاہیے کہ دوسروں کو دشواری نہ ہو۔

سوالوں کے جواب لکھیے
1. کلی کا خواب عدم کے مزے لوٹنے سے کیا مراد ہے؟
جواب:کلی کا خوابِ عدم کے مزے لوٹنے سے مراد یہ ہے کہ وہ ابھی کسی اور دنیا میں میٹھی نیند لے رہی اور جیسے ہی وہ بیدار ہوگی اس کے کلی سے پھول بننے کا عمل شروع ہوجائے گا۔

2. اس قطعے میں شاعر کیا کہنا چاہتا ہے؟
جواب:اس قطعہ میں شاعر کہتا ہے کہ کارخانۂ ہستی میں تو اپنے قدم ذرا سنبھل کر رکھ اس لیے کہ ممکن ہے کہ اس وقت زمین سے کوئی کونپل پھوٹی ہو یا کوئی کلی نیند کے مزے لے رہی ہو۔ یعنی تو کوئی ایسا قدم نہ اٹھا جو دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث ہو۔

عملی کام
*  اس قطعے کو زبانی یاد کیجیے اور خوشخط لکھیے

آرزو
دل کو برباد کیے جاتی ہے
 غم بدستور دیے جاتی ہے
 مرچکیں ساری امیدیں اختر
 آرزو ہے کہ جیے جاتی ہے
لفظ ومعنی 
برباد : تباه
بدستور : ہمیشہ کی طرح مسلسل

غور کرنے کی بات
* اس قطعے میں شاعر نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ حالات کسی قدر نا خوشگوار ہوں تب بھی جینے کی آرزو ہمیشہ قائم رہتی ہے۔

 سوالوں کے جواب لکھیے
 1. ’ آرزو ہے کہ جیے جاتی ہے‘ سے کیا مراد ہے؟
جواب: اس مصرع میں شاعر کہتا ہے کہ انسان کی تمنائیں کبھی نہیں مرتیں اس کی آرزوئیں ہمیشہ جوان رہتی ہیں۔ انسان بچپن سے جو خواب دیکھتا ہے جو تمنائیں کرتا ہے وہ بڑھاپے تک اس کے ساتھ رہتی ہیں۔

 2. اس قطعہ میں کیا بات کہی گئی ہے؟
جواب: اس قطعے میں شاعر کا کہنا ہے کہ اس کی آرزوؤں اور تمناؤں نے اس کے دل کو برابد کر رکھا ہے یعنی تمنائیں نہ پوری ہونے پر اس کا دل غمناک ہے اور اب اس کی ساری امیدیں ختم ہو چکی ہیں لیکن آرزو ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔یعنی شاعر یہ کہنا چاہتا ہے کہ آرزوئیں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔
عملی کام
* قطعے کو بلند آواز سے پڑھے اور زبانی یاد کیجیے۔
* قطعے کے مفہوم کو اپنے الفاظ میں لکھیے۔

شَبِ پُر بَہار
 اندھیری رات، خموشی، سرور کا عالم
بھری ہے قہر کی مستی ہوا کے جھونکوں میں
 سکوت بن کے فضاؤں پہ چھا گئی ہے گھٹا
 برس رہی ہیں خدا جانے کیوں مری آنکھیں
لفظ ومعنی
سُرور : نشہ
قہر : غضب
سکوت : خاموشی

سوال کے  جواب لکھیے
1. اس قطعے میں شاعر نے فطرت کی کن کیفیات کو بیان کیا ہے؟
جواب: اس قطعے میں شاعر نے فطرت کی کچھ غمگین کیفیات کا ذکر کیا ہے۔وہ کہتا ہے کہ اندھیری رات ہے،چاروں جانب خموشی چھائی ہے ،فضا میں ایک قسم کا سرور اور مستی چھائی ہے۔ہوا کے جھونکے گرچہ تیز و تند ہیں لیکن ان میں مستی ہے۔فضا بالکل خاموش ہے اور گھٹائیں برس رہی ہیں۔دراصل شاعر یہاں اشاروں میں اپنی اندرونی کیفیات کا ذکر کر رہا ہے۔

2.  ہوا کے جھونکوں میں کیسی مستی بھری ہوئی ہے؟
جواب: ہوا کے جھونکوں میں قہر کی مستی بھری ہوئی ہے۔ یعنی ہوائیں غضبناک ہیں، تیز و تند ہیں لیکن ان میں بھی ایک الگ مستی ہے۔


کلک برائے دیگر اسباق

Dawat e Inquilab - NCERT Solutions Class 9 Urdu

دعوتِ انقلاب
وحید الدین سلیم

کیا لے گا خاک ! مرده افتاده بن کے تو
طوفان بن، کہ ہے تری فطرت میں انقلاب

کیوں ٹممٹائے کرمکِ شب تاب کی طرح!
بن سکتا ہے تو اوج فلک پر اگر شہاب

وہ خاک ہو، کہ جس سے ملیں ریزہ ہائے زر
وہ سنگ بن کہ جس سے نکلتے ہیں لعل ناب

چڑیوں کی طرح دانے پر گرتا ہے کس لیے
پرواز رکھ بلند، کہ تو بن سکے عقاب

وہ چشمہ بن کہ جس سے ہوں سرسبز کھیتیاں
رہرو کو تو فریب نہ دے صورتِ سراب


خلاصہ:
جیسا کہ نام سے ظاہر ہےاس قطعہ میں شاعر وحید الدین سلیم نے  انقلاب کی دعوت دے کر انسان کے اندر تحریک اور حرکت عمل کا جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مردہ بن کر تو کچھ نہیں کر پائے گا اس لیے کہ تو فطرتاً انقلابی ہے اس لیے تجھے چاہیے کہ تو طوفان بن جا ۔ رات میں چمکتے ہوے جگنو کی طرح ٹمٹما نے کے بجا ئے تو آسمان پر شہاب کی ماند کوند ۔یعنی شاعر اپنے بچوں کو جگنو نہیں بلکہ بجلی بنانا چاہتا ہے وہ ان کی سوچ کو انقلابی بنانا چاہتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ تو اگر خاک بھی بنتا ہے تو ایسی خاک بن جس سے سونا نکلتا ہے اور اگر پتھر بنا ہے تو ایسا پتھر بن جس سےلعل ناب یعنی سرخ قیمتی پتھر نکلتے ہیں ۔ شاعر بچوں ے اندر مزید حوصلہ پیدا کرنے کے لیے کہتا ہے کہ چڑیوں کی مانند بکھرے ہوئے دانوں پر مت گرو بلکہ عقاب بن اپنی پرواز بلند رکھو اور اپنا شکار خودجھپٹ کر حاصل کرنے کی عادت ڈالو ۔ ایک ایسا چشمہ بن جا ؤجس سے کھیتیاں سیراب ہوتی ہوں ۔ تم ایسا صحرا نہ بنو جومسافروں کو سراب کی مانند فریب دیتا ہے۔
 مختصر طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس قطعے میں انسانی قوت اور اس کی خوبیوں کو بیان کیا گیا ہے اور اس بات کا احساس دلایا گیا ہے کہ اگر انسان چاہے تو اپنی کوششوں سے ہرمشکل کو آسان بنا سکتا ہے۔
قطعہ
رباعی کی طرح قطعہ بھی عام طور پر چار مصرعوں کی نظم ہوتا ہے۔ لیکن رباعی اور قطعے میں دو باتوں کے لحاظ سے بنیادی فرق ہے۔ رباعی کے لیے ایک بحر اور اس کی کچھ شکلیں مخصوص ہیں اور رباعی کے تین مصرعوں کا ہم قافیہ ہونا ضروری ہے۔ اس کے چاروں مصرعے بھی ہم قافیہ ہو سکتے ہیں اس کے برخلاف قطعے کی شرط یہ ہے کہ اس میں مطلع نہیں ہوتا، لیکن اس کے پہلے کے دونوں مصرعے ہم قافیہ نہیں ہوتے۔ قطعہ کلاسیکی شاعروں کے یہاں عموماً غزل کے اشعار میں ملتا ہے ۔ قطعہ بند اشعار غزل کے اندر دو بھی ہو سکتے ہیں اور دو سے زائد بھی لیکن آج کل کے زیادہ تر شعرانے قطعے کو رباعی کی طرح صرف چار مصرعوں تک محدود کر دیا ہے۔
وحید الدین سلیم
(1859ء تا 1928 ء)
وحید الدین سلیم ماہر لسانیات، صحافی ، مترجم ، کامیاب مصنف اور شاعر تھے۔ انھوں نے پہلے منتوں اور پھر سلیم تخلص اختیار کیا۔ پانی پت میں ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔ کم عمری میں والد کا انتقال ہوگیا۔ 1882ء میں مڈل اسکول کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد لاہور کے اورینٹل کالج میں تعلیم جاری رکھی ۔ طالب علمی کا زمانہ غربت میں بسر ہوا۔ ایک دوست کی وساطت سے ایجرٹین کالج بھاولپور میں السنہ مشرقیہ کے استاد کی جگہ پر ان کا تقرر ہو گیا۔ حالی نے 1894 ء میں انھیں علی گڑھ بلوایا اور سرسید سے ملاقات کروائی ۔ 1907ء میں علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کی ادارت کے لیے انھیں مدعو کیا گیا۔ قیام علی گڑھ میں وحیدالدین سلیم نے انجمن مترجمین قائم کی تھی جس کا مقصد انگریزی کتابوں کو اردو میں منتقل کرنا تھا۔ جب حیدر آباد میں جامعہ عثمانیہ قائم کی گئی تو نصاب کی کتابوں کو طالب علموں کے لیے اردو میں ترجمہ کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ راس مسعود اور بعض دوسرے حضرات نے سلیم کو حیدر آباد بلوالیا۔ یہاں ترجمے کے کام کو آگے بڑھانا تھا۔ جس کے لیے وضع اصطلاحات کی کمیٹی بنائی گئی ۔ اس میں مختلف علوم کی کتابوں کا ترجمہ کرنے کے سلسلے میں اصطلاحات سازی کی ضرورت پیش آئی۔ جب شعبۂ اردو کا قیام عمل میں آیا تو انھیں پروفیسر مقرر کردیا گیا۔ آخری زمانے میں صحت کی خرابی کے باعث ملیح آباد چلے گئے ۔ وہیں ان کا انتقال ہوا۔

لفظ ومعنی
افتاده : گرا پڑا ہوا
کرمک شب تاب : جگنو
اوج : بلندی، شان، عروج
شہاب : ستارہ کا نام
لعل ناب : گہرے سرخ رنگ کا قیمتی پتھر
عقاب : چیل کی شکل کے ایک بڑےپرندے کا نام
سُراب : ریگزار جس پر دور سے پانی کا گمان ہو، مطلب فریب نظر کا دھوکا

غور کرنے کی بات
* اس قطعے میں انسانی قوت اور اس کی خوبیوں کو بیان کیا گیا ہے اور اس بات کا احساس دلایا گیا ہے کہ اگر انسان چاہے تو اپنی کوششوں سے ہرمشکل کو آسان بنا سکتا ہے۔

سوالوں کے جواب لکھیے
1. انقلاب سے شاعر کی کیا مراد ہے؟
جواب: انقلاب سے شاعر کی مراد زندگی اور حرکت و عمل کا پیدا کرنا ہے۔ وہ کمزوروں اور محکوموں کو کو طوفان بننے کا مشورہ دیتا ہے اس لیے کہ وہ سمجھتا ہے کہ انسان کی  فطرت میں انقلاب ہے۔

2. انقلاب پیدا کرنے کی صلاحیت کس میں ہے؟
جواب: شاعر کی نگاہ میں انسان میں انقلاب پیدا کرنے کی فطری صلاحیت موجود ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ انسان آسمان پر شہاب کی مانند چمک سکتا ہے تو پھر وہ اپنے لیے جگنو کی طرح ٹمٹمانا کیوں پسند کرے۔

3. شاعرانسان کو کس طرح کا چشمہ بننے کے لیے کہہ رہا ہے؟
جواب: شاعر انسان کو وہ چشمہ بننے کے لیے کہہ رہا ہے جس کے دوسروں کو فیض پہنچےیعنی اس کی ذات دوسروں کے لیے فائدہ مند ہو جیسے کہ بہتا ہوا پانی کھیتوںکو سیراب کر کے انہیں سبز و شاداب بناتا ہے اسی طرح اس سے بھی دوسروں کو فائدہ ہو۔

4. شاعرانسان کو چڑیا بننے کے بجائے عقاب بننے کی ترغیب کیوں دے رہا ہے؟
جواب: شاعر کا کہنا ہے کہ تم چڑیا نہ بنو جو کہ دانوں پر بھوکوں کی طرح گر پڑتی ہے بلکہ ایسا عقاب بنو جس کی پرواز بلند ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں عقاب اور چڑیے کی مثال دے کر شاعر انسانوں کو بلند ہمتی اور بلند نظری کی ترغیب دے رہا ہے۔ 

عملی کام
* اس قطعے کو بلند آواز سے پڑھیے۔
* اس قطعے کے آخری تین اشعار خوشخط لکھیے ۔

* درج ذیل الفاظ کے متضاد لکھیے:
اوج : پست
مرده : زندہ
فلک : زمین
سرسبز : خس و خاشاک

* اس قطعہ میں شاعر نے جن الفاظ کے ساتھ اضافت کا استعمال کیا ہے، ان کی نشاندہی کیجیے۔
مردۂِ افتادہ (گرے پڑے مردے کی طرح)
کرمکِ شب تاب(جگنو کی طرح)
اوجِ فلک(آسمان کی بلندی کی مانند)
لعلِ ناب(گہرا سُرخ پتھر)
 (چھلاوے کی مانند) صورتِ سُراب
(یہاں معنی آپ کو سمجھانے کے لیے لکھے گئے ہیں۔)

کلک برائے دیگر اسباق

Sukh Ki Taan - Meeraji - NCERT Solutions Class 9 Urdu


اس صفحہ پر کام جاری ہے
سُکھ کی تان
میرا جی

اب سُکھ کی تان سنائی دی
اک دنیا نئی دکھائی دی
 اب سکھ نے بدلا بھیس نیا  اب دیکھیں گے ہم دیس نیا
جب دل نے رام دہائی دی
اک دنیا نئی دکھائی دی
 اس دیس میں سب اَن جانے ہیں  اپنے بھی یہاں بیگانے ہیں
پیتم نے سب سے رہائی دی
اک دنیا نئی دکھائی دی
 ہر رنگ نیا، ہر بات نئی  اب دن بھی نیا اور رات نئی
اب چین کی راہ سجھائی دی
اک دنیا نتی دکھائی دی 
اب اپنا محل بنائیں گے  اب اور کے در پہ نہ جائیں گے
اک گھر کی راہ سجھائی دی
 اک دنیا نئی دکھائی دی

میراجی
( 1949 ء – 1912ء )
میراجی کا اصلی نام محمد ثناء اللہ ڈار تھا۔ وہ ایک کشمیری خاندان میں گوجرانوالہ، پنجاب میں پیدا ہوئے ۔ ان کا زیادہ وقت لاہور ، دلّی اور ممبئی میں گزرا۔ وہ انتہائی ذہین انسان تھے ۔ مطالعے کا انھیں بہت شوق تھا، اس لیے انھوں نے مختلف زبانوں کی شاعری کا مطالعہ کیا ، تراجم کیے اور مضامین لکھے۔ وہ لاہور کی ایک مشہور ادبی انجمن حلقہ ارباب ذوق کے بانیوں میں تھے ، جس نے بہت سے ذہنوں کو متاثر کیا اور شاعری میں جدید رجحانات کو فروغ دیا ۔ انھوں نے اختر الایمان کے ساتھ مل کر رسالہ خيال نکالا جس کے چند ہی شمارے شائع ہو سکے ۔ ممبئی میں ہی ان کا انتقال ہوا۔ میرا جی کی نظموں کے کئی مجموعے مثلا میرا جی کی نظمیں اور گیتوں کا مجموعہ گیت ہی گیت ان کی زندگی میں شائع ہوئے۔ ایک مجموعہ پابندنظمیں اور انتخاب تین رنگ بعد میں شائع ہوئے۔ بہت بعد میں پاکستان سے کلیات میراجی (مرتبہ جمیل جالبی ) اور باقیات میراجی (مرتبہ شیما مجید ) شائع ہوئے ۔ نثر میں دو کتابیں مشرق ومغرب کے نغمے اور اس نظم میں معروف ہیں۔
جدید تنقید میں بھی میراجی کا نام بہت بلند ہے۔ انھوں نے نظم کا تجزیہ لکھنے کی ایک نئی رسم کو فروغ دیا۔ ہندوستان اور یورپ کے نئے پرانے شاعروں پر بہت اچھے مضامین لکھے۔ میراجی کی بہت سی شاعری میں جنسی خیالات اور تجربات پیش کیے گئے ہیں۔
مشق
لفظ ومعنی
تان : سریلی آواز
رام دہائی : اللہ کی پناہ
پیتم : محبوب ، شوہر
در پہ نہ جانا : کسی اور کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا

غور کرنے کی بات
 * اس نظم میں ایک سیدھی سادی ، ہندوستانی لڑکی کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کی گئی ہے۔ جو ایک نئی زندگی کے ارمان لیے ہوئے ہے جس میں وہ اپنا گھر بسانے کا خواب دیکھتی ہے اور گنگناتی ہے۔
 * یہ گیت سادہ زبان میں لکھا گیا ہے جو پُر تاثیر بھی ہے۔

 سوالوں کے جواب لکھیے
1. اس گیت میں لڑکی کس نئی دنیا میں قدم رکھ رہی ہے؟
جواب: اس گیت میں ایک لڑکی اپنا گھر بسانے کا خوبصورت خواب دیکھ رہی ہے۔ اور اس نئی دنیا میں سبھی نئے اور انجانے لوگوں کے ساتھ اپنی نئی زندگی شروع کرنے کے منصوبے بنا رہی ہے۔

2. اب سکھ نے بدلا بھیس نیا سے کیا مراد ہے؟
جواب: اس لڑکی کا ماننا ہے کہ اب اس کے سکھ اور خوشیوں کا انداز بدل جائے گا اور اب وہ ایک نئے روپ میں اپنے پیتم کے گھر میں لوگوں کے دل جیتے گی۔ اب تک وہ اپنے ماں باپ ،بھائی بہن کے ساتھ سکھ کی زندگی بتا رہی تھی اب سُکھ ایک نئے انداز میں اس کے سامنے ہوگا۔

 3. اپنا محل بنانا اور دوسرے کے در پر نہ جانا کے کیا معنی ہیں؟
جواب: لڑکی اب تک اپنے میکے میں تھی جس کو وہ دوسروں کا گھر تصور کرتی ہے اور اب وہ اپنا محل بنانے کے منصوبے بنا رہی ہے۔ اب وہ اپنی سسرال کو اپنا گھر سمجھتی ہے اور اس گھر کو ہی اپنا محل تسلیم کرتی ہے۔

عملی کام
* اس گیت کو بلند آواز سے پڑھیے۔
* اس گیت کے پہلے بند کوخوش خط لکھیے اور اس کا مطلب بھی لکھیے۔
*  گیت کو زبانی یاد کیجیے۔

کلک برائے دیگر اسباق

خوش خبری