آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Saturday, 10 October 2020

Do Bail By Munshi Prem Chand

دو بیل
منشی پریم چند
جانور وں میں گدھا سب سے بیوقوف سمجھا جاتاہے۔ جب ہم کسی شخص کوپرلے درجہ کا احمق کہنا چاہتے ہیں تو اسے گدھا کہتے ہیں۔ گدھاواقعی بیوقوف ہے۔ یا اس کی سادہ لوحی اور انتہا درجہ کی قوتِ برداشت نے اسے یہ خطاب دلوایا ہے۔ اس کا تصفیہ نہیں ہوسکتا۔ 

گائے شریف جانور ہے۔ مگر سینگ مارتی ہے۔ کتّا بھی غریب جانور ہے لیکن کبھی کبھی اسے غصّہ بھی آجاتا ہے۔ مگر گدھے کو کبھی غصّہ نہیں آتا جتنا جی چاہے مارلو۔چاہے جیسی خراب سڑی ہوئی گھاس سامنے ڈال دو۔ اس کے چہرے پر ناراضگی کے اثار کبھی نظر نہ آئیں گے۔ اپریل میں شاید کبھی کلیل کرلیتا ہو۔ پر ہم نے اسے کبھی خوش ہوتے نہیں دیکھا۔ اس کے چہرے پر ایک مستقل مایوسی چھائی رہتی ہے سکھ دکھ،نفع نقصان سے کبھی اسے شاد ہوتے نہیں دیکھا۔ رشی منیوں کی جس قدر خوبیاں ہیں۔ سب اس میں بدرجہ اتم موجود ہیں لیکن آدمی اسے بیوقوف کہتاہے۔ اعلیٰ خصلتوں کی ایسی توہین ہم نے اور کہیں نہیں دیکھی۔ممکن ہے دنیا میں سیدھے پن کے لیے جگہ نہ ہو۔ 

لیکن گدھے کا ایک بھائی اور بھی ہے۔ جو اس سے کچھ کم ہی گدھا ہے اور وہ ہے بیل، جن معنوں میں ہم گدھے کا لفظ استعمال کرتے ہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں۔ جو بیل کو بیوقوفوں کا سردار کہنے کو تیار ہیں۔ مگر ہمارا خیال ایسا نہیں۔بیل کبھی کبھی مارتا۔ کبھی کبھی اڑیل بیل بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔ اور کبھی کئی طریقوں سے وہ اپنی ناپسندیدگی اور ناراضگی کا اظہار کردیتا ہے۔ لہذٰ اس کا درجہ گدھے سے نیچے ہے۔ 

جھوری کاچھی کے پاس دو بیل تھے۔ ایک کا نام ہیرا تھا دوسرے کا موتی۔دونوں پچھائیں نسل کے تھے۔ دیکھنے میں خوبصورت کام میں چوکس ڈیل ڈول میں اونچے۔ بہت دنوں سے ایک ساتھ رہتے رہتے دونوں میں محبت سی ہوگئی۔ دونوں آمنے سامنے یا ایک دوسرے کے پاس بیٹھے زبانِ خاموش میں ایک دوسرے سے بات چیت کرتے تھے وہ ایک دوسرے کے دل کی بات کیوں کر سمجھ جاتے تھے۔ یہ ہم نہیں کہہ سکتے۔ضروران میں کوئی نہ کوئی ناقابلِ فہم قوت تھی۔ جس کے سمجھنے سے اشرف المخلوقات ہونے کا مدعی انسان محروم ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو چاٹ کر اور سونگھ کر اپنی محبت کا اظہار کرتے تھے۔ کبھی دونوں سینگ ملالیا کرتے تھے۔ عناد سے نہیں محض زندہ دلی سے محض ہنسی مذاق سے جیسے یار دوستوں میں کبھی کبھی دھول دھپّا ہو جاتا ہے۔ اس کے بغیر دوستی کچھ پھیکی اور ہلکی سی رہتی ہے۔ جس پر زیادہ اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ 

جس وقت یہ دونوں بیل ہل یا گاڑی میں جوتے جاتے اور گردنیں ہلاہلا کر چلتے تو ہر ایک کی یہی کوشش ہوتی تھی کہ زیادہ بوجھ میر ی ہی گردن پر رہے۔ کام کے بعد دوپہر یا شام کو کھلتے، تو ایک دوسرے کو چوم چاٹ کر اپنی تھکان اتار لیتے ۔ ناند میں کھلی بھوسا پڑجانے کے بعد دونوں ایک ساتھ اٹھتے۔ ایک ساتھ ناند میں منہ ڈالتے اور ایک ہی ساتھ بیٹھتے ایک منہ ہٹا لیتا تو دوسرا بھی ہٹا لیتا تھا۔ 

ایک مرتبہ جھوری نے دونوں بیل چند دنوں کے لیے اپنے سسرال بھیجے، بیلوں کو کیا معلوم وہ کیوں بھیجے جاتے ہیں۔ سمجھے مالک نے ہمیں بیچ دیا کون جانے بیلوں کو اپنا بیچا جانا پسندآیا یا نہیں۔ لیکن جھوری کے سالے کو انھیں اپنےگاؤں تک لے جانے میں دانتوں پسینہ آگیا۔ پیچھے سے ہانکتا تو دونوں دائیں بائیں بھاگتے۔ آگے سے پکڑکر کھینچتا تو دونوں پیچھے کو زور لگاتے۔مارتا تو دونوں سینگ نیچے کرکے پھنکارتے۔ اگر ان بے زبانوں کے زبان ہوتی تو جھوری سے پوچھتے تم نے ہم غریبوں کو کیوں نکال دیا۔ ہم نے تمھاری خدمت کرنے میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔ اگر اتنی محنت سے کام نہ چلتا تھا ۔ تو اور کام لے لیتے۔ ہم کو انکار نہ تھا۔ ہمیں تمھاری خدمت میں مرجانا قبول تھا۔ ہم نے کبھی دانے چارے کی شکایت نہیں کی۔ تم نے جو کچھ کھلایا سر جھکا کر کھالیا۔ پھر تم نے ہمیں اس ظالم کے ہاتھ کیوں بیچ دیا؟ 

شام کے وقت دونوں بیل گیاکےگاؤںمیں جا پہنچے دن بھر بھوکے تھے۔ لیکن جب ناند میں لگائے تو کسی نے بھی اس میں منہ نہ ڈالا۔ دونوں کا دل بھاری ہورہا تھا۔جسے انھوں نے اپنا گھر سمجھا تھا وہ آج ان سے چھوٹ گیا یہ نیا گھر نیاگاؤں نئے آدمی سب انھیں بے گانے لگتے تھے۔ دونوں نے چپ کی زبان میں کچھ باتیں کیں۔ ایک دوسرے کو کنکھیوں سے دیکھا اورلیٹ گئے۔ 

جب گاؤںمیں سوتا پڑگیا تو دونوں نے زور مار کر پگہتے تڑالیے اور گھر کی طرف چلے۔ پگہے مضبوط تھے کسی کو شبہہ بھی نہ ہوسکتا تھا کہ بیل انھیں توڑ سکیں گے پر ان دونوں میں اس وقت دگنی طاقت آگئی تھی۔ ایک جھٹکے میں رسیاں ٹوٹ گئیں۔ 

جھوری نے صبح اٹھ کردیکھاکہ دونوں بیل چرنی پر کھڑے تھے دونوں کی گردنوں میں آدھا آدھارسّہ لٹک رہا تھا۔ گھٹنوں تک پاؤں کیچڑ میں بھرے ہوئے تھے اور دونوں کی آنکھوں میں محبت اور ناراضگی جھلک رہی تھی۔جھوری ان کو دیکھ کر محبت سے باؤ لا ہوگیا۔ اور دوڑکر ان کے گلے سے لپٹ گیا انسان اور حیوان کی محبت کا یہ منظر نہایت دلکش تھا۔ 

گھر اورگاؤں کے لڑکے جمع ہوگئے اور تالیاںبجا بجا کران کا خیر مقدم کرنے لگے۔گاؤںکی تاریخ میں یہ واقعہ اپنی قسم کا پہلا نہ تھا۔ مگر اہم ضرور تھا۔ بال سبھا نے فیصلہ کیا کہ ان دونوں بہادروں کا ایڈریس دیا جائے۔ کوئی اپنے گھر سے روٹیاں لایا۔ کوئی گُڑ چوکر، کوئی بھوسی۔ 

ایک لڑکے نے کہا، ’’ایسے بیل اور کسی کے پاس نہ ہوں گے۔‘‘ 

دوسرے نے تائید کی، ’’اتنی دور سے دونوں اکیلے چلے آئے۔‘‘ 

تیسرا بولا، ’’پچھلے جنم میں ضرور آدمی ہوں گے۔‘‘ 

اس کی تردید کرنے کی کسی میں جرأت نہ تھی۔ سب نے کہا، ’’ہاں بھائی ضرور ہوں گے۔‘‘ 

جھوری کی بیوی نے بیلوں کودروازہ پر دیکھا تو جل اٹھی اور بولی، ’’کیسے نمک حرام بیل ہیں ایک دن بھی وہاں کام نہ کیا۔ اور بھاک کھڑے ہوئے۔‘‘ 

جھوری اپنے بیلوں پر یہ الزام برداشت نہ کرسکا۔ بولا، ’’نمک حرام کیوں ہیں۔ چارہ دانہ نہ دیا ہوگا کیا کرتے؟‘‘ 

عورت نے تنگ آکر کہا،’’بس تم ہی بیلوں کو کھلانا جانتے ہو اور تو سبھی پانی پلا پلا کر رکھتے ہیں۔‘‘ 

جھوری نے چڑھا یا، ’’چارہ ملتا ‘ تو کیوں بھاگتے؟‘‘ 

عورت چڑھی، ’’بھاگے اس لیے کہ وہ لوگ تم جیسے بدھوؤں کی طرح بیلوں کو سہلاتے نہیں کھلاتے ہیں، تو، توڑ کر جوتتے بھی ہیں، یہ دونوں ٹھہرے کام چور بھاگ نکلے۔ اب دیکھتی ہوں کہاں سے کھلی اور چوکر آتا ہے خشک بھوسے کے سوا کچھ نہ دوں گی کھائیں چاہے مریں۔‘‘ 

وہی ہوا مزدور کو تاکید کردی گئی کہ بیلوں کوصرف خشک بھوسا دیا جائے، بیلوں نے ناند میں منہ ڈالا تو پھیکا پھیکا، نہ چکناہٹ نہ رس کیا کھائیں؟ پر امید نگاہوں سے دروازے کی طرف دیکھنے لگے۔ 

جھوری نے مزدور سے کہا، ’’تھوڑی سی کھلی کیوں نہیں ڈال دیتا ہے؟‘‘ 

مزدور؛ ’’مالکن مجھے مارہی ڈالے گی۔‘‘ 

جھوری؛ ’’ڈال دے تھوڑی سی۔‘‘ 

مزدور؛ ’’نہ دادا۔ بعد میں تم بھی انھیں کی سی کہو گے۔‘‘ 

دوسرے دن جھوری کا سالا پھر آیا اور بیلوں کو لے چلا۔ اب کے اس نے دونوں کو گاڑی میں جوتا۔ دوچار مرتبہ موتی نے گاڑی کو کھائی میں گرانا چاہا مگر ہیرا نے سنبھال لیا۔اس وقت دونوں میں قوتِ برداشت زیادہ تھی۔ شام کے وقت گھر پہنچ کر گیا نے دونوں کو موٹی رسیوں سے باندھا اور کل کی شرارت کا مزہ چکھایا پھر وہی خشک بھوسہ ڈال دیا۔ اپنے بیلوں کو کھلی چونی سب کچھ کھلایا۔ 

ہیرا اور موتی اس برتاؤ کے عادی نہ تھے۔جھوری انھیں پھول کی چھڑی سے بھی نہ مارتا تھااس کی آواز پر دونوں اڑنے لگتے تھے۔ یہاں مار پڑی اس پر خشک بھوسہ۔ ناند کی طرف آنکھ بھی نہ اٹھائی۔ 

دوسرے دن گیا نے بیلوں کو ہل میں جوتا پران دونوں نے جیسے پاؤ ں اٹھانے کی قسم کھالی تھی۔ وہ مارتے مارے تھک گیا۔ مگر انھوں نے قدم نہ اٹھایا۔ ایک مرتبہ جب اس ظالم نے ہیرا کی ناک پر ڈنڈا جمایا تو موتی غصّہ کے مارے آپے سے باہرہوگیا۔ ہل لے بھاگا، ہل رسی اور جواجوت سب ٹوٹ کر برا بر ہوگئے۔ گلے میں بڑی بڑی رسیاں نہ ہوتیں ، تو دونوں نکل گئے تھے۔ ہیرا نے زبان خاموش سے کہا، ’’بھاگنا مشکل ہے۔‘‘ 

موتی نے بھی نگاہوں سے جواب دیا، ’’تمھاری تو اس نے جان لے لی تھی۔اب کے بڑی مار پڑے گی۔‘‘ 

ہیرا؛ ’’پڑنے دو۔ بیل کا جنم لیا ہے تو مار سے کہاں بچیں گے۔‘‘ 

گیا دو آدمیوں کے ساتھ دوڑا آرہا ہے۔ دونوں کے ہاتھوں میں لاٹھیاں ہیں۔ 

موتی؛ ’’کہو تو میں بھی دکھادوں کچھ مزا؟ 

ہیرا، ’’نہیں بھائی کھڑے ہوجاؤ۔‘‘ 

موتی، ’’مجھے مارے گا، تو میں ایک آدھ کو گرادوں گا۔‘‘ 

ہیرا، ’’یہ ہمارا دھرم نہیں ہے۔‘‘ 

موتی دل میں اینٹھ کر رہ گیا۔ اتنے میں گیا آپہنچا اور دونوں کو پکڑکر لے چلا۔خیریت ہوئی کہ اس نے اس وقت مارپیٹ نہ کی۔ نہیں تو موتی بھی تیار تھا۔ اس کے تیور دیکھ کر سہم گیا اور اس کے ساتھی سمجھ گئے کہ اس وقت ٹال جانا ہی مصلحت ہے۔ 

آج دونوں کے سامنے پھر وہی خشک بھوسا لایا گیا۔ دونوں چپ چاپ کھڑے رہے۔ گھر کے لوگ کھانا کھانے لگے۔ اسی وقت ایک چھوٹی سی لڑکی دو روٹیاں لیے نکلی اور دونوں کے منہ میں دے کر چلی گئی۔ اس ایک ایک روٹی سے ان کی بھوک تو کیا مٹتی مگر دونوں کے دل کو کھانا مل گیا۔ معلوم ہوا۔ یہاں بھی کوئی صاحب دل رہتا ہے یہ لڑکی گیا کی تھی اس کی ماں مر چکی تھی۔ سوتیلی ماں اسے مارتی تھی اس لیے ان بیلوں سے اسے ہمدردی تھی۔ 

دونوں دن بھر جوتے جاتے۔ اڑتے ، ڈنڈے کھاتے۔شام کو تھان پر باندھ دیے جاتے اوررات کو وہی لڑکی انھیں ایک ایک روٹی دے جاتی۔ محبت کے اس کھانے کی یہ برکت تھی، کہ دوچار خشک بھوسے کے لقمے کھاکر بھی دونوں کمزور نہ ہوتے تھے۔ دونوں کی آنکھوں کی نس نس میں سرکشی بھری تھی۔ 

ایک دن چپ کی زبان میں موتی نے کہا، ’’اب تو نہیں سہا جاتا ہیرا۔‘‘ 

ہیرا؛ ’’کیاکرنا چاہیے؟‘‘ 

موتی؛ ’’گیا کو سینگ پر اٹھاکر پھینک دوں؟‘‘ 

ہیرا؛ ’’مگر وہ لڑکی اس کی بیٹی ہے اسے مار کر گراؤ گے تووہ یتیم ہوجائے گی۔‘‘ 

موتی؛ ’’تومالکن کو پھینک دوں، وہ لڑکی کو ہر روز مارتی ہے۔‘‘ 

ہیرا؛ ’’عورت کو ماروگے بڑے بہادر ہو۔‘‘ 

موتی؛ ’’تم کسی طرح نکلنے ہی نہیں دیتے تو آؤآج رسّا تڑاکر بھاگ چلیں۔‘‘ 

ہیرا؛ ’’ہاں یہ ٹھیک ہے لیکن ایسی موٹی رسّی ٹوٹے گی کیونکر۔‘‘ 

موتی ؛ ’’پہلے رسّی کو چبالو پھر جھٹکا دے کر تڑالو۔‘‘ 

رات کو جب لڑکی روٹیاں دے کر چلی گئی۔ دونوں رسّیاں چبانے لگے۔ پرموٹی رسّی منہ میں نہ آتی تھی۔ بچارے بار بار زور لگاکر رہ جاتے۔ 

معاًگھر کا دروازہ کھلا اور وہی لڑکی نکلی دونوں سر جھکا کر اس کے ہاتھ چاٹنے لگے۔ دونوں کی دُمیں کھڑی ہوگئیں۔ اس نے ان کی پیشانی سہلائی اور بولی، ’’کھول دیتی ہوں۔ بھاگ جاؤ۔ نہیں تو یہ لوگ تمھیں مارڈالیں گے۔آج گھر میں مشہور ہورہا ہے کہ تمھاری ناک میں ناتھ ڈال دی جائیں۔‘‘ 

اس نے دونوں کے رسّے کھول دیے، پر دونوں چپ چاپ کھڑے رہے۔ 

موتی نے اپنی زبان میں پوچھا، ’’اب چلتے کیوں نہیں؟‘‘ 

ہیرا نے جواب دیا، ’’اس غریب پر آفت آجائے گی۔ سب اسی پر شبہہ کریں گے۔‘‘ 

یکایک لڑکی چلّائی او دادا۔اودادا۔دونوں پھوپھاوالے بیل بھاگے جارہے ہیں۔ دوڑو۔ دونوں بیل بھاگے جارہے ہیں۔‘‘ 

گیا گھبرا کر باہر نکلا اور بیلوں کو پکڑنے چلا۔ بیل بھاگے گیا نے پیچھا کیا وہ اور بھی تیز ہوگئے۔ گیا نے شور مچایا پھرگاؤں کے کچھ اور آدمیوں کو ساتھ لانے کے لیے لوٹا۔ دونوں بیلوں کو بھاگنے کاموقع مل گیا۔ سیدھے دوڑے چلے گئے یہاں تک کہ راستہ کا خیال نہ رہا۔ جس راہ سے یہاں آئے تھے اس کا پتہ نہ تھا نئے نئےگاؤں ملنے لگے۔ تب دونوں ایک کھیت کے کنارے کھڑے ہوکر سوچنے لگے۔ کہ اب کیا کرنا چاہیے؟ 

ہیرا نے اپنی زبان میں کہا، ’’معلوم ہوتا ہے راستہ بھول گئے۔‘‘ 

موتی؛ ’’تم بھی بے تحاشا بھاگے وہیں اسے مار گراتے۔‘‘ 

ہیرا؛ ’’اسے مارگراتے تو دنیا کیا کہتی وہ اپنا دھرم چھوڑدے لیکن ہم اپنا دھرم کیونکر چھوڑدیں۔‘‘ 

دونوں بھوک سے بے حال ہورہے تھے۔ کھیت میں مٹر کھڑی تھی چرنے لگے۔رہ رہ کر آہٹ لے رہے تھے کہ کوئی آ تو نہیں رہا۔ جب پیٹ بھر گیا اور دونوں کو آزادی کا احساس ہوا تو اچھلنے کودنے لگے۔ پہلے ڈکار لی پھر سینگ ملائے اور ایک دوسرے کو دھکیلنے لگے۔ موتی نے ہیرا کو کئی قدم پیچھے ہٹادیا۔ یہاں تک کہ وہ ایک کھائی میں گر گیا۔تب اسے بھی غصّہ آیا سنبھل کر اٹھا اور پھر موتی سے لڑنے لگا۔ موتی نے دیکھا کہ کھیل میں جھگڑا ہو اچاہتا ہے تو ایک طرف ہٹ گیا۔ 

ارے یہ کیا کوئی سانڈڈونکتا چلا آتا ہے۔ ہاں سانڈہی تو ہے وہ سامنے آپہنچا دونوں دوست تذبذب میں پڑگئے۔ سانڈ بھی پورا ہاتھی۔ اس سے لڑنا جان سے ہاتھ دھونا تھا لیکن نہ لڑنے سے بھی جان بچتی نظر نہ آتی تھی۔ انھیں کی طرف آرہا تھا کتنا جسیم تھا۔ 

موتی نے کہا، ’’بُرے پھسے جان کیسے بچے گی؟ کوئی طریقہ سوچو۔‘‘ 

ہیرا نے کہا، ’’غرور سے اندھا ہورہا ہے منّت سماجت کبھی نہ سنے گا۔‘‘ 

موتی؛ ’’بھاگ کیوں نہ چلیں؟‘‘ 

ہیرا؛ ’’بھاگنا پست ہمتی ہے۔‘‘ 

موتی؛ ’’تو تم یہیں مروبندہ نودوگیارہ ہوتا ہے۔‘‘ 

ہیرا؛ ’’اور جودوڑآئے تو پھر۔؟‘‘ 

موتی؛ ’’کوئی طریقہ بتاؤ۔ لیکن ذرا جلدی۔ وہ تو آپہنچا۔‘‘ 

ہیرا؛ ’’ طریقہ یہی ہے کہ ہم دونوں ایک ساتھ حملہ کردیں۔ میں آگے سے اس کو دھکیلوں تم پیچھے سے دھکیلو۔ دیکھتے دیکھتے بھاگ کھڑا ہوگا۔ جوں ہی مجھ پر حملہ کرے تم پیٹ میں سینگ چبھودینا۔ جان جوکھوں کا کام ہے۔ لیکن دوسرا کوئی طریقہ نہیں۔‘‘ 

دونوں دوست جان ہتھیلیوں پر لے کر آگے بڑھے سانڈ کو کبھی منظّم دشمن سے لڑنے کا اتفاق نہ ہوا تھا۔ وہ انفرادی جنگ کا عادی تھا جوں ہی ہیرا پرجھپٹتا موتی نے پیچھے سے ہلّہ بول دیا۔ سانڈ اس کی طرف مڑا تو ہیرا نے دھکیلنا شروع کیا۔ سانڈ چاہتا تھا ایک ایک کرکے دونوں کر گرالے۔ پھر یہ بھی استاد تھے اسے یہ موقعہ ہی نہ دیتے تھے۔ ایک مرتبہ سانڈ جھلّا کر ہیرا کو ہلاک کرنے چلا۔ تو موتی نے بغل سے آکر اس کے پیٹ میں سینگ رکھ دیے۔ بے چارہ زخمی ہوکر بھاگا اور دونوں فتحیاب دوستوں نے دور تک اس کا تعاقب کیا۔ یہاں تک کہ سانڈ بے دم ہوکر گر پڑا۔ تب دونوں نے اس کا پیچھا چھوڑدیا۔ 

دونوں بیل فتح کے نشہ میں جھومتے چلے جاتے تھے۔ موتی نے اپنے اشاروں کی زبان میں کہا، ’’میرا جی تو چاہتا تھا کہ ہتچہ جی کو مار ہی ڈالوں۔‘‘ 

ہیرا۔’’گرے ہوئے دشمن پر سینگ چلانا نا مناسب ہے۔‘‘ 

موتی؛ ’’یہ سب فضول ہے اگر اس کاداؤ چلتا تو کبھی نہ چھوڑتا۔‘‘ 

ہیرا؛ ’’اب کیسے گھر پہنچوگے؟یہ سوچو۔‘‘ 

موتی ؛ ’’پہلے کچھ کھالیں تو سوچیں ابھی عقل کام نہیں کرتی۔‘‘ 

یہ کہ کر موتی مڑکے کھیت میں گھس گیا ہیرا منع کرتا ہی رہ گیا لیکن اس نے ایک نہ سنی۔ابھی دو ہی چار منہ مارے تھے کہ دوآدمی لاٹھیاں لیے آگئے اور دونوں بیلوں کو گھیر لیا۔ ہیرا تو مینڈ پر تھا۔ نکل گیا موتی کھیت میں تھا۔ اس کے کُھر کیچڑ میں دھنسنے لگے نہ بھاگ سکا۔ پکڑا گیا۔ ہیرا نے دیکھا دوست تکلیف میں ہے تو لوٹ پڑا۔ پھنسیں گے، تو اکٹھے۔رکھوالوں نے اسے بھی پکڑ لیا۔ دوسرے دن دونوں دوست کانجی ہاؤس میں تھے۔ 

ان کی زندگی میں یہ پہلا موقعہ تھا کہ سارا دن گذرگیا اور کھانے کو ایک تنکا بھی نہ ملا۔ سمجھ میں نہ آتا تھا۔ یہ کیسا مالک ہے اس سے تو گیا ہی اچھا تھا۔ وہاں کئی بھینسیں تھیں، کئی بکریاں ، کئی گھوڑے، کئی گدھے چارہ کسی کے سامنے بھی نہ تھا۔ سب زمین پر مردے کی طرح پڑے تھے۔کئی تو اس قدر کمزور ہوگئے تھے کہ کھڑے بھی نہ ہوسکتے تھے۔ سارا دن دروازہ کی طرف دیکھتے رہے۔ مگر چارہ لے کر نہ آیا تب غریبوں نے دیوار کی نمکین مٹّی چاٹنی شروع کی مگر اس سے کیا تسکین ہوسکتی تھی؟ 

جب رات کو بھی کھانا نہ ملا، تو ہیرا کے دل میں سرکشی کے خیالات پیدا ہوئے۔ موتی سے بولا۔‘‘مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جان نکل رہی ہے۔‘‘ 

موتی۔’’اتنی جلدی ہمت نہ ہار و بھائی۔ یہاں سے بھاگنے کا طریقہ سوچو۔‘‘ 

ہیرا؛ ’’آؤ دیوار توڑڈالیں۔‘‘ 

موتی؛ ’’مجھ سے تو اب کچھ نہ ہوگا۔‘‘ 

ہیرا؛ ’’بس اسی بوتے پر اکڑتے تھے۔‘‘ 

موتی؛ ’’ساری اکڑ نکل گئی بھائی۔‘‘ 

باڑے کی دیوار کچی تھی ہیرا نے اپنے نوکیلے سینگ دیوار میں گاڑ دیے اور زور سے مارا تو مٹّی کا ایک چیڑ نکل آیا۔ اس سے اس کا حوصلہ بڑھ گیا۔ اس نے دوڑ دوڑ کر دیوارسے ٹکّریں ماریں ہر ٹکّر میں تھوڑی تھوڑی مٹی گرنے لگی۔ 

اتنے میں کانجی ہاوس کا چوکیدار لالٹین لے کر جانوروں کی حاضری لینے آنکلا۔ ہیرا کی وحشت دیکھ کر اس نے اسے کئی ڈنڈے رسید کیے اور موٹی سی رسّی سے باندھ دیا۔ 

موتی نے پڑے پڑے اس کی طرف دیکھا گویا زبان ِ حال سے کہا آخر مارکھائی کیا ملا۔ 

ہیرا؛ ’’ زور توآزمالیا۔‘‘ 

موتی؛ ’’ایسا زور کس کام کا ۔اور بندھن میں پڑگئے۔‘‘ 

ہیرا ؛ ’’اس سے باز نہ آؤں گا۔ خواہ بندھن بڑھتے جائیں۔‘‘ 

موتی؛ ’’جان سے ہاتھ دھو بیٹھوگے۔‘‘ 

ہیرا۔’’اس کی مجھے پرواہ نہیں۔ یوں بھی مرناہے ذرا سوچو اگر دیوار گر جاتی، تو کتنی جانیں بچ جاتیں۔ اتنے بھائی یہاں بند ہیں کسی کے جسم میں جان بھی نہیں ۔ دوچار دن یہی حال رہا تو سب مرجائیں گے۔‘‘ 

موتی نے بھی دیوار میں اسی جگہ سینگ مارا۔تھوڑی سی مٹّی گری اور ہمّت بڑھی تودیوار میں سینگ لگا کر اس طرح زور کرنے لگا۔ جیسے کسی سے لڑ رہا ہو۔ آخر کوئی دو گھنٹہ کی زور آزمائی کے بعد دیوار کا کچھ حصّہ گر گیا۔ اس نے دوگنی طاقت سے دوسرا دھکّا لگایا تو آدھی دیوار گر پڑی۔ 

دیوار کا گرنا تھا کہ نیم جان جانور اُٹھ کھڑے ہوئے تینوں گھوڑیاں بھاگ نکلیں۔ بھیڑ بکریاں نکلیں۔ اس کے بعد بھینسیں بھی کھسک گئیں۔ پر گدھے ابھی کھڑے تھے۔ 

ہیرا نے پوچھا۔ ’’تم کیوں نہیں جاتے؟‘‘ 

ایک گدھے نے کہا، ’’کہیں پھر پکڑ لیے جائیں تو؟‘‘ 

ہیرا ؛’’پکڑ لیے جاؤ پھر دیکھا جائے گا اس وقت تو موقعہ ہے۔‘‘ 

گدھا ؛ ’’ہمیں ڈرلگتا ہے ہم نہ بھاگیں گے۔‘‘ 

آدھی رات گذر چکی تھی۔ دونوں گدھے کھڑے سوچ رہے تھے بھاگیں یا نہ بھاگیں۔ موتی اپنے دوست کی رسّی کاٹنے میں مصروف تھاجب وہ ہار گیا تو ہیرانے کہا۔تم جاؤ مجھے یہیں رہنے دو۔ شاید کبھی ملاقات ہوجائے۔ 

موتی نے آنکھوں میں آنسو لاکر کہا، ’’تم مجھے خود غرض سمجھتے ہو ہیرا، ہم اور تم اتنے دنوں ساتھ رہے۔ آج تم مصیبت میں پھنسے۔ تو میں چھوڑ کر بھاگ جاؤں۔‘‘ 

ہیرا؛ ’’بہت مار پڑے گی۔ سمجھ جائیں گے یہ تمھاری شرارت ہے۔‘‘ 

موتی؛ ’’جس قصور کے لیے تمھارے گلے میں رسّا پڑا۔ اس کے لیے اگر مجھ پر مارپڑے گی۔ توکیا بات ہے اتنا تو ہوگیا کہ نودس جانوروں کی جان بچ گئی۔‘‘ یہ کہہ کر موتی نے دونوں گدھوں کو سینگ مارمار کر باہر نکال دیا اور اپنے دوست کے پاس آکر سوگیا۔ 

صبح ہوتے ہوتے منشیوں، چوکیداروں اور دوسرے ملازموں میں کھلبلی مچ گئی۔ اس کے بعد موتی کی مرمت ہوئی اور اسے بھی موٹی رسّی سے باندھ دیا گیا۔ 

ایک ہفتہ تک دونوں بیل بندھے پڑے رہے۔ خدا جانے اس کا نجی ہاؤ س کے آدمی کیسے بے درد تھے، کہ کسی نے چارے کو ایک تنکا تک نہ ڈالا۔ ہاں ایک مرتبہ پانی دکھادیا جاتاتھا۔ یہی ان کی خوراک تھی۔ دونوں اتنے کمزور ہوگئے کہ اٹھا تک نہ جاتا تھا۔ ہڈیاں نکل آئیں۔ 

ایک دن باڑے کے سامنے ڈگڈگی بجنے لگی۔ اور دوپہر ہوتے ہوتے پچاس ساٹھ آدمی جمع ہوگئے۔ تب دونوں بیل نکالے گئے اور ان کی دیکھ بھال ہونے لگی۔لوگ آآکر ان کی صورت دیکھتے اور چلے جاتے تھے۔ ایسے نیم جان بیلوں کو کون خریدتا؟ 

معاً ایک آدمی جس کی آنکھیں سرخ تھیں اور جس کے چہرہ پرسخت دلی کے آثار نمایاں تھے۔ آیا اور منشی جی سے باتیں کرنے لگا۔ اس کی شکل دیکھ کر کسی نا معلوم احساس سے دونوں بیل کانپ اٹھے۔ وہ کون ہے اور انھیں کیوں خریدتاہے؟ اس کے متعلق انھیں کوئی شبہہ نہ رہا۔ دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور سر جھکالیا۔ 

ہیرا نے کہا؛ ’’گیا کے گھر سے ناحق بھاگے۔ اب جان نہ بچے گی۔‘‘ 

موتی نے جواب دیا، ’’کہتے ہیں۔ بھگوان سب پر مہربانی کرتے ہیں۔’’انھیں ہماری حالت پر رحم کیوں نہیں آتا؟‘‘ 

ہیرا؛ ’’بھگوان کے لیے ہمارا مرنا جینا دونوں برابر ہیں۔‘‘ 

موتی؛ ’’چلو اچھا ہے کچھ دن ان کے پاس رہیں گے۔‘‘ 

ہیرا؛ ’’ایک مرتبہ بھگوان نے اس لڑکی کے روپ میں بچایا تھاکیا اب نہ بچائیں گے۔‘‘ 

موتی؛ ’’یہ آدمی چھُری چلائے گا دیکھ لینا۔‘‘ 

ہیرا؛ ’’معمولی بات ہے مرکر ان دکھوں سے چھوٹ جائیں گے۔‘‘ 

نیلام ہوجانے کے بعد دونوں بیل اس آدمی کے ساتھ چلے دونوں کی بوٹی بوٹی کانپ رہی تھی۔ بچارے پاؤں تک نہ اٹھاسکتے تھے۔ مگر ڈر کے مارے چلے جاتے تھے ذرا بھی آہستہ چلتے تو ڈنڈا جما دیتا تھا۔ 

راہ میں گائے بیلوں کا ایک ریوڑ مرغزالہ میں چرتا نظر آیا۔ سبھی جانور خوش تھے کوئی اچھلتا تھا کوئی بیٹھاجگالی کرتا تھا کیسی پر مسرت زندگی تھی۔ لیکن وہ کیسے خود غرض تھے کسی کو ان کی پرواہ نہ تھی۔ کسی کو خیال نہ تھا، کہ ان کے دو بھائی موت کے پنجہ میں گرفتار ہیں۔ 

معاًانھیں ایسا معلوم ہوا، کہ یہ راستہ دیکھا ہوا ہے۔ ہاں ادھر ہی تو سے گیا ان کو اپنےگاؤں لے گیا تھا۔ وہی کھیت ہیں وہی باغ وہی گاؤں۔ اب ان کی رفتار تیز ہونے لگی۔ ساری تھکان، ساری کمزوری، ساری مایوسی رفع ہوگئی۔ ارے یہ تو اپنا کھیت آگیا۔ یہ اپنا کنواں ہے۔ جہاں ہر روز پانی پیا کرتے تھے۔ 

موتی نے کہا، ’’ہمارا گھر نزدیک آگیا۔‘‘ 

ہیرا بولا، ’’بھگوان کی مہربانی ہے۔‘‘ 

موتی؛ ’’میں تواب گھر بھاگتا ہوں۔‘‘ 

ہیرا؛ ’’یہ جانے بھی دے گا اتناسوچ لو۔‘‘ 

موتی؛ ’’اسے مارگراتا ہوں۔ جب تک سنبھلے تب تک گھرجا پہنچیں گے۔‘‘ 

ہیرا؛ ’’نہیں ڈور کر تھان تک چلو۔وہاں سے آگے نہ چلیں گے۔‘‘ 

دونوں مست ہوکر بچھڑوں کی طرح کلیلیں کرتے ہوئے گھر کی طرف دوڑے اور اپنے تھان پر جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہ آدمی بھی پیچھے پیچھے دوڑا آتا تھا۔ 

جھوری دروازہ پر بیٹھا دھوپ کھارہا تھا۔ بیلوں کو دیکھتے ہی دوڑا۔ اور انھیں پیار کرنے لگا۔ بیلوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ ایک جھوری کا ہاتھ چاٹ رہا تھا۔ دوسرا پیر۔ 

اس آدمی نے آکر بیلوں کی رسّیاں پکڑلیں۔ جھوری نے کہا، ’’یہ بیل میرے ہیں۔‘‘ 

’’تمھارے کیسے ہیں۔ میں نے نیلام میں لیے ہیں۔‘‘ 

جھوری؛ ’’میرا خیال ہے چراکر لائے ہو چپکے سے چلے جاؤ بیل میرے ہیں بیچوں گا تو بکیں گے، کسی کو میرے بیل کو بیچنے کا کیا حق ہے؟‘‘ 

’’میں نے تو خرید ے ہیں۔‘‘ 

’’خریدے ہوں گے۔‘‘ 

اس پروہ آدمی زبردستی بیلوں کولے جانے کے لیے آگے بڑھا۔ اسی وقت موتی نے سینگ چلایا۔ وہ آدمی پیچھے ہٹا۔ موتی نے تعاقب کیا۔اور اسے ریلتا ہواگاؤں کے باہر تک لے گیا۔ اور تب اس کا راستہ روک کھڑا ہوگیا وہ آدمی دور کھڑا دھمکیاں دیتا تھا۔ گالیاں دیتا تھا۔ پتھر پھینکتا تھا اور موتی اس کا راستہ روکے ہوئے تھاگاؤں کے لوگ یہ تماشہ دیکھتے تھے اور ہنستے تھے۔ 

جب وہ آدمی ہارکے چلا گیا تو موتی اکڑتا ہوا لوٹ آیا۔ ہیرا نے کہا، ’’میں ڈر رہا تھا کہ کہیں تم اسے مار نہ بیٹھو۔‘‘ 

موتی؛ ’’اگر نزدیک آتا تو ضرور مارتا۔‘‘ 

ہیرا؛ ’’اب نہ آئے گا۔‘‘ 

موتی؛ ’’آئے گا تو دور ہی سے خبر لوں گا۔ دیکھوں کیسے لے جاتا ہے۔‘‘ 

ذرا دیر میں ناند میں کھلی بھوسہ چوکر دانہ سب کچھ بھردیا گیا۔ دونوں بیل کھانے لگے۔ 

جھوری کھڑا ان کی طرف دیکھتا اور خوش ہوتا تھا۔ بیسوں لڑکے تماشہ دیکھ رہے تھے ساراگاؤںمسکراتامعلوم ہوتا تھا۔ 

اسی وقت مالکن نے آکر اپنے دونوں بیلوں کے ماتھے چوم لیے۔ 

Premchand Firaq Ki Nazar Mein

پریم چند کی شخصیت
فراق گورکھپوری
بات ہے ۱۹۰۹ء یا ۱۹۱۰ء کی یا اس سے پہلے کی بھی ہو سکتی ہے۔ اس وقت ہندوستان بھر میں اردو کے شاید تین چار ماہانہ رسالے شائع ہوتے تھے۔ اب تو شاید سوسے زیادہ رسائل شائع ہوتے ہیں۔ ان دنوں کانپور سے شائع ہونے والا رسالہ ’’زمانہ‘‘ سب سے اچھا اردو رسالہ سمجھا جاتا تھا۔ ہندوستان کے تمام چوٹی کے ادیب ’’زمانہ‘‘ میں لکھتے تھے۔ ان کی فہرست بہت طویل اور تابناک ہے۔ 

سوامی رام تیرتھ، شبلی نعمانی، گنگا پرشاد ورما، حالی، اکبر، پنڈت وشنو نرائن در، اقبال، چکبست، سرور جہاں آبادی، نوبت رائے نظر، بال مکند گپت، لالہ لاجپت رائے، رتن ناتھ سرشار اور اگر دوسرے درجے کے ادیبوں کے نام گنواؤں تو چالیس پچاس اور مشہور ادیبوں کے نام لینے پڑیں گے۔ اس وقت ہندوستان بھر کی زبانوں میں جو رسالے اور جریدے شائع ہوتے تھے، ان میں نظموں یا تعلیم سے متعلق مضامین کی بھر مار رہتی تھی۔ ہندوستان میں لگ بھگ ہر سال پندرہ سو کہانیاں یا مختصر افسانے لکھے جاتے تھے۔ اور اردو میں تو ایک ہی آدمی تھا جس نے کہانی لکھنے کے لئے پہلے پہل قدم اٹھایا اور وہ تھے پریم چند۔ 

جاڑوں کے دن تھے، ہمارے یہاں گھر پر ’’زمانہ‘‘ کا تازہ شمارہ آیا تھا جو بزرگوں کے دیکھنے کے بعد ہمارے بھی ہاتھ لگا۔ اس میں پریم چند کی ایک کہانی چھپی تھی ’’بڑے گھر کی بیٹی۔‘‘ جیسے جیسے وہ کہانی میں پڑھتا گیا، میرے دل کی دھڑکن اور سانسوں کی رفتار تیز ہوتی گئی اور پلکیں بھیگتی گئیں۔ پریم چند سے یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ آج تک کسی کہانی کا مجھ پر وہ اثر نہ ہوا تھا جیسا کہ اس کہانی کا ہواتھا۔ اس کے بعد لگ بھگ ہر مہینہ ’’زمانہ‘‘ میں پریم چند کی کہانی چھپتی اور میں اسے کلیجے سے لگا کر پڑھتا۔ ہر مہینہ پریم چند کی نئی کہانی ’’زمانہ‘‘ میں چھپنا دنیائے ادب کا ایک واقعہ تصور کیا جاتا۔ یہ کہانیاں لڑکوں، لڑکیوں، سب کو ایک طرح متاثر کرتی تھیں۔ کہانیوں کو پڑھ کر مولانا شبلی جیسے عالم کی آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے اور وہ کہہ اٹھتے تھے کہ ہندوستان کے سات کروڑ مسلمانوں میں ایک بھی ایسا سحر نگار نہیں ہے۔ لوگ سوچتے تھے کہ پریم چند آدمی ہیں یا دیوتا۔ 

کچھ سال بیت گئے۔ میں امتحانوں میں کامیابی حاصل کرتا ہوا بی۔ اے میں آچکا تھا۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں الہ آباد سے اپنے وطن گورکھپور آ گیا تھا۔ ایک دن شام کو گورکھپور میں ایک بڑے بینک کی بلڈنگ میں سیر کرنے کے لئے نکل گیا تھا۔ وہاں میرے ایک دوست مہابیر پرساد پود دارملے، جن کے ساتھ ایک صاحب اور تھے۔ وہ بظاہر ایک بہت ہی معمولی آدمی معلوم ہوتے تھے، گھٹنوں سے کچھ ہی نیچے تک کی دھوتی، کرتا، جو عام کرتوں سے بہت چھوٹا کٹا ہوا تھا، پیروں میں معمولی جوتا۔ میں پود دار سے نئی کتابوں کے بارے میں باتیں کرنے لگا۔ ان کے ساتھی بھی گفتگو میں شریک ہوگئے اور بات پریم چند کی آگئی۔ 

پود دار نے مجھ سے پوچھا کہ تم پریم چند سے ملنا چاہتے ہو؟ مجھے ایسا معلوم ہوا گویا وہ مجھ سے پوچھ رہے ہوں، دنیا بھر کی دولت پر قبضہ کرنا چاہتے ہو؟ اس خوش نصیبی پر یقین ہی نہیں آتا تھا کہ پریم چند کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکوں گا۔ میں ان کا بالکل نہ یقین کرنے کے لہجہ میں پوچھا، ’’پرم چند سے ملنا! کیسے، کہاں اور کب؟’‘ دونوں آدمی ہنسنے لگے اور پود دار نے بتایا کہ ان کے ساتھ جو صاحب ہیں وہی پریم چند ہیں۔ میری سانس اندر کی اندر اور باہر کی باہر رہ گئی، بلکہ انتہائی مسرت کے ساتھ میری کچھ دل شکنی سی ہوئی۔ اس لئے کہ پریم چند بہت معمولی صورت شکل کے آدمی نظر آئے اور میں سمجھے بیٹھا تھا کہ اتنا بڑا ادیب معمولی شکل کا آدمی نہیں ہوسکتا۔ پھر بھی پریم چند کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ 

یہ جان کر تو میں خوشی سےجھوم گیا کہ پریم چند گورکھپور میں میرے مکان سے آدھے فرلانگ پر نارمل اسکول کے ایک بنگلہ میں مستقل طور پر مقیم رہیں گے۔ میں اور پریم چند تو فوراً گھل مل گئے۔ ہم دونوں ایک ہی مزاج کے تھے۔ دوسرے دن سے تیسرے پہر پریم چند کے گھر جانا میرا روز کا معمول بن گیا۔ پریم چند نارمل اسکول کے سکینڈ ماسٹر اور بورڈنگ ہاؤس کے سپریٹنڈنٹ تھے، اپنے چھوٹے سے بنگلے کے صحن میں چند درختوں کے سائے میں تیسرے پہر چند کرسیاں ڈال لیتے تھے، ایک چھوٹی سی میز بھی لگا لیتے تھے۔ اسی صحن میں ہر تیسرے پہر ملنا میرا روز کا معمول بن گیا تھا۔ شاعری، ادب، کتابیں، مصنف، فلسفہ ہماری گفتگو کے موضوع تھے۔ کبھی کبھی ان لوگوں کا بھی ذکر چھڑ جاتا، جو ذکر کے قابل نہیں ہوتے تھے۔ ایسے بھی مواقع آجاتے جب کہ وہ اپنے بچپن کا حال یا خاندان کی باتیں سنایا کرتے تھے۔ اس طرح ان کی زندگی کاپورا کردار میرے سامنے آ گیا۔ 

ان کی باتوں میں بڑی معصومیت ہوتی تھی، بڑی سادگی، بڑی بے تکلفی۔ اس طرح باتوں کے دوران انہوں نے بتایا کہ ان کے بچپن کے زمانے میں جب ان کے والد ڈاک خانے کے ملازمت کے سلسلے میں گورا دور میں رہتے تھے، اسکول میں پریم چندکی دوستی ایک تمباکو بیچنے والے کے لڑکے سے تھی۔ اسکول سے واپسی کے وقت اس لڑکے کے گھر پر پریم چند جاتے تھے۔ وہاں بزرگوں میں حقہ کے کش جاری رہتے تھے اور ’’طلسمِ ہوش رُبا‘‘ روزپڑھا جاتا تھا۔ ’’طلسم ہوش ربا‘‘ سنتے سنتے بچپن میں ہی پریم چند کی خوابیدہ خیالی دنیا جاگ اٹھی جیسے ’’الف لیلہ‘‘ پڑھ کر مشہور ناول نگار ڈکنس کا سویا ہوا شعور فن جاگ اٹھا تھا۔ پھر اردو نثر کی روانی بھی پریم چند کے اندر گرج اٹھی۔ 

پریم چند کا بچپن بہت غریبی میں گزرا۔ باپ کی تنخواہ بیس بچیس روپے تھے۔ پھر ماں سوتیلی تھی۔ تیرہ چودہ سال کی عمر میں چار پانچ روپے کے ٹیوشن کے لئے تین میل جانا اور تین میل آنا پڑتا تھا۔ ایک بار ایسا گھر ملا کہ اسی گھر کے اصطبل میں سائیس کے ساتھ رہنا پڑتا تھا۔ سیکڑوں مواقع ایسے آئے کہ ایک پیسے کے چنے بھنا کر اسی کو کھا کر دن کاٹ دیا۔ اسی زماے میں ایک ہیڈ ماسٹر نے انہیں ذہین سمجھ کر کچھ سہولیتں بہم پہنچائیں اور اس طرح وہ انٹرنس پاس کر کے کسی اسکول میں بیس بائیس روپے پر ٹیچر ہوگئے۔ ان کے والد نے اسی زمانے میں پریم چند کی شادی بھی کر دی تھی۔ ایسی شادی کہ دوچار ہفتوں بعد ہی بیوی سے جدا ہونا پڑا۔ اسی حالت میں باپ بھی چل بسے۔ سوتیلی ماں اور سوتیلے بھائی کا بوجھ بھی پریم چند کے کندھوں پر آرہا۔ 

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ دس بارہ سال کی عمر سے لگ بھگ بیس بائیس سال کی عمر تک جیسی تلخ زندگی پریم چند کی تھی، اردو یا کسی زبان کے ادیب کی زندگی شاید ہی اتنی پرالم رہی ہو۔ ہم اور آپ تو شاید ایسے امتحان میں مٹ کر رہ جاتے۔ اسی دور میں پریم چند نے پرائیویٹ طور پر ایف۔ اے، بی۔ اے اور بی۔ ٹی کے امتحانات بھی پاس کئے۔ محکمۂ تعلیم میں انہیں ملازمت مل گئی۔ وہی زمانہ زندۂ جاوید تخلیقات کا ابتدائی دور ہے جنہیں آج لاکھوں آدمی کلیجہ سے لگائے پھرتے ہیں۔ 

پریم چند اب اپنی اردو تخلیقات کو ہندی میں بھی شائع کرنے لگے تھے لیکن اسے اگر اردو زبان اور ادب کا جادو نہ کہیں تو کیا کہیں کہ ہندی میں ان کی پہلی ہی کتاب چھپی تھی کہ وہ ہندی کے سب سے بڑے ادیب مان لئے گئے اور اگر وہ اردو نہ جانتے ہوتے اور صرف ہندی جانتے تو اتنی شاندار اور منجھی ہوئی زبان نہ لکھ پاتے۔ یہ وقت لگ بھگ ۱۹۱۹ء کا ہے۔ اسی زمانے میں میں نے آئی۔ سی۔ ایس کی نوکری چھوڑی اور پریم چند نے بھی، جن کی نوکری ایک ہزار روپے تک جاتی۔ عدم تعاون کی تحریک کے سلسلہ میں میرے ساتھ ہی اپنی ملازمت کو خیر باد کہہ دیا۔ اس کے بعد وہ پندرہ سولہ سال اور زندہ رہے۔ اس عرصے میں لگ بھگ دس ناول اور سو کہانیاں ان کے قلم سے نکلیں۔ مجھے بھی ایک لحاظ سے پریم چند نے ہی ادیب بنایا۔ میری پہلی تحریر ’’زمانہ‘‘ میں پریم چند نے چھپوائی تھی۔ جب میں جیل میں سیاسی قیدی تھا تو میری کچھ کہانیاں پریم چند ہی نے مشہور رسائل میں شائع کروائی تھیں۔ جیل ہی میں، میں نے ان کے ناول ’’گوشۂ عافیت‘‘ (ہندی میں پریم آشرم) پر تنقید لکھی تھی جسے پاکر انہوں نے مجھے لکھا تھا کہ، ’’ناول پر آپ کی تنقید پڑھ کر روح پھڑک اٹھی۔ آپ نے میرے ناول کو مجھ سے بہتر سمجھا۔’‘ 

یہ ہیں وہ یادیں جو پریم چند کے متعلق میرے ذہن میں محفوظ ہیں۔ پریم چند کی قبل از وقت موت نے اردو ہندی ادب اور ادیبوں کو یتیم کردیا۔ جو ادب درباروں اور رئیسوں کی محفلوں کی چیز تھی، اس زبان و ادب کو پریم چند نے کروڑوں بیگھے لہلہاتے کھیتوں میں اور کسانوں کے جھونپڑوں میں لا کر کھڑا کر دیا۔ ہماری ہزاروں سال کی تہذیب میں بھارت ورش کی دیہاتی زندگی کی آنکھ کھول دینے والی تصویر کشی ہندوستان کے کسی زبان کے کسی ادیب نے نہیں کی تھی۔ 

پریم چند اردو کی تاریخ میں اس دور کے ادیب نہیں تھے جب پونے دو آدمی استادِ زمانہ مان لئے جاتے تھے۔ سیکڑوں چھوٹے ادیبوں کے بیچ میں پریم چند کا زمانہ وہ زمانہ ہے جب آسمانِ ادب پر ٹیگور، شرت چندر چٹرجی، اقبال، چکبست، حالی، شبلی، حسرت موہانی ایسے سورج اور چاند جگمگا رہے تھے۔ 

لازوال شہرت حاصل کرنے والی زبردست ہستیوں سے پریم چند کا اگر مقابلہ کیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ ان کے عظیم ہم عصر ادیبوں کے کارناموں سے کہیں زیادہ قیمتی کارنامہ پریم چند نے چھوڑا ہے۔ پریم چند کی کہانیوں اور ناولوں پر لمبی بحث چھیڑنے کایہ موقع نہیں، لیکن اس کا تجربہ تو آپ نے کیاہی ہوگا کہ پریم چند ہندی اور اردو کا واحد ادیب ہے جس کی تخلیقات کو اونچے سے اونچے دماغ والوں سے لے کر چپراسی، مزدورشہر والے، دیہات والے، مرد، عورت، بچے سبھی ایک طرح متاثر ہوکر پڑھتے ہیں۔ 

پریم چند کی کتابوں کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے مادرِ ہند نے ہمیں اپنی گود میں اٹھا لیا ہے۔ ہم پریم چند کی آواز میں اپنے دل کی دھڑکنوں کو سنتے ہیں۔ ہندوستان کی زندگی، ہندوستان کا مزاج، اس کا دکھ سکھ، اس کی تقدیر، اس کا سہاگ سب کچھ پریم چند کی سحر انگیز تحریروں میں ہمیں اس طرح ملتا ہے جیسا اور کہیں ملنا محال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندی اردو کے اپنے ہم عصر ادیبوں میں پریم چند محض شہرت ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی شہرت حاصل کر چکے ہیں۔ 

Friday, 9 October 2020

Chaar Bahre

 چار بہرے
(ایک دلچسپ کہانی)
ایک بہرے آدمی کے پاس بکریوں کا ایک ریوڑ تھا۔ ایک دن اسے جنگل میں چرا نے کے لئے گیا۔ ان میں سے چند بکریاں گم ہو گئیں جن میں ایک لنگڑی بکری بھی تھی۔ بہرا ان کی تلاش میں نکلا ۔کچھ دور جا کر  اس نے ایک درخت کے نیچے ایک آدمی کو بیٹھے دیکھا۔ اس کے پاس جاکر پوچھا ”میری چند بکریاں گم ہو گئی ہیں کیا تم نے کہیں دیکھی ہے ۔“وہ آدمی بھی بہرا تھا۔ اس نے سمجھا مسافر ہے، راستہ بھول گیا ہے، اس لئے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ اس راستہ پر چلے جاؤ ۔گڈریئے نے خیال کیا کہ میری بکریاں اسی راستے سے گئی ہیں ۔دل میں کہنے  لگا اگر مل گئیں تو اس میں سے لنگڑی بکری ضرور اس آدمی کو دے دوں گا۔ اتفاق سے تھوڑی دور جاکر اسے اپنی تمام بکریاں مل گئیں ۔بہت خوش ہوا اور  لنگڑی بکری لے کر بطور انعام دینے کے لئے اس آدمی کے پاس آیا ۔جب گڈریا نے لنگڑی بکری کو بہرے کے سامنے پیش کر کے کہا ”لو یہ میں تمہیں دیتا ہوں۔“ تو اس نے کہا ”میں نے تیری بکری کی ٹانگ نہیں توڑی ہے۔ تو جھوٹ بولتا ہے۔مجھ پر غلط الزام لگا تا ہے۔“ دونوں بہرے اپنی اپنی کہے جا رہے تھے کہ ایک طرف سے ایک سوار آگیا۔ یہ دونوں اس کے پاس گئے اور گھوڑی کی لگام پکڑ کر اپنا معاملہ بیان کرنے لگے۔ اتفاق سے یہ بھی بہرا تھا ۔اس نے یہ سمجھا یہ دونوں میری گھوڑی کو لینے کا دعویٰ کر رہےہیں۔ گھبرا کر بولاچھوڑو  لگام گھوڑی تو میری ہے، اس کا بچہ میرے گھر پر ہے میں نے اس کو سو روپے دے کر لیا ہے۔ میرے بہت سے گواہ ہیں۔ تینوں دیر تک اپنی اپنی کہتے رہے جب پریشان ہو گئے تو فیصلہ ہوا کہ قاضی کے پاس چلو، قاضی کی بیوی قاضی سے ناراض ہو کر اپنے میکے چلی گئی تھی۔ تینوں آدمیوں نے پہنچ کر قاضی سے اپنا اپنا حال بیان  کر نا شروع کیا مگر قاضی جی بھی بہت اونچا سنتے تھے۔ انہوں نے سمجھا کہ میری بیوی کے میکے کی طرف سے یہ لوگ سفارش لے کر آئے ہیں ،اس لئے انہوں نے کہنا شروع کیا ”میں اس عورت کو ہرگز نہیں رکھوں گا سر سے پاؤں تک سو نے کی بنا کر لاؤ تب بھی قبول نہیں کروں گا۔طلاق طلاق طلاق۔ تین دفعہ طلاق۔“اور ڈانٹ کر کہا ”چلے جاؤ یہاں سےورنہ ابھی بلاتا ہوں پولیس کو۔“ قاضی کی ڈانٹ سنکر تینوں ڈر گئے اور پریشان ہوکر اپنے اپنے گھر چلے گئے۔(ازعبدالسبحان)

Saturday, 3 October 2020

Kamsin Ghazal By Majnoon Lucknavi

کمسِن غزل
منور آغا مجنوں لکھنوی




Sunday, 27 September 2020

Jamia Millia Islamia School and University Admission Schedule 2020

Jamia Millia Islamia  University Admission Schedule 2020  
Jamia Millia Islamia School  Admission Schedule 2020

Ehsaan Ka Badla Ehsaan By Dr.Zakir Hussain NCERT Urdu Class IX

احسان کا بدلہ احسان 
        ڈاکٹر ذاکر حسین

بہت دنوں کا ذکر ہے جب ہر جگہ نیک لوگ بستے تھے اور دعا فریب بہت ہی کم تھا۔ ہندو مسلمان ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے۔

کوئی کسی پر زیادتی نہیں کرتا تھا اور جو جس کا حق ہوتا تھا، اسے مل جایا کرتا تھا ۔ ان دنوں ایک شہر تھا: عادل آباد۔ اس عادل آباد میں ایک بہت دولت مند دکان دار تھا۔ دور دور کے ملکوں سے اس کا لین دین تھا۔ اس کے پاس ایک گھوڑا تھا جو اس نے بہت دام دے کر ایک عرب سے خریدا تھا۔

ایک دن کا ذکر ہے کہ وہ دکان دار تجارت کی غرض سے گھوڑے پر سوار ہو کر جارہا تھا کہ بے خیالی میں شہر سے بہت دور نکل گیا اور ایک جنگل میں جا نکلا ۔ ابھی یہ اپنی دھن میں آگے جاہی رہا تھا کہ پیچھے سے چھے آدمیوں نے اس پر حملہ کر دیا۔ اس نے ان کے دو ایک وار تو خالی دیے لیکن جب دیکھا کہ وہ چھے ہیں تو سوچا کہ اچھا نہیں ہے کہ ان سے بچ کرنکل چلوں ۔ اس نے گھوڑے کو گھر کی طرف پھیرا ، لیکن ڈاکوؤں نے بھی اپنے گھوڑے پچھے ڈال دیے۔ اب تو عجیب حال تھا۔ سارا جنگل گھوڑوں کی ٹاپوں سے گونج رہا تھا ۔ سچ یہ ہے کہ دکان دار کے گھوڑے نے اسی دن اپنے دام وصول کرادیے۔ کچھ دیر بعد ڈاکوؤں کے گھوڑے پیچھے رہ گئے ۔ گھوڑا دکان دار کی جان بچا کر اسے گھر لے آیا۔

اس روز گھوڑے نے اتنا زور لگایا کہ اس کی ٹانگیں بے کار ہو گئیں ۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ کچھ دنوں بعد غریب کی آنکھیں بھی جاتی رہیں ۔ لیکن دکان دار کو اپنے وفادار گھوڑے کا احسان یاد تھا۔ چناں چہ اس نے سائیس کو حکم دیا کہ جب تک گھوڑا جیتا رہے، اس کو روز صبح وشام چھ سیر دانہ دیا جائے اور اس سے کوئی کام نہ لیا جائے۔

لیکن سائیس نے اس حکم پر عمل نہ کیا۔ وہ روز بروز گھوڑے کا دانہ کم کرتا گیا۔ یہی نہیں بلکہ ایک روز اسے اپاہج اور اندھا سمجھ کر اصطبل سے نکال دیا۔ بے چارہ گھوڑا رات بھر بھوکا پیاسا، بارش اور طوفان میں باہر کھڑا رہا۔ جب صبح ہوئی تو جوں توں کر کے وہاں سے چل دیا۔

اسی شہر عادل آباد میں ایک بڑی مسجد تھی اور ایک بڑا مندر ۔ ان میں نیک ہندو اور مسلمان آ کر اپنے اپنے ڈھنگ سے عبادت کرتے اور خدا کو یاد کرتے تھے۔ مندر اور مسجد کے بیچ ایک بہت اونچا مکان تھا اس کے بیچ میں ایک بڑا سا کمرا تھا۔ کمرے میں ایک بہت بڑا گھنٹا لٹکا ہوا تھا اور اس میں ایک لمبی سی رسی بندھی ہوئی تھی ۔ اس گھر کا دروازہ دن رات کھلا رہتا۔ شہر عادل آباد میں جب کوئی کسی پر ظلم کرتا یا کسی کا مال دبالیتا یا کسی کا حق مار لیتا تو وہ اس گھر میں جاتا، رسی پکڑ کر کھینچتا۔ یہ گھنٹا اس زور سے بچتا کہ سارے شہر کو خبر ہو جاتی ۔ گھنٹے کے بجتے ہی شہر کے سچے ، نیک دل ہندومسلمان وہاں آجاتے اور فریادی کی فریاد سن کر انصاف کرتے ۔ اتفاق کی بات کہ اندھا گھوڑا بھی صبح ہوتے ہوتے اس گھر کے دروازے پر جا پہنچا۔ دروازے پر کچھ روک ٹوک تو تھی نہیں ، گھوڑا سیدھا گھر میں گھس گیا۔ بیچ میں رسی تھی۔ یہ غریب مارے بھوک کے ہر چیز پر منھ چلاتا تھا، رسی جو اس کے بدن سے لگی تو وہ اسی کو چبانے لگا۔ رسی جو ذرا کھنچی تو گھنٹا بجا۔ مسلمان مسجد میں نماز کے لیے جمع تھے۔ پجاری مندر میں پوجا کر رہے تھے۔ گھنٹا جو بجا تو سب چونک پڑے اور اپنی اپنی عبادت ختم کر کے اس گھر میں آن کر جمع ہو گئے ۔ شہر کے پنچ بھی آگئے ۔ پنچوں نے پوچھا : ” یہ اندھا گھوڑا کس کا ہے؟‘‘ لوگوں نے بتایا: ’’ یہ فلاں تا جر کا ہے۔ اس گھوڑے نے تاجر کی جان بچائی تھی ۔‘‘ پوچھا گیا تو معلوم ہوا کہ تاجر نے اسے نکال باہر کیا ہے۔ پنچوں نے تاجر کو بلوایا ۔ ایک طرف اندھا گھوڑا تھا، اس کی زبان نہ تھی جو شکایت کرتا۔ دوسری طرف تاجر کھڑا تھا، شرم کے مارے اس کی آنکھیں جھکی تھیں ۔ پنچوں نے کہا: تم نے اچھا نہیں کیا ۔ اس گھوڑے نے تمھاری جان بچائی اور تم نے اس کے ساتھ کیا کیا ؟ تم آدمی ہو، یہ جانور ہے آدمی سے اچھا تو جانور ہی ہے۔ ہمارے شہر میں ایسا نہیں ہوتا ۔ ہر ایک کو اس کا حق ملتا ہے اور احسان کا بدلہ احسان سمجھا جا تا ہے۔

تاجر کا چہرہ شرم سے سرخ ہوگیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے ۔ بڑھ کر اس نے گھوڑے کی گردن میں ہاتھ ڈال دیا۔

اس کا منہ چوما اور کہا: ”میرا قصور معاف کر“ یہ کہہ کر اس نے وفادار گھوڑے کو ساتھ لیا اور گھر لے آیا۔ پھر اس کے لیے ہر طرح کے آرام کا انتظام کر دیا۔
ڈاکٹر ذاکر حسین
(1897 - 1969)
ڈاکٹر ذاکر حسین حیدر آباد میں پیدا ہوئے ۔ ان کا تعلق قصبہ قائم گنج ضلع فرخ آباد ( اتر پردیش) کے ایک معز ز پٹھان خاندان سے تھا۔ ان کی ابتدائی تعلیم اسلامیہ اسکول، اٹاوہ ( یوپی) میں ہوئی۔ وہ اعلی تعلیم کے لیے علی گڑھ ،الہ آباد اور جرمنی تک گئے۔ جرمنی سے انھوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
ڈاکٹر ذاکر حسین کی شخصیت کے کئی اہم پہلو تھے۔ وہ بیک وقت ایک صاحب طرز ادیب، ماہرتعلیم قومی رہنما اور سیاست داں تھے۔ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے وائس چانسلر رہے۔ انھوں نے صوبہ بہار کے گورنر ، نائب صدر اور صدر جمہوریہ ہند کی حیثیت سے ملک و قوم کی غیر معمولی خدمات انجام دیں۔
ذاکر صاحب کا ادبی سفر دنیا کی چند اہم کتابوں کے ترجموں سے شروع ہوا۔ ان تر جموں میں مشہور فلسفی افلاطون کی کتاب "ریاست" اور اڈون کینن کی "سیاسی اقتصادیات" وغیرہ شامل ہیں ۔ انھوں نے جرمنی زبان میں گاندھی جی پر ایک کتاب لکھی۔ بچوں کی تعلیم و تربیت اور بچوں کے ادب سے انھیں خصوصی دلچسپی تھی۔ انھوں نے بچوں کے لیے متعدد مضامین اور کہانیاں لکھیں۔ ’’ابو خاں کی بکری‘‘، ’’ لومڑی کی چالاکی‘‘ ،’’ مور کا حسن“، ”اونٹ کا ضبط“، ”اُسی سے ٹھنڈا اُسی سے گرم“ اور "گھوڑے کی نرمی‘‘ وغیرہ ان کی مشہور کہانیاں ہیں ۔
سوچیے اور بتائیے
1.ڈاکووں نے دکان دار پر کیوں حملہ کیا؟
جواب:‌تاجر اپنے گھوڑے پر سوار تھا بےخیالی میں وہ بہت دور چلا گیا اور  جنگل  جاپہنچا، وہاں ڈاکو آگئے۔ اتاجر کو اس کے گھوڑے کے ساتھ سنسان جنگل میں دیکھ کر ڈاکوؤں حملے کردیا-
2. دکان دار کو گھوڑے کے دام کس طرح وصول ہوئے؟
جواب:جب ڈاکوؤں نے تاجر  پر حملہ کردیا تب اسے بچانے کے لیے گھوڑا  بہت تیز دوڑا اور تاجر کی جان بچائی۔ اس طرح گھوڑے کے دام دکان دار کو وصول ہو گئے-
3.سائیس کے برتاو کی وجہ سے گھوڑے کو کیا کیا تکلیفیں اٹھانی پڑیں؟
جواب:جب گھوڑا بوڑھا ہوگیا توسائیس دن بدن اس کا دانا کم کرتا گیا اور ایک دن اس  نے اپاہج اور اندھے  گھوڑے کو  اصطبل سے نکال دیا بیچارہ گھوڑا رات بھر بھوکا پیاسا  بارش اور طوفان میں باہر کھڑا رہا جب صبح ہوئی تو گھوڑا وہاں سے چلا گیا۔
4.اونچے مکان میں گھنٹا کیوں لٹکایا گیا تھا؟
جواب:مندر اور مسجد کے بیچ میں ایک بڑا مکان تھا۔ وہاں ایک گھنٹا لگا تھ۔ا جب بھی شہر میں کسی پر ظلم ہوتا،  کسی کا حق مارا جاتا تو وہ وہاں آتا اور گھنٹا بجاتا گھنٹے کی آواز سے پورے شہر کو خبر ہوجاتی سارے بچے اور نیک لوگ آجاتے  اور پھر اُس کے ساتھ انصاف کرتے۔
5.گھوڑے نے گھنٹا کس طرح بجایا؟
جواب: گھوڑے نے رسی کو چارہ سمجھ کر کھانے کی کوشش کی۔رسی کے ہلنے سے گھنٹا بجنے لگا۔
6.تاجر کا چہرہ شرم سے کیوں سرخ ہوگیا؟
جواب:سائیس نے اس وفادار گھوڑے کے ساتھ جو سلوک کیا تھا اسے سن کر تاجر کا چہرہ شرم سےسرخ ہوگیا وہ خود کو ہی اس کی حالت کا ذمے دار سمجھنے لگا۔

قواعد:

گھوڑے پر سوار ہو کر جارہا تھا۔

بہت دنوں کا ذکر ہے جب ہر جگہ نیک لوگ بستے تھے۔

معلوم ہوا کہ تاجر نے اسے نکال باہر کیا ہے۔

اوپر دیے گئے جملوں میں جن کاموں کے بارے میں بتایا جارہا ہے وہ پہلے ہو چکے ہیں یعنی یہ گزرے ہوئے وقت 

کی باتیں ہیں ۔ گزرے ہوئے وقت / زمانہ کو ماضی کہتے ہیں

 


Chidiya Ghar Ki Sair NCERT Class 9 Jaan Pehchaan

چڑیا گھر کی سیر

آج اسکول کی چھٹی تھی۔ حامد کے ابا کی بھی چھٹی تھی۔ وہ حامد اور اس کی بہن کو چڑیا گھر دکھانے لے گئے ۔ ٹکٹ لے کر چڑیا گھر میں داخل ہوے تو حامد نے پوچھا :" ابا جان ! چڑ یا گھر میں ا تنے جانورکہاں سے آتے ہیں؟
" یہ طرح طرح جانور دیس بد یس سے لائے جاتے ہیں" حامد کے ابا نے بتایا ۔" ان میں کچھ ٹھنڈے ملک کے  جانور ہیں اور کچھ گرم ملکوں کے ۔
یہ کیا ہے ابا جان!‘‘ حامد کی بہن نے ایک جانور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔ " یہ پانڈا ہے" انھوں نے بتایا یہ ہمارے ملک کا جانور نہیں ہے۔ ٹھنڈے ملک کا رہنے والا ہے۔ دیکھو اس کے جسم پر کتنے گھنے بال میں جو اسے سردی سے بچاتے ہیں۔ گرمیوں میں اسے بہت گرمی لگتی ہے، اس لیے چڑیا گھر میں اس کے پنجرے کو گرمی کے موسم میں ٹھنڈا رکھا جاتا ہے۔ پانڈا پھل ، بانس کی ہری پتیاں ، نرم گھاس اور سبزیاں شوق سے کھاتا ہے کٹہرے میں بنا ہوا پنجرہ اس کے رہنے کا گھر ہے۔“
اور آگے چلے تو بلی کی طرح بیٹھا ہوا ایک بڑا جانور نظر آیا۔ حامد نے پوچھا: ابا اس کا کیا نام ہے؟
یہ کنگارو ہے ۔ کنگارو بھی غیر ملکی جانور ہے۔ اس کے گھر کو ٹھنڈا رکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ کنگارو بڑا ہوتا ہے، اس لیے اس کو لمبے چوڑے اور کھلے کٹہرے میں رکھا گیا ہے۔ اس کی دم لمی ہوتی ہے۔ تم کنگارو کے پیٹ پر بنی تھیلی سی دیکھ رہے ہونا ! یہ تھیلی بچے کو رکھنے کے لیے ہوتی ہے۔ اس میں بچے کو بٹھا کر یہ خوب تیز بھاگ سکتا ہے ۔ کنگارو پھل، پتیاں ، سبزیاں اور نرم نرم گھاس کھاتا ہے۔ اس کو گیہوں بہت پسند ہے۔
”اچھا چلو، آگے چلیں آگے بڑھے تو سفید شیر دکھائی دیا۔ حامد کے ابا نے بتایا:” یہ سفید شیر ہے ۔ یہ ریوا کے جنگل میں پایا جاتا ہے جو کہ مدھیہ پردیش میں ہے ۔ دیکھو اس کے رہنے کے لیے کتنی لمبی چوڑی اور اونچی باڑھ باندھی گئی ہے۔ اس میں لمبی لمبی گھاس اور پیٹر ہیں ۔ وہ دیکھو تالاب بھی ہے۔ گرمی لگنے پر یہ تالاب میں جا بیٹھتا ہے۔ ایک بڑا سا پنجرہ بھی اس کے لیے بنا ہوا ہے۔ شیر گوشت خور جانور ہے۔ پیٹ بھرنے کے بعد شیر کسی پیڑ کے نیچے آرام سے سو جاتا ہے۔
ابا جان! ذرا ادھر دیکھیے : وہ بندر کی شکل کا کون سا جانور ہے؟‘‘ حامد کی بہن نے پوچھا۔
یہ چمپینزی ہے۔ چمپینزی ایک طرح کا بندر ہوتا ہے۔ یہ ہمارے ملک میں نہیں پایا جاتا ۔ یہ ٹھنڈے ملک سے لایا گیا ہے۔ اسے گرمی بہت ستاتی ہے۔ اسی لیے اس کے پنجرے کو ٹھنڈا رکھا جاتا ہے۔ چمپینزی پھل اور سبزیاں کھاتا ہے۔ گوشت نہیں کھا تھا۔ اسے دودھ اور روٹی بھی دی جاتی ہے۔ چمپینزی کو دن میں کئی بار کھانا دیا جاتا ہے۔
آگے چلے تو دیکھا کہ ایک بندر کٹہرے میں اچھل کود کر رہا ہے ۔ تھوڑی دور پر نقل اتارتے ہوئے بندر ، چھلانگیں مارتے ہوئے ہرن اور چنگھاڑتے ہوئے ہاتھی بھی دکھائی دیے۔ آگے بڑھے تو بارہ سنگھا، چیتل، ریچھ اور زراف بھی نظر آئے ۔ طرح طرح کی رنگ برنگی چڑیاں اور طوطے دیکھ کر حامد اور اس کی بہن بہت خوش ہوئے۔ چڑیا گھر سے واپس ہوتے ہوئے حامد نے اپنے ابا سے پوچھا اگر یہ جانور بیمار ہو جائیں تو کیا کرتے ہیں؟
انھوں نے کہا: ان کے پنجروں اور کٹہروں کو روزانہ صاف کیا جاتا ہے اور سردی گرمی سے بچانے کا انتظام بھی کیا جاتا ہے۔ کھانے میں مناسب غذائیں دی جاتی ہیں اور کبھی کبھی ایسی دوائیں بھی دی جاتی ہیں کہ یہ بیمار نہ پڑیں۔ پھر بھی اگر کوئی جانور بیمار ہو جائے تو اسے جانوروں کے اسپتال لے جاتے ہیں اور اس کا علاج کیا جاتا ہے۔
حامد اور اس کی بہن چھٹی کا پورا لطف اٹھا کر ، خوشی خوشی گھر لوٹ آئے۔

سوچیے اور بتائیے

1.پانڈے کو گھنے بالوں سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟

جواب:پانڈا ٹھنڈے ملک کا جانور ہے پانڈے کے گھنے بال اسے ٹھنڈے سے بچاتے ہیں۔ گرمی کے دنوں میں پانڈے کو گرمی بہت ستاتی ہے اس لیے چڑیا گھر میں پانڈے کے پنجڑے کو ٹھنڈا رکھا جاتا ہے۔

2.کنگارو اپنے پیٹ پر بنی تھیلی سے کیا کام لیتا ہے؟

جواب:کنگارو اپنے پیٹ پر بنی تھیلی میں اپنے بچے کو رکھتا ہے۔اس میں بچے کو بیٹھا کر یہ خوب تیز بھاگ سکتا ہے۔

3.کنگارو کی غذا کیا ہے؟

جواب:کنگارو  پھل، پتیاں اور سبزیاں بڑے شوق سے کھاتا ہیں اور اسے گیہوں بھی بہت پسند ہے۔

4.پیٹ بھرنے کے بعد شیر کیا کرتا ہے؟

جواب:پیٹ بھرنے کے بعد شیر کسی پیڑ کے نیچے سوجاتا ہے۔

5.چمپانزی کو گرمی کیوں ستاتی ہے ؟

جواب:چمپانزی ٹھنڈے ملک کا جانور ہے اس لیے ہندوستان میں اسے گرمی بہت ستاتی ہے۔

6.حامد اور اس کی بہن نے چڑیا گھر میں کون کون سے جانور دیکھے؟

جواب: حامد اور اس کی بہن نے چڑیا گھر میں شیر، ہاتھی، بھالو،ژراف،کنگارو، ہرن، چمپانزی، بندر اور کئی دوسرے جانور دیکھے۔

7.جانوروں کو بیماری سے بچانے کے لیے کیا کیا جاتا ہے؟

جواب:ان کہ پنجڑے اور کٹہروں کو روز صاف کیا جاتا  ہے اور سردی گرمی سے بچانے کا انتظام بھی کیا جاتا ہے۔کھانے میں مناسب غذائیں دی جاتی ہیں اور کبھی کبھی ایسی دوائیں بھی دی جاتی ہے کہ کوئی جانور بیمار نہ پڑے۔  پھر بھی اگر کوئی جانور بیمار پڑ جاتا ہے تواسے جانوروں کے اسپتال لے جایا جاتا ہے اور اس کا علاج کرایا جاتا ہے۔

نیچے لکھے ہوئے لفظوں کے متضاد الفاظ لکھیے

سردی : گرمی
پسند : نا پسند
سفید : سیاہ
خوش :اداس
بیمار : تندرست
مناسب : غیرمناسب


Saturday, 26 September 2020

Taleemi Taash is now ALFAAZ - Aaina Special

 تعلیمی تاش نہیں آئیے ”الفاظ“ کھیلیں
مبشرہ منصور
نوٹ: تاش ہمارے معاشرے میں ایک معیوب کھیل سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی تمام تر افادیت کے باوجود
تعلیمی تاش کو اس کے نام میں تاش جڑنے کی وجہ سے بہت پسندیدہ نہیں سمجھا گیا ۔ آئینہ نے اس امر کو سنجیدگی سے محسوس کرتے ہوئے اس کا نام تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا اور اب الفاظ کے نئے نام کے ساتھ ذہنی ورزش کے اس کھیل کو آن لائن لے کر حاضر ہے۔ 

پیارے بچّو!

پڑھائی کے ساتھ ساتھ کھیل بھی ضروری ہے۔ کھیل دو طرح کے ہوتے ہیں ایک تو وہ جنہیں تم گھر سے باہر اسکول کے میدان اور دوسرے میدانوں میں کھیلتے ہو اور دوسرا وہ جو تم اپنے گھر میں کھیلتےہو۔ گھر میں کھیلا جانے والا کھیل انڈور گیم کہلاتا ہے۔ اور گھر کے باہر کھیلا جانے والا آؤٹ ڈور گیم۔ اب کھیل کی ایک اور قسم آگئی ہے وہ موبائل گیم کہلاتی ہے۔ جس کی جانب بچّوں کا رجحان اب خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں آؤٹ ڈور گیم میں فٹبال، کرکٹ، والی بال، بیڈ منٹن اورباسکیٹ بال وغیرہ کا شمار ہوتا ہے۔ یہ کھیل آپ کے جسم کو چاق و چوبند اور متحرک بناتے ہیں۔ اور ان سے آپ کے جسم کی ورزش بھی ہوجاتی ہے اس لیے ان کھیلوں کو صحت و تندرستی کے لیے اچھا مانا جاتا ہے۔ گھریلو کھیلوں میں کیرم بورڈ، لوڈو،  سانپ سیڑھی، لڑکیوں کے لیے گوٹیوں اور اسٹاپو کا کھیل وغیرہ پسندیدہ کھیل ہیں۔ لیکن جب سے موبائل گیم کی شروعات ہوئی ہے سبھی طرح کے کھیل پیچھے ہوتے جارہے ہیں اور موبائل گیمس نے بچّوں کیا بڑوں کے دل و دماغ پر قبضہ جما لیا ہے۔ یہ کھیل آپ کے لیے کتنا نقصاندہ ہیں اس جانب ابھی آپ کی توجہ نہیں گئی ہے۔ اس سے آپ کے ذہن و دماغ میں تیزی تو آتی ہے لیکن اس کا رجحان کس جانب ہے وہ آپ کے ذہن سے بالاتر ہے۔ اس مضمون میں موبائل گیمس کے نقصانات پر بحث مطلوب نہیں بلکہ یہاں آپ کو ہم ایسے کھیل کے بارے میں بتانے جارہے ہیں جو اب آہستہ آہستہ ناپید ہوتا جارہا ہے اور بہت سے بچّے تو اب اس کا نام بھی نہیں جانتے۔

پیارے بچّو! جانتے ہو جب ہم چھوٹے تھے تو ہماری تربیت کس طرح کی جاتی تھی۔سب سے پہلے تو ہماری بسم اللہ ہوتی اور پھر ہماری مادری زبان سے ہمارے علمی سفر کا آغاز ہوتا۔ خاندان کے بزرگ پیدائش کے چھٹے دن ہی اپنے دست مبارک سے ہماری قلم چھلائی کی رسم کراتے۔ ہمارا نام رکھا جاتا اور اس کی تفصیل ایک کاپی میں درج کی جاتی۔اس کی برکت تا عمر ہمارے ساتھ رہتی۔ قلم سے لکھی جانے والی ابجد اردو میں ہوتی اور یہی ہماری بنیاد ہوتی۔ عمر کے ساتھ ساتھ اپنی مادری زبان سے رغبت دلانے کا یہ سلسلہ ہمارے بڑے ہونے تک جاری رہتا۔ اس طرح ہم اپنی مادری زبان سے ذہنی اور جذباتی طور پر جڑ جاتے تھے۔ اس کے ساتھ بنیادی مذہبی تعلیم ہمارے کیرکٹر کو اور پختہ بنادیتی تھی پھر شروع ہوتا تھا ہمارے عصری تعلیم کا سلسلہ۔  جس میں انگریزی، ہندی، حساب، سائنس سبھی کچھ شامل تھا اور درجات بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ اور دراز ہوتا جاتا تھا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اس زمانے کی نسل آج کم از کم چار سے پانچ زبانوں سے واقف ہے اور کم از کم وہ تین زبانیں تو اچھی طرح لکھنے، بولنے اور پڑھنے پر قادر ہے۔ لیکن افسوس آج تربیت کی یہ ترتیب اپنا وجود کھو چکی ہے۔ آج جب ایک نئے نصاب تعلیم کی بات چل رہی ہے تو یہ لازم ہے کہ ہم اپنے اس نظام تربیت کو واپس لائیں جس میں مادری زبان کا علم بنیادی حیثیت رکھتا تھا اور باقی نصاب اس سے جڑے ہوئے ہوتے تھے۔ مادری زبان ہماری شخصیت کا حصّہ ہوتی تھی۔ ماؤں  کو چاہیے کہ وہ زبان جو ان کے وجود سے جڑی ہے اس طرح بے یار و مددگار نہ ہو جائے انہیں اردو کو اپنے بچوں کی بنیاد کا حصّہ بنانا چاہیے۔

میں بات کررہی تھی تربیت کے طریقے کی۔ ویب سائٹ  کے پہلے صفحہ پر آپ نے آئینہ کا سلوگن دیکھا ہوگا جس میں صاف لکھا ہے ”ہم اردو پڑھاتے ہیں، ہم تہذیب سکھاتے ہیں“ یعنی ہمارا مقصد صرف آپ کو پڑھانا نہیں بلکہ اپنی تہذیب سے روشناس کرانا بھی ہے۔ اردو کی شدبد ہوتے ہی ہمارے اندر الفاظ سے دوستی کا رجحان بڑھتا جاتا ہے روز ہم نئے نئے الفاظ سیکھتے۔ہمارے بڑے اس میں معاون ہوتے۔ گھر میں کوئی نہ کوئی رسالہ پابندی سے آتا۔ اس بات کا خیال رکھا جاتا کہ چھوٹے اور بڑے دونوں عمر کے بچّوں کے لیے رسالہ موجود ہو لہٰذا ایک طرف جہاں ہلال ہوتا وہیں دوسری طرف نور بھی ہوتا۔ اس طرح ہمارے اندر پڑھنے کی لگن بچپن سے ہی پڑجاتی۔ اب پڑھنا ہمارا شوق بن چکا ہوتا۔ اسکول کی پڑھائی اپنی جگہ اور کہانیوں کی کتابیں پڑھنا اپنی جگہ۔ افسوس اب یہ رجحان والدین اور بچّوں دونوں میں کم ہوتا جا رہا ہے۔ تب پڑھنے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اس سے کیا مالی منفعت ہوگی افسوس اب بچّہ کنڈر گارڈن میں ہی ہوتا ہے کہ ہماری نگاہ اس بچّے کی تعلیم میں مستقبل کی مالی منفعت پر ہوتی ہے۔ اسی رجحان نے ہمیں تہذیبی اور علمی طور پر کھو کھلا کردیا ہے۔

میں پھرموضوع سے بھٹک گئی۔ میں آپ کو بتانے جارہی تھا اس کھیل کے بارے میں جو ہماری تربیت کا حصّہ تھا ۔ جب ہم نے حروف کو پہچان لیا تو ہمارے لیے الفاظ کو پہچاننے کی قواعد شروع ہوئی۔ بڑے بھائیوں اور والدین نے ہمارے لیے کہانیوں کی کتابیں لانا شروع کیں۔ وہ جب چھٹیوں میں گھر آتے تو ہم بہن بھائیوں کے لیے تحفے میں کہانیوں کی کتابیں لاتے۔ گھر میں نسیم بکڈپو اور مکتبہ الحسنات کی سبق آموز اور دلچسپ کہانیوں کا ایک ذخیرہ اکٹھا ہو چکا تھا۔ ایک ایک کتاب ہم کئی کئی بار پڑھتے۔ اب الفاظ ہمارے ذہن کا حصّہ بنتے جارہے تھے۔ اب اس میں مزید تنوع لانے اور ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ کے لیے ایک ایسے گھریلو کھیل سے روشناس کرایا گیا جو واقعی نہ صرف دلچسپ تھا بلکہ اس نے ہمارے ذہن و دماغ کو جلا بخشی۔ 

اس کھیل کا نام ہے ”تعلیمی تاش“ ۔یہ کھیل تاش کے پتّوں کی طرح کے کارڈس سے کھیلا جاتا ہے  ۔ اس میں الگ الگ پتّوں پر حروف تہّجی لکھے گئے ہیں۔ اس کھیل کو چار سے پانچ یا چھ بچّے ایک ساتھ کھیلتے ہیں۔ حروف پر ابجد کے قاعدے کے حساب سے نمبر لکھے ہوتے ہیں۔ بچّے ایک دائرے کی شکل میں بیٹھ جاتے ہیں۔ اور ان میں برابر برابر پتّے تقسیم کردیے جاتے ہیں ۔ہر کھلاڑی کے پاس پانچ یا چھ پتّے ہوتے ہیں۔ اتنا ہی پتّہ کھلاڑیوں کے سامنے ہوتا ہے۔ ہر کھلاڑی دوسروں سے اپنے پتّے چھپاکر رکھتا ہے۔ اور پھر ایک کھلاڑی نیچے پڑے پتوں سے اپنے ایک  پتّے کو ملاکر الفاظ بنانے کا سلسلہ شروع کرتا ہے مثلاً کسی کھلاڑی کے سامنے پڑے 6 پتّوں میں ل اور م ہیں اور اس کھلاڑی کے پاس ظ ہے تو وہ اپنی باری آنے پر ظلم بنا سکتا ہے۔ اور پھر بنائے گئے لفظ کے پتّوں کو اپنے پاس ایک طرف رکھ لیتا ہے۔ اور  اس کے بعد وہیں پر پلٹ کر رکھے ہوئے تاش کے پتّوں میں سے ایک خود لیتا ہے اور دو پتے جو وہاں سامنے رکھے پتّوں میں کم ہوئے ان میں ملادیتا ہے۔ اب اس کے داہنی طرف بیٹھے کھلاڑی کی باری ہوتی ہے اور وہ  اپنے کسی ایک پتّے سے وہاں سامنے رکھے پتّوں سے ملاکر کوئی دوسرا لفظ بناتا ہے۔ اگر وہ لفظ نہیں بنا پاتا تو اپنے کسی ایک پتے کو سامنے پڑے پتوں کے ساتھ ڈال دیتا ہے اور پھر اس کے داہنے بیٹھے کھلاڑی کی باری ہوتی ہے اس طرح یہ کھیل دائرے کی شکل میں گھومتا رہتا ہے یہاں تک کے سارے پتّے ختم ہو جاتے ہیں ۔ اب باری  آتی ہے بنائے گئے الفاظ کے پتّوں کے نمبروں کو جوڑنے کی۔ اس کا قاعدہ یہ ہے کہ جن حروف کا نمبر 100 اور اس سے زیادہ ہوتا ہے صرف انہیں اعداد کو جوڑا جاتا ہے اس لیے 100 اور اس سے اوپر نمبر والے حروف قیمتی سمجھے جاتے ہیں۔ اس طرح جس کھلاڑی کے کل نمبر سب سے زیادہ ہوتے ہیں وہی فاتح قرار دیا جاتا ہے۔ اس کھیل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ کھیل ہی کھیل میں آپ کا ذخیرۂ الفاظ بڑھتا جاتا ہے ساتھ ہی  حساب بھی مضبوط ہوتا ہے۔ انگریزی میں یہ کھیل اسکریبل کے نام سے جانا جاتا ہے جو اس سے بہت حد تک ملتا جلتا ہے۔ 

تعلیمی تاش کے حروف کے نمبرات جدول ابجد کے حساب سے ہوتے ہیں

ابجد

 ا  ب  ج چ  د
1 2 3 4
ہوز
 ہ و زژ
5 6 7
حطی
 ح  ط ی
8 9 10
کلمن
ک ل م ن
20 30 40 50
سعفص
 س  ع  ف  ص
 60  70  80  90
قرشت
 ق  ر ڑ ش ت
 100  200  300  400
ثخذ
 ث  خ ذ
 500  600 700
ضظغ
ض ظ غ
800 900 1000


بچّوں سے گزارش!

پیارے بچّوں! آپ اپنے علم کا دائرہ سمٹنے نہ دیں۔خوب پڑھیں اور مفید گیم کھیلیں۔ چاہے وہ تعلیمی تاش ہو یا اسکریبل۔ جان بوجھ کر اپنی مادری زبان کو کمتر نہ سمجھیں۔ احساس کمتری سے باہر آئیں۔ یہ زبان کتنی امیر ہے اس کا آپ کو اندازہ نہیں۔ اپنے اندر اس نے کیسے کیسے خزانے چھپا رکھے ہیں اس کا آپ کو ابھی علم نہیں۔ اگر آپ کہانیاں پڑھنے پر آئیں گے تو عربیَن نائٹس اپنی اصل شکل میں عربی و  اردو میں ہی ملے گی۔آپ خوب انگریزی پڑھیں، ہندی پڑھیں، حساب پڑھیں، سائنس پڑھیں لیکن ساتھ ساتھ اردو بھی پڑھیں جو کہ آپ کی ماں کی زبان ہے اور جن سے آپ یقیناً محبت کرتے ہیں۔

اوپر ہم نے حروف کے نمبرات کا قاعدہ درج کیا ہے تاکہ آپ اگر گھر میں تعلیمی تاش بنانا چاہیں تو بنالیں اور اسے اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ کھیلیں۔ اب فیملی چھوٹی ہونے لگی ہے اس لیے آپ دو بھائی بہن بھی اس کھیل کو آسانی سے کھیل سکتے ہیں۔

اور اب والدین سے ایک گزارش!

ہو سکتا ہے اس کھیل کے غیر مقبول ہونے میں اس کے نام میں تاش جیسے لفظ کا شامل ہونا ہو۔ تاش کو ایک ناپسندیدہ اور معیوب کھیل سمجھا جاتا ہے۔ بہتر ہوتا کہ اس وجہ سے اس کھیل کو ترک کرنے کے بجائے اس کا ایک اچھا سا نام تلاش کرلیا جاتا اور ایک بار پھر اس کھیل کی تجدید کی جاتی۔ کاش کوئی اردو کا عاشق اس کھیل کا ایپ بنا دیتا اور بےکار گیمس کی جگہ ایک مفید گیم کا اضافہ ہوجاتا۔  اگر تعلیمی تاش دستیاب ہو تو اسے اپنے بچّوں کو ضرور لاکر دیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچّوں کی تربیت اسی طرح کریں جیسے اُن کے والدین نے اُن  کی کی ہے، یہی اُن کا اپنے والدین کو بہترین خراج عقیدت ہوگا۔

اردو کو اپنی گھریلو تہذیب کا حصّہ بنائیے اور ادب کے اس ذخیرے کو دوام عطا کیجیے۔

اردو کو مالی منفعت کے لیے نہیں بلکہ اپنے تہذیبی خزانے کی حفاظت کے لیے زندہ رکھیے۔

بھلے اردو کو اپنی عصری تعلیم کا حصّہ مت بنائیے لیکن خدارا اس نعمت کو اپنے گھر سے جانے بھی مت دیجیے۔ 

زبان ایک نعمت ہے اور آپ ایک بہترین زبان کے قدرتی مالک ہیں۔


Thursday, 24 September 2020

Ghazaliyaat e Wali For MA Jamia Millia Islamia

 غزل 
ولی محمد ولی
تجھ لب کی صفت لعل بدخشاں سوں کہوں گا 
جادو ہیں ترے نین غزالاں سوں کہوں گا 
دی بادشہی حق نے تجھے حسن نگر کی 
یو کشور ایراں میں سلیماں سوں کہوں گا 
تعریف ترے قد کی الف وار سری جن 
جا سرو گلستاں کوں خوش الحاں سوں کہوں گا 
مجھ پر نہ کرو ظلم تم اے لیلی خوباں 
مجنوں ہوں ترے غم کوں بیاباں سوں کہوں گا 
دیکھا ہوں تجھے خواب میں اے مایۂ خوبی 
اس خواب کو جا یوسف کنعاں سوں کہوں گا 
جلتا ہوں شب و روز ترے غم میں اے ساجن 
یہ سوز ترا مشعل سوزاں سوں کہوں گا 
یک نقطہ ترے صفحۂ رخ پر نہیں بے جا 
اس مکھ کو ترے صفحۂ قرآں سوں کہوں گا 
قربان پری مکھ پہ ہوئی چوب سی جل کر 
یہ بات عجائب مہ تاباں سوں کہوں گا 
بے صبر نہ ہو اے ولیؔ اس درد سوں ہرگز 
جلتا ہوں ترے درد میں درماں سوں کہوں گا
 غزل 
ولی محمد ولی
ہوا ہے سیر کا مشتاق بے تابی سوں من میرا
چمن میں آج آیا ہے مگر گل پیرہن میرا
میرے دل کی تجلی کیوں رہے پوشیدہ مجلس میں
ضعیفی سوں ہوا ہے پردہ فانوس تن میرا
نہیں ہے شوق مجھ کو باغ کی گل گشت کا ہرگز
ہوا ہے جلوہ گرد اغا ں سوں سینے کا چمن میرا 
موا ہوں تجھ جدائی کے دکھوں اے نورعین دل
بر نگ مردمک انکھیاں کا پردہ ہے کفن میرا
 لگے پھیکی نظر میں اے ولی دکان حلوائی
اگر ہو جلوہ گر  بازار میں شیریں بچن میرا
غزل
ولی محمد ولی
یاد کرنا ہر گھڑی اس یار کا 
ہے وظیفہ مجھ دل بیمار کا 
آرزوئے چشمۂ کوثر نہیں 
تشنہ لب ہوں شربت دیدار کا 
عاقبت کیا ہووے گا معلوم نئیں 
دل ہوا ہے مبتلا دل دار کا 
کیا کہے تعریف دل ہے بے نظیر 
حرف حرف اس مخزن اسرار کا 
گر ہوا ہے طالب آزادگی 
بند مت ہو سبحہ و زنار کا 
مسند گل منزل شبنم ہوئی 
دیکھ رتبہ دیدۂ بیدار کا 
اے ولیؔ ہونا سریجن پر نثار 
مدعا ہے چشم گوہر بار کا

Saturday, 19 September 2020

AkbarAllahabadi Tanz o Islah Ka shayr

 اکبر الہ آبادی طنز و اصلاح کا شاعر

اکبر الہ آبادی کی ولادت غدر سے 11 سال قبل 12 نومبر 1846ء کو قصبہ بارہ جو الہ آباد سے 12 میل دور ہے میں ہوئی۔ابتدائی تعلیم والد ماجد سید تفضل حسین رضوی ابو العلائی جو کہ خود ایک مایہ ناز عالم و فاضل تھے اُن سے ہوئی۔ 10 ہی برس کی عمر میں فارسی کی اعلیٰ  کتابیں ختم کرلیں۔1866ء میں وکالت کا امتحان پاس کیا۔ اور 1880ء میں منصف کے عہدے پر فائز ہوئے۔ شاعری کا شوق شروع ہی سے رہا۔ اکبر کے کلام میں یہ خوبی پائی جاتی ہے کہ انہوں نے نہایت معمولی اور عام فہم لفظوں کا انتخاب کیا ہے۔ لیکن انہیں معمولی اور عام فہم الفاظ کو اس چابکدستی سے استعمال کیا کہ پڑھ کر ایک عجیب لطف آتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اکبر نے بازاری اور مبتذل الفاظ کو اس بلندی پر پہنچایا کہ وہ بھی ادب کا ایک جز بن گئے۔ اکبر نے انگریزی الفاظ کو بھی اس انداز سے اپنے اشعار میں ضم کیا کہ اسے بھی اردو کا ایک حصّہ بنا دیا۔
 اکبر کا قلم صنعت لفظی میں ہے کامل
پروفیسر سید حسن لکھتے ہیں:
”زبان کے معاملے میں اکبر آزاد خیال تھے۔ اُن کی رائے تھی کہ حالات کے تقاضوں اور وقت کی ضرورتوں کے لحاظ سے اس میں وسعت پیدا کرنی چاہیے اور جدید خیالات اور نئے مضامین کو ادا کرنے کے لیے جو اسلوب مناسب ہو اسے ضرور کرنا چاہیے۔“
 یہاں اکبر کا یہ شعر بھی لکھ دینا مناسب ہےجس میں اکبر نے اس انداز میں اعتراف کیا ہے
اشعار غیر سے تو مجھے کم سند ملی 
’من گفتم و محاورۂشد‘سے مدد ملی
اکبر چونکہ ایک دیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے،ایک علمی اور مذہبی خاندان کے چشم و چراغ تھے اس لیے کلام میں دینداری، تصوف، محبت الٰہی اور خوف ِخدا کا عنصربہت پایا جاتا ہے۔اس موضوع پر اکبر کےچند اشعار یہ ہیں۔
تصوف ہی زباں سے دل میں حق کا نام لایا ہے
یہی مسلک ہے جس میں فلسفہ اسلام لایا ہے
جدائی نے مَیں بنایا مجھکوجدا نہ ہوتا تو میں نہ ہوتا
خدا کی ہستی ہے مجھ سے ثابت خدا نہ ہوتا تو کچھ نہ ہوتا
سب سے بدتر بتوں سے ہے امید
سب سے بہتر خدا سے ڈرنا ہے
ذہن میں جو گھر گیالا انتہا کیوں کر ہوا
جو سمجھ میں آگیا پھر وہ خدا کیوں کر ہوا
جب ہم حسن و عشق کے میدان میں آتے ہیں تو اس میں بھی اکبر غالب و حسرت سے کسی طرح پیچھے نظر نہیں آتے۔حسرت جیسی سادگی اور بے ساختگی آپ کے اشعار کی زینت معلوم ہوتی ہے۔وہی تغزل اور وہی رنگ جو کہ غالب کا ہے  اکبر کے اشعار میں بھی نظر آتا ہے۔
حیا سے سر جھکا لینا ادا سے مسکرا دینا
حسینوں کو بھی کتنا سہل ہے بجلی گرا دینا
دشمن راحت جوانی میں طبیعت ہو گئی
جس حسیں سے مل گئی آنکھیں محبت ہو گئی
غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارہ نہیں ہوتا##### آنکھ ان سے جو ملتی ہے تو کیا کیا نہیں ہوتا
تشبیہ ترے چہرے کی کیا دوں گل تر سے#####ہوتا ہے شگفتہ مگر اتنا نہیں ہوتا
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام#####وہ قتل بھی کرتے ہیں  تو چرچا نہیں ہوتا
اکبر کی عشقیہ شاعری کی مدت زیادہ لمبی نہیں  ہو پاتی  کہ رنج و غم کا طوفان بعض عزیزوں کی اچانک موت  کی صورت میں اکبر کو گھیر لیتا ہے اور انہیں حسرت و یاس کا ایک مجسمہ بنا دیتا ہے۔ اکبر کی حساس طبیعت اپنے عزیزوں کی موت سے متاثر ہوکر اُن کی شاعری پر اثر انداز ہوجاتی ہے۔اور ان کے دل کا درد اس طرح ظاہر ہوتا ہے
اس گلستاں میں بہت کلیاں  مجھے تڑپا گئیں
کیسوں لگی تھی شاخ میں کیسوں بے کھلے مرجھا گئیں
اس قدر درد ہو تو ضبط کہاں
دل کو آخر کراہنا ہی پڑا
تدبیر کی کوئی حد نہ رہی بالآخر کہنا ہی پڑا
اللہ کی مرضی سب کچھ ہے بندے کی تمنا کچھ بھی نہیں
تماشائے جہاں اے بے خبر تجھکو مبارک ہوں
یہاں دل داغ حسرت سے بھرا ہے دل لگی کیسی
جہاں گھر تھا وہاں قبریں جہاں دل تھا وہاں شعلے
یہ ماتم خیز منظر سامنے ہے دل لگی کیسی
اکبر نے طنز و مزاح سے قوم کی اصلاح کو اپنی شاعری کا مقصد بنایا۔اکبر نے قوم کو اس بھنور سے نکالنے کا بیڑہ اٹھایا جس میں کہ ہندوستانی قوم نہایت  تیزی سے پھنستی جارہی تھی ۔ اکبر قدیم تہذیب کے پیرو اور مشرقیت کے دلدادہ تھے اس لیے ہم آج بھی اکبر کے بعض اشعار پڑھتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اکبر نے معاشرے کے صرف منفی پہلو کو اجاگر کیا ہے۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اکبر نے تصویر کے ایک ہی رخ پر نظر رکھی ہے لیکن ہم اس امر سے انکار نہیں کرسکتے کہ اکبر نے جس رخ کو اجاگر کیا و مکمل طور سے درست نہیں تھا اور اُن کی تنقید مستقبل کے لیے مناسب نہیں تھی۔ اکبر  نےجب سائنس کی مذمت کی  تو وہ یہاں تک سوال کر بیٹھے
کبھی سائنس کے ان دیوتاؤ ں سے ذرا پوچھو 
یہ مشت خاک کیوں کر جان کے سانچے میں ڈھلتی ہے
جو ایر شپ پر چڑھے تو ایسے کہ بس ہمیں ہیں خدا نہیں ہے
جو ایر شپ سے گرے تو ایسے کہ لاش کا بھی پتہ نہیں ہے
آج کی نئی نسل جب اکبر کے ان اشعار کو پڑھے گی تو شاید انہیں دقیانوسی قرار دے گی اور ان کے اشعار کو انسان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھے گی لیکن ایسا نہیں تھا اکبر ان اشعار سے ان انسانی قدروں کو باقی رکھنے کی وکالت کر رہے ہوتے ہیں جو سائنسی ترقی کی آڑ میں دم توڑ رہی تھیں۔اکبر کا سائنسی ایجات پر طنز دوڑ ماضی کی طرف اے گردش ایام تو...کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ وہ ترقی کی خوش گمانی میں انسانی قدروں کو درکنار کردینے کے مخالف تھے۔
رشید احمد صدیقی نے لکھا ہے:
”اکبر نے اپنے عہد میں نہ مولویوں کو منہ لگایا  نہ ترقی پسندوں سے مرعوب ہوئے، نہ انگریز حاکموں کی پروا کی، نہ لیڈروں کو خاطر میں لائے۔ اس عہد میں شاید ایسا شخص نہ تھاجس نے انگریزی حکومت کا ملازم رہ کر حکومت کی ایسی خبر لی ہو۔“
لیکن یہ بات پوری طرح درست نہیں۔ اکبر نے کہیں براہ راست حکومت کی مخالفت نہیں کی ہے بلکہ اس کے ذریعہ تہذیب و تمدن پر پڑنے والے برے اثرات کو ابھارا ہے۔ پروفیسر سید حسن لکھتے ہیں:
”اگرچہ انہوں نے مغربی تہذیب اور انگریزیت کے خلاف بہت کچھ لکھا ہے لیکن حکومت کے خلاف برملا لکھنے سے وہ ہمیشہ احتیاط برتتے۔ انہیں اپنے ’مدخولۂ گورنمنٹ ‘ہو نے کا برابر احساس رہا۔ وہ اس بات پر پریشن ہوجاتے اگر اُن کا کوئی شعر یا مضمون حکومت کی نظر میں مشتبہ سمجھا جاتا۔“
اس اتباس سے یہ باتواضح ہوجاتی ہے کہ اکبر فطرتاً نرم مزاج  تھے۔اکبر نے قوم کی اصلاح کا کام تو بخوبی کیا لیکن حسرت و جوہر کی طرح کھل کر مخالفت کبھی نہیں کی۔انہوں نے انگریزی حکومت کے خلاف کبھی بھی بیباکانہ رویہ  نہیں اپنایا بلکہ بعض اشعار میں تو سلطنت برطانیہ کی حمایت اور تعریف ہی کی ہے۔
مانا کہ رشی ہو تم اور اچھا دل ہے
فطرت کی طرف سے مغربی عاقل ہے
بھائی گاندھی سے کوئی کہدے کہ جناب
انگریز سے جیتنا بہی مشکل ہے
اکبر نے قومی تحریکوں ، جنگ آزادی اور سیلف گورنمنٹ کے مطالبہ کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا اور اس پر اس طرح طنز کے تیر برسائے
جے کی بھی صدا آئے گی چرخے بھی چلیں گے
لیکن یہ سمجھ لیجیے صاحب نہ ٹلیں گے
یہ پو لیٹیکل حرص یہ ہنگامہ ہے بے سود
اس سے کوئی چیز اپنی جگہ سے نہ ہلے گی
بھائی بھائی میں ہاتھا پائی 
سلف گورنمنٹ آگے آئی
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اکبر نے انگریزوں کی مخالفت کو بالکل غلط سمجھا۔ محمد طفیل نقوش کے طنز و مزاح نمبر میں لکھتے ہیں:
”تعلیم اکبری کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اصل الزام خود ہم پر ہے، ہم اگر حرص و ہوس کے بندے نہ ہوتے تو صیاد جال ڈالنے کی تکلیف ہی کیوں گوارا کرتا۔ہاون اگر نہ ہو تو دستہ کس چیز پر“
اس مسئلہ کا حل اکبر کے اس شعر سے صاف ہوجاتا ہے
زباں اکبر کی اس طرز سخن پر ناز کرتی ہے
بھجن کی دھن میں تردید بت طناز کرتی ہے

 

خوش خبری