آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Monday, 4 May 2020

Iswaran - The Story Teller - Urdu- R K Laxman

ایشورن۔ ایک قصّہ گو
آر کے لکشمن


مہیندر  ایک فرم میں جونیئر سپروائزر تھا جو مختلف قسم کے تعمیراتی سائٹ  جیسے فیکٹریوں، پلوں اور ڈیموں پر سپروائزری کی پیش کش کرتا تھا ۔ اس کا کام وہاں چلنے والے کام پر نظر رکھنا تھا۔اسے اپنے کام  کے سلسلے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا پڑتا تھا۔کوئلے کی کان سے لے کر ریلوے پُل کے تعمیراتی جگہ تک۔
وہ کنوارا تھا۔ اس کی ضرورتیںکم تھیں اور وہ اپنے آپ کو ہر طرح کی عجیب و غریب حالتوں میں ایڈجسٹ کرنے کے قابل تھا ۔ لیکن اس کے پاس ایک اثاثہ تھا اس کا باورچی ، ایشورن۔ باورچی  کا مہیندر کے ساتھ کافی لگاؤ  تھا اور جہاں بھی اس کی پوسٹنگ ہوتی بلاجواز اس کے پیچھے چل پڑتا۔ وہ مہیندر کے لئےکھانا پکا تا ،  کپڑے دھوتا اور رات کے وقت اپنے آقا سے باتیں کرتا۔
وہ مختلف موضوعات پر نہ ختم ہونے والی کہانیاں  سنااور  بنا سکتا تھا۔
ایشورن میں بنجر زمین  میں ، سبزیاں اور کھانا پکانے کے اجزا پیدا کرنے کی حیرت انگیز صلاحیت موجود تھی ، جس کے آس پاس میلوں دور تک کوئی دکان نہ تھی ۔ وہ۔ زنک شیٹ شیلٹر پہنچنے جو کے مہندر کے نئے کام کی جگہ تھی  یہاں پہُنچ کر ایشورن نے بہت لذیذ پکوان تیار کیے جو کے بلکل تازی سبزیوں سے بنے تھے۔
مہیندر صبح سویرے اٹھتا اور ناشتے کے بعد کام پر روانہ ہوتا ، اپنے ساتھ کچھ تیار کھانا لے کر جاتا ۔ ادھر ، ایشورن صاف صفائی کرتا ، کپڑے دھوتا اور آرام سے نہاتا ،  اس وقت تک لنچ کا وقت ہوجاتا ۔ کھانے کے بعد ، وہ کتاب پڑھتا  کتاب عام طور پر کچھ مشہور تامل زبان  کے ناول ہوتے ۔بہت صفحات پڑھ لینے کے بعد  اُسکی تصوّر اور داستان گوئی میں اضافہ ہو جاتا۔
ایشورن کا اپنا کردار تمل مصنفوں سے متاثر تھا  جب وہ چھوٹے چھوٹے واقعات کو بھی بیان کر رہا ہوتا تو وہ پیش بند مزید پر اسرار طریقے سے سناتا اور حیرت میں اس کو ختم کرتا ۔ مثال کے طور پر ، وہ یہ کہنے کے بجائے کہ وہ راہ پر ایک اکھڑے ہوئے درخت کے پاس آگیا ہے ، بھوؤں کو پراسرار انداز میں محراب بنا کر اور ہاتھوں کو ڈرامائی اشارے سے تھامے کہتا، ”سڑک ویران ہوگئی تھی اور میں بالکل تنہا تھا۔ اچانک میں نے کچھ ایسی چیز دیکھی جس کو دیکھ کر لگتا   تھا کہ ایک بہت بڑا جنگلی درندہ سڑک کے  اُس پار پھیلا پڑا ہے۔ میں آدھا مڑ گیا اور مڑ کر واپس گیا۔ لیکن جب میں قریب پہنچا تو میں نے دیکھا کہ یہ ایک گرا ہوا درخت ہے ، جس کی خشک شاخیں دور تک پھیل چکی ہیں۔“ مہیندر خود کو واپس اپنی  کرسی پر کھینچتا اور  غور سے  ایشورن کی داستانیں سنتا۔
”جس جگہ سے میں آیا ہوں وہ لکڑی کے لئے مشہور ہے ، “ ایشورن شروع کرتا ہے۔ ”وہ جگہ چاروں طرف جنگل سے بھرپور ہے۔ وہاں بہت سے ہاتھی ہیں ۔ وہ بہت خطرناک  جانور ہیں۔ جب وہ جنگلی ہوجاتے ہیں تب  انتہائی تجربہ کار مہاوت ان پر قابو نہیں رکھتا ہے۔“ اس  کے بعد ، ایشورن ایک ہاتھی کو شامل کرتے ہوئے  ایک طویل قصّے کی شروعات کرتا ہے۔
”ایک دن لکڑی کے صحن سے ایک ہاتھی فرار ہوگیا اور گھومنے پھرنے لگا ، جھاڑیوں کو کچلنے  لگا   ،  اپنی مرضی سے شاخیں توڑ رہا تھا۔ آپ جانتے ہیں ، جناب ، جب ہاتھی پاگل ہوجاتا ہے تو وہ کیسا سلوک کرتا ہے۔“ ایشورن اپنی کہانی کے جوش میں اتنا پھنس جاتا کہ وہ فرش سے اٹھ کر پھلانگ جاتا ، پاگل ہاتھی کی تقلید میں اپنے پاؤں کو فرش پر مار نے لگتا۔
”ہاتھی ہمارے شہر کے وسط  میں پہنچ کر مرکزی سڑک پر آگیا اور پھلوں ، مٹی کے برتنوں اور کپڑے فروخت کرنے والے تمام اسٹالوں کو توڑ دیا۔ گھبراہٹ میں لوگ یہاں وہاں  بھاگے! ہاتھی اب اینٹوں کی دیوار کو توڑ کر اسکول کے میدان میں داخل ہوا جہاں بچے کھیل رہے تھے ،  سب لڑکے کلاس روموں میں بھاگے اور دروازوں کو سختی سے بند کیا۔ وہ جانور  گھوم رہا ،ہاتھی نے فٹ بال کا گول پوسٹ کھینچا ، والی بال کا جال پھاڑ دیا ، پانی  رکھے ہوئے ڈرام کو لات مار کر چپٹا کیا ، اور جھاڑیوں کو جڑ سے اکھاڑ دیا۔ اسی دوران ، تمام استا د اسکول کی عمارت کی چھت پر چڑھ گئے تھے۔ وہاں سے انہوں نے بے بسی سے ہاتھی کی تباہی  دیکھی۔ زمین پر نیچے کوئی  نہیں تھا۔ سڑکیں خالی تھیں جیسے پورے قصبے کے باسی اچانک غائب ہو گئے ہوں۔
میں اس وقت جونیئر کلاس میں پڑھ رہا تھا اور چھت سے پورا ڈرامہ دیکھ رہا تھا۔ مجھے نہیں معلوم  اچانک میرے دماغ میں کیا آیا۔ میں نے ایک استا د کے ہاتھ سے ایک چھڑی پکڑی اور سیڑھیاں اتر کر باہر کی طرف بھاگا۔ ہاتھی نے  ایک شاخ کو گرا دیا ،  یہ خوفناک لگتا تھا.مگر میں آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھا۔  لوگ اس منظر کو قریبی گھروں کی چھتوں سے خوفزدہ نظروں سےدیکھ رہے تھے۔ ہاتھی نے سرخ آنکھوں سے میری طرف دیکھا ، ہاتھی میری طرف جھپٹنے کو تیار تھا  اس وقت میں آگے بڑھا اور  اپنی ساری قوت کو اکٹھا کرتے ہوئے  جلدی سے اس کی تیسری انگلی پر مارا حیوان ایک لمحے کے لئے دنگ رہ گیا۔ تب یہ سر سے پاؤں تک ہل گیا - اور وہیں ڈھیرہوگیا۔“
اس موقع پر ایشورن اس کہانی کو ادھورا چھوڑ دیتا ،”میں گیس جلانے اور رات کا کھانا گرمانے کے بعد واپس آؤں گا۔“
مہندر جو بڑے غور سے کہانی سن  رہا تھا کہانی کے درمیان میں لٹکا رہ گیا ۔
جب  ایشوران لوٹ کر آتا ، وہ کہانی نہیں سناتا تھا  مہیندر کواُسے یاد دلانا پڑتا تھا کہ کہانی ختم نہیں ہوئی تھی آخر میں کیا ہوا ۔
 ”خیر ، ایک ویٹنری ڈاکٹر کو جانور کو ٹھیک کرنے کے لئے طلب کیا گیا تھا ، دو دن بعد اسے جنگل کی طرف روانہ کردیا گیا۔“
”ٹھیک ہے ، تم نے اس کا انتظام کیسے کیا ، ایشورن - تم نے اس درندے کو کیسے نیچے  گرایا؟“
”میرے خیال میں ، اس کا جاپانی فن سے کوئی تعلق ہے۔ کراٹے یا ’جو-جیتسو‘  کہتے ہیں۔ میں نے اس کے بارے میں کہیں پڑھا تھا۔ آپ دیکھیں گے کہ عارضی طور پر یہ اعصابی نظام کو مفلوج کردیتا ہے۔“
ایسا کوئی دن نہیں گزرتا تھا جب ایشورن کوئی پُر اسرار ،سسپنس سے بھرپور ڈراؤنی کہانی نہیں سناتا چاہے وہ قابلِ اعتبار ہو یہ نہ ہو۔
مہیندر کو ایشورن کے انداز میں کہانی سننا بہت پسند تھا ۔ایشورن مہیندر کے لیے ٹیلی ویژن کا کام کرتا تھا۔
 ایک صبح جب مہیندر ناشتہ کر رہا تھا ایشورن نے پوچھا ، ”کیا میں آج رات کے کھانے کے لئے کچھ خاص بنا سکتا ہوں؟ بہر حال ، آج کا دن ایک اچھا دن ہے۔ روایت کے مطابق ہم آج اپنے پروجوں کی روح کو کھانا کھلانے کے لئے طرح طرح کے پکوان تیار کرتے ہیں۔“

 اس رات مہیندر نے انتہائی  لذیذ کھانے کا لطف اٹھایا اور اُس نے ایشورن  کی مہارت کی تعریف کی۔ وہ بہت خوش تھا لیکن ، اچانک ایشورن نے بھوت پریت کی کہانی سناني شروع کردی۔
”آپ جانتے ہیں کے یہ فیکٹری کی جگہ کبھی قبرستان تھی ۔“
مہند ر لذیذ کھانے کھا کے بیٹھا تھا یہ سن کر اسے جھٹکا لگا۔
ایشورن کہتا گیا میں تو پہلے دن ہی  سے جانتا تھا جب میں نے راستے میں بہت سی ہڈیاں اور کھوپڑیاں دیکھی تھیں۔
ایشورن سناتا گیا ”میں نے دو راتوں سے بھوت کو بھی دیکھا ہے، میں ڈرتا نہیں ہو ںکیونکہ میں بہادر ہوں، لیکن ایک عورت کی روح جو پورے چاند کی آدھی رات کو دکھائی دیتی ہے۔یہ بہت ڈراؤنی عورت ہے اُلجھے ہوئے بال خوفناک جھریوں سے بھرا چہرہ اور ہاتھ میں ایک بچّے کا کنکال لیے رہتی ہے ۔“
 مہیندر یہ سن کر کانپ اٹھا اُس نے ایشورن کو ٹوکا” تم پاگل ہو بھوت پریت کچھ نہیں ہوتا  یہ سب تمہاری سوچ ہے میرے خیال سے تمہارا ہاضمہ ٹھیک نہیں اور  دماغ بھی ،تم  بکواس کر رہے ہو۔“
وہ سونے کے لئے چلا گیا اور سوچنے لگا کہ ایشورن اگلے دو دن تک اُداس رہیگا لیکن اگلے دن ایشورن  پہلے کی طرح خوش اور باتونی تھا۔
اس دن سے مہیندر کو سوتے وقت بے چینی رہنے لگی ہر  رات وہ اپنے کمرے میں کھڑکی سے اندھیرے میں جھانکتا تھا کے آس پاس کوئی بھوت یا روح تو نہیں ۔
لیکن اسے کچھ نظر نہیں آتا۔
 ایک رات مہیندر کی نیند کھڑکی کے پاس  کراہنے کی آواز سے کھلی۔ پہلے تو اُس نے یہ سمجھا کے کوئی بلی گھوم رہی ہے مگر آواز کسی انسان کی لگ رہی تھی۔
اس نے سوچا کہ جھانک کر دیکھے مگر وہ ڈرتا تھا کے کوئی بھوت نہ ہو مگر آواز تیز ہوتی گئی  اور یہ صاف ہو گیا کے یہ کسی بلی کی آواز نہیں ہے وہ اپنے آپ کو نہیں روک سکا اور اُس نے نیچے جھانکا، ایک سایہ نیچے کھڑا تھا۔  اس کو ٹھنڈا پسینہ آگیا اور وہ تکیے پر آ گرا ۔جب وہ  اس  سایہ کے خوف سے تھوڑا ٹھیک ہوا تو اُس نے اسے اپنا دماغی فتور مان لیا۔اگلے دن جب وہ اٹھا  اور کمرے سے نکلا تو رات کی باتیں اُس کے دماغ سے نکل گئی تھیں۔ ایشورن نے اسے دوپہر کے کھانے کا تھیلا پکڑایا پھر ہنس کر کہا:
صاحب اس دن کو یاد کیجیے ایک عورت جو ہاتھ میں بچّہ لیے تھی آپ اس بات کے لیے مجھ سے بہت ناراض ہوئے
آپ نے بھی تو اسے پچھلی رات دیکھ لیا ۔
جب میں نے آپ کے کمرے سے آواز آتی سنی تو میں دوڑ کر آیا تھا ۔
مہیند ر ٹھنڈا پڑ گیا اور اس سے پہلےکہ ایشورن پوری بات کہتا   وہ چلا گیا۔
اوراُسی دن  اُس نے آفس میں لیٹر دے دیا کے اب وہ یہاں نہیں رہے گا اور کل ہی واپس چلا جائیگا۔

Dard Minnat Kashe Dawa Na Hua - Mirza Ghalib - NCERT Solutions Class IX Urdu

غزل
مرزا غالب

درد منت کش دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا

 جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا، گِلا نہ ہوا

 کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا

 ہے خبر گرم ان کے آنے کی
آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا

 کیا وہ نمرود کی خدائی تھی؟
بندگی میں برا بھلا نہ ہوا

 جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

 کچھ تو پڑھیے کہ لوگ کہتے ہیں
 آج غالب غزل سرا نہ ہوا

مرزا اسد اللہ خاں غالب
(1869ء - 1797ء)
مرزا غالب آگرے میں پیدا ہوئے ۔ باپ اور چچا کی موت کی وجہ سے غالب بچپن ہی میں تنہا رہ گئے اور ان کی دادی نے ان کی پرورش کی۔ تیرہ سال کی عمر میں ان کی شادی ہوگئی ۔ کچھ عرصہ بعد غالب دلی آگئے اور عمر بھر یہیں رہے۔ غالب کی زندگی کے آخری دن میں بیماری کی وجہ سے تکلیف میں گزرے لیکن ان کے مزاج کی شوخی اور ذہن کی تازگی تا عمر برقرار رہی۔
غالب اردو کے چندسب سے بڑے شاعروں میں شمار کیے جاتے ہیں ۔ وہ ابتدا میں اسد تخلص کرتے تھے، بعد میں غالب اختیار کیا۔ انھوں نے اردو فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہے ہیں۔ انہیں عام راستے سے الگ نئی راہ بنا کر چلنے کا شوق تھا ، یہی وجہ ہے کہ ان کا کلام اپنے عہد کے شاعروں بلکہ کم ویش اردو کے تمام شاعروں کے کلام سے منفرد ہے۔ غالب کے کلام کو عموماً مشکل سمجھا جاتا ہے پھر بھی ان کے اشعار کی ایک بڑی تعداد آج بھی لوگوں کی زبان پر ہے۔ ان کا بہت سا کلام سادہ اور بظاہر آسان بھی ہے۔ غالب کے اردو اشعار کا مجموعه ”دیوان غالب“ کے نام سے شائع ہواہے۔ ان کے اردو خطوط کے دو مجموعے ”عود ہندی“ اور ”اردوئے معلی“ ، معروف ہیں۔ ان کے خطوط میں اردو نثر کی ادبی شان، اپنے زمانے کے حالات، ادبی مباحث پر گفتگو غرض بہت کچھ ملتا ہے جس کے باعث غالب ہمارے سب سے بڑے شاعروں کے ساتھ سب سے بڑے نثر نگاروں میں بھی شمار ہوتے ہیں۔

لفظ ومعنی
منت کش : احسان اٹھانے والا
رقیب : حریف ، عاشق کا مقابل اور مخالف
گلہ : شکایت
مزا : مزہ
خبرگرم : کسی خبر کا بہت مشہور ہونا
خنجر آزما : خنجر چلانے والا
نمرود : ملک عراق میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے کے ایک بادشاہ کا نام جس نے خدائی کا دعوی کیا تھا۔
بندگی : فرماں برداری ، اطاعت
غزل سرا ہونا : غزل گانا یعنی غزل کو محفل میں پیش کرنا

تشريح
درد منت کش دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا
تشريح . درد عشق کو دوا کا احسان نہیں اٹھانا پڑا۔ یہ اچھا ہی ہوا۔ مراد یہی ہے کہ ہمارا درد یعنی در عشق دواسے ٹھیک نہیں ہو پایا۔ یہ ہمارے نزدیک اچھا ہی ہوا کیونکہ عشق کے لیے عشق کی کسک لذت دینے والی ہوتی ، تکلیف دینے والی نہیں۔ اسی لئے وہ کہ ر ہا ہے کہ اگر دوا ہمارا علاج نہیں کر پائی تو یہ ہمارے حق میں بہترہی ہوا۔
 جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا، گِلا نہ ہوا
تشريح : غب اپنے مخصوص شوخ انداز میں کہ رہے ہیں کہ اے میرے محبوب اگر تمہیں مجھ سے شکوہ ہے شکایات ہیں تو انہیں اکیلے میں مجھے بتا دیتے کیا ضروری تھا کہ تمام رقیبوں کو جمع کر کے شکوے شکایات کا دفتر کھولا جاتا تم نے گلہ شکوے کو ایک تماشا بنا کر رکھ دیا۔
 کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا
تشریح : غالب کہتے ہیں کہ اے میرے محبوب تیری شیر یں لبوں سے نکلی گالیاں رقیبوں کو بری نہیں لگ رہی ہیں بلکہ لطف دے رہی ہیں ۔ مراد یہی ہے کہ میرا محبوب بہت شیریں بیان ہے۔
 ہے خبر گرم ان کے آنے کی
آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا
تشریح :. غالب کہہ رہے ہیں کہ آج محبوب کے آنے کی خبر ہے اور آج ہی ہمارے گھر کا برا حال ہے۔ بور یا تک نہ ہوا سے مراد ہے آج ہم تنگ دست ہورہے ہیں اور محبوب کی آمد ہے ۔
 کیا وہ نمرود کی خدائی تھی؟
بندگی میں برا بھلا نہ ہوا
تشریح : غالب نے یہاں صفت تلمیح کا خوبصورت استعمال کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ نمرود جس نے خدائی کا دعویٰ کیا تھالیکن وہ ایک مجبور انسان تھا۔ وہ خدا کی طرح اپنے بندوں کو کچھ نہ دے سکتا تھا۔ اس لئے کہہ رہے ہیں کہ میں نے اتنی بندگی کی مگر حاصل مراد حاصل نہ ہو پایا۔ کیامیں نے نمرود کی خدائی میں بندگی کی تھی جو میرا بھلا نہ  ہو پایا ۔
 جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
تشریح : خدائے بزرگ و بر تر نے ہمیں پیدا کیا۔ ہم نے اپنی تمام زندگی اس کے لئے وقف کردی۔ اس کی راہ میں نچھاور کر دی لیکن اس کے باوجود ہم نہیں سمجھتے ہی کہ ہم حق بندگی ادا کر سکتے ہیں حق ادانہ ہوا کا استعمال خوب کیا ہے ۔
 کچھ تو پڑھیے کہ لوگ کہتے ہیں
 آج غالب غزل سرا نہ ہوا
تشریح : یہاں غالب شاعرانہ تعلی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ غالب کی غزل سرائی کی تعریف لوگ مرنے کے بعد بھی کریں گے ۔ شاعرانہ تعلی میں بھی غالب مختلف انداز اختیار کرتے ہیں
غور کرنے کی بات 
*  اس غزل میں سادگی بیان اور عام گفتگوکا انداز ہے اور کہیں کہیں خودکامی کا انداز بھی ہے۔ خود کلامی سے مراد اپنے آپ سے بات کرنا ہے۔ مثلاً غزل کے مطلع اور شعر 6، 5 اور 7 میں خود کلامی کا انداز ہے۔
*  غالب غزل کے ممتاز شاعر ہیں۔ کم سے کم لفظوں میں بات کو کہنا ، سادگی کے ساتھ ساتھ معنی کی گہرائی ان کی شاعری کی اہم خصوصیات ہیں۔
* ’ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا‘ اس مصرعے میں حق دو جگہ آیا ہے۔ اس لفظ کے دونوں جگہ الگ الگ معنی ہیں ۔ ایک حق ہونا (سچ)اور دوسرا حق ادا ہونا (فرض) .
* مطلعے کو غور سے پڑھیے۔ دوسرے مصرعے میں لفظ ’اچھا‘ یوں تو ’برا‘ کی ضد ہے لیکن یہاں یہ لفظ صحت یاب ہونے کے معنی میں آیا ہے۔ اس اعتبار سے اچھا، برا اور ہوا، نہ ہوا الفاظ ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔ شعر کی یہ خوابی صنعت تضاد کہلاتی ہے۔

سوالوں کے جواب لکھیے
1. میں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

2. شاعر نے رقیبوں کو جمع کرنے پر کیوں اعتراض کیا ہے؟

3. پانچویں شعر میں نمرود کی خدائی سے کیا مراد ہے؟

4.  جان دی دی ہوئی آئی تھی اس مصر نے میں اس کا اشارہ اس کی طرف ہے؟


عملی کام
* غزل کے اشعار بلند آواز میں پڑھیے اور اپنے دوست سے پسندیدہ غزل کے دو اشعار سنیے۔

*  غزل کو خوشخط لکھیے اور زبانی یاد کیجیے۔

*  اس غزل میں کیا کیا قافیے استعمال ہوئے ہیں لکھیے۔

کلک برائے دیگر اسباق

Saturday, 2 May 2020

Asraar Jamai Ki Yaad Mein - Umair Manzar

اردو ادب کا ایک بڑا سرمایہ فیس بُک کی تیز رفتاری کے باعث قارئین کی نظروں سے مختصر مدت میں اوجھل ہوجاتا ہے۔ آئینہ نے فیس بُک کے سمندر سے چنندہ تخلیقات کو اپنے قارئین اور آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان جواہر پاروں کو آئینہ صاحبِ قلم کے شکریہ کے ساتھ اپنے ویب صفحہ پر شامل اشاعت کر رہا ہے۔(آئینہ)

اسرار جامعی کی یاد میں 
عمیر منظر

طنز و مزاح کے مشہور شاعر اسرار جامعی آج صبح دلی میں انتقال کر گئے. بہت دنوں سے وہ صاحب فراش تھے.
اسرار جامعی کا تعلق بہار کے شاہو بگہہ گیا سے تھا مگر ایک مدت سے انھوں  نے دلی میں سکونت اختیار کررکھی تھی.
اسرار جامعی نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تعلیم حاصل کی تھی. ڈاکٹر ذاکر حسین ،عابد حسین اور پروفیسر محمد مجیب ان کے اساتذہ میں شامل تھے جیسا کہ اسرار جامعی نے اپنے مجموعہ کلام شاعر کے انتساب میں لکھاہے.
شاعر اعظم ان کا پہلا مجموعہ کلام ہے جو 1996 میں شائع ہوا.
اسرار جامعی کا اصل نام سید شاہ محمد اسرار الحق تھا.
ابتدا میں انھوں نے شاعری میں شفیع الدین نیر صاحب سے اصلاح لی اس کے بعد رضا نقوی واہی کے حلقہ تلمذ میں شامل ہو گئے.
اسرار جامعی اوکھلا سے  پارلیمانی الیکشن میں ایک بار آزاد امیدوار بھی رہے. جس میں وہ جیت تو نہیں سکے مگر ان کی شاعری کا چرچا خوب رہا. اردو کے علاوہ انگریزی اور ہندی اخبارات میں ان کی شاعری اس زمانے میں تصویر کے ساتھ شائع ہوئی.
اسرار جامعی بہت بیباک اور نڈر تھے. بہار سے لے کر دلی تک ان کی جرات کے بیشمار واقعات اور قطعات ہیں. ٹاڈا قانون پر نظم کہی اور کانگریس کی افطار پارٹی میں اس وقت کے وزیر داخلہ ایس بی چوہان کے سامنے سر محفل نظم سنانی شروع کردی اور اس وقت تک سناتے رہے جب تک نظم نہ ختم ہوئی. اگلے روز افطار پارٹی کی خبر کم اور اسرار جامعی کی نظم کی خبر باتصویر دلی کے تمام اخبارات میں شائع ہوئ. ایک شعر بہت نقل ہوا،
گر مونچھوں والا کوئی پکڑائے تو نہ پکڑو
گر داڑھی والا آیا ٹاڈا میں بند کردو
وزیر داخلہ کو یہ ماننا پڑا کہ ٹاڈا کا غلط استعمال ہورہا ہے. اس کی تفصیل دی نیشن اینڈ دی ورلڈ میں دیکھی جاسکتی ہے واضح رہے کہ اس وقت اس کے ایڈیٹر سید حامد صاحب تھے.
 اس کے علاوہ وی پی سنگھ، راجیو گاندھی اور چندر شیکھر کے سامنے بھی بے خوف اور نڈر ہو کر اپنے جذبات کا اظہار کیا.
چٹنی اور پوسٹ مارٹم کے نام سے مزاحیہ صحافت ان کا ایک اہم کارنامہ ہے. شاعری اور نثر کے علاوہ کارٹون بھی مزاحیہ صحافت کا حصہ تھے.
بروقت اور برمحل اشعار کہنے میں انھیں ید طولیٰ حاصل تھا. پروفیسر عبدالمغنی کی کتاب اقبال کا نظام فن کی تقریب اجرا میں علامہ اسرار جامعی کا ایک قطعہ کتاب سے زیادہ مشہور ہوا. اس تقریب میں پروفیسر مغنی کی جہاں دیگر ارباب ادب نے تعریف و توصیف کی تھی خود عبد المغنی صاحب نے اس کتاب کے لیے اپنی تعریف کی تھی. اجرا کے بعد جب مشاعرہ شروع ہوا تو اسرار جامعی کے ایک قطعہ نے رسم اجرا کی پوری بساط ہی لپیٹ دی.
اک دن کہیں پہ شاعر مشرق ملے مجھے
دیکھا تو بدحواس و پریشان و پرمحن
پوچھا کہ خیریت تو ہے حضرت یہ حال کیا
بولے کہ مل گیا ہے اک استاد دفعتاً
اس دم عظیم آباد کی جانب رواں ہوں  میں
جی چاہتا ہے سیکھ لوں اپنا نظام فن.
وہ سراپا مزاح تھے اور اس کا موقع فراہم کرتے رہتے تھے. جب تک جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اسٹور پر ڈاک خانہ رہا ان کا پتا سب کو یاد رہا.
اسرار جامعی
پوسٹ بکس نمبر 1
جامعہ نگر، نئی دہلی
ڈاک خانے کے ملازم ان کی ساری ڈاک آفس کے ایک کنارے لگا دیتے اور یہ خود پہنچ کر اٹھا لیتے. یہی اپنا پوسٹ بکس خود ہی تھے.
گھر کے دروازے پر قلم اور کاغذ لٹکا رہتا. آپ جائیں اور اگر اسرار صاحب نہ ملیں( اکثر نہیں ملتے تھے) رقعہ چھوڑ دیں وہ تلاش کرکے آپ سے مل لیں گے. اس زمانے میں موبائل نہیں تھا مگر جامعی صاحب چلتا پھرتا موبائل تھے او دن بھر ملاقاتیں کرتے رہتے تھے. یہ زمانہ کمپیوٹر کا نہیں بلکہ ٹائپ رائٹر کا تھا. اس زمانے میں اسپیڈ دیکھنے کے لیے طرح طرح کے جملہ لکھے رہتے تھے اور اس سے ٹائپنگ کی رفتار طے کی جاتی تھی. اسرار جامعی نے اپنی ذہانت سے ایک جملہ ایسا بنادیا کہ اسے دور دور تک شہرت ملی.
اردو ٹائپنگ کوڈ کے الفاظ کی یہ تخلیق شاعر طنز و مزاح اسرار جامعی کی غضب کی ذہانت اور خلوص کی بڑی اچھی مثال ہے
اس جملے میں کل پچیس الفاظ ہیں ایک منٹ میں ٹائپ کرنے والی کی اسپیڈ فی منٹ پچیس الفاظ کی ہوگی.

(باقی آئندہ)

Friday, 1 May 2020

Shah Mansoor - A Badshah of Sufism

شاہ منصورؒ: دنیائے تصوف کے بادشاہ 
(8 رمضان المبارک یوم وصال کے موقع پر خصوصی مضمون)
ابن طاہر

کچھ شخصیتیں ایسی گزری ہیں جن کا خیال دل پر ایسا نقش ہے کہ برسوں کا طویل سفر بھی ان کی یادوں کو ذرہ برابر بھی دھندلا نہیں کرپایا ہے۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے
دل کے آئینےمیں ہے تصویر یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
خانقاہ برہانیہ کمالیہ، دیورہ، ضلع گیا کے صاحب سجادہ حضرت حکیم شاہ منصور احمد فردوسیؒ کی ذاتِ گرامی بھی ایسی ہی شخصیتوں میں سے ایک ہے۔ آپ کو تصویر کھینچوانا سخت نا پسند تھا۔ کیمرہ دیکھتے ہی اپنے آپ کو اس طرح سمیٹ لیتے کہ کیمرہ مین آپ کے جلال سے مرعوب ہوکر آپ کی جانب دیکھنے کی ہمت ہی نہیں کر پاتا۔آپ عالم دین تھے اور فوٹو گرافی کو جائز نہیں سمجھتے تھے لہٰذا آپ کی تصویر شاذ و نادر ہی کسی کے پاس موجود ہے۔ آج کے علما کو شاید یہ بات عجیب لگے کیوں کہ عام طور پر یہ بات بالکل عنقا ہو چکی ہے کہ کبھی علما کے اندر اس نکتے پر بھی کوئی اعتراض تھا۔  لیکن کاغذ پر اپنی تصویر نہ اتروانے والی شخصیت نے لوگوں کے دل و دماغ پر اپنی تصویر اس طرح ثبت کردیں کہ آپ ان کے چہرے کو بھلا نہیں سکتے۔ جن لوگوں نے ان کو دیکھا ہے ان کے دل و دماغ پر ان کی تصویر گہرائی تک ثبت ہے۔ کہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا کے لیے تصویر کھنچوانے کو ناپسند کرنے والے کی تصویر خود آپ کے دلوں میں پرنٹ کردی ہے۔ میں نے بہت ساری تصویریں کھینچی ہیں ان کو دیکھنے کے لیے یا تو مجھے البم نکالنا پڑتا ہے یا اپنے کمپیوٹر کی اسٹوریج کھنگالنی پڑتی ہے لیکن آپ کی تصویر کے لیے بس شاعر کا یہی مصرع صادق ہے اک ذرا گردن جھکائی دیکھ لی۔ اللہ تعالیٰ اس نقش کی تابناکی کو ہمیشہ قائم رکھے اور اس میں مزید نکھار پیدا کرے۔ اس خیال کے پیچھے جو جذبہ کار فرما ہے وہ ہے محبت، عشق۔ اپنے بزرگوں سے یہ محبت آپ کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ ان کی شان میں ذرا سی بھی گستاخی آپ کو قبول نہ تھی۔ عشقِ رسولؐ کا جذبہ تو آپ کی رگوں میں اس طرح سمایا تھا کہ اس کی سرشاری آپ کے رخ روشن سے جھلکتی تھی۔
حضرت حکیم شاہ منصور احمد فردوسیؒ کی شخصیت میں جو وقار تھا اس سے بڑے بڑے عالم دین مرعوب ہوئے بغیر نہیں رہتے۔خدا، اس کے رسولﷺ اور پھر اپنی ذات پر اتنا بھروسہ میں نے بہت کم لوگوں میں دیکھا ہے۔ فقر و استغنا کی ایسی زندہ مثال اس زمانے میں نہیں ملتی۔جس محفل میں جاتے اپنی گفتگو اور طرز تکلم سے بہت جلد لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتے۔ علمی مباحث میں اتنا ٹھہراؤ، اپنے عقیدے کی درستگی کے استدلال پر اس درجہ یقین ہوتا کے سامنے والا ایک لمحہ کو حیرت زدہ رہ جاتا۔مدلل انداز گفتگو اورمثبت دلائل سامنے والے کو لاجواب کر دیتے۔ کبھی کسی سے بلا وجہ زبردستی اپنی بات منوانے کی کوشش نہیں کی بلکہ ہمیشہ ہی بڑی سادگی اور دل جمعی سے اپنے بزرگوں کے مطمعٔ نظر کو سامنے رکھا۔کبھی کبھی تو یہ بحثیں ساری رات چلتیں اور کبھی کسی کا دل میلا نہ ہوتا۔ رمضان کے دنوں میں خاص کر نماز تراویح کے بعد رات کے کھانے پر جو گفتگو شروع ہوتی تو وہ سحری تک جاری رہتی۔
آپ جامعہ نعیمیہ،مرادآباد سے فارغ التحصیل تھے۔ لیکن آپ کا خانقاہی و خاندانی رنگ سب رنگوں پر غالب تھا۔ خوش پوش و خوش لباس تھے۔ فقیری میں بھی شان نرالی تھی۔ چہرے پر ایک جلال تھا لیکن مزاج اتنا ہی شفیق۔ کسی سے کبھی اونچے الفاظ میں بات نہ کرنا اور دوسروں کی خطاؤں کو یکسر نظر انداز کر دینا آپ کی سب سے بڑی خوبی تھی۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:

انسانی غرضیں ٹکراتی ہیں اور ان سے شکوہ و شکایت پیدا ہوتی ہے لیکن اس کی وجہ سے کوئی ایسی حرکت کرنا جو جہنم کا سبب بن جائے نہیں کرنا چاہیے۔ کوئی کچھ کہے اپنا کام  خیر کا کیے جانا چاہیے۔ بہت دفعہ غلط فہمی پیدا ہو جاتی ہےاور دور کرنے کی کوشش بھی کی جائے تو دور نہیں ہوتی۔ بلا سے نہیں ہوتی خود خیر کیے جانا چاہیے وہ کام کیا جانا چاہیےجو اللہ کی رضا کا سبب ہے۔ اسی میں دونوں جہان کا فائدہ ہے۔
منصور احمد فردوسی غفرلہ
حضرت حکیم شاہ منصور احمد فردوسیؒ کو مطالعہ کا بے حد شوق تھا۔ ہر وقت کوئی نہ کوئی کتاب یا رسالہ آپ کےہاتھ میں ہوتا۔ کچھ نہیں ملتا تو روزنامہ یا ہفت روزہ سے اس تشنگی کو دور کرتے۔ مطالعہ کے ساتھ آپ ادب کی ایک ایسی صنف کے ماہر تھے جو اب تقریباً ناپید ہوتی جارہی ہے۔ ناپید ہوتی صنفِ حاشیہ نویسی کا شوق ایسا تھا کہ جو بھی کتاب آپ کے ہاتھ میں آتی اس کے حاشیے آپ کی تحریروں سے بھر جاتے۔ ایک ایک نکتے کو اتنا بلیغ بنا دیتے کہ کتاب کی قدر و قیمت میں اضافہ ہو جاتا۔ حاشیہ نویسی کا مقصد کبھی تنقید نہ ہوتا بلکہ مصنف کی باتوں کو مزید کھول کر اور واضح کرکے بتانا ہوتا۔ آپ کے حواشی کسی بھی مضمون میں موضوعات کاانسائکلوپیڈیا تیار کردیتے۔ کتاب سے الگ ایک کتاب تیار ہوجاتی۔ وہ ساری کتابیں اور رسالے معلوم نہیں  کہاں ہیں جو آپ کی حاشیہ نویسی سے مزین ہوئے۔ اگر وہ ساری تحریریں یکجا ہوجاتیں تو یقیناً فن حاشیہ نویسی پر ایک دفتر تحریر ہو سکتا تھا۔
بزرگوں کی روش کے مطابق مکتوبات کے ذریعہ مریدین و متوسلین کی رہنمائی کی روش آپ کے یہاں بھی پائی جاتی ہے۔ ذیل میں آپ کا ایک خط قارئین کے استفادے کے لیے پیش ہے جس میں بڑی خوبی سے ایک سماجی برائی پر روشنی ڈالی گئی ہے ساتھ ہی ورد و وظائف کی تلقین و رہنمائی بھی کی گئی ہے۔
حضرت مولانا شاہ منصور احمد فردوسی دیوروی ؒ کا
محمد الیاس فردوسی کے نام
ایک خط  
برادر دینی ومحبت یقینی۔۔۔۔۔ وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
آج کل بچّیوں کا معاملہ نازک صورت اختیار کرگیا ہے اللہ تعالیٰ اپنے حبیب پاک کے طقیل میں ہم لوگوں پر رحم فرمائے۔ یہ ساری پریشانیاں ہم لوگوں کی اسلام سے ہٹ جا نے کی وجہ سے پیدا ہوگئی۔مسلم قوم دنیا طلبی میں روز بہ روز غیر مسلموں کی طرح ہوتی جارہی ہے۔ حب مال اور حب جاہ یہ دو بت بہت خطرناک ہیں۔ اللہ تعالی ان کا پجاری ہونے سے بچائے ۔ یہ حب مال ہی کی ایک شکل ہے جولڑکی والوں سے مطالبہ کی شکل میں بھی ظاہر ہورہا ہے۔ اور بڑے بڑے دیندار لوگ اس مرض میں مبتلا نظر آ تے ہیں۔
. میں نے جو چیز آپ کو پڑھنے کودی ہے فی الحال ان کو پڑھاجائے ۔حضرت رحمتہ اللہ علیہ فر ماتے تھے کہ وظیفہ پابندی سے پڑھو اگرچہ کم ہو زیادہ وظیفہ ناغہ کر کے بہتر نہیں ۔ اسی لئے میں اپنے لوگوں کو جو مشغول ہوں زیادہ وظیفہ نہیں بتلا تا۔ خود حضرت رحمتہ اللہ علیہ کی بھی عادت یہی تھی۔ اس لیے کہ اطمینان قلب کے لئے رزق حلال کا حصول ضروری ہے قرآن کریم ہمیں سکھلاتا ہے ۔ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ دنیا کی اچھائی کو آخرت کی اچھائی پر مقدم کیا ۔ اور ہم لوگوں کا یہ دل گردہ نہیں بہت زیادہ پریشانیوں میں مبتلا ہو کر آخرت کی اچھائی حاصل کرنے میں مشغول ره سکیں ۔ ہاں دنیا کی محبت اور اس میں دل لگا نا برا ہے۔ حصول دنیا میں بھی اللہ اور اس کے رسولﷺ کا حکم ہمیشہ پیشں نظر رہنا چاہیے۔ کمائیں اس کے حکم سے اور خرچ کریں اس کی خواہش کے مطابق۔ اگر موقع ہو تو پھر رَبِّ اغفِرلی  وَ تُب عَلَیَّ إنَّکَ أنتَ التَّوّابُ الرَّحیم کا ختم  کر ڈالیے 3125 بار روزانہ پڑھنے سے چالیس دن میں سوا لاکھ اس کا ختم پورا ہو جائے گا۔ 3125 بار 24 گھنٹے میں پورا ہو جانا چاہئے اور بیٹھ کر پڑھنا چاہیے جتنے وقت میں پورا ہو۔
میرے بھائی! آپ نے لکھا ہے کہ مخدوم الملکؒ کے یہاں کی حاضری کی خواہش اور بےچینی بڑھتی جاتی ہے۔ اس کے متعلق میں کیا  لکھوں۔ نماز و روزه ، حج و زکوٰة، دعاء اوروظيفہ سب مناسبت قلبی پیدا کرنے کے ذریعہ ہیں۔ اصل چیز یہی مناسبت ہے جس کو عشق اور محبت سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں ۔ اگر یہ نہ ہوتوسب ریا اور دکھلا وا ہے۔ حضرت شیخنا و مولانا شاہ کمال علی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
جو کچھ ہے سرّ معنی عشق ہے عشق
تمامی کوئے معنی عشق ہے عشق
 ایک جگہ اپنے لیے دعاء فرماتے ہیں۔
الٰہی دل کو نازک اس قدر کر
 کہ موج بوئے گُل ہو تیغ اس پر
 اپنے اضطراب کو ان الفاظ میں ظاہر فرمائے ہیں۔
مرنے کے بعد بھی نہ گیا دل کا اضطراب
 تڑپے  ہے آج تک میری خک مزار دیکھ
 اور اپنے سلسلہ کے بزرگ اپنے شیخ سے محبت یہ سب ذریعہ ہے اللہ تعالی کی محبت کے حاصل ہونے کا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے وابتغوااِلیہ الوسیلة، تلاش کرو اس کی طرف وسیلہ یعنی ذریعہ، فنا فی الشیخ فنا فی الرسول فنا فی اللہ کی منزلیں ہیں۔
حضرت تراب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
تراب اسی پر رہنا تو ثابت قدم
جومرشد تراتجھ سے کہہ سن گیا
اللہ بس باقی ہوس-
فقط والسلام
منصوراحمد فردوسی
رمضان المبارک کی ساتویں شب میں آپ کی طبیعت زیادہ خراب تھی۔ قلب کا عارضہ شدت اختیار کر گیا تھا۔تہجد کا وقت گزر چکا تھا۔ بار بار فجر کی اذان سے متعلق دریافت فرماتے۔ آخری سفر کی تیاریاں مکمل تھیں بس ایک  آخری بار اپنے رب کے حضور آخری سجدے کا انتظار تھا۔ آپ کی بیٹیاں چاروں جانب اپنے شفیق باپ کی چارپائی کی پٹّی پکڑے کھڑی تھیں۔ سب کی آنکھیں نم تھیں ۔اپنے بزرگ باپ کی تیاری ان کی جدائی کی کہانی بیان کر رہی تھی۔8 رمضان المبارک صبح انتظار ختم ہوا فجر کی اذان شروع ہوگئی اتنی شدید تکلیف کے بعد بھی آپ پوری توجہ سے اذان کی جانب متوجہ ہو گئے، لب آہستہ آہستہ ہل رہے تھے۔ یقیناً اپنے رب کی حمد وثنا بیان کر رہے ہو ں گے اور اپنے رسولﷺ پر درود سلام کا نذرانہ پیش کر رہے ہوں گے ۔ آپ ایک سچے عاشق رسولﷺ تھے۔
اذان مکمل ہونے کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھایا۔ شفاعت طلب کرنے کی دعا مکمل ہوئی۔چہرے پر ہاتھ پھیرا اور ہاتھ چہرے سے ڈھلک کر سینے پر آٹکا۔ 8 رمضان المبارک 1415ھ مطابق 9 فروری 1995 بروز پنجشنبہ دنیائے تصوف کی یہ باوقار شخصیت اپنے مالک حقیقی سے جا ملی۔

حضرت مولانا حکیم شاہ منصور احمد فردوسی ؒ


Wednesday, 29 April 2020

Jis Din Se Gayin Hain Woh Maike - Syed Hasan Askari Tariq

شاد کے مصرع 
ڈھونڈو گے مجھے ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
سے ڈاکٹر کلیم عاجز کے
جب پھول اچھالا کرتے تھے اُس بام سے تم اِس بام سے ہم
سے گزر کر جب یہ بحر ایک ”زاہد خوش مزاج“ حضرت سید حسن عسکری طارق ؔ تک پہنچتی ہے تو مزاح کے ایک خاص رنگ میں ڈھل جاتی ہے جس سے لطف اندوز ہوئے بغیر آپ نہیں رہ سکتے۔ سید حسن عسکری طارق نے بیرون ملک اپنی مزاحیہ شاعری کے جوہر خوب دکھائے لیکن اپنے ملک کا ادبی حلقہ اس سے محروم رہا۔ اب ان کے بھتیجے سید ولی حسن قادری نے ان کا مجموعہ کلام ”شگفتہ خاطر“ شائع کرکے اس کمی کو پورا کردیا ہے۔ سید حسن عسکری طارق نے اپنی زندگی کا بڑا عرصہ مدینہ منورہ میں گزارا اور اسی پاک سرزمین پر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور درجات کو بلند کرے۔آمین۔ سید حسن عسکری طارق نے میر، غالب، اقبال، کلیم عاجز اور احمد فراز کی زمینوں پر ایسے ایسے گُل کھلائے کہ دل و دماغ کو معطر کردیا۔ آئیے آپ بھی ان کی شاعری کو پڑھیے، مسکرانے یا قہقہہ لگانے کا فیصلہ آپ کو کرنا ہے لیکن ان کے بیشتر اشعار آپ کو سوچنے پر بھی مجبور کردیتے ہیں۔

جس دن سے گئی ہیں وہ میکے
سید حسن عسکری طارق ؔ

جس دن سے گئی ہیں وہ میکے رہتے ہیں بڑے آرام سے ہم 
سالن کا خیال آتا ہی نہیں کھا لیتے ہیں روٹی جام سے ہم

 جو آنکھ سے دل میں اتری تھی وہ سبز پری اب گھر میں ہے
 اب لوگ نہ مانیں یا مانیں کچھ کم تو نہیں گلفام سے ہم

 اب تو ہے گلی میں سناٹا پھر بھیڑ بہت ہوجائے گی
کچھ دیر تو کھیلیں بڈمنٹن اس بام سے تم اس بام سے ہم

 آغاز محبت کے یہ مزے چھوڑے نہیں جاتے اے ناصح
 جو ہوگا دیکھا جائے گا ڈرنے کے نہیں انجام سے ہم

 جو تیری گلی میں کھائی تھی وہ چوٹ نہیں ہم بھولیں گے
 جب زور کی ٹھنڈک پڑتی ہے کرتے ہیں سینکائی بام سے ہم

 تنہائی بھی تھی وہ بھی تھے مگر اللہ کا ڈر بھی شامل تھا
 ہر چند خطا سے بچ تو گئےلیکن نہ بچے الزام سے ہم

 اے اہل ديار شعروسخن، للہ ہمیں شاعر مانو 
دیکھو نا سنانے اپنی غزل، دوڑے آئے دمام سے ہم

 اک دوست کے گھر ہے اے طارق ؔ، بریانی کی دعوت آج کی شب
 بیٹھے ہیں پجائے منہ اپنا بھوکے ہی گذشتہ شام سے ہم

Tuesday, 28 April 2020

Sheikh Ibrahim Zauq

شیخ ابراہیم ذوق

 اصل نام  محمد ابرہیم تھا ذوق دہلوی کے نام سے مقبول ہوئے۔آپ ایک قصیدہ گو شاعر تھے۔آپ کے والد کا نام  محمد رمضان تھا۔  شاہ نصیر دہلوی، غلام رسول شوق سے شرف تلمذ حاصل کیا۔ دیباچہ دیوان ذوق مرتب آزاد دہلوی کے مطابق ذوق کی تاریخ ولادت22 اگست 1790ء ہے۔ آپ دہلی میں پیدا ہوئے اور دہلی میں ہی16نومبر 1854  بروز جمعرات وفات پائی۔ تکیہ میر کلو، قطب روڈ ، دہلی میں تدفین عمل میں آئی۔
 ذوق کی اہم تصانیف میں بارہ ہزار ۱۲۰۰۰ اشعار پر مشتمل ایک دیوان ہے۔
ایک نا تمام مثنوی نالۂ جہاں سوز یادگارہے ۔
کہتے ہیں کہ ذوق جب تک زندہ رہے ان کے سامنے کسی اور شاعر کا چراغ نہ جل سکا۔ ذوق اپنے عہد کے سب سے مقبول شاعر تھے اور عوامی مقبولیت میں انہوں نےغالب اور مومن جیسے عظیم شاعروں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ ذوق بچپن ہی سے شعر وسخن کا ذوق رکھتے تھے ۔ فطری مناسبت اور کثرت مشق کی بدولت چند ہی دنوں میں مشہور و ممتاز ہو گئے ۔ ذوق کو آخری مغل بادشاہ  بہادر شاہ ظفر کا بھی استاد ہونے کا شرف حاصل تھا۔۔ذوق کو عربی، فارسی کے علاوہ شعرو سخن، علومِ موسیقی ، نجوم ، طب، تعبیرخواب،قیافہ شناسی ، وغیرہ پر کافی دسترس حاصل تھی۔ نہایت ذہین تھے۔ حافظہ قوی تھا۔ طبیعت میں جدت و ندرت تھی۔ ذوق کی یہ شہرت بہت زیادہ دنوں تک قائم نہ رہ سکی اور بعد میں غالب اور مومن کا نام ان سے پہلے لیا جانے لگا۔
ذوق قصیده و غزل کے استاد تھے۔ وہ زبان کے بہت بڑے جوہری اور صنّاع تھے۔ نشست الفاظ، زبان کی صفائی اور پاکیزگی محاورات ، اور امثال کے استعمال میں ان کا جواب نہیں تھا۔ الفاظ کا محل استعمال فن عروض سے کما حقہ واقفیت ، زور تخیل اور بلندی مضامین ، موسیقیت اور غنائیت ان کے کلام کی خصوصیات ہیں ۔ غزلیات میں مختلف شعراء کا رنگ موجود ہے۔ میر درد، جرأ ت ، شاہ نصیر، سودا سبھی کا رنگ نمایاں ہے۔ رعایت لفظی، فن زبان محاورہ اور ضرب المثل کا پورا پورا التزام ہے۔ قصیدے کے وہ بادشاہ ہیں ۔ ان کی وسعت معلومات اورمختلف علوم سے ان کی واقفیت کا اندازہ ان کے تقصیدوں سے  ہوتا ہے۔ زبان کی صفائی تراکیب کی چستی اور نشست الفاظ میں ان کا جواب نہیں۔ ان کے کلام میں حسن و عشق  کے ساتھ ہی اخلاقی و صوفیانہ مضامین بھی  موجود ہیں۔
 نمونہ کلام : 
اگر یہ جانثے چُن چُن کے ہم کوتوڑیں گے
 توگل کبھی نہ تمنائے رنگ و بو کرتے
بقول آزاد انتقال سے تین گھنٹے قبل یہ شعر کہا:
کہتے ہیں ذوق آج جہاں سے گزر گیا
کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے

ذوق کی ایک اور غزل
لائی حیات ا،ئی قضا لے چلی چلے

Shad Azimabadi

شاد عظیم آبادی

نام سیدعلی محمد اورتخلص شاد تھا ۔والد کا نام سیداظہارحسین عرف عباس مرزا  تھا۔شاد 8 جنوری 1846 میں عظیم آباد میں اپنے نانیہالی مکان میں پیدا ہوئے۔
شاد نے اردو و فارسی کے علاوہ عربی کی بھی تعلیم حاصل کی۔ان کی شاعری میں عربیو قرانی تلمیحات سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں عربی پر اچھی دسترس حاصل تھی۔شاد نے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی اور شاعری میں خوب نام کمایا۔
1891 میں حکومت برطانیہ نے” خان بہادر“ کے خطاب سے سرفراز کیا ۔وہ 17 سال تک آنریری مجسٹریٹ رہےاور تاعمرحکومت برطانیہ کے نامزد میونسپل کمشنر رہے۔ ان کاموں کے علاوہ  مختلف تعلیمی اداروں کے ممبرادر کمیٹیوں کے بیر ہوا  رکن  رہے۔ سرکار برطانیہ نے اخیر عمر میں پہلے 600 روپیہ سالانہ کا وظیفہ مقرر کردیا تھا جو بعد میں ایک ہزار روپے ہوگیا۔
 گھوڑ سواری اور تیراکی کاشوق تھاجو اس زمانے کے شرفا کا خاص شوق تھا۔ چالیس سال کی عمر کے بعد یہ اشغال چھوٹ گئے اور تصنیف و تالیف کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔
1897 میں شاد اپنی نانیہال پانی پت گئے۔وہاں نواب نظیر احمد خاں مرحوم کے مہمان رہے۔ واپسی میں دہلی گئے اور حالی کی فرمائش پر علی گڑھ گئے اور سرسید احمد خاں سے ملاقات کی۔ اور 2 دمسبر 1897 کو اسٹریچی ہال میں اپنا مشہور مولود پڑھا۔ 1916 میں امیر مینائی کے شاگرد حفیظ جونپوری کی دعوت پرجومپور گئے اور واپسی میں کانپور میں قیام کرتے ہوئے عظیم آباد واپس آئے۔
 شاد نے بہار میں شاعری اور نثر نگاری کو حیات دوام عطا کیا۔شاد نے عظیم آباد کی ادبی حیثیت کو مستحکم کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔شاد نے نظم و نثر کی چھوٹی بڑی کم و بیش 60 کتابیں چھوڑیں۔ غزلیں ، نظمیں، قطعات، مرثیہ نگاری،مثنوی غرض سبھی اصناف میں شاد نے  طبع آزمائی کی ساتھ ہی ساتھ انہوں نے نثر میں بھی ایک بڑا سرمایہ چھوڑا۔
غزلیات انتخاب کلام شاد مرتبہ حسرت موہانی، کلام شاد مرتبہ قاضی عبدالودود،ریاض عمر،میخانۂ الہام،زیور عرفان، لمعات شاد، مولود مراثی،ظہور رحمت(مولود جو علی گڑھ میں پڑھا گیا۔)، مراثی شاد(جلد اول و دوم)،سروش ہستی وغیرہ شاد کا شعری سرمایہ ہیں۔ نثری سرمایہ  میں تاریخ بہار اور نقش پائیدار کی تین جلدیں شامل ہیں۔ ان کی سوانح حیات ’حیات فریاد‘ کئی بار چھپی۔ ان کے ناول صورت الخیال کو بھی کافی شہرت ملی۔اردو تعلیم، ارض فارس،صورت حال اور نصائح البیان کے علاوہ تذکرہ مردم دیدہ، تذکرة الاسلاف فارسی اورنوائے وطن تحریر کیا۔
اربیہ شرح قصیدہ،عرشیہ، متروکات،قدر کمال، الصرف النحو شاد کی دیگر کتابیں ہیں۔
کلام شاد کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد ان کی شاعری کو چھ حصّوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔رومانی، عرفانی، علم الکلام، فلسفیانہ شاعری،اخلاقی سماجی اور سیاسی شاعری۔ ان تمام تر موضوعات کو شاد نے اپنی غزلوں میں سمو دیا ہے۔
7 جنوری 1927 کو رات گیارہ بجے علم و ادب کا یہ درخشندہ ستارہ غروب ہوگیا۔ ان کا ذاتی مکان جو بعد میں شاد منزل کہلایا ان کا مدفن بنا۔

غزل
شاد عظیم آبادی
ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم 
جو یاد نہ آئے بھول کے پھر اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم 

میں حیرت و حسرت کا مارا خاموش کھڑا ہوں ساحل پر 
دریائے محبت کہتا ہے آ کچھ بھی نہیں پایاب ہیں ہم 

ہو جائے بکھیڑا پاک کہیں پاس اپنے بلا لیں بہتر ہے 
اب درد جدائی سے ان کی اے آہ بہت بیتاب ہیں ہم 

اے شوق برا اس وہم کا ہو مکتوب تمام اپنا نہ ہوا 
واں چہرہ پہ ان کے خط نکلا یاں بھولے ہوئے القاب ہیں ہم 

کس طرح تڑپتے جی بھر کر یاں ضعف نے مشکیں کس دیں ہیں 
ہو بند اور آتش پر ہو چڑھا سیماب بھی وہ سیماب ہیں ہم 

اے شوق پتا کچھ تو ہی بتا اب تک یہ کرشمہ کچھ نہ کھلا 
ہم میں ہے دل بے تاب نہاں یا آپ دل بے تاب ہیں ہم 

لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں منزل پہ پہنچتے ہیں دو ایک 
اے اہل زمانہ قدر کرو نایاب نہ ہوں کم یاب ہیں ہم 

مرغان قفس کو پھولوں نے اے شادؔ یہ کہلا بھیجا ہے 
آ جاؤ جو تم کو آنا ہو ایسے میں ابھی شاداب ہیں ہم 

غزل
شاد عظیم آبادی

تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں 
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں 

ہوں اس کوچے کے ہر ذرے سے آگاہ 
ادھر سے مدتوں آیا گیا ہوں 

نہیں اٹھتے قدم کیوں جانب دیر 
کسی مسجد میں بہکایا گیا ہوں 

دل مضطر سے پوچھ اے رونق بزم 
میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں 

سویرا ہے بہت اے شور محشر 
ابھی بے کار اٹھوایا گیا ہوں 

ستایا آ کے پہروں آرزو نے 
جو دم بھر آپ میں پایا گیا ہوں 

نہ تھا میں معتقد اعجاز مے کا 
بڑی مشکل سے منوایا گیا ہوں 

لحد میں کیوں نہ جاؤں منہ چھپا کر 
بھری محفل سے اٹھوایا گیا ہوں 

عدم میں کیوں نہ جاؤں منہ چھپائے 
بھری محفل سے اٹھوایا گیا ہوں 

کجا میں اور کجا اے شادؔ دنیا 
کہاں سے کس جگہ لایا گیا ہوں

Ae Ishq Hamein Barbaad Na Kar - Akhtar Shirani


 live nor die
 اے عشق ہمیں برباد نہ کر
اختر شیرانی

اے عشق نہ چھیڑ آ آ کے ہمیں ، ہم بھولے ہوؤں کو یاد  نہ کر
 پہلے ہی بہت ناشاد ہیں ہم ، تو اور ہمیں  ہمیں ناشاد نہ کر
 قسمت کا ستم ہی کم نہیں کچھ، یہ تازہ ستم ایجاد نہ کر
یوں ظلم نہ کر بیداد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر 

جس دن سے ملے ہیں دونوں کا سب چین گیا، آرام گیا
 چہروں سے بہار صبح گئی ، آنکھوں سے فروغ شام گیا
 ہاتھوں سے خوشی کا جام چھُٹا، ہونٹوں سے ہنسی کا نام گیا
غمگیں نہ بنا، ناشاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر

 ہم راتوں کواٹھ کر روتے ہیں، رو رو کے دعائیں کرتے ہیں
 آنکھوں میں تصوّر دل میں خلش، سردھُنتے ہیں آہیں بھرتے ہیں
 اے عشق یہ کیساروگ لگا، جیتے ہیں نہ ظالم مرتے ہیں
یہ ظلم تو اے جلّاد نہ کر
 اے عشق ہمیں برباد نہ کر

یہ روگ لگا ہے جب سے ہمیں، رنجیدہ ہوں میں، بیمار ہے وہ
ہر وقت تپش، ہروقت خلش بیخواب ہوں میں بیدار ہے وہ
 جینے سے اِدھربیزار ہوں میں، مرنے پر ادھر تيار ہے وہ
اور ضبط کہے، فریاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر 

اے عشق خدارا دیکھ کہیں وہ شوخ حزیں بدنام نہ ہو
 وہ ماہ لقا بدنام نہ ہو، وہ زہرہ جبیں بدنام نہ ہو
 ناموس کا اُس کے پاس رہے، وہ پردہ نشیں بدنام نہ ہو
اس پردہ نشیں کو یاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر

 آنکھوں کو یہ کیا آزار ہوا ، ہرجذبِ نہاں پر رو دینا
 آہنگِ طرب پر جھک جانا ، آوازِ فغان پر رو دینا
 بربط کی صدا پررو دینا ، مُطرب کے بیاں پر رو دینا
احساس کو غم بنیاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر

Ek Jurm Hua Hai Hum Se - Rashida Khan

اک جرم ہوا ہے ہم سے
راشدہ خان

اک جرم ہوا ہے ہم سے
’اک یار بنا بیٹھے ہیں‘
کچھ اپنا اس کو سمجھ کر
’سب راز بتا بیٹھے ہیں‘
پھر اس کی پیار کی راہ میں
’دل و جان گنوا بیٹھے ہیں‘
وہ یاد بہت آتے ہیں
’جو ہم کوبھلا بیٹھے ہیں‘




Monday, 27 April 2020

Tahir Usmani - A proud ِSufi of Silsila e Firdausia

سلسلہ فردوسیہ کی ایک باوقار شخصیت
حضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسیؒ کے وصال پر ممتاز شخصیتوں کا اظہار تعزیت

10 فروری 2005
خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ، سملہ ضلع اورنگ آباد ( بہار) کے معمر اور بزرگ سجادہ نشیں ، پیر طریقت طبیب حاذق اور معروف صحافی تحسین عثمانی کے والد ماجد حضرت مولانا حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسی کی وفات پر ملک کی ممتاز شخصیتوں نے اظہار تعزیت کیا ۔
حضرت مولانا حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوی کا وصال 4 جنوری 2005 کو رات کے آخری پہر کولکتہ میں ہوا۔ وہ اپنے سنجھلے صاحبزادے مولانا شاہ تسنیم عثمانی فردوسی کو حج بیت اللہ کے لئے رخصت کرنے گئے تھے۔ آپ صاحب تصنیف و تالیف بزرگ تھے۔ حضرت مخدوم جہاں مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیری کے ملفوظ ”راحت القلوب“ کا ترجمہ آپ نے ہی فرمایا تھا۔ آپ کو شاعری کا بھی شغف حاصل رہا اور 60 کی دہائی میں آپ کی نظمیں اور غزلیں ملک بھر کے نامور جرائد و رسائل میں انتہائی آب و تاب سے شائع ہوتی رہیں۔ آپ ابتدا میں ندیم اور پھر تاج العرفان تخلص فرماتے تھے۔ آپ نے حمد، نعت، منقبت اور دیگر اصناف شاعری میں بھی طبع آزمائی کی۔
آپ کی وفات پر تعزیت کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا سیّد رابع حسنی ندوی نے فرمایا کہ آج بہار اپنی ایک عظیم شخصیت سے محروم ہو گیا۔
حضرت مخدوم جہاں مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیٰ  منیریؒ کی خانقاہ معظم بہار شریف کے سجاده نشیں حضرت مولانا سید شاد محمد سيف الدين فردوسی اور خانقاه منعمیہ میتن گھاٹ ،پٹنہ کے سجادہ نشیں حضرت سید شاہ شمیم الدین ا حمد منعمی نے آپ کے وصال کو دنیائے تصوف و انسانیت کا عظیم نقصان قرار دیا۔
آستانہ مخدوم حسین نوشۂ توحید بلخی فردوسیؒ کے سجادہ نشیں محمد علی ارشد شرفی البلخی نے فرمایا کے حضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسیؒ سلسلہ فردوسیہ کی شان، محبوب بارگاه مخدوم جہاں، گو ہر تاج مجیبی، گل گلزارکبیری ، نمونه سلف، قاسم فیضان شرف ، برکت العصر اور مرشد وقت تھے۔ ایسے وقت میں جبکہ ہر طرف اکابر شخصیتوں سے خانقاہیں خالی ہوتی جا رہی ہیں ایک اور مربّی کا رخصت ہوجانا نہ صرف سلسلہ فردوسیہ بلکہ امت مسلمہ کا بہت بڑا نقصان ہے۔
خانقاہ حسینیہ اشرفیہ ، کچھوچھہ شریف کے مولانا سید ابو امیر جیلانی اشرف نے حضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسیؒ سے اپنے دیرینہ  تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے بندگان خدا کی فکری و روحانی تربیت کے لئے آپ کی خدمات کو یاد کیا۔
سی آئی ای ایف ایل کے شعبہ عربی کے صدر پروفیسرمحسن عثمانی نے فرمایا کہ اللہ تعالی آپ کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے ۔ ان کی نیکیاں ، ذکر عبادت جو آخرت کے اکاونٹ میں جمع ہوچکی تھیں اب کام آئیں گی۔ اسلامک فقہ اکیڈمی کے جنرل سکریٹری امین عثمانی نے حضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسیؒ کے انتقال پر اپنے دلی صدمہ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ محترم گوناگوں صفات کے حامل تھے۔ حسن سلوک ، بڑوں کی تکریم و عزت، منکسر المزاجی ، رواداری اور تواضع، مہمانوں کی ضیافت، بیماروں کی تیمار داری و علاج، اعزاء کی خبر گیری، یہ سب ان کی امتیازی شان تھی ۔ وہ نرم دلی و رقت قلبی کے ساتھ ساتھ محبت الہی سے سرشار دل رکھنے والے تھے۔ انہوں نے اکابر صوفیا کی روش پر چلتے ہوئے عزیمت کے ساتھ اپنی ساری عمر گزار دی۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی قبروں کو نور سے بھر دےاور انہیں بلند مقام عطا کرے ۔
ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی صدر شعبہ اردو انجمن آرٹس سائنس اینڈ کامرس کالج بھٹکل نے کہا کے آپ کی ذات خلوص ومحبت، ہمدردی ، نرمی ،خوش مزاجی اور رواداری کا مجموعہ تھی۔ آپ خاندان کی روش اور روایت کے مطابق ایک جمالی بزرگ تھے۔
دفتر امارت شرعیہ، پھلواری شریف پٹنہ میں ایک تعزیتی نشست میں حضرت امیر شریعت مولانا سید نظام الدین صاحب نے حضرت حکیم شاہ محمد طاہر عثمانی فردوسیؒ کی رحلت پر اپنے دلی صدمے کا اظہار کیا اور فرمایا کہ حضرت حکیم صاحب بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔ وہ عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ شیخ طریقت اور طبیبِ حاذق بھی تھے۔ امارت شرعیہ سے ان کا بڑا گہرا اور قدیم تعلق تھا ۔ قاضی مجاہد الاسلام قاسمی اور میں خود متعدد باران کے دولت کدہ پر تشریف لے جا چکا ہوں۔ وہ بڑے خلیق اور وضع دار انسان تھے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے ۔
ناظم امارت شرعیہ مولانا انیس الرحمٰن صاحب قاسمی نے اپنے تعزیتی پیغام میں فرمایا کہ حکیم صاحب بڑے خوش مزاج ، ملنسار ، متواضع اور شریف الطبع انسان تھے۔ تعزیتی نشست سے مولانا مفتی ثناء الهدی قاسمی، نائب ناظم امارت شرعیہ ، مولانا مفتی جنید عالم قاسمی، مولانا مفتی سہیل احمد قاسمی ،جناب مرزا حسین بیگ، جناب سمیع الحق، مولانا رضوان احمد ندوی اور دوسرے حضرات نے بھی خطاب کیا اور اپنے دلی صدمہ کا اظہار کیا۔
حضرت حکیم شاہ محمد  طاہر عثمانی فردوسیؒ کے مریدین و متوسلین اور معتقدین کا حلقہ بہار، جھارکھنڈ اور مغربی بنگال میں کافی دور دور تک پھیلا ہوا ہے۔ آپ کی نمازِ جنازہ میں 30 سے 35 ہزار افراد شریک تھے۔ نمازِ جنازہ سے قاتحہ چہلم تک آپ کے بڑے صاحبزادے شاہ صہیب عثمانی نے اپنی والدہ محترمہ کی دعاؤں کے سایہ میں اس عظیم صدمہ کے باوجود بڑی ہمت اور ثابت قدمی سے خانقاہ کی روایت کے مطابق تمام رسومات کی ادائیگی کی ۔ فریضۂ حج کی ادائیگی سے واپسی کے بعد حضرت شاہ تسنیم عثمانی فردوسی مدظلہ العالی کی رجب عرس کے موقع پر سجادگی عمل میں آئی۔
(بہ شکریہ ویوز ٹائمز)

خوش خبری